• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب الحدیث اور تزکیہ نفس

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
سلف صالحین میں فقہی اختلاف کے سبب سے اہل الحدیث اور اہل الرائے کے جو دو مکاتب فکر وجود میں آئے، ان میں سے پہلے کا مرکز مدینہ المنورۃ تھا اور اس کی ریاست امام مالک رحمہ اللہ کے حصے میں آئی جبکہ دوسرے مکتبہ فکر کا مرکز کوفہ تھا اور اس کی مسند افتاء پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ براجمان ہوئے۔

امام مالک رحمہ اللہ جو فقہائے محدثین کے پہلے امام بھی ہیں، سے یہ علم وفضل یعنی حدیث وفقہ، تقوی وورع کی امامت امام شافعی، ان سے امام احمد بن حنبل، اور ان سے امام بخاری رحمہم اللہ تک منتقل ہوئی۔ دوسری طرف اہل الاثر ہی میں امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ کے نام ایک دوسرا رجحان سامنے آیا جو اصحاب الحدیث کہلائے یعنی جن کا اوڑھنا بچھونا علم حدیث تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور جماعت ائمہ جرح وتعدیل کے نام سے وجود میں آئی جنہوں نے تحقیق حدیث میں اہم خدمات سرانجام دیں۔ اس طبقے کی امامت یحی بن سعید رحمہ اللہ تک پہنچی اور ان کے بعد ان کے تلامذہ میں یحی بن معین اور علی بن مدینی رحمہما اللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ فقہائے محدثین، اصحاب الحدیث اور ائمہ جرح وتعدیل، یہ تینوں دھارے وہ تھے جو اہل الرائے کے بالمقابل اہل الاثر یا اہل الحدیث کہلاتے تھے۔ بعض شخصیات ایسی جامع تھیں کہ جو فقہائے محدثین میں سے بھی تھے، اصحاب الحدیث میں سے بھی اور ائمہ جرح وتعدیل میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا جبکہ بعض علماء ان تین دھاروں میں سے کسی ایک دھارے میں اپنی خدمات سر انجام دےرہے تھے۔ میں حدیث کے ساتھ شغل کی وجہ سے ان تینوں دھاروں کے علماء کو یہاں آسانی کے لیے اصحاب الحدیث کے نام سے پکار رہا ہوں۔

ہمارے یہ اصحاب الحدیث نہ صرف علم کے امام تھے بلکہ تقوی اور ورع میں بھی امام تھے۔ میرا اس وقت مقصود اپنے ان اصحاب کی زندگی کے اس گوشے کو اجاگر کرنا ہے کہ جسے لوگ بھلا چکے ہیں۔ سیر اعلام النبلاء کا تحقیق حدیث کے پہلو سے آج مطالعہ کرنے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن شاید ہی کسی کو یہ خیال آتا ہو کہ میں اپنے ان اصحاب کے ان اقوال کو جمع کروں یا نقل کروں کہ جن سے ان کی روحانی زندگیوں کے احوال وکیفیات پر روشنی پڑتی ہو۔

آج میں اکثر اہل حدیث طلباء کو دیکھتا ہوں کہ وہ جرح وتعدیل کے ائمہ کے اقوال نقل کر کے دیگر مسالک کے لوگوں کو بری طرح رگید رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے اصحاب الحدیث بھی نقد کرتے تھے لیکن ان کے نقد کرنے کا اسلوب یا جذبہ وہ نہیں تھا جو آج ہمارے بعض اپنے آپ کو اہل حدیث کہلوانے والے حضرات کا بدقسمتی سے بن چکا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ میں ائمہ جرح وتعدیل کی نقد پڑھوں تو اس نقد سے بھی روحانیت حاصل ہو۔ اور اگر میں ان کی نقد وجرح میں ہفتوں بھی غور کروں تو شاید اس اعتبار سے کم پڑ جائیں کہ وہ اپنی روحانی وباطنی کیفیات کی کن وسعتوں اور ایمانی احوال کی کیسی گہرائیوں کے ساتھ بات کرتے تھے۔

اصحاب الحدیث کی اپنے مخالفین پر نقد پڑھتے ہوئے انداز ہوتا ہے کہ وہ ایک نقاد کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے بھی احسان کی کیفیت سے خالی نہ ہوتے تھے۔ جیسے ان کی نماز اس کیفیت کے ساتھ ہوتی تھی کہ وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں، ویسے ہی ان کی نقد کی بھی یہی حالت ہوتی تھی کہ جیسے اپنے رب کے دربار میں کھڑے ہو کر اپنے مخالف کا رد کر رہے ہوں۔ ان کی نقد ایسی ہے کہ اس سے اپنے فریق مخالف کی خیر خواہی کا جذبہ ابل ابل کر سامنے آتا ہے۔ وہ ایسے مجاہد تھے کہ جو اپنے دشمن پر ایک ہاتھ سے تلوار اٹھاتے تھے اور دوسرے سے اس کے حق میں دعا کرتے تھے۔ اپنے مخالفین کا شدید رد بھی ان کے لیے ان کی ہدایت کی خواہش پر کبھی غالب نہیں آتا تھا۔ وہ اس سوچ کے ساتھ کسی پر جرح کرتے تھے کہ اللہ کو اپنی مخلوق کے جہنم میں جانے سے زیادہ جنت میں جانا محبوب ہے۔

آج کل کی اکثر وبیشتر نقد کیا ہے؟ نری ظلمت ہی ظلمت ہے۔ آج بد قسمتی سے اپنے آپ کو اہل الحدیث کی طرف منسوب کرنے والی ایک ایسی جماعت وجود میں آ چکی ہے، جو اپنے باطن کی اصلاح نہ کر پائے لیکن دوسروں کے ظاہر کی اصلاح پر تلے ہیں۔ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مناظرے کریں گے لیکن بڑی باتوں کو انصاف، رحم، نرمی، شفقت، الفت، محبت، مودت، مواخات، تواضع، انکسار، صدق اور اخلاص وغیرہ کو چھوڑ دیں گے۔ اب تو نقد یا تو اپنے غصے کی تسکین کے لیے ہے یا تکبر کے حصول کے لیے۔ دین کے نام پر یہ نقد خدا کے قریب کیا کرے گی، یہ تو خدا سے اور دور کر دے گی۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کہا ہے:
مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ
اللہ تعالی اہل ایمان کو ان کی اسی حالت پر چھوڑنے والا نہیں ہے کہ جس پر وہ ہیں یہاں تک کہ خبیث کو طیب سے جدا کر دے۔
یہ خبیث اور طیب دونوں ایمان کا دعوی کرنے والوں میں موجود تھے اور ہر دور میں یہ دونوں طبقات اہل ایمان کے نام سے موجود رہیں گے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، سنن الترمذی، وحسنہ الالبانی
میری امت پر ہر وہ حال آئے گا جو یہود پر آیا جیسا کہ ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا تو میری امت میں بھی ایسا بدبخت پیدا ہو گا۔
انجیل کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی جو یہود پر تنقید تھی وہ ان کی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے ہے ورنہ تو وہ قانون اور ظاہر شریعت پر خوب عمل کرنے والے تھے۔ اور یہی اخلاقی گراوٹ اس امت میں بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہو گی جس کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کی ہے اورجسے ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

راقم نے اصحاب الحدیث کے تقوی، ورع، خشوع وخضوع، اصلاح باطن اور تزکیہ نفس وغیرہ سے متعلق اقوال کو جمع کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جنہیں وقتا فوقتا یہاں فورم پر شئیر کرتا رہوں گا تا کہ آج کل میں اصحاب الحدیث کے منہج پر صحیح طور گامزن علمائے اہل حدیث اور اس ردی طبقے میں فرق ہو سکے جو اصحاب الحدیث کا نام اصلاح کی بجائے اپنے نفس اور معاشرے دونوں کے بگاڑ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
 
Last edited:
Top