- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
اصلاح کے موقع پر صدقہ و خیرات کی پسندیدگی1
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
((أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی صَدَقَۃٍ یُحِبُّ اللّٰہُ مَوْضِعَھَا؟ تُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ! فَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ یُحِبُّ اللّٰہُ مَوْضِعَھَا))2
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایک ایسے صدقہ و خیرات کے بارے میں نہ بتلاؤں کہ جس کے مقام کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں؟ اور وہ یہ ہے کہ: تم لوگوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا صدقہ (اور نیکی) ہے کہ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ پسند فرماتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے درمیان صلح کروانا:
اصلاح کا معنی ہوتا ہے: کسی چیز میں واقع خرابی اور خلل کو ٹھیک کردینا۔ لغت کی کتاب ’’المصباح‘‘ میں الصلح بمعنی التوفیق ہے۔ جب کہیں گے: أَصْلَحْتُ بَیْنَ الْقَوْمِ… تو اس کا معنی ہوگا: وَفَّقْتُ بَیْنَہُمْ… یعنی میں نے لوگوں کے درمیان تصفیہ کروادیا، مصالحت کروادی۔
امام راغب کہتے ہیں: اصلاح ،فساد کا برعکس ہوتی ہے اور یہ دنوں اکثر استعمال میں افعال کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔ چنانچہ صلح لوگوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت کے ازالہ کے لیے مختص ہے۔ بلاشبہ اللہ عزوجل بھی اہل ایمان کے درمیان اصلاح و صلح کرتے اور کرواتے ہیں اور وہ اللہ کا حکم مان کر صلح کرلیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل صلح کو پسند فرماتے ہیں، اسی لیے قیامت والے دن وہ اہل ایمان کے درمیان صلح کرا دے گا۔ یعنی ان کے درمیان تصفیہ کروادے گا۔ اور وہ اس طرح کہ: مظلوم کو ظالم کے متعلق معاف کردینے کا الہام کرے گا اور اس کے بدلے وہ اس کو نہایت اچھی جزاء اور اعلیٰ انعام دے گا۔
مسلمانوں کے مابین اصلاح، خون، اموال اور عزتوں میں ایک جیسی عام ہے۔ اسی طرح ہر اُس چیز کے بارے میں اصلاح و صلح ہوسکتی ہے کہ جس پر ایک دوسرے کے خلاف لوگ دعویٰ رکھتے ہوں اور اس چیز میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو۔ (جیسے کہ دین حنیف کے فروعی مسائل ہیں) اسی طرح ہر اس گفتگو پر بھی مسلمانوں کے مابین صلح کروائی جاسکتی ہے کہ جس سے اللہ کی ذاتِ اقدس مقصود ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- تفصیل کے لیے: (۱) امام قرطبی رحمہ اللہ کی ’’الجامع للاحکام القرآن جلد نمبر۵، ص ۲۴۶، ص۲۴۷، (۲) فتح الباری جلد ۵، ص۲۹۸، (۳) فتح القدیر للمناوی جلد ۱، ص ۱۲۷۔
2- دیکھئے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني حدیث : ۲۶۴۴۔
Last edited: