• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلاح کے موقع پر صدقہ و خیرات کی پسندیدگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اصلاح کے موقع پر صدقہ و خیرات کی پسندیدگی1

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
((أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی صَدَقَۃٍ یُحِبُّ اللّٰہُ مَوْضِعَھَا؟ تُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ! فَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ یُحِبُّ اللّٰہُ مَوْضِعَھَا))2
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایک ایسے صدقہ و خیرات کے بارے میں نہ بتلاؤں کہ جس کے مقام کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں؟ اور وہ یہ ہے کہ: تم لوگوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا صدقہ (اور نیکی) ہے کہ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ پسند فرماتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے درمیان صلح کروانا:
اصلاح کا معنی ہوتا ہے: کسی چیز میں واقع خرابی اور خلل کو ٹھیک کردینا۔ لغت کی کتاب ’’المصباح‘‘ میں الصلح بمعنی التوفیق ہے۔ جب کہیں گے: أَصْلَحْتُ بَیْنَ الْقَوْمِ… تو اس کا معنی ہوگا: وَفَّقْتُ بَیْنَہُمْ… یعنی میں نے لوگوں کے درمیان تصفیہ کروادیا، مصالحت کروادی۔
امام راغب کہتے ہیں: اصلاح ،فساد کا برعکس ہوتی ہے اور یہ دنوں اکثر استعمال میں افعال کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔ چنانچہ صلح لوگوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت کے ازالہ کے لیے مختص ہے۔ بلاشبہ اللہ عزوجل بھی اہل ایمان کے درمیان اصلاح و صلح کرتے اور کرواتے ہیں اور وہ اللہ کا حکم مان کر صلح کرلیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل صلح کو پسند فرماتے ہیں، اسی لیے قیامت والے دن وہ اہل ایمان کے درمیان صلح کرا دے گا۔ یعنی ان کے درمیان تصفیہ کروادے گا۔ اور وہ اس طرح کہ: مظلوم کو ظالم کے متعلق معاف کردینے کا الہام کرے گا اور اس کے بدلے وہ اس کو نہایت اچھی جزاء اور اعلیٰ انعام دے گا۔
مسلمانوں کے مابین اصلاح، خون، اموال اور عزتوں میں ایک جیسی عام ہے۔ اسی طرح ہر اُس چیز کے بارے میں اصلاح و صلح ہوسکتی ہے کہ جس پر ایک دوسرے کے خلاف لوگ دعویٰ رکھتے ہوں اور اس چیز میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو۔ (جیسے کہ دین حنیف کے فروعی مسائل ہیں) اسی طرح ہر اس گفتگو پر بھی مسلمانوں کے مابین صلح کروائی جاسکتی ہے کہ جس سے اللہ کی ذاتِ اقدس مقصود ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- تفصیل کے لیے: (۱) امام قرطبی رحمہ اللہ کی ’’الجامع للاحکام القرآن جلد نمبر۵، ص ۲۴۶، ص۲۴۷، (۲) فتح الباری جلد ۵، ص۲۹۸، (۳) فتح القدیر للمناوی جلد ۱، ص ۱۲۷۔
2- دیکھئے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني حدیث : ۲۶۴۴۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صلح کی بہت ساری قسمیں ہیں۔
۱… کسی دینی مصلحت کے تحت مسلمان کی کافر کے ساتھ صلح۔
۲…میاں بیوی کے درمیان صلح۔
۳…سرکش گروہ اور عدل و انصاف پر قائم جماعت کے درمیان صلح۔
۴…باہم ناراض دو افراد کے درمیان صلح۔
۵…زخموں پر صلح کرنا جیسے کہ اپنا حق لے کر زخموں کے بارے میں مدمقابل کو معاف کردینا۔
۶…جھگڑا ختم کرنے کے لیے صلح کرلینا۔
اس ضمن میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰہُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًاo} [النساء:۱۱۴]
’’ان کی بہت سی سر گوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کے جو کسی صدقے یا نیک کام یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے اور جو بھی یہ کام اللہ کی رضا کی طلب کے لیے کرے گا تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔‘‘
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
((أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَۃِ الصِیَّامِ وَالصَّلَاۃِ وَالصَّدَقَۃِ؟ قَالُوْا: بَلٰی، قَالَ: ’’إِصْلَاح ذَاتِ الْبَیْنِ، وَفَسَاد ذَاتِ الْبَیْنِ الْحَالِقَۃِ‘‘۔))1
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات سے درجہ میں افضل عمل کے بارے میں خبر نہ دوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! فرمایا: مسلمانوں کی آپسی حالت کی اصلاح اور تباہ کرنے والی آپسی حالت کو خراب کر ڈالنا۔‘‘
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم :
((لَیْسَ الْکَذَّابَ الَّذِيْ یُصْلِحُ بَیْنَ النَّاسِ، فَیَنْمِيْ خَیْرًا أَوْ یَقُوْلُ خَیْرًا))2
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے درمیان صلح کی خاطر جھوٹ سے کام لے کر ان میں اصلاح کرنے والا جھوٹا نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ خیر، بھلائی کا ارادہ رکھتا ہو یا خیر کی بات کہتا ہو۔‘
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو آدمی دو مسلمانوں کے درمیان صلح کروادے اللہ عزوجل اسے ہر ہر بات کے بدلے ایک گردن آزاد کرنے کا اجر و انعام عطا کرتے ہیں۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کی آپسی اصلاح و صلح کے لیے اٹھنے والے ہر قدم سے بڑھ کر کوئی اور قدم زیادہ محبوب نہیں ہوتا۔ اور جو آدمی دو مسلمانوں کے درمیان صلح کروادے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دیتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح سنن أبي داود، رقم : ۴۱۱۱۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب الصلح، باب: لیس الکاذب الذي یصلح بین الناس ۲۶۹۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top