• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول اہل سنت والجماعت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل ہفتم

سید المرسلین محمدﷺ کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے، آپﷺ کے اہل بیت سے محبت اور قلبی تعلق رکھنا بھی، اہل سنت والجماعت کے اُصولوں میں شامل ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے:
’’ أُذَکِّرُکُمُ اﷲَ فِي أَھْلِ بَیْتِي ‘‘ [صحیح مسلم: ۲۴۰۸]
’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں احکامِ الٰہی کی پابندی کی نصیحت کرتا ہوں۔‘‘
رسولِ کریمﷺ کے اہل بیت میں ازواجِ مطہرات، اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں
’’ یَا نِسَآئَ النَّبِيِ ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کے بعد نصیحتیں فرمائیں اور اَجر ِعظیم کا وعدہ کیا ، آخر میں فرمایا:
’’ اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وُیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا ‘‘ [الأحزاب: ۳۳]
’’اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے اے نبی کی گھر والیو! کہ تم سے وہ ہر قسم کی لغو بات کو دور کردے اور تمہیں خوب صاف کر دے۔‘‘
اہل ِبیت میں اصل یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے قرابت دار ہیں، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکو کار تھے۔ جہاں تک نبی کریمﷺ کے اُن رشتہ داروں کا تعلق ہے جو برے عمل کرتے تھے تو انہیں کوئی حق حاصل نہیں، جیسے آپﷺ کا چچا اَبو لہب اور اُس جیسے دوسرے افراد۔ اُس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ تَبَّتْ یَدَآ اَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ‘‘ [لہب: ۱]
’’اَبو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا۔‘‘
لہٰذا دین میں اَچھے اعمال کے بجائے رسولِ اکرمﷺ سے محض شرفِ قرابت اور آپﷺ کی طرف خالی خولی نسبت اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نبی کریمﷺ نے اپنے قبیلہ قریش اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا تھا:
’’ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ، لَا أُغْنِي عَنْکُمْ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا بَنِي عَبْدِ مَنَاف! لَا أُغْنِي عَنْکُمْ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا أُغْنِي عَنْکَ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا صَفِیَّۃُ عُمَّۃُ رَسُولِ اﷲِ! لَا أُغْنِي عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ! سَلِینِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا ‘‘ [صحیح البخاري: ۲۵۴]
’’اے قریش کی جماعت! اپنے نفسوں کا خیال کر لو، میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑا نہیں سکتا، ا ے بنو عبد مناف! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں چھڑا سکتا، اے عباس بن عبد المطّلب، میں آپ کو اللہ تعالیٰ سے نہیں بچا سکتا، اے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں آپ کو اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اے محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو لینا ہے لے لو، میں تمہیں اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ کے صالح قرابت داروں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم اُن سے محبت رکھیں، ان کی عزت و توقیر اور اَدب و احترام کریں۔ لیکن ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم ان کے بارے میں غلو کریں اور کسی ایسے فعل کے ذریعے جو عبادت ہے، ان کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں یا ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ کے علاوہ وہ بھی نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبرﷺ سے کہتے ہیں:
’’ قُلْ اِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَارَشَدًا ‘‘ [الجنّ: ۲۱]
’’فرما دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان، نفع کا اختیار نہیں۔‘‘
تو جب اِمام الانبیا، سیدالاولین والآخرینﷺ کا یہ معاملہ ہے تو کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ کیونکر رکھا جاسکتا ہے؟ لہٰذا جو لوگ رسولِ معظمﷺ کے رشتہ داروں کے سلسلے میں اس حوالے سے مختلف قسم کے افکار و نظریات رکھتے ہیں وہ قطعاً باطل ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل ہشتم

اہل ِسنت والجماعت کا ایک اُصول یہ بھی ہے کہ وہ کراماتِ اولیا کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس سے مراد وہ خلافِ عادت اُمور ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اولیائے کرام کی عزت و بزرگی کے اظہار کی خاطر، ان کے ہاتھ پر جاری کرتے ہیں، جیسا کہ کتاب و سنت سے واضح ہے۔ جہمیہ اور معتزلہ وقوعِ کرامات کے منکر ہیں، لیکن یہ در اصل محض ایک معلوم شدہ اَمر واقعہ کا انکار ہے۔ لیکن یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ زمانے میں لوگ کرامات کے باب میں اصل راہ سے بھٹک چکے ہیں اور اس سلسلے میں غلو کے مرتکب ہو رہے ہیں اور انہوں نے فریب کاروں، شیطانوں اور جادوگروں کی شعبدہ بازیوں اور مداری پن کو بھی کرامات میں شامل کردیا ہے جبکہ یہ اُمور کرامات میں داخل ہی نہیں۔
کرامت اور شعبدہ بازی و مداری پن میں فرق بالکل واضح ہے۔کرامت تو اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے جبکہ کرتب اور فریب کاری کافروں، جادوگروں اور لادین افراد دِکھاتے ہیں تاکہ عوام الناس کو گمراہ کریں اور ان کے مال و دولت کو لوٹ سکیں۔ مزید برآں کرامت اطاعت کا سبب بنتی ہے اور شعبدہ بازی کفر و معاصی کا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اصل نہم

استنباط و استدلال کے باب میں اہل سنت والجماعت کا اُصول یہ ہے کہ ظاہری و باطنی ہر دو پہلوؤں سے، کتاب وسنت کی پیروی کی جائے نیز اس سلسلہ میں عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام رض (انصار و مہاجرین) اور خصوصی طور پر خلفائے راشدین رض کی اِتباع بھی لازم ہے، کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ نے اس کی وصیت فرمائی ہے:
’’ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ ‘‘ [جامع التّرمذي: ۲۶۰۰، وقال: حسن صحیح]
’’میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین پر کسی قول واِرشاد کو مقدم نہیں سمجھتے، اسی لئے انہیں اہل الکتاب والسنۃ کہا جاتا ہے۔ کتاب وسنت کے بعد اہل ِسنت والجماعت اہل ِعلم کے اجماعی امور سے استدلال کرتے ہیں۔ گویا قرآنِ مجید اور سنت ِرسول1 کے بعد تیسرا ماخذ جس پر اہل سنت والجماعت کا اعتماد ہے، اجماعِ اُمت ہے … جو معاملہ علمائے کرام کے مابین اختلافی ہو، اسے وہ اللہ کے حکم کے موجب، کتاب و سنت کی طرف لوٹاتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے۔
’’ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا‘‘ [النّسائ: ۵۹]
’’پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹاؤ، اگر تمہیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کا دعویٰ ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام بہت اچھا ہے۔‘‘
رسولِ مکرمﷺ کے علاوہ اہل سنت والجماعت کسی کو معصوم نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ کسی کی رائے کے بارے میں تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں جب تک وہ رائے کتاب و سنت کے موافق نہ ہو۔ ان کے نزدیک مجتہد کا اِجتہاد درست بھی ہوتا ہے اور کبھی اس سے غلطی بھی سر زد ہوجاتی ہے۔ اہل سنت والجماعت کسی کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتے تاآنکہ اس میں اجتہاد کی وہ شرائط جمع ہوجائیں جو اہل ِعلم کے ہاں معروف ہیں۔ لیکن وہ ان اُمور کا انکار بھی نہیں کرتے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔
اجتہادی مسائل کے ضمن میں پائے جانے والے اختلاف سے اہل سنت والجماعت کے مابین کسی قسم کی دشمنی اور قطع تعلقی پیدا نہیں ہوتی جیسا کہ متعصب اہل ِبدعت کا شیوہ ہے، بلکہ وہ ایک دوسرے سے دوستی اور محبت رکھتے ہیں اور بعض فروعی مسائل میں اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس بدعتی گروہ اپنے مخالفین سے دشمنی کرتے، انہیں گمراہ قرار دیتے اور ان کی تکفیر تک پر اُتر آتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حرف ِ آخر

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ آج اہل سنت والجماعت کے ان روشن اُصولوں کو کماحقہ سمجھا جائے کہ سلف صالحین اسی روش پر عمل پیرا تھے، انہی کی روشنی میں شریعت کا صحیح فہم حاصل ہوسکتا ہے، انہی کی پیروی سے دین پر کما حقہ عمل کیا جاسکتا ہے اور اُمت میں پائے جانے والے تشت و افتراق کا خاتمہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب منہج ِسلف کے ان رہنما اُصولوں کو اپنایا جائے ۔ بصورتِ دیگر اعتقاد وعمل اور استنباط و استدلال میں نت نئے فتنے جنم لیتے رہیں گے اور اُمت ِمسلمہ کے اضمحلال کا سبب بنتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کا صحیح فہم اور ا سکے تقاضوں پر عمل پیدا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین!​
 
Top