• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول ایمان از محمد بن عبدالوہاب کا ترجمہ درکار ہے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اصول ایمان از محمد بن عبدالوہاب کا اردو ترجمہ درکار ہے کسی بھائے کے پاس اگر pdf ہو تو دیں
فی الحال یونیکوڈ میں پیش ہے ، پی ڈی ایف بھی ڈھونڈ کر پیش کرتے ہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الاصو ل الستة
ایمان وعقیدہ کے چھ بنیادی اصول
قال المؤلف شيخ الإسلام‏ محمد ابن عبد الوهاب رحمه الله -:‏
شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب ؒ فرماتے ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم

من أعجب العجاب، وأكبر الآيات الدالة على قدرة الملك الغلاب ستة أصول بينها الله تعالى بيانًا واضحًا للعوام فوق ما يظن الضانون، ثم بعد هذا غلط فيها كثير من أذكياء العالم وعقلاء بني آدم إلا أقل القليل‏.‏
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:
سب سے زیادہ حیرت انگیز اور عظیم اصول ستہ (چھ اصولوں ) کی وہ آیات ہیں جو مالک کائنات کی قدرت ملکیت اور اس کے غلبے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ جل شانہ نے انہیں اس طرح وضاحت کے ساتھ عوام الناس کے لیے بیان فرمادیا تاکہ کوئی گمان کرنے والا غلط گمان نہ کر سکے مگر چند ایک کے سوا اكثر عقلاء اور دانشور اس میں غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

الأصل الأول
إخلاص الدين لله تعالى وحده لا شريك له، وبيان ضده الذي هو الشرك بالله، وكون أكثر القرآن في بيان هذا الأصل من وجوه شتى بكلام يفهمه أبلد العامة،ثم لما صار على أكثر الأمة ما صار أظهر لهم الشيطان الإخلاص في صورة تنقص الصالحين والتقصير في حقوقهم، وأظهر لهم الشرك بالله في صورة محبة الصالحين وأتباعهم‏.‏

پہلا اصول :
اللہ تعالی کے لیے دین (یعنی تمام عبادات و اطاعت ) کو خالص کرنا اور اس میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ قرآن کریم کا اکثر حصہ اس اصل کے بیان پر مشتمل ہے۔ مختلف طریقوں سے اس حقیقت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ کمزور سے کمزور فہم و سمجھ رکھنے والا شخص بھی ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھ سکے۔
پھر امت کی حالت اس معاملہ میں یہ ہوگئی کہ شیطان نے ان کے لئے (عبادت میں) اخلاص کو صالحین کے حق میں تنقیص وتقصیر (گستاخی) باور کرادیا، اور شرک کو صالحین سے محبت اور ان کی پیروی باور کرادیا)۔

الأصل الثاني
أمر الله بالاجتماع في الدين ونهى عن التفرق فيه، فيبين الله هذا بيانًا شافيًا تفهمه العوام، ونهانا أن نكون كالذين تفرقوا واختلفوا قبلنا فهلكوا،وذكر أنه أمر المسلمين بالاجتماع في الدين ونهاهم عن التفرق فيه، ويزيده وضوحًا ما وردت به ألسنة من العجب العجاب في ذلك، ثم صار الأمر إلى أن الافتراق في أصول الدين وفروعه هو العلم والفقه في الدين، وصار الاجتماع في الدين لا يقوله إلا زنديق أو مجنون‏.‏

دوسرا اصول :
اللہ جل شانہ نے دین میں متحد رہنے کا حکم فرمایا ہے اور اختلافات و فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اس کے بارے میں ایسا شافی و کافی بیان فرمایا ہے کہ عوام الناس بھی سمجھ لیں۔ ہمیں منع فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے دین میں فرقہ بندی اور اختلاف پیدا کیا پھر اس کی بناء پر ہلاک ہوئے، اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ دین میں تفرقه و اختلاف ہرگز مت پیدا کرنا۔ اس کی مزید وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی ہے ، مگر بعد میں دین کے اصولوں اور تفصیلات میں افتراق اور اختلاف کو فقہ و علم كہا جانے لگا۔ فرقہ بندی و اختلاف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے کو زندیق و مجنون کہا گیا۔

الأصل الثالث
إن من تمام الاجتماع السمع والطاعة لمن تأمر علينا ولو كان عبدًا حبشيًا، فبين الله هذا بيانًا شائعًا كافيًا بوجوه من أنواع البيان شرعًا وقدرًا،ثم صار هذا الأصل لا يعرف عند أكثر من يدعي العلم فكيف العمل به‏.‏

تیسرا اصول :
کامل اتحاد اس وقت ممکن ہے جب اطاعت و فرمانبرداری اس میں شامل ہو۔ چاہے حاکم کوئی غلام حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ رب العزت نے مختلف طریقوں سے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے۔ بعد میں علم کے دعویدار اس اصول سے بے خبر ہو گئے ،جب اس عظیم اصل سے بے خبر ہوگئے تو اس پر عمل کیسے کرسکتے تھے ۔(لہذا یہ اطاعت بھی متروک ہوگئی اور امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا)


الأصل الرابع
بيان العلم والعلماء، والفقه والفقهاء، وبيان من تشبه بهم وليس منهم، وقد بين الله هذا الأصل في أول سورة البقرة من قوله‏:‏ ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ‏)‏ ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 40‏]‏ إلى قوله‏:‏ ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ‏)‏، ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 47‏]‏‏.
‏ ويزيده وضوحًا ما صرحت به السنة في هذا الكلام الكثير البين الواضح للعامي البليد، ثم صار هذا أغرب الأشياء، وصار العلم والفقه هو البدع والضلالات، وخيار ما عندهم لبس الحق بالباطل، وصار العلم الذي فرضه الله تعالى على الخلق ومدحه لا يتفوه به إلا زنديق أو مجنون، وصار من أنكره وعاداه وصنف في التحذير منه والنهي عنه هو الفقيه العالم‏.

چوتھا اصول :
علم اور علماء فقہ اور فقہا سے متعلق ہے اور ان لوگوں سے متعلق جو اپنے آپ کو عالم اور فقیہ کہتے ہیں مگر حقیقت میں نہیں ہیں، اللہ جل شانہ نے سورہ بقرہ کے آغاز میں اسی بات کی طرف نشاندہی کی ہے۔
(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ‏)‏ ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 40‏]”اے بنی اسرائیل! یاد کرو اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا ۔( یہاں سے اس آیت تک) : ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ‏)‏، ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 47‏]‏‏.
اے بنی اسرائیل! یاد کرو اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔
اس سلسلے میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو وضاحتیں ملتی ہیں ان سے یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح اور روشن ہو جاتی ہے۔ اور اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ ایک کند ذہین شخص بھی اسے سمجھ نہ سکے۔ مگر بعد میں دین میں عجیب وغریب تبدیلیاں کی گئیں۔ علم و فقہ کو بدعات اور گمراہیوں میں غرق کردیا گیا۔ اور حق و باطل کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا گیا اور ایسا کرنے والا عالم و فاضل کہلایا۔ اس کے برعکس جس علم کی اللہ جل شانہ نے تعریف فرمائی تھی اور سے لوگوں پر فرض قرار دیا تھا اس کے بیان کرنے والے کو زندیق و مجنون کا خطاب دیا گیا۔

الأصل الخامس
بيان الله سبحانه لأولياء الله وتفريقه بينهم وبين المتشبهين بهم من أعداء الله المنافقين والفجار، ويكفي في هذا آية من سورة آل عمران وهي قوله‏:‏ ‏(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ‏)‏ ‏[‏سورة آل عمران، الآية‏:‏ 31‏]‏ ‏.‏ الآية، و آية في سورة المائدة وهي قوله‏:‏ ‏(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‏)‏ ‏[‏سورة المائدة، الآية‏:‏ 54‏]‏ ‏.‏الآية،
وآية في يونس وهي قوله ‏:‏ ‏(أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‏)‏ ‏[‏سورة يونس، الآية‏:‏ 62‏]‏، ثم صار الأمر عند أكثر من يدعى العلم وأنه من هداة الخلق وحفاظ الشرع إلى أن الأولياء لا بد فيهم من ترك إتباع الرسل ومن تبعهم فليس منهم ولا بد من ترك الجهاد فمن جاهد فليس منهم، ولا بد من ترك الإيمان والتقوى فمن تعهد بالإيمان والتقوى فليس منهم يا ربنا نسألك العفو والعافية إنك سميع الدعاء‏.

پانچواں اصول :
اس فرق سے متعلق ہے جو اللہ تعالی کے مخلص دوستوں اور دوسرے نقالوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو اس کے دشمن ہیں اور فاجر و منافق ہیں ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے: ۔
‏(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ‏)
” (اے پیغمبر فرما دیجئے کہ اگر تم کو اللہ کی محبت ہو تو میری راہ پر چلو اللہ بھی تم سے محبت رکھے گا۔“ (آل عمران : ۳۱)
دوسری جگہ فرمایا ہے: ۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‏)‏ المائدۃ 54
اے لوگو! جو ایمان لاۓ ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (مرتد ہوتا ہے )تو پھر اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ “
اور والله غفور رحيم )الأنده : ۵۳)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: (أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‏)‏ ‏[‏سورة يونس
سنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہے“۔ (یونس : ۷)
مگر بعد میں پھر اکثر ان لوگوں کے یہاں جو علم کے دعویدار ہیں، لوگوں کے رہبر ورہنما ہیں، اور شریعت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں یہ معاملہ بھی ایسا ہوگیا کہ اولیاء اللہ ہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی سےروگردانی کرتے ہوں، اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں ہوسکتے! اور یہ بھی لازم ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیں جو جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں! اور انہیں ایمان وتقویٰ کو بھی چھوڑنا لازم ہے! جو ایمان وتقویٰ کے پابند ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں! اے ہمارے رب ہم تجھ ہی سے عفوودرگزر اور عافیت کے خواستگوار ہیں، بے شک تو دعاؤں کا سننے والا ہے)۔


الأصل السادس
رد الشبة التي وضعها الشيطان في ترك القرآن والسنة وإتباع الآراء والأهواء المتفرقة المختلفة، وهي أن القرآن والسنة لا يعرفهما إلا المجتهد المطلق، والمجتهد هو الموصوف بكذا وكذا أوصافا لعلها لا توجد تامة في أبي بكر وعمر، فإن لم يكن الإنسان كذلك فليعرض عنهما فرضًا حتمًا لا شك ولا أشكال فيه، ومن طلب الهدى منها فهو إما زنديق، وإما مجنون لأجل صعوبة فهمها فسبحان الله وبحمده كم بين الله سبحانه شرعًا وقدرًا، خلقًا وأمرًا في رد هذه الشبهة الملعونة من وجوه شتى بلغت إلى حد الضروريات العامة ولكن أكثر الناس لا يعلمون ‏( لقد حق القول على أكثرهم فهم لا يؤمنون إنا جعلنا في أعناقهم أغلالًا فهي إلى الأذقان فهم مقمحون وجعلنا من بين أيديهم سدًا ومن خلفهم سدًا فأغشيناهم فهم لا يبصرون وسواء عليهم أأنذرتهم أم لم تنذرهم لا يؤمنون إنما تنذر من أتبع الذكر وخشي الرحمن بالغيب فبشره بمغفرة وأجر كريم )‏‏.‏ ‏[‏سورة يس، الآيات‏:‏ 7 ـ 11‏]‏ ‏.‏
آخره والحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا إلى يوم الدين‏.‏

چھٹا اصول :
اس شبہ کے ازالہ سے متعلق ہے جس کو شیطان ملعون نے امت کے اندر پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے لوگ قرآن و سنت کو چھوڑ چکے ہیں اور مختلف آراء و خواہشات کے پیچھے پڑ گئے ہیں، وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ قرآن و سنت کو تو صرف کوئی مجتہد ہی سمجھ سکتا ہے عام لوگوں کی سمجھ کی بات کہاں!
اور پھر مجتہد ہونے کے لیے ایسے ایسے اوصاف بیان کئے گئے جو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں بھی نہ مل سکیں۔ جو لوگ ایسے اوصاف پیدا نہ کر سکیں انہیں بلاشبہ قرآن و سنت سے منہ موڑلینا چاہیے۔ اگر اس کے باوجود وہ قرآن و سنت ہی سے ہدایت کے طلب گار ہوں تو چونکہ قرآن و ست کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں لہذا ایسے لوگ یا تو زندیق ہیں یا پاگل۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے ایسی واہیات سے ،
پس اللہ تعالی پاک ہے اپنی تعریف وحمد کے ساتھ کہ اس نے شرعاً وقدراً ، خلقاً وامراً کس قدر مختلف انداز میں اس ملعون شبہے کا رد فرمایا ہے یہاں تک یہ ضروریات عامہ کی حد کو پہنچ گیا، جس سے کوئی غافل و لاعلم نہیں رہنا چاہیئے ، مگر اکثر لوگ اس واضح حقیقت کو بھی نہیں جانتے
قرآن مجید میں فرمان الہی ہے: (ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے، ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو الٹ گئے ہیں) سے لیکر (سو آپ اس کو مغفرت اور باوقار اجر کی خوشخبریاں سنا دیجئے)سورۃ یسین ۔
آخره والحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا إلى يوم الدين‏.‏
 

abu khuzaima

رکن
شمولیت
جون 28، 2016
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
46
فی الحال یونیکوڈ میں پیش ہے ، پی ڈی ایف بھی ڈھونڈ کر پیش کرتے ہیں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الاصو ل الستة
ایمان وعقیدہ کے چھ بنیادی اصول
قال المؤلف شيخ الإسلام‏ محمد ابن عبد الوهاب رحمه الله -:‏
شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب ؒ فرماتے ہیں
بسم الله الرحمن الرحيم

من أعجب العجاب، وأكبر الآيات الدالة على قدرة الملك الغلاب ستة أصول بينها الله تعالى بيانًا واضحًا للعوام فوق ما يظن الضانون، ثم بعد هذا غلط فيها كثير من أذكياء العالم وعقلاء بني آدم إلا أقل القليل‏.‏
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:
سب سے زیادہ حیرت انگیز اور عظیم اصول ستہ (چھ اصولوں ) کی وہ آیات ہیں جو مالک کائنات کی قدرت ملکیت اور اس کے غلبے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ جل شانہ نے انہیں اس طرح وضاحت کے ساتھ عوام الناس کے لیے بیان فرمادیا تاکہ کوئی گمان کرنے والا غلط گمان نہ کر سکے مگر چند ایک کے سوا اكثر عقلاء اور دانشور اس میں غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

الأصل الأول
إخلاص الدين لله تعالى وحده لا شريك له، وبيان ضده الذي هو الشرك بالله، وكون أكثر القرآن في بيان هذا الأصل من وجوه شتى بكلام يفهمه أبلد العامة،ثم لما صار على أكثر الأمة ما صار أظهر لهم الشيطان الإخلاص في صورة تنقص الصالحين والتقصير في حقوقهم، وأظهر لهم الشرك بالله في صورة محبة الصالحين وأتباعهم‏.‏

پہلا اصول :
اللہ تعالی کے لیے دین (یعنی تمام عبادات و اطاعت ) کو خالص کرنا اور اس میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ قرآن کریم کا اکثر حصہ اس اصل کے بیان پر مشتمل ہے۔ مختلف طریقوں سے اس حقیقت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ کمزور سے کمزور فہم و سمجھ رکھنے والا شخص بھی ان اصولوں کو اچھی طرح سمجھ سکے۔
پھر امت کی حالت اس معاملہ میں یہ ہوگئی کہ شیطان نے ان کے لئے (عبادت میں) اخلاص کو صالحین کے حق میں تنقیص وتقصیر (گستاخی) باور کرادیا، اور شرک کو صالحین سے محبت اور ان کی پیروی باور کرادیا)۔

الأصل الثاني
أمر الله بالاجتماع في الدين ونهى عن التفرق فيه، فيبين الله هذا بيانًا شافيًا تفهمه العوام، ونهانا أن نكون كالذين تفرقوا واختلفوا قبلنا فهلكوا،وذكر أنه أمر المسلمين بالاجتماع في الدين ونهاهم عن التفرق فيه، ويزيده وضوحًا ما وردت به ألسنة من العجب العجاب في ذلك، ثم صار الأمر إلى أن الافتراق في أصول الدين وفروعه هو العلم والفقه في الدين، وصار الاجتماع في الدين لا يقوله إلا زنديق أو مجنون‏.‏

دوسرا اصول :
اللہ جل شانہ نے دین میں متحد رہنے کا حکم فرمایا ہے اور اختلافات و فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اس کے بارے میں ایسا شافی و کافی بیان فرمایا ہے کہ عوام الناس بھی سمجھ لیں۔ ہمیں منع فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے دین میں فرقہ بندی اور اختلاف پیدا کیا پھر اس کی بناء پر ہلاک ہوئے، اللہ رب العزت نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ دین میں تفرقه و اختلاف ہرگز مت پیدا کرنا۔ اس کی مزید وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی ہے ، مگر بعد میں دین کے اصولوں اور تفصیلات میں افتراق اور اختلاف کو فقہ و علم كہا جانے لگا۔ فرقہ بندی و اختلاف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والے کو زندیق و مجنون کہا گیا۔

الأصل الثالث
إن من تمام الاجتماع السمع والطاعة لمن تأمر علينا ولو كان عبدًا حبشيًا، فبين الله هذا بيانًا شائعًا كافيًا بوجوه من أنواع البيان شرعًا وقدرًا،ثم صار هذا الأصل لا يعرف عند أكثر من يدعي العلم فكيف العمل به‏.‏

تیسرا اصول :
کامل اتحاد اس وقت ممکن ہے جب اطاعت و فرمانبرداری اس میں شامل ہو۔ چاہے حاکم کوئی غلام حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ رب العزت نے مختلف طریقوں سے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے۔ بعد میں علم کے دعویدار اس اصول سے بے خبر ہو گئے ،جب اس عظیم اصل سے بے خبر ہوگئے تو اس پر عمل کیسے کرسکتے تھے ۔(لہذا یہ اطاعت بھی متروک ہوگئی اور امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا)


الأصل الرابع
بيان العلم والعلماء، والفقه والفقهاء، وبيان من تشبه بهم وليس منهم، وقد بين الله هذا الأصل في أول سورة البقرة من قوله‏:‏ ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ‏)‏ ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 40‏]‏ إلى قوله‏:‏ ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ‏)‏، ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 47‏]‏‏.
‏ ويزيده وضوحًا ما صرحت به السنة في هذا الكلام الكثير البين الواضح للعامي البليد، ثم صار هذا أغرب الأشياء، وصار العلم والفقه هو البدع والضلالات، وخيار ما عندهم لبس الحق بالباطل، وصار العلم الذي فرضه الله تعالى على الخلق ومدحه لا يتفوه به إلا زنديق أو مجنون، وصار من أنكره وعاداه وصنف في التحذير منه والنهي عنه هو الفقيه العالم‏.

چوتھا اصول :
علم اور علماء فقہ اور فقہا سے متعلق ہے اور ان لوگوں سے متعلق جو اپنے آپ کو عالم اور فقیہ کہتے ہیں مگر حقیقت میں نہیں ہیں، اللہ جل شانہ نے سورہ بقرہ کے آغاز میں اسی بات کی طرف نشاندہی کی ہے۔
(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ‏)‏ ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 40‏]”اے بنی اسرائیل! یاد کرو اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا ۔( یہاں سے اس آیت تک) : ‏(يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ‏)‏، ‏[‏سورة البقرة، الآية‏:‏ 47‏]‏‏.
اے بنی اسرائیل! یاد کرو اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔
اس سلسلے میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو وضاحتیں ملتی ہیں ان سے یہ حقیقت اور بھی زیادہ واضح اور روشن ہو جاتی ہے۔ اور اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ ایک کند ذہین شخص بھی اسے سمجھ نہ سکے۔ مگر بعد میں دین میں عجیب وغریب تبدیلیاں کی گئیں۔ علم و فقہ کو بدعات اور گمراہیوں میں غرق کردیا گیا۔ اور حق و باطل کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا گیا اور ایسا کرنے والا عالم و فاضل کہلایا۔ اس کے برعکس جس علم کی اللہ جل شانہ نے تعریف فرمائی تھی اور سے لوگوں پر فرض قرار دیا تھا اس کے بیان کرنے والے کو زندیق و مجنون کا خطاب دیا گیا۔

الأصل الخامس
بيان الله سبحانه لأولياء الله وتفريقه بينهم وبين المتشبهين بهم من أعداء الله المنافقين والفجار، ويكفي في هذا آية من سورة آل عمران وهي قوله‏:‏ ‏(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ‏)‏ ‏[‏سورة آل عمران، الآية‏:‏ 31‏]‏ ‏.‏ الآية، و آية في سورة المائدة وهي قوله‏:‏ ‏(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‏)‏ ‏[‏سورة المائدة، الآية‏:‏ 54‏]‏ ‏.‏الآية،
وآية في يونس وهي قوله ‏:‏ ‏(أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‏)‏ ‏[‏سورة يونس، الآية‏:‏ 62‏]‏، ثم صار الأمر عند أكثر من يدعى العلم وأنه من هداة الخلق وحفاظ الشرع إلى أن الأولياء لا بد فيهم من ترك إتباع الرسل ومن تبعهم فليس منهم ولا بد من ترك الجهاد فمن جاهد فليس منهم، ولا بد من ترك الإيمان والتقوى فمن تعهد بالإيمان والتقوى فليس منهم يا ربنا نسألك العفو والعافية إنك سميع الدعاء‏.

پانچواں اصول :
اس فرق سے متعلق ہے جو اللہ تعالی کے مخلص دوستوں اور دوسرے نقالوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو اس کے دشمن ہیں اور فاجر و منافق ہیں ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے: ۔
‏(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ‏)
” (اے پیغمبر فرما دیجئے کہ اگر تم کو اللہ کی محبت ہو تو میری راہ پر چلو اللہ بھی تم سے محبت رکھے گا۔“ (آل عمران : ۳۱)
دوسری جگہ فرمایا ہے: ۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ‏)‏ المائدۃ 54
اے لوگو! جو ایمان لاۓ ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (مرتد ہوتا ہے )تو پھر اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ “
اور والله غفور رحيم )الأنده : ۵۳)
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: (أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ‏)‏ ‏[‏سورة يونس
سنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہے“۔ (یونس : ۷)
مگر بعد میں پھر اکثر ان لوگوں کے یہاں جو علم کے دعویدار ہیں، لوگوں کے رہبر ورہنما ہیں، اور شریعت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں یہ معاملہ بھی ایسا ہوگیا کہ اولیاء اللہ ہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی سےروگردانی کرتے ہوں، اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں ہوسکتے! اور یہ بھی لازم ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیں جو جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں! اور انہیں ایمان وتقویٰ کو بھی چھوڑنا لازم ہے! جو ایمان وتقویٰ کے پابند ہیں وہ ان (اولیاء) میں سے نہیں! اے ہمارے رب ہم تجھ ہی سے عفوودرگزر اور عافیت کے خواستگوار ہیں، بے شک تو دعاؤں کا سننے والا ہے)۔


الأصل السادس
رد الشبة التي وضعها الشيطان في ترك القرآن والسنة وإتباع الآراء والأهواء المتفرقة المختلفة، وهي أن القرآن والسنة لا يعرفهما إلا المجتهد المطلق، والمجتهد هو الموصوف بكذا وكذا أوصافا لعلها لا توجد تامة في أبي بكر وعمر، فإن لم يكن الإنسان كذلك فليعرض عنهما فرضًا حتمًا لا شك ولا أشكال فيه، ومن طلب الهدى منها فهو إما زنديق، وإما مجنون لأجل صعوبة فهمها فسبحان الله وبحمده كم بين الله سبحانه شرعًا وقدرًا، خلقًا وأمرًا في رد هذه الشبهة الملعونة من وجوه شتى بلغت إلى حد الضروريات العامة ولكن أكثر الناس لا يعلمون ‏( لقد حق القول على أكثرهم فهم لا يؤمنون إنا جعلنا في أعناقهم أغلالًا فهي إلى الأذقان فهم مقمحون وجعلنا من بين أيديهم سدًا ومن خلفهم سدًا فأغشيناهم فهم لا يبصرون وسواء عليهم أأنذرتهم أم لم تنذرهم لا يؤمنون إنما تنذر من أتبع الذكر وخشي الرحمن بالغيب فبشره بمغفرة وأجر كريم )‏‏.‏ ‏[‏سورة يس، الآيات‏:‏ 7 ـ 11‏]‏ ‏.‏
آخره والحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا إلى يوم الدين‏.‏

چھٹا اصول :
اس شبہ کے ازالہ سے متعلق ہے جس کو شیطان ملعون نے امت کے اندر پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے لوگ قرآن و سنت کو چھوڑ چکے ہیں اور مختلف آراء و خواہشات کے پیچھے پڑ گئے ہیں، وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ قرآن و سنت کو تو صرف کوئی مجتہد ہی سمجھ سکتا ہے عام لوگوں کی سمجھ کی بات کہاں!
اور پھر مجتہد ہونے کے لیے ایسے ایسے اوصاف بیان کئے گئے جو سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں بھی نہ مل سکیں۔ جو لوگ ایسے اوصاف پیدا نہ کر سکیں انہیں بلاشبہ قرآن و سنت سے منہ موڑلینا چاہیے۔ اگر اس کے باوجود وہ قرآن و سنت ہی سے ہدایت کے طلب گار ہوں تو چونکہ قرآن و ست کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں لہذا ایسے لوگ یا تو زندیق ہیں یا پاگل۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے ایسی واہیات سے ،
پس اللہ تعالی پاک ہے اپنی تعریف وحمد کے ساتھ کہ اس نے شرعاً وقدراً ، خلقاً وامراً کس قدر مختلف انداز میں اس ملعون شبہے کا رد فرمایا ہے یہاں تک یہ ضروریات عامہ کی حد کو پہنچ گیا، جس سے کوئی غافل و لاعلم نہیں رہنا چاہیئے ، مگر اکثر لوگ اس واضح حقیقت کو بھی نہیں جانتے
قرآن مجید میں فرمان الہی ہے: (ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے، ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں، جس سے ان کے سر اوپر کو الٹ گئے ہیں) سے لیکر (سو آپ اس کو مغفرت اور باوقار اجر کی خوشخبریاں سنا دیجئے)سورۃ یسین ۔
آخره والحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا إلى يوم الدين‏.‏
شیخ یہ والی اصول ستہ ہے، میری مراد اصول ایمان ہے جو الگ رسالہ ہے

Sent from my SM-G920F using Tapatalk
 
Top