• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تحقیق اور حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
حال ہی میں ایک معروف دینی ویب سائیٹ پر ایک کتاب اپ لوڈ ہوئی ہے جو تفسیر ابن کثیر کے ترجمہ ، تخریج و تحقیق پر مبنی ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تحقیق اسماء الرجال کے معروف امام فضیلۃ‌الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ اور اس کتاب کو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے

تفسیر ابن کثیر

گو کہ اس عظیم الشان کتاب کو انٹرنیٹ پر پیش کرنے والے حضرات قابل تحسین ہیں لیکن کتاب کا تعارف لکھتے وقت انہوں نے چند فاش غلطیاں کی ہیں جن کی طرف میں اجمالی طور پر اشارہ کروں گا۔ ان شاء اللہ علماء اس کی طرف تفصیلی اشارہ فرمائیں گے۔
کتاب کا تعارف کچھ یوں شروع ہوتا ہے؛
"دینی علوم میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل کا علم اشرف علوم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر دور میں ائمہ دین نے کتاب اللہ کی تشریح وتوضیح کی خدمت سر انجام دی ہے تا کہ عوام الناس کے لیے اللہ کی کتاب کو سمجھنے میں کوئی مشکل اور رکاوٹ پیش نہ آئے۔ سلف صالحین ہی کے زمانہ ہی سے تفسیر قرآن، تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے کے مناہج میں تقسیم ہو گئی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین کے زمانہ میں تفسیر بالماثور کو خوب اہمیت حاصل تھی اور تفسیر کی اصل قسم بھی اسے ہی شمار کیا جاتا تھا۔ تفسیر بالماثور کو تفسیر بالمنقول بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کتاب اللہ کی تفسیر خود قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اقوال تابعین و تبع تابعین سے کی جاتی ہے۔ بعض مفسرین اسرائیلیات کے ساتھ تفسیر کو بھی تفسیر بالماثور میں شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ اہل کتاب سے نقل کی ایک صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم تفسیری ذخیرہ میں اسرائیلیات بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ متوفی ۷۷۴ھ کی اس تفسیر کا منہج بھی تفسیر بالماثور ہے۔ امام رحمہ اللہ نے کتاب اللہ کی تفسیر قرآن مجید، احادیث مباکہ، اقوال صحابہ وتابعین اور اسرائیلیات سے کی ہے اگرچہ بعض مقامات پر وہ تفسیر بالرائے بھی کرتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہے۔ تفسیر طبری ، تفسیر بالماثور کے منہج پر لکھی جانے والی پہلی بنیادی کتاب شمار ہوتی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ تفسیر ابن کثیر ، تفسیر طبری کا خلاصہ ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی اس تفسیر کو تفسیر بالماثور ہونے کی وجہ سے ہر دور میں خواص وعوام میں مرجع و مصدر کی حیثیت حاصل رہی ہے اگرچہ امام رحمہ اللہ نے اپنی اس تفسیر میں بہت سی ضعیف اور موضوع روایات یا منگھڑت اسرائیلیات بھی نقل کر دی ہیں جیسا کہ قرون وسطی کے مفسرین کا عمومی منہاج اور رویہ رہا ہے۔ بعض اوقات تو امام رحمہ اللہ خود ہی ایک روایت نقل کر کے اس کے ضعف یا وضع کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ تفسیر بالماثور کے اس مرجع ومصدر میں ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جو ضعیف یا موضوع روایات یا منگھڑت اسرائیلیات پر مشتمل ہیں ۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے محقق اور مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کے شاگرد رشید جناب کامران طاہر صاحب نے اس تفسیر کی مکمل تخریج وتحقیق کی ہے اور حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس تخریج وتحقیق پر نظر ثانی کی ہے۔تخریج و تحقیق عمدہ ہے لیکن اگر تفسیر کے شروع میں محققین حضرات اپنا منہج تحقیق بیان کر دیتے تو ایک عامی کو استفادہ میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی کیونکہ بعض مقامات پر ایک عامی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جیسا کہ پہلی جلد میں ص ۳۷ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’صحیح‘ قرار دیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔اسی طرح ص ۴۲ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اسے ضعیف کہنا غلط ہے۔ اب یہاں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کس نے ضعیف کہا ہے اور کن وجوہات کی بنا پر کہا ہے اورضعیف کے الزام کے باوجود صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے ؟اسی طرح ص ۴۳پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ان مقامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محققین نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ اپنی تحقیق کی ہے جبکہ ایک عام قاری اس وقت الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جب وہ اکثر مقامات پر یہ دیکھتا ہے کہ کسی روایت یا اثر کی تحقیق میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح وتضعیف نقل کر دی جاتی ہے اور یہ وضاحت نہیں کی جاتی ہے کہ محققین نے ان مقامات پرمحض علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے یا اپنی بھی تحقیق کی ہے اور اگر اپنی بھی تحقیق کی ہے تو ان کی تحقیق اس بارے علامہ البانی رحمہ اللہ سے متفق ہے یا نہیں ؟یہ ایک الجھن اگر اس تفسیر میں شروع میں منہج تحقیق پر گفتگو کے ذریعہ واضح ہو جاتی تو بہتر تھا۔ بہر حال بحثیت مجموعی یہ تخریج وتحقیق ایک بہت ہی عمدہ اور محنت طلب کاوش ہے ۔ اللہ تعالیٰ جناب کامران طاہر صاحب کو اس کی جزائے خاص عطا فرمائے۔ آمین!"
یہاں میں کچھ تبصرہ کرنے سے پہلے چند تراکیب کی وضاحت کروں گا۔

تخریج آسان الفاظ میں اس حدیث کے حوالہ جات تلاش کرنے کا نام ہے۔
تحقیق عام الفاظ میں اس حدیث کے رواۃ اور متن کی جانچ پڑتال کا نام ہے اور عموما" محدثین تحقیق کے بعد حدیث کی صحت و ضعف کے بارے میں حکم لگاتے ہیں۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس تعارف میں شامل چند شبہات پر۔۔۔۔۔

1- اولا" یہ کہ اس تعارف میں کامران طاہر صاحب کی خدمات کو بطور تخریج اور تحقیق کے ذکر کیا گیا ہے جب کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالیٰ کی خدمات نظر ثانی تک محدود رکھی گئی ہیں۔ حالانکہ کتاب کا سرورق اس بات کا شاہد ہے کہ کتاب کی تحقیق و نظر ثانی دونوں کا فریضہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے سرانجام دیا ہے جب کہ کامران طاہر صاحب نے تخریج کی خدمت سرانجام دی ہے۔
ثانیا" کامران طاہر صاحب کو شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا شاگرد تو ذکر کیا گیا ہے جب کہ وہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ کے بھی تلمیذ ہیں۔ اور اس معاملہ کو گول ہی کر دیا گیا ہے۔

کامران طاہر حفظہ اللہ کے بذات خود شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن اس قسم کا تعارف شاید "نائب مدیر ماہنامہ محدث کامران طاہر صاحب" کا منظور نظر بننے کے لیے شامل کیا گیا ہے یا واللہ اعلم کوئی دوسرا معاملہ ہے۔ بہر حال معاملہ جو کوئی بھی ہو، کسی کی روز و شب کی محنت پر قلم سے سیاہی پھیرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

2- جہاں تحقیق کے حوالے سے کوئی اعتراضات کیے گئے ہیں تو وہ تعارف کروانے والے صاحب کی کھلی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اصول حدیث کے ادنی سے ادنی طالبعلم بھی ااس بات کو جانتے ہیں کہ محدثین کسی روایت یا حدیث کی سند پر حکم رواۃ یا بیان کرنے والے کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ اور رواۃ کا درجہ ہی دراصل اس حدیث کی صحت اور ضعف کا تعین کرتا ہے۔ اس حوالے سے بعض اوقات کسی روایت کے حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے حدیث پر حکم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور محدثین و محققین اپنا حکم بھی بیان فرماتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اوائل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ بعض اوقات چند لوگ کسی دوسرے محدث کا کسی حدیث پر حکم نقل کرنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی بذات خود اسماء الرجال اور تحقیق سے نآشنائی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں صاحب تعارف نے بات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے شیخ البانی کی تحقیق سے اختلاف کر کے "جرم عظیم" سر انجام دیا ہے جو ان صاحب کی کم علمی اور اصول تحقیق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک دونوں شیوخ یعنی شیخ الالبانی رحمہ اللہ اور شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ قابل احترام ہیں۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی جب بھی کسی حدیث کو بیان کرتے ہیں تو اس کی وجہ ضعف بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ صاحب تعارف نے جن دو روایات کی طرف اشارہ کیا ہے ، کتاب کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے ان کی وجہ ضعف پہلے ہی بیان فرما دی ہے۔ اب بجائے کہ علمی دیانت سے کام لیتے ہوئے صاحب تعارف اس بات کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، انہوں نے اس پر بے جا اعتراضات فرمائے ہیں جو شیخ صاحب کا اصول حدیث میں مرتبہ گھٹانے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا منہج بالکل عیاں ہے اور صاحب مضمون شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی پہلے بھی کئی کتب اپ لوڈ کر چکے ہیں۔ اس لیے ہماری صاحب تعارف سے یہ گزارش ہے کہ ان مغالطہ دینے والے کلمات کو حذف کر دیا جائے یا پھر اس اصول کے بارے میں اہل علم سے رابطہ کیا جائے تاکہ ان کا یہ اشکال دور ہو سکے کہ کوئی بھی محقق اپنی تحقیق کر کے حدیث پر حکم لگا سکتا ہے اور یہ بات اصول حدیث کے اصولوں سے خارج نہیں۔


عموما" میں اس قسم کے موضوعات پر نہیں لکھتا لیکن یہاں‌ اہم اشکالات کا ازالہ مطلوب تھا اس لیے وضاحت ضروری سمجھی۔ امید ہے ساتھی میری اس بات کو مثبت انداز میں لے کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم اہل الحدیث بھائی،
آپ کے اعتراضات کے جوابات تو اہل علم دیں گے۔ لیکن آپ کی لینگویج پر آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

اور اس معاملہ کو گول ہی کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس قسم کا تعارف شاید "نائب مدیر ماہنامہ محدث کامران طاہر صاحب" کا منظور نظر بننے کے لیے شامل کیا گیا ہے یا۔۔۔
فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے شیخ البانی کی تحقیق سے اختلاف کر کے "جرم عظیم" سر انجام دیا ہے جو ان صاحب کی کم علمی اور اصول تحقیق سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔
اب بجائے کہ علمی دیانت سے کام لیتے ہوئے صاحب تعارف اس بات کو خندہ پیشانی سے قبول فرماتے، انہوں نے اس پر بے جا اعتراضات فرمائے ہیں جو شیخ صاحب کا اصول حدیث میں مرتبہ گھٹانے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
آپ کی شکایت اپنی جگہ پر اور اعتراضات بھی بجا۔ لیکن بھائی جان، اپنے ہی بھائیوں اور خصوصیت سے علمائے کرام کے لئے یہ الفاظ اور لہجہ تو بہت تحقیر آمیز محسوس ہوتا ہے۔ ہم نے وضاحت سے محدث فورم کے اصول و ضوابط میں یہاں ناشائستہ زبان، ایک دوسرے کے بارے بدگمانی اور سوئے ظن کے اظہار سے گریز کی درخواست کر رکھی ہے۔ آپس میں اختلاف ہو جانا یا غلط فہمی ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں اور ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ اگر یہ واقعی کوئی غلطی ہے تو ہم ضرور بالضرور تبصرہ کو اپ ڈیٹ بھی کر دیں گے اور اس کی نشاندہی پر آپ کے مشکور بھی رہیں گے۔ اور اگر کسی جگہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے تو مناسب الفاظ میں وضاحت بھی کر دی جائے گی۔ بات ختم ۔ اس کو لے کر ہماری وضاحت سننے سے قبل ہی دیگر فورمز پر بھی آپ نے یہی تحریر لکھ دی ہے جو کہ مناسب نہیں۔
ہمیں آپ جیسے وسیع مطالعہ کے حامل بھائیوں سے بہت امید ہے کہ ہماری انجانے میں کی جانے والی غلطیوں پر ہماری گرفت کر کے اصلاح کرتے رہیں گے۔ اور یہ محفل بھی افہام و تفہیم ہی کے لئے قائم کی گئی ہے نا کہ آپسی اختلافات کو فروغ دینے کے لئے۔ امید ہے کہ آپ ان گزارشات کا برا نہیں منائیں گے۔ اور ہمارے اس مقصد میں ہمارے ساتھ بھرپور تعاون فرمائیں گے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
لب و لہجہ کا دوسروں کو طعن دیتے ہیں اپنی خبر نہیں لیتے ۔
ہم یہ بات کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض علما جب شیخ البانی رحمہ اللہ کا رد کرتے ہیں تو انتہائی غلط انداز اپناتے ہیں اللہ رب العزت ہم سب کی اصلاح فرمائے ۔
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
محترم اہل الحدیث بھائی،
آپ کے اعتراضات کے جوابات تو اہل علم دیں گے۔ لیکن آپ کی لینگویج پر آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔






آپ کی شکایت اپنی جگہ پر اور اعتراضات بھی بجا۔ لیکن بھائی جان، اپنے ہی بھائیوں اور خصوصیت سے علمائے کرام کے لئے یہ الفاظ اور لہجہ تو بہت تحقیر آمیز محسوس ہوتا ہے۔ ہم نے وضاحت سے محدث فورم کے اصول و ضوابط میں یہاں ناشائستہ زبان، ایک دوسرے کے بارے بدگمانی اور سوئے ظن کے اظہار سے گریز کی درخواست کر رکھی ہے۔ آپس میں اختلاف ہو جانا یا غلط فہمی ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں اور ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ اگر یہ واقعی کوئی غلطی ہے تو ہم ضرور بالضرور تبصرہ کو اپ ڈیٹ بھی کر دیں گے اور اس کی نشاندہی پر آپ کے مشکور بھی رہیں گے۔ اور اگر کسی جگہ آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے تو مناسب الفاظ میں وضاحت بھی کر دی جائے گی۔ بات ختم ۔ اس کو لے کر ہماری وضاحت سننے سے قبل ہی دیگر فورمز پر بھی آپ نے یہی تحریر لکھ دی ہے جو کہ مناسب نہیں۔
ہمیں آپ جیسے وسیع مطالعہ کے حامل بھائیوں سے بہت امید ہے کہ ہماری انجانے میں کی جانے والی غلطیوں پر ہماری گرفت کر کے اصلاح کرتے رہیں گے۔ اور یہ محفل بھی افہام و تفہیم ہی کے لئے قائم کی گئی ہے نا کہ آپسی اختلافات کو فروغ دینے کے لئے۔ امید ہے کہ آپ ان گزارشات کا برا نہیں منائیں گے۔ اور ہمارے اس مقصد میں ہمارے ساتھ بھرپور تعاون فرمائیں گے۔
شاکر بھائی آپ کی باتیں بجا لیکن میں نے صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور لب و لہجہ ممکنہ حد تک نارمل رکھا ہے لیکن ذرا آپ کتاب کے تعارف پر نظر ڈالیے۔ آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا شیخ زبیر حفظہ اللہ سے کتنی نانصافی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور پھر حقائق کو بھی مسخ کر دیا گیا ہے۔ اگر شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے انداز تحقیق اور اصول سے کوئی ناواقف ہے تو اس میں شیخ کا کیا قصور؟ یہ تو اس بندے کی کم علمی ہے کہ جو ان تمام باتوں کو یا تو صحیح طرح سمجھ نہیں سکا یا پھر صحیح طرح پیش نہیں کر سکا۔ باقی رہ گیا اسلوب بیان تو یہاں جو بھی احباب شیخ کے خلاف لکھ رہے ہیں، ذرا ان کے اسلوب پر بھی ایک بار نظر ڈال لیں۔ یہ تعارف کھلم کھلا جانبداری کا مظہر نظر آتا ہے۔ جس کا مقصد شیخ کی کتاب کی اہمیت اجاگر نہیں کرنا بلکہ یہ لگتا ہے کہ شیخ اپنی تحقیق میں شذوذ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تحقیق میں شیخ البانی رحمہ اللہ سے اختلاف کوئی جرم عظیم ہے کیا؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اہل الحدیث بھائی جان، آپ کو غالباً غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہاں ادارہ محدث میں کوئی شیخ زبیر حفظہ اللہ کی علمی خدمات سے ناواقف ہے یا اس کو اہمیت نہیں دیتا یا ان سے شدید اختلافات رکھتا ہے۔ محترم بھائی، ایسی ہرگز کوئی بات نہیں۔ بلکہ محدث رسالہ کے پرانے شماروں کی تکمیل کے بعد ہمارا ارادہ الحدیث حضرو کو بھی اپ لوڈ کرنے کا ہے الحمدللہ۔ پھر شیخ زبیر حفظہ اللہ کی کتب بھی غالباً سب سے زیادہ ہماری سائٹ پر ہی پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ منفی تاثر لینا بالکل درست نہیں۔ ہاں اہل اعلم کا آپسی اختلاف ہوتا ہے اور دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے اس پر کوئی ایک دوسرے کو نکیر نہیں کرتا۔
میں نے بار بار تبصرہ کو پڑھا ہے اور اس پر آپ کے اعتراضات کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے۔ میرے خیال میں تحقیق کو کامران طاہر صاحب کی طرف سہواً منسوب کردیا گیا ہے۔ لیکن اس بنیاد پر آپ کے تحقیق کے سلسلے میں اعتراضات غلط ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ صاحب تبصرہ تو اپنی طرف سے تحقیق کو کامران طاہر صاحب کی طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض کر رہے ہیں نہ کہ شیخ زبیر حفظہ اللہ پر۔
تبصرہ میں درج ذیل اعتراضات مجھے ملے ہیں:
تخریج و تحقیق عمدہ ہے لیکن اگر تفسیر کے شروع میں محققین حضرات اپنا منہج تحقیق بیان کر دیتے تو ایک عامی کو استفادہ میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی
یہ بات بالکل درست ہے کہ منہج تحقیق کہیں بیان نہیں ہوا۔

بعض مقامات پر ایک عامی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جیسا کہ پہلی جلد میں ص ۳۷ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’صحیح‘ قرار دیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔اسی طرح ص ۴۲ پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اسے ضعیف کہنا غلط ہے۔ اب یہاں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کس نے ضعیف کہا ہے اور کن وجوہات کی بنا پر کہا ہے اورضعیف کے الزام کے باوجود صحیح ہونے کی دلیل کیا ہے ؟
تفسیر ابن کثیر کے صفحہ 37 پر عبارت یہ ہے:
شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے (صحیح ترمذی: 2746) لیکن اس کی سند منقطع ہے۔
صفحہ 42 کی عبارت یہ ہے:
نسائی ، کتاب الافتاح، باب قراءاۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ۹۰۶، ابن خزیمۃ: ۴۹۹، ابن حبان: ۱۷۹۷، حاکم: ۲۳۷/۱۔ اس روایت کی سند صحیح ہے اسے ضعیف کہنا غلط ہے۔
اب تبصرہ دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ دونوں باتیں بالکل درست ہیں۔ اور اس میں کہیں یہ بیان نہیں ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا یا اختلاف کرنا غلط ہے۔ یہاں صرف عامی کی الجھن کا بیان ہے کہ حدیث کے صحیح ہونے کی وضاحت موجود نہیں ہے جیسا کہ اسی تفسیر میں دیگر مقامات پر احادیث کی صحت کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ یعنی البانی صاحب سے اختلاف کو پوائنٹ آؤٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ اس اختلاف کی دلیل اس جگہ پر بیان نہیں کی گئی ، یہ چیز تبصرہ میں لکھی گئی ہے اور بس!

اسی طرح ص ۴۳پر ایک روایت کے بارے لکھا ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ان مقامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محققین نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ اپنی تحقیق کی ہے جبکہ ایک عام قاری اس وقت الجھن کا شکار ہو جاتا ہے جب وہ اکثر مقامات پر یہ دیکھتا ہے کہ کسی روایت یا اثر کی تحقیق میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح وتضعیف نقل کر دی جاتی ہے اور یہ وضاحت نہیں کی جاتی ہے کہ محققین نے ان مقامات پرمحض علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا ہے یا اپنی بھی تحقیق کی ہے اور اگر اپنی بھی تحقیق کی ہے تو ان کی تحقیق اس بارے علامہ البانی رحمہ اللہ سے متفق ہے یا نہیں ؟یہ ایک الجھن اگر اس تفسیر میں شروع میں منہج تحقیق پر گفتگو کے ذریعہ واضح ہو جاتی تو بہتر تھا۔
عام قاری کی جو الجھن یہاں بیان کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے کیونکہ منہج تحقیق واضح نہیں کیا گیا۔ مبصر نے کہیں بھی کوئی ایسے الفاظ نہیں لکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ علامہ البانی رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ یا محققین نے اختلاف کر کے کوئی جرم کیا ہے ، وغیرہ۔ دونوں مقامات پر عامی کی الجھن بیان کی گئی ہے جو بالکل درست ہے۔ اور اس تبصرہ کا مرکزی نقطہ محققین کا البانی رحمہ اللہ کی تحقیق سے اختلاف نہیں بلکہ اپنے منہج تحقیق کی عدم وضاحت ہے۔
غالباً اسی بنیاد پر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ ورنہ آپ کسی بھی عامی سے یہ عبارت پڑھوا لیں۔ اس کو شیخ زبیر حفظہ اللہ کی شان میں گستاخی نظر نہیں آئے گی اور جبکہ مبصر تو سہواً محقق بھی کامران طاہر صاحب کو سمجھ رہے تھے تو کوئی موہوم سا اشارہ بھی حافظ زبیر حفظہ اللہ کی طرف جاتا نظر نہیں آتا۔

باقی رہ گیا اسلوب بیان تو یہاں جو بھی احباب شیخ کے خلاف لکھ رہے ہیں، ذرا ان کے اسلوب پر بھی ایک بار نظر ڈال لیں۔
محترم، انتظامیہ کے کسی فرد نے شیخ زبیر حفظہ اللہ کے خلاف کچھ نہیں لکھا ہے اور یہ تبصرہ انتظامیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ دونوں علیحدہ باتیں ہیں۔۔! اسلوب بیان جس کا بھی غلط ہو اس کی اصلاح کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے اور کی جاتی رہے گی ، ان شاءاللہ۔بہرحال عمل ہو یا رد عمل دونوں صورتوں میں اخلاقیات کی پاس داری ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب بھائیوں کو اتفاق و اتحاد سے رہنے کی توفیق دے اور ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات دل میں رکھنے اور ہمہ وقت اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
 

shahzad

رکن
شمولیت
مارچ 17، 2011
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
144
پوائنٹ
42
اسلام و علیکم! میرے خیال میں اہل الحدیث بھائی نے کوئی ایسی نا زیبا گفتگو نہیں کی بلکہ صرف ما ہا نامہ محدث والوں کی کچھ اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔اور جو کہ ہیں بھی قابل غور طلب۔
لیکن جیسا کہ الحسینی بھائی نے کہا کہ
لب و لہجہ کا دوسروں کو طعن دیتے ہیں اپنی خبر نہیں لیتے ۔
ہم یہ بات کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ بعض علما جب شیخ البانی رحمہ اللہ کا رد کرتے ہیں تو انتہائی غلط انداز اپناتے ہیں
تو یہ میرے خیال میں ایک غلط با ت ہے ۔ کیونکہ الحسینی بھا ئی! میرا نہیں خیال کہ شیخ زبیر علی صاحب نے شیخ البانی رحمہ اللہ کا رد کسی ذاتی وجہ یا دنیوی مقاصد کے لیے کیا ہو۔اوردوسرا یہ کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کبھی بھی ہمارے لیے 100 % authentic نہیں ہو سکتے چاہے ان کی تحقیق و تخریج میں کتنی ہی ایمانداری و اخلاص شامل کیوں نہ ہو۔ کیو نکہ یہ درجہ صرف انبیا ء و رسل کے لیے خا ص ہے۔اور باقی ھر انسان کی غلطی پر اس پے تنقید و جرح کی جا سکتی ہے۔اور یہی محدثین و ائمہ اکرام کا اصول ہے۔ اور اس تنقید کا قطعی مقصد کسی عالم دین یا شیخ الحدیث کی تذلیل و ملامت نہیں بلکہ دین کی اصل حقیقت سے آشنا ئی کو امت مسلماء میں اجاگر کر انا ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا بھی نہ ہو تو ہر زمانے میں مجدد دین کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رہا سوال شیخ البانی رحمہ اللہ کی عزت و تکریم اورشا ن و عظمت کا تو وہ میرے نزدیک اولیا اللہ رحمھم اللہ کی صف اول کے اراکین میں سے ہیں اور ان کے مقا م علم الحدیث کا تو میرے خیال بلکہ ایک کثیر العلم امت مسلما کے نزدیک پچھلی صدی میں پہلا نمبر ہے۔ لیکن دوسری طرف شیخ زبیر علی صاحب نے جو ابھی تک دین کی خدما ت سر انجام دی ہیں وہ بھی اتنی ذیادہ قا بل فخر ہیں کہ ان کا اخاطہ بھی شا ید نا ممکن و دو بھرہے۔
اس لیے جب تک تحقیق جاری رہے گی تنقید چونکہ اس کا ملزوم ہے وہ بھی اس کے ساتھ جاری رہے گی۔یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر چیز کا دارومدار اخلاص نیت پر ہوتا ہے۔
جزا کم اللہ خیرا
 

shahzad

رکن
شمولیت
مارچ 17، 2011
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
144
پوائنٹ
42
اسلام و علیکم! شا کر بھا ئی آپ کے جواب پہ دل پر مسرت ہو گیا۔ اللہ ہم سب کو اتفاق و مصلحت اور دین کی صحیح کو پرکھنے، جاننے، اور پھر اس پے عمل کی توفیق دے۔ آمین
 

shahzad

رکن
شمولیت
مارچ 17، 2011
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
144
پوائنٹ
42
اور ہا ں اہل الحدیث بھائی آپ برا ئے مہربا نی دوسرے فورم پہ جا کے تر ش تبصرے سے پہلے اراکین محدث سے پہلے معاملے کی پوری طرح confirmation ضرور کر لیا کریں۔ اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ںاصرہو۔
جزا کم اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بلکہ صرف ما ہا نامہ محدث والوں کی کچھ اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔اور جو کہ ہیں بھی قابل غور طلب۔
یہ غلطی - اگر یہ غلطی ہے تو - ’ماہنامہ محدث‘ والوں کی نہیں، بلکہ ’کتاب وسنت ڈاٹ کام‘ والوں کی ہے۔
میرا نہیں خیال کہ شیخ زبیر علی صاحب نے شیخ البانی رحمہ اللہ کا رد کسی ذاتی وجہ یا دنیوی مقاصد کے لیے کیا ہو۔اوردوسرا یہ کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کبھی بھی ہمارے لیے 100 % authentic نہیں ہو سکتے چاہے ان کی تحقیق و تخریج میں کتنی ہی ایمانداری و اخلاص شامل کیوں نہ ہو۔ کیو نکہ یہ درجہ صرف انبیا ء و رسل کے لیے خا ص ہے۔اور باقی ھر انسان کی غلطی پر اس پے تنقید و جرح کی جا سکتی ہے۔اور یہی محدثین و ائمہ اکرام کا اصول ہے۔
شاکر بھائی نے الحمد للہ! بہت بہتر انداز میں واضح کر دیا ہے کہ یہاں نہ تو علامہ البانی﷫ کی تنقیص مقصود ہے اور نہ ہی الشیخ زبیر علی زئی﷾ کی۔ دونوں حضرات ہی ہمارے لئے قابل صد احترام ہیں، جس کا ثبوت ’کتاب وسنت ڈاٹ کام‘ پر موجود دونوں علمائے کرام کی بہت سی کتب ہیں، اگرچہ دونوں میں سے کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں۔
 
Top