• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تحقیق اور حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ

شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
السلام علیکم!
ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ
ہم اہلحدیث ہیں اور اہلحدیث کے دو اصول اطیعواللہ واطیعوالرسول
دوسری طرف ہم ایک من پسند اہلحدیث عالم کی مداح اور تعریف میں اور ان کے دفاع کے نام پہ زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں
کیا یہ تقلید سے کچھ کم ہے یا پھر اس کو شخصیت پرستی کی انتہا سمجھا جائے؟
اگر ہم سمجھتے ہیں یہ کام بالکل بجا ہے تو ہمیں اپنا نعرہ بدلنا چاہیئے جو کہ یوں ہو
اہلحدیث کو تین اصول اطیعواللہ واطیعوالرسول ومحبت علماءاہلحدیث
ہمارے مہربان بھی کمال کرتے ہیں کسی پہ اعتراض کر کے اپنی علمیت کے جوہر دیکھانے ہوں تو تین سو سطور پہ مشتمل تھریڈ منٹوں میں تیار۔اور اس کے علاوہ کبھی جزاک اللہ خیرا سے زیادہ کی کوئی پوسٹ نہیں ملتی

اگر اصلاح ہی مقصود ہوتی تو یہ باتیں محدث کے کسی ذمہ دار کو ذاتی پیغام میں بھی بھیجی جاسکتی تھیں
یا اللہ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
اہل الحدیث بھائی جان، آپ کو غالباً غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہاں ادارہ محدث میں کوئی شیخ زبیر حفظہ اللہ کی علمی خدمات سے ناواقف ہے یا اس کو اہمیت نہیں دیتا یا ان سے شدید اختلافات رکھتا ہے۔ محترم بھائی، ایسی ہرگز کوئی بات نہیں۔ بلکہ محدث رسالہ کے پرانے شماروں کی تکمیل کے بعد ہمارا ارادہ الحدیث حضرو کو بھی اپ لوڈ کرنے کا ہے الحمدللہ۔ پھر شیخ زبیر حفظہ اللہ کی کتب بھی غالباً سب سے زیادہ ہماری سائٹ پر ہی پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ منفی تاثر لینا بالکل درست نہیں۔ ہاں اہل اعلم کا آپسی اختلاف ہوتا ہے اور دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے اس پر کوئی ایک دوسرے کو نکیر نہیں کرتا۔
میں نے بار بار تبصرہ کو پڑھا ہے اور اس پر آپ کے اعتراضات کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے۔ میرے خیال میں تحقیق کو کامران طاہر صاحب کی طرف سہواً منسوب کردیا گیا ہے۔ لیکن اس بنیاد پر آپ کے تحقیق کے سلسلے میں اعتراضات غلط ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ صاحب تبصرہ تو اپنی طرف سے تحقیق کو کامران طاہر صاحب کی طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض کر رہے ہیں نہ کہ شیخ زبیر حفظہ اللہ پر۔
تبصرہ میں درج ذیل اعتراضات مجھے ملے ہیں:

یہ بات بالکل درست ہے کہ منہج تحقیق کہیں بیان نہیں ہوا۔



تفسیر ابن کثیر کے صفحہ 37 پر عبارت یہ ہے:


صفحہ 42 کی عبارت یہ ہے:


اب تبصرہ دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ دونوں باتیں بالکل درست ہیں۔ اور اس میں کہیں یہ بیان نہیں ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا یا اختلاف کرنا غلط ہے۔ یہاں صرف عامی کی الجھن کا بیان ہے کہ حدیث کے صحیح ہونے کی وضاحت موجود نہیں ہے جیسا کہ اسی تفسیر میں دیگر مقامات پر احادیث کی صحت کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ یعنی البانی صاحب سے اختلاف کو پوائنٹ آؤٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ اس اختلاف کی دلیل اس جگہ پر بیان نہیں کی گئی ، یہ چیز تبصرہ میں لکھی گئی ہے اور بس!


عام قاری کی جو الجھن یہاں بیان کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے کیونکہ منہج تحقیق واضح نہیں کیا گیا۔ مبصر نے کہیں بھی کوئی ایسے الفاظ نہیں لکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ علامہ البانی رحمہ اللہ سے اختلاف کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ یا محققین نے اختلاف کر کے کوئی جرم کیا ہے ، وغیرہ۔ دونوں مقامات پر عامی کی الجھن بیان کی گئی ہے جو بالکل درست ہے۔ اور اس تبصرہ کا مرکزی نقطہ محققین کا البانی رحمہ اللہ کی تحقیق سے اختلاف نہیں بلکہ اپنے منہج تحقیق کی عدم وضاحت ہے۔
غالباً اسی بنیاد پر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ ورنہ آپ کسی بھی عامی سے یہ عبارت پڑھوا لیں۔ اس کو شیخ زبیر حفظہ اللہ کی شان میں گستاخی نظر نہیں آئے گی اور جبکہ مبصر تو سہواً محقق بھی کامران طاہر صاحب کو سمجھ رہے تھے تو کوئی موہوم سا اشارہ بھی حافظ زبیر حفظہ اللہ کی طرف جاتا نظر نہیں آتا۔


محترم، انتظامیہ کے کسی فرد نے شیخ زبیر حفظہ اللہ کے خلاف کچھ نہیں لکھا ہے اور یہ تبصرہ انتظامیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ دونوں علیحدہ باتیں ہیں۔۔! اسلوب بیان جس کا بھی غلط ہو اس کی اصلاح کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے اور کی جاتی رہے گی ، ان شاءاللہ۔بہرحال عمل ہو یا رد عمل دونوں صورتوں میں اخلاقیات کی پاس داری ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب بھائیوں کو اتفاق و اتحاد سے رہنے کی توفیق دے اور ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات دل میں رکھنے اور ہمہ وقت اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
چلیں آپ کی بات ہی مان لیتے ہیں کہ وہ کامران طاہر صاحب کے حوالے سے بات کر رہے ہیں لیکن اب اس کا حل کیا ہے؟ کیا صاحب تبصرہ تحقیق کو شیخ زبیر کی طرف موسوم کرنے کے بعد تحقیق کے حوالے سے اپنا تبصرہ ہٹائیں گے؟ کیونکہ وجہ ضعف تو شیخ زبیر پہلے ہی بیان کر چکے۔ اب ان روایات کا ذکر کرنا بنتا ہی نہیں۔
دوسرا یہ کہ شیخ پر اعتراضات اگر انتظامیہ کے افراد نہیں کر رہے تو انتظامیہ کی ناک کے نیچے جو لوگ کر رہے ہیں کیا انتظامیہ ان کو تنبیہ نہیں کر سکتی؟
تیسرا اگر کسی بھائی کو یہ اعتراض ہو کہ میں کس انداز میں لکھ رہا ہوں تو انہیں قابل احترام شیوخ کو بلادلیل اپنے قلم کا نشانہ بناتے وقت سوچنا چاہیے۔
ویسے مجھے حیرانی ہے کہ اتنی اہم کتاب جس پر صاحب تبصرہ نے مضمون لکھ مارا ، کتاب کے ٹائیٹل پر نظر نہیں ڈالی۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت کی راہ پر گامزن فرمائے۔ آمین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
کیونکہ وجہ ضعف تو شیخ زبیر پہلے ہی بیان کر چکے۔ اب ان روایات کا ذکر کرنا بنتا ہی نہیں۔
محترم بھائی ، ازراہ کرم اس کا کوئی حوالہ بتا دیجئے کہ ان دونوں بلکہ تینوں احادیث جن کا ذکر تبصرہ میں ہے ان کی وجہ ضعف یا وجہ صحت پہلے کہاں بیان کی گئی ہے؟
جزاکم اللہ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
1۔ شکوہ تو یہ ہے کہ اگر ہم سے کوئی سہو یا خطا ہوئی بھی تھی توہمارے اہل الحدیث بھائی نے ہمیں ذاتی پیغام بھیجنے یا کسی اور ذریعہ سے توجہ دلانے کی بجائے اوپن فورم میں ایک بحث کاآغاز کر دیا۔اس سے پہلے بھی ادارہ کو کئی ایک ساتھیوں کی طرف سے کچھ کتابوں کے تبصرہ کے حوالہ سے جب توجہ دلائی گئی تو ادارہ نے ان حضرات کے اس توجہ دلانے کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان تبصرہ جات میں تبدیلیاں کر کے انہیں دوبارہ اپ لوڈ بھی کیا۔اگر آپ بھی ہمیں ذاتی پیغام بھیج دیتے تو ہم آپ کی توجہ دلانے پر اس تبصرہ میں کچھ تبدیلی کر کے اسے اپ لوڈ کردیتے۔ اس عمل کو دین اسلام کی نظر میں اصلاح کہتے ہیں۔
2۔ ہمارے اہل الحدیث ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے ہم صرف نماز میں احادیث پر عمل کرتے ہیں بلکہ اہل الحدیث ہونے کاہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم 24 گھنٹوں میں ہر معاملہ میں حدیث وسنت کی اتباع کریں۔’ غلطیوں کی اصلاح کا نبوی طریق کار‘ شیخ صالح المنجد کی کتاب ہے، جس کا ہم میں سے ہر اس شخص کو مطالعہ کرنا چاہیے جو مصلح ہے یا مصلح بننا چاہتا ہے۔
3۔اہل الحدیث بھائی کی تمام باتیں سوائے ایک بات کے ان کی غلط فہمیاں ہیں اور یہ غلط فہمیاں لا حق ہو جاتی ہیں جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین میں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔ہمارے خیال میں ہمارے بھائی کو ان معاملات میں کسی سوئے ظن کی بجائے کہ جس سے قرآن نے منع کیا ہے، ادارہ سے حسن ظن رکھنا چاہیے تھا کہ جس کا ہر مسلمان سے تقاضا ہے۔ادارہ نہ تو حافظ زبیر علی زئی صاحب کا مخالف ہے اور نہ ہی علامہ البانی رحمہ اللہ کا مقلد۔ دونوں حضرات کے اختلافات میں ادارہ کی اپنی ایک علمی رائے ہوتی ہے اور ادارہ اسکا اظہار گاہے بگاہے کرتا رہتا ہے۔حسن لغیرہ کے معاملہ میں ادارہ کی طرف سے فوری طور پر کوئی موقف پیش نہ کرنے میں یہی حکمت تھی کہ جذباتی نوجوان ادارہ کو ایک فریق بنا کر تنقید کرناشروع کر دیں گے۔ بہر حال علم کی دنیا جذبات کی دنیا نہیں ہے ۔ یہاں آپ کو کسی سے اختلاف ہوتا ہے اور کسی سے اتفاق، اور یہی حقیقت ہے۔
4۔ جس بات میں اہل الحدیث بھائی حق بجانب ہیں، وہ یہ ہے کہ ’تحقیق‘ میں حافظ زبیر علی زئی صاحب کا نام نہیں دیا ۔ اس سہو یا خطا کی ادارہ کی طرف سے جلد ہی تصحیح کر دی جائے گی اور تبصرہ دوبارہ اپ لوڈ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ !
5۔ تبصرہ نگار نے اپنے تبصرہ میں صرف ایک عامی کی الجھن کو سامنے رکھ کر بات کی ہے اور کسی کی شخصیت پر عیب لگاناتبصرہ نگار کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوگا۔ ویسے بھی یہ تبصرہ نثر میں ہوتا ہے نہ کہ غالب کی شاعری میں ، کہ جس میں ہم اشارۃ النص یا دلالت اولی یافصاحت و بلاغت کے نکتے تلاش کر کے اپنے ذہن میں بیٹھے ہوئے ایک مفہوم کو تبصرہ نگار کی طرف منسوب کریں۔
6۔ اگرچہ ہم اس کتاب کا تبصرہ اس کے ظاہری ٹائیٹل کے مطابق صحیح کر دیں گے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص اس محقق تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کرتا ہے اور اس شخص کا علم وتحقیق سے کچھ واسطہ رہا ہے یعنی وہ تحقیق کے میدان کا آدمی ہے تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کی دو دفعہ تحقیق ہوئی ہے ۔ پہلی دفعہ کسی صاحب نے محنت کی ہے اور ایک منہج کے ساتھ روایات پر حکم لگایا ہے اور دوسری دفعہ کسی صاحب نے نظرثانی کرتے ہوئے اس تحقیق میں کچھ مقامات پراپنے منہج کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔ یوں اس کتاب کی تحقیق میں دو مناہج کے تحت تحقیق ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر عبارتیں الجھن کا شکار ہیں۔ اسی لیے غالبا تبصرہ نگار نے یہ الفاظ استعمال کیے:
جناب کامران طاہر صاحب نے اس تفسیر کی مکمل تخریج وتحقیق کی ہے اور حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اس تخریج وتحقیق پر نظر ثانی کی ہے۔تخریج و تحقیق عمدہ ہے لیکن اگر تفسیر کے شروع میں محققین حضرات اپنا منہج تحقیق بیان کر دیتے تو ایک عامی کو استفادہ میں نسبتاً زیادہ آسانی ہوتی
بہر حال تبصرہ نگار کے یہ الفاظ ٹائیٹل پیچ کے مطابق نہیں ہیں اگرچہ کتاب کا اسلوب بیان ان الفاظ کی تائید کرتا ہو۔ حکم تو ظاہر پر ہی لگایا جائے گا ۔ اس لیے ہم اس تبصرہ میں تبدیلی کر دیتے ہیں ۔ لیکن میری ذاتی طور پریہ شدید خواہش ہے کہ اگر کسی طرح حافظ زبیر علی زئی صاحب سے کوئی ہمارے دوست یہ معلوم کر سکیں کہ انہوں نے تحقیق پر تحقیق کی ہے یا یہ صرف انہی کی ابتداءاتحقیق ہے تا کہ معاملہ عوام الناس کے لیے کلیئر ہو سکے ۔
واللہ اعلم بالصواب
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
السلام علیکم!
ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ
دوسری طرف ہم ایک من پسند اہلحدیث عالم کی مداح اور تعریف میں اور ان کے دفاع کے نام پہ زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں
کیا یہ تقلید سے کچھ کم ہے یا پھر اس کو شخصیت پرستی کی انتہا سمجھا جائے؟
اگر ہم سمجھتے ہیں یہ کام بالکل بجا ہے تو ہمیں اپنا نعرہ بدلنا چاہیئے جو کہ یوں ہو
ہمارے مہربان بھی کمال کرتے ہیں کسی پہ اعتراض کر کے اپنی علمیت کے جوہر دیکھانے ہوں تو تین سو سطور پہ مشتمل تھریڈ منٹوں میں تیار۔اور اس کے علاوہ کبھی جزاک اللہ خیرا سے زیادہ کی کوئی پوسٹ نہیں ملتی

اگر اصلاح ہی مقصود ہوتی تو یہ باتیں محدث کے کسی ذمہ دار کو ذاتی پیغام میں بھی بھیجی جاسکتی تھیں
یا اللہ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے
محترم باطل شکن صاحب۔۔۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا تعلق کس مکتبہ فکر سے ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض کر دوں کہ صحیح بات پر کسی کی حمایت و تعریف بری بات نہیں، ہاں اگر بات بھی غلط ہو اور پھر آپ اس پر دھونس جما کر کہیں کہ یہی ٹھیک ہے تو وہ شخصیت پرستی اور تقلید کہلاتی ہے۔ امید ہے کہ آپ میری بات کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
6۔ اگرچہ ہم اس کتاب کا تبصرہ اس کے ظاہری ٹائیٹل کے مطابق صحیح کر دیں گے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص اس محقق تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کرتا ہے اور اس شخص کا علم وتحقیق سے کچھ واسطہ رہا ہے یعنی وہ تحقیق کے میدان کا آدمی ہے تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کی دو دفعہ تحقیق ہوئی ہے ۔ پہلی دفعہ کسی صاحب نے محنت کی ہے اور ایک منہج کے ساتھ روایات پر حکم لگایا ہے اور دوسری دفعہ کسی صاحب نے نظرثانی کرتے ہوئے اس تحقیق میں کچھ مقامات پراپنے منہج کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔ یوں اس کتاب کی تحقیق میں دو مناہج کے تحت تحقیق ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر عبارتیں الجھن کا شکار ہیں۔ اسی لیے غالبا تبصرہ نگار نے یہ الفاظ استعمال کیے:

بہر حال تبصرہ نگار کے یہ الفاظ ٹائیٹل پیچ کے مطابق نہیں ہیں اگرچہ کتاب کا اسلوب بیان ان الفاظ کی تائید کرتا ہو۔ حکم تو ظاہر پر ہی لگایا جائے گا ۔ اس لیے ہم اس تبصرہ میں تبدیلی کر دیتے ہیں ۔ لیکن میری ذاتی طور پریہ شدید خواہش ہے کہ اگر کسی طرح حافظ زبیر علی زئی صاحب سے کوئی ہمارے دوست یہ معلوم کر سکیں کہ انہوں نے تحقیق پر تحقیق کی ہے یا یہ صرف انہی کی ابتداءاتحقیق ہے تا کہ معاملہ عوام الناس کے لیے کلیئر ہو سکے ۔
واللہ اعلم بالصواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محترم ابو الحسن علوی بھائی
آپ نے جو اوپر تبصرہ فرمایا ہے وہ صرف آپکا زعم ہے جس کی آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ اور کتاب کا اسلوب بیان بھی آپ کے ذکر کردہ الفاظ کی تائید نہیں کرتا۔ بلکہ آپ کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ صاحب تبصرہ کے "سہو" کو حیلوں سے درست قرار دے رہے ہیں جب کہ "حقیقت" اس کے برعکس ہے۔ آپ کی اوپر بیان کردہ خواہش پوری ہو چکی ہے اور اس کتاب پر دو آدمیوں کی یکے بعد دیگرے تحقیق والی بات غلط ہے جب کہ اصل بات یہی ہے کہ اس کتاب کی تحقیق صرف ایک ہی شخص نے کی ہے۔ اس لیے آپ براہ کرم ان باطنی تاویلات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ظاہر اور حقیقت کا اعتبار کریں اور ایک شخص کی محنتوں کو یوں ضائع نہ کریں۔ جس شخص کو ابھی بھی اس حوالے سے کچھ اشکالات ہوں، وہ اپنے ذرائع سے تحقیق کر لے۔

جہاں تک محترم شاکر بھائی کی بات کا تعلق ہے تو شاکر بھائی میں ایک ایک روایت کے متعلق عرض کر دوں کہ وجہ ضعف پہلے ہی بیان کی جا چکی ہے۔
1-صفحہ 37 پر وجہ ضعف "سند کا انقطاع" ہے۔ جس کی وضاحت امام ابن کثیر خود بھی تفسیر میں کر چکے ہیں۔ ذرا نمبر 7 سے آگے کی عبارت پڑھ لیں، وجہ ضعف معلوم ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
2-میں نے صفحہ 42 والی روایت کا تذکرہ نہیں کیا لیکن آپ کے ذکر پر یہ عرض کرتا چلوں کہ اس روایت کی مفصل تحقیق شیخ صاحب نے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام میں صفحہ 318 پر درج کی ہے اور اس کے علاوہ القول المتین فی الجھر بالتامین کے صفحہ 24 اور 25 پر ذکر کی ہے۔ اس کو شاذ کہنے والے صاحب "زیلعی حنفی" ہیں۔ تفسیر ابن کثیر کا یہ منہج اور اسلوب نہیں ہے اور نہ ہی اتنی تفصیل کی وہاں ضرورت ہے۔
3-صفحہ 43 کی روایت میں وجوہ ضعف کھل کر بیان کی گئی ہیں اور وہ کسی مزید تفصیل کی محتاج نہیں ہیں۔

لہذا صاحب تبصرہ اور شاکر بھائی کے اعتراضات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔


تنبیہ: اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی شخصیت پرستی کی طرف مائل ہوں یا ان کے حوالے سے بہت جذباتی ہوں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ہم کتاب و سنت کی خدمت کی بنا پر ان سے محبت ضرور کرتے ہیں اور ان کی طرف منسوب اعتراضات اور جھوٹی باتوں کا کما حقہ جواب بھی دیتے ہیں لیکن ہم قطعا" ان کے مقلد نہیں ہیں۔ اگر کسی صاحب کو شوق ہو ان کی تحقیق پر "تحقیق" کرنے کا تو شوق سے کرے لیکن وہ تحقیق دلائل کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ دلوں کا غبار اور پرانی دشمنیاں نکالی جائیں۔

امید ہے کہ میری بات احباب کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔
والسلام
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سب علماء سے میرا ایک مشورہ ہے کہ مسائل کو الجھانے سے بہتر ہے کہ اس کے حل کی طرف قدم بڑھایا جائے۔اس فورم میں جس کسی مسئلہ میں کسی بھی بھائی کو اختلاف ہو۔وہ اس کی وجہ بیان کرے کہ اس وجہ سے میں آپ سے اختلاف کررہا ہوں۔جب اختلاف سامنے آجائے تو پھر دلائل وبراہین اور صلح وصفائی سے اختلاف کو مٹانے کی طرف بڑھنا چاہیے۔
کیونکہ یہ علمی و اصلاحی فورم کی ساتھ تحقیقی میدان میں آزادانہ بحث کا حامی فورم ہے۔
برائے مہربانی فورم کے مقصد کو نظر سے اوجھل نہ کیا جائے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سب لوگ کتنے آرام اور پیار سے بات کر رہے ہیں۔ اور اہل الحدیث بھائی آپ اپنے الفاظ کو دیکھیں۔قسم سے جو ذرا بھی عاجزی آئی ہو۔ حالانکہ آپ کی غلطی بھی عیاں ہو گئی ہے کہ شیخ زبیر صاحب کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ لیکن مجال ہے جو آپ نے ایک دفعہ بھی نظر ثانی کرتے ہوئے نامناسب الفاظ پر معافی کا سوچا بھی ہو۔ چھری کی سی کاٹ رکھنے والے الفاظ ہیں آپ کے۔ ہر پوسٹ میں آپ کا طرز خطاب کافی سخت ہے۔ کہ جن سے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ پتہ نہیں مزید بات کریں تو کس انداز میں حقارت سے جواب ملے۔ مجھے نہیں معلوم آپ عالم ہیں یا نہیں۔ لیکن آپ کے مخاطبین میں عالم ضرور موجود ہیں۔ لیکن آپ کا غرور علم ایسا ہے کہ ابھی آخری پوسٹ میں بھی آپ شیخ ابو الحسن علوی صاحب کیلئے آپ باطنی تاویلات، حیلے، زعم، بلا دلیل جیسے الفاظ براہ راست مخاطب کر کے کہہ چکے ہیں۔ جبکہ انہوں نے کتنے اخلاق سے آپ سے گفتگو کی ہے۔ وہ آپ کی کئی غیر اخلاقی حرکتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اسے غلط فہمی قرار دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو بھی ایسی غلط فہمیاں ہو گئی تھیں۔ اور دوسری طرف آپ ہیں کہ ایک کے بعد ایک کر کے غیر اخلاقی باتیں کئے جا رہے ہیں۔
محترم، معاف کیجئے گا، لیکن آپ جیسے حضرات ہی ہیں جو شیخ زبیر صاحب جیسے اہل علم حضرات کی توہین کرتے اور کرواتے ہیں۔ اللہ سب سے پہلے مجھے ہدایت دے اور اپنی اصلاح کی توفیق دے اور پھر آپ کو بھی۔

(راجا بھائی! انڈر لائن الفاظ آپ کی اجازت کی بغیر بدل دئیے ہیں، اس اعتماد کے ساتھ کہ ان شاء اللہ آپ مائنڈ نہیں کریں گے۔ انس نضر)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
آپ کی اوپر بیان کردہ خواہش پوری ہو چکی ہے اور اس کتاب پر دو آدمیوں کی یکے بعد دیگرے تحقیق والی بات غلط ہے جب کہ اصل بات یہی ہے کہ اس کتاب کی تحقیق صرف ایک ہی شخص نے کی ہے۔
بھائی میں نے خواہش کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن اہل الحدیث کے ہاں بھی خبر ایسے نقل ہوتی ہے، میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ آپ اس خبر کی سند زبیر علی زئی صاحب تک پہنچائیں ۔ راویوں کے نام بتلائیں اور زبیر علی زئی صاحب کی کوٹیشن ان کے الفاظ میں نقل کریں کہ انہوں نے کیا کہا ہے ۔ اگر آپ کی بذاتہ بات ہوئی تو بتلائیں کہ شیخ صاحب نے کیا فرمایا ہے اور ان کے کیا الفاظ تھے؟۔
شیخ صاحب سے متعین سوال یہ کرنے کا ہے کہ جس تفسیر ابن کثیر پر شیخ صاحب نے تحقیق کی ہے کیا ان کے علم کے مطابق اس تفسیر پر کامران طاہر پہلے کچھ یا مکمل تحقیق کر چکے تھے؟
آپ اس سوال کا جواب شیخ صاحب کے الفاظ میں نقل کر دیں ، یہاں کم ازکم میں تو آپ سے دل وجان سے معذرت کرنے کو تیار ہوں اور اگر میرے کسی بیان سے آپ کو کوئی ذہنی اذیت پہنچی ہو تو اس کا ہرجانہ دینے کو بھی تیار ہوں۔لیکن یہ سوال انہی الفاظ میں شیخ صاحب سے کریں اور براہ راست اس کا جواب نقل کر کے دیں۔
اس طرح کے اسلوب بیان سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی’’ کہ تحقیق والی بات غلط ہے‘‘۔
مقصود آپ کو ہرانا نہیں ہے لیکن ایک نتیجے تک پہنچانا ہے ۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

shahzad

رکن
شمولیت
مارچ 17، 2011
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
144
پوائنٹ
42
السلام و علیکم اھل الحدیث اور شاکر و دیگر قابل عزت علما اکرام بھائیو! میرے خیال میں اب اس بخثِ طویل جو کہ شد و مد کے ساتھ جاری ہے اس کو منزلِ مقصود تک پہنچا دینا ہی مناسب ہو گا۔کیو نکہ دونوں اطراف سے اثبات اب کافی و شافی ہو چکے۔مزید صرف ایسی بخث ہونے کا خدشہ ہے جس کا شاید اخلاص سے پھر تعلق ابلیس کی سپرد نظر نہ ہو جائے۔ایک لحاظ سے ایسی بخث سود مند ہے کیو نکہ اس طرح اصلیت کے پردے چاک ہو کر تمام بھائیوں کے سامنے آجاتے ہیں۔اور کسی بھائی کی اگر غلطی ہو (چاہے تو وہ معترض ہو یا اعتراض کرنے والا) اس کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے اور دل کی صفائی بھی۔ لیکن اس کی ایک حد خیر ہونا بہت ضروری ہے،جو کہ طوالت سے پاک ہو ۔
اس لیے میری اب دونو اطراف کے علما حق (اھل الحدیث بھئی اور اراکین کتاب و سنت)سے التماس ہے کہ وہ اب اس بحث پہ حتمی اور برائے کرم تفہیمی اور خصوصًا مختصر comments دے کر اس موضوع سے فراغت حاصل کریں۔اور ہاں اگر "اس سفرعشق میں طوالت کا لطف کچھ اور" کے مصداق آپ اس بخث کو جاری و ساری ہی رکھنا چاہتے ہیں, تو "مخفل کے مقاصد کچھ اور بھی ہیں عادل" برائے کرم آپ one to one ہو جائیے تاکہ یہاں باقی موضوعات پہ بھی توجہ مبذول کرنے کا وقت میسر آسکے۔اور ویب سائٹ کے اصل مشن(یعنی قرآن و صحیح سنت) کواخلاق و محبت اور اخلاص نیت سے آگے بڑھایا جا سکے۔
اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معزرت چا ہتا ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا
 
Top