• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول فقہ کا تجزیاتی مطالعہ

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
احناف کے اصول کی روح یہ ہے کہ امام صاحب کی رائے کو ہر طرح دلائل کے ساتھ ثابت کیا جائے جبکہ اہل حدیث کا ہاں یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا آزادانہ مطالعہ کیا جائے جو براہ راست طور پر شریعت سے سمجھ آئے اسے ہی شرع قرار دیا جائے
یہ روح بہت وسعت اختیار کرلے تو امام صاحب سے آگے بڑھ کر ائمہ احناف تک پہنچ جاتی ہے ۔
تقلید شخصی کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف اپنے مسلک کے اکابریں کے فہم قرآن و حدیث کے مطابق زندگي گذاریں اور اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق قرآن و حدیث سے ایسے مسائل نہ اخذ کریں جو ہمارے مسلک کے اکابرین کی فہم سے ٹکرائے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
دلیل اصول کرخی کا یہ اصول:
28-الْأَصْلُ: أَنَّ كُلَّ آيَةٍ تُخَالِفُ قَوْلَ أَصْحَابِنَا فَإِنَّهَُا تُحْمَلُ عَلَى النَّسْخِ أَوْ عَلَى التَّرْجِيْحِ.وَالْأَوْلَ ى أَنْ تُحْمَلَ عَلَى التَّأْوِيْلِ مِنْ جِهَةِ التَّوْفِِيْقِ.
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سرفراز فیضی صاحب!
آپ میرے اس مراسلہ کا ایک مرتبہ بغورمطالعہ کرلیں
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-ابوالحسن-کرخی-کے-ایک-اصول-پر-اعتراض-کا-جواب.2883/
اوراس کے بعدبھی اگرتشفی نہ ہوتواپنے اعتراض پیش کریں۔
مجھے تشفی نہیں ہوئی ۔
اصل میں احناف کا رویہ اس اصول کی تائید کرتا ہے ۔ اس تائید کے مقابلہ میں آپ کی تاویل بہت کمزور ہے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی سے اس طرح کی بات پر بڑی حیرت ہے۔
مجھے تشفی نہیں ہوئی
آپ نے تشفی نہ ہونے کی بات کہی ۔لیکن تشفی کیوں نہیں ہوئی۔ اس مضمون میں آپ کو کہاں کہاں جھول نظرآیا۔کہاں کہاں آپ کو لگاکہ مضمون نگار نے علمی خیانت کی ہے اورصحیح حوالے پیش نہیں کئے ہیں۔ صرف تشفی نہ ہونے کی بات کہنااصولی اورعلمی لحاظ سے ناقابل قبول ہے جب تک تشفی نہ ہونے کی مکمل وجوہات بھی ذکر نہ کی جائیں۔

دوسری بات جو آپ نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ
اصل میں احناف کا رویہ اس اصول کی تائید کرتا ہے
سوال یہ ہے کہ کیاعلمی معاملات میں یہ رویہ اختیار کیاجاسکتاہے؟آپ علمی موضوعات پر بحث کرتے وقت دلیل کے بجائے لوگوں کے طرزعمل کو دلیل بنانے لگیں توپھر خداہی حافظ ہے۔اگریہی طرزعمل ہم آپ کے ساتھ بحث میں اختیار کرنے لگیں کہ اہل حدیث جن باتوں کا دعوی کرتے ہیں ان کو علمی اورنظریاتی طورپر جانچنے کے بجائے ان کے طرزعمل کو معیار بنانے لگیں توبتایئے کتنے فیصد اہل حدیث اس کسوٹی پر پورااتریں گے؟
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ دعوی ہی سرے سے غلط اوربے بنیادہے۔جتنے بھی مجتہدین حضرات گزرے ہیں۔ انہوں نے مختلف مسائل میں امام ابوحنیفہ اورائمہ ثلاثہ سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کیاہے۔اورپھربہت سارے مسائل ایسے ہیں جہاں دلائل کی بنیادپرامام ابوحنیفہ کی رائے پر صاحبین کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے۔ تقریبا20مسائل ایسے ہیں جہاں امام زفر کی رائے کو ائمہ ثلاثہ کی رائے پر ترجیح دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر امام ابوحنیفہ کی رائے پر صاحبین کی رائے کو ترجیح کیوں دی گئی؟
صرف ائمہ متقدمین ہی نہیں بلکہ قرون متاخرہ کے مجتہدین حضرات نے بھی ائمہ متقدمین سے دلائل کی بنیادپراختلاف کیاہے جس کی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔ ان تمام کو چھوڑ کر صرف یہ کہنا
اصل میں احناف کا رویہ اس اصول کی تائید کرتا ہے
بڑی زیادتی ہے۔
اس تائید کے مقابلہ میں آپ کی تاویل بہت کمزور ہے
میں یہی توجانناچاہتاہوں کہ تاویل کی کمزوری کہاں کہاں پر آپ کو محسوس ہوئی۔ان مقامات کی نشاندہی کریں۔

ورنہ کہیں اس مصور کے ایساحال نہ ہو کہ جس نے ایک خوبصورت تصویر بنائی اوراسے شاہراہ پر رکھ کر اعلان کیاکہ جس کو اس میں کسی قسم کی خامی لگے اس مقام کی نشاندہی کرے۔شام کو جب اس نے تصویر دیکھی توپوری تصویر نشانوں سے بھری پڑی تھی۔ مصور بہت شکستہ دل ہوا اورایک واقف کار سے اپنے دل کی بات کہی۔اس نے مشورہ دیاکہ ویسی ہی تصویر دوبارہ بنائواس کو شاہراہ پر رکھواورسابقہ اعلان کے بجائے یہ اعلان کروکہ جس کو تصویر میں جس مقام پر خامی نظرارہی ہے توصرف نشاندہی نہ کرے بلکہ اس کی اصلاح بھی کردے۔شام کو مصور نے تصویر دیکھی تواس پر ایک بھی نشان لگاہوانہیں تھا۔

مجھے نہیں لگتاکہ اس واقعہ میں جو پیغام ہے اسے کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔والسلام
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سوال یہ ہے کہ کیاعلمی معاملات میں یہ رویہ اختیار کیاجاسکتاہے؟آپ علمی موضوعات پر بحث کرتے وقت دلیل کے بجائے لوگوں کے طرزعمل کو دلیل بنانے لگیں توپھر خداہی حافظ ہے۔اگریہی طرزعمل ہم آپ کے ساتھ بحث میں اختیار کرنے لگیں کہ اہل حدیث جن باتوں کا دعوی کرتے ہیں ان کو علمی اورنظریاتی طورپر جانچنے کے بجائے ان کے طرزعمل کو معیار بنانے لگیں توبتایئے کتنے فیصد اہل حدیث اس کسوٹی پر پورااتریں گے؟
میں نے احناف کے رویہ کی بات کہی ہے لوگوں کے طرز عمل کی نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ دعوی ہی سرے سے غلط اوربے بنیادہے۔جتنے بھی مجتہدین حضرات گزرے ہیں۔ انہوں نے مختلف مسائل میں امام ابوحنیفہ اورائمہ ثلاثہ سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کیاہے۔اورپھربہت سارے مسائل ایسے ہیں جہاں دلائل کی بنیادپرامام ابوحنیفہ کی رائے پر صاحبین کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے۔ تقریبا20مسائل ایسے ہیں جہاں امام زفر کی رائے کو ائمہ ثلاثہ کی رائے پر ترجیح دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر امام ابوحنیفہ کی رائے پر صاحبین کی رائے کو ترجیح کیوں دی گئی؟
یہ روح بہت وسعت اختیار کرلے تو امام صاحب سے آگے بڑھ کر ائمہ احناف تک پہنچ جاتی ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
صاحبین کی رائے کو امام صاحب کی رائے پر ترجیح دینا ہی معاملے تو بہت زیادہ مشتبہ بنا دیتا ہے۔ اسے ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گا۔ لڑکی کا نکاح ولی کے بغیر ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے فقہ حنفی میں سات اقوال مروی ہیں جیسا کہ شرح ہدایہ فتح القدیر میں یہ ساتوں روایات موجود ہیں۔ دو امام ابوحنیفہ سے ہیں۔ دو امام محمد سے اور تین قاضی ابو یوسف رحمہم اللہ اجمعین سے ہیں۔

ایک روایت کے مطابق امام صاحب رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ باکرہ کا اپنے ولی کے بغیر نکاح کرنا مطلقا جائز ہے اور اسے ظاہر الروایہ نقل کیا جاتا ہے۔ ان سے مروی دوسری روایت کے مطابق امام صاحب کے بقول کفو میں جائز ہے جبکہ غیر کفو میں نہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ہے کہ ولی کی اجازت پر نکاح موقوف ہو جائے گا یعنی ولی اجازت دے گا تو منعقد ہو جائے گا اور اگر نہیں تو باطل ہو جائے گا۔ انہی سے مروی دوسری روایت ہے کہ انہوں نے ظاہر الروایہ کی طرف رجوع کر لیا تھا یعنی ولی کے بغیر نکاح مطلقا جائز ہے۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق ولی کے بغیر نکاح بہر صورت باطل ہے۔ دوسری روایت ہے کہ کفو میں جائز ہے اور غیر کفو میں نہیں۔ تیسری روایت ہے کہ مطلقا جائز ہے۔ اب یہ ساتوں روایات ائمہ احناف نے امام صاحب اور صاحبین سے کتب فقہ میں نقل کی ہیں۔

اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ امام صاحب اور صاحبین کے متعدد اقوال میں سے پہلا کون سا ہے اور بعد والا کون سا ہے۔ اب اس کے لیے اصحاب ترجیح کی خدمات لی گئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تقرری کون کرے گا کہ فلاں اصحاب ترجیح میں سے ہے اور فلاں نہیں ہے؟ کیا عام حنفی مفتی عالم دین ان اقوال میں ترجیح کا حق نہیں رکھتا ہے اور صرف چند مخصوص لوگوں کو ترجیح دینے کا حق ہے؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جن مسائل میں اہل ترجیح کوئی ترجیح قائم کر چکے ہیں وہاں اس ترجیح کا ریوائز کرنا بھی ممنوع ہے۔ بہر حال یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ اصحاب ترجیح کا تعین کون کرے گا؟ محسوس یہی ہوتا ہے کہ اور اصل میں جو اصحاب ترجیح کا بھی تعین کرنے والے ہیں، ان کی فقہ کی اتباع ہو رہی ہے۔

بہر حال اس مسئلے میں اہل ترجیح کا اختلاف ہو گیا کہ متقدم قول کون سا ہے اور متاخر کون سا ہے۔ مثلا قاضی ابو یوسف کے معاملہ میں امام طحاوی نے کہا کہ متقدم ترین قول ولی کے بغیر مطلقا نکاح کے جواز کا ہے جبکہ متاخر ترین قول ولی کے بغیر نکاح بہر صورت نہ ہونے کا ہے یعنی امام طحاوی کی ترجیح کے مطابق قاضی ابو یوسف اہل حدیث کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ امام سرخسی نے کہا کہ قاضی ابو یوسف کا متقدم قول ولی کہ بغیر بہر صورت نکاح نہ ہونے کا ہے جبکہ متاخر ترین قول ولی کے بغیر مطلقا نکاح کے جائز ہونے کا ہے۔ پس دونوں کی ترجیح متضاد ہے۔ راقم نے دونوں کی عبارتوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن اس ترجیح کے قائم کرنے کے لیے دلائل دونوں کے پاس نہیں ہیں۔

اب بات یہاں تک ختم نہیں ہو جاتی، اب ایک اور صاحب ترجیح آتے ہیں جو یہ بتلاتے ہیں کہ قاضی ابو یوسف سے مروی اقوال میں طحاوی اور سرخسی کی ترجیح میں سے سرخسی کی ترجیح کو ترجیح دی جائے گی۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اب سرخسی کی ترجیح کو ترجیح قرار دینے والے کی بات کو بنیاد بناتے ہوئے قاضی ابو یوسف کا موقف متعین ہوتا ہے اور مفتی بہ قول وجود میں آ جاتا ہے۔ اس سارے میکانزم میں اصل کون ہے؟ تفصیل سے اس پر پھر کسی وقت گفتگو ہو گی؟ یہ کچھ ایسی وجوہات ہیں کہ جن سے اہل حدیث کو اس سارے میکانزم سے رد عمل پیدا ہوا۔
جزاکم اللہ
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے احناف کے رویہ کی بات کہی ہے
میں نے بھی اسی تناظر میں بات کہی ہے۔احناف سے آپ کیامراد لیتے ہیں اس کی بھی وضاحت کردیں۔
وہ روح بہت وسعت اختیار کرلے تو امام صاحب سے آگے بڑھ کر ائمہ احناف تک پہنچ جاتی ہے ۔
اس جملہ سے کوئی مطلب اخذ کرنامیرے لئے تومشکل ہے ۔کیامطلب اورمعنی اس جملہ سے مراد ہیں خود ہی واضح کردیں تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچنے میں ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
احناف کے اصول کی روح یہ ہے کہ ائمہ احناف کی رائے کو ہر طرح دلائل کے ساتھ ثابت کیا جائے ۔
جمشید بھائی آپ کو اس بات پر کیا اعتراض ہے؟ اور کیوں اعتراض ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
يہاں اور ہمارے برصغير کے دوسرے علمی حلقوں ميں بالعموم فقہ المقارن کی ابحاث ميں قديم متناضع مسائل پر بھی پچھلے ادوار کے عظيم آئمہ کا حوالہ بہت ہی کم ديا جاتا ہے- اور ايسا دونوں ہی فريق کررہے ہيں- جب کہ ان کے برمحل حوالاجات سے دونوں جانب کے استدلال ميں نکھار اور وزن آجائے گا-
 
Top