• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصو ل حد یث قر آ ن کر یم کی رو سے

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

مسلما ن اس اعتبا ر سے دنیا کی ایسی منفر د قو م ہے جس نے اپنے نبی ﷺکے اقوال اور آثا ر کو محفو ظ کر نے میں بے مثا ل تحقیق کا مظا ہرہ کیا۔ آج تک اس مثا ل روشن افک کے ما نند ہے دنیا کے بڑے بڑ ے ما یا نا زمحقق اس با ت کو قبو ل کر چکے ہیں کیا عمد ہ با ت کی ہے مو لا نا محمد علی جو ہر نے ان کا فر ما ن ہے کہ :۔
قر آ ن پا ک تو قر آن پا ک ہے دوسر ے صحا ئف ہما ری کتب حد یث کی تحقیق اور صحت وحفا ظت کا مقا بلہ نہیں کر سکتے ۔ ( خا لص اسلا م صفحہ135)
محد ثین نے کس قد ر احتیا ط اور حا ظر ذ ہن سے اور دیا نتداری سے تحقیق کا کا م کیا یہ عظیم کا رنا مہ آج اسلام کے مفا خر میں سے ہے ۔
ایک غیر مسلم بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا ۔ ریو رنڈ اسمتھ لکھتا ہے :۔

کو ئی شخص نہ اس میں دھو کا کھا سکتا ہے نہ دوسر ے کو دھو کا دے سکتا ہے یہا ں پو رے دن کی روشنی ہے جو چیز پر پر پڑھ رہی ہے اور ایک تک پہنچ رہی ہے ( تا ریخ جمع القر آ ن والحد یث )
The universal standard encyclopedia volume 16 میں لکھتا ہےpage(5817-18)
The para-mount authority of islam is the koran (q.v.)which contains the revelation from God (A.r. Allah) announced by the prophet Mohammed and recorded by his followers. the koran is supplemented by the sunna.
با لغر ض تا ریخ کا بڑا ذخیر ہ اور ایک عا لم اس با ت پر گواہ ہے کہ محد ثین کی قر با نیا ں اور ان کے چھا ن پھٹک کے طر یقے بڑے ہی کٹھن تھے غیرتو غیر کتنے ہی ظا ہر متفق عبا دت گزار شخص بھی اپنے ودع اور تقو ے کی وجہ سے محد ثین کی کڑ ی نگا ہ سے بچ نہ سکے ۔
اس رسا لے میں جو اہم نکتہ عر ض کر نا مطلو ب ہے وہ ہے علو م حد یث قر آ ن کر یم کے ضوابط اور معیا رات پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
ہر دو ر میں مستشر قین مختلف سوال کے سہا رے اور امت کے اجما ع کو پا ما ل کر نے کی کو شش میں لگے رہے اور وہ اپنے اس نا پا ک عز ا ئم میں ہر دور میں نا کا م رہے آ ج بھی انہیں ارادوں کے سا تھ یہ مستشر قین اور منکر ین حد یث نئے سوالات کے سا تھ منظر عا م پر آنے کی کو شش میں لگے ہو ئے ہیںمو جو دہ دور میں لا تعداد سوالات ان کی طر ف سے سا منے آتے رہتے ہیں کبھی بخا ری کے پیچھے کبھی مسلم کے خلا ف غر ض وہ ہر طر ح سے امت کے اجما ع کو چکنا چور کر نے کی بھر پور کو شش میں لگے ہو ئے ہیں لیکن یہ ان کا مقصد صر ف ایک بھیا نک خو اب کی شکل میں سا منے آئے گا .
(انشا ء اللہ )
نو ٹ ۔
( عمو می سوالا ت کے جوابا ت کے لئے میر ی مفصل کتا ب اسلا م کے مجر م کو ن ؟ کا مطا لعہ فر ما ئیں )
آج کاجو کو عنوان ہے وہ ہے کیا یہ اصو ل حد یث جن کو محد ثین کی جما عت نے تحقیق سے تشکیل دیا ہے کیا یہ اصو ل حجت ہیں؟؟کیو نکہ اصو ل تو انسا نو ں کے بنا ئے ہو تے ہیں ان کو کبھی بھی دین تصو ر نہیں کیا جا سکتا ؟یہ وہ بنیا دی سوال ہے جس کا جواب دینے کے لئے میں نے قلم اٹھا یا بس یہ تو فیق اللہ سبحا نہ وتعا لیٰ کی ہے .

قا رئین ا کرام دفاع حد یث پر علما ء نے لا تعداد کتا بیں تصنیف فر ما ئیں اور اصو ل حد یث پر بحث بھی کی لیکن سا تھیو ں کے اصرار اور دلچسپی کے با عث یہ نکتہ بھی ذہن میں آیا کہ ان اصو ل حد یث جس کو محد ثین نے تر تیب دیا آیا یہ اصو ل کن ضوابط سے تر تیب دئیے گئے ہیں ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہرطا لب علم کے ذہن میں اُبھر آتا ہے اور وہ اس کے جو اب کا منتظر رہتا ہے ۔اس مضمون میں آپ کو انشاء اللہ ان اصو لو ں کے با رے میں جن کو محد ثین نے ترتیب دئیے معلو ما ت حا صل ہو گی کہ وہ اصو ل جن کو محد ثین نے تر تیب دئیے وہ اصو ل قر آن کر یم کے مطا بق ہیں۔
جی ہا ں ہو سکتا ہے یہ با ت آپ سمجھ نہ سکے لیکن الحمد للہ واقعی یہی با ت ہے ۔ کیو نکہ محد ثین کا معیا ر تحقیق کا وہی رہا ہے جس معیا ر کو قر آن کر یم انسا ن کے لئے ہموار کر نا چا ہتا ہے میں اپنی بات کو شروع کر نے سے پہلے ایک گز ارش آپ کے سامنے پیش کروں گا کہ اصول حدیث کو سمجھنے سے پہلے ایک نکتے کو ضرور سمجھیں ’’ اگر آپ سے کوئی شخص کہتا ہے کہ بھا ئی ہمیشہ سچ بولو ‘‘ اگر چہ وہ خود سچ نہ بو لتا ہو لیکن وہ ایک ایسی بات نقل کرتا جو بعین قر آن کریم کے مطابق ہے ۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ میں سچ کیسے بو لوں یہ شخص تو جھو ٹا ہے فلا ن فلا ں کا م کرتا ہے .
مثلاً چور ہے ڈاکو ہے اور بہت سا رے جرائم پیشہ ہے اس شخص کی با ت میں آکر سچ نہیں بول سکتا ۔
یقیناً یہ شخص جھو ٹا مکار جرائم پیشوار اور بہت سارے برے کام کرنیوالاہے لیکن وہ ابھی بات جو کررہا ہے وہ قر آن کریم کے مطابق ہے لہٰذ ا ہم یہ کہینگے کہ اس کی بات کو تسلیم کیا جائے کیو نکہ یہ جوبات کہہ رہا ہے اس کی اپنی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو قرآن کریم کے مطابق کہے رہا ہے کہ بات ہمیشہ سچ کہو۔
اب غور فر ما ئیں کہ بات کہنے والا انسا ن ہے لیکن اس کااصل مر جع قرآن کریم ہے کیونکہ وہ جو کہہ رہا ہے قر آن کریم کا اصول بول رہا ہے اس کی اپنی بات نہیں ہے ہا ں کہنے والا ضرور بشر گنہگار ہے لیکن اصول یہ ہو گا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔
اسی طر ح سے یہ عظیم محد ثین کی جما عت جن کا ثقہ ہو نا (Athenticity)ثا بت ہو چکی ہے ان کا تقویٰ کے بارے میں ان کے ذہن کے بارے میں امت کا اجماع ہے جو قدم قدم پر سنت کا خیال رکھنے والے اللہ کے حکم کی پابندی کر نے والے اور مکمل زندگی صرف اسی محنت میں لگادی کہ رسو ل اللہ ﷺ کی احا دیث کا دفا ع کر یں تو بتا ئیں یہ کیسے اپنے اصول قر آن کے خلاف وضع کریں گے نہیں ۔
بلکہ ان محد ثین کی جماعت نے غو ر وتدبر سے مکمل احادیث کے جو اصول ترتیب دئیے ہیں وہ قر آ ن کریم کے مطابق ہی ہیں اب اگر ان محد ثین میں سے کو ئی یہ کہے کہ سچ بولو تو بتا ئیں سونے پہ سہاگا ہو گا کہ نہیں کیونکہ با ت نقل ہو رہی ہے قرآن کریم اور دوم بات کر نے والا بھی مکمل عامل قر آن تو لہٰذا ہم سچ بو لنے والے کی سچائی کو قبول کریں اور اس کی سچائی کو مر تبہ دیں گے کہ اس نے دین اسلام کہ ایک اہم اصول کے مطابق سچ بولا ۔
اسی نکتے کو سامنے رکھیئے اور اصول حدیث کو سامنے سمجھئے جو کہ قر آن کریم کے مطا بق تر تیب دئیے گئے ہیں ۔
میں اس مضمون میں ان مو ٹے مو ٹے اصو ل کا ذکر کر وں گا جن پر اکثر وبیشتر اعتراضات اُٹھتے رہتے ہیں اور منکر ین حد یث کی طر ف سے یہ سوالات سامنے آتے رہتے ہیں کہ بتا ؤ ان اصو لو ں کو جو کہ تم ایک شر عی حیثیت دیتے ہو ان کی دلیل کیاہے لہٰذا اس قسم کے جو سوالات ہیں انکا جواب آپ اس کتا ب سے اخذ فر ما ئیں گے انشاء اللہ ۔
۱)
منکرین حد یث کا ایک سوال جو کہ خبر آحاد کے بارے میں ہو تا ہے۔

خبر آحاد کی تعریف :۔
جس حدیث میں راوی تعداد میں متواتر حدیث کے راویوں سے کم ہوںوہ خبرآحاد کہلا تی ہیں ۔
( یعنی اگر کو ئی ایک شخص خبر دیتا ہے کسی بات کی تو وہ منکرین حدیث کی نظر میں قا بل قبول نہیں )
خبر واحد کی دلیل قر آن کریم کی رو سے قر آ ن کر یم خبر واحد کو تسلیم کر تا ہے اگر خبر دینے والا سچا ہو مثلاً (سو رۃ یٰسن 36آیت نمبر20) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ وجا ء من اقصا المد ینۃ رجل یسعٰی قال یقو م اتبعوالمر سلین‘‘
تر جمہ ۔ اس وقت شہرکے پرے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا میری قوم کے لوگوں ان رسولوں کی اتباع کرو ۔
غو ر فر ما ئیں ! اس آ یت مبارکہ میں آنے والاایک ہی شخص اور وہ ایک خبر دے رہا ہے یعنی وہ شخص بحیثیت خبر واحد کی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی اس خبر کو مقبول فر مایا۔ اور ارشاد ہوتا ہے کہ
’’ قیل ادخل الجنۃ ‘‘ (سو رۃ یٰسن 36آیت نمبر26)
’’(جب قوم نے اس شخص کو ما ر ڈالا )تو اللہ پاک نے فر مایا ۔کہ اسے جنت میں داخل کر دو ‘‘۔
گو یا وہ شخص جس نے خبر واحد کی صورت میں نبی ﷺکی تا ئید کی اس پاداش میں اسے قتل کر دیا گیا اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر واحد کو قبول کر کے جنت میں روانہ فرمایا۔ایک اور دلیل دیتا چلوں جب ذکر یا ؑ نے مر یم ؑ کی کفالت کا بیڑا اٹھا یا تو ذکر یا نے ان کے پاس کھا نے کی چیز دیکھی اور فر ما یا:
’’قا ل یٰمر م انی لک ھٰذاقا لت ھو من عند اللہ ان اللہ یر زق من یشا ء بغیر حساب ‘‘( اٰل عمران 3آیت37)
تر جمہ ۔اے مر یم یہ تجھے کہا ں سے ملا ؟ وہ کہہ دیتی ہیں اللہ کے ہا ں سے بلا شبہ اللہ جسے چا ہے بے حسا ب رزق دے دیتا ہے ۔
غو ر فر ما ئیں !
مریم ؑ خبر دے رہی ہیں کہ یہ رزق اللہ کی طرف سے ہے وہ حیثیت رکھتی تھیں خبر واحد کی اور زکر یا ؑ نے اسے قبو ل فر مایا اور پھر مو قع کی مناسبت دیکھتے ہی اپنے لئے اولاد کا سوال کیا ۔
لہٰذا خبر واحد کا حجت ہو نا اس آیت سے بھی ثا بت ہو تا ہے۔
ایک اور مقا م پر قر آن کر یم وضا حت فر ما تا ہے کہ سلیمان کے دور حکو مت میں حا ضر ی کے وقت ھُد ھُد غا ئب تھا غصہ کی سزا کے اظہار کے بعد سلیمان نے فرما یا کہ اسے ذبح کر دونگا یا وہ میر ے پاس کو ئی معقو ل وجہ پیش کر دے قر آن کر یم ذکر فرما تا ہے ۔
’ فمکث غیر بعید فقال أحطت بمالم تحط بہٰ وجئتک من سبابنبایقین‘‘ (نمل27آیت 22-23)
تر جمہ ۔تھو ڑی دیر گزری تھی کہ (ہدہد )آگیا اور کہا میں نے وہ معلوم کیا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور میں سبا سے متعلق ایک یقینی خبرآپ کے پاس لایا ہو ں ۔
لہٰذ ا ہد ہد نے ایک معقو ل وجہ پیش کی کہ وہ ملک سبا کے لوگ سورج اور چاند کے پجاری ہیں لہٰذ ا سلیمان ؑ نے ہدہد کی بات کو تسلیم کرتے ہو ئے تحقیق کی شر طیں لگا ئی ۔
غور فر مائیے ایک جا نور خبر دیتا ہے اور اللہ کاعظیم پیغمبر اسکی Exeptenceدیتا ہے اب بتا ئیں جا نور کی خبر واحد کو قبو ل کیا گیا اسکے مقا بلے میں ایک سچے مسلم کی خبر واحد کو قبول کر نے میں کو نسی قبا حت ہے لہٰذ ا یہ اصو ل بھی محد ثین نے قر آن کر یم سے ہی اخذ فرمایا ہے۔
راوی کا ثقہ ہو نا اور غیر ثقہ ہو نا اسکی چھا ن پھٹک کا اصول قر آن کر یم کی رو سے ۔
محد ثین اکرام ؒ نے اپنی پو ری زند گی اس فن کے لئے گزار دی یعنی وہ علم رجال کے فن کے ماہرین Specialistتھے اور وہ خوب اس فن کو جا نتے تھے کسی راوی کا مقبول ہو نا اور غیر مقبو ل ہو نا یہ ایک بڑا اہم درجہ ہے قر آ ن کریم نے بھی مقبول اور غیر مقبول کے بارے میں اصول مرتب فر ما ئے ہیں ۔ اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے:
’’یا ایھا الذ ین اٰمنو ان جا ء کم فا سق بنبا فتبینوا‘‘(سورۃ حجرات 49آیت 6)
تر جمہ ۔اے ایمان والو ں اگر کو ئی فا سق تمہا رے پا س خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔
اس آیت مبا رکہ پر غو ر فر ما ئیں کہ وہ مخبر کی تحقیق کا اصول مر تب فر ما تی ہے ۔مثلاً
کو ئی شخص یہ خبر لا تا ہے کہ فلا ں شخص کو قتل کر دیا گیا یا فلاں فلا ں نقصا ن ہوا ہے تو سننے والے کو اس خبر کو نشر کر نے کے بجا ئے فو راً اس کی تحقیق کر لینی چا ہیے وگر نہ معا شر ے میں اس کا بڑا برا اثر مر تب ہو گا جو جان لیوا بھی ثا بت ہو سکتا ہے ۔
لہٰذ اگر کو ئی شخص خبر لا ئے اس کی تحقیق کر لی جا ئے ایک چھو ٹا اصول سمجھا دیا گیا کہ تحقیق کرلو لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ تحقیق کن ذرائعیو ں سے کر نا ہے کیو نکہ ہر صد ی میں تحقیق کے مختلف ذرائع مو جو دہو تے ہیں خا ص کر اس صد ی میںجو کہ Mediaاور Communicationکا دور ہے بہت بہتر ہیں تحقیق کے طریقے ۔
محد ثین اکرام نے بھی جو اصو ل مر تب کئے تحقیق وہ بھی اس وقت کے بڑ ے کٹھن اصول تھے اب دیکھئے محد ثین کا تحقیق کا طر ز عمل اور جا نچنے کے اصول کیو نکہ قر آ ن کر یم نے تحقیق کا حکم دیا ہے لیکن طر یقے کا اسلو ب نہیں بتا یا کیو نکہ مختلف دور میں ذرائع ہو تے ہیں تحقیق کے لیکن تحقیق کر نی ضر وری ہے میں اپنی با ت کو آگے لے کر چلتا ہو ں اب دیکھئے حد یث کے با رے میں کو ئی شخص خبر دیتا ہے کہ یہ اللہ کے نبی ﷺ کا فر ما ن ہے اور وہ اپنے کلما ت کو نبی ﷺ کے ذمے لگا تا ہے مجھے قر آن کر یم نے اصو ل سمجھا یا کہ مخبر کی خبر کی تحقیق کر لی جا ئے اب محد ثین اس اصو ل کو (جس کا ذکر سورۃ حجرات کی آیت نمبر 6میں ہو ا ہے )استعما ل کر تے ہیں اور اس پر مختلف انداز سے عمل کر تے ہیں اور تحقیق کا حق ادا کر نے کی کو شش فر ما تے ہیں
۔مثلاً ایک شخص سلمی وہ حد یث گڑھتا ہے اور سند یو ں پیش کر تا ہے ۔
قال سلمی حد ثنا امام مالک قال حد ثنا امام نافع حد ثنا ابن عمر ؓ عن النبی ﷺ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔
اب دیکھا جا ئے تو سند بہت عمدہ دکھا ئی دیتی ہے امام مالک جیسی معتبر ہستی اور وہ روایت کریں نافع سے اور وہ ابن عمر ؓ سے یعنی سلسلۃ الذھب سو نے کی زنجیر ہو گئی سند ہا ں میں اور آپ تو دھو کہ کھا سکتے ہیں لیکن آفرین ہے محد ثین کی پا کیزہ جماعت پر کہ انہوں نے بڑی اما نت ودیا نت کے ساتھ اور ایمانی جذبے میں ایسے تحقیق کے نکات نکالے کہ با ل کی کھا ل بھی اُدھڑ جا ئے ۔
اب دیکھئے محد ثین کی تحقیق قر آن کر یم کہ مطا بق ۔
۱) پہلے یہ دیکھا جا ئے گا کہ سلمی کا حا ل معلو م ہو جائے اگر نا معلو م ہو سکے تو وہ مجہو ل ہے۔
۲) اگر حالات معلوم ہو بھی گئے تو یہ دیکھا جائے گا کہ سلمی کاذب ہے یا صادق اگر معلوم ہو جائے کہ وہ صا دق ہے تو بھی حدیث کی صحت کے لئے کافی نا ہو گا ۔
۳)پھر دیکھا جائے گا کہ اس کا حافظہ کیسا تھا حافظہ میں کو ئی خرابی تو نہیں اگر ہے تو سئیی الحفظ کہلائے گا اور اسکی وہ روایت قبول نہ کی جائے گی ( کیو نکہ قر آن کریم یتیم کو ان کا مال واپس دینے کا حکم جب دیتا ہے کہ وہ سمجھ دار ہو جا ئیں کیو نکہ بچپن کی عمر ناقص العقل ہو تی ہے جوانی کے مقابلہ میں تو پھر بگڑے ہو ئے حافظہ والے کی شہادت کیسے قبو ل کی جاسکتی ہے )
۴)اسکے بعد اگریہ ثابت ہو بھی جائے کہ وہ خراب حافظہ کا نہیں تھا تو یہ دیکھا جائے گا کہ امام مالک سے اس کی ملاقات ثابت ہے کہ نہیںاگر نہیں تو وہ روایت قابل قبول نہیں ہو گی محد ثین کی اصطلاح میں ایسی روایت کو ضعیف کہا جاتا ہے یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے یعنی سند میں ایک یاسارے راوی مختلف مقامات سے منقطع ہو ں۔
اسکی مثال آپ یو ں لیں کہ وہ شخص جو آپ کو خبر دیتا ہے کسی حادثے کے بارے میں جب آپ اس سے پو چھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ جس وقت یہ حادثہ ہوا میں تو اس ملک میں مو جود ہی نہیں تھا میںتو out of countryتھا لیکن مجھے بھی کسی نے بتایا بتانے والا کون معلو م نہیں بتائیے کیا آپ خبر کو سچ مان لیں گے نہیں بلکہ آپ قرآن کریم کی آیت کے مطابق تحقیق کریں گے اور بغیر تحقیق کے اس کی بات کو رد کر دینگے لہٰذا حا صل کلام یہ ہوا کہ وہ شخص جس واقعہ کی خبر کررہا ہے وہ اس واقعہ کے وقت مو جود نہیں تھا بلکہ ملک سے بھی باہر تھا اسی دوری کو یا سماعت ثابت نا ہونے کو محدثین نے انقطاع کا نام دیا جس کی تحقیق قر آ ن کریم کے بیان کر دہ اصول کے مطابق ہے ۔
۵)بالفرض اگر ثابت ہو جائے کہ سند انقطا ع میں ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہ خبر دینے والا کتنا سچہ ہے ایسا تو نہیںکہ وہ کہیں بھول رہا ہو یا اپنے سے زیادہ سچے لوگوں کی مخالفت کررہا ہو ایسی مخالفت کو محدثین کی اصطلاح میں شاذ کہتے ہیں کہ ایک ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کرے اس اصول کو سمجھنے کے لئے اس آیت مبارکہ پر غور فر مائیں ۔ قر آن کریم ذکر فر ماتا ہے:
’’فان عثر علیٰ انھما استحقا اثما فاٰ خران یقو مان مقا مھما من الذین
استحق علیہم الاولین فیقسم ٰ ن باللہ لشھا دتنا احق من شھا د تھما‘‘
(سورۃ ما ئد ۃ 5آیت 107 )

تر جمہ ۔پھر اگر یہ معلو م ہو کہ وہ دونو ں گنا ہ میں ملو ث ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دواور گواہ کھڑ ے ہو ں جو پہلے دونوں گواہوں سے اہل تر ہوں اور ان کی طر ف سے ہو ں جن کی حق تلفی ہو ئی ہے وہ اللہ کی قسم اُٹھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان پہلے گواہوں کی شہادت سے زیادہ سچی ہیں اور ہم نے کو ئی زیادتی نہیں کی اگر ہم نے ایسا کیا تو بلا شبہ ہم ظا لم ہیں ۔
غور فر ما ئیے آیت مبارکہ کے سیا ق سے یہ بات واضح ہو ئی کہ گواہوں کی گواہی کیسے قبول ہو گی اور ان کا طر یقہ کیا ہوگا یعنی پہلے گواہوں نے اگر گواہی دی اگر وہ غیر ثا بت ہو تی تو دوسر ے اور دوگواہ(جو پہلے گواہوں سے زیادہ ثقہ ہو ں )گو اہی دینگے بعد والوں کی گواہی منظور ہو گی جو زیادہ متقی ہو نگے ۔
ایک اور اصول کی وضا حت کر تا چلوں محد ثین کی اصطلا ح میں ایک اور اصول ہے وہ ہے ’’منکر الحد یث یعنی راوی کبیر ہ گنا ہ کا مرتکب ہو فاسق ہو بد عتی وغیر ہ وغیرہ ۔ ارشاد ربانی ہے کہ
’’تحبسو نھما من بعد الصلوٰ ۃ فیقسما ن باللہ‘‘(سور ۃ ما ئد ۃ 5آیت 106)
تر جمہ ۔(گواہوں کو ) اگر تمہیں کچھ شک پڑ ھ جا ئے تو ان دونو ں کی صلوٰ ۃ کے بعد ( مسجد میں ) روک لو ۔ پھر وہ اللہ کی قسم اُٹھا کر کہیں کہ وہ ( کسی مفا د کے خا طر ) شہا دت کو پہنچنے والے نہیں ۔
غو ر فر مائیں گواہو ں کو نماز کے بعد قسم اُٹھوائی جارہی ہے کیو ں ؟ کیو نکہ نماز ایما ن والے کو ثابت کر تی ہے اور غیر نمازی کا ایما ن نا قص ہو تا ہے اسی وجہ سے گواہی کے لئے نماز کے بعد ( تا کہ گواہ بھی نماز پڑھے ) گواہی دلوائی گئی ۔
با لفر ض اگر کو ئی گواہ نماز ادا کر نے سے انکا ر کر ے تو بتا ئیے آپ کیا نتیجہ اخذ کر یں گے کیو نکہ قر آن وسنت سے یہ با ت عیا ں ہے کہ غیر نمازی کبیر ہ گنا ہ کا مر تکب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ محد ثین اس گواہ کی گواہی کو چھوڑتے ہیں جو کبیر ہ گنا ہ کا مر تکب ہو تا ہے لہٰذا آیت مبارکہ سے خوب سے خوب اس بات کی نشا ند ہی ملتی ہے کہ منکر راوی کی گواہی کیو ں قبو ل نہیں کر نی چا ہیے وجہ یہ ہے وہ کبیر ہ گنا ہ کا ارتکا ب کر تا ہے جب عمو می معا ملا ت میں اس کا جھو ٹا ہو نا ثا بت ہو جا تا ہے تو کو ئی بعید نہیں کہ وہ ہو سکتا ہے رسو ل اللہ ﷺ پر بھی جھوٹ با ندھ رہا ہو ۔
میں آپ کہ ایک اور اصو ل کی طر ف تو جہ دلانا چا ہتا ہو ں اگر کسی راوی کا حدیث کے بارے میں جھو ٹ بو لنا ثا بت ہو جا ئے تو محد ثین اس کی بیا ن کر دہ روایت کو ’’ مو ضو ع ‘‘ قراردیتے ہیں قا رئین اکرام یہ اصو ل بھی عین قر آن کر یم کے مطا بق ہے اللہ تعا لیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’والذین یر مو ن المحصنٰت ثم لم یأ توا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثما نین جلدۃ ولا تقبلوا ھم شھادۃ ابدا واولٰئک ھم الفٰسقو ن‘‘ ( النو ر 24آیت 4)
تر جمہ ۔اور جو لوگ پاک دامن عو رتو ں پر تہمت لگا ئیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکے انھیں اسّی (۸۰) کو ڑے لگا ؤ اور آ ئند ہ کبھی ان کی شہا دت قبو ل نہ کر و اور یہی لو گ فا سق ہیں ۔
قر آن کریم کی آیت مبارکہ سے معلو م ہوا کہ جو شخص تہمت Claimلگا ئے یعنی وہ شخص جھو ٹ با ند ھے پا ک دامن عو رتو ں پر تو انھیں Panishسزا کے طور پر اسّی (۸۰ ) کو ڑے لگا ئے جا ئیں اور ان کی گواہی بھی قبو ل نہیں ۔
اندازہ فر ما ئیں کسی پاک دامن شر یف ذادی پر تہمت کی سزا کیا کہ اس کو محروم کر دیا گیا Society میں گواہی سے یعنی وہ کتنا ہی اس کے بعد پارسا ئی کا ثبو ت دے ارشادربانی نے فیصلہ دے دیا ایسے جھو ٹے شخص کی گواہی کوtance Expec کبھی بھی نا دیا جائے ۔ اب اگر کو ئی شخص امام الانبیا ء سیدالمرسلین رحمۃ العٰلمین حضرت محمد ﷺ کی ذات مبا رکہ پر جھوٹ باندھے اور آپ ﷺپر بہتا ن لگائے اس الفاظ کا جوآپﷺ نے ادا نہ فرمائے ہو ںتو بتا ئیے کیا ایسا شخص لائق ہے کہ اس کی گواہی کو قبو ل کیا جائے ؟؟Impossibleنہ ممکن ۔
عام عورتوں پر بہتان کی سزا کہ اس سے معاشرے میں ایک جو اسے دیا گیا تھا بہتا ن کے بعد اس سے وہ مقام چھین لیا جائے گا اب وہ اگر محمد ﷺ پر جھو ٹ با ند ھے تو کیو نکر اسے قبول سمجھا جائے گا ۔ بلکہ وہ تو دنیا میں رسوائی کا حقدار ٹھرا اور آخرت میں عذاب کا حق دار ہو گا۔
ایک اور اصول کی میں وضا حت کر وں گا ـ:

بسا اوقات محد ثین شواھد کی بناء پر کسی حد یث کو صحیح کا درجہ دیتے ہیں یہ اصول بھی قر آن کر یم سے ہی ماخو ذ ہے جی ہا ں پچھلی آیت مبارکہ پر دوبارہ نظر دوڑائیے:
آیت مبا رکہ میں اللہ تعا لیٰ گواہ طلب فر ما رہا ہے یعنی اگر کو ئی شخص کسی پا ک دامن عورت پر بہتا ن لگا ئے تو اس کی گواہی اس وقت قبو ل کی جا ئے گی جب وہ گواہ یعنی چار گواہ پیش کر دے وگر نہ اس کی گوا ہی کو رد کر دیا جا ئے گا ۔
یہی اصو ل محد ثین نے اپنا یا کہ اگر کو ئی راوی ایسی حد یث کا ذکر کر تا ہے جو الفا ظ کسی اور راوی سے ثا بت نہ ہو تو ان الفا ظو ں کو اس صو رت میں قبو ل کیا جا تا ہے جب اس راوی کے الفا ظو ں کی تا ئید دوسر ے راویو ں کی پیش کر دہ حد یث میں مو جو د ہو ں ۔
یعنی یہا ں بھی اصو ل حد یث کا ایک اہم نکتہ کہ دوسری طر ف ( یعنی گواہو ں ) سے یہ با ت ثا بت ہو تی ہے لہٰذا یہ اصول بھی قر آن کر یم ہی تعلیم دیتا ہے عمل کر نے والے کو آپ ضرور بشر کہینگے لیکن اصول ما خو ذ ہے شر یعت سے ۔
۶) اگر یہ بھی ثا بت ہو جا ئے کہ سلمی کی خبر سچی ہے تو اس کے بعد اور بہت سا رے پر کھنے کے اصول وضوابط با قی ہیں اس کے بعد یہ بھی دیکھا جا ئے گاکہ راوی الفا ظو ں کو آگے پیچھے یعنی Amendmentتو نہیں کر تا یعنی اس کی سند میں اضطلاب تو فیق پر قا عد ہ بھی قر آن کر یم کے نص سے ما خو ض ہے اس قاعد ہ کو سمجھنے کے لئے قر آن کر یم کی اس آیت کا مطا لعہ فر ما ئیں ۔ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں ۔
’’انما النسئی ذیا دۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلو نہ عا ما ویحر مو نہ عا ما ۔۔۔۔۔۔(التو بۃ 9آیت 37)
بیشک مہینو ں کو پیچھے ہٹا دینا ایک مزید کا فرانہ حر کت ہے جس سے کا فر گمراہی میں پڑ ے رہتے ہیں وہ ایک سال کسی مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسر ے سال حرام ۔
اس آیت سے پچھلی آیت (نمبر36میں )اس با ت کی وضا حت کر تی ہے کہ با رہ مہنو ں کی گنتی اللہ کی کتاب میں مو جو د ہے اور مز ید چار حر مت والے بھی ۔
نو ٹ
۔ ( بارہ مہینے کی گنتی قر آن مجید میں نہیں ہے بلکہ احا دیث کی کتا بوںمیں مو جو د ہے جس سے صا ف یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ رسول اللہﷺ کی احا دیث بھی کتاب اللہ ہے مزید تحقیق کے لئے میرا Programبعنوان حدیث بھی کتاب اللہ ہے سماعت فر مائیں )
لیکن کفار لوگ ان مہینو ں کو آگے پیچھے کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو اپنے شعار میں ملاوٹ پسند نہیں اسی لئے اللہ تعا لیٰ نے اس امر پر وعید وعتاب کا حکم دیا ۔
نو ٹ ۔
( اس طر ح کے آگے پیچھے کے الفا ظو ں کو محد ثین کی اصطلا ح میں اصطراب کہتے ہیں )
غو ر فر ما ئیں جس طرح قر آن کر یم کے متن کو آگے پیچھے کر نا کبیر ہ گنا ہ ہے اسی طر ح سے اگر حد یث میں بھی کو ئی شخص عمداً آگے پیچھے کرتا ہے تو وہ بھی گنا ہ کبیر ہ میں شمار کیا جا ئے گا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حدیث میں بھی یہی شروط آئید کئے ہیں گویا کہ یہ اصو ل بھی ما خو ذ ہے قر آن کر یم سے ۔
لہذا محد ثین نے بڑے مضبو ط ضواط مقرر فر مائے اسی لئے محد ثین ؒ کی گر فت سے وہ لو گ بھی بچ نہ سکے جو صالح تھے لیکن نیک نیتی سے حدیث میں تحریف کر دی یہ لو گ با وجو د اپنے تقویٰ اور ذھد کے محد ثین کی جماعت کو دھو کا نہ دے سکے خلاصہ کلام یہ کہ محدثین نے اگر کسی حدیث کو صحیح کہا تو وہ یقیناً قطعی الصحت ہے اسی لئے شبہ اور شکوک کہ تمام منازل کو اس نے عبو ر کر کے ہی مقا م صحت کو حا صل کیا ہے ۔
میں کہتا ہو ں اگر ان فنو ن ن کو عام کر دیا جا ئے کہ ہر مدارس میں اور Schoolاور collageمیں تو یقیناً انشا ء اللہ Aotumeteclyتمام شکوک دور ہو جا ئیں گے ۔
(وما علینا الا البلاغ ا لمبین)
 
Top