• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اطاعت ِرسولﷺ اور پرویز

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اطاعت ِرسولﷺاور پرویز

پرویزیت اور احمدیت میں مشترک قدر​
پروفیسر منظور احسن عباسی​
جو لوگ ’ادارئہ طلوعِ اسلام‘ کے اغراض و مقاصد اور مسٹرغلام احمدپرویز کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں، ان کو یقینا ادارئہ مذکور کے شائع کردہ پمفلٹ موسومہ ’اطاعت ِرسول ‘کے نام سے بڑی حیرت ہوگی۔ لیکن یہ حیرت اسی قسم کی حیرت ہے جو مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت ِاحمدیہ کے ترجمان اخبار ’الفضل‘کی ایک خصوصی اشاعت موسومہ ’خاتم النّبیین نمبر‘ کے نام سے ہوئی تھی۔ کیونکہ مسٹر غلام احمد کا یہ درس اطاعت ِرسول اور مرزا غلام احمد قادیانی کا وہ عقیدئہ ختم نبوت نہ فی الواقع درسِ اطاعت ِرسول ہے اور نہ اعترافِ ختم رسالت!
جس طرح ختم رسالت کے معنی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ محمد رسول اللہﷺپر بعثت ِانبیا ختم ہوگئی اور وہ آخری نبی تھے۔ اسی طرح اطاعت ِرسول اللہﷺکے معنی سوا ئے اس کے اور کچھ نہیں کہ حضورؐ کے ارشادات کی اطاعت کی جائے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ اطاعت ممکن ہی جب ہے کہ جس کی اطاعت کی جائے، اس کا حکم و ارشاد یا اس کی رہنمائی و ہدایت موجود ہو۔ اگر کوئی حکم یا ہدایت موجود ہی نہ ہو تو اس کی اطاعت کے کیا معنی یا اگر ہدایت اور حکم تو ہو لیکن کوئی شخص اس پر عمل کرنا ضروری نہ سمجھتا ہو تو پھر اطاعت کیوں کرے گا؟
اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد اور مسٹر غلام احمد دونوں ہی ختم نبوت اور اطاعت ِرسول کے منکرہیں۔ لیکن دونوں ہی بالترتیب ختم نبوت اور اطاعت ِرسول کے مسئلے پر زور دیتے ہیں۔ وہ آنحضرتﷺکو خاتم النّبیین تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ اطاعت ِرسول کا درس دیتے ہیں لیکن جس طرح کا ان کو اعتراف ہے اور جس قسم کی ان کی تفہیم ہے، اس کا مطلب اعتراف و تبلیغ کی بجائے محض انکار و تردید ہے اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ انکار کے لئے جوطریق کار (یاتکنیک) اوّل الذکر نے اختیار کیا، وہی بعینہٖ ثانی الذکر نے اختیار کیا یعنی مرزا غلام احمد نے لفظ ’خاتم النّبیین‘ کے معنیٰ بدل ڈالے اور مسٹر غلام احمد نے اطاعت ِرسول کا مطلب پلٹ دیا۔
جس طرح مرزائیوں نے کہاکہ خاتم النّبیین کے جو معنی سمجھے جاتے تھے (یعنی آخری نبی) وہ غلط ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نبی جس کے بعد اس کی اُمت میں بہت سے نبی ہوں، اسی طرح پرویزیوں نے کہا کہ اطاعت ِرسول کا جو مطلب سمجھا جاتا ہے (یعنی ارشاداتِ آنحضرتؐ کی پیروی) وہ غلط ہے۔ اوراس کا صحیح مطلب ہے’مرکز ِملت کی اطاعت‘
مرزا غلام احمد کی ہفوات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ان کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں کا خود اپنے پیشوا کے عقائد او راپنے طرزِ عمل پر تاسف بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن مسٹر پرویز کے پیروکاروں کے حوصلے ابھی بلند ہیں اور ان کے خیالات کی کشتی ان کے منتشر اور غیر متوازن افکار کی تاریکیوں میں ساحل کی بجائے خوفناک چٹانوں کی طرف بہتی چلی جارہی ہے۔ ہمیں اس کشتی سے کوئی دلچسپی نہیں البتہ ان لوگوں کی سلامتی مقصود اور محبوب و مطلوب ہے جو اس پر سوار ہیں۔ اسی مدعا کے پیش نظر میں ان کے رسالہ ’اطاعت رسول‘ کے مضمرات پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ وما توفیقي إلا باللہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’عبادت؍بندگی‘ اور ’اطاعت؍محکومیت‘ کو خلط مَلط کرنے کی کوشش
مقامِ شکر ہے کہ مسٹر پرویز کا یہ رسالہ اسی قدر گنجلک ، بے ربط، غیر منطقی اور اُلجھے ہوئے خیالات اور ناقص انشا کا ملغوبہ ہے کہ کوئی صحیح الخیال انسان یا عام فراست رکھنے والا شخص ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے مندرجات سے متاثر نہیں ہوسکتا، البتہ عوام کا ’مرض آمادہ‘ مزاج اور افرنجیت کی مسموم فضا سے مائوف ذہن عجب نہیں کہ اس کا اثر قبول کرلے۔ بلاشبہ یہ ایک بدبختی ہوگی لیکن اس رسالہ کو مسٹر پرویز کی علمی فرومائیگی یا ان کی ابلہی اور بلید الفہمی کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ بڑے سے بڑا عالم یا دانشور بھی جب کسی واضح غلطی کی حمایت میں قلم اٹھائے گا تو اس کے خیالات میں الجھائو، بیان میں گل جھٹیاں اور استدلال میں ایسی ہی خامیاں ناگزیر ہوں گی۔ پرویز کے متعلق میرا نظریہ تو یہی ہے کہ غلط کو صحیح یا صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے وہ صلاحیت بھی ان میں نہیں ہے جوو کلائے مرافعہ میں مشاہدہ کی جاتی ہے ۔ مثلا ً دیکھئے رسالہ کی پہلی ہی سطر میں لکھتے ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلی مثال
’’ دین کا مقصود ومطلوب یہ ہے کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی محکومی سے نکال کر قوانین خداوندی کی اطاعت میںلایا جائے۔‘‘اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی ہے :
(مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّوْتِيَهٗ اللّٰهُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّانِيِّيْنَ) (۳؍۷۸)
’’کسی انسان کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ اسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔ اسے یہی کہنا چاہئے کہ تم سب ربانی بن جائو۔‘‘
اب چونکہ ایک غلط بات پیش نظر تھی کہ کوئی شخص نبی کا محکوم نہیں ہوسکتا، اس لئے پہلے تو آیت کا غلط ترجمہ کرنا پڑا۔ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ کا صحیح مطلب تو یہ تھا کہ کوئی نبی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر میری ’بندگی‘ اختیار کرو‘‘ اس کی بجائے انہوں نے یہ ترجمہ کیا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر میری ’محکومی‘اختیار کرو‘‘… اس ترجمہ پر معترض کو یہ حق ہے کہ وہ کہے کہ شاید ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عبدیت اور محکومی میں کتنا فرق ہے۔ پھر اسی آیت کے ترجمے میں انہوں نے خود حکومت کا لفظ لکھا ہے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ خدا جس کو حکومت دے وہ کسی کو محکوم نہیں بنا سکتا تو کتنی بڑی حماقت ہے بھلا وہ حکومت کیسی جہاں کوئی محکوم ہی نہ ہو۔ یہ دونوں باتیں اگرچہ مسٹر پرویز کے علم اور عقل کی کوتاہی پر دال ہیں۔ لیکن میں ان کو ایسا نہیں سمجھتا۔ یہ قصور علم اور عقل کا نہیں بلکہ اس غلط تصور کا ہے جو ان کے ذہن پر مسلط ہے اور جس کے لئے انہیں یہ پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ اگر وہ ذرا سی بھی کوشش کرتے تو ان کو قرآنِ حکیم کے اُردو ترجموں میں بھی یہ بات لکھی ہوئی نظر آجاتی کہ آنحضرتﷺپر بعض دشمنانِ دین نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اللہ کی بجائے اپنی عبادت کروانا چاہتا ہے۔ اس پر یہ آیت اُتری کہ بھلا کوئی نبی ایسا کرسکتا ہے؟ آخر اس طرح صحیح مطلب بیان کرنے میں کون سی اسلامی روح کچلی جارہی تھی جس کی حفاظت کے لئے انہوں نے کلامِ الٰہی کی معنوی تحریف بھی کی اور کچھ مطلب حل نہ ہوا۔
زیر نظر رسالہ اسی قسم کی متعدد غلط اندیشیوں سے پرُ ہے۔ میں نے پہلی ہی سطر سے یہ مثال محض نمونہ کے طور پر پیش کی ہے۔ اب میں ان غیر اسلامی، بے مصرف اور غلط خیالات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو مسٹر پرویز نے اس رسالہ میں پیش کئے ہیں۔
اس رسالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے موضوع کو ایک غلط مقصود کا وسیلہ بنایا گیا ہے او ر اس طرح ایک نہایت متعفن غذا کو مکلف خوان پوش میں پیش کیا گیا ہے۔
موضوعِ کتاب تو ’اطاعت ِحق‘ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ
’’اطاعت اور محکومیت صرف خدا کی ہوسکتی ہے۔کسی انسان کی نہیں۔‘‘ (ص ۴)
اور مقصود یہ ہے کہ احادیث ِرسول اللہﷺ کا اتباع نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسی کا نام انکارِ سنت ہے اور یہی مسٹر پرویز کا مخصوص نظریہ ہے۔اس مقصد کے لئے سب سے پہلے انہوں نے آیاتِ قرآن حکیم سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر شخص کو صرف اللہ کا حکم ماننا چاہئے۔
میرے خیال میں اس مضمون کی تائید میں کلام پاک کا یہ ٹکڑاکافی تھا :
(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰهِ) یعنی ’’حکم دینے کا حق سوائے اللہ کے اور کسی کو بھی نہیں ہے۔ ‘‘ (الانعام: ۵۷)
لیکن انہوں نے بے سبب قرآنِ حکیم کی بعض غیر متعلقہ آیات کا غلط اور بے محل ترجمہ کرکے اپنی بصیرت کو ناحق مجروح کیا ہے، مثلاً( اَمَرَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِيَّاهُ) کا نہایت واضح مطلب یہ ہے کہ ’’اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی ’عبادت‘ نہ کرو۔‘‘ لیکن پرویز کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے سوا کسی کی ’اطاعت‘ مت کرو اور پھر زور دیا ہے کہ قرآن کی رو سے خدا کی ’اطاعت‘ یا ’محکومیت‘ اور خدا کی ’عبادت‘ سے مراد ایک ہی چیز ہے۔ پھر اس باطل خیال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن حکیم کی دوسری متعدد آیات میں ان کو معنوی تحریف کرنا پڑی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عبادت اور اطاعت میں فرق:
حالانکہ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ ’عبادت‘ اور ’اطاعت‘ کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عبادت اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی او راطاعت اللہ کے سوا دوسروں کی بھی ہوسکتی ہے بلکہ بعض اوقات ضروری ہوتی ہے۔ یعنی عبادت خاص اللہ کے لئے ہے اور اطاعت کسی کی بھی ہوسکتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں
(اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ) ’’یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔‘‘
کے الفاظ کم وبیش ۲۰ بار آئے ہیں لیکن ’’اُعْبُدُوْا اللّٰه وَاعْبُدُوْا الرَّسُوْلَ‘‘ ایک جگہ بھی نہیں۔ اگر اطاعت اور عبادت ایک ہی چیز ہوتی تو اُعْبُدُوْا الرَّسُوْلَ بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا۔عبادت کا جہاںکہیں بھی ذکر ہے، وہاں اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ ، اُعْبُدُوْا اللّٰهَ ، فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّه ، وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِيَعْبُدُوْا اللّٰهَ یعنی اپنے ربّ کی عبادت کرو، عبادت صرف اُسی اللہ کی کرو، اللہ کے سوا کسی کی عباد ت کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا وغیرہ۔
متعدد آیات میں اللہ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے سوا غیر اللہ کی عبادت سے روکا گیا ہے: (وَقَضیٰ رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلاَّ إيَّاہ)(بنی اسرائیل:۲۳) ’’تیرے ربّ کا یہ قطعی حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘ غرض تمام قرآن میں عبادت کا مستحق اللہ کے سوا کسی اور کو قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم یکجا طور پر بھی ہے
اور آنحضرتﷺکی اطاعت کا حکم انفرادی طور پر بھی ہے:
(وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ) (نور:۵۶) ’’رسول کی اطاعت کرو کہ تم پر اللہ کا فضل ہو۔‘‘
(وَمَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه وَمَا نَهٰکُمْ عَنْه فَانْتَهُوْا) (حشر:۷) ’’رسول جو (حکم؍رہنمائی) دے، اسے اختیار کرو اور جس سے منع کرے، اس سے باز رہو۔‘‘
دوسری آیات سے ’اطاعت‘ کے معنی بھی ظاہرہوگئے کہ اطاعت نام ہے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے بچنے کا۔ غرض جو حکم بھی رسول دے، اس پر عمل پیرا ہونااسی طرح واجب ہے جس طرح اس حکم پر عمل پیرا ہونا جو اللہ نے دیا اور چونکہ اطاعت ِرسولؐ کا یہ حکم بھی اللہ کا ہے، اس لئے جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ فی الواقع اللہ کے حکم کی اطاعت کرتاہے اور یہ توجیہ خود ساختہ نہیں ہے بلکہ قرآنی صراحت موجود ہے:
(مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ)(نساء :۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
لیکن قرآن میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ جس نے رسول کی عبادت کی، اس نے اللہ کی عبادت کی۔ کیونکہ اطاعت اور عبادت دونوں بالکل مختلف المعنی الفاظ ہیں۔ اگر کوئی شخص ذرا سی حقیقت پسندی کو کام میں لائے تو وہ تسلیم کرلے گا کہ بلاشبہ احکامِ الٰہی کی اطاعت بھی عبادت ہے لیکن ایسی صورتیں بھی ہیں کہ غیر اللہ کی اطاعت بھی عبادتِ الٰہی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ کبھی ممکن نہیں کہ غیراللہ کی عبادت بھی کسی صورت اللہ کی عبادت قرار دی جائے۔ اطاعت ِرسول کا واجب ہونا اور عبادتِ رسول کا حرام ہونا قرآنِ حکیم کی نہایت واضح تعلیمات میں سے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری مثال
مسٹر پرویز نے عبادت اور اطاعت کے مفہوم کو کچھ اس طرح اُلجھا دیا ہے کہ ان کی تمام تقریر مہمل ہو کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ آیت (اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰهِ اَمَرَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِيَّاہ) کے تحت لکھا ہے :
’’اگر عبادت سے مراد پرستش لی جائے تو آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے۔ حکومت صرف اللہ کے لئے ہے تم صرف اس کی پرستش کرو۔ خدا کی پرستش تو ہر حکومت میں ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے بنیادی حقوقِ انسانیت کا جو منشور شائع کیا ہے، اس میں پرستش کی آزادی کو انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔‘‘ (ص۳)
یہ عبارت ’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘ کی مشہور کہاوت کے عین مصداق ہے۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا اور کسی کا حکم واجب التّسلیم نہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ امریکہ میں ہو یا انگلستان میں ، روس میں ہو یا پاکستان میں، بہرحال عبادت اللہ کی کرو او ریہی اللہ کا حکم ہے۔ اگر خدا کی پرستش ہر حکومت میں ہوسکتی ہے تو آیت کے معنوں میں کیا خلل پیدا ہوگیا۔
اس سے بھی زیادہ مہمل عبارت یہ ہے:
’’خدا کی پرستش تو ہم انگریز کے عہد ِحکومت میں بھی کرتے تھے اور آج ہندوستان کامسلمان بھی خدا کی پرستش کرتاہے۔ اس لئے قرآن کی رو سے خدا کی عبادت سے مراد ہی اس کی محکومیت اختیار کرنا ہے۔‘‘ (ص۳)
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انگریز کے عہد ِحکومت میں خدا کی پرستش جو ہم کرتے تھے اور آج ہندوستان کا مسلمان جو خدا کی پرستش کرتاہے وہ اللہ کی محکومیت سے باہرہوکر کرتا ہے اور پاکستان یا عربستان میں جو آپ خدا کی پرستش کرتے ہیں تو وہاں اللہ کی محکومیت کے اندر رہ کرکرتے ہیں۔
ایک اور عبارت اس سے بھی زیادہ لغو ہے :
’’اگر خدا کی اطاعت سے مقصود محض پرستش، پوجا پاٹ، بندگی ہوتا تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ خدا کی کتاب کی اطاعت کرسکتا تھا۔ کوئی مندر میں، کوئی مسجد میں، کوئی صومعہ میں، کوئی کلیسا میں، کوئی خانقاہ میں اور کوئی زاویہ میں… مذہب کی رو سے خدا کی اطاعت کا یہی مفہوم ہے۔‘‘
کیا فی الواقع مسٹر پرویز مہمل طرازی کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جو لوگ پوجا پاٹ اور مندروں او رکلیسائوں میں عبادت کرتے ہیں، وہ خدا کی کتاب کی اطاعت ہے؟ یا کسی صورت اس کو خدا کی کتاب کی اطاعت کہا جاسکتا ہے؟ اور کیا خدا کی کتاب کا بنایا ہوا مذہب وہی ہے جو مندروں اور گرجائوں میں دیکھا جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان ہفوات سے ملت ِاسلامیہ کی کون سی عظیم الشان خدمت انجام دی جارہی ہے اور مسلمانوں کا روپیہ کس مقصد ِاعلیٰ اور کس دینی اصلاح کے لئے بے دریغ صرف کیا جارہا ہے۔
اس عبارت میں ایک او رابلہ فریبی سے کام لیا گیا ہے کہ اس میں بجائے لفظ عبادت کے اطاعت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا مسلمان بھی مسٹر پرویز کی طرح عبادت اور اطاعت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہر صحیح الخیال شخص دونوں کا فرق اچھی طرح جانتا ہے۔
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت کا عام مفہوم جس کو ایک معمولی درجہ کی فراست کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے، مسٹر پرویز اس کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اطاعت کا مفہوم ذہن نشین کرنے کے لئے یہ مثال ذہن میں رکھئے کہ کوئی بادشاہ اپنی محکوم رعایا میں سے کسی کو حاضر بارگاہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اب اس حکم کی اطاعت ممکن ہی نہیں جب تک کہ وہ شخص شاہی گماشتوں کے ان احکامات کی بھی اطاعت نہ کرے جو حضوریٔ بارگاہ کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً ستھرا لباس، وقت کی پابندی، ادب اور قاعدے کے وہ طریقے جو شاہی دربار میںپیش ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ عمالِ سلطنت اس کو ہر قدم پر ہدایات دیتے رہیں گے۔ اگر ان میں سے اس نے کسی ایک ہدایت یا حکم کی پروا نہ کی تو گویا ا س نے شاہی حکم کی تعمیل سے جی چرایا۔ اب بادشاہ کے اصل حکم کی تعمیل کے لئے تمام متعلقہ حکامِ اعلیٰ و ادنیٰ کے حکم کی تعمیل لازمی ہوگی اور سب کی تعمیل کرنا ہوگی۔ یہی معنی ہیں خدا کے حکم کی اطاعت کے اور رسول اللہ ا اور پھر خدامِ رسول اللہ اور پھر خدامِ خدامِ الرسل کے اَحکام کی اطاعت کے ۔
نماز خدا کا ایک حکم ہے لیکن بندۂ حق خدا کے اس حکم کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک رسول یہ نہ بتائے کہ نماز کیا ہے او رپھر وہ طریقے نہ سکھائے جو ادائے نماز کے لئے مقرر ہیں۔ کیونکہ رسول اسی کام کے لئے بھیجا جاتاہے او راسی لئے اسے مامور من اللہ کہتے ہیں۔ جس طرح ایک دانشمند مدار المہام سلطنت شاہی احکام کی تبلیغ کے بعد تعمیل حکم کے لئے ہدایات نافذ کرتا ہے، اسی طرح ایک مامور من اللہ احکام الٰہی کی تبلیغ کے بعد تعمیل کے لئے ہدایات دیتا ہے۔(يُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَاْلحِکْمَةَ) کے یہی معنی ہیں کہ رسول صرف اللہ کا حکم سنا کر سبکدوش نہیں ہوجاتا بلکہ اس حکم کی اطاعت کے لئے ضروری احکامات بھی نافذ کرتا ہے۔ نہایت بدبخت ہے وہ رعایا جو عمالِ شاہی کی ہدایات کو تسلیم نہ کرے اور نہایت بدبخت ہے وہ مسلمان جو رسول اللہ کی اطاعت کو بھی واجب نہ جانے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اطاعت ِرسول کا صحیح موقف اس سے کم، اس سے زیادہ یا اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
لیکن مسٹر پرویز نے اطاعت ِرسول کے ایک ایسے معنی گھڑ لئے ہیں، جو اطاعت ِرسول کی بجائے مخالفت ِرسول کا ایک مستقل عنوان بن گیا ہے۔ یہاں پر آپ کو یقین نہ آئے گا کہ ایک مسلمان جو اس قرآن پر ایمان رکھتا ہو جس میںاتباع و اطاعت رسولؐ کا حکم ایک دو جگہ نہیں بلکہ بیسیوں مقام پر موجود ہے، کس طرح اطاعت رسولؐ کی مخالفت کرسکتا ہے او رکیسے ممکن ہے کہ (اَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ) کے نہایت واضح اور بار بار دہرائے ہوئے حکم سے انحراف کرے۔ بلاشبہ اطاعت ِرسول سے انکار کرنا عام مسلمانوں کے لئے ممکن ہی نہیں۔ لیکن مسٹر پرویز کو اسلامی نظریات سے کنارہ کش ہونے کی جو خاص فنی مہارت حاصل ہے، اسی مہارت سے اس باب میں بھی انہوں نے کام لیا ہے۔ یہ کام احتساباً اگرچہ سخت مشکل تھا لیکن عملاً نہایت آسان ہے۔ ہم ان کے اس فن کا ذکر اجمالاً تو ابتدائی صفحات میں کرچکے ہیں، یہاں پر کس قدر تفصیل اور وضاحت مقصود ہے۔
اطاعت ِرسول سے انحراف کی پرویزی دلیل:مسٹرپرویز نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اطاعت ِخدا اور رسولؐ سے منکر ہوں۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ اطاعت ِخدا و رسولؐ کے معنی ’نظامِ مرکز‘ کی اطاعت ہے، وہ ص۱۳ پرلکھتے ہیں :
’’اللہ و رسولؐ سے مراد وہ نظامِ یا نظامِ مرکز ِامام ، امیر ہے ، جو اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے‘‘
اس عبارت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اللہ کے قانون کے نفاذ کا ذکر کرکے خدا کی اطاعت کا تصور تو باقی رکھا ہے لیکن رسول کی جگہ امام یا امیر کو دے دی گئی ہے یعنی جس طرح رسولؐ، اللہ کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے، اسی طرح امام یا امیر بھی اللہ ہی کے قانون کو عملاً نافذ کرتا ہے۔ اب آپ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ یہ تعبیر حکم قرآن اَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ کے صریحاً خلاف ہے کیونکہ انہوں نے آگے چل کر وضاحت کردی ہے کہ تمام مقامات میں ’’اللہ و رسولؐ سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔‘‘ (ص ۱۳)
اور اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ فرماتے ہیں:
’’یہ مفہوم انوکھا نہیں بلکہ شروع ہی سے ایسا سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ہمارے دور کی تفسیریں بھی شاہد ہیں، مثلاً ابوالکلام صاحب آزاد کی ترجمان القرآن اور مودودی صاحب کی تفہیم القرآن۔‘‘ (ص ۱۳)
یعنی ’ترجمان القرآن ‘ اور ’تفہیم القرآن‘ میں یہی بتایا گیا ہے کہ (اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ) میں اللہ اور رسول سے مراد امام یا امیر یا اسلامی نظام ہے۔ اس انکشاف سے ادھر تو مولانا آزاد کی روح پھڑک ہی گئی ہوگی۔ ادھر مولانا مودودی کے رفقا کو لازم ہے کہ مسٹر پرویز کو اس معنی آفرینی کا شکریہ لکھ بھیجیں!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اب ذرا آپ وہ دلیل جو اس امر کے ثبوت میں ہے کہ خدا اور رسول کے معنی امام یا امیر یا اسلامی نظام کے ہیں، جگر تھام کر سنئے۔ مبادا آپ کی فراست کلیجہ پھاڑ کر دم توڑ دے۔ فرماتے ہیں کہ
(اَطِيْعُوْا اللّٰهَ وَرَسُوْلَه، وَلَا تَوَلَّوْا عَنْه) میں اللہ اور رسول (دو) کا ذکر ہے اور عنہ میں ضمیر واحد ہے۔اس لئے ان دونوں سے مراد ایک امیر یا امام ہے۔ ‘‘
عنہ کی ضمیر واحد ہونے سے خدا اور رسول کے معنی امیر یا اسلامی نظام کے کس طرح ہوگئے؟ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ سردست یہ عبارت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مسٹرپرویز عربی زبان سے خوب واقف ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ’عنہ‘ میں ضمیر واحد ہے اور غالباً یہ ایک ایسا انکشاف ہے کہ آج تک کلامِ الٰہی کے مفسرین نہ دیکھ سکے کہ یہ ضمیر واحد ہے اور اس کے معنی سواے امیر یا ا سلامی نظام کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتے! انہوں نے غلطی کی جو اس آیت کا یہ مطلب سمجھا کہ اس میں اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم اور رسول کے حکم سے سرتابی کرنے کی ممانعت ہے اور یہ نہ دیکھا کہ اس ضمیر واحد کورسول کی طرف پھیر دینے سے مسٹر پرویز کا کارخانہ تباہ ہوجائے گا اور امارت و امامت یا اسلامی نظامت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ دلیل نظام اسلامی کے قرآنی ثبوت میں مسٹر پرویز کا شاہکار نہیں ہے کیونکہ اس سے بھی بڑا ثبوت انہوں نے یہ دیا ہے کہ
’’ہمارے ہاں بھی گورنمنٹ (حکومت) یا نظامی اجتماعی ادارہ (Organisation) کے لئے واحد کے ہی صیغے استعمال ہوتے ہیں۔ یہی مفہوم قرآن کے ان مقامات میں ہے۔‘‘ ( ص۱۲)
اب تو شاید کسی شخص کو بھی شبہ نہیں رہے گا کہ اللہ و رسول کے معنی ’اجتماعی ادارہ‘ ہے کیونکہ انگریزی میں Organisation کے لئے واحد ضمیر استعمال ہوتی ہے …خدا یا! عام بصیرت کا کیا اس قدر فقدان ہے کہ ایک شخص کو ایسے بے سروپا خیالات پیش کرنے کا حوصلہ ہوسکتا ہے؟
یقین ہے کہ اب کچھ کچھ آپ سمجھنے لگے ہوں گے کہ مسٹر پرویز کے اس ایچ پیچ اور خلجان میں پڑنے اور دوسروں کو خلجان میں ڈالنے سے کیا مدعا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اطاعت ِرسول کا زمانہ ختم ہوچکا، اب نظامِ اسلامی کی اطاعت ہی رسول کی اطاعت ہے۔چنانچہ اطاعت ِرسول کے یہ معنی سمجھانے کے بعد اب اطاعت ِرسول کا طریقہ بھی سنئے :
’’مذہب میں ہر شخص خدا کی اطاعت انفرادی طور پر کرتا ہے لیکن دین میں خدا کی اطاعت اجتماعی طور پر کرائی جاتی ہے ( گویا خدا کی اطاعت جو اجتماعی طور پر کرائی جائے، اس کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ناقل) لہٰذا مذہب میں اطاعت کے لئے صرف خدا کی کتاب کافی ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں خدا کی اطاعت کے لئے کتاب کے علاوہ کسی جیتی جاگتی شخصیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے (مدعا یہ ہے کہ جیتی جاگتی ہستی ہی نہ ہو تو خدا کی اطاعت کیوں کر ممکن ہے؟)۔ اسلام ’دین‘ کا نظام ہے مذہب نہیں، اس لئے اس میں تنہا کتاب کافی نہیں۔ اس کتاب کے مطابق اطاعت ِخداوندی کرانے والامرکز بھی ضروری ہے۔ یہ مرکزی شخصیت خدا کا رسول ہوتا ہے جس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔‘‘ ( ص ۶)
آگے لکھاہے:
’’لیکن رسول چونکہ بشر ہوتا ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے رسول کی اطاعت اس کی اطاعت نہیں بلکہ خدا کی اطاعت ہوتی ہے۔‘‘ ( ص۷)
یہ مضمون آئندہ دو صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ جس کو اصطلاحِ قصائد میں ’تشبیب‘ کہتے ہیں لیکن اس تشبیب کے بعد اب گریز ملاحظہ کیجئے :
’’یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اطاعت اس کی کی جاتی ہے جس کی بات سنی جاسکے جو محسوس طور پر درمیان میںموجود ہو۔ جو محسوس طور پر درمیان میں موجو د نہ ہو، عملی معاملات میںاس کی اطاعت کی ہی نہیں جاسکتی۔‘‘ (ص ۱۱)
یہ گریز آپ کو مقصود کے قریب تر لا رہا ہے ، مزید سنئے:
’’جب حضور نے وفات پائی تو کیفیت یہ ہوگئی کہ خدا کی کتاب تو موجود تھی لیکن وہ محسوس شخصیت جس نے کتاب اللہ کی اطاعت کروانی تھی (یہ جملہ کم سواد اشخاص کے خاص طرزِ نگارش میں سے ہے) موجود نہ رہی۔ یہ تو الگ بات ہے کہ رسول اللہ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب فرما کر اُمت کو نہیں دیا تھا۔ اگر کوئی ایسا مجموعہ موجود بھی ہوتا تو بھی مشکل وہی رہتی کہ کتابیں موجود تھیں لیکن مرکزی شخصیت موجود نہ تھی۔ (یہ پیش بندی اس لئے ہے کہ اگر احادیث کا کوئی مجموعہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کو بے اثر اور بے فائدہ بنا دیا جائے) ‘‘ (ص ۱۹)
دیکھا آپ نے مسٹر پرویز نے کس بے ڈھنگے طریقہ سے حدیث کی افادیت کوختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتے تو حدیث کی موجودگی میں بھی خود کو مرکزی شخصیت ثابت کرکے حدیث کو بھی اسی طرح ختم کردیتے جس طرح انہوں نے قرآن کا خاتمہ کیا یعنی آیاتِ کلامِ الٰہی کی طرح احادیث کو بھی فرمودۂ رسول کہے جاتے او رمطلب من مانا بیان کرتے رہتے۔ اب کون تھا جو ان سے پوچھتا کہ دین اور مذہب کا یہ فرق کہاں سے نکالا؟… کسی ضمیر کے مفرد ہونے سے امیر یا حاکم کا مفہوم کیوں کر پیدا ہوا؟… اطاعت اور عبادت ایک ہی چیز کس طرح ہوئی؟… دین میں اجتماعی او رمذہب میں انفرادی عبادت کا تصور کہاں سے لیا؟… اطاعت کے لئے کسی جیتی جاگتی شخصیت کی تلاش کیوں ہے؟… اسلام کے مذہب نہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟… مرکزی نظام کے بغیرخدا اور رسول کی اطاعت محال کیسے ہوئی؟… کسی بشر کی اطاعت کا ناجائز ہونا کس قرآن میں ہے؟… اگر رسول اللہ نے اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب فرما کر نہیں دیا تو دنیا میںہے کوئی شخص جس نے اپنے اقوال کا مجموعہ خود مرتب کرکے دیا ہو… مسٹر پرویز کا قصر عقائد جن فاسد بنیادوں پر قائم ہے ان کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا۔یہ رسالہ اس قسم کے اور بھی بے سروپا نظریات کا مجموعہ ہے۔ من جملہ ان کے ایک نہایت خلافِ عقل اور بے جان نظریہ یہ ہے کہ ’’رسول بشر ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘( ص ۷)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رسولﷺ کی اطاعت واتباع فرض ہے!
میں کہتا ہوں او رہر عقل سلیم اس بات کو تسلیم کرے گی کہ رسول تو رسول ہے؛ ہر شخص کی بلکہ کافر تک کی بات مانی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ معصیت ِخالق پر منتج نہ ہو۔ کافر ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیوںکرتے ہو؟ کافر حاکم کا فیصلہ کیوںتسلیم کرتے ہو؟ کافر مدعی کے وکیل کیوں بنتے ہو، کافر وکیل کا مشورہ کیوں مانتے ہو؟ البتہ اگر پرویز کا یہ مطلب ہے کہ حکم الٰہی کے مخالف حکم کی اطاعت جائز نہیں تو یہ بلاشبہ درست ہے، خود نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ’’لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق‘‘ یعنی بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی ایسا حکم ماننا جائز نہیں ہے جس میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو۔ لیکن ایسی صورت میں ’رسول‘ کا ذکر خارج از بحث ہے کیونکہ کبھی کوئی رسول معصیت ِخالق کا حکم دے ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا یہ جملہ رسول بشر ہے اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں، ایک ایسے منطقی تضاد پر مشتمل ہے جس کے قرب و جوار میں بھی عقل وفراست کا گزر نہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسٹر پرویز کے تمام استدلالات کی اصل بنیاد اسی ایک ابلہ فریب اصول پر ہے کہ خدا کے سوا کسی کی اطاعت جائز ہی نہیں۔صحیح خیال یہ ہے کہ ہر شخص کی اطاعت جائز ہے بشرطیکہ اس اطاعت سے احکامِ الٰہی کی مخالفت نہ ہو۔ لیکن رسول کی اطاعت جائز کیا، واجب ہے کیونکہ اس میںاحکامِ الٰہی کی مخالفت ممکن ہی نہیں!!
رسول اور غیر رسول کی اطاعت میںیہ فرق ہے اور یہ ایک ایسا ثابت شدہ قطعی اور محکم اُصول ہے جسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ اور یہ جو مسٹر پرویز نے لکھا ہے:
٭۔اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔‘‘ (ص ۷)
نہایت شرمناک جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح کیا، غیر واضح الفاظ میں بھی نہیں فرمایا کہ کسی نبی کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس اس کا واضح ارشاد ہے کہ نبی کا منصب ہی یہ ہے کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کروائے :
(وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ) (النسائ: ۶۴)
’’یعنی ہم نے رسول کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ بحکم الٰہی اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔اسی طرح یہ کہنا بھی کہ
’’خدا کی اطاعت براہِ راست نہیں کی جاسکتی، اس کی اطاعت رسول کی وساطت سے کی جاسکتی ہے۔‘‘(ص ۷)
[/QUOTE]علمی اور منطقی لحاظ سے ایک مہمل جملہ ہے۔ کیونکہ کسی کی وساطت سے کسی کے حکم کی اطاعت کے ہمیشہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص خود تعمیل حکم نہ کرے بلکہ کسی اور سے کروادے مثلاً خاوند بیوی کو کھانا لانے کا حکم دے اور بیوی نوکر کے ہاتھ کھانا بھیج دے تو یہ خاوند کی اطاعت نوکر کی وساطت سے ہوئی۔ لیکن یہ صورت یہاں نہیں ہے۔ اللہ نے بندے کو جن فرائض کی بجا آوری کا حکم دیا ہے، اس کا بجا لانا براہِ راست بندے ہی کا کام ہے۔ اس کی اطاعت رسول کی بجا آوری سے نہیں ہوسکتی۔عیسائیت کی بنیاد اسی غلط خیال پر قائم ہے۔
مسٹر پرویز اگر یہ کہنا چاہتے تھے کہ خدا کی اطاعت کا طریقہ رسول کی ہدایت کے بغیر کوئی شخص نہیں جان سکتا تو یہ بلاشبہ درست ہے ۔ لیکن اس مدعا کے لئے یہ عبارت صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اطاعت کا جہاں تک سوال ہے وہ براہِ راست ہی ہر شخص کو کرنا پڑے گی۔ ہر متنفس احکامِ الٰہی کی اطاعت کا براہِ راست مکلف ہے۔ کاش مسٹر پرویز سمجھ سکیں کہ اطاعت کے مفہوم کو وساطت سے کوئی نسبت نہیں۔ رسول کی وساطت حکم پہنچانے کے لئے ہوتی ہے۔ اطاعت کے لئے رسول کی وساطت ایک بے معنی تخیل ہے۔
٭۔اسی طرح اس آیت کا مدعا بھی نہایت گنجلک بنا دیا گیا ہے : (يٰاَايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اَطِيْعُوْ اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِیْ الاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَيْیِٔ فَرُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ)(۵۹؍۴) ’’اے ایمان والو! تم اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی او راپنے میں سے صاحب اختیار لوگوں کی۔ پھر اگر کسی معاملہ میں تمہیں اختلاف (منازعت) ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لے جائو۔‘‘
لکھتے ہیں کہ
’’اس آیت میں اسلامی نظام کا پورا نقشہ دے دیا گیا ہے۔‘‘
اگر اسلامی نظام سے مراد اسلامی نظامِ حیات ہے تو کسی شخص کو انکار کی گنجائش نہیں۔ بلاشبہ اس میں اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے حکم کو مانو اور رسول ؐ کے حکم کو بھی مانو او رحاکم وقت کی بھی اطاعت کرو۔ لیکن حاکم وقت کی اطاعت کے لئے یہ شرط بڑھانا ضروری ہے کہ اس کا حکم واجب اطاعت جبھی ہوگا کہ وہ خدا اور رسول کے احکام کے خلاف نہ ہو۔
لیکن اسلامی نظام کے وہ خدوخال جو مسٹر پرویز نے پیش کئے ہیں، وہ اس آیت کی تصریحات سے کوسوں دور ہیں ۔
’’اس نظام میں تمام متنازعہ فیہ اُمور کے فیصلوں کے لئے رسولؐ کے پاس آنے کا حکم ہے۔‘‘ (ص۱۴)
کوئی پوچھے کہ رسول کے پاس آنے کا حکم اس آیت میں کہاں پر ہے۔ اگر لفظ ردوہ الی الرسول کے معنی رسول کے پاس آنے کے ہیں تو رُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ کے معنی اللہ کے پاس جانے کے کیوں نہیں ہیں؟ اللہ و رسول کی طرف کسی معاملہ کو لے جانے کا واضح مدعا صرف یہ ہے کہ دوباتوں میں سے جو بات کتاب و سنت کے مطابق ہو، اس پر عمل کرو۔ لیکن وہ شخص جو سنت کا قائل ہی نہ ہو وہ اس بات کو کیسے مان سکتا ہے۔ مسٹر پرویز کو چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کسی امر کے پیش آنے پر فقہائے اسلام کس طرح اس کو اللہ ورسول کی طرف ردّ کرتے یا لے جاتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭۔یہاں پر یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم سے رسولؐ کے پاس آنے کا حکم ثابت کرنے سے مسٹر پرویز کے مقاصد کو کیا تقویت پہنچتی ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے ملحقہ عبارت کو پڑھئے :
’’لیکن جب یہ نظام مدینہ سے آگے بڑھا تو یہ عملاً ناممکن تھاکہ دور دراز کے لوگ اپنے مقدمات کے فیصلوں کے لئے مرکز کی طرف آتے۔ اس کے لئے مختلف مقامات میں ماتحت افسر’صاحبانِ امر‘ مقر ر کرنے پڑتے۔‘‘ (ص ۱۴)
اب دیکھئے رسول ؐ کے پاس آنے کا حکم کس طرح غیر رسول کے پاس جانے کے حکم میں منتقل ہوتا جارہا ہے۔ آگے بڑھئے :
’’ان افسروں یا عدالتوں کی اطاعت خود مرکزی حکومت کی اطاعت تھی لیکن ایک فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ مرکزی حکومت کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، اس کا فیصلہ حرف ِ آخر تھا لیکن ان ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے خلاف مرکز میں اپیل ہوسکتی تھی۔ یہ مطلب ہے اس سے کہ (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیٍ فَرُدُّوْه اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ) اگر تم میں اور اولی الامر صاحبان اور افسرانِ ماتحت میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو تم ایسے معاملے کو مرکز کی طرف Refer کرو۔ وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو، اس کی اطاعت تم پر فرض ہوجائے گی۔‘‘
غور کرتے جائیے کہ پہلے رسول کا فیصلہ مطلوب تھا، پھر رسول کے بعد ماتحت افسروں کا فیصلہ واجب تسلیم ہوا۔ پھر اختلاف کی صورت میں مرکز کا فیصلہ قطعی ہوا۔ آخر کی عبارت میں ’مرکز‘ کا لفظ رسول کی بجائے مصلحتاً استعمال کیا گیا ہے۔ آگے چل کر یہ مرکز جس کے ساتھ رسول کا تصور ہنوزباقی ہے، خالصتاً حکامِ وقت کے تصور میں بدل جائے گا۔ سائنس کی اصطلاح میں اس کو ’عمل تبخیر‘ یا ’عمل تقطیر‘ کہتے ہیں۔
 
Top