• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اعتکاف کے چند بنیادی مسائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!

ایک صاحب ایسی مسجد میں اعتکاف پر ہیں جہاں جمعہ نہیں ہوتا..
کیا اُن کا اعتکاف ہوا یا نہیں؟
جمعہ کی ادائیگی کے لیے انہیں دوسری مسجد جانا پڑے گا..
موصوف کا سوال ہے کہ وہ کیا کریں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
ابھی تو مسجد جانے کاوقت ہو چلا ہے ،نماز کے بعد ۔۔ان شاء اللہ ۔۔کچھ دیر نیند
پھر اگر زندگی مل گئی تو جواب عرض کردوں گا ۔
ان شاء اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ابھی تو مسجد جانے کاوقت ہو چلا ہے ،نماز کے بعد ۔۔ان شاء اللہ ۔۔کچھ دیر نیند
پھر اگر زندگی مل گئی تو جواب عرض کردوں گا ۔
ان شاء اللہ
ان شاء اللہ.
مزید اعتکاف کے لۓ روزہ شرط ہے کہ نہیں؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!

ایک صاحب ایسی مسجد میں اعتکاف پر ہیں جہاں جمعہ نہیں ہوتا..
کیا اُن کا اعتکاف ہوا یا نہیں؟
جمعہ کی ادائیگی کے لیے انہیں دوسری مسجد جانا پڑے گا..
موصوف کا سوال ہے کہ وہ کیا کریں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ کریم کا ارشاد ہے :
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} جب تم مساجد میں اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو "البقرہ 187 )
اور اس لئے بھی نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف کیا ،
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ " شرعاً اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ کچھ وقت کیلئے مسجد میں ٹھہرنا ، رکنا
شرعا: اللبث في المسجد على صفة مخصوصة بنية "
تو واضح ہے کہ مسجد میں مخصوص نیت سے کچھ وقت پابند ہونے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ،
اگر اس وقت کے دوران مسجد سے نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
لیکن چونکہ انسان کی کچھ ضرورتیں ایسی جن کے بغیر اس کا گزارہ مشکل ہے جیسے کھانا ،پینا اور حوائج ضروریہ تو ان کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے ،
جسمانی ضرورتوں کی طرح کچھ دینی ضرورتیں بھی ایسی ہیں جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ،مثلاً فرض نماز ،نماز جمعہ وغیرہ
اسی لئے علماء کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے ،تاہم افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے ؛
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز فرماتے ہیں :
وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك."
" اگر دوران اعتکاف جمعہ آتا ہو تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے "
اور
علامہ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں :(والأفضل أن يكون في المسجد الذي تقام فيه الجمعة، لئلا يحتاج إلى الخروج إليها )
(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين 20/ 157 )
یعنی افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے "
مزید لکھتے ہیں :
(فإن اعتكف في غيره فلا بأس أن يبكر إلى صلاة الجمعة )
اگر جامع مسجد اعتکاف نہ کرے ، تو جامع مسجد نماز جمعہ کیلئے جا سکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھی جاتی ،تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے
لیکن اگر اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
امام محی السنہ أبو محمد الحسين بن مسعود الفراء البغوي (المتوفى: 516 ھ ) فرماتے ہیں :
" أما الخروج للجمعة، فواجب عليه، لا يجوز له تركه.
واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قوم إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة.
وذهب بعضهم إلى أنه يبطل اعتكافه، وهو قول مالك، والشافعي، وإسحاق، وأبي ثور، قالوا: إذا كان اعتكافه أكثر من ستة أيام، يجب أن يعتكف في المسجد الجامع، لأنه إذا اعتكف في غيره يجب عليه الخروج لصلاة الجمعة، وفيه قطع لاعتكافه، فإن كان أقل من ذلك، أو كان المعتكف ممن لا جمعة عليه، اعتكف في أي مسجد شاء "

(شرح السنۃ ج6 ص401 )
یعنی :
نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے، جس کو ترک نہیں کیا جاسکتا ،
لیکن
اگر (اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے ) نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
اس پر دو قول ہیں : ایک یہ اس نکلنے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ،امام سفیان الثوریؒ ،امام عبد اللہ بن مبارکؒ اور اہل رائے کا یہی قول کہنا ہے ، کیونکہ (نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکلنا ) جسمانی حوائج ضروریہ کی طرح (ایک حاجت ضروریہ ) ہی تو ہے ،
لیکن کچھ دیگر ائمہ و علماء کے کہنا ہے کہ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
امام مالکؒ امام شافعی ؒ ،امام اسحاق ؒاور امام ابو ثورؒ کا یہی قول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھ دن سے زائد کا اعتکاف کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے ، کیونکہ اگر جامع مسجد اعتکاف نہیں بیٹھے گا تو جمعہ کیلئے نکلنا ہوگا ، جس سے اعتکاف ختم ہوجائے گا ،
ہاں اگر چھ دن سے کم کا اعتکاف کرے ( اور ان چھ دنوں میں جمعہ نہ آتا ہو ) تو جس مسجد میں چاہے اعتکاف کرسکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ:

افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے ،
لیکن اگر جامع مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد جاسکتا ہے ، جس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جواز کی تفصیل درج ذیل ہے ،جو " الموسوعة الفقهية الدرر السنیہ ) سے ماخوذ ہے


من وجبت عليه الجمعة، وكانت تتخلَّل اعتكافه، فإنه لا يشترط لصحة استمرار الاعتكاف أن يكون اعتكافه في الجامع - وعليه أن يخرج لحضور الجمعة ثم يرجع إلى المسجد الذي يعتكف فيه - ولكنَّ الأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع، وهو قول الحنفية (7)، والحنابلة (8)، وقولٌ لبعض السلف (9)، وهو اختيار ابن العربي المالكي (10)، وابن باز (11)، وابن عثيمين (12).
الدليل:
عموم قوله تعالى: وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ [البقرة: 187]
فلفظ المساجد عامٌّ لجميع المساجد، وتخصيصه ببعض المساجد دون بعضٍ يحتاج إلى دليل.
وأما خروجه إلى الجمعة فهو ضرورةٌ من الضرورات، لا يبطل بها الاعتكاف.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشية:
(7) ((المبسوط للسرخسي)) (3/ 108)، ((بدائع الصنائع للكاساني)) (2/ 114).
(8) ((الفروع لابن مفلح)) (5/ 140)، ((شرح منتهى الإرادات للبهوتي)) (1/ 501).
(9) قال البغوي: (أما الخروج للجمعة، فواجبٌ عليه، لا يجوز له تركه. واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قومٌ إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة) ((شرح السنة)) (6/ 401).
(10) قال ابن العربي: (إذا اعتكف في مسجدٍ لا جمعة فيه للجمعة، فمن علمائنا من قال: يبطل اعتكافه، ولا نقول به; بل يشرف الاعتكاف ويعظم. ولو خرج من الاعتكاف من مسجدٍ إلى مسجد لجاز له; لأنه يخرج لحاجة الإنسان إجماعاً، فأي فرقٍ بين أن يرجع إلى ذلك المسجد أو إلى سواه؟) ((أحكام القرآن)) (1/ 180).
(11) وقال ابن باز: (ومحل الاعتكاف المساجد التي تقام فيها صلاة الجماعة، وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442).
(12) وقال ابن عثيمين: (وهو في كل مسجدٍ، سواء كان في مسجدٍ تقام فيه الجمعة، أو في مسجدٍ لا تقام فيه، ولكن الأفضل أن يكون في مسجدٍ تقام فيه، حتى لا يضطر إلى الخروج لصلاة الجمعة) ((مجموع فتاوى ورسائل العثيمين)) (20/ 155).
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب!
مزید سوال ہوا ہے کہ اگر اس مسجد میں اس مرتبہ جمعہ پڑھانے کا انتظام کر لیا جائے تو۔۔ کوئی حرج تو نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اعتکاف کے لۓ روزہ شرط ہے کہ نہیں؟؟؟
اعتکاف کیلئے روزہ شرط نہیں ؛ کیونکہ اس کی کوئی صحیح اور صریح شرعی دلیل نہیں،
روزہ اور اعتکاف مستقل علیحدہ ،علیحدہ دو عبادتیں ہیں ،اور ایک کو دوسری کیلئے شرط بنانے کی مستقل صریح دلیل موجود نہیں ،
قال ابن باز: (ولا يشترط أن يكون معه صومٌ على الصحيح فلو اعتكف الرجل أو المرأة وهما مفطران فلا بأس في غير رمضان) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 441). وقال أيضاً: (ولا يشترط له الصوم ولكن مع الصوم أفضل)
((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442)
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ ابن باز فرماتے ہیں :صحیح بات یہ ہے کہ اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ، لہذا اگر غیر رمضان کوئی مرد و عورت بغیر روزہ اعتکاف کرے تو درست ہے ،

قال ابن عثيمين: (القول الثاني: أنه لا يشترط له الصوم .. وهذا القول هو الصحيح) ((الشرح الممتع)) (6/ 507)
علامہ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں :اعتکاف کیلئے روزہ ہونا شرط نہیں ،صحیح قول یہی ہے "
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مزید سوال ہوا ہے کہ اگر اس مسجد میں اس مرتبہ جمعہ پڑھانے کا انتظام کر لیا جائے تو۔۔ کوئی حرج تو نہیں؟
جی کوئی حرج نہیں ،اگر جمعہ کی تمام شرعی شرائط پوری کردی جائیں ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اعتکاف کی مشروعیت و فضیلت

کتاب و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ وعھد نا الی ابراہیم و اسماعیل أن طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود‘‘ (سورۃ البقرۃ؍125) یعنی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اوررکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔
 
Top