• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

افسانے: شہناز احمد (آٹووا)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حیاء

کونسی لڑکی تھی خاندان کی، دوستوں کی ،ملنے جلنے والوں کی ،پڑوسیوں اور غیروں کی جسے بڑی اماں نے رد نہ کیاہو۔نعیم بھائی کے لئے کوئی ان کے معیارپر پوری ہی نہ اترتی تھی۔کسی کارنگ صاف نہیں تھا۔توکسی کاقد مناسب نہ تھا۔ تو کسی کی آنکھیں غلافی تھیں تو بال گھٹائیں نہ تھے اور اگر کہیں چودھویں کاچاند تھا بھی تو ان کے ابا مالدار نہ تھے۔ غرضیکہ نعوذ باللہ لگتا تھا نعیم بھائی نہ ہوگئے کوئی آسمان سے اتری ہوئی چیز ہوگئے جس کی شریک حیات ہرعیب سے پاک اور ہر ہنر سے آراستہ ہو۔
پوراخاندان برسوں تذبذب اور امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا رہا۔باہر کی لڑکیوں کو جب بڑی اماں ناپسند کرکے آتیں تو اماں اور چھوٹی چچی کا رکا ہوا سانس باہر آجاتا۔ اے کیاپتہ اللہ انہیں سمجھ دے دے اور اپنے گھر کی اتنی اچھی اچھی لڑکیوں کاحق نہ ماریں۔ خاندان بھرا پڑا ہے لڑکیوں سے۔ ہرسنِ اور ہر رنگ کی بقول پھپھو لڑکیاں موجود تھیں۔مگر بھائی معاملہ نعیم بھائی کا تھا۔جو خیرسے کینیڈا سے تعلیم حاصل کرکے وہاں شاندار ملازمت کررہے تھے۔ نہ صرف ملازمت کررہے تھے بلکہ بقول ان کی اماں کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ میرے نعیم نے تو خاندان کی عزت میں چار چاند لگا دیئے۔اتنا قابل اور اتنا لائق سعادت مند اور فرمانبردار بیٹا ہے کہ پانچ سال سے باہر ہے مگر شادی ہماری پسند کی کرے گا۔ اتنی بڑی ڈگری پاس ہے مگر غرور اور تکبر نام کونہیں ہے۔ بہنوں کے لئے توکم عمری سے ہی کی ہے مگر اب بھانجیوں کی بھی فکر ہے۔ پرچھوٹی دلہن، اپنوں پر خرچ کرنے سے کہیں رزق کم ہوا ہے؟۔ جتناوہ پنے گھر پر خرچ کرتا ہے اتنا ہی اللہ اسے دے رہاہے۔ اب تم دیکھو کہ اس نے بہت بڑی کوٹھی بھی خرید لی ہے۔ جس دن بڑی اماں نے یہ خبر سنائی اماں کی امیدوں پراوس پڑگئی لو اب تو ضرور تمہاری بھاوج ہمیں خاطر میں لائیں گی!۔بڑی اماں رازداری سے ہمیں سوتا سمجھ کر ابا سے کہہ رہی تھیں۔ بیچاری بڑی اماں کی فرمانبرداری اور خاطریں کرتے کرتے تھک گئی تھیں اسی امید میں کہ نعیم جیسا ہیرا شاید ان کی بیٹی کی جھولی میں آجائے۔بجو کو کس طرح انہوں نے بنایا سنوارا ن کے اخلاق درست کئے اور اپنی حد تک کونسی نیکی ، خاطریں ، محبت اور خلوص کاثبوت تھا جو انہوں نے بڑی اماں کی خدمت میں پیش نہیں کیاہو۔ویسے ایمان کی بات ہے ، بڑی اماں کابھی ایمان ہل ہل جاتا تھا۔ اماں کی محبتیں دیکھ کر کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ اب کی بارتو بس وہ بجوکو انگوٹھی پہناہی دیں گی۔ ویسے اشارے کنایوں میں انہوں نے اپنا عندیہ ظاہر کیاتھا مگر خدا جانے یہ آس صرف اماں کوتھی یا چھوٹی چچی پھپھو اور خاندان کی دوسری ماؤں کو بھی تھی؟۔بہرحال قصہ مختصر نعیم بھائی اپنی جگہ کوہ قاف کے شہزادے اور خاندان کے راجہ اندر سہی مگر بقول دادی اماں کے اے بیوی نکاح توعرش پر ہوتے ہیں۔ تو جناب ایک دن یہ خبر بجلی بن کر گری کہ بڑی اماں پنڈی جاکر اپنے بھانجے کی پندرہ سالہ اکلوتی بیٹی سے نعیم کانکاح کرآئی ہیں۔ ہرایک کوسکتہ ہوگیا۔شدت رنج اور شدت جذبات ہرقسم کی باتیں منہ سے نکلوارہے تھے۔ تایا ابا کے گھر پورا خاندان جمع تھااور بڑی اماں بہت مطمئن خوشی کوچھپائے ہوئے دبی دبی زبان میں بتا رہی ہیں۔ اے بی بی میراتو ارادہ نہیں تھا۔وہ تو اللہ کاحکم۔ ہرچیز ایسی چٹ پٹ ہوگئی کہ کیابتاؤں۔ سب کو پتہ ہی ہے کہ میں پنڈی کوئی اس ارادے سے تو گئی ہی نہیں تھی۔ میں تو نعیم سے ملنے گئی تھی وہاں جو منظور میاں اور ان کی دلہن ملنے آئے تو اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لائے تو اے بہن میں تو بس دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ماشاء اللہ ایسی حسین جیسی اللہ میاں نے خود اپنے ہاتھ سے بنائی ہو (نعوذ باللہ، کشور نے آہستہ سے میرے کان میں کہا، ایسے کہہ رہی ہیں جیسے ہمیں تودوسروں سے بنوایا تھا)۔ بس بی بی نسیمہ کو بھی اچھی لگی اور قسمت کی بات دیکھو دوسرے دن جب میں نے منظور میاں سے کہا، دونوں میاں بیوی اتنے نیک اور اچھے کہ لوفوراً راضی ہو گئے۔ کہنے لگے خالہ اماں آپ کوئی غیر ہیں شہلا آپ کی ہی بیٹی ہے۔ اے یقین جانومجھے تواپنے کانوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ وہ مسکرائیں اورپھپھو کادل جل کر رہ گیا ایسی آسمان سے اتری حور انہیں مل گئی تھی کہ یقین نہیں آرہا تھا۔یہاں لوگ دعائیں اور وظیفے پڑھ پڑھ کر ٹوٹ گئے وہ بڑبڑائیں۔ خیر جوہوناتھا ہوچکا لکیر پیٹتے رہو۔سب اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔
پھر نعیم بھائی اپنے ابا کی ا کلوتی حسین وجمیل بیٹی کو بیاہنے آگئے۔اس دھوم دھڑکے سے شادی ہوئی کہ خاندان میں یادگار بن گئی۔ دور دور سے لوگوں نے آکر شرکت کی۔خوشی میں سب شریک تھے اور دل بھرے ہوئے تھے۔لیکن بڑی اماں کی پسند کے بھی لوگ قائل ہوگئے تھے کہ کیاڈھونڈ کرلائیں تھیں۔مگر لڑکیوں کوبڑا غم تھا کہ اتنی کم عمر لڑکی کی اپنے سے دوگنی عمر کے لڑکے سے شادی ہورہی ہے۔پر نعیم بھائی اتنے ہینڈسم اورGood Lookingتھے کہ عمر اتنا بڑا مسئلہ ہی نہیں تھی۔ یہی بات کسی نے اماں کے سامنے کہی تو وہ پھٹ پڑیں۔اے اور لو لڑکے کی کوئی عمر دیکھتا ہے۔ ہائیں کیامطلب کبھی آپ کہتی ہیں لڑکے کاکوئی رنگ دیکھتا ہے ، لڑکے کی کوئی شکل دیکھتا ہے اب آپ کہہ رہی ہیں لڑکے کی کوئی عمر دیکھتا ہے۔ سعدیہ آپا حیران تھیں۔ہاں بیٹا مرد اپنی عمر سے کم ہی لگتے ہیں اور عورتیں جلد بوڑھی ہوجاتی ہیں اور نعیم تو ماشاء اللہ شہزادہ لگتا ہے۔ انہوں نے گہرا سانس لیا۔بڑی اماں کاگھر ہرچیز سے بھرگیا۔ وہ بہوپر تو واری تھیں ہی، سمدھن او ر سمدھی پربھی قربان ہوئی جارہی تھیں،جنہوں نے ان کے سارے ارمان پورے کر دیئے تھے۔کوئی آرزو نہ تھی ان کی جوپوری نہ ہوئی تھی۔مع ان کے سونے کے کڑوں کے جو بہو کے گھر سے ملے تھے اور کوئی چیز نہ تھی جس کی کمی دلہن میں رہ گئی تھی۔ دولت ،حسن، خاندان کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی فرفر بولتی تھی او ر سچی بات یہ ہے کہ اس قابلیت نے سب کو چت کیاہوا تھا۔خیر جی مہینہ بھرسسرال میں رہ کر دلہن بیگم میاں کے ساتھ کینیڈا سدھار گئیں۔نندیں ، دیور بھاوج پر نثار ہورہے تھے۔خسر صاحب بھی پرزئہ فاضل ہونے کے باوجود فخروغرور میں کسی سے پیچھے نہ تھے کہ کیاخوش قسمت پید اکیاہے۔
لوگ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں ، دنیامیں بڑے بڑے ہنگامے برپا ہوتے ہیں۔ عرصہ دراز تک ان کاچرچا رہتا ہے۔ کچھ جلدی ہی ختم ہوجاتے ہیں اورکچھ کی یادیں برس ہابرس ذہنوں میں محفوظ رہتی ہیں۔ نعیم بھائی کی شخصیت ان کاسحر انگیز تصور اور پھر ان کی شادی خاندان کی اکثر لڑکیوں کے دل میں ایک کلبلاتی ہوئی یاد تھی۔سب اپنے اپنے گھر کی ہوگئی تھیں ، شادیاں ہوکر ادھر ادھر چلی گئی تھیں۔ بڑی اماں خوشیاں زیادہ عرصہ نہ دیکھ پائیں لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہو کی نظر عنایت ان پر واضح ہونے لگی تھی۔ مگر وہ تھیں اتنی گہری کہ مرتے مرگئیں پر کسی کو ہوا نہ دی۔ویسے بھی وہ سینکڑوں میل دور تھیں۔ بڑی بوڑھیوں کے اندازے کسی حد تک صحیح ثابت ہورہے تھے لیکن کسی کوبھی اتنا یقین نہ تھا کیونکہ نعیم بھائی کسی سے کم تو نہ تھے۔یہ تو اماں نے پہلے دن ہی کہدیاتھا ''کہ اے بی !اتنی رئیس حسین فیشن ایبل بہولائیں ہیں چاردن کے بعد کلام تک نہیں کرے گی'' لیکن اس وقت سب نے ان کو آڑے ہاتھوں لیاتھا کہ واہ نعیم بھی کوئی گراپڑا ہے؟جب ماں باپ نے ایک دفعہ ہامی بھر کرچٹ منگنی پٹ بیاہ کردیا تو ایسے کیساہوگا۔ خیر جناب لوگ بھانپنے کی بہتیری کوشش کرتے رہے لیکن ایک تو بڑی اماں کے گھر کسی چیز کی کمی نہ تھی دوسرے اب لوگوں کو بھی بڑی اماں میں اتنی دلچسپی نہ رہی تھی۔کیونکہ فہیم کینیڈا میں نہیں پاکستان میں تھے اور ویسے بھی وہ نعیم بھائی کی طرح لائق فائق نہ تھے۔بی اے بھی بڑی مشکل سے کیاتھا اور اپنی کلاس فیلو سے ہی عشق کرکے شادی کرچکے تھے۔اور پھر بیچاری نعیم بھائی کی شادی کے بعد زیادہ عرصہ تک زندہ بھی نہ رہیں۔بڑے ابا کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔اور سب اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف تھے کہ برس گذر جاتے تھے کسی رشتے دار عزیز سے ملے ہوئے۔ کسی شادی بیاہ کے موقع پر ہی ملاقات ہوجاتی تو ہوجاتی۔


نوید اپنی کسی ٹریننگ کے سلسلے میں کینیڈا آرہے تھے ان کااصرار تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ چلوں اور میرا بڑی جلدی آنے کاپروگرام بنا۔آتے وقت میں نے فہیم سے فون کرکے نعیم بھائی کانمبر لے لیا دیکھو موقع ملاتو ان سے بھی ملوں گی۔وہ کسی دوسرے شہر میں تھے۔آنے کے بعد ایک ڈیڑھ ہفتہ تو مصروفیت میں گزر گیا۔اسکے بعد میں نوید کے پیچھے پڑگئی کہ نعیم بھائی سے بات کریں خون کاتعلق بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ میرے سگے تایازادبھائی ہیں۔ میرادل چاہ رہا تھا کہ ان سے ملوں۔بچپن میں ہم لوگ اتنے قریب ہوتے تھے اگر انہیں پتہ چلے کہ میں یہاں ہوں اورفون تک نہیں کیاتو ان کو کتنا صدمہ ہوگا۔ اچھا بابا آپ پر اگر بھائی کی محبت ایسی غالب ہے تو اگلے ہفتے میں آپ کو ان سے ملاتا ہوں۔نوید بڑے اچھے موڈ میں تھے اور میں نے جلدی سے نمبر ملایا۔ عجیب سے جذبات تھے کہ پتہ نہیں کون فون اٹھائے۔ کس طرح اپنا تعارف کراؤں گی۔ اب تو ماشاء اللہ ان کے بچے بھی بڑے ہوگئے ہوں گے اس سوچ میں تھی کہ دوسری طرف سے کوئی بالکل انگریزی لہجے میں ہیلو کہہ رہاتھا۔نعیم بھائی سے بات کرنا چاہتی ہوں میں ان کی کزن بول رہی ہوں۔ کون سی کزن ان کی توہزاروں کزنز ہیں۔ آواز کی تلخی سے میں سب کچھ بھول گئی۔ آپ کون بول رہی ہیں میں شیلی بول رہی ہوں ، نعیم کوبلاتی ہوں۔ انہوںنے مزید کوئی بات کرکے وقت ضائع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ،نعیم بھائی بڑی گرم جوشی سے باتیں کررہے تھے ہمارے آنے کاسن کر بہت خوشی کااظہار کیا۔
میں ایک نہایت بلند و بالا شاندار اور نہایت خوبصورتی سے سجے ہوئے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھی تو حیرتوں میں غرق ہوگئی۔ اللہ کیاپندرہ سولہ سال کا عرصہ اتنا طویل ہوتا ہے کہ لوگوں کو مسخ کرکے رکھ دیتا ہے۔ یازمانہ سنگین ہوتا ہے کہ انسانوں کو زندہ تورکھتا ہے مگر ان کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ یامادیت کی یہ چکاچوند اتنے بڑی بھینٹ لیتی ہے کہ لوگ اسکے لئے رگڑ جاتے ہیں ، پِس جاتے ہیں۔ یازوجین کی باہمی ناموافقت یہ رنگ دکھاتی ہے؟ کیا ہے یہ راز۔کیاہے یہ چکر اور کیاہے یہ سلسلہ؟۔ چند لمحوں میں توکوئی بھی کچھ اندازہ نہیں لگاسکتا لیکن اتنی جلدی میرے آخری گمان کوتقویت مل رہی تھی۔نوید نعیم بھائی سے کبھی ملے ہی نہ تھے لہٰذا وہ بڑے اطمینان سے ان سے باتوں میں مصروف تھے۔مگر نعیم بھائی کی بے چینی میری نظروں سے پوشیدہ نہ تھی اور میری ہمت نہ پڑرہی تھی کہ میں نعیم بھائی کو نظر بھر کر دیکھ لوں ، ہنستا مسکراتا چہرہ دل آویز شخصیت ، وہ باوقار انداز سب ہی کچھ نجانے کہاں چلاگیاتھا۔میرے سامنے تو ایک سفید، منتشر بالوں اور بے چین نظروں والی ایسی ہستی تھی جو اپنی ڈھلتی ہوئی عمارت کو بڑی مضبوطی سے اور پوری طاقت سے تھامے ہوئی تھی۔اب باتیں ہی کرتے رہوگے یاان لوگوں کو آرام بھی کرنے دوگے۔میں نے چونک کردیکھا یہ اپنے میاں سے مخاطب ہیں۔ ہاں واقعی میاں سے ہی مخاطب تھیں کیونکہ یہ سن کر نعیم بھائی جلدی سے اٹھ گئے۔ چلیں بھئی آپ لوگ آرام کریں کل صبح ملاقات ہوگی۔ آپ لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت ہوتو کچن قریب ہی ہے۔ Good nightیہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔اور پوری رات میری آنکھوں میں ہی گزرگئی۔
صبح نعیم بھائی چائے لے کر ہمارے کمرے میں آئے ، ارے آپ نے کیوں زحمت کی، میں بنالیتی مجھے اتنا عجیب لگا۔نہیں بھئی یہاں ساراکام خود ہی کرنا ہوتا ہے ،پاکستان کی طرح یہاں نوکرکہاں؟۔بھابھی کہاں ہیں۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔وہ ابھی سورہی ہیں تھوڑی دیرتک آتی ہیں۔ پھر اس کے بعد وہ ناشتہ بنانے میں مصروف ہوگئے۔ میں شرم سے پانی پانی ہوئی جارہی تھی۔اللہ آپ کیوں کام کررہے ہیں ، مجھے بتائیے میں کچھ کرتی ہوں۔ ''یہ ایسے ہی لوگوں کو دکھانے کے لئے اور زیادہ مصروف ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی بہنیں ویسے ہی قربان ہوئی رہتی ہیں''۔ بھابھی خوشبوؤں میں نہائی ہوئی نیچے اترتے ہوئے بولیں۔ '' چلو ہٹو کیاکررہے ہو۔کیاکھائیں گے آپ لوگ؟'' انھوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ نہیں بھئی آپ کوئی تکلیف نہ کریں۔ نوید بہت ہلکاناشتہ کرتے ہیں۔ میں بڑی خجالت محسوس کررہی تھی۔نہیں بھئی آپ کیوں تکلیف نہ کریں۔ ہمارے گھر تو مہمانوں کاتانتا لگارہتا ہے۔ سسرال سے بس یہی تحفہ ہمیں ملا ہے۔ میری تو اتنی مصروف زندگی ہے میں پاکستانی عورتوں کی طرح ہروقت چولہا ہانڈی میں توجھکی رہ نہیں سکتی۔یہ لوگ تو بس یہی سمجھتے ہیں کہ عورتیں صرف باورچی خانے کے لئے پیدا ہوئی ہیں۔ ہمارے ان پاکستانی مردوں کی تو اتنی خراب ذہنیت ہے اور میں تو کہتی ہوں کہ یہ پاکستانی عورتیں ہی ہیں جو انہیں بگاڑتی ہیں۔ انہوں نے فریج سے جوس نکال کر گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا۔ہم نے تو اپنے جانور کو سدھانے کی کافی کوشش کی ہے دیکھ لیں نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے خاموشی سے سر جھکائے ہوئے انڈے پھینٹتے ہوئے نعیم بھائی کے شانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے مسکر اکرکہا۔اور میں ساکت تھی۔ابھی دیکھئے گااتنے اچھے پراٹھے بنائیں گے۔ ان کے رشتہ داروں کابس ایک ہی فائدہ ہے وہ آتے ہیں تو یہ کام بڑی پھرتی سے اور دل لگا کر کرتے ہیں۔
اور پھر دوپہر تک چند گھنٹوں تک میں نعیم بھائی کی پوری ازدواجی زندگی سے اس حد تک واقف ہوگئی تھی کہ میرا پھوٹ پھوٹ کررونے کو جی چاہ رہاتھا۔بچے ان کے summer campگئے ہوئے تھے۔وہ ایک بہت بڑا کامیاب بزنس کرتی تھیں۔ مغربی ماحول، مغربی سوسائٹی اور مغربی طرز زندگی پر وہ فدا تھیں۔ سگریٹ کاکش لگائے ہوئے وہ نوید سے کہہ رہی تھیں کہ بھئی مجھے تو ہرچیز ماڈرن پسند ہے۔ اسی وجہ سے میراماڈرن لائف اسٹائل ہے۔ ماڈرن بچے ہیں۔ ماڈرن میرے فرینڈز ہیں۔ سوائے اس ایک بندے کے جسے ماڈرن سمجھ کر زندگی کاسب سے بڑادھوکہ کھاگئے۔ انہوں نے اتنا زبردست قہقہہ لگایا کہ مجھے محسوس ہوا دروبام ہل جائیں گے۔ میں نے گھبرا کر نگاہیں نعیم بھائی پرجمادیں جو سگریٹ ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ ہاں بھئی ہم اپنے آپ کو اتنا نہیں بدل سکتے۔ اتنا کتنا تم تو ذرہ برابر بھی اپنے آپ کو نہیں بدل سکے۔نجانے کتنے دقیانوسی بوڑھے مرے ہونگے جس دن تم پیدا ہوئے تھے۔یہ کہہ کر وہ پھر قہقہہ لگا اٹھیں۔بھئی میں تو بہت Straight Forward ہوں جوکچھ کرتی ہوں کسی سے چھپاتی نہیں۔لوگ مفت کی شراب تو پیتے ہیں ، پیسے خرچ کرکے نہیں پیتے اور اکیلے میں توپیتے ہیں لوگوں کے سامنے نہیں پیتے۔سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی لوگوں کی پرواہ نہیں کی۔ جس بات کومیرادل چاہامیں نے کیا۔یہ کہہ کر انھوں نے بوتل نکالی گلاس کو بھرا اور ان کاگلاسوں سے مزین بار الماری کے پٹ کھلنے پر ہی میری سمجھ میں آیا۔اف میرے اللہ کیاپریوں اور شہزادوں کی کہانیوں کاانجام اتنا خوفناک بھی ہوتا ہے۔ ہائے اللہ یقینا ہوتا ہی ہوگا۔وہ کہانیاں بالکل صحیح ہوتی ہوں گی جن میں شہزادی کو چڑیل اور شہزادے کوفقیر بنادیاکرتے تھے۔ہاں بالکل درست ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بڑی اماں دنیا کی ہر چیز اورہر بات لڑکی میں ڈھونڈتی تھیں۔ مگر اخلاق، کردار اور پاکیزہ سیرت اور دینی فہم کیوں نہیں دیکھتی تھیں۔اور لمحہ بھر میں خاندان کی ہرلڑکی مجھے اس وقت کی، اس دنیا کی حسین و جمیل نوعمر اس انگریزی تعلیم یافتہ فیشن ایبل لڑکی سے کہیں بلند نظر آئی جس کابرتاؤ اپنے شوہر سے نوکروں سے بدتر تھا اور جو اسلام اور اخلاق و ادب سے بالکل بے بہرہ تھی۔اور اس وقت شدت سے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان یادآرہا تھا کہ ''ہردین کاایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے''۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نورِ بصارت

شبوبی بچپن سے ہی سارے بچوں میں زیادہ معتبر اور صدّیقہ مانی جاتی تھیں۔بیچاری سینکڑوں بار پٹیں ، ہزاروں بار ڈانٹیں کھائیں، بہتیروں کی دشمنی مولی لی اور دسیوں مرتبہ نقصان میں رہیں، مگر اپنی سچ بولنے کی عادت انہوں نے نہ چھوڑی۔ہم حیران ہوتے تھے کہ لوبھئی سچائی نہ ہوئی جان کی دشمن ہوگئی کہ سچ بولو خواہ بڑے سے بڑا نقصان ہوجائے اس کی پرواہ نہ کرو۔عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی سچائی کاقصہ دادی اماں کی زبانی ہزاروں مرتبہ سن رکھاتھا ، سچی بات ہے تھوڑی دیر کے لئے توہم عہد کرتے تھے کہ سچ بولیں گے خواہ کوئی ہماری جان ہی لے لے۔ مگر صاحب جان تو بڑی چیز ہے ہم تو ایک لڈو ، دوٹافیوں اور چند سکوّں پر ہی ایمان اُڑا جایا کرتے تھے۔غرضیکہ اپنی سمجھ سے بالاتر تھی شبو بی کی پالیسی۔اور شبو بی ایسے لوہے کی چٹان کہ کسی چیز کا ان پر اثر نہیں ہوتاتھا۔ لگتا ہے پل بھر میں وہ معصوم اور حسین زمانہ گزر گیا جوجون جولائی کی دوپہروں کی طرح بڑا طویل لگتا تھا۔ جس کے گزرنے اور بڑے ہونے کی دعائیں مانگ مانگ کر اس وقت ہم تھکتے نہ تھے۔بڑے ہونے کا ارمان صرف اس وجہ سے تھا کہ خوب اچھے اچھے کپڑے پہن کر خوب بنا سنورا کریں گے اور وہ ساری چیزیں جو امی تالوں میں مقفل رکھتی تھیں خوب آرام سے کھایا کریں گے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہوگا۔یقین جانیئے عبدالحنان اور عبدالخالق کی مٹھائی کے وہ ڈبے جو ''نعمت خانے'' میں تالے کے پیچھے چھپے جالیوں میں سے ہمیں مسکراتے ہوئے تاکاکرتے تھے ،ان کو تالہ کھول کر نکالنے کے کیسے کیسے پلان ہم بنایا کرتے تھے؟۔ اور اس سارے مرحلے میں شبوبی ہمارے ساتھ ہوتیںمگر جیسے ہی اس سے پوچھا جاتا مٹھائی کہاں گئی اور گاجر کا حلوہ کس نے کھایا، وہ پٹ سے پوری تفصیل بتا دیاکرتیں اور ہم دانت کچکچا کررہ جاتے۔خود کو توپٹنے کاشوق ہے، ہمیں بھی مارکھلواتی ہیں۔ حالانکہ جھوٹا بیان مع قسموں کے دے کر ہم معصوم ثابت ہوسکتے تھے۔چنانچہ پھر ہماری کوشش یہ ہوتی کہ ان کو ہمارے پلان کی ہوا نہ لگے۔مگر تھیں بھی بہت ہمدرد۔ہماری رال بھی ان سے دیکھی نہ جاتی تھی۔ویسے ہمیں بھی ان پر بہت اعتماد تھا۔
پھر جب سے شبو بی نے چشمہ لگایا تھا ان کااحترام زیادہ ہی بڑھ گیا تھاایک تو سیدھی اور سچی، اوپر سے بڑے بڑے گلاسس کاچشمہ۔اس چشمے نے پورے گھر کی کایا پلٹ دی تھی۔جہاں ان کے چشمے کاہم سب بچوں پر رعب پڑا تھا وہاں پورا گھر بھی تبدیل ہورہاتھا۔ اور بقول دادی اماں نگوڑے مارے چشمے نے جینا عذاب کردیاہے۔کیونکہ شبوبی کوہرچیز اس قدر صاف نظر آنے لگی تھی کہ وہ حیران ہوتی تھیں کہ ہائے اللہ اتنی گندگی میں ہم لوگ رہتے تھے؟۔ نہ صرف گھر کی ہی گندگی انہیں نظر آتی تھی بلکہ سب کے چہروں کے مسّے ، مہاسے،تل اور چھائیاں بھی ہر وقت انہیں بے چین کئے رہتے تھے۔ ہائے اللہ تائی اماں آپ کے دانت بہت کالے ہوگئے ہیں، پلیز خوب منجن رگڑا کریں۔ اور امی جان آپ کوتو اپنے چہرے کی پرواہ ہی نہیں۔ بالائی اور لیموں سے کیوں نہیں دھوتی ہیں۔ میں نے رسالے میں پڑھا ہے اس سے چہرہ بہت صاف ہوجاتا ہے اور بھائی جان آپ کی آنکھوں کے نیچے کیسی لکیریں ہوگئی ہیں؟۔ پہلے تو نظر نہیں آتی تھیں۔ وہ بڑے بھولپن سے کہتیں اور امی جان کادل جل کررہ جاتا۔اے بی تم چشمہ اتار کررکھو مواچشمہ نہ ہوگیا حوالدار ہوگیا۔ ہر ایک پرگرفت ہے۔ اُف فوہ امی جان سارے فرنیچر پر کتنی گرد چڑھی ہوئی ہے کوئی صاف نہیں کرتا سوائے میرے۔ ویسے بھی اس زمانے میں فرنیچر کیاتھا ہمارے گھر میں نہایت بھدے ڈبو قسم کاصوفہ، بیچ میں گول میز، دیوار میں بنی الماریوں میں گلدان اور کتابوں کے ساتھ بیچ میں دبی دادا ابا اور پردادا مرحوم کی فوجی وردی میں تصویریں جنہیں ہم بچپن میں دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔کیونکہ ان کے لحیم و شحیم قدوقامت بڑی بڑی مونچھیں نجانے ہم چھوئی موئی جیسے لوگوں کو کیوں خوف زدہ کردیاکرتی تھیں۔ خیر یہ بھی شبو بی کے چونچلے تھے جوہر وقت گول کمرے کی صفائی میں مصروف رہتی تھیں کیونکہ چشمہ لگنے کے بعد سے انہیں اس کمرے میں خاص طور پر گرد نظر آیاکرتی تھی۔ دوسرے کمروں میں فرق کرنا مشکل تھا کہ گرد کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوئی کیونکہ بستر ہر وقت جھڑتے رہتے تھے اور ہم سب پر ہرو قت پھٹکار پڑتی رہتی تھی کہ گندے پیر اور مٹی لے کر گھر نہ آیاکرو۔بستروں پر نہ کودا کرو۔بستروں پر کیوں چڑھ کربیٹھے ہو وغیرہ وغیرہ۔غرضیکہ گھر میں ایک کشمکش شروع ہوگئی تھی ویسے بھی شبو بی گھر کی بڑی لڑکی تھیں، ذمہ داریاں بھی زیادہ تر ان پر ہی تھیں اور وہ غریب ذمہ داریوں سے زیادہ خود کو ذمہ داریوں کااہل ثابت کئے ہوئی تھیں۔دادی اماں کی چوکی اور بستر بھی اجلارہاکرے، کتھے چونے کے داغ دھبے ادھر ادھر نظر نہ آیاکریں۔کیونکہ چشمہ لگنے کے بعد سے وہ انہیں بہت واضح نظر آنے لگے تھے۔
اور ہم سب شبوبی کی ذمہ داریوں اور غموں سے بے نیاز موجیں اڑاتے تھے کیونکہ ہمارے نزدیک اپنے فائدے عیش و تفریح سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز اہمیت نہ رکھتی تھیں۔ بچپن میں کھانے اور کھیلنے،اور جوانی میں بننے سنورنے کے علاوہ کسی بات سے دلچسپی نہ تھی۔ہمیں کیاپرواہ تھی اگر بھابھی جان کی جھریاں سارے چہرے کو ڈھانپ لیں یاتائی اماں کے دانت ہی نہیں سارامنہ ہی کالا ہوجائے یا دادی اماں کابستر اور چوکی ہی نہیں ان کے کپڑے بھی گندے ہوجائیں۔ ہاں امی جان کے چہرے کی ذرا فکر کرتے تھے کیونکہ اپنی سہیلیوں کے سامنے اپنی امی کو اسمارٹ اور خوبصورت دیکھنا چاہتے تھے باقی سب خیرتھی۔
خیر جناب وہ دن بھی پر لگا کر گزر گئے۔دادی اماں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ان کاکمرہ تائی اماں نے سنبھال لیا۔تائی اماں کی جگہ امی جان نے اور امی جان کی جگہ بھابھی جان نے۔ اور شبو بی ہمارے گھر کے دھندوں سے آزا د ہوکر اپنے سسرال کے دھندوں میں ایسے گرفتار ہوئیں کہ غریب برسوں میکے نہ آئیں۔سسرال بھی ان کابقول تائی اماں کے کالے کوسوں تھا۔کراچی سے لاہور اور بے چاری پر پورے خاندان کی ذمہ داری۔ اس پر ہرسال نئے مہمان کی آمد۔ وہ غریب کہاں اس لائق تھیں کہ ہرسال میکے آیاکریں۔غرض امی جان اپنی ممتا سے مجبور ہوکر دودفعہ ان سے مل آئیں تھیںاور ہم سب تڑپ تڑپ کر ہی رہ جاتے۔ ہائے کتنا ارمان تھا،دولہے بھائی سے اپنی خاطریں کرانے کا ،شبو بی کے کمرے میں گھس کر ان کی ساری میک اپ کی چیزوں اور زیورات پہننے کا ،سوائے اللہ کے کوئی نہ جانتا تھا۔ اورپھر جب عامر کی شادی پر شبو بی کے آنے کا ہم نے سنا تو لگتا تھا کہ شادی کی خوشی دوبالا ہوگئی ہے کیونکہ اس سے پہلے نویدہ اور فرزانہ کی شادی پر وہ شریک نہ ہوسکی تھیں۔
ہم سب بہن بھائیوں اور بزرگوں کی خوشی قابل دید تھی جب شبوبی گھر آکر اتریں تائی اماں نے اتنی بلائیں لیں کہ ہمیں ڈر لگا کہ کہیں ان کی انگلیاں نہ ٹوٹ جائیں۔امی جان کے آنسو ہی نہ تھمتے تھے او ربھابی جان نے اپنی ناک رگڑ رگڑ کر لال کر دی تھی مگر اللہ غارت کرے ہمارے دل کو نجانے کیوں اندر سے بجھ گیا تھا رات کو بستر پر لیٹ کر بہت غور کیاتو پتہ چلا کہ شبوبی کے حلیے نے ہمیں مغموم کردیا ہے ہمارے ذہن میں تو وہ فریدہ کی بہن سائرہ کی طرح جھلملایا کرتی تھیں۔خوبصورت فرنیچ کی ساڑھی میں ملبوس لمبے بالوں کا ڈھیلا ساجوڑا لمبے لمبے نیل پالش سے آراستہ ناخن اورگوری گوری بانہوں میں دو دو سونے کی چوڑیاں اور چاروں انگلیوں میں نازک سی انگوٹھیاں۔مگر یہ۔ یہ کیالگ رہی تھیں بڑا سا کاٹن کادوپٹہ ڈھیلے ڈھالے سادہ سے کپڑے مسکراتا ہواچہرہ۔ چہرہ تو ویسے بھی پیاراہے مگر اتنی سپاٹ کیوں ہو گئی ہیں ؟۔پہلے تو ایسی نہیں تھیں؟ کتنا بناسنورا کرتی تھیں ؟ہروقت اپنے حسن کی فکر رہاکرتی تھی۔ ہائے اللہ کتنی اسمارٹ لگا کرتی تھیں ان دنوں! دولہا بھائی بھی کتنے ہینڈسم اور مشہور ڈاکٹر ہیں مگر انہیں کیاہوگیا ہے۔ بالکل ہی پینڈو لگ رہی ہیں۔ اونہہ ہم نے خیالات کو جھٹکا دیا۔ کیاپتہ سفر کے کپڑے ہوں ویسے بھی ہوائی جہاز سے آئی ہیں اور رات بھی ہوگئی تھی اس وجہ سے تبدیل نہیں کئے۔ مگر پھرتو دوسرا دن اور تیسرا دن اور جناب پوراشادی کامرحلہ۔ شبوبی کاوجود تو ان کاماضی کاچشمہ ہوگیا تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگاکہ چشمے سے بدتر ہوگیا تھا اس وقت ان کے چشمے نے تو گھر کے گرد کوڑے کرکٹ ااور چہروں کے نشان و نقائص ہی دکھائے اب تو ان کی ذات پورے خاندان کو ادھیڑے ڈال رہی تھی۔
شادی کی وہ کونسی تقریب تھی جو شبوبی کو غمزدہ نہ کئے ہوئے تھی۔ وہ کونسی رسم تھی جس پر ان کے آنسو نہ بہہ رہے تھے او رلوگوں کی وہ کونسی ادا تھی جو انہیں نہ مارمار ڈال رہی تھی۔ امی جان یہ سب غلط اور بیہودہ رسمیں اور طریقے ہیں یہ ہمیں نہیں کرناچاہئیں۔اب آپ یہ دیکھیئے جوان لڑکیاں طرح طرح سے بن سنور کر مراثیوں کی طرح ناچ گارہی ہیں اورافسوس کا مقام ہے کہ یہ بزرگ خواتین بیٹھی داد دے رہی ہیں۔ اُف اللہ سارے مرد اور جوان لڑکے بھی کھڑے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ مہندی کے وقت جب پارٹی اپنے عروج پر تھی اور فریقین ڈٹے ہوئے تھے کہ مقابلہ ہم جیت کررہیں گے۔شبو بی نے زار زار روتے ہوئے امی جان کو کھینچتے ہوئے کمرے میں لے جاکر کہا، خدارا مجھے بتائیے کہ یہ کیالغویات ہیں ؟یہ کسی مسلمان کاگھرہے؟اور امی جان منہ کھولے انہیں تکنے لگیں۔ اے بی لو میں کوئی نرالا کام کررہی ہوں جوتم نے خوشی کے موقع پر رونا دھونا شروع کردیاہے۔ لو اور سنو اب ہم کیاکافروں کے سے کام کرنے لگے ہیں؟۔ تمہیں ہمارا گھر ہی مسلمان کاگھر نہیں لگ رہا ہے۔ بیٹی یہ تو آج کل کی رسمیں ہیں انہوں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔اور پھر اگلے تین چار دن میں سارا خاندان حیران اور نالاں تھا شبو بی سے۔ ''اے بی لو!بولی ہوگئی ہیں بنّو۔ لگتا ہے کہ انسانوں میں نہیں رہتی تھیں''۔ تائی امی نے پھپھو جان کے کان میںسرگوشی کی۔اے او رکیامولویوں کے خاندان میں بھابی نے شادی کی تھی یہ تو بننا ہی تھا۔ پھوپھی جان کی آرزو تھی کہ عارف بھائی کو شبو بی ہوتیں۔ممانی جان مجھے تو لگتا ہے یہ بھی کوئی مولوی بن گئی ہیں پھر پھوپھی جان نے پھپھولے پھوڑے۔ اے ہائے کیسی نیک بچی تھی کیاجوانی خراب کی ہے۔ تائی امی نے آہ بھری۔اور امی جان تو فکروں میں غرق ہوگئیں۔ واقعی کوئی اثر وثر ہوگیا ہے اس پر ،ابھی دوسال پہلے تک جب لاہور گئی تھی ایسی تو نہ تھی۔اب تو دوپٹہ اس کے سر سے کھسکتا ہی نہیں ہے۔بھابی جان آپ نے دیکھا ہے میک اپ۔ میک اپ تو بڑی چیز موئی سرخی بھی نہیں لگاتی ہے اورپھر اس خاک پڑے پردے نے وہ جان آفت میں کی ہے کہ اب پورا خاندان اس کے لئے نامحرم ہوکررہ گیا ہے۔ اے بی ہمارا گھر سب کے لئے کھلارہا ہے۔ سارے بھتیجے بھانجے محبت سے آزادی سے آتے جاتے رہے ہیں۔ کبھی کسی نے نہیں ٹوکا ہم بھی دین پڑھے ہوئے او ر سمجھے ہوئے ہیں ساری عمر نمازیں اور قرآن پڑھنے میں گزاری ہے۔ اب یہ مفتن آئی ہے فتوی دینے کے لئے۔ تائی اماں کوغصہ آگیا۔اور تواور باپ اور تایا سے بھی کھنچی کھنچی ہیں۔ ''بھئی انہیںمکہ مدینہ بھجوا دو''۔عارف بھائی بھونڈے قسم کے مذاق کے شوقین تھے۔
ہم ان باتوں پر جو ہروقت ہمارے کانوں میں پڑتی رہتی تھیں کبھی تو ہنس پڑتے اور کبھی بے حد غصہ آجاتا۔شبوبی پر بھی اور سب رشتے داروں پر بھی مگر یہ سب کیا ہے ، یہ سب کیاہورہا ہے یہ کیاتبدیلی آئی ہے شبو بی میں۔اور اس تبدیلی سے لوگ اتنے متنفر کیوں ہیں۔ کیونکہ بظاہر تو کوئی بات وہ ایسی نہیں کرتی ہیں جو کسی کو بری لگے۔ حالانکہ دوسرے لوگ کیسی کیسی باتیں انہیں کہتے ہیں اگر وہ سنیں تو انہیں کتنا دکھ ہو۔وہ میری بہن ہیں آخر انہوں نے کسی کاکیابگاڑا ہے۔ صرف چند باتیں کرنے سے ہی روکا ہے کہ یہ غلط ہیں بس اتنی سے بات پر سب ان سے بیزار ہوگئے ہیں۔ نہیں نہیں شبوبی میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑونگی۔میں آپ کاساتھ دوں گی۔ بستر پر لیٹنا میرے لئے دوبھر ہوگیا تھا۔کروٹیں بدلتے ہوئے میں تھک گئی تھی۔ اچانک فیصلہ کن انداز سے میں بستر پر سے اٹھی اوررات کے سناٹے میں جبکہ پورا گھر گہری نیند میں ڈوباہواتھا میں آہستگی سے اپنے کمرے سے نکل کر شبو بی کے کمرے کے پاس پہنچی،اندر ہلکی سی لائٹ جل رہی تھی کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور اندر سے کسی کی سسکیوں اور دبے دبے رونے کی آواز آرہی تھی۔میں کھڑکی سے چپک گئی۔ شبو بی روتے ہوئے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہی تھیں میں گناہگار و سیاہ کار ہوں۔ آپ بڑے مہربان اور غفور الرحیم ہیں میرے گناہ بخش دیجئے۔ مالک میرے والدین بہن بھائیوں اور رشتے داروں پررحم کیجئے۔یہ نادان بے خبر اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ اپنے لطف و کرم سے ان کو ہوشیار کردیجئے۔ان کے سینے کھول دیجئے ، انہیں اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاکر دیجئے،انہیں فہم قرآن سے نواز دیجئے،مالک ان کے اعمال اور حرکتوں پر میں آپ کے غضب ، عذاب اور غصے سے ڈرتی ہوں آقا ان پر رحم کیجئے ان کے گناہ معاف کردیجئے۔آہ و زاری سے ان کی ہچکی بندھ گئی اور میرا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔شبوبی شبوبی میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کیاچاہتی ہیں آپ نے ہمیشہ سچ ہی بولا ہے۔ مجھے بتائیں آپ کو کیاہوگیا ہے ؟۔اور شبوبی گھبرائی ہوئی بوکھلائی بڑی حیرت سے اور محبت سے مجھے دیکھ رہی تھیں نشو!نشاط میری بہن تم واقعی سچ کہہ رہی ہو میراساتھ دوگی؟ میری بہن مجھے کچھ نہیں ہوا ہے بس مجھ پر میرا مالک کامیرے آقا کا کرم ہوگیاہے۔اس نے مجھے سیدھے راستے کی سمجھ عطا کر دی ہے اس نے مجھے وہ ''برہان'' اور ''کسوٹی'' عطا کردی ہے جس میں کھرے کھوٹے کو پرکھ سکتی ہوں انہوں نے آہستگی سے کہا''کیاہے وہ کسوٹی، کیاہے وہ برہان؟'' میں نے حیرانی سے پوچھا۔قرآن۔ قرآن عظیم ، اللہ رب العالمین کا نازل کردہ فرمان۔ بھٹکے ہوؤں کاراہبر۔ تڑپتی ہوئی انسانیت کامرہم ،ظلم و جبر اور تاریکیوں میں پسے ہوئے لوگوں کی نجات کاپیغام ''قرآن عظیم''۔ میری بہن وہ بڑی وارفتگی سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔شبوبی میرے بھی اندھیرے دور کیجئے۔قرآن کے ذریعے مجھے بھی راستہ دکھائیے۔میں ان سے لپٹی ہوئی کہہ رہی تھی۔اور صبح مسکراتی ہوئی رات کی ظلمتوں کوکاٹ رہی تھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معیارِ زندگی

ہم نے ہوش سنبھالا تو کانوں میں بس یہی آواز پڑی کہ پڑھو پڑھو محنت کرو ،پڑھ لکھ کر کسی قابل ہوجاؤ گے تو دنیامیں اپنا مقام بناسکوگے ورنہ اگر یونہی بیکار کھیل کود میں اپنا وقت گزار دیا تو ساری عمر جوتیاں چٹخاتے پھروگے۔اور اس کے بعد کسی چچا ماموں بھائی رشتہ دار کانام اور احوال بڑی تفصیل سے بتا دیئے جاتے اور ہم بس پڑھائی کو اور جوتیاں چٹخانے کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے ہوئے جوتیاں چٹخانے کے ہولناک تصور سے بچ کرکتابوں میں گم ہونے کی کوشش کرنے لگ جاتے۔ کبھی کبھی تو یہ طلسماتی ڈوری لگتی جب یہ سنتے کہ فلاں کابیٹا چٹائی پر پڑھ کر لیمپ پول کی روشنی میں پڑھ کر اتنا بڑا مشہور انجینئر بن گیا کہ اس نے پورے خاندان کو چار چاند لگادیئے ،والدین اور بہن بھائیوں کو جھونپڑی سے نکال کر عالیشان محل میں پہنچا دیا۔اور اب اس کے لئے بڑے امیر گھرانے کی خوبصورت سی دلہن ڈھونڈی جارہی ہے تویقین کریں دل چاہتا تھا کہ کتابوں کو چاٹ جائیں۔
وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے۔ ہماری آنکھوں نے پڑھائی کے ایسے ایسے کرشمے دیکھے کہ ہم بزرگوں کی پیش گوئیوں کے قائل ہوکر رہ گئے۔اپنے ارد گرد چچا پھوپھی ماموں خالہ رشتے دار عزیزوں کے گھر کم وبیش یہی معاملہ تھا کہ بچے پڑھ لیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت اسی وجہ سے دگرگوں تھی کہ وہ ابھی تک باپ دادا کے نشانوں پر بنیوں سے قرضے لے لے کر عیش کررہے تھے جبکہ پاکستان میں بچے پڑھ رہے تھے شہر میںعلم حاصل کررہے تھے۔ بابو بننے کے لئے، فیکٹریاں لگانے کے لئے، کوٹھیاں بنانے کے لئے اور آسائشِ زندگی حاصل کرنے کے لئے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی تمدن والی اقوام کے نقش قدم پر چلنے کے لئے۔چنانچہ ہر گھر سے ڈاکٹر بھی نکل رہے ہیں، انجینئر بھی، پروفیسر، فلاسفر بینکرز اور سول سروینٹس بھی۔ اعلی صلاحیتوں کے لوگ جیب میں ڈگریوں کے ساتھ اپنے پرانے خول بھی اتار رہے تھے۔
ہوائیں جب سبک رفتاتی سے چلتی ہیں تو احساس بھی نہیں ہوتا لیکن جب ان میں تیزی آجاتی ہے تو چیزوں کو اکھاڑنے بچھاڑنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ اس تعلیم یافتہ طبقے نے اپنی قوم اورملک کے ساتھ کیاکیونکہ اعلی ڈگریوں کاحصول نہ صرف معاشی استحکام عطاکررہا تھا بلکہ نئی نئی خواہشات کے دروازے بھی کھول رہاتھا۔ یعنی آپ کی ایک اعلی ڈگری آپ کو شاندار ملازمت کے ساتھ ساتھ کسی بڑے افسر کی بیٹی ، کسی رئیس زادے کی بہن، کسی مشہور صنعتکار کے خاندان میں شادی بھی کراسکتی ہے چنانچہ شوق بڑھتاگیا ذوق پھیلتا گیا۔ دنیا سمٹتی گئی اور ہرقدم آگے بڑھتا رہااور جب رفتار میں تیزی آجاتی ہے توہوش گم ہوجاتے ہیں اور نظریں سحرزدہ۔ابھی تعلیم کے اضمحلال مستقبل کے خمار اور عیش کے شباب شروع ہی ہوئے تھے کہ پتہ چلا کہ ہوا کارخ بدل گیا ہے کیونکہ اکرام چچا کی ہارڈ ورڈ کی ڈگری، بڑے دادا میاں کااثر ورسوخ اور سوسائٹی کامعیار انہیں وہ مقام عطا نہیں کررہا تھا جو مومن بھائی کی سمجھ اور بزنس کاشعور انہیں مارکیٹ میں مال عطا کررہاتھا۔اور پھرجاوید بھائی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس اور ایف۔آر۔سی۔ ایس لندن بھیااپنے کلینک کی جھاڑ پونچھ میں زیادہ وقت صرف کرنے لگے تھے جبکہ ہمارے پڑوسی بلو کے ابا الہ دین کے چراغ کے زور سے غالباً چند دنوں میں ہی کالونی اور کالونی سے سوسائٹی اور سوسائٹی سے ڈیفنس کے عالیشان وہائٹ ہاؤس تک پہنچ گئے تھے اور ہماری امی بڑی حیرت سے کہتیں چھپر پھاڑ کر دینا اس کو کہتے ہیں اور ابا دس مرتبہ اس بات کو سننے کے بعد آج کہنے لگے چھپر پھاڑنے کی کیاضرورت ہے آپ بھی ہیروئن کاکاروبار کرلیں اور وارے بنادلیں اور امی جھنجھلاکررہ گئیں۔
فعل بد تو خود کریں لعنت کریں شیطان پر
بہت خوب بیگم اس سے زیادہ برافعل اور کیاہوگا کہ میں سمگلنگ نہیں کررہاہوں، اپنے ہم وطنوں کاخون نہیں چوس رہا ہوں۔ اور امی بھبھک اٹھیں۔ چارچار جوان بچیوں کابوجھ ہے بس بنائیں جائیں انہیں عالم فاضل۔ جیسے پڑھ لکھ کر بڑی دنیابدل دیں گی۔ یہاں تو اب بیٹوں کو بھی انجینئر ڈاکٹر بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کون پوچھتا ہے اب پاکستان کی تعلیم کو؟۔ویسے بھی اب تعلیم کی پرواہ کس کو ہے؟ ہرکوئی بزنس کررہا ہے۔ اے میں کہتی ہوں آپ ساری عمر اس خاک پڑی نوکری میں گزار دیں گے کوئی بزنس کیوں نہیں کر لیتے؟اس آمدنی میں تو آجکل کے رواجوں کے مطابق ہم ایک بچی کی شادی بھی نہیں کر سکتے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے اور ہم اسی چار کمروں کے مکان میں پڑے ہیں۔ اور ابا بیچارے خاموشی سے سر جھکائے امی کی باتیں سنتے ہوئے آہستگی سے بولے زرینہ! میں تو تمہیں پڑھا لکھا اور سمجھدار سمجھتا ہوں!اس پر امی یوں ابل پڑیں جیسے کسی نے بارود میں آگ لگا دی ہو۔بڑی مہربانی ہے آپ کی جو مجھے پڑھالکھا اور سمجھ دار سمجھتے ہیں ورنہ میں تو نہایت ہی جاہل اور بے وقوف عورت ہوں۔ اور آپ کیا ہیں پتہ بھی ہے؟ کچھ نہایت ہی سست اور اپنے فائدے سے بے پرواہ انسان۔وہ الفاظ چباچبا کرکہہ رہی تھیں۔جس کو دنیا کی کچھ خبر نہیں کہ دنیاکہاں سے کہاں جارہی ہے۔ جو دنیا کی برق رفتاتی کامقابلہ کرنے سے گھبراتا ہے۔ جس کو اپنے اور بچیوں کے سماجی مرتبے کی کوئی پرواہ نہیں۔ جس میں ولولے نہیں امنگیں نہیں۔ جس نے کبھی بھی ہمیں ایسا مقام دینے کی کوشش نہیں کی جوخاندان میں ہمیں اونچا کرسکے۔ اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھراگئی۔ غم اس بات کاہے کہ صلاحیتیں ہوتے ہوئے بھی آپ نے کبھی انہیں استعمال نہیں کیا۔یہی ایم ایس سی آپ کے بھائی نے بھی کیاتھا۔لیکن وہ تیز اور سمارٹ تھا۔ امریکہ جاکرپی ایچ ڈی کرکے خاندان میں نام بنالیا۔پھر امریکہ ہی میں رہ بس گیا۔ساری اولاد کامستقبل بن گیا۔اور آپ اسی ایم ایس سی کی ڈگری کوسینے لگاکر والدین، خاندان اورملک کی محبت میں قربان ہوکر یونیورسٹی کے بے نام پروفیسر ہوکررہ گئے۔ آپ نے نہ اپنی پڑھائی کے ذریعے پیسہ کمایا اور نام بنایا اور نہ عقل اور ہوشیاری کے ہی ذریعے کچھ کما کر دکھایا۔
’’ہاں حقیقت یہی ہے کہ تم جاہل ہوتم نے علم کو بھی پیسہ کمانے کاذریعہ سمجھا اور اب پیسے کے حصول کو ہی مقصد زندگی سمجھ کر ناجائز اور حرام کو ہی عقل اور قابلیت کانام دے رہی ہو۔ اناللہ و انا الیہ راجعون‘‘ یہ کہتے ہوئے ابا اپنے کمرے میں چلے گئے۔اور میں جو سب بہن بھائیوں میں بڑی اور اپنے والدین سے بہت قریب ہوں الجھ الجھ جاتی۔ بہک بہک اور بھٹک بھٹک جاتی۔ مجھے اپنے والدین سے بے پناہ محبت ہے۔ مجھے دونوں ہی بے قصو ر نظر آتے ہیں۔ میرادل کسی کو بھی مجرم گرداننے کو تیار نہیں ہے۔ خاندان ،رشتے دار، عزیز و اقارب، دوست احباب ،ملک و قوم جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ انسان کو مضطرب کئے ڈال رہی ہے۔ احساسات جذبات سے لے کر جسموں تک میں آگ بھڑکائے ڈال رہی ہے۔ ’’معیار زندگی‘‘ ایک خوفناک بھوت بن کر اعصاب پر سوار ہوگیا ہے ہرجگہ ہرمقام پرلپکتی ہوئی نظریں آپ کے وجود کو نظر انداز کرکے آپ کے لباس اور مکان کی قیمت کااندازہ لگا کر آپ سے بات کرنا پسند کرتی ہیں۔ امی کمزور اعصاب کی ناتواں عورت جو معاشرے کے رواجوں اور رسموں کی رسیوں سے روز بروز خود کو جکڑتی چلی جارہی ہیں جتنی رسیوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے ان کی قوت برداشت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور ابا؟۔ابامضبوط اعصاب کے نیک اور دیانت دار مسلمان جن پر مجھے کبھی کبھی بے حد ترس آتا ہے کیونکہ آج کا ماحول انہیں برداشت کرنے کاروادار نہیں۔ ہواؤں اور فضاؤں میں پھیلی ہوئی کثافتیں ، روحوں میں بسی ہوئی غلاظتیں اور انسانوں کے روپ میں ’’سایوں‘‘نے ان کی ساری قدریں، ان کے سارے اصول ،ان کے سارے ارادے ،ان کے سارے عزائم خاک میں ملانے کاتہیہ کرلیاہے۔ اور میں کبھی کبھی انسانی افلاس کے اس دوراہے پر جہاں امید کی کوئی کرن نہیں ہے کھڑی ہوکر سوچتی ہوں ہم کل بھی جاہل تھے اور آج بھی جاہل ہیں کیونکہ کل بھی ہم نے علم کو دولت کے لئے حاصل کیاتھا اور آج بھی انسانیت کی گردن پر چھری دولت کے لئے چلارہے ہیں۔ یہ سارے علم کے چرچے،علم کی باتیں، علم کے کارنامے، علم کے ڈنکے، یہ کیساعلم ہے جس نے انسانیت کومجروح کرکے رکھ دیاہے۔یہ کیسی عقل ہے جس نے انسان کوپیٹ کاکتا بنادیاہے۔اور یہ کیسافلسفہ ہے جس نے حیات کودشوار اور موت کو عذاب بنادیاہے۔ ہرعلم کے پیچھے ،ہرجستجو کے پیچھے، اور ہرفلسفے کے پیچھے مجھے نوٹوں کے خوفناک جبڑے نظر آتے ہیں جو منہ کھولے انسانوں کوہڑپ کرنے کے لئے بے چین و بیتاب ہوتے ہیں اور جب نوٹوں کومیں دیکھتی ہوں تو قہقہے لگاتے ہوئے ایسے قاتل نظر آتے ہیں جن کی ہوس شیطانی انسانیت کی بھینٹ لینے پر بھی مطمئن نہیں ہوتی ہے۔
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بچوں کے مستقبل کی خاطر

بھئی اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔ سناتھا جب شبیر ماموں نے پہلی مرتبہ بینک میں غبن کیاتھا تو وہ سلیم بھائی کو امریکہ بھیجنے کی خاطر کیاتھاکیونکہ سلیم بھائی کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے امریکہ جائیں گے۔ خاندان کا پہلا ہونہار سپوت جس کی قدوقامت سے پورا خاندان بننے والاتھا۔اور باپ کی حیثیت ایسی گئی گزری بھی نہ تھی کہ بیٹے کے سنہری سپنے یونہی بکھرجاتے......بینک کے مالک نہ سہی مینیجر تو تھے۔لہٰذا مار لیاایک ہاتھ...... ویسے بھی پاکستان بنتے ہی جہاں اخلاق وشرافت نے دم توڑنا شروع کردیاتھا وہاں لوگوں کے ہاتھ بھی لمبے ہوگئے تھے۔
پھر سنا کہ چھوٹی خالہ نے بھی دن رات یہی رٹ لگانی شروع کر دی کہ بچوں کامستقبل اچھا بنانا ہوتو ان کو خوب پڑھاؤ لکھاؤ۔ اچھے سے اچھے انگریزی اسکول میں بھیجو اور تعلیم کے نام پر کوئی کسر نہ چھوڑو۔چنانچہ انہوں نے خالو میاں سے تین تین نوکریاں کروائیں بیچاری نے خالو میاں کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی پاگل کرڈالاتھا ......ہائے !آج جب میں آصف بھائی ،عرفان اور نعمان کی اتنی بڑی پوزیشن اور ٹھاٹ باٹھ کودیکھتی ہوں تو چھوٹی خالہ کی لمبی لمبی دعائیں اور ہروقت بچوں کی کامیابی کے لئے وظیفہ نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ بے چاری نے خود فصل کاکوئی پھل نہیں چکھا۔کبھی ان کے بچوں کے سامنے خالہ کاتذکرہ کروتو بڑی ناگواری سے کہتے ہیں کہ ''امی نے تو جینا عذاب کیاہوا تھا ...اس پڑھائی کے پیچھے...بات یہ ہے کہ ہمارے والدین کواولاد کی ٹریننگ کاسلیقہ نہیں تھا...پیچھے ہی پڑے رہتے تھے ...ہم تو اپنے بچوں سے کوئی کام زبردستی نہیں کراتے...''یہ تو اچھا ہوا کہ خالہ کی کوشش سے آ پ کامستقبل شاندار بن گیا۔میرادل جلنے لگتا۔کیاشاندار مستقبل ؟کبھی چین سے سانس بھی لینا نصیب نہ ہوا ان کی شکایتیں ختم نہ ہوئیں۔
اے ہائے ...چھری جان سے گئی میاں جی کوسواد ہی نہ آیا...اماں گہرا سانس لیتیں۔
میں تو اب ہر وقت قدسیہ کو چھوٹی کی مثالیں دیتی ہوں کہ بی بی اتنا بچوں کے پیچھے نہ پڑی رہو۔پڑھ ہی لیں گے۔ مگر وہ کہاں سننے والی ہیں؟۔ ان کا بس چلے تو بچوں کو سقراط بقراط گھول کر پلادیں...''۔
امی سقراط بقراط بنتے تو دیکھا تھا پیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ناہید ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اے ہٹو تمہیںتو ہنسنے کے لئے کوئی بہانہ چاہیئے ہر وقت۔ اب دیکھئے امی قدسیہ آپا اپنے بچوں کامستقبل ہی تو بنانا چاہ رہی ہیں۔ یہ پڑھ لکھ کر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں گے۔
ہاں جس طرح ان کے جیٹھ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر ایسے کھڑے ہوئے کہ سارے خاندان کوگرادیا۔بھائی جان قسم سے اتنا ترس آتا ہے قیصرہ خالہ پر مجھے کہ بیچاری نے دیکھا ہی کیا؟۔جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔اور پھر اپنی ساری خوشیاں اکبر اور ارشد پر قربان کردیں۔اور پھر اکبر نے کیاصلہ دیا...وہ ماں جس نے سلائی کرکے اس کے مستقبل کی تعمیر کی ،آج بڑھاپے میں وہ اسے یہاں چھوڑ کر خود ہزاروں میل دور جاکربس گیا...اگر اب ارشد بھائی باہر چلے جائیں تو قیصرہ خالہ کو کون دیکھے گا......۔
اے !خدا کانام لو...ارشد کے لئے توماں سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اس کااور اکبر کاکیامقابلہ...ویسے ماں نے جتنا اکبر کے لئے کیااتنا ارشد کے لئے کیابھی نہیں ...اماں اپنی سمدھن کوکیسے بخش سکتی تھیں۔
مگر حقیقت یہ تھی کہ ارشد بھائی کہاں رکنے والے تھے۔ وہ تو قدسیہ آپا تھیں جنہیں وطن سے باہر نکلنے سے نفرت تھی۔دارالکفر کا نام آتے ہی لاحول پڑھنے لگتی تھیں ویسے بھی وہ ہمارے گھرانے میں ''مولون'' ہی کے نام سے مشہور تھیں۔پاکستان کی اس قدر شیدائی تھیں کہ پارٹیشن کے وقت بچّی تھیں، پاکستان آتے ہوئے ذرا سی خراش بھی لگ گئی تو فخریہ بیان کرتی تھیں کہ پاکستان کی بنیاد میں میراخون بھی ہے۔باہر جانے والے جیٹھ تو رہے ایک طرف ،بہن بھائیوں سے بھی ناراض تھیں جو اس طرح اپنے والدین، رشتہ دار، دوست احباب ،دینی ماحول اور وطن عزیز چھوڑ کر صرف چند آسائشوں کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ہمارا تو اسلام اور ایمان بھی ان کی نظروں میں مشتبہ تھا ...ہرخط میں یہی نصیحت ہوتی تھی کہ خدارا اپنے بچوں کے حال پر رحم کرو...اپنی آخرت تو بگاڑ ہی رہے ہو، نسلوں کو کیوں دین سے دور کرنے کا عہد کرلیاہے۔بچے بڑے ہورہے ہیں ...اب واپس آنے کاسوچو......''۔
قدسیہ آپا کے خطوط تو میرے لئے ڈوبتے کوتنکے کاسہارا کے مصداق ہوتے...میں ہرخط میں ان کے آگے اپنادل کھول کررکھ دیتی کہ آپا کیابتاؤں میں خود واپس آنے کے لئے کتنی بے چین ہوں...خاص طور پر بچوں کی خاطر...مگر ملک کے حالات خراب ہوتے دیکھ کر افضال کسی طرح آمادہ نہیں ہورہے...بس میرے بچوں کے لئے دعا کریں۔ اور قدسیہ آپا کے نصیحت بھرے سبق آموز خطوط مجھے رلادیتے۔ میری اسلامی غیرت ،حمیت اور جوشِ ایمان اپنے میاں سے بھرپور لڑائی کے موقعہ پر نمایاں ہوتی۔
تمہاری بہن کی دین داری اور وطن پرستی نے الگ میرے گھر کاچین ختم کیاہوا ہے......''
افضال اکثر نہایت غصے میں کہہ جاتے اوریوں میں نظریاتی طور پر اپنے میاں سے دور اور قدسیہ آپا سے قریب تر ہوتی چلی گئی...اکثر سوچتی ہوں کیسے باپ ہیں جنہیں فکر ہی نہیں کہ ان کے بچے یہاں کے پراگندہ ماحول کے اثرات کاشکار ہورہے ہیں انہیں تو بس اپنی نوکری اور اخبار پڑھنے کے علاوہ کسی چیز سے مطلب ہی نہیں ...میں اپنی کمیونٹی کی ایک سے ایک بڑھ کر خوفناک اور ہو ش اڑا دینے والی خبر افضال کوسناتی اور وہ ''اللہ رحم کرے'' کہہ کر رہ جاتے۔پھر میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے قدسیہ آپا کوخط لکھتی کہ پیاری آپا مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کس طرح اس ماحول میں یہاں کی برائیوں سے بچ کررہوں۔اور اس کے جواب میں قدسیہ آپا کے دل میں اتر جانے والے مشورے...دارالکفر اور مغربی تہذیب سے نفرت...یہاں کی مادی آسائشوں کاآخرت سے مقابلہ...ہرلمحہ اسلامی تعلیمات پر چلنے کی تلقین...بچوں کے دل میں قرآن کے ذریعے اسلام اور اسلامی مملکت کی محبت پیدا کرنے کی نصیحتیں ،میرے لئے راہیں کھلتی جاتیں اوردل کو بڑاسکون ملتا... میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ تعالی میں ضرور بہ ضرور پاکستان واپس چلی جاؤں گی... قدسیہ آپا کاساتھ ہوگا... ان کے بچوں کاماحول میرے بچوں کوملے گا اور میرے بچے نیک سیرت اورباکردار بن جائیں گے۔ بڑے ہوکر ملک و قوم کی خدمت اور پاکستان کانام روشن کریں گے...اسی خیال کے تحت آہستہ آہستہ میں بچوں کو ذہنی طور پر تیار کرتی رہی ... وقتاً فوقتاً کانوں میں بھی کچھ نہ کچھ ڈالتی رہتی۔ بالآخر آرزوئیں رنگ لائیں۔ دعائیں قبول ہوئیں اور حالات رخ بدلنے لگے ...جب ماحول کی آلودگیاں کمیونٹی کے اکثر گھروں کواپنی لپیٹ میں لینے لگیں تو افضال کی نظریں بھی تیزی سے بڑھتے ہوئے بچوں کی طرف اٹھنے لگیں ...اور وہ دن میری زندگی کا سب سے زیادہ پرمسرت دن تھا جب افضال نے کہا۔''آمنہ میں سوچتا ہوں کہ پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے ہی عقل مندی کافیصلہ کر لینا چاہیئے''۔ کیا مطلب آپکا؟میں سمجھی نہیں ...
مطلب یہ کہ اس سے پہلے کہ بچے یہاں کے ماحول میں اس قدر رنگ جائیں کہ اپنے ملک جانے سے انکار ہی کر بیٹھیں ...ہمیں اپنارختِ سفر باندھ لینا چاہیئے ...

''واقعی...یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟''
ہاں بھئی ...اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ہمیں یہ جگہ چھوڑنی ہی ہوگی...تاکہ مسلمان بن کر رہیں اور اپنا دین و ایمان قائم رکھ سکیں...میں خوشی سے پھولے نہ سمائی ...افضال آپ کافیصلہ بروقت اوردانش مندانہ ہے...دل کی خوشی کو چھپاتے ہوئے میں نے حامی بھرلی...اور ہاں قدسیہ آپا کوخط لکھ دو کہ ان کے خیالات نے ہمیں دانشمندانہ فیصلہ کرنے میں بڑی مدد دی ہے ...افضال نے مسکر کر کہااور میں خوشی سے جھوم اٹھی...صبح بچوں کو سکول بھیج کر سب سے پہلاکام میں نے یہ کیاکہ قدسیہ آپا کو ایک تفصیلی خط لکھا...حقیقت یہ تھی کہ ان کی رہنمائی، خلوص نیت اور اسلام سے بے پناہ لگاؤ کی وجہ ہی میرے دل میں ایک شمع روشن ہوئی تھیں...خط لکھنے کے بعد اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اسے بعد میں افضال سے پوسٹ کرواتی۔ چنانچہ خط لے کر خود ہی باہر نکلنے لگی کہ پوسٹ مین آگیا...ڈاک میں قدسیہ آپا کا خط دیکھ کر میں رک گئی...بے تابی سے کھول کر پڑھنا شروع کیالکھا تھا ...''آمنہ جانی''ڈھیروں دعائیں...یہ خط تمہیں بڑی جلدی میں لکھ رہی ہوں کہ پچھلے دنوں بڑی مصروف رہی ...اب ایک خوشخبری سنو...سب سے پہلے میں تمہیں لکھ رہی ہوں کہ ہم لوگوں نے بھی کینیڈا آنے کافیصلہ کر لیاہے اور وہ بھی بڑے غور و خوض کے بعد...بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ قدم اٹھایاہے دانشمندی اسی میں نظرآئی کہ بچوں کو وہاں اکیلا بھیجنے کے بجائے خود بھی ان کے ساتھ چلی چلوں۔ ویسے بھی ملک کے حالات بہت خراب ہیں ...اب پاکستان رہنے کی جگہ نہیں رہا۔ارشد کی امی کے پاس ان کی رشتے کی بھانجی آکر مکان کے اوپر والے حصے میں رہیں گی نیچے والا حصہ کرایہ پر دے دیاہے میراتوخیال ہے کہ یہ گھر بیچ کر وہاں کینیڈا میں کوئی چھوٹا سامکان خرید لیتے ہیں لیکن ارشد کی امی کی وجہ سے گھر نہیں بیچ سکتے...اب تم فوراً لکھو کہ وہاں آنے کے لئے مجھے کیاکیاتیاری کرنی چاہیئے؟۔
اس سے آگے مجھ سے کچھ نہ پڑھاگیا...دماغ ہچکولے کھانے لگا...اور خط ...میری مٹھی میں دباہوا مجھے ایک سانپ کی طرح ڈسنے لگا...''بچوں کے مستقبل کی خاطر!...بچوں کے مستقبل کی خاطر!''...میں ان الفاظ کے زہر میں ڈوب کررہ گئی...
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بچوں کے مستقبل کی خاطر

بھئی اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔ سناتھا جب شبیر ماموں نے پہلی مرتبہ بینک میں غبن کیاتھا تو وہ سلیم بھائی کو امریکہ بھیجنے کی خاطر کیاتھاکیونکہ سلیم بھائی کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے امریکہ جائیں گے۔ خاندان کا پہلا ہونہار سپوت جس کی قدوقامت سے پورا خاندان بننے والاتھا۔اور باپ کی حیثیت ایسی گئی گزری بھی نہ تھی کہ بیٹے کے سنہری سپنے یونہی بکھرجاتے......بینک کے مالک نہ سہی مینیجر تو تھے۔لہٰذا مار لیاایک ہاتھ...... ویسے بھی پاکستان بنتے ہی جہاں اخلاق وشرافت نے دم توڑنا شروع کردیاتھا وہاں لوگوں کے ہاتھ بھی لمبے ہوگئے تھے۔
پھر سنا کہ چھوٹی خالہ نے بھی دن رات یہی رٹ لگانی شروع کر دی کہ بچوں کامستقبل اچھا بنانا ہوتو ان کو خوب پڑھاؤ لکھاؤ۔ اچھے سے اچھے انگریزی اسکول میں بھیجو اور تعلیم کے نام پر کوئی کسر نہ چھوڑو۔چنانچہ انہوں نے خالو میاں سے تین تین نوکریاں کروائیں بیچاری نے خالو میاں کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی پاگل کرڈالاتھا ......ہائے !آج جب میں آصف بھائی ،عرفان اور نعمان کی اتنی بڑی پوزیشن اور ٹھاٹ باٹھ کودیکھتی ہوں تو چھوٹی خالہ کی لمبی لمبی دعائیں اور ہروقت بچوں کی کامیابی کے لئے وظیفہ نگاہوں میں گھوم جاتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت کرے۔ بے چاری نے خود فصل کاکوئی پھل نہیں چکھا۔کبھی ان کے بچوں کے سامنے خالہ کاتذکرہ کروتو بڑی ناگواری سے کہتے ہیں کہ ''امی نے تو جینا عذاب کیاہوا تھا ...اس پڑھائی کے پیچھے...بات یہ ہے کہ ہمارے والدین کواولاد کی ٹریننگ کاسلیقہ نہیں تھا...پیچھے ہی پڑے رہتے تھے ...ہم تو اپنے بچوں سے کوئی کام زبردستی نہیں کراتے...''یہ تو اچھا ہوا کہ خالہ کی کوشش سے آ پ کامستقبل شاندار بن گیا۔میرادل جلنے لگتا۔کیاشاندار مستقبل ؟کبھی چین سے سانس بھی لینا نصیب نہ ہوا ان کی شکایتیں ختم نہ ہوئیں۔
اے ہائے ...چھری جان سے گئی میاں جی کوسواد ہی نہ آیا...اماں گہرا سانس لیتیں۔
میں تو اب ہر وقت قدسیہ کو چھوٹی کی مثالیں دیتی ہوں کہ بی بی اتنا بچوں کے پیچھے نہ پڑی رہو۔پڑھ ہی لیں گے۔ مگر وہ کہاں سننے والی ہیں؟۔ ان کا بس چلے تو بچوں کو سقراط بقراط گھول کر پلادیں...''۔
امی سقراط بقراط بنتے تو دیکھا تھا پیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ناہید ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اے ہٹو تمہیںتو ہنسنے کے لئے کوئی بہانہ چاہیئے ہر وقت۔ اب دیکھئے امی قدسیہ آپا اپنے بچوں کامستقبل ہی تو بنانا چاہ رہی ہیں۔ یہ پڑھ لکھ کر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں گے۔
ہاں جس طرح ان کے جیٹھ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر ایسے کھڑے ہوئے کہ سارے خاندان کوگرادیا۔بھائی جان قسم سے اتنا ترس آتا ہے قیصرہ خالہ پر مجھے کہ بیچاری نے دیکھا ہی کیا؟۔جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔اور پھر اپنی ساری خوشیاں اکبر اور ارشد پر قربان کردیں۔اور پھر اکبر نے کیاصلہ دیا...وہ ماں جس نے سلائی کرکے اس کے مستقبل کی تعمیر کی ،آج بڑھاپے میں وہ اسے یہاں چھوڑ کر خود ہزاروں میل دور جاکربس گیا...اگر اب ارشد بھائی باہر چلے جائیں تو قیصرہ خالہ کو کون دیکھے گا......۔
اے !خدا کانام لو...ارشد کے لئے توماں سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اس کااور اکبر کاکیامقابلہ...ویسے ماں نے جتنا اکبر کے لئے کیااتنا ارشد کے لئے کیابھی نہیں ...اماں اپنی سمدھن کوکیسے بخش سکتی تھیں۔
مگر حقیقت یہ تھی کہ ارشد بھائی کہاں رکنے والے تھے۔ وہ تو قدسیہ آپا تھیں جنہیں وطن سے باہر نکلنے سے نفرت تھی۔دارالکفر کا نام آتے ہی لاحول پڑھنے لگتی تھیں ویسے بھی وہ ہمارے گھرانے میں ''مولون'' ہی کے نام سے مشہور تھیں۔پاکستان کی اس قدر شیدائی تھیں کہ پارٹیشن کے وقت بچّی تھیں، پاکستان آتے ہوئے ذرا سی خراش بھی لگ گئی تو فخریہ بیان کرتی تھیں کہ پاکستان کی بنیاد میں میراخون بھی ہے۔باہر جانے والے جیٹھ تو رہے ایک طرف ،بہن بھائیوں سے بھی ناراض تھیں جو اس طرح اپنے والدین، رشتہ دار، دوست احباب ،دینی ماحول اور وطن عزیز چھوڑ کر صرف چند آسائشوں کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ہمارا تو اسلام اور ایمان بھی ان کی نظروں میں مشتبہ تھا ...ہرخط میں یہی نصیحت ہوتی تھی کہ خدارا اپنے بچوں کے حال پر رحم کرو...اپنی آخرت تو بگاڑ ہی رہے ہو، نسلوں کو کیوں دین سے دور کرنے کا عہد کرلیاہے۔بچے بڑے ہورہے ہیں ...اب واپس آنے کاسوچو......''۔
قدسیہ آپا کے خطوط تو میرے لئے ڈوبتے کوتنکے کاسہارا کے مصداق ہوتے...میں ہرخط میں ان کے آگے اپنادل کھول کررکھ دیتی کہ آپا کیابتاؤں میں خود واپس آنے کے لئے کتنی بے چین ہوں...خاص طور پر بچوں کی خاطر...مگر ملک کے حالات خراب ہوتے دیکھ کر افضال کسی طرح آمادہ نہیں ہورہے...بس میرے بچوں کے لئے دعا کریں۔ اور قدسیہ آپا کے نصیحت بھرے سبق آموز خطوط مجھے رلادیتے۔ میری اسلامی غیرت ،حمیت اور جوشِ ایمان اپنے میاں سے بھرپور لڑائی کے موقعہ پر نمایاں ہوتی۔
تمہاری بہن کی دین داری اور وطن پرستی نے الگ میرے گھر کاچین ختم کیاہوا ہے......''
افضال اکثر نہایت غصے میں کہہ جاتے اوریوں میں نظریاتی طور پر اپنے میاں سے دور اور قدسیہ آپا سے قریب تر ہوتی چلی گئی...اکثر سوچتی ہوں کیسے باپ ہیں جنہیں فکر ہی نہیں کہ ان کے بچے یہاں کے پراگندہ ماحول کے اثرات کاشکار ہورہے ہیں انہیں تو بس اپنی نوکری اور اخبار پڑھنے کے علاوہ کسی چیز سے مطلب ہی نہیں ...میں اپنی کمیونٹی کی ایک سے ایک بڑھ کر خوفناک اور ہو ش اڑا دینے والی خبر افضال کوسناتی اور وہ ''اللہ رحم کرے'' کہہ کر رہ جاتے۔پھر میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے قدسیہ آپا کوخط لکھتی کہ پیاری آپا مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کس طرح اس ماحول میں یہاں کی برائیوں سے بچ کررہوں۔اور اس کے جواب میں قدسیہ آپا کے دل میں اتر جانے والے مشورے...دارالکفر اور مغربی تہذیب سے نفرت...یہاں کی مادی آسائشوں کاآخرت سے مقابلہ...ہرلمحہ اسلامی تعلیمات پر چلنے کی تلقین...بچوں کے دل میں قرآن کے ذریعے اسلام اور اسلامی مملکت کی محبت پیدا کرنے کی نصیحتیں ،میرے لئے راہیں کھلتی جاتیں اوردل کو بڑاسکون ملتا... میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ تعالی میں ضرور بہ ضرور پاکستان واپس چلی جاؤں گی... قدسیہ آپا کاساتھ ہوگا... ان کے بچوں کاماحول میرے بچوں کوملے گا اور میرے بچے نیک سیرت اورباکردار بن جائیں گے۔ بڑے ہوکر ملک و قوم کی خدمت اور پاکستان کانام روشن کریں گے...اسی خیال کے تحت آہستہ آہستہ میں بچوں کو ذہنی طور پر تیار کرتی رہی ... وقتاً فوقتاً کانوں میں بھی کچھ نہ کچھ ڈالتی رہتی۔ بالآخر آرزوئیں رنگ لائیں۔ دعائیں قبول ہوئیں اور حالات رخ بدلنے لگے ...جب ماحول کی آلودگیاں کمیونٹی کے اکثر گھروں کواپنی لپیٹ میں لینے لگیں تو افضال کی نظریں بھی تیزی سے بڑھتے ہوئے بچوں کی طرف اٹھنے لگیں ...اور وہ دن میری زندگی کا سب سے زیادہ پرمسرت دن تھا جب افضال نے کہا۔''آمنہ میں سوچتا ہوں کہ پانی سر سے اونچا ہونے سے پہلے ہی عقل مندی کافیصلہ کر لینا چاہیئے''۔ کیا مطلب آپکا؟میں سمجھی نہیں ...
مطلب یہ کہ اس سے پہلے کہ بچے یہاں کے ماحول میں اس قدر رنگ جائیں کہ اپنے ملک جانے سے انکار ہی کر بیٹھیں ...ہمیں اپنارختِ سفر باندھ لینا چاہیئے ...

''واقعی...یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟''
ہاں بھئی ...اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ہمیں یہ جگہ چھوڑنی ہی ہوگی...تاکہ مسلمان بن کر رہیں اور اپنا دین و ایمان قائم رکھ سکیں...میں خوشی سے پھولے نہ سمائی ...افضال آپ کافیصلہ بروقت اوردانش مندانہ ہے...دل کی خوشی کو چھپاتے ہوئے میں نے حامی بھرلی...اور ہاں قدسیہ آپا کوخط لکھ دو کہ ان کے خیالات نے ہمیں دانشمندانہ فیصلہ کرنے میں بڑی مدد دی ہے ...افضال نے مسکر کر کہااور میں خوشی سے جھوم اٹھی...صبح بچوں کو سکول بھیج کر سب سے پہلاکام میں نے یہ کیاکہ قدسیہ آپا کو ایک تفصیلی خط لکھا...حقیقت یہ تھی کہ ان کی رہنمائی، خلوص نیت اور اسلام سے بے پناہ لگاؤ کی وجہ ہی میرے دل میں ایک شمع روشن ہوئی تھیں...خط لکھنے کے بعد اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اسے بعد میں افضال سے پوسٹ کرواتی۔ چنانچہ خط لے کر خود ہی باہر نکلنے لگی کہ پوسٹ مین آگیا...ڈاک میں قدسیہ آپا کا خط دیکھ کر میں رک گئی...بے تابی سے کھول کر پڑھنا شروع کیالکھا تھا ...''آمنہ جانی''ڈھیروں دعائیں...یہ خط تمہیں بڑی جلدی میں لکھ رہی ہوں کہ پچھلے دنوں بڑی مصروف رہی ...اب ایک خوشخبری سنو...سب سے پہلے میں تمہیں لکھ رہی ہوں کہ ہم لوگوں نے بھی کینیڈا آنے کافیصلہ کر لیاہے اور وہ بھی بڑے غور و خوض کے بعد...بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ قدم اٹھایاہے دانشمندی اسی میں نظرآئی کہ بچوں کو وہاں اکیلا بھیجنے کے بجائے خود بھی ان کے ساتھ چلی چلوں۔ ویسے بھی ملک کے حالات بہت خراب ہیں ...اب پاکستان رہنے کی جگہ نہیں رہا۔ارشد کی امی کے پاس ان کی رشتے کی بھانجی آکر مکان کے اوپر والے حصے میں رہیں گی نیچے والا حصہ کرایہ پر دے دیاہے میراتوخیال ہے کہ یہ گھر بیچ کر وہاں کینیڈا میں کوئی چھوٹا سامکان خرید لیتے ہیں لیکن ارشد کی امی کی وجہ سے گھر نہیں بیچ سکتے...اب تم فوراً لکھو کہ وہاں آنے کے لئے مجھے کیاکیاتیاری کرنی چاہیئے؟۔
اس سے آگے مجھ سے کچھ نہ پڑھاگیا...دماغ ہچکولے کھانے لگا...اور خط ...میری مٹھی میں دباہوا مجھے ایک سانپ کی طرح ڈسنے لگا...''بچوں کے مستقبل کی خاطر!...بچوں کے مستقبل کی خاطر!''...میں ان الفاظ کے زہر میں ڈوب کررہ گئی...
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کٹی ہوئی شاخیں

نومبر شروع ہو چکاتھا میں نے سوچا کہ کسی دن موتیا اوررات کی رانی کی کٹنگز باہر سے اندر لاکر پانی میں ڈال دوں گی تاکہ یہ پودے گھر کے اندر زندہ رہ سکیں کیونکہ باہر موسم سرد ہوچکاتھا کسی روز بھی Frostپڑ سکتی تھی۔۔۔۔اورا س دن میں سارے کام چھوڑ کر ابھی چند شاخیں ہی کاٹنے پائی تھی کہ اپنے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز سن کر گھبرا کر سڑک پر آگئی جو اتفاقاً اپنی سائیکل سے گر کرہونٹ پھٹنے کی وجہ سے بری طرح رو رہاتھا۔ ۔۔ بدحواسی میں اسے لیکر ڈاکٹر کے پاس گئی۔وہاں جاکر پتہ چلا کہ نہ صرف ہونٹ پھٹ گیا ہے بلکہ آگے کے دودانت ٹوٹ کر نیچے کے سارے مسوڑھے بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ جاوید کو ہسپتال بھیج دیاگیا۔دودن تک مجھے ہوش نہ رہا۔ ناگہانی آفت سے سارا وجود ہل کر رہ گیا۔وہ توشکر ہے کہ اللہ تعالی نے جان بچالی۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا اور اگر اللہ نہ کرے کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹ جاتی یا کوئی ایسی چوٹ لگ جاتی جس سے بچہ معذور ہوجاتا تو ہم کیاکرلیتے۔یہ تو اللہ تعالی کاکرم ہے کہ اس نے ہم پر رحم فرمایا۔لیکن معصوم بچے کی تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی۔ چار دن بعد اسے گھر لیکر آئی تو اس کی دیکھ بھال میں ایسی لگی کہ یہ خیال ہی نہ رہا کہ ہسپتال جانے سے پہلے میں کیاکررہی تھی۔۔۔
برف باری شروع ہوئے تین چار دن ہوگئے تھے ایک دن دوپہر میں کھڑکی سے باہر نظر پڑی تو دیکھا کہ برف نے ہر چیز کو ڈھانپ لیا ہے۔ ہنستے مسکراتے بڑے جاندار قسم کے پودے جو خزاں کی سردی بھی بڑی ہمت سے سہہ جاتے ہیں وہ بھی برف کی چادر میں منہ چھپائے بڑی حسرت ویاس کی حالت میں نظر آئے۔ میری رات کی رانی کوپالا مار گیا تھا۔ ساری ہری ہری شاخیں مٹیالے رنگ کی مردہ پڑی ہوئی بے بس نظر آرہی تھیں۔ ۔۔ہائے اللہ!کاش میں انہیں پانی میں ڈال جاتی۔کتنی پرانی میری رات کی رانی تھی۔۔۔۔ہرسال میں گرمیوں میں اسے باہرلگادیاکرتی تھی اور سردیاں شروع ہونے سے پہلے بہت ساری شاخیں کاٹ کربہت سارے پودے بناکر اندر لے آیاکرتی تھی۔ اس طرح برسوں سے میری رات کی رانی چلی آرہی تھی اور اب تو بس یہ جل گئی۔اس مرتبہ ذرا جلد ہی برف باری ہو گئی تھی اور ہوئی بھی ایکدم اتنی ساری۔۔۔ اُف خدا۔ذرا سی میری غفلت اور سستی سے میرا پسندیدہ پودا ایسے ختم ہوکررہ گیا!یہاں توکہیںملتا بھی نہیں کہ میں جاکر خرید لاؤں۔۔۔
''مام !آج شام میرا میچ ہے میں رات کو دیر سے آؤں گا ''۔اپنے بیٹے ندیم کی آواز پر میں چونکی۔ اور ماما میرا آج پریکٹیکل ہے میں بھی لیٹ آؤں گی۔ تم لوگ ایسا کیاکرو کہ گھرآیا ہی نہ کرو۔روز کا یہ ہی چکر ہے۔ کسی کاگیم ہے، کسی کا Assignment ہے۔ کسی کاپریکٹیکل ہے۔ کبھی دوست کے پاس جانا ہے، کبھی کہیں پارٹی ہے۔ مجھے نجانے کیوں سخت غصہ آگیا۔ماما آر!یوآل رائٹ ؟فرخ نے کوٹ پہنتے ہوئے مجھے حیرت سے دیکھا۔ اور میں صوفے پر ڈھیر ہوگئی۔ بے چین اور مضطرب۔ ۔۔کیازندگی ہے یہ، کیسی گاڑی ہے کیساگھن چکر ہے یہ۔ کیادھوکہ اور سراب ہے یہ؟۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں جارہے ہیں ہم؟۔ کون لئے جارہا ہے۔ کونسی منزل ہے ہماری اورکہاں جاکر ہمیں ٹھہرنا ہے ؟۔صبح و شام ہروقت ایک دوڑ ہے جس میںہم مصروف ہیں۔ یا ایک تیزی سے چلتا ہوا پہیہ ہے جس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ کہاں سے شروع کروں۔ لگتا ہے کہ میری نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا۔''بس حال ہی حال ہے''۔مجھے تو وہی نظر آتا ہے جو میرے سامنے ہے۔ میں بس اسی کی فکر کرتی ہوں جو میرے سامنے ہے۔کیونکہ نہ تو میں گزرے ہوئے کل کاسوچتی ہوں اور نہ آنے والے کل کی فکر کرتی ہوں۔مگر یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کہ آدمی اپنے گزرے ہوئے کل سے کوئی سبق حاصل نہ کرے ،اور نہ آنے والے کل کی فکر کرے۔ہاں دیکھو!اگر میں نے پہلے ہی سے رات کی رانی کی شاخیں کاٹ کر پانی میں ڈال دی ہوتیں تو میرا برسوں پرانا پودا یوں دیکھتے دیکھتے میری آنکھوں کے سامنے ختم نہ ہوتا۔ اور اگر وہ شاخیں پودے میں ہی لگی رہتیں تو اس طرح مرجھا کر ختم نہ ہوتیں۔میں نے انہیں بھی درخت سے کاٹ کر پھینکا اور پھر ان کی بقاء کاکوئی سامان بھی نہیں کیا۔
''افسوس ہے تمہارے حال پر جو تم کائنات کے مظاہرے سے سبق نہیں لیتی ہو۔ایک پودے کے ختم ہونے کاتو تمہیں اتناملال ہے لیکن ایک پوری تاریخ ، پوری تہذیب کوختم ہوتے ہوئے تم دن رات دیکھتی ہو، اوردیکھتی کیاہو،مٹانے والوں میں خود بھی شامل ہو۔ اسکا تمہیں کوئی احساس نہیں۔ '' سچ کہتی ہوتم۔ کون ہوتم؟میر ی سوچیں؟اے میری سوچو!سچ کہاتم نے کہ صرف چند بتوں کی خاطر ہم نے کیاکچھ نہ چھو ڑدیا۔کتنی نعمتوں کو ہم نے ٹھکرا دیا۔ محض چند بتوں کی خاطر۔مگر یہ بت بھی بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ چڑھاوے چڑھاتے جاؤ، ان کی ہوس کم ہی نہیں ہوتی۔ہائے ان کے پجاری بھی کتنے نادان اور بدنصیب ہوتے ہیں۔ آرزوئیں ان کی پوری ہوتی نہیں۔مگر پھر بھی بھینٹ دیئے چلے جاتے ہیں۔سب کچھ ان پرلٹا دیتے ہیں اور خود تہی دست رہتے ہیں۔ ہم بھی تو ایسے ہی اپنے درخت سے علیحدہ ہوگئے۔ کٹی ہوئی شاخوں کی طرح جنہیں اٹھاکرپھنک دیاگیا ہو۔اور وہ چند روز میں مرجھا کرسوکھ گئی ہوں۔ آہ ہمارا کون ہے یہاں۔ ملک، وطن،رشتے دار،عزیز دوست احباب، سب چھوٹ گئے۔برسوں گزر گئے ان کی شکلیں دیکھے ہوئے۔ وہ ہمارا گھر ، وہ ہمارا محلہ، وہ ہمارا شہر۔وہ ہوائیں ،وہ فضائیں، وہ انداز، وہ باتیں ،وہ ماحول ، وہ طور طریقے ،جوہماری روح کی گہرائیوں میں بسے ہوئے ہیں ،جنہیں ہم ہرلمحے بتوں کی پوجا میں مصروف ہوکر بھول جانا چاہتے ہیں جو اپنی کسک سے دل کو تڑپاتے ہی رہتے ہیں۔واقعی کتنے تنہا ہیں ہم۔ عجیب بات ہے۔ بچے۔جن بچوں کی خاطر ہم نے یہ سب قربانیاں دیں۔ وہ بچے۔ وہ بچے بھی تو ہمیں اپنے نہیں لگتے ہیں۔ کتنے اجنبی ہیں۔ نہ زبان ہماری ، نہ خیالات ہمارے جیسے نہ ہمارے اُس ماحول سے آشنا جو ہماری رگ و پے میں بسا ہوا ہے۔ کتنا ہم نے اپنے آپ کو بدل ڈالا ہے بچوں کی خاطر!۔بچوں کی خاطر بدل ڈالا یابتوں کی خاطر؟کیونکہ جب خود کو بدلا تو بچے بھی بدلے ہوئے نظر آئے۔ مگر اُف خدا!ہمارے ظاہری خول کے اندر ہماری جو اصلیت ہے وہ کس قدر سسکتی اور بلکتی ہوئی ہے؟۔ کتنی تنہا ہے وہ، کتنی بے یار و مددگار اور مجبور و محکوم ہے وہ۔ اس کاکوئی ساتھی نہیں۔ اس کی کوئی منزل نہیں۔ کیونکہ درخت اپنی شاخوں سے ہی پھلتا پھولتا ہے اور ہم نے تو خود ہی شاخیں کاٹ کرپھینک دی ہیں ، پرانے درختوں کی رکھوالی نہیں ہے اور نئے پودوں کی آبیاری نہیں ہے تو کیابنے گا، کیا ہو گا۔ کتنا ظلم کیا ہے۔ ہر ظاہری شاخوں کو درخت سے نوچ کر پھینک دیا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو اپنے خاندان سے جدا کر دیا ہے۔ یہ بچے جو کبھی والدین کاسرمایہء افتخار ہوا کرتے تھے ، یہ بچے جو خاندان کی بقاء کی ضمانت ہوا کرتے تھے ، یہ بچے جو اسلام کے آئین اور روایت کے علمبردار ہوا کرتے تھے۔آج پراگندہ ، منتشر، مادرپدر آزاد معاشرے میں پروان چڑھ کر جو کچھ بن رہے ہیں، اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ آخر کیاکریں؟۔بتوں کی پوجاسے دل ہی نہیں بھرتا ہے اور دل بھرے بھی توکیسے۔ جبکہ ہم نے اس کے انجام سے آنکھیں بندکرلی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جگمگاتے ہوئے جگنو

''عنبرین کی Sweet Sixteen پارٹی تھی پرسوں۔بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔اب تو خیر سے اس شہر میں اتنی لڑکیاں ہوگئی ہیں کہ فرزانہ کو اپناگھر چھوڑنا پڑا۔چنانچہ اس نے T.V.ہال میں بڑاشاندار انتظام کیاہواتھا۔ایک سے ایک پیاری لڑکی اور سب اتنی اچھی طرح ڈریس اپ ہوکر آئی ہوئی تھیں کہ لگتا تھا جیسے پریاں زمین پر اتر آئی ہوں۔ کل کی ننھی منی بچیاں Young Ladies لگ رہی تھیں ...''فرخ بڑی مرعوبیت سے عنبرین کی پارٹی کی منظر کشی میںمصروف تھیں...'' پچھلے ہفتے سحر کی برتھ ڈے پارٹی تھی اور اب اگلے ہفتے شمع کی ایجوکیشن پارٹی ہے۔کیابتاؤں اب تو ہم ہی نہیں ہماری بچیاں بھی اتنی ہی مصروف ہوگئی ہیں''۔ نازنین بولیں۔
اوربھئی سنا ہے کہ اب تو ماؤں کی طرح لڑکیاں بھی کمیٹی پارٹی بہت دھوم دھام سے کرتی ہیں۔ نجمہ کو ادھر ادھر سے اطلاعات مل جاتی تھیں۔
ہاں بھئی کمیٹی پارٹی کی رونق کاکچھ نہ پوچھو۔دوہفتے پہلے گلِ رعنا کی بیٹی نے اپنے گھر پارٹی کی تھی۔کیالڑکیوں نے ہنگامہ مچایا ہوا تھا!حالانکہ مائیں Invited نہیں تھیں۔ مگر گل کی قریبی فرینڈز شریک تھیں۔ مجھے بھی ناز زبردستی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔بڑا مزا آیا... مائیں بیٹیاں سب ہی مل کر انجوائے کر رہی تھیں۔میں توکہتی ہوں کہ ایک طرح سے اچھا ہی ہے ہماری لڑکیاں ماؤں کے ساتھ فری ہیں اور اس طرح باہر گوروں کے ساتھ ملنے سے بھی بازرہتی ہیں۔
ہاں یہ تو آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مگر ہماری لڑکیاں اسطرح کی پارٹیوں کے باوجود گورے کالے سبھی لڑکوں سے ملتی ہیں۔ آپ کو پتہ ہی ہوگاکہ یہ لڑکیاں سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کس طرح لڑکوں کے ساتھ رہتی ہیں ...نجمہ نے کریدا۔
بھئی کیاکریں۔اب جب اسکولوں میں لڑکوں کے ساتھ پڑھیں گی تو انہیں دوست تو بنانا ہی پڑے گا۔ میں تونہیں سمجھتی ہوں کہ اس میں کوئی برائی ہے ...ویسے بھی ہماری لڑکیاں کینیڈین لڑکیوں کی طرح ڈیٹنگ تو نہیں کرتیں۔اب یہ کہاجائے کہ وہ لڑکوں سے باتیں بھی نہ کریں تو میری نظر میں ایسا سوچنا بھی حماقت ہے ...فرزانہ نے ثروت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اورثروت کانوالہ حلق میں اٹک گیا۔ وہ بظاہر اس دعوت میں کھانا کھارہی تھی لیکن کھانا کھاتے ہوئے خواتین کی گفتگو سن کر ان کا ذہن اور دل جس تکلیف میں مبتلا تھا اس سے لگتا تھا جیسے وہ اس دنیا میں نہیں کہیں اوررہتی ہیں۔ جب کبھی وہ کسی پاکستانیوں کی شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں ان معصوم بچیوں کو سولہ سنگھار کئے ماؤں کے ساتھ بے حجابانہ طریقے پرناچتے گاتے اورمردوں سے اٹھکھیلیاں کرتے دیکھتیں تو غم سے ان کادم گھٹنے لگتا تھا۔باہر بازاروں ، دکانوں اور کھانے پینے کی جگہوں پر جب وہ اپنی مسلمان بچیوں کو بالکل کینیڈین لڑکیوں کی طرف بنی سنوری اور کبھی تو ان سے بھی زیادہ بے باک دیکھتیں تو ان کادل خون کے آنسو رونے لگتا...سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے کارناموں سے بھی وہ بڑی حد تک آگاہ تھیں۔مگر اس وقت ان ماؤں کے خیالات کااظہار ان کی روح کو جھنجھوڑ گیا تھا۔اور اب جبکہ وہ انھیں تائیدی نظروں سے دیکھ رہی تھیں توان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیاجواب دیں...
آپ بتائیں ناثروت کہ اس ماحول میں رہ کر یہاں کی تہذیب اور طور طریقوں سے اپنے بچوں کو دوررکھنا کتنامشکل ہے؟۔فرزانہ نے وضاحت کرتے ہوئے ثروت کی طرف دیکھا ...آپ کی بچیوں کا تو میں نے سنا ہے کہ وہ حجاب پہنتی ہیں۔ کیسے رہتی ہیں وہ۔ ؟مجھے تو یقین نہیں آتا۔ یہ سب حجاب وجاب لڑکیاں والدین کے پریشر سے کرلیتی ہیں...پھر سکولوں اور کالجوں میں جاکر سب اتار دیتی ہیں۔ میں نے تو بڑے بڑے مذہبی گھرانوں کی لڑکیوں کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھا ہے کہ بس کیابتاؤں...اور اب تو آپ نے ٹورانٹو میں ہونے والے واقعات بھی سن لئے ہونگے۔ میں توکہتی ہوں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے...فرزانہ جوش جذبات میں بڑھتی ہی چلی جارہی تھیں اور ثروت تڑپ کر بولیں''پلیز فرزانہ ایسا نہ کہیں...یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ باحیا اور باکردار بچیاں ایسی حرکتیں کریں!...''نہیں ثروت حقیقت یہ ہے کہ جب والدین بچوں کو زیادہ دباکررکھتے ہیں تو وہ چھپ چھپ کراپنے شوق پورے کرتے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ ان سے اچھے تو ہمارے بچے ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں ہمیں بتاکرکرتے ہیں۔ انھوں نے فاتحانہ انداز میں ماحول پر نظرڈالی...
ہائے اسی کاتو غم ہے کہ آپ کی غیرت کہاں گئی۔ثروت نے زیر لب کہا او رتبھی ان کے ذہن میں ان کی بچیوں کااس ماحول میں رہ کر اپنی دینی اقدار کی حفاظت کے لئے جنگ کرنا، اس معاشرے کی نفرت اور ناپسندیدگی کانشانہ بننااور پھر بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ناہموار حالات کامقابلکہ کرنا، سبھی کچھ ایک برق کی طرح لہراگیا ...میری بیٹیاں سچ کہتی ہیں کہ امی ہمیںدو محاذوں پر جنگ کرنی پڑتی ہے ...ایک تو اس سوسائٹی سے اور دوسرے اپنے پاکستانی بچوں سے جو یہاں والوں کی نسبت ہم سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ نہیں آپ بالکل غلط کہتی ہیں۔ حجاب پہننے والی لڑکیاں ایسی نہیں ہوتیں ،اور جو ایسی ہوتی ہیں وہ اتنی بے حجاب ہوتی ہیں کہ بیرونی دباؤ سے انکے سروں پر بندھا ہوا اسکارف انہیں با حجاب نہیں بناسکتا...غم و غصہ اور صدمہ و تاسف سے الفاظ انکے خیالات کاساتھ نہیں دے رہے تھے۔
اور اس رات جب گھر کے سبھی لوگ سوئے ہوئے تھے ثروت اپنی آنکھیں بند کئے زیبا کے گھر ہونے والی باتوں میں الجھی ہوئی تھیں ...انہیں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ان ملکوں میں مسلمان بن کر رہنا دشوار ہی نہیں ،ناممکن ساہے۔بقول کسی مفکر کے... ''دارالکفر اسلام کے رستے میں سنگ گراں ہے''...یہاں قدم قدم پر زخم لگتے ہیں۔ ہم سے زیادہ ہمارے بچے چکی کے دوپاٹوں کے درمیان صبح و شام پستے ہیں ...اف میرے خدا !کہنے سننے اور عمل کرنے میں کتنا فرق ہوتا ہے ...ہم تو بس ہر لمحہ بچوں کوڈراتے اور تاکید ہی کرتے رہتے ہیں کہ تم مسلمان ہو ، بہترین مسلمان بن کر رہو۔لیکن ان معصوموں کی اذیت اور شدید کشمکش کااندازہ ہم گھروں میں بیٹھ کر نہیں کرسکتے۔ان کے کانوں میں نادیہ اور صوفیہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔امی جان ہماری کوئی دوست نہیں ہے کبھی تو سکول میں پراجیکٹ کرتے ہوئے بڑی دشواری ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہمیں گروپ کی شکل میں کرنے ہوتے ہیں... اور یہ پاکستانی لڑکیاں تو ہمارے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتیں ...آپ ہمیں کہتی ہیں کہ ہم انہیں سلام کریں ...کیسے سلام کریں؟...ان کے تو منہ سے سلام کاجواب بھی نہیں نکلتا۔ یہ تو جب بھی نظر آتی ہیں لاکرز کے پاس ، لائبریری میںیاکلاس روم میں ، تو لڑکوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی ہوئی اور کینڈین لڑکیوں کے ساتھ گھل مل کربیٹھی ہوئی۔اور ہمیں اتنی حقارت سے دیکھتی ہیں کہ جیسے ہم کوئی نرالی مخلوق ہیں ...ثروت نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں...اف میرے اللہ اور پھر ان کی نظروں میں وہ معصوم چہرے گھومنے لگے جو سر سے لیکر پاؤں تک اپنے آپ کو ڈھانکے ہوئے خال خال ہی کہیں نظرآجاتے ہیں۔ لیکن کتنے پاکیزہ، کتنے سچے اور کتنے عظیم ہیں یہ چہرے۔یہ میری معصوم بچیاں جو کبھی اسکولوں میں، کبھی یونیورسٹیوں میں اور اب تو کبھی ہسپتالوں میں بھی نظر آجاتی ہیں، کتنی کھٹن راہوں سے گزر رہی ہیں؟ کیسے کیسے مصائب سہہ رہی ہیں؟۔ اور کس عزم ، حوصلے، اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں؟۔ قرآن کی حفاظت توان کے دلوں میں اتری ہے۔ وہ فرشتہ صفت بچیاں بھی ان کے ذہن میں آرہی تھیں جن کی دینی اقدار کے سب سے بڑے دشمن ان کے والدین ہیں... وہ بچی بھی اس کی نگاہوں میں جگمگا رہی تھی جو اپنے باپ کے خوف سے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ہی حجاب اتاردیاکرتی تھی ...اور وہ بچیاں بھی اس کی آنکھوں کونم کررہی تھیں جو صرف اس وجہ سے ریجیکٹ کردی گئی تھیں کہ وہ حجاب پہنتی تھیں...مگر ان میں سے کسی نے بھی شادی کی لالچ میں یاکسی کے ڈر خوف اور نفرت اور حقارت کی بنا پر کبھی اپنے دین کے پاکیزہ اصولوں کوچھوڑ کر جھوٹی نمائش اورچمکتی ہوئی گندگی اور غلاظت کوپسند نہیں کیا۔مگر پھر بھی بے ضمیرلوگوں کی دریددہ ذہنی دیکھئے کہ کیسی کیسی باتیں ان سے منسوب کرتے تھے!۔ ہائے میرے اللہ !جیسے یہ لوگ ہیں ایسی ہی ان کی سوچیں ہیں ...مگر میری عظیم بیٹیو!آج تم نے اپنی ماوؤں کے دوپٹوں کی لاج رکھنی ہے۔ تم وہ موتی ہو جنہیں ہزاروں غوطہ خور اپنی جان دے کر سمندر کی تہہ سے نکال لاتے ہیں۔ تم اندھیرے میں چمکتی ہوئی وہ جگنو ہو جو رات کی تاریکیوں اور ظلمتوں کوروشنی بخشتے ہیں۔ میں تمہارے دکھ درد اور آزمائشوں کی سختی کا اندازہ کرسکتی ہوں۔لیکن میری پیاری بچیو!تم ہمت نہ ہارنا۔تمہارے ہاتھوں میں امت محمدیہ کامستقبل ہے۔اگرتم میدان میں ڈٹی رہوتو کوئی قوت ہمیں نہیں توڑ سکے گی۔کوئی طاقت ہمیں نہیں اکھاڑ سکے گی...اگر قوم کی مائیں سدھر جائیں گی تو وہ قوم زندہ ہوجائے گی۔یہ سچ ہے کہ مقابلہ سخت ،جان ناتواں اور حالات ناموافق ہیں ...لیکن مایوسی کفر ہے...کیااللہ کی زمین میں کوئی ایسا ٹکڑا نہیں ہے ہمارے لئے جہاں اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر زندگی گزار سکیں؟...میراایمان ہے کہ ہے اور ضرور ہے ...بس عزم و حوصلہ شرط ہے...ٖثروت نے تکیہ میںمنہ چھپا لیا اور کب سے پلکوں میں اٹکے ہوئے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔
شہناز احمد (آٹووا)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آؤ ہمیں پوجو!...
مسز ہاشمی کو سخت غصہ آرہا تھا ، ہاشمی صاحب اپنی بیگم کی برہمی کی وجہ کچھ نہ کچھ تو سمجھ گئے تھے لیکن اصل معاملے کی تہہ تک ابھی نہیں پہنچ پائے تھے...
''بھئی کچھ بتاؤگی بھی کہ یونہی اپنا خون جلاتی رہوگی''۔وہ بھی ان اندھی قسم کے لوگوں سے بہت گھبراتے تھے ...
''جاوید ! یہ دنیابڑی خراب ہے ، یہاں بلاوجہ دوسروں کی وجہ سے ہماری صحت خراب ہوجاتی ہے...یہ جو ہمارے نئے پڑوسی آئے ہیں نا، ان کی بیگم صاحبہ بڑی عجیب وغریب ہے، جب بھی بات کرو دہرا پھرا کر وہی وعظ دینے بیٹھ جاتی ہیں ''...
''کیاوعظ دیتی ہیں '' ...جاوید حیران تھے...'' بھئی یہی کہ ہمیں اپنے وقت کااحساس کرناچاہیئے ، دین کا علم سیکھنا چاہیئے، آخرت کی فکر کرنی چاہیئے،اور نہ جانے اس قسم کی کیاکیاباتیں ، سچ جیدی میری تو سمجھ میں بھی نہیں آتی ہیں۔ '' اس نے بہت ناگواری سے کہا...''آج جس بات پر مجھے غصہ آیاوہ یہ کہ محترمہ فرماتی ہیں کہ ہم گھروں کو بنانے او ر سجانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں لیکن اپنے اصلی گھر قبرکوبھول جاتے ہیں ، جیدی۔ قسم سے اتنی ڈراؤنی باتیں کرتی ہیں یہ عورت کہ کیابتاؤں...واقعی اگر تم اس کی باتیں سنو تو پاگل ہوجاؤ...کہتی ہے امریکہ دارالکفر ہے اوریہاں کے لوگوں کی زندگی جانوروں سے بدتر ہے جس کامقصد پیسہ کمانا اور پھر اس سے عیش کرنا ہے اور ہرمسلمان کی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم آنکھیں بندکرکے ان کی پیروی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہم وہ سارے کام کررہے ہیں جو اسلام نے بحیثیت مسلمان ہمیں کرنے سے منع کیاہے''...
''ارے بابا بس کرو تمہیں تو لگتا ہے زبانی ایک ایک لفظ یاد ہوگیا ہے''...جاوید اتنی لمبی داستان سن کر بور ہوگئے...انہیں جوگنگ (Jogging)کے لئے جانا تھا۔''شبّی ٹائم دیکھو کیاہوگیا ہے ...کیاآج تمہارا بیڈمنٹن کھیلنے کاموڈ نہیں ہے ''۔
''نہیں جی چل رہی ہوں۔ آپ کے ساتھ تھوڑی Walkہوجائے گی ''۔
میناکو آج نہ جانے کیافرسٹریشن تھاکہ کھیل ختم کرنے کے موڈ میں ہی نہ تھی...شبّی بہت تھک گئی تھی۔ رات کو جب وہ بستر میں لیٹی تو اس کاجوڑ جوڑ دکھ رہاتھا۔جیدی کے خراٹوں سے اسے اور الجھن ہورہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی واقعی یہ بھی کیازندگی ہے صبح سے لے کر شام تک کولہو کے بیل کی طرح چلتے رہو۔ رات کو اچھی نیند نہ ہولیکن صبح سویرے کو اٹھنا ہی ہے کیونکہ کام پر جانا ہوتا ہے... اور پھرسارادن وہاں سرکھپانا پڑتا ہے، بیشک تھوڑی Outing اور تفریح بھی ہوجاتی ہے لیکن ذمہ داری پھر ذمہ داری ہے۔ وہاں سے آکر گھر دیکھنا کھانا پکانا بچوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا، جو کبھی حل ہوکر ہی نہیں دیتے۔ Weekendپتا نہیں کہاں گزر جاتا ہے ؟۔گروسری، لانڈری، گھر کی صفائی،ملنا ملانا، بس لگتا ہے گھن چکر بنے ہوئے ہیں۔ چین و سکون کاسانس ہی لینا نصیب نہیں ہوتا۔آج نئے سال کی چھٹیاں بھی ختم ہوگئیں۔آج تو میں صبح سے اٹھ کر جو صفائی میں مشغول ہوئی تو شام ہوگئی اور میرے کام ختم ہی نہیں ہوئے۔دن بھی تو اتنے ہوگئے ہیں۔ پورے گھر کی صفائی کوئی آسان کام ہے ؟۔ڈائننگ روم کاشینڈ لیئر بھی صاف نہیں ہوسکا اس کے لئے تو میں میگی کو ہی بلاؤں گی ، لوگ کہتے ہیں یہاں Dustنہیں ہوتی ذرا ڈیکوریشن کو صاف کرناپڑے تو پتا چلے۔اف کتنے کام کئے آج اور اوپر سے مسز حسین کی باتیں۔۔۔ایکدم سے اس کاساراذہن ساجدہ کی طرف پھر گیا۔ ذہن کی برق رفتاری کاکون اندازہ کرسکتا ہے۔۔۔ واقعی وہ سچ ہی تو کہتی ہیں کہ ہم صبح و شام دولت اور اس سے حاصل کی ہوئی چیزوں کی پوجا میں لگے رہتے ہیں۔ ۔۔وہ اپنے خیالات کی تبدیلی پر حیران ہوئی۔ ۔۔شام تو مجھے اس پر سخت غصہ آرہاتھا ،اس کی باتیں میرا خون کھولا رہی تھیں۔ یہ اچانک کیاہوگیا۔۔۔مگر شام میرے جسم میں درد نہیں ہورہاتھا۔ جیدی بھی خراٹے نہیں لے رہے تھے،ذہن کے کسی کونے نے جواب دیا کیونکہ اگر میں صبح و شام کاجائزہ لوں تو سوائے پیسہ کمانا، اسے خرچ کرنا، خریدی ہوئی چیزوں سے دل خوش کرنا، ان کی حفاظت کرنا دوسروں پررعب ڈالنا۔ اور جب ان چیزوں سے دل بھرجاتا ہے تو دوسری چیزوں کی آرزو کرنا اور انہیں حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کردینا ہی سب کچھ میری زندگی ہے۔۔۔واقعی ہم کتنی محنت کرتے ہیں۔ ان چیزوں کی خاطر اپنے آپ کو کھپا دیتے ہیں !۔
لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو جبب وہ سانسفرانسسکو کے ائرپورٹ پر مسز جاوید ہاشمی بن کر اتری تھی۔۔۔ اور اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں اس کو لگتا تھا کہ جیسے جنت میں اتر آئی ہے، جیدی کاTasteلاجواب تھا۔ وہ خود بھی ہینڈسم تھا !یہ سوچ کروہ مسکرائی۔۔۔ پیار سے سرموڑ کر بے خبر سوتے ہوئے جاوید کو دیکھا۔۔۔۔اور اپنی یادوں کے سلسلے کو وہیں سے جوڑا جہاں سے وہ ٹوٹا تھا۔۔۔اس نے اسی سال اپنا تھیسس داخل کیاتھا۔ خوش قسمتی سے اسے بڑی اچھی جاب بھی مل گئی تھی اور شبّی تو جاوید کے لئے بہت اچھی پارٹنر ثابت ہوئی۔ دونوں کے پلان لمبے اور اڑان اونچی تھی۔ آرزوؤں اور ارمانوں سے دل لبریز اور خواہشات سے سینے بھرے پڑے تھے۔شبّی نے بھی چھوٹے چھوٹے کئی کورسز کرلئے تھے۔ اس کو بھی اچھی جاب مل گئی تھی۔ اپنے آپ کو اس نے بہت خوبصورتی سے اس سوسائٹی میں ڈھال لیاتھا۔
توبہ آج تو حد ہوگئی بے چینی کی!۔ کسی کروٹ چین ہی نہیں ہے۔ نیند سے بہت دور اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو اس نے رگڑا۔ ۔۔کتنی دن رات محنت کرکے ہم نے اپنا ایک معیار بنایا ہے۔ پوری کمیونٹی میں سب سے خوبصورت اور شاندار گھر میرا ہے۔ میری قابلیت میرے شوق کو لوگ کیسی رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ میرا اور جیدی کا تو یہ حال ہے کہ ہم پوری دنیا سے بہترین بہترین چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے گھر کے لئے لاتے ہیں۔ میرے پاس جتنے Jade اورIvoryکے Piecesہیں، شاید بڑے بڑے رئیسوں کے پاس نہ ہوں۔ اس کی نگاہوں میں اپنا آئیوری کاTusk پھرگیا۔ شکر ہے افریقہ میں Banلگنے سے پہلے ہم لوگ لے آئے تھے،اب تو کوئی خرید نہیں سکتا ہے۔ انگلینڈ کے پروسلین کے جوڈیکوریشن میرے پاس ہیں، وہ شاید پوری کمیونٹی میں کسی کے پاس نہ ہوں۔۔تب ہی تویہ حال ہوتا ہے لوگوں کا کہ میرے گھر کو دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پچھلے سال سعودی ایمبسیڈر کو جو فیئر ویل ہم نے دیاتھا وہ دنوں تک لوگوں کی گفتگو کاموضوع بنارہا اور ایمبسیڈر تو میرے گھر کی خوبصورت اور قیمتی چیزوں کو دیکھ کر میراگرویدہ ہوکررہ گیا تھا۔ شبّی کی نظر کلاک پر پڑی۔ صبح کے تین بج رہے تھے نیندکاکہیں نام و نشان نہ تھا۔سر سوچوں اور یادوں سے پھٹ رہاتھا۔پپوٹے بھاری ہورہے تھے، سینے میں عجیب سادرد ہونے لگاتھا۔ شاید کھاناہضم نہیں ہوا۔ وہ اٹھ کربیٹھ گئی۔تکلیف تیزی سے بڑھتی جارہی تھی گھبر اکر وہ بستر سے اترآئی ...پیروں میں سلیپر ڈالے ، اورزینے کی طرف بڑھی،بڑی زور کادھماکہ محسوس ہوا جاوید گھبرا کر اٹھا۔ شبّی بستر پر نہ تھی ، تیزی سے وہ کمرے کی طرف بھاگا ، شبّی باتھ روم میں بے ہوش پڑی تھی،اسکادم نکل گیا، نجانے کس طرح ایمبولینس کو بلاکر وہ اسے لے کرہسپتال گیا۔وہ بری طرح کانپ رہا تھا ، شیباکو زبردست ہارٹ اٹیک ہوا تھا وہ Intensive care میں تھی۔ ۔۔ساری کمیونٹی میں خبر پھیل گئی۔ ہرکوئی حیران تھا بظاہر اتنی صحت مند اور جوان لگنے والی مسز ہاشمی کو کیسے ہارٹ اٹیک ہوگیا؟​
شیبا کی حالت خطرے سے باہرہوگئی تھی لیکن وہ بہت ہی خوفزدہ اور سہمی ہوئی تھی۔ ہسپتال میں رہتے ہوئے اسے ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔اس دوران وہ برابر جاوید کو یاد دلاتی رہتی کہ آپ گھرکو دیکھ رہے ہیں نا۔۔۔ میرے پلانٹس کوپانی دیاتھا۔گھر میں اسپرے تو کرنا نہیں بھولتے ہیں آپ،اور ہاںمجھے یاد آیا سوئمنگ پول صاف کرنے کلینر آئے گا۔ اچھی طرح صاف کرائیے گا ، گارڈنر سے بھی کہیے گا کہ گھاس میں ویڈ اگ رہی ہے اس کے لئے ویڈ کلر ڈالے ، اس دن میں نے گھر کی کافی صفائی کرلی تھی لیکن کوری ڈور کے شیڈز اور ڈائننگ روم کا سینڈلیئر رہ گیا تھا وہ میگی سے صاف کرالیجئے گا میرے گھر آنے سے پہلے۔۔۔۔اورہاں جیدی فون اور ماسٹر کارڈ کے بل بھی دینا ہیں۔دیکھیں ڈیٹ نہ نکل جائے ورنہ فائن دیناہوگا۔اور جیدی گاربیج تو سونے سے پہلے باہر رکھ آتے ہیں نا، ورنہ گھر میں بدبو پھیل جائے گی۔ وہ سوچ سوچ کر جاوید کو آہستگی سے ہدایات دے رہی تھی،اور ساجدہ جو اس کی عیادت کے لئے آئی تھی حیرت سے اسے تک رہی تھی۔ اس کا دل سوگوار اور رنجیدہ ہورہا تھا ، اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا رہے تھے لیکن آواز حلق میں گھٹ کررہ گئی تھی۔مسز ہاشمی ایسی بیماری میں تو نماز بھی آسان کر دی جاتی ہے مگر آپ کے بتوں کی پوجا۔! اُف کتنی ظالم ہے؟ ایسی حالت میں بھی آپ کو چین نہیں لینے دیتی ہے۔
دوسرے دن ابھی ساجدہ صبح کی نماز پڑھ کر فارغ بھی نہیں ہوئی تھی اور حسین آفس جانے کی تیاری کررہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی وہ گھبراگئی۔ اتنے سویرے کسی کافون؟حسین کسی سے بڑے افسوس سے کہہ رہے تھے ،انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس نے گھبراکر پوچھا کیاہوا۔۔۔بھئی مسز ہاشمی کا رات انتقال ہو گیا۔۔۔ساجدہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔بس اتنا ساوقت۔ جس کے لئے اتنی ساری جدوجہد اور پھر تولگتاتھا کہ دنیا کی بے ثباتی ، دنیا کی بیوفائی ، اور ہرجائی پن اس کی روح میں بسانے کے لئے شیبا کاگھر اس کے لئے عبرت کدہ بن گیا۔
ان ہی دنوں حسین کا ٹرانسفر ویگاس ہوگیا۔یہاں آکر بھی ساجدہ کومدتوں مسز ہاشمی کی یادستاتی رہی۔ وہ کبھی حیران ہوکر سوچتی کہ ایک مسز ہاشمی ہی کیا،نجانے اور ابھی ایسے ہی کتنے لوگ ہوتے ہوں گے جو بڑے پیار و محبت، جذبے اور محنت مشقت سے اپنی دنیا بنانے اورپھر اس کی پوجا میں مصروف رہتے ہی ہوں گے کہ یکایک یہ کھلونا ان سے چھین لیاجاتا ہوگا۔
اورآج جب تقریباً دس سال کے بعد وہ شاہدہ کے گھر ہاؤس وارمنگ پارٹی میں سانفرانسکو آئی تو دس سال پہلے کی یادوں نے اسے جھنجھوڑ کررکھ دیا،شاہدہ کے محل نما گھر میں پارٹی اپنے عروج پر تھی ہرکوئی شاہدہ اور محسن کے اعلی ذوق، بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں کے گن گارہاتھا،محسن آرکیٹیکٹ تھے اور اپنے گھر کوانہوں نے خود ہی بنوایا تھا جو بقول ان کے ساری عمر کے تجربے کانچوڑ تھا۔شاہدہ پروفیشنل انٹیریئر ڈیکوریٹر تھی۔۔۔انہوں نے سینکڑوں گھر سجادیئے تھے تو یہ تو انکا اپنا ڈریم ہوم تھا،اس میں تو کسی طرح سے کوئی کمی نہیں رہنی چاہیئے تھی۔ لوگ گھر کی ایک ایک چیز کو سراہتے تھے۔۔۔ساجدہ لیونگ روم کے سامنے والی گیلری سے گذری تو اس کی نظریں آئیوری کے خوبصورت Tusksپرجم کر رہ گئیں۔ سامنے ہی افریقہ کی ایک بڑی حسین پینٹنگ لگی ہوئی تھی۔ ۔۔اسکادماغ کہیں دور نکل گیا۔ میں نے یہ دونوں چیزیں کہیں دیکھی ہیں !مگر کہاں یاد نہیں آرہا ، کہاں دیکھی ہوں گی ، شاید ٹی وی میں دیکھی ہوں، یاممکن ہیں خواب میں دیکھی ہوں، وہ مسکرائی۔۔۔ارے بھئی تم یہاں کیاکررہی ہو ؟۔سب لوگ سوئمنگ پول پر چلے گئے ہیں۔ ''شاہدہ نے اسے گیلری میں اکیلا کھڑا دیکھ کر کہا۔۔۔'' شاہدہ !یہ پینٹنگ اور Tusksمجھے لگتا ہے میں نے کہیں دیکھے ہیں''۔ وہ اپنے ذہن کی الجھن برداشت نہ کرسکی، بہت ہی خوبصورت اور Unique ہیں۔ ہاں تم نے ضرور دیکھے ہوں گے۔ بھئی وہ تمہارے پڑوس میں ہی تورہتے تھے ، یاد ہے ہاشمی صاحب جن کی بیوی شیبا تھیں۔۔۔جن کاہارٹ فیل ہوگیاتھا شاہدہ نے اسے بتایا۔۔۔
''ہاں ہاں'' بھئی خوب اچھی طرح جانتی ہوں ، ان کاخیال تومدتوں میرے ذہن پر چھایارہا۔۔۔اور کیسے ہیں ہاشمی صاحب۔۔۔سارا منظر اس کے ذہن میں صاف ہو گیا۔۔۔ ہائے بھئی بیچارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ، تمہیں تو شاید پتا نہ ہو، ان دونوں میاں بیوی میں بڑی انڈر اسٹینڈنگ تھی دونوں ہی بڑے شوقین مزاج اور اعلی ذوق کے مالک تھے۔۔۔بیوی کے انتقال کا ان پر بہت صدمہ تھا جس سے ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی،ان کی بیوی کو اپنے گھر اور اس کی چیزوں سے بڑا پیار تھا شبّی کے مرنے کے بعد ہاشمی صاحب بھی اپنی حد تک گھر کی چیزوں کو اسی طرح رکھنے کی بڑی کوشش کرتے رہے۔۔۔ لیکن بیوی کاصدمہ ایساتھا کہ ان کی صحت گرتی چلی گئی اور پھربچے بھی تمہیں پتا ہے وہ یہاں کے ماحول میں پلے بڑھے تھے، انہوں نے باپ کو کوئی سہارا نہیں دیا۔ بیٹی ڈاکٹر ہے اس نے امریکن سے شادی کر لی، بیٹا علیحدہ رہتا ہے۔۔۔ وہ بے بس بے چارے گھرکو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ دونوں بچوں نے چیزوں کو اور گھر کو بیچ کرباپ کو سینئر سٹیزن ہوم میں بھیج دیا۔ ان کے گھر کی چیزوں کاآکشن ہواتھا بھئی بڑا زبردست آکشن تھا۔بڑی مہنگی مہنگی چیزیں تھیں ، مجھے اور محسن کو یہ پینٹنگ اور Tusksبہت پسند آگئے تھے وہیں سے ہم نے خریدے تھے، مگر ساجدہ تمہاری یاد بڑی زبردست ہے میراتو اب یہ حال ہوگیا ہے کہ کل کی بات بھول جاتی ہوں۔ شاہدہ نے تعریفی نظروں سے ساجدہ کو دیکھا۔۔۔
شدو کہاں ہوبھئی وہ اپنا فرینک سنائر ا لے آؤ۔ پرانے دنوں کی یاد، یارلوگوں کابھی اصرار ہے۔ ہاں بھابی ہم توپرانے ہوتے جارہے ہیں۔ پرانی ہی چیزیں پسندکرتے ہیں۔ محسن نے خاموش خیالوں میں غرق ساجدہ کو کھڑے ہوئے دیکھ کرکہا جو شاہدہ کے جانے کے بعد سکتے کے عالم میں کھڑی تھی۔۔۔جی محسن بھائی ہرچیز پرانی ہورہی ہے ، وہ بڑبڑائی۔ ۔۔۔اسکادل و دماغ تو کہیں اورتھا۔ ۔۔اسے محسوس ہورہاتھا کہ اس حسین گھر کی ساری دیواریں دھڑادھڑ اس پر گر رہی ہیں ایک ایک چیز اڑ اڑ کر ادھر ادھر بکھر رہی ہے ، پرزے فضاؤں میں اڑ رہے ہیں ،اوریہ خوبصورت حسین ڈیکوریشن پیس وحشیانہ قہقہے لگاتے ہوئے ہاتھ بڑھاتے ہنسے مسکراتے خوش گپیوں میں مصروف لوگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آؤ۔۔۔ہمیں پوجو ، دیکھو ہمیں کتنے حسین ہاتھوں نے بنایااور سجایا ہے۔ کتنوں کی مشتاق نظروں نے ہمارا طواف کیاہے۔ کتنے دلوں نے ہماری چاہت کو بسایا ہے اور کتنوں نے ہمیں اپنی بھینٹ دی ہے۔۔ہم بت ہیں صرف مٹی کے ہی ہیں۔ سکّوں کے بت، حسین رنگوں اور سانچوں میں ڈھلے ہوئے سجاوٹ کے بت آؤ،آؤ ہمیں پوجو۔ ۔۔کل نہ جانے ہم کہاں ہوں گے!۔۔۔
 
Top