• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقسام روزہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
درج ذیل مضمون تیار کرنے کے لیے بعض کتب اور ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے جن میں فتاوی لجنہ دائمہ، احکام رمضان ڈاکٹر عبدالحئی المدنی، احکام الصیام خالد الحازمی، الدروس و العبر من شہر الصیام الرحیلی وغیرہم
اور محدث ڈاٹ کام، اسلام ہاوس ڈاٹ کام
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة، 2 : 183)

اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.(بخاری، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من الايمان)

جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ (نسائی، السنن، کتاب الصيام)

روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام)

آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مندرجہ بالا نصوص سے واضح ہوتاہے کہ اعمال صالحہ کااجر حسن نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہےاور ان اعمال صالحہ میں روزہ واحد عبادت ہے جس کا اجر اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس فضلیت کے درج ذیل اسباب ممکن ہیں:

یہ عبادت لوگوں سے پوشیدہ ہوتی ہے اسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس اعتبار سے روزہ خالص اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔

اس عبادت میں مشقت اورصبر و برداشت کا عمل دکل دیگر عبادات سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے جیسا کہ بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے

اس عبادت میں میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے

کھانے پینے سے استغناء اﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اس عبادت کا حامل اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الٰہی بن جاتا ہے

اس عبادت کا اجر کا علم اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے اجرکو نصوص میں بیان کر دیا گیا ہے

یہ ایسی عبادت ہے جسے اﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔

روزہ کی اضافت اﷲ کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت اﷲ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر اﷲ کے ہیں

روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ اﷲ کو محبوب ہے۔

صبر کے اجرکی کوئی حد نہیں اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں۔ (ترجمہ و تلخیص فتاوی اللجنہ الدائمہ)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مذکورہ بالا فضائل ہر مسلمان سے یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے روزے تو فرضیت کی بنیاد پر ترک نہیں کیے جا سکتے بلکہ مذکورہ بالا فضیلت اور اجر کو حاسل کرنے کے لیے نفلی روزے بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور اسی طرح یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ سال کے مخصوص ایام کے روزے جو مسنون نہیں ہیں ان سے بچنا بھی عین عبادت ہی ہے جس کی تفصیل درج ذیل سطور میں بیان کی جا رہی ہے کہ روزے کتنی اقسام کے ہوتے ہیں اور ہر روزے کا حکم کیا ہے

بنیادی طور پر روزے تین اقسام کے ممکن ہیں : فرضی روزے، نفلی روزے، ممنوع روزے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
1) فرضی روزے

۱۔ رمضان : یہ روزے ہر مسلمان بالغ عاقل آزاد مرد اور عورت پر فرض ہیں جس کی فرضیت کی دلیل قرآن مجیدکی یہ آیت ہے:

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ط[البقرۃ:۱۸۵)

ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے، اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے۔‘‘

۲۔ رمضان کی قضا:اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھے جا سکیں تو جتنے بھی روزے رہ گئے ہوں ان کی گنتی بعد میں پوری کی جائے اور یہ واضح رہے کہ اس گنتی کو پورا کرنے کے لیے شعبان کا انتظار کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں بلکہ پہلی فرصت میں یہ روزے رکھے جائیں جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:

وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ اُخَرَ ط} [البقرۃ:۱۸۵]

’’ جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے۔‘‘

۳۔ نذر :اگر کسی نے روزے رکھنے کی نذر مانی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی نذر کو پورا کرے جیسا کہ نذر کو پورا کرنے کے حوالے سے اللہ تعالی کا حکم ہے : وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ [الحج:۲۹) اور اپنی نذریں پوری کریں

۴۔ نذر کا کفارہ: اگر کسی نے اپنی نذر پوری نہیں کی تو اس کا کفارہ بھی روزے رکھنا ہی ہے اور یہ کفارہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے:عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ: کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے (مسلم ؍ مشکوٰۃ ؍ کتاب الأیمان والنذور ؍ باب فی النذور)

اور یہ بھی واضح ہو کہ اگر نذر پورا کرنے میں اللہ تعالی کی نافرمانی کا پہلو پایا جاتا ہے تو ایسی نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا کفارہ دیا جائے گا جو کہ اوپر حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور اللہ کی نافرمانی میں کوئی نذر پوری نہیں کی جائے گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم قَالَ مَنْ نَذَرَ اَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَّعْصِیَہٗ فَلاَ یَعْصِہٖ۔( صحیح بخاری ؍ کتاب الأیمان والنذور بابُ النَّذْرِ فِی الطَّاعَۃِ)

جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی وہ اطاعت کرے اور جس نے نافرمانی کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے

۵۔ قسم کا کفارہ:انسان كو تين چيزوں ميں اختيار حاصل ہے - دس مسكينوں كو اوسط درجے كا كھانا دينا جو وہ اپنے اہل و عيال كو كھلاتا ہے، دس مسكينوں كو لباس دينا، ايك مومن غلام آزاد كرنا۔ جو شخص ان تين اشياء ميں سے كوئى نہ پائے تو وہ تين يوم كے مسلسل روزے ركھے اور یہ بھی واضح رہے کہ جمہور علماء كے ہاں نقدى كى صورت ميں كفارہ ادا نہيں ہوتا جیسا کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى لکھتے ہيں: كفارہ ميں غلہ اور لباس كى قيمت ادا كرنے سے كفارہ ادا نہيں ہو گا كيونكہ اللہ تعالى نے غلہ ذكر كيا ہے، لہذا اس كے بغير كفارہ ادا نہيں ہو گا، اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى نے ان تين اشياء كے مابين اختيار ديا ہے اور اگر قيمت ادا كرنى جائز ہوتى تو پھر ان تين اشياء ميں اختيار منحصر نہ ہوتا "(المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 11 / 256)

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: كفارہ غلہ ہونا چاہيے نہ كہ نقدى، كيونكہ قرآن مجيد اور سنت مطہرہ ميں تو يہى آيا ہے، اس ميں علاقے كى غذانصف صاع دينا واجب ہے، وہ كھجور ہو يا گندم، يا كوئى اور چيز ، اور اس كى مقدار تقريبا ڈيڑھ كلو بنتى ہے، اور اگر آپ انہيں دوپہر يا رات كا كھانا كھلا ديں يا انہيں وہ لباس دے ديں جو نماز ادا كرنے كے ليے كافى ہو تو كفائت كر جائے گا، اور وہ لباس شلوار قميص، يا تہہ بند اور اوپر اوڑھنے والى چادر ہے (فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 48)

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اگرانسان نہ تو غلام پائے،اور نہ ہى لباس اور غلہ تو وہ تين يوم كے روزے ركھے، اور يہ روزے مسلسل ہونگےان ميں كوئى دن روزہ نہيں چھوڑے گا (فتاوى منار الاسلام ( 3 / 667)

اور اس حکم کی بنیاد یہ آیت ہے: لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(المائدۃ:۸۹)

اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پرتم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ، جبکہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے، تاکہ تم شکر کرو۔

۶۔ احرام میں سر منڈانے کا کفارہ: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ (البقرۃ:۱۹۶)

تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سرمنڈالے) تو اس پر فدیہ ہے۔ خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے، لیکن مشرکین نے ہمیں عمرہ سے روک دیا۔ میرے لمبے بال تھے اور جوئیں میرے منہ پر گر رہی تھیں۔ آپؐ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: کیا سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں1 تب یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر مجھے فرمایا: ’’ سر منڈاؤ تین روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا قربانی کرو (بخاری ؍ کتاب المغازی ؍ باب غزوۃ حدیبیۃ ، مسلم ؍ کتاب الحج ؍ باب جواز حلق الرأس للمحرم اذا کان بہٖ اذی)

۷۔ حالت احرام میں شکار کرنے کاکفارہ: اللہ تعالی کا فرمان ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًا م بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا (المائدۃ:۹۵)

اے ایمان والو1 تم حالت احرام میں شکار نہ مارو اور جس نے دیدہ دانستہ شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار کے ہم پلہ جانور ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں اور یہ جانور کعبہ میں لے جاکر قربانی کیا جائے یا چند مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اس کے برابر روزے رکھنا اس کا کفارہ ہے۔

۸۔ حج قران یا تمتع کرنے والااگر قربانی نہ کر پائے : اس کیفیت میں بھی دس روزے رکھنے کا حکم ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھُدْیِ ج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ط تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (البقرۃ:۱۹۶)

جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے۔ جسے طاقت ہی نہ ہو وہ تین روزے تو حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی میں یہ پورے دس ہوگئے

۹۔ حالت روزہ میں بیوی کے ساتھ مقاربت کرنا : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے آکر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم1 میں برباد ہوگیا ہوں۔ آپ نے پوچھا: ’’کیوں کیا ہوا؟ ‘‘ اس نے عرض کیاکہ میں نے بحالت روزہ اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تجھے غلام میسر ہے جسے تو آزادکردے؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ نہیں۔‘‘آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتا ہے؟ ‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ نہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ ‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ نہیں۔‘‘ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ٹھہرا رہا، ہم بھی سب اس طرح بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ سائل کہا ں ہے؟ ‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ میں حاضر ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ یہ لو اور اسے خیرات کردو۔‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم1 خیرات تو اس پر کروں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ اللہ کی قسم1 مدینہ کے دو طرفہ پتھریلے کناروں میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کے دانت مبارک کھل گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’ اپنے گھر والوں کو ہی کھلادو(صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب اذا جامع فی رمضان و لم یکن لہ شیئٔ فتُصُدقُ علیہ فلیُکفِّر)

۱۰۔ ظہار کا کفارہ: ظہار کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی بیوی کو یہ کہہ دے کہ تم میرے لیے میری ماں جیسی ہو اس حکم کی بنیاد یہ آیت ہے کہ: فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا(المجادلۃ:۴])

جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔

۱۱۔ قتل خطاء کا کفارہ: اگر غلطی سے قتل ہو جائے تو اس کا کفارہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:وَما كانَ لِمُؤمِنٍ أَن يَقتُلَ مُؤمِنًا إِلّا خَطًَٔا وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ إِلّا أَن يَصَّدَّقوا فَإِن كانَ مِن قَومٍ عَدُوٍّ لَكُم وَهُوَ مُؤمِنٌ فَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ وَتَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ مُؤمِنَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ شَهرَ‌ينِ مُتَتابِعَينِ تَوبَةً مِنَ اللَّهِ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا(سورة النساء؍92)

اور جو شخص غلطی سے کسی دوسرے مومن کو مار ڈالے تو اس کی سزا یہ ہے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ‘ ہاں اگر وہ معاف کر دیں تو ان کو اختیار ہے اور جس کو مسلمان غلام میسر نہ ہو توہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ کفارہ اللہ کی طرف سے قبولیت توبہ کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔

12۔ اگر میت کے ذمے فرض روزے ہوں

اگر کسی میت پر فرض روزے ہوں تو اس کے ولی کے ذمے ہے کہ وہ یہ روزے رکھے جیسا کہ حدیث میں ہے : عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ: مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب من مات وعلیہ صوم)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوسری قسم : نفلی روزے

۱۔ محرم : رمضان کے بعدسب سے افضل روزے محرم کے ہیں جیسا کہ درج ذیل صحیح احادیث سے ثابت ہے: ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:أفضل الصيام بعد رمضان: شهر الله المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة:صلاة الليل(مسلم: کتاب الصیام: باب فضل صوم المحرم)

رمضان المبارک کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے سب روزوں سے افضل ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز آدھی رات (یعنی تہجد) کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے

ابو قتادہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وصيام يوم عاشوراء أحتسب علی الله أن يکفر السنة التي قبله» '' مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ یوم عاشورا کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا(مسلم : کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام)

واضح رہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل محرم کے روزے فرض تھے جیسا کہ بخاری کتاب الصوم میں حدیث ست معلوم ہوتا ہےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمان ہے کہ : أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَھْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ وَ اَفْضَلُ الصَّلوٰۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ صَلوٰۃُ اللَّیْلِ۔

رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں، جوکہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور فرضی نماز کے بعد سب سے افضل نمازِ تہجد کی نماز ہے

۲۔ شعبان : عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ لاَ یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُولَ لاَ یَصُومُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ اِلاَّ رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہٗ اَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِیْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ؍ کتاب النکاح ؍ باب لا تأذن المرأۃ فی بیت زوجہا الاّ بإذنہ)

عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھنا چھوڑ یں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ صلی الله علیہ وسلمروزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کا روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے ، میں نے کسی مہینے میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔

۳۔ پیراورجمعرات کے دن : پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھنا سنت ہے، چنانچہ امام ابو داود نے اسامہ بن زید رضی الله عنهما سے روایت کیا ہے کہ: آپ صلى الله عليہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، تو آپ سے ان روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:بے شک لوگوں کے اعمال پیر کے دن اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں۔اور ایک دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ:مجھے یہ پسند ہے کہ روزے کی حالت میں میرے اعمال پیش کئے جائیں۔اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ پیر اور جمعرات کا روزہ جائز، بلکہ سنت ہے،

۴۔ یوم عرفہ : عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَ اَلْأَنْصَارِیِّ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم سُئِلَ عَنْ صَوْمِہٖ قَالَ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فَقَالَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَّبِالْاِسْلاَمِ دِیْنًا وَّبِمُحُمَّدٍ رَسُوْلاً وَبِبَیْعَتِنَا بَیْعَۃً قَالَ فَسُئِلَ عَنْ صِیَامِ الدَّھْرِ فَقَالَ لاَ صَامَ وَلاَ أَفْطَرَ أَوْ مَا صَامَ وَمَآ أَفْطَرَ قَالَ فُسُئِلَ عَنْ صِیَامِ یَوْمَیْنِ وَإِفْطَارِ یَوْمٍ قَالَ وَمَنْ یُّطِیْقُ ذٰلِکَ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمٍ وَإِفْطَارِ یَوْمَیْنِ قَالَ لَیْتَ إِنَّ اللّٰہَ قَوَّانَا لِذٰلِکَ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمٍ وَإِفْطَارِ یَوْمٍ قَالَ ذَاکَ صَوْمُ أَخِیْ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ الإِثْنَیْنِ قَالَ ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدتُّ فِیْہِ وَیَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَیَّ فِیْہِ قَالَ فَقَالَ صَوْمُ ثَلٰثَۃٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَمَضَانُ إِلٰی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّھْرِ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ قَالَ یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ وَالْبَاقِیَۃَ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَآئَ فَقَالَ یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ))( صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب صیام یوم عاشوراء)

’’ ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپؐ سے کسی نے آپ کے روزوں کا پوچھا اور آپ غصہ ہوئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہم راضی ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی الله علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور راضی ہوئے ہم اپنی بیعت سے کہ وہی بیعت ہے اور سوال ہوا صیام دھر کا تو آپ نے فرمایا: نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا ، پھر سوال ہوا دو روز روزے اور ایک روز افطار سے۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طاقت کسے ہے؟ پھر سوال ہوا: ایک دن روزہ اور دو دن افطار سے۔ تو آپ نے فرمایا: کاش! اللہ تعالیٰ ہم کو ایسی ہمت دے ۔ اور سوال ہوا ایک دن افطار اور ایک دن روزہ سے۔ تو فرمایا: یہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اور سوال ہوا سوموار کے روزے کا تو فرمایا: میں اسی دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن نبی ہوا ہوں۔ یا فرمایا: اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے ۔ اور فرمایا: رمضان کے روزے اور ہر ماہ میں تین روزے یہ صوم الدھر ہے اور عرفہ کے روزے کا سوال ہوا تو فرمایا کہ: ایک سال گزرا ہوا اور ایک آگے آنے والے کا کفارہ ہے اور عاشورے کے روزے کا پوچھا تو فرمایا: ایک سال گزرے ہوئے کا کفارہ ہے۔‘‘

۵۔ عشرہ ذوالحجہ: ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:‘‘ان دنوں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔’’صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!دوسرے دنوں میں جہاد بھی ان دنوں کے نیک عمل سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا ،آپ نے فرمایا:‘‘ان دنوں نیک عمل دوسرے دنوں میں جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر ہے،ہاں ،اس شخص کی فضیلت زیادہ ہے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کےلئے نکلے اور اپنی جان اور مال سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردے اور کچھ بھی لے کر واپس نہ آئے۔’’ (مسند احمد)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان دنوں ہر نیکی کا کام کیا جاسکتا ہے جن میں روزے رکھنا بھی شامل ہے،اگرچہ ان دنوں روزے رکھنا عملی طورپر رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے ،تاہم مذکورہ حدیث کے پیش نظر نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں ۔صحیح بخاری میں بیان ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھا ،اللہ تعالیٰ ستر سال کی مسافت تک اس کے چہرے کو آگ سے دور کردیں گے۔(صحیح بخاری،الجہاد)

اس حدیث کے عموم سے ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے البتہ نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھنے کی بہت فضیلت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے ایک سال گزشتہ اور ایک سال آیندہ کے گناہ معاف ہوجاتےہیں۔(صحیح مسلم،الصوم)

البتہ حج کرنے والے حضرات یوم عرفہ،یعنی نویں ذوالحجہ کا روزہ نہ رکھیں کیونکہ رسول اللہﷺ نے دوران حج اس دن کا روزہ نہیں رکھاتھا۔ (صحیح بخاری،الصیام)

۶۔ شوال کے مہینے کے چھ روزے: عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ رضی اللہ عنہ أَنَّہٗ حَدَّثَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہٗ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔( صحیح مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب استحباب صوم ستۃ ایّام من شوال اتباعاً لرمضان)

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو اس کو ہمیشہ کے روزوں کا ثواب ہوگا

۷۔ داؤد علیہ السلام کا روزہ: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنہ اَخْبَرَہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ لَہٗ (أَحَبُّ الصَّلاَۃِ إِلَی اللّٰہِ صَلاَۃُ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، وَأَحَبُّ الصِّیَامِ اِلَی اللّٰہِ صِیَامُ دَاوٗدَ ، وَکَانَ یَنَامُ نِصْفَ اللَّیْلِ وَیَقُوْمُ ثُلُثَہٗ وَیَنَامُ سُدُسُہٗ ، وَیَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا(صحیح بخاری ؍ کتاب التہجد ؍ باب من نام عند السحر)

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد علیہ السلام ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سوجاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

۸۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنا لیکن اکیلا نہ ہو: عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ رضی اللہ عنہما أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم دَخَلَ عَلَیْھَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَھِیَ صَائِمَۃٌ فَقَالَ (اَصُمْتِ أَمْسِ؟) قَالَتْ: لاَ۔ قَالَ: (تُرِیْدِیْنَ أَنْ تَصُوْمِیْنَ غَدًا) قَالَتْ: لاَ۔ قَالَ: (فَأَفْطِرِیْ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب صوم یوم الجمعۃ )

جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ان کے ہاں جمعہ کے دن تشریف لے گئے، (اتفاق سے) وہ روزہ سے تھیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس پر دریافت فرمایا: ’’کیا کل کے دن بھی تو نے روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’کیا آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟‘‘ جواب دیا کہ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’پھر روزہ توڑ دو۔‘‘

اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ عَن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَلَّمَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یُفْطِرُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ۔ (سنن ابن ماجہ ؍ کتاب الصوم ؍ باب فی صیام یوم الجمعۃ)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے کہتے ہیں کہ کم ہی دیکھا میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کہ آپؐ جمعہ کو روز ہ چھوڑتے

۹۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے روزے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَاصَامَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم شَھْرًا کَامِلاً قَطُّ غَیْرَ رَمَضَانَ وَیَصُومُ حَتّٰی یَقُوْلَ الْقَائِلُ لاَ وَاللّٰہِ لاَ یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتّٰی یَقُولَ الْقَائِلُ لاَ وَاللّٰہِ لاَ یَصُوْمُ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب ما یذکر من صوم النبی وإفطارہ)

ابن عباس رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رمضان کے سوا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کبھی پورے مہینے کا روزہ نہیں رکھا۔ آپؐ نفل روزہ رکھنے لگے تو دیکھنے والا کہہ اٹھتا کہ بخدا اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور اسی طرح جب نفل روزہ چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہتا کہ واللہ اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے۔

10۔ ہرماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا روزہ: عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: (أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلی الله علیہ وسلم بِثَلاَثٍ: صِیَامِ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ ، وَرَکْعَتَی الضُّحٰی ، وَأُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب صیام ایام البیض ثلاث عشرۃ واربع عشرۃ وخمس عشرۃ)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے فرماتے ہیں کہ (مجھے وصیت کی میرے خلیل صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں کی: ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کی۔ اور چاشت کی دو رکعتوں کی اور میں سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ممنوع روزے

روزہ چونکہ عبادت ہے اور عبادات میں یہ قاعدہ ہے کہ صرف وہی قول و فعل و عمل عبادت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا جس کا ثبوت کتاب وسنت سے ملے گا وگرنہ وہ حرام اور الٹا وبال بن جائے گا اس طرح بہت سے ایسے ایام کے روزے جو ہمارے معاشرے میں معروف ہیں ان میں سے بعض کاذکر درج ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے

۱۔ عید الفطر ، عید الاضحی کے دن: عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ نَھَی النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الفِطْرِ وَالنَّحْرِ وَعَنِ الصَّمَّائِ وَأَنْ یَحْتَبِیَ الرَّجُلُ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ(صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب صوم یوم الفطر )

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے عید الفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے

۲۔ ایام تشریق : عَنْ نُبَیْشَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اَیَّامُ التَّشْرِیْقِ أَیَّامُ اَکْلٍ وَّ شُرْبٍ (صحیح مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب تحریم صوم ایام التشریق)

نبیشہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایام تشریق کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔

۳۔ ہمیشہ روزہ رکھنا: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنہ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو اِنَّکَ لَتَصُوْمُ الدَّھْرَ تَقُوْمُ اللَّیْلَ وَاِنَّکَ اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ ھَجَمَتْ لَہُ الْعَیْنُ وَنَھَکَتْ لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الْاَبَدَ صَوْمُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِّنَ الشَّھْرِ صَوْمُ الشَّھْرِ کُلِّہِ قُلْتُ فَاِنِّیْ اُطِیْقُ اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَصُمْ صَوْمَ دَاوٗدَ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا وَّلاَ یَفِرُّ اِذَا لاَقٰی (صحیح مسلم ؍ کتاب الصیام ؍ باب النہی عن صوم الدھر)

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ1تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات جاگتے ہو اور تم جب ایسا کرو گے تو آنکھیں بھر بھرا آئیں گی اور ضعیف ہوجائیں گی اور جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے تو روزہ ہی نہیں رکھا اور ہر ماہ کے تین دن روزے رکھنا گویا پورے ماہ کاروزہ رکھنا ہے، تو میں نے عرض کیا: ’’ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا: اچھا صوم داؤد رکھا کرو، اور وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے ، ایک دن افطار کرتے تھے اور پھر بھی جب دشمن کے آگے ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے۔

۴۔ صرف جمعہ کے دن:عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ رضی الله عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیہ وسلم دَخَلَ عَلَیْھَا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَھِیَ صَائِمَۃٌ فَقَالَ أَصُمْتِ اَمسِ قَالَتْ لاَ قَالَ أَتُرِیْدِینَ اَنْ تَصُومِیْ غَدًا قَالَتْ: لاَ۔ قَالَ فَأَفطِرِیْ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب صوم یوم الجمعۃ)

جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جمعہ کے دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو وہ روزے سے تھیں۔ آپ نے پوچھا کیا تو نے کل بھی روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا تو کل آئندہ روزہ رکھنا چاہتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تو روزہ افطار کردے۔

نفلی روزوں کے تحت یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اکیلے جمعہ کا روزہ رکھنامنع ہے لیکن اگراس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد میں ملا لیا جائے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۔ شک کے دن : وَقَالَ صِلَۃُ عَنْ عَمَّارٍ مَنْ صَامَ یَومَ الشَّکِّ فَقَدْ عَصٰی اَبَا الْقَاسِمِ صلی الله علیہ وسلم (صحیح بخاری ؍ کتاب الصیام ؍ باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم اذا رأیتم الہلال فصوموا واذا رأیتموہ فافطروا)

اور صلہ نے عمار رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جس نے شک کے دن روزہ رکھا تو اس نے ابو القاسم صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔

۶۔ وصال : یعنی دو یا زیادہ دن کے افطار کیے بغیر تسلسل سے روزے رکھنا اس کی ممانعت اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے : عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ نَھَی النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم عَنِ الْوِصَالِ فِی الصَّوْمِ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِنَّکَ تُوَاصِلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَاَیُّکُمْ مِثْلِیْ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ فَلَمَا اَبَوْا أَنْ یَنْتَھُوْ عَنِ الْوِصَالِ وَاصَلَ بِھِمْ یَوْمًا ثُمَّ یَوْمًا ثُمَّ رَأَوُ الْھِلاَلَ فَقَالَ لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُکُمْ کَالتَّنْکِیْلِ لَھُمْ حِیْنَ أَبَوْا أَنْ یَنْتَھُوْا وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَنْہُ قَالَ لَھُمْ فَاَکْلَفُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ (صحیح بخاری؍کتاب الصوم؍باب التنکیل لمن أکثر الوصال)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے روزوں میں وصال کرنے سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم 1 آپ تو وصال کرتے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: تم میں سے کون شخص میری طرح ہے ؟ میں رات کو سوتا ہوں تو میرا اللہ مجھے کھلادیتا ہے،اور پلا دیتا ہے لیکن جب وہ لوگ وصال سے باز نہ آئے تو آپ نے ان کے ساتھ ایک دن کچھ نہ کھایا ، دوسرے دن بھی کچھ نہ کھایا پھر عید کا چاند نکل آیا ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اگر چاند ظاہر نہ ہوتا تو میں تم سے اور زیادہ روزہ رکھواتا۔ گویا آپ نے انہیں سزا دینے کے لیے فرمایا۔جب وہ وصال کے روزوں سے باز نہ آئے۔‘‘ ایک روایت میں یہ ہے ، پھر آپ نے فرمایا: ’’ کام اتنا ہی ذمہ لو جتنی تم میں طاقت ہو۔

۷۔ استقبال رمضان کے لیے: عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم قَالَ لاَ یَتَقَدَّمَنَّ اَحَدُکُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ اَوْیَوْمَیْنِ اِلاَّ اَنْ یَکُوْنَ رَجُلٌ کَانَ یَصُوْمُ صَوْمًا فَلْیَصُمْ ذٰلِکَ الْیَوْمَ (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍ باب لا یتقدمن رمضان بصوم یوم ولا یومین)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے معمول کے روزے رکھتا ہو تو رکھ لے۔

۸۔ غیر اللہ کی نذر : عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَتْ قَالَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم مَنْ نَذَرَ اَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَلاَ یَعْصِہ (صحیح بخاری ؍ کتاب الأیمان والنذور ؍ باب النذر فیما لا یملک وفی معصیۃ)

جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے۔

۹۔ معراج کے دن : یہ روزہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح شب برأت کا روزہ بھی ثابت نہیں ہے

۱۰۔ نصف شعبان :عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُوْمُوْا۔( جامع الترمذی ؍ ابواب الصوم ؍ باب ماجاء فی کراہیۃ الصوم فی النصف الباقی من شعبان لحال رمضان)

جب شعبان کا نصف باقی رہ جائے تو روزے نہ رکھو۔

۱۱۔ ماہواری اور نفاس کے دنوں میں :عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم (أَلَیْسَ اِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟ فَذٰلِکَ نُقْصَانُ دِیْنِھَا (صحیح بخاری ؍ کتاب الصوم ؍باب الحائض تترک الصوم والصلاۃ)

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

۱۲۔ خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ:عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ: أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَالَ:لاَ یَحِلُّ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تَصُوْمَ وَزَوْجُھَا شَاھِدٌ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ ، وَلاَ تَأْذَنُ فِیْ بَیْتِہٖ اِلاَّ بِإِذْنِہٖ۔ وَمَا أَنْفَقَتْ مِن نَّفَقَۃٍ عَنْ غَیْرِ أَمْرِہٖ فَإِنَّہٗ یُؤَدِّی إِلَیْہِ شَطْرُہٗ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے بے شک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ (نفلی) روزہ رکھے اور اس کا خاوند موجود ہو، مگر اس کے حکم سے۔ اور اس کے گھر میں کسی کو داخل نہ ہونے دے، مگر اس کے حکم سے۔ اور جو وہ مال صدقہ کرے اپنے خاوند کے حکم کے بغیر تو بے شک اس کو اس کا نصف ثواب ملے گا۔

یہ ممنوع روزوں کی وہ صورتیں ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں معروف ہوتی گئی جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے لہذا اس ضمن میں یہ قاعدہ ذہن نشین کر لیا جائے کہ روزہ عبادت ہے اور تمام عبادات توقیفی ہیں یعنی اس پر کتاب و سنت کی نص کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا شمار بدعات اور خرافات میں کیا جائے گا
 
Top