• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقلیتوں سے کوئی خطرہ نہیں، چین

شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
چینی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں موجود نسلی اقلیتیں خوش اطور اور اچھی میزبان ہے۔ ناچ گانے کے شوقین یہ لوگ اپنی دھن میں مگن ہیں ان سے چین کی داخلی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں۔
سنکیانگ کا درالحکومت ارمچی ہے اور کاشغر یہاں کا ایک بڑا اور مشہور شہر ہے۔ چین کے توانائی سے مالا مال اس صوبے کی آبادی کی اکثریت ترکی زبان بولنے والے باشندوں پر مشتمل ہے جو ایغور کہلاتے ہیں۔ اس صوبے کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے یہاں بسنے والے لوگوں پر عائد ثقافتی، مذہبی اور لسانی پابندیوں کی وجہ سے اکثر ماحول میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ اس صورت حال کے باوجود بیجنگ حکومت کی جانب سے اس تاثر کو رد کردیا جاتا ہے کہ ملک کا یہ حصہ شورش کا گڑھ ہے اور کسی بھی وقت چین کی داخلی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ پرانے سلک روٹ پر واقع تاریخی شہر کاشغر کے ایغور اکثریتی آبادی والے علاقے میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے فسادات میں 21 افراد مارے گئے تھے۔ یہ جولائی 2009 کے بعد ہونےوالا سب سے بڑا پر تشدد واقعہ تھا۔ اس وقت صوبائی درالحکومت ارمچی میں پیدا ہونے والی بدامنی کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے سنکیانگ صوبے میں لوگوں کو وسیع آزادی فراہم کی ہے، کچھ چینی حکام نے اوغر زبان بھی سیکھی ہے تاکہ وہ مقامی لوگوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ چین ایک ایسا ملک ہے، جس کا سرکاری طور پر کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے اہلکاروں کو خطے کے لوگوں کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیم بھی دی گئی ہے۔
بیجنگ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سنکیانگ کے نائب گورنر کا کہنا تھا،’’میں نے ملک کے شمالی حصے میں دس برس کام کیا ہے اور اس دوران مجھے کبھی اسلحہ ساتھ لے جانے یا پولیس کے حفاظتی دستے کی ضرورت نہیں پڑی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عام چینیوں کو بھی کبھی اس قسم کے اقدامات کی ضرورت نہیں پڑی۔
چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے اس علاقے میں بدامنی ہے۔ چین ان مفروضات کو بھی مسترد کرتا رہا کہ سنکیانگ کے اوغر قبائل کے وسطی ایشیائی اور پاکستانی اسلامی عسکریت پسندوں سے گہرے روابط ہیں اور وہاں مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے گروپوں کا یہ کہنا ہے کہ سنکیانگ میں درپیش خطرات پر کنٹرول کے چینی حکومت کے دعوے حقائق کے عین منافی ہیں۔ پاکستان،بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں کی سرحدوں سے متصل اس علاقے میں چین کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔

لنک
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
چینی حکومت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں موجود نسلی اقلیتیں خوش اطور اور اچھی میزبان ہے۔ ناچ گانے کے شوقین یہ لوگ اپنی دھن میں مگن ہیں ان سے چین کی داخلی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں۔
سنکیانگ کا درالحکومت ارمچی ہے اور کاشغر یہاں کا ایک بڑا اور مشہور شہر ہے۔ چین کے توانائی سے مالا مال اس صوبے کی آبادی کی اکثریت ترکی زبان بولنے والے باشندوں پر مشتمل ہے جو ایغور کہلاتے ہیں۔ اس صوبے کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے یہاں بسنے والے لوگوں پر عائد ثقافتی، مذہبی اور لسانی پابندیوں کی وجہ سے اکثر ماحول میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ اس صورت حال کے باوجود بیجنگ حکومت کی جانب سے اس تاثر کو رد کردیا جاتا ہے کہ ملک کا یہ حصہ شورش کا گڑھ ہے اور کسی بھی وقت چین کی داخلی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ پرانے سلک روٹ پر واقع تاریخی شہر کاشغر کے ایغور اکثریتی آبادی والے علاقے میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے فسادات میں 21 افراد مارے گئے تھے۔ یہ جولائی 2009 کے بعد ہونےوالا سب سے بڑا پر تشدد واقعہ تھا۔ اس وقت صوبائی درالحکومت ارمچی میں پیدا ہونے والی بدامنی کے نتیجے میں 200 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے سنکیانگ صوبے میں لوگوں کو وسیع آزادی فراہم کی ہے، کچھ چینی حکام نے اوغر زبان بھی سیکھی ہے تاکہ وہ مقامی لوگوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ چین ایک ایسا ملک ہے، جس کا سرکاری طور پر کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے اہلکاروں کو خطے کے لوگوں کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیم بھی دی گئی ہے۔
بیجنگ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے سنکیانگ کے نائب گورنر کا کہنا تھا،’’میں نے ملک کے شمالی حصے میں دس برس کام کیا ہے اور اس دوران مجھے کبھی اسلحہ ساتھ لے جانے یا پولیس کے حفاظتی دستے کی ضرورت نہیں پڑی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عام چینیوں کو بھی کبھی اس قسم کے اقدامات کی ضرورت نہیں پڑی۔
چین نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے اس علاقے میں بدامنی ہے۔ چین ان مفروضات کو بھی مسترد کرتا رہا کہ سنکیانگ کے اوغر قبائل کے وسطی ایشیائی اور پاکستانی اسلامی عسکریت پسندوں سے گہرے روابط ہیں اور وہاں مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے گروپوں کا یہ کہنا ہے کہ سنکیانگ میں درپیش خطرات پر کنٹرول کے چینی حکومت کے دعوے حقائق کے عین منافی ہیں۔ پاکستان،بھارت اور وسط ایشیائی ریاستوں کی سرحدوں سے متصل اس علاقے میں چین کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔

لنک
فراڈ.....ایغوری مسلمان ایک آزاد مملکت کا حق محفوظ رکھتے ہیں...بالکل ویسے ہی جیسے متحدہ ہندوستان کے مسلمان رکھتے تھے...بالکل ویسے ہی جیسے فلسطین رکھتا ہے...

Sent from my QMobile ENERGY X2 using Tapatalk
 
Top