- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
الإخاء
(اخوت/ بھائی چارہ)
لغوی بحث:
لغۃ میں ”أَخٌ“سگے بھائی کو کہتے ہیں جو آپ کے ساتھ والد یا والدہ میں شریک ہو یعنی آپ جس والد سے پیدا ہیں اس کا والد بھی وہی ہو یا آپ جس والدہ سے پیدا ہیں اس کی والدہ بھی وہی ہو تو یہ شخص آپ کا”أَخٌ“(بھائی)ہے۔ اور کبھی دوست کو بھی ”أَخٌ“ (بھائی)کہا جاتا ہے۔
”أَخٌ“کی جمع”إِخْوَةٌ“اور”إِخْوَانٌ“دونوں طرح آتی ہے۔
ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: تمام بصرہ والے کہتے ہیں کہ: نسب کے بھائی ہوں تو ان کی جمع کے لئے”إِخْوَةٌ“آتا ہے اور دوستی کے بھائی ہوں تو ان کی جمع کے لئے” إِخْوَانٌ“ آتا ہے۔ جب دوستوں کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی ہے تو کہاجاتا ہے: ”رُجُلٌ مِنْ إِخْوَانِی وَأَصْدِقَائِي“اور اگر رشتے کے بھائیوں کے متعلق بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے:”إِخْوَتِی“ (ابو حاتم رحمہ اللہ )کہتے ہیں کہ بصرہ والوں کا یہ فرق غلط ہے۔ دوست ہوں یا رشتے کے بھائی ہوں دونوں کی جمع ”إِخْوَانٌ“ اور”إِخْوَةٌ“ مستعمل ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ الحجرات: ١٠ ”بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں “۔
اس آیت میں ”أَخٌ“کی جمع”إِخْوَةٌ “ہے جبکہ یہاں نسب کے بھائی مراد نہیں۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے : أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ النور: ٦١ ” یا تمہارے بھائیوں کے گھر سے ۔۔۔“یہاں پر”أَخٌ“کی جمع”إِخْوَانٌ“ ہے جبکہ اس سے نسب کے بھائی مراد ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ الأحزاب: ٥ ” تمہارے بھائی اور دوست ہیں“۔ (یہاں”إِخْوَان“غیر نسبی بھائی دینی بھائی کی جمع کے لئے استعمال ہوا ہے)۔
اور”أَخٌ“کی مؤنث”أُخْتٌ“ہے جو مذکر کی بناوٹ سے جدا ہے اور اس کے آخر میں تاء واؤ کی جگہ ہے اس لئے کہ اصل میں ”أَخْوٌ“تھا۔ یہ تاء تانیث کی نہیں۔ اور”أُخْتٌ“کی جمع ”أَخَوَاتٌ“ہے۔
بعض نحو کے علماء کہتے ہیں کہ: ”أَخٌ“کو”أَخٌ“اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا ارادہ وہی ہوتا ہے جو اس کے بھائی(”أَخٌ“) کا ہوتا ہے اور”أَخٌ“اصل میں ”وَخَی“ سے مشتق ہے جس کا معنی ہے قصد(اس نے قصدکیا) تو واؤ ہمزہ میں بدل کر”أَخَی“ بنا۔
کہا جاتا ہے:” آخَی الرَّجُلَ مُوَاخَاةً وَإِخَاءً وَوِخاَءً“ یعنی آدمی نے بھائی چارہ قائم کیا اس کا مصدر”مُؤَاخَاةً إِخَاءً“ اور ”وِخَاءً“ہے اور اکثر اس کا فعل ماضی ”وَاخَاهُ“ استعمال کرتے ہیں ابن سیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”بَینِی وَبَینَهُ اُخُوَّاةٌ وَإِخَاءٌ“اور ”آخَیتُهُ“ ”فَاعَلْتُهُ“کے وزن پر دونوں استعمال کئے جا سکتے ہیں جس کا معنی میرا اور اس کا آپس میں بھائی چارہ ہے۔ یا میں نے اس سے بھائی چارہ قائم کیا ہے۔ اور ”تَأَخَّیْتُ أَخًا“ کا معنی ہے میں نے بھائی بنالیا۔
حدیث میں ہے:" أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ آخَی بَینَ المُهِاجِرِیْنَ وَالاَنْصَار“ جس کا معنی ہے کہ نبی علیہ السلام نے مہاجرین اور انصار کو اسلام اور ایمان کے بھائی چارے سے آپس میں جوڑ دیا ”آخَی“ کا معنی ہے اپنے لئے بھائی بنانا ۔
ابو بکر ؓکے متعلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”لَوکُنتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَا تَّخَذتُ ابَا بَکرٍ خَلِیلًا وَلٰکِن أُخُوَّةُ الاِسلاَمِ“ ”اگر میں کسی کو جگری دوست بناتا تو میں ابو بکر کو اپنا جگری دوست بنا لیتا لیکن ان سے میرا اسلامی بھائی چارہ ہے۔
اور ”تَأَخَّی الرَّجُلَ“ کا معنی ہے آدمی نے اپنے لئے بھائی بنایا یا کسی کو بھائی کہہ دیا۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ: ”أَخٌ“ایک ایسا نام ہے جس سے مساوی اور برابری مراد ہے۔
اصل میں تعارف کے وقت نسب کے بھائی کو”أَخٌ“کہا جاتا ہے۔ اور عاریۃ دوست کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جس پر کوئی قرینہ دلالت کرنے والا ہو۔ اور”تَأَخَّیتُ الشَّيْءَ“ کا معنی ہے میں نے اس چیز کو تلاش کیا (ڈھونڈ لیا)۔ ( [1])
[1]- لسان العرب (۱۴/۲۳۱۹) نزهة الأعين النواظر (ص:۱۳۱)