• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الإخبات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الإخبات

(عاجزی کرنا/ فروتنی کرنا / انکساری کرنا)​

لغوی بحث:
الإِخْبَاتٌ“ مصدر ہے اس کا فعل ماضی”أَخْبَتَ“ ہے۔ اس کا مادہ(خ ب ت )ہے اصل میں یہ لفظ اس صحراء کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں پودے نہ ہوں ۔یا ہموار زمین ہو۔ کہاجاتا ہے: ”أَخْبَتَ الرَّجُلُ“جس کا معنی ہے آدمی نے ہمواریا بے آب وگیاہ زمین کا ارادہ کر لیا۔ اور ہموار زمین یا بےآب و گیاہ صحراہ میں اتر گیا۔ جیسے”أَسْهَلٌ“ کا معنی ہے ”نَزَلَ السَّهلَ“ یعنی آدمی ہموار جگہ پر اتر ا۔ اور”أَنْجَدَ“کا معنی ہے:”دَخَلَ فِي نَجْدٍ“یعنی آدمی نجد کی سر زمین میں داخل ہوا۔ پھر”إِخْبَاتٌ“ کا لفظ نرمی اور انکساری کے معنیٰ میں استعمال ہوا ۔اور اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرنے اور اس کے لئے دل سے راضی ہونے کے معنی میں استعمال ہوا۔ جسے کہا جاتا ہے کہ:”أَخْبَتَ إِلَی رَبِّهِ“ جس کا معنی ہے :”اطْمَأَنَّ إِلَیْهِ“ یعنی بندہ اپنے رب کے فیصلوں اور اس کی تقسیم پر مطمئن اور راضی ہو کر اس کی طرف جھک گیا۔ ( [1])
امام فراء اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ ۔۔۔۔ ﴿٢٣(هود) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: ”تَخَشَّعُوا لِرَبِّهمِ“ یعنی وہ اپنےر ب کے لئے عاجزی اختیار کرے۔
عرب لوگ”إِلَی“کبھی لام (ل) کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔اور ”خَبتَة“ کا معنی توضع وانکساری ہے۔ ( [2])
امام سفیان الثوری کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فرمان وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾ (الحج)کا معنی ہے: اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر پر راضی اور مطمئن ہونے والوں اوراس کے لئےسر تسلیم خم کرنے والوں کو خوشخبری سنایئے ۔جن کی اللہ نے مزید تعریف بیان کی ہے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جب اللہ کا تذکرہ ہو جائے تو ان کے دل گھبرا جاتے ہیں اور جو مصائب ان کو پہنچتی ہیں ان پر صبر کتے ہیں اور نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دی ہیں ان میں سے خرچ کرتے ہیں“ ۔(سورہ الحج ،۳۵) ( [3])
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ نے بھی” مُخْبِتِينَ “کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔ دونوں کہتےہیں کہ ” مُخْبِتِينَ “سے مراد عاجزی و انکساری اختیار کرنے والے ہیں۔
مجاہد کہتے ہیں: ”مُخْبِتٌ“ وہ ہے جو اللہ کی طرف آنے سے سکون و اطمنان حاصل کرتا ہے ۔ اور ”خَبْتٌ“برابر اور ہموار زمین کو کہا جاتا ہے ۔
امام اخفش کہتے ہیں : ” مُخْبِتِينَ “ کا معنی ہے اللہ سے ڈرنے والے ۔کلبی کہتے ہیں” مُخْبِتِينَ “وہ ہیں جن کے دل نرم ہیں۔
مذکورہ بالا تمام اقوال کا دارو مدار دو معنوں پر ہے۔ ایک تواضع و انکساری دوسرا اللہ کے لئے انسان کے دل اور اعضاءِ جسم کا ساکن اور مطمئن ہونا ۔اسی لئے”إِخْبَات“ کو اللہ کی طرف متعدی کرنے کے لئے لفظ”إِلَی“استعمال ہوا ہے۔ جس میں لوٹنے سکون اور اطمینان حاصل کرنے کا معنی شامل ہے۔ ( [4])


[1]- المقاييس (۲/۳۸) مفردات القران للراغب (۱۰4)
[2]- النهاية (۲/4) الصحاح (۱/۲4۷) لسان العرب (۲/۲۷)
[3]- تفسير ابن کثير (۳/۲۲۲)
[4]- مدارج السالکين لا بن القيم (۲/۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی وضاحت:
شریعت کی اصطلاح میں اللہ کے لئے اپنی کمزوری اور انکساری ظاہر کر کے اس سے محبت کرنے اور اس کی تعظیم کرنے کو ”إِخْبَات“ کہا جاتا ہے۔ ( [1])
امام ابن القیم کہتے ہیں: اطمینان کے کئی مراتب ہیں جیسے ”سَکِیْنَةٌ“(سکون)اللہ پر یقین ۔ اللہ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ وغیرہ اور ”إِخْبَات“ (اللہ کے لئے دل اور اعضاء جسم کو تابع کرنا اور عاجزی ظاہر کرنا) ان مرات میں سے پہلا اور ابتدائی مرتبہ ہے۔ اور اسی کو حاصل کرنے سے انسان اس مرتبے کو پہنچتا ہے جس پر پہنچ کر واپس پلٹنے کا اور شک کرنے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
جیسا کہ پہاڑی راستے پر سفر کرنے والا شخص جب ہموار راستے پر پہنچ جاتا ہے تو وہ راستے میں شک کرنے سے یا منزل چھوڑ کر واپس پلٹنے سے بچ نکلتا ہے۔ اسی طرح ”إِخْبَات“ (اللہ کے لئے تواضع و انکساری)کے مرتبے پر پہنچ جانے والا شخص اپنی منزل کی طرف جانے والے راستے میں شک کرنے یا منزل پر پہنچے بغیر واپس پلٹنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔(یعنی غفلت سے اور اپنے منزل کی طرف جانے سے اعراض کرنے سے بچ جاتا ہے )۔ اور اپنے سفر میں سکون حاصل کرتا ہے اور تیز چلنے لگتا ہے۔ ( [2])

اخبات (توضع)کے تین درجے ہیں:

(1) پہلا درجہ یہ ہے کہ گناہوں سے بچنے کا جذبہ”عِصْمَةٌ“ خواہشات پر چھا جائے ۔اور قوۃ ارادی غفلت کو زیر کر دے۔ اور جستجو کرنا دل کو خالی تسلی دینے پر غالب آجائے۔
گناہوں سے بچنے کا جذبہ اور خواہشات نفسانی پر چھا جانے کا مطلب یہ ہے کہ بندے میں صبرو استقامت اتنا پختہ ہو کہ خواہشات کی تمام اقسام کو کنٹرول(control) کر لے تو یہ اس شخص کی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرنے اور اللہ کے لئے جھکنے اور اس شخص کی پہلی منزل پر پہنچنےکی دلیل ہے اس منزل پر پہنچ کر خیالات ،افکاراور شکوک و شبہات سے بچ جاتے ہیں اور ہمت آگے کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس سے دین کے راستے پر چلتے ہوئے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کی قوت ارادی مضبوط ہو جاتی ہے ۔اور ہوشیار غفلت پر غالب آجاتی ہے ۔اللہ کی طرف جانے والوں اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والوں کی پہلی منزل ارادہ ہے۔ اور مرید اس شخص کو کہتےہیں جو اپنے مزاج اور نفسیانی خواہشات کے پر فتن شہر سے نکل کر اللہ کی طرف اور اس کے تیار کردہ آخرت کے بہترین محلات و باغات( جنت) کی طرف محو سفر ہوتا ہے۔جب وہ ”إِخْبَات“ کے مقام پر پہنچے تو اس کی ہمت پختہ ہو جاتی ہے اور غفلت کو چھوڑ دیتا ہے۔
اور عصمت (گناہ سے بچنے کا جذبہ )سے مراد انسان کی ایمانی قوت اوراللہ سے محبت کا اور اس سے ڈرنے کا وہ درجہ ہے ۔جو انسان کو خواہشات کی پیروی سے روک کر اللہ کی اطاعت اور عبادت میں لگائے جب بھی اس کے دل میں کوئی خواہش آتی ہے اس کی عصمت کا وہ جذبہ اسے خواہشات کی پیروی سے بچانے کے لئے حاضر ہو جاتا ہے۔

(۲)”إِخْبَات“ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ: انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کی جنت کے حصول کی طرف جانے والے راستے میں کوئی گھبراہٹ یا کوئی فتنہ رکاوٹ نہ بنے ۔گھبراہٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص یہ نہ دیکھے کہ اس راستے پر میں اکیلا جا رہا ہوں میرے ساتھ اور کوئی نہیں اللہ تعالیٰ کے بعض سچے محبت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ: کسی راستے پر تیرا تنہا چلنا اس کے مقصد کے حصول کے لئے تیری سچائی کی دلیل ہے۔ ایک اور کا کہنا ہے کہ: جس راستے پر تو چل رہا ہے اس پر کم لوگوں کے چلنے سےدھوکہ نہ کھانا۔ اور تباہی کے راستے پر گامزن ہونے والوں کی کثرت سے دھوکے میں نہ آنا۔
اور فتنہ سے مراد وہ تمام وسوسے اور خیالات و خواہشات ہیں جو حق کی تلاش کے راستے میں پیش آئے ہیں اور انسان کے اس راستے پر چلنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
پس جب اللہ کی طرف سفر کرنے والا سچے ارادے اور عزم کے ساتھ ”إِخْبَات“کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو کوئی پیش آنے والا فتنہ اس کو اپنے مقصد سے نہیں لوٹا سکتا۔

(۳)اخبات کا تیسرا درجہ یہ ہےکہ: انسان کے ہاں لوگوں کی مدح و تعریف اور ان کی ملامت اور مذمت بیان کرنا برابر ہو۔
یعنی اس کا عزم اتنا پختہ اور اس کا مقصد اتنا بلند ہو کہ لوگوں کی ملامت پر وہ غمگین نہیں ہوتا نہ اس سے پریشان ہو تا ہے ۔ اور نہ ہی اس کے ہاں لوگوں کی مدح و تعریف کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اگر اس کی مدح اور تعریف کی جائے تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کے لئے اس میں کچھ نہیں رکھتا بلکہ سب کچھ خالص اپنے رب کے لئے کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی شعاعیں اتری ہیں اور اس کے دل نے ایمان و یقین کی مٹھاس کو چکھ لیا ہے۔

[1]- مدارج السالکين لا بن القيم (۲/۶)
[2]- مدارج السالکين لابن القيم (۲/۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور جو شخص لوگوں کی تعریف و مدح پر خوش ہو جانے کو ہی کافی سمجھتا ہے یا ان کی ملامت سے ڈر کر اللہ کی طرف بڑھنے سے روک جاتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا دل اللہ کے تعلق سے حقیقت میں کٹ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس کا دل خالی ہے۔ نہ اس کو اللہ کی محبت کی ہوا لگی ہے اور نہ اس کو اللہ کی کوئی معرفت و پہچان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس پر یقین و اعتماد کی مٹھاس اس نے ابھی نہیں چکھی۔ اس وقت تک کوئی شخص ایمان کی مٹھاس اور یقین اور سچائی کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا جب تک اس کے دل سے ہر قسم کی جا ہلیت نکل نہ جائے۔اللہ کی طرف سفر کرنے والوں کے لئے نفس ان کے راستے میں ایک مشکل ترین پہاڑی کی مانند ہے جس پر چڑھ کر ہی آگے جانے کا راستہ ہے۔ پس نفس کی اس پہاڑی کی چوٹی پر چڑھنا اس راستے پر چلنے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے ۔لیکن بعض چلنے والوں کے لئے نفس کی اس پہاڑی چوٹی پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بعض کے لئے بہت آسان ہوتا ہے جس کے لئے اللہ آسان کر دے تو اس کے لئے ہی آسان ہے پھر اس پہاڑی راستے میں وادیاں اور چوٹیاں اور کانٹے ہوں اسی طرح اس راستے پر ڈاکو بھی ہیں جو اس راستے پر جانے والوں کو اور خاص کر رات کے اندھیرے میں چلنے والوں کو لوٹتےہیں پس جب اس راستے پر چلنے والوں کے ساتھ ایمان کی قوت نہ وہ اور یقین کے ایسے چراغ نہ ہوں جو عاجزی و انکساری کے تیل سےروشن ہوئے ہوں تو راستے کی یہ تمام رکاوٹیں ان کو لاحق ہوں گی ۔اور ڈاکو ان کو گھیر لیں گے ۔اور اس کے اور اس کی منزل کے درمیان حائل ہو جائینگے۔( [1])
کیونکہ اس کٹھن راستے پر چلنے والوں میں سے اکثر اس کی مشکلات اور صعوبتوں کو برداشت کرنے سے اور اس راستے کی بلند چوٹیوں پر چڑھنے سے عاجز آ کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ اس کٹھن سفر کے ساتھ ساتھ اس بلند پہاڑ کی اونچی چوٹی پرشیطان بھی بیٹھا ہوا ہے جو لوگوں کو اس پہاڑ پر چڑھنےسے ڈراتا ہے۔
تو اس پہاڑ پر چڑھنے کی مشکلات اور اس کی چوٹی پر اس ڈرانے والے کا بیٹھنا اور اس چلنے والے کی کمزوری اور بے ہمتی اس سفر کو چھوڑ کر واپس پلٹنے کے یہ تمام اسباب جب اکھٹے ہو جائیں تو اس راہ پر چلنے والا اپنے راستے کو چھوڑ دیتا ہے ۔اور واپس پلٹ جاتا ہے ۔ بس وہی اپنے سفر کو جاری رکھ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ بچائے۔
لیکن اس بلند و بالا پہاڑ پر چڑھنے والا جتنا اوپر چڑھتا ہے شیطان (ڈاکو) کی چیخیں اس پر اتنی تیز ہو جاتی ہیں اور اس کو ڈرانے میں شدت آجاتی ہے۔
پس جب مسافر اس پہاڑ کی چڑہائی کو سر کرتا ہے اور اس کے ٹاپ(top) پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے سارے خطرات امن میں بدل جاتے ہیں اور اس کے لئے چلنا آسان ہو جاتا ہے راستے کی رکاوٹین دور ہو جاتی ہیں۔ اور چوٹیوں کی چڑھائی ختم ہو جاتی ہے تو چلنے والے کو پر امن کھلا ہموار راستہ نظر آنے لگتا ہے۔ جو اسے اپنی منزل اور آرام گاہ کی طرف قریب کر دیتا ہے ۔اور اس کو اپنی آرام گاہ (rest house) کی نشانیاں نظر آجاتی ہیں ۔جہاں خوبصورت بنگلے اور خوبصورت محل ہوتے ہیں۔ جو اللہ کے مہمانوں کے لئے تیار کئے گئے ہیں ۔

[1]- مدارج السالکين لابن القيم (۲/ ۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پس بندے کو کامیابی اور سعادت کے مراحل پر پہنچانے کے لئے مضبوط عزم کچھ دیر کے صبر،نفس کی بہادری، دل کی استقامت کی ضرورت ہے اور سعادت و کامیابی کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے وہ جسے چاہے دیدیتا ہے اور وہی بہت بڑی مہربانی کا مالک ہے۔( [1])
مزید وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل صفات کا مطالعہ کیجئے:
التوضع، الخشوع، الخشیة، الخوف، الرهبة، السکینة، الضراعة والتضرع، الطمٔانینة، القنوت، الیقین.
اور اس کے مقابل میں دیکھئے :
الإعراض، الإصرار علی الذنب، الجزع، الکبر والعجب، السخط، القلق، القنوط.

[1]- مدارج السالکين لابن القيم (۲/۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وہ آیات جو الاخبات کے متعلق وارد ہوئی ہیں

(١)إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٣﴾هود
(١)یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے كام بھی نیك كیے اور اپنے پالنے والے كی طرف جھكتے رہے ،وہی جنت میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں ۔
(٢)وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾الحج
(٢)اور ہر امت كے لئے ہم نے قربانی كے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاكہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ كا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے ركھے ہیں ،سمجھ لو كہ تم سب كا معبود بر حق صرف ایك ہی ہے تم اسی كے تابع فرمان ہو جاؤعاجزی كرنے والوں كو خوشخبری سنا دیجئے ۔
(٣) لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ‌ضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿٥٣﴾الحج
(٣)یہ اس لئے كہ شیطانی ملاوٹ كو اللہ تعالیٰ ان لوگوں كی آزمائش كا ذریعہ بنا دے جن كے دلوں میں بیماری ہے اور جن كے دل سخت ہیں، بے شك ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وہ احادیث جو اخبات پر دلالت کرتی ہیں
1- عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَدْعُو يَقُولُ رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَيَّ وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَيَّ وَاهْدِنِي وَيَسِّرْ الْهُدَى لِي وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا لَكَ ذَكَّارًا لَكَ رَهَّابًا لَكَ مِطْوَاعًا لَكَ مُخْبِتًا إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي وَاغْسِلْ حَوْبَتِي وَأَجِبْ دَعْوَتِي وَثَبِّتْ حُجَّتِي وَسَدِّدْ لِسَانِي وَاهْدِ قَلْبِي وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي.([1])
(۱)ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺیہ دعا پڑھا کرتے تھے:اے میرے پروردگار! میری مدد فرما، میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر، میری نصرت فرما، میرے خلاف کسی کی نصرت نہ فرما، میرے لئے مفید منصوبہ بندی فرما، میرے خلاف منصوبہ بندی نہ فرما، مجھے ہدایت عطا فرما اور ہدایت کی اتباع میرے لئے آسان فرما دے۔ جو شخص میرے ساتھ زیادتی کرے اس کے خلاف میری مدد فرما، الٰہی ! مجھے اپنا شکر گزار ،ذاکر(ذکر کرنے والا) ،ڈرنے والا، بہت اطاعت کرنے والا، تواضع کرنے والا یا توبہ کرنے والا بنادے، پروردگا! میری توبہ قبول فرما ،میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما ،میری حجت (دلیل) ثابت کر دے،میرے دل کی راہنمائی فرما، میری زبان کا بولنا درست کردے، میرے دل سے بغض حسد نکال دے۔

[1] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (3551) سنن الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ بَاب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ رقم (3474)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخبات کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال:

(۱)ابن عباس ؓنے اس آیت: وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤ (الحج)کے بارے میں کہا مخبتین سے مراد تواضع کرنے والے ہیں۔ اور اخفش نے کہا "ڈرنے والے" اور ابراہیم نخعی نے کہا وہ نماز ی جو اخلاص والے ہیں۔
(۲)مجاہد نے فرمان الٰہی: وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ (هود: ٢٣) کی بارے میں کہا کہ "أخبتوا" سے مراد ہے، اطمینان حاصل کیا۔
(۳)ابن عباس ؓ نے اس آیت: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٣﴾ (هود) میں اخبات سے مراد اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔
(۴)قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ()یعنی اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں
(۵)قتادہ نے اس آیت میں اخبات سے خشوع اختیار کرنا اور (ا للہ کے لئے) تواضع اختیار کرنا مراد لیا ہے۔
(۶)عبداللہ بن صالح نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس کا معنی ہے "وہ اپنے رب سے ڈرے"۔
(۷)اور مفسر نیساپوری نے کہا" اللہ کی طرف اطمینان کے ساتھ لوٹے اور اس کی عبادت کے لئے یکسو ہوئے"۔
(۸)امام طبری نے اس آیت: () کے بارے میں کہا "یعنی اے محمد ﷺ ان لوگوں کو خوش خبری دے جو اللہ کے لئے اطاعت کے ساتھ جھک جاتے ہیں اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے لوٹتے ہیں۔
(۹)قتادہ نے اسی آیت میں" أخبتوا " کا معنی متواضعین یعنی تواضع کرنے والے کیا ہے۔
(۱۰)عمرو بن اوس نے کہا "مخبتون"وہ لوگ ہیں جو ظلم نہیں کرتے اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو صبر کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اخبات کے فوائد

(۱)اخبات اطمینان، اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور اس میں حسن ظن کا پہلا درجہ ہے۔

(۲)اخبات کرنے والے کے لئےجنت کی خوش خبری ہے۔

(۳)قیامت کے دن کے عظیم خوف سے نجات ملے گی۔

(۴)اخبات ان قلبی احوال میں سے ہے جو غیراللہ سے رو گردانی کو واجب کرتے ہیں۔

(۵)اخبات انسان کو دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات دلاتا ہے ۔

(۶)اخبات فتنہ سے بچاتا ہے۔

(۷)اخبات سے ہمت بڑھتی ہے اور نفس تعریف و مدح کی لالچ اور مذمت و ملامت کے خوف سے بلند ہو جاتا ہے۔

(۸)اخبات سے قلب کو ایمان و یقین کی حلاوت حاصل ہوتی ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top