- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
الاحتساب
احتساب
(شمار کرنا/کفایت کرنا/کافی ہونا/گمان کرنا)
لغوی بحث:
احتِسَاب مصدر ہے اس کا فعل ماضی ”احتَسَبَ“ہے۔ (ح س ب) کے مادہ سے لیا گیا ہے ۔ لغت میں اس کے کئی معانی ہیں جن میں سے شمار کرنا اور کفایت کرنا ،کافی ہونا بھی ہیں۔( [1])پہلامعنی (شمار کرنا)عرب یوں استعمال کرتے ہیں :”حَسِبتُ الشَئَ أحْسُبُهُ حَسْبًا وُحُسْبَاناً“یعنی میں نے اس چیز کو شمار کیا ۔ اللہ تعالیٰ کےفرمان میں بھی اسی طرح مصدر استعما ل ہو اہے:الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ﴿٥﴾ (الرحمن) .
اور”حَسَبُ“(اعلیٰ نسب)بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ اس لئے کہ اعلیٰ نسب میں بندے کے آباء واجداد کی شرافت اور بزرگی شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے”احْتَسَبَ فُلاَنٌ إِبْنَهُ“ یعنی فلاں آدمی نے اپنے بیٹے کو اپنے لئے (اجر و ثواب کا باعث)شمار کیا ۔اس کا مطلب یہ ہےکہ اس شخص نے اپنے فوت شدہ بیٹے کو اللہ کے ہاں ذخیرہ کی ہوئی چیزوں میں شمار کیا ۔
اس میں سے اسم ”حِسْبَةٌ“ یعنی اجر یا”إحْتِسَابُ الْأَجْرِ“یعنی اجر شمار کرناہے اور ”فُلاَنٌ حَسَنُ الحِسْبَةِ بِالْأَمْرِ“اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو بہتر تدبیر (Planning)کرنے والا ہو۔ یہ بھی اسی(شمار کرنے)سے ماخوذ ہے کیونکہ جو ہر چیز کی تعداد اور مقدار کو اور اس کی مناسب جگہ و محل اور درستگی اور غلطی کو جانتا ہو وہی بہترین تدبیر کر سکتا ہے۔
اسی طرح اللہ کے ہاں اپنے لئے کوئی چیز/عمل اجر شمار کرنے کےلئے کہا جاتا ہے ”أَحْتَسِبُ بِکَذَا أَجْراً عِنْدَ اللہِ“ اور حدیث میں ہے:”مَنْ صَامَ رَمْضَانَ إِیْمَاناً وَإِحْتِسَاباً“([2]) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب تلاش کرنے کے لئے روزہ رکھا۔۔۔
تو”اِحْتِسَابٌ “بھی ”حَسَبَ“سے ماخوذ ہے جیسا”اِعْتِدَادٌ، عَدَّ“سے ماخوذہےاور جو شخص اپنے عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتا ہے اس کے بارے میں ”اِحتَسَبَ“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عمل کرتے وقت وہ اپنے عمل کو اپنی نیکیوں میں شمار کرتا ہے۔
اور لفظ ”حِسْبَةٌ“اجر کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو کہ احتساب سے ماخوز اسم ہے جیسا ”اِعْتِدَادٌ“سے ”عِدَّةٌ“ ماخوذ ہے اور”حِسْبَةٌ“کی جمع ”حِسَبٌ“ ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ ۔۔۔۔(الطلاق) کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ اسے وہاں سے رزق دےگا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں تھا یعنی” حَسِبَ یَحسَبُ“سے ہے جو گمان کے معنی میں ہے ۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے
[1] -اس ماده کا ايک اور معنی بھی ہے خاص ايک زنگ پر دلالت کرتا ہے جيسے کہا جاتا ہے: جَمَل أحْسَبُ و ناقَة حَسْبآء يعنی سياہی مائل بھورے رنگ والا اونٹ يا اونٹی۔ ديکھئے: مقاييس اللغة (۲/61) الجمهرة لابن دريد (۱/۲۲۱) لسان العرب (۱/۳۱6)[2] - صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ بَاب صَوْمُ رَمَضَانَ احْتِسَابًا مِنْ الْإِيمَانِ رقم (37)