• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاحسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الاحسان

احسان
(نیکی کرنا/نیک سلوک کرنا)​
لغوی بحث:
احسان برائی کے مقابل میں آتا ہے اس کا اسم فاعل”مُحْسِنٌ“ہے اور امام سیبویہ کے نزدیک اس کا اسم فاعل”مِحْسَانٌ“ ہے۔
اعمال میں سےمَحَاسِنٌ(اچھائیاں)مَسَاوِيءِ(برائیوں)کےمدمقابل ہیں۔ اللہ تعالی کے فرمان:وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢(الرعد) کا مطلب یہ ہے ان لوگوں سے اگر کوئی بری بات کرتا ہے تو یہ اچھی باتوں سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ اور حَسَّنْتُ الشِّيْء تَحسِیناًکا معنی ہے :میں نے اس چیز کو خوبصورت اور حسین کر دیا اورأَحْسَنْتُ إِلَیْهِیاأَحْسَنْتُ بِهِ کا معنی ہے: میں نے اس سے احسان کیا ۔
ازھری نے ابو الہیشم سے نقل کیاہے کہ انہوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ کےاس فرمان : وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَ‌جَنِي مِنَ السِّجْنِ ۔۔۔ (یوسف 100)کے متعلق فرمایا کہ اس کا معنی ہے: یقینا میرے رب نے میرے ساتھ احسان کیا ۔ (بِی کا معنی إلىَّ کا ہے)۔([1])
اصطلاحی وضاحت:
احسان کا اصطلاحی معنی سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ جب ایمان اور اسلام کے ساتھ احسان کا لفظ ذکر ہو تو اس سے مراد اچھی اطاعت اور عبادت کرتے ہوئے اپنے اوپر اللہ کی نگرانی پر پختہ یقین رکھنا ہے۔
رسول اللہ ﷺسے جب احسان کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی ایسی بندگی کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ لیکن جب احسان کا لفظ مطلقا ذکر ہو جائے تو اس سے مراد اچھا کام کرنا ہےاور حَسَنَ ایک وصف ہے جوحُسْن سے لیا گیا ہے۔ جیسا کہ جر جانی نے کہا جس سے مراد وہ عمل ہے جو دنیا میں قابل تعریف ہو اور آخرت میں باعث اجرو ثواب ہو ۔([2])
تھانوی کہتےہیں کہ: لفظ احسان کا اطلاق تین چیزوں میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔
(۱)کسی چیز کا طبیعت اور مزاج کے موافق ہونا ۔اس کے مقابل میں قبح ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا طبیعت کے موافق نہ ہونا ۔
(۲)کسی چیز کا اپنے کمال تک پہنچنا ۔جس کا مقابل قبح نقصان کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ علم کمال ہے تو جہل نقصان ہے۔
(۳)کسی چیز کا قابل تعریف ہونا ۔اس کے مقابل میں قابل مذمت چیز ہوتی ہے۔امام مناوی کہتے ہیں: احسان ظاہری اسلام ہے جسے
اندرونی ایمان سیدھا اور قائم رکھتا ہے اور اللہ کی نگہبانی پر یقین رکھنا اس کی تکمیل کرتا ہے۔امام راغب اصفہانی کہتےہیں جس کا م کا کرنا مناسب ہوتا ہے اسے کرنے کو احسن کہتے ہیں۔
احسان کی دو قسمیں ہیں:
(۱)کسی اور کے ساتھ اچھائی کرنا۔
(۲)اپنے عمل میں اچھائی کرنا جیسا کہ اچھا اور نفع بخش علم حاصل کرنا اور اچھاعمل و کردار اپنانا۔
علی ؓکا قول ہے کہ :لوگ اپنے علم اور اپنے عمل سے یاد کئے جاتے ہیں۔
امام کفوی کہتے ہیں: احسان انسان کا ہر وہ کام ہے جو اس انسان کے علاوہ کسی کو نفع دے جیسے بھوکے کو کھانا کھلانا وغیرہ ۔ اس طرح جس کو اس شخص نے نفع دیا وہ اس نفع کے ساتھ بنفسہ(اچھی حالت والا)بن گیا۔ تو اِحْسَانٌ(جو کہ فعل اَحسَنَ کا مصدر ہے) پہلے معنی کے اعتبار سے اس کاہمزہ تعدیت کے لئے ہے جس کا معنی ہے کسی اور کو اچھا کردینا ۔یا اس اچھائی کرنے کی وجہ سے اچھا ئی کرنے والا خود اچھا بنا تو اس میں ہمزہ (صَیْرُوْرَة: ہوجانا)کے لئے ہے جس کا معنی ہے خود اچھا بن جانا۔([3])


[1]- لسان العرب (۱/۸۷۷) طبع دارالمعارف
[2]- التعريفات للجرجاني (ص:۹۱)
[3]- کشاف اصطلاحات (۲/۱4۸)، والتوقيف علي مهمات التعارف لمحمد عبدالرؤف المناوي (ص:4۱)، والمفردات للراغب (ص:۱۱۹)

 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(الف) احسان کی حقیقت:
جب جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺسے احسان کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسی بندگی کرو گویاکہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس میں نبی ﷺنے اچھی اطاعت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ جو اللہ کو اپنے اوپر نگران تصور کرتا ہے وہ اچھا عمل کرتا ہے اور اپنےعمل میں خوبصورتی پیدا کرتاہے۔ اللہ نے بھی احسان کا حکم دیا اورفرمایا: إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ۔۔۔۔﴿٩٠ (النحل) بے شک اللہ انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس وجہ سے اللہ نے احسان کرنے والوں کا اجرو ثواب بھی زیادہ رکھا ہے۔اس کا مصداق یہ فرمان الہی ہے : هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠(الرحمن) جو دنیا میں احسان کرتا ہے آخرت میں اس کا یہی بدلہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے ۔
احسان اور انعام میں فرق یہ ہے کہ احسان اپنے ساتھ کی جانے والی اچھائی کو بھی کہا جاتا ہے ۔اور اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ اچھائی کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے کہاجاتا ہے: أَحْسَنْتُ إِلىَ نَفْسِي میں نے اپنے ساتھ احسان کیا۔ اور انعام اپنےعلاوہ کسی اور کے ساتھ اچھا ئی کو ہی کہا جاتا ہے۔
فیروزآبادی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ :لفظ احسان دونوں طرح مستعمل ہے کسی اور کے ساتھ اچھائی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اپنےعمل میں اچھائی پیدا کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔جیسا کہ انسان بہترین علم حاصل کرے یا بہترین عمل کرے۔
احسان انعام کی نسبت عام ہے،احسان بندگی کا سب سے بہتر اور اعلیٰ درجہ ہے کیونکہ یہ ایمان کا مغز اور ایمان کی روح اور اس کی تکمیل ہے اور ایمان کے تمام درجات اس میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠(الرحمن )اچھائی کا بدلہ اچھائی ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:الإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّكَ تَرَاہُ، احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسی بندگی کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔
نیت اور ارادے میں احسان ،اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ تمام اغراض ومقاصد کی ملاوٹ سے پاک کرتا ہے اور انسان میں ایسی پختگی لاتا ہے جس میں کوئی سستی اور کمزوری نہ ہو اور اس کو تمام کدورتوں سے بچاتاہےاور اپنی کیفیات میں احسان یہ ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے اور غلط سمت کی طرف پڑھ جانے سے انہیں بچایا جائے ۔([1])
تو احسان کا عمومی معنی یہ ہے کہ مستحق لوگوں کے ساتھ ایسے شخص کا اچھا سلوک کرنا جس پر وہ اچھائی فرض اور لازم نہ ہو اس کو احسان کہتے ہیں کہ جس کے ساتھ یہ سلوک اور اچھائی ہوتی ہے وہ اسے پسند کرتا ہے اور جس نے یہ کیا ہے اس پر اس کا کرنا لازم نہ تھا۔
(ب) احسان کے درجات:
احسان کے کئی درجےہیں جو کہ سب مذکورہ بالا مفہوم کے تحت آتے ہیں سب سے اعلیٰ درجہ اللہ کے معاملے (اس کی عبادت ) میں احسان ہے۔ جس کی وضاحت رسول اللہ ﷺنے مشہور حدیث میں کی ہے: الإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّكَ تَرَاہُ...
احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسی بندگی کرو گویا کہ تم اللہ کودیکھ کر ہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھ رہےتو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
اس کے بعد دوسرا درجہ اللہ کے لئے نوافل ادا کرنے کے ذریعے اس کی قربت حاصل کرنا ہے۔
اس کے بعد احسان کے باقی درجات آتے ہیں ان میں احسان کا تعلق نیت اور ارادے سے ہوتا ہے یا عمل سے ۔ نیت میں احسان کی بہت اہمیت ہے کیونکہ نیت کو مکمل طور پر پاک اور خالص کرنا ضرور ی ہے۔
اور عمل یعنی مخلوق کے ساتھ معاملات میں احسان وہ ہے جو شرعی حقوق اور واجبات کے علاوہ ہو۔ اس میں تمام اچھے اقوال اور اچھے افعال حقوق اور واجبات کے علاوہ ہوں ۔اس میں تمام اچھے اقوال اور اچھے افعال آتے ہیں اور تمام مخلوقات کےساتھ اس کا تعلق ہے صرف وہ مستثنی ہیں جن کے ساتھ شریعت کے حکم کے تحت احسان کرنا حرام کر دیا گیا ہے ۔ان سے احسان نہیں کرنا چاہیئے باقی تمام مخلوقات کے ساتھ احسان کرنا چاہیئے ۔
احسان کا ادنیٰ درجہ وہ ہے جو بخاری و مسلم کی حدیث میں منقول ہے کہ ایک بدکار عورت نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی شدت کی وجہ سے زبان نکالے ہوئے گیلی زمین چاٹ رہا تھا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر کنویں میں لٹکایا اور اس میں پانی بھر کر کتے کو پلایا جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اس بدکار عورت کو بخش دیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان مقرر فرمایا ہے۔ جب تم قتل کرتے ہو تو احسان (اچھے طریقے )سے قتل کرو اور جب ذبح کرتے ہو تو احسان (اچھے طریقے )سے ذبح کرو۔([2])
مل کر زندگی گزارنے اور معاملات اور صحبت کے اصول و فروع اور آداب سارے احسان کی طرف لوٹتے ہیں ۔یعنی سب کی بنیاد احسان ہے اور کسی پر اپنے واجب الاداء حقوق سے درگزر کرنا بھی احسان ہے۔ اس لئے کہ اللہ نے فرمایا وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤(آل عمران)ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اللہ (ایسے )احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔([3])
امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احسان کے تین درجے ہیں :
پہلا درجہ- نیت اور قصد میں احسان کرنا:
یعنی نیت کو علم کے ساتھ درست کرنا۔ اور عزم کے ساتھ مضبوط کرنا اور کیفیت کے لحاظ سے اسے صاف اور خالص رکھنا ۔
دوسرا درجہ - اپنی کیفیات میں احسان کرنا:
یعنی اپنی کیفیات کا خیال رکھنا اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے انہیں چھپا کر رکھنا اور انہیں درست طریقے سے ثابت کرنا۔
ایمانی کیفیات کے خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اصل ایمانی کیفیت کو بدلنے سے بچایاجائے ۔اس لئے کہ دل کی کیفیت بادل کے چلنے کی طرف بہت جلد بدل جاتی ہے۔ اور کیفیت ایمانی کی دیکھ بھال یہ ہے کہ انسان ہمیشہ وفاداری سے کام لے اور بے وفائی سے بچے۔
تیسرا درجہ - اوقات میں احسان:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نگرانی اور نگہبانی کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتی جائے ۔اور اپنے ارادے اور قصد میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ شامل کیا جائےیعنی ہمیشہ دل کا تعلق اللہ کے ساتھ رہے اس سے ہٹا کر کسی اور کے ساتھ دل نہ لگایا جائے ۔([4])

[1]- لسان العرب لابي منظور (۱۳/۱۱5،۱۱۷) بصائر ذوي التميز (۲/465)
[2]-رواہ مسلم باب الأمر بإحسان الذبح رقم (5167)
[3]- التحرير والتنوير (۱4/۲55،۲56)
[4]- مدارج السالکين (۲/4۸۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ت) احسان کا تربیتی مقام اور مرتبہ:

عصر حاضر کے ایک عالم کا کہنا ہے کہ احسان تربیت کے عناصر میں سے ایک مضبوط ترین عنصر ہے۔ جو ہمیں اللہ کے فرمان وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥ (البقرة) ترجمہ: احسان کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔۔سے معلوم ہوتا ہے ۔
ا حسان دراصل اپنی اعلیٰ شکل میں اللہ کی صفت ہے۔ اس لئے کہ اس کے مقابل میں”الإِسَاءَةُ“(برائی )ہے جو جہل ،کمزروی ، کوتاہی اور دیگر اس طرح کے اوصاف (جو اللہ کے لئے نا ممکن ہیں) کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ اللہ ان نقصانات اور عیوب سے پاک ہے۔وہ اپنی صنعت اورعظیم کائنات کو بنانے کے متعلق فرماتا ہے: صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿٨٨(النمل) اللہ کی کاریگری ایسی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط کر دیا ہے بے شک وہ اللہ تم جو کچھ کرتے ہو اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ میری کائنات کی بناوٹ میں کوئی عیب اورنقص تلاش کر کے دکھاؤ۔(لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا) فرمایا: الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَ‌ىٰ فِي خَلْقِ الرَّ‌حْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْ‌جِعِ الْبَصَرَ‌ هَلْ تَرَ‌ىٰ مِن فُطُورٍ‌ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْ‌جِعِ الْبَصَرَ‌ كَرَّ‌تَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ‌ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ‌ ﴿٤(الملك) تم اس مہربان ذات کے اشیاء کو پیدا کرنے میں کوئی کمی بیشی(کمزوری اور نقصان) نہیں دیکھو گے پس تم اپنی نگاہ لوٹا ؤ، کیا تم کوئی کمزوری اور نقص دیکھتے ہو۔ پھر بار بار اپنی نظر گھماؤ ،تمھاری نظر بے مراد تھکی ہوئی تمہاری طرف واپس لوٹے گی۔سبحان اللہ وہ کیسا خالق ہے۔
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ ﴿٧( السجدة)
اس نے ہر چیز کو بہترین کر کے پیدا کیا ہے اور انسان کی پیدائش کی ابتدا اس نے مٹی سے کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب بنی آدم کو زمین پرپھیلایا اور ان کے ساتھ زندگی کا ایک پیغام منسلک کر دیا انہیں اس بات کا پابند بنایا کہ وہ اللہ والے بنیں اور اپنے اعمال اچھے اور بہترین کردیں۔ تاکہ کمال کے درجے پر فائز ہوں لیکن جب ان کے کمزور مزاج ان پر غالب آگئے اوراس کی وجہ سے اس مقام پر نہ پہنچ سکے تو بار بار کوشش کر کے نقص اور کوتاہی نہیں کرنی چاہیئے۔ بلکہ ان کے لئے ضروی ہے کہ محنت کر کے اپنے اعمال کے ذریعے جہاں تک استطاعت ہو کمال کے درجے پر پہنچ جائیں۔
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کو مقرر فرمایا ہے([1])یہاں تک کہ بے زبان جانوروں کے ساتھ بھی احسان کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺایک آدمی کے پاس سے گزرے جس نے بکری کے گردن پر پاؤں رکھا تھا اور چھری تیز کر رہا تھا بکری اس شخص پرنظر جمائے ہوئے تھی ۔رسول اللہ ﷺنے اس شخص سے کہا کہ آپ نے اس کو لٹانے سے پہلے اپنی چھری تیز کیوں نہیں کی؟ کیا تم اس بکری کو دُوہری موت مارنا چاہتے ہو؟ ([2])
احسان ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنا وقت بے فائدہ ضائع نہ کرے اور اپنی کوشش اور محنت فائدہ مند کاموں میں صرف کرے۔صحابی رسول شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے بغیر کسی فائدے کے ایک چڑیا کو مار ڈالاقیامت کے دن وہ چڑیابلند آواز سے اللہ کے سامنے فریاد کرے گی کہ اے میرے رب فلاں شخص نے مجھے بغیر کسی فائدہ کے (عبث)قتل کیا تھا۔([3])
ماجد کیلانی کہتے ہیں: انسانیت کی بقا اور اس کی ترقی جس کا جھنڈا اسلامی تربیت کا فلسفہ اٹھاتاہے ۔اس کو حقیقی شکل دینے کے لئے عدل اور احسان دونوں ایک مضبوط بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ عدل قائم کرنے میں انسانیت کی بقاء ہے اور احسان میں انسانیت کی ترقی مضمر ہے اس لئے کہ احسان یعنی کسی کو کچھ دینا یا کسی پر احسان کرنا بغیر کسی بدلہ لینے کے اور بغیرکسی شکریہ کے مطالبہ کرنے کے انسانیت کے تعلقات مضبوط کرنے اورآپس میں تعاون بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔([4])

[1]-ديکھئے حديث نمبر (4)
[2]- (صحيح) صحيح الترغيب والترهيب رقم (1090)
[3]- (ضعيف) الترغيب والترهيب رقم (680)
[4]- فلسفه التربية الاسلامية (ص: ۱44)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ج ) مسلمانوں کی ترقی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک سبب احسان ہے:

احسان ہر مسلمان سے اس کے متعلقہ عمل کو بہتر انداز میں انجام دینے کا تقاضا کرتا ہے ایسا بہتر انداز سے بجالانا جیسا کہ اس کو اس بات کا یقینی علم ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور میرے اس عمل سے وہ مکمل طور پر آگاہ ہے۔ اس طریقے سے مضبوط اور بہتر عمل کرنے سے قوموں کو ترقی ملتی ہے اور معاشرہ پستیوں سے بلندیوں کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ ([1])

(ر) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان کرنا

جب بندہ غورو فکر کرتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ میں جن نعمتوں میں زندگی بسر کر رہا ہوں یہ سب اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کا احسان ہے ۔اس پر وہ اللہ کا شکر اداکرتا ہے ۔تو اللہ اس پر اپنی مہربانی اور احسانات اور بڑھاتا ہے ۔اور اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح غورو فکر کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پرپہنچ جاتاہےکہ جو تکلیف اورمصیبت مجھے ملتی ہے یہ میرے اپنے کئے ہوئے گناہوں کی وجہ سے ہے تو اس پر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو تکلیف اور شر کے اسباب اس سے ہٹ جاتے ہیں اوریہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے خیر اور برکت بڑھتی رہتی ہے اور اس سے شر اور مصیبتیں دفع ہو تی رہتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺاپنے خطبہ اور تقریر میں الحمدللہ سے ابتداء کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے پھر فرماتےتھےنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُہ یعنی ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی اطاعت کو بجالانے میں مدد مانگتے ہیں اور اس سے اپنی خطاؤں کی معافی طلب کرتے ہیں پھر فرماتے تھے وَنَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا یعنی نفس میں جو شر ہوتا ہے اس سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور اپنے عمل کی سزا یا اس کے برے انجام سے پناہ مانگتے تھے۔ تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شر نفس کے اندر ہی ہوتاہےجس کی وجہ سے انسان برے اعمال اور گناہ کرتا ہے پھر جب انسان عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے برے عمل اور اس عمل کے برے انجام سے پناہ مانگتا ہے ۔تو اس میں انسان نے اللہ سے اس کی اطاعت کرنے کے لئے اور اطاعت کے اسباب کے لئے تعاون کا مطالبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ گناہوں اور گناہوں کے برے انجام سے پناہ مانگ لی۔
پس انسان جب اس بات کو سمجھ جائے کہ اس کو جو نعمت اور خوشی و راحت ملتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو اس کو تکلیف ملتی ہے وہ اس کے اپنے نفس کی طرف سے ہے تو ایسا انسان اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت بھی کرتا ہے اور اللہ سے اپنے کئے ہوئے گناہوں اور ان کے برے انجام سے پناہ بھی مانگتا ہے۔

[1]- المحاور الخمسة في القرآن الکريم (ص: ۱۹۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ز) حسنہ اوراحسان میں فرق:

فیروز آبادی کہتےہیں: ”حَسَنَه“ ہر اس نعمت کو کہا جاتا ہے جو انسان تک پہنچ کر اس کو خوش کر دے چاہے وہ اس کے مال میں ہو یا جان میں یا کیفیات اور زندگی کے احوال میں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۖ ۔۔۔﴿٧٨ (النساء: ٧٨) اگر ان کو کوئی خوشحالی(نعمت) ملتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
یہاں ”حَسَنَه“ سے مراد بارشیں زمین کی پیداوار ملک وسعت و فراوانی اور لڑائیوں میں کامیابی وغیرہ ہے اور احسان دو طرح سے استعمال ہوتا ہے: ایک کسی اور پر کوئی انعام کرنا دوسرا اپنے عمل میں اچھائی لانا۔
علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: لوگ اپنے اعمال سے یاد کئے جاتے ہیں ۔([1])
حَسَنَه اور إِحْسَان دونوں میں تعلق واضح ہے وہ یہ کہ جو شخص خالص اللہ کی توحید کا عقیدہ رکھتا ہے اور اسی اللہ کے لئے عبادت کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے نفس کے ساتھ احسان ہے ۔یا کسی اور کےسا تھ اپنے قول و فعل کے ذریعے احسان کرتا ہے تو دونوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کوآخرت میں حسنیٰ (جنت) مل جاتی ہے۔ تو حسنہ اور احسان دونوں حسن سے ماخوذ ہیں جو دنیا میں اگر کسی کو ملے تو وہ خوش ہو جاتا ہے اور اگر آخرت میں کسی کو ملے تو وہ بھی ہمیشہ خوش رہےگا۔

(د) حَسَنَةکے کئی معانی ہیں:

(۱)تو حید اور اس سے ملنے والا فائدہ جنت ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠﴾(الرحمن) عکرمہ نے اس کا معنی کیا ہے کہ جو لا الہ الا اللہ پڑھ لے اس کا بدلہ جنت کے سوا کوئی ہے؟
ابن زید کہتے ہیں اس کا معنیٰ ہے کہ جو دنیا میں اچھا عمل کرتا ہے اس کا یہی بدلہ ہے کہ آخرت میں اس کےساتھ احسان کیاجائے۔([2])

(۲)حَسَنَةکا معنی اللہ کی مدد اور غنیمت بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۔۔۔۔۔﴿١٢٠ (آل عمران ) اگر تمہیں کوئی خوشی پہنچے تو وہ ان (منافقوں ) کو غمزدہ کردیتی ہے۔
یہ اس احسان کا پھل ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیاہے فرمایا:وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥(البقرة)
ترجمہ: اور اللہ کے راستے میں خرچ کرواور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو اور احسان کرو یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
(۳)حَسَنَةکا ایک معنی بارشوں کی کثرت زمین کا زرخیز ہونا ہے دراصل یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان اور مہربانی کا نتیجہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اسی طرف اشارہ موجود ہے ۔فرمایا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ۔۔۔﴿٧٧(القصص )
ترجمہ:اچھائی کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے،یعنی زمین کی پیداوار اور مالی فراوانی تجھے اللہ نے دی ہے تو تم بھی اللہ کے حقوق اور اس کے بندوں کےحقوق ادا کرو۔
(۴)حَسَنَة کا ایک معنی عافیت اور بیماریوں اور آفتوں سے محفوظ رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ ۔۔ ﴿٦(الرعد: ٦)
ترجمہ: یہ لوگ عافیت سے پہلے آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر نیک ہو یا برا مومن ہو یا کافر سب پر اس کے احسان کا نتیجہ ہے کہ فوراً عذاب نہیں بھیجتا
(۵)حَسَنۃ کا ایک معنی اچھی بات کہنا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔۔۔ ﴿٣٤(فصلت)​
ترجمہ: اچھی بات اور بری بات برابر نہیں ہو سکتی آپ اس طریقے سے جواب دیں جو بہتر ہو۔
یہ برائی کرنے والے سے بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود اس سے درگزر کرنا ہے جو احسان کا تقاضا ہے اس طرف اللہ تعالیٰ کے فرمان میں اشارہ موجود ہے فرمایا: وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤(آل عمران)
ترجمہ: جو اپنے غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں (ایسے )احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ۔
(۶)حَسَنَةکا ایک معنی اچھائی اور نیکی کا کام کرنا ہے۔ جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایامَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ‌ أَمْثَالِهَا ۖ ۔۔۔۔﴿١٦٠(الأنعام ) ترجمہ: جو ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس گنا بدلہ ملے گا۔
یہ اپنے نفس سے اچھائی کرنے کا نتیجہ ہے کہ اپنے نفس کو ان نعمتوں کا مستحق بنایا جن کا اللہ نے احسان کرنے والوں کےساتھ وعدہ کیا ہے فرمایا إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ۔۔۔﴿٧ (الإسراء )
ترجمہ: اگر تم اچھائی کرو گے تو وہ تمہارے اپنے فائدے کے لئے ہے۔
اسی طرح فرمایا: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿١٥﴾ آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَ‌بُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ﴿١٦(الذاریات) ترجمہ: بے شک پرہیز گار لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے جو اللہ ان کوعطاکرے گاوہ لے رہے ہوں گے ۔یقینا یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) احسان کرنےو الے تھے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ محسنین کا معنی ہے کَانُوا مُحْسِنِیْنَ فِی أَعْمَالِهِمْ یعنی ا پنے اعمال میں اچھائی اور احسان کرنے والے تھے ۔([3])
حَسَنَة کے ان تمام معانی سے واضح ہوتا ہے کہ حَسَنَة اور احسان میں بنیادی تعلق اور ربط موجود ہے ۔قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جن جن معنوں میں حَسَنَة کا لفظ استعمال ہوا ہے احسان کے ساتھ اس کا ضرور ربط اور تعلق ہوگا۔([4])
اگر احسان درخت کی حیثیت رکھتا ہے تو حَسَنَة اس کے پھل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اگر احسان کا درخت پھل دینے والا ہے تو اس کا ثمرہ حَسَنَة ذائقہ دار اور خوبصورت پھل ہے ۔ دنیا اور آخرت دونوں میں ہے۔([5])

[1]- بصائر ذوي التميز (۲/465)
[2]-تفسسير القرطبي (۱۷/۱۸۲) اس کی تفسير ميں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول پہلے احسان کے مراتب ميں گزر چکا ہے۔
[3]-تفسير القرطبي (ص: ۱۷، ۳5)
[4]-نزهة الاعين النواظر (ص: ۲5۹، 260)
[5]-مدارج السالكين (2/ 479)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ذ) احسان کا مقام و مرتبہ :
امام ابن قیم رحمہ اللہفرماتے ہیں : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ: یا اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اس آیت میں بندگی اور اللہ کے سامنے عاجزی کے مرتبے بیان ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک مرتبہ احسان کا ہے اور احسان ایمان کا مغز اور اس کی روح اور ایمان کا کمال درجہ ہے باقی تمام درجے اس میں جمع ہیں اللہ تعالیٰ کاکلام اس پر شاہد ہے۔ فرمایا هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠( الرحمن)ترجمہ: احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔ اس لئے کہ احسان حقائق کے تمام اقسام کا مجموعہ ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی ایسی بندگی کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔
سورۂ رحمٰن کی مذکورہ بالا آیت میں پہلے احسان سے مراد کلمہ توحید لا الہ الا اللہ ہے اور دوسرے احسان سے مراد جنت ہے۔جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بعض دیگر مفسرین نےکہا ہے ۔یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کلمہ توحید کا اقرار کرے اور محمد رسول اللہ
کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرے۔ اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ نبی کریم سے منقول ہے کہ آپ نے مذکورہ بالا آیت کریمہ تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے (اس آیت میں ) کیا فرمایا؟ صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (اس آیت مبارکہ میں) یہ فرمایا ہے کہ جس پر میں اپنا احسان کر کے اس کو عقیدۂ توحید اپنانے کی توفیق دےدوں تو اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ( جب عقیدۂ توحید کی توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ رکھنا درحقیقت اللہ کا احسان ہے تو)اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہونا چاہئے اس کو اپنے اوپر نگہبا ن و نگران سمجھتے ہوئے اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے اس سے محبت اور اس کی صحیح پہچان اور اس کے لئے اخلاص اپنے دل میں رکھنا چاہئے اور ایمان کے مسائل میں اس کے لئے مخلص ہونا چاہیئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(س) احسان اور انعام میں فرق:

انعام کسی اور پر کوئی مہربانی کرنا اور کسی کے ساتھ احسان کرنےکو کہتے ہیں اور احسان عام ہے اپنے نفس کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنے کو بھی کہا جاتا ہے اور اپنے علاوہ کسی اور کے ساتھ احسان اور نیکی کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح نیت میں نیکی کا جذبہ رکھنا اور عمل و کردار میں احسان اور اچھائی (بہتری) پیدا کرنے کو بھی احسان کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ش) احسان اور عدل میں فرق:

احسان ،عدل سے بہتر اوراعلیٰ ہے اس لئے کہ عدل یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے وہ لے اور جو اس پر کسی کا حق بنتا ہے وہ دے ۔
اور احسان یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے اس سے زیادہ دے تو احسان عدل سے بڑھ کر ہے ۔عدل کی کوشش کرنا فرض ہے تو احسان کی کوشش کرنا نفل اور افضل ہے دونوں کا حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے: إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ۔۔۔﴿٩٠﴾(النحل: ) ترجمہ: یقینا اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔
اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاملات سنبھالنے کے لئے عدل اور انصاف ضروری ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ انصاف کیا جائے۔ اور عمر بن عبدالعزیز نے محمد بن کعب القرظی سے پوچھا کہ عدل کی وضاحت کیجئے، محمدبن کعب نے کہا بہت اچھا !آپ نے تو ایک عظیم چیز کے بارے میں سوال کیا ،عدل کی وضاحت یہ ہے :چھوٹوں کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ ،بڑوں کے ساتھ بیٹے کی طرح ،ہم عمر اور ہم مثل لوگوں کے ساتھ بھائی کی طرح اور عورتوں کے ساتھ بھی اسی طرح ،اور لوگوں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دو۔ لیکن غصے کی حالت میں ایک کوڑا درّہ بھی کسی کو نہ مارو ورنہ تجاوز کرنے والوں میں سے شمار ہو جاؤ گے ۔
یہ تو عدل کی تعریف ہے ۔اور جو فضل (احسان )ہے تو اس کی تعریف اور ہے اور اس کی تعریف تقریباً وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ان سے کہا کیا میں تمہیں دنیا و آخرت کے اخلاق میں سب سے اعلیٰ اور بہتر اخلاق نہ بتلاؤں؟(وہ یہ ہیں)کہ جو تجھ سے تعلق جوڑے اس سے تعلق جوڑواور جو تجھے محروم کر دے اسے دےدو، یہی احسان ہے۔([1])

[1]-المحاور الخمسة في القرآن والحديث (ص: ۱۹۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(ھ) دائرۂ اسلام میں احسان کا وسیع ہونا اور اس کے الگ الگ درجات :

احسان کے متعلق آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ میں غورو فکر کرنے سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ احسان اور عدل انسانیت کے آپس میں اعلیٰ معیار کا رشتہ ترتیب دیتا ہے اور احسان کا یہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسان کا اپنا نفس اس کا گھرانہ اس کے رشتہ دار اقربا ءپھر انسانی معاشرہ سب داخل ہیں۔

(۱)اپنے نفس کےساتھ احسان :

یہ احسان کے دائروں میں سے سب سے پہلا دائرہ ہے۔ جو اللہ کے لئے عبادت میں اخلاص اور اس کی پوری اطاعت پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ۚ۔۔۔۔﴿٧ (الإسراء )
ترجمہ: اگر تم اچھائی کرو گے تو یہ تمہارے اپنے فائدے کے لئے ہے اور اگر برائی کرو گے تو بھی تمہارا اپنا نقصان ہے۔
دوسرا دائرہ والدین کے احسان پر مشتمل ہے:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ۔۔۔﴿٢٣ (الإسراء: ٢٣)
ترجمہ: تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی (اللہ ) کی بندگی کرو اور اپنے ماں باپ کےساتھ احسان کرو ۔
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے زیرنظر کتاب میں آیت نمبر ۱۷،۲۰ اور ۲۲ اوراحادیث نمبر ۱ ،۱۵ملاحظہ کیجئے۔

(3) رشتہ دار و اقرباء کے ساتھ احسان کرنا ہے:

اس میں نسبی قرابت دار اور ہمسائے سب داخل ہیں ۔اللہ تعالیٰ نےا س کی ترغیب دی ہے فرمایا: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ۔۔۔﴿٨٣(البقرة) ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہیں کرو گے اور اپنے والدین کے ساتھ اور قرابت داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرو گے۔۔۔
اسی طرح کتاب ھذا میں آیت ۲۰ دیکھئے حدیث شریف میں بھی ہمسایہ اور پڑوسی کے ساتھ احسان کرنے کی ترغیب دی گئی ہے رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: ”وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ تَکُنْ مُسْلِماً “ اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھے طریقے سے ہمسائیگی رکھو تو تم کا مل مسلمان بنو گے۔۔۔ ۔ ([1])

احسان کا چوتھا دائرہ پچھلے دائروں سے زیادہ وسیع ہے:

اس لئے کہ اس میں وہ پورا معاشرہ اور سوسائٹی داخل ہے جس میں انسان زندگی گزارتا ہے ،اور اس میں احسان بنیادی طور پر کمزور طبقے کےساتھ تعلق رکھتا ہے جیسے یتیم ،مسکین ،مسافر اور ان جیسے دیگر محتاج۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ‌ ذِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْجَارِ‌ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورً‌ا ﴿٣٦(النساء: ٣٦)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قریبی ہمسائےکے ساتھ اور دور کے ہمسائے کے ساتھ اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ اور مسافر کے ساتھ اور جو تمہارے ہاتھوں کے نیچے (تمہارے تحت ہیں)ان کے ساتھ ۔بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور اپنی بڑائی بیان کرنےو الے کو پسند نہیں کرتا ۔

[1]-ديکھئے کتاب ھذا ميں حديث نمبر (۱6) اسی طرح حديث نمبر ۷ بھی ملاحظہ کيجئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احسان کا پانچواں دائرہ پچھلے دائروں سے بہت زیادہ پھیلا ہوا اور وسیع تر ہے۔ جو انسانی تعلقات پر مشتمل ہے حتی کے عقیدے میں مخالف لوگوں کے ساتھ بھی اس دائرے کا تعلق ہے ۔وہ یہ کہ ان سے در گزر کیا جائے ۔جیسا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّ‌فُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُ‌وا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣ المائدة
ترجمہ: ان کے عہد تو ڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کر دی اور ان کے دل ہم نے سخت کر دیئے یہ باتوں کو اپنی جگہ سے بدل دیتے ہیں ان کو جو نصیحت کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے اور آپ ہمیشہ انکی خیانتوں سے آگاہ ہوتے رہیں گے سوائے(ان میں سے ) تھوڑے سے لوگوں کے، پس آپ ان سے درگزر کیجئے اور ان سے منہ موڑیئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ([1])
ان پانچ دائروں کے ساتھ ہم ایک اور دائرہ بھی ملا سکتے ہیں جوا ن پانچوں سے زیادہ وسیع ہے اور وہ زندگی میں ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا دائرہ ہے ۔چاہے وہ نباتات ہو ں یا حیوان یاجمادات،قرآن کریم میں اس طرح اشارہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَ‌حْمَتَ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٦ الأعراف
ترجمہ: اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ کرو اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں سے قریب ہے ۔
اسی طرح وہ حدیث بھی ملاحظہ کیجئے کہ اللہ نے ہر چیز کے ساتھ احسان مقرر فرمایا ہے حدیث نمبر ۴۔

قرآن کریم میں احسان کے بیان کردہ مقامات:

احسان کے وہ مقامات جو اپنے عام معنی کے اعتبار سے مطلوب ہیں ان کی قرآن اور سنت مطہرہ نےبڑی تفصیل بیان کی ہے۔ اور یہ اتنے ہیں کہ ان کا شمار اور کا احاطہ بہت مشکل ہے اس لئے کہ ہم سے ہر حال اور ہر وقت احسان کرنا مطلوب ہے لیکن بعض اہم ترین مقامات درج ذیل ہیں۔
(۱)پیش آنے والے مشکلات کا صبر سے مقابلہ کرنا اللہ تعالیٰ فرماتےہیں وَاصْبِرْ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُحْسِنِينَ ﴿١١٥ هود
ترجمہ:اور آپ صبر کریں اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
(۲)مقتول کے ورثاء کو دیت ادا کرنا ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔۔۔ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ۔۔۔﴿١٧٨﴾ البقرة: ١٧٨
ترجمہ: پس جس قاتل کے لئے اس کے مقتول مسلمان بھائی کی طرف سے کچھ در گزر کی گئی (قصاص لینا معاف کیا گیا)ہے تو (مقتول کے وارث) اچھے طریقے سے دیت کا مطالبہ کریں اور( قاتل) اچھے طریقے (احسان) کے ساتھ دیت ادا کردے۔
(۳)جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو یا طلاق دینے کا ارادہ ہو ان سےاحسان کرنا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِ‌ضُوا لَهُنَّ فَرِ‌يضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُ‌هُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ‌ قَدَرُ‌هُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُ‌وفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦البقرة​
ترجمہ:تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی عورتوں کو طلاق دو مجامعت سے پہلے ۔۔۔ ان کو فائدہ دو عُرف کے مطابق یہ حق ہے احسان کرنے والوں پر۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ۔۔۔﴿٢٢٩ البقرة
ترجمہ: طلاق(رجعی)دو مرتبہ ہے اس کے بعد یا بیوی کو اچھے طریقے سے رکھنا ہے اور یا احسان کے ساتھ اسے الگ کرنا (چھوڑنا )ہے۔

[1]-ماجد الکيلانی نے اپنی کتاب فلسفة التربية الاسلامية (ص: ۱4۱) ميں ان پانچ دائروں کی طرف اشارہ کيا ہے۔
 
Top