- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
الاحسان
احسان
(نیکی کرنا/نیک سلوک کرنا)
(نیکی کرنا/نیک سلوک کرنا)
لغوی بحث:
احسان برائی کے مقابل میں آتا ہے اس کا اسم فاعل”مُحْسِنٌ“ہے اور امام سیبویہ کے نزدیک اس کا اسم فاعل”مِحْسَانٌ“ ہے۔اعمال میں سےمَحَاسِنٌ(اچھائیاں)مَسَاوِيءِ(برائیوں)کےمدمقابل ہیں۔ اللہ تعالی کے فرمان:وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿٢٢﴾(الرعد) کا مطلب یہ ہے ان لوگوں سے اگر کوئی بری بات کرتا ہے تو یہ اچھی باتوں سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ اور حَسَّنْتُ الشِّيْء تَحسِیناًکا معنی ہے :میں نے اس چیز کو خوبصورت اور حسین کر دیا اورأَحْسَنْتُ إِلَیْهِیاأَحْسَنْتُ بِهِ کا معنی ہے: میں نے اس سے احسان کیا ۔
ازھری نے ابو الہیشم سے نقل کیاہے کہ انہوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ کےاس فرمان : وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ ۔۔۔ (یوسف 100)کے متعلق فرمایا کہ اس کا معنی ہے: یقینا میرے رب نے میرے ساتھ احسان کیا ۔ (بِی کا معنی إلىَّ کا ہے)۔([1])
اصطلاحی وضاحت:
احسان کا اصطلاحی معنی سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ جب ایمان اور اسلام کے ساتھ احسان کا لفظ ذکر ہو تو اس سے مراد اچھی اطاعت اور عبادت کرتے ہوئے اپنے اوپر اللہ کی نگرانی پر پختہ یقین رکھنا ہے۔
رسول اللہ ﷺسے جب احسان کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی ایسی بندگی کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ لیکن جب احسان کا لفظ مطلقا ذکر ہو جائے تو اس سے مراد اچھا کام کرنا ہےاور حَسَنَ ایک وصف ہے جوحُسْن سے لیا گیا ہے۔ جیسا کہ جر جانی نے کہا جس سے مراد وہ عمل ہے جو دنیا میں قابل تعریف ہو اور آخرت میں باعث اجرو ثواب ہو ۔([2])
تھانوی کہتےہیں کہ: لفظ احسان کا اطلاق تین چیزوں میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔
(۱)کسی چیز کا طبیعت اور مزاج کے موافق ہونا ۔اس کے مقابل میں قبح ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا طبیعت کے موافق نہ ہونا ۔
(۲)کسی چیز کا اپنے کمال تک پہنچنا ۔جس کا مقابل قبح نقصان کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ علم کمال ہے تو جہل نقصان ہے۔
(۳)کسی چیز کا قابل تعریف ہونا ۔اس کے مقابل میں قابل مذمت چیز ہوتی ہے۔امام مناوی کہتے ہیں: احسان ظاہری اسلام ہے جسے
اندرونی ایمان سیدھا اور قائم رکھتا ہے اور اللہ کی نگہبانی پر یقین رکھنا اس کی تکمیل کرتا ہے۔امام راغب اصفہانی کہتےہیں جس کا م کا کرنا مناسب ہوتا ہے اسے کرنے کو احسن کہتے ہیں۔
احسان کی دو قسمیں ہیں:
(۱)کسی اور کے ساتھ اچھائی کرنا۔
(۲)اپنے عمل میں اچھائی کرنا جیسا کہ اچھا اور نفع بخش علم حاصل کرنا اور اچھاعمل و کردار اپنانا۔
علی ؓکا قول ہے کہ :لوگ اپنے علم اور اپنے عمل سے یاد کئے جاتے ہیں۔
امام کفوی کہتے ہیں: احسان انسان کا ہر وہ کام ہے جو اس انسان کے علاوہ کسی کو نفع دے جیسے بھوکے کو کھانا کھلانا وغیرہ ۔ اس طرح جس کو اس شخص نے نفع دیا وہ اس نفع کے ساتھ بنفسہ(اچھی حالت والا)بن گیا۔ تو اِحْسَانٌ(جو کہ فعل اَحسَنَ کا مصدر ہے) پہلے معنی کے اعتبار سے اس کاہمزہ تعدیت کے لئے ہے جس کا معنی ہے کسی اور کو اچھا کردینا ۔یا اس اچھائی کرنے کی وجہ سے اچھا ئی کرنے والا خود اچھا بنا تو اس میں ہمزہ (صَیْرُوْرَة: ہوجانا)کے لئے ہے جس کا معنی ہے خود اچھا بن جانا۔([3])
[1]- لسان العرب (۱/۸۷۷) طبع دارالمعارف
[2]- التعريفات للجرجاني (ص:۹۱)
[3]- کشاف اصطلاحات (۲/۱4۸)، والتوقيف علي مهمات التعارف لمحمد عبدالرؤف المناوي (ص:4۱)، والمفردات للراغب (ص:۱۱۹)