• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الادب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الادب

لغوی بحث:
لغت میں اد ب کھانے کے لئے لوگوں کو جمع کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس کے لئے آواز لگانے والے کو ”آدِب“ کہا جاتا ہے ۔اجتماعی طور پر ادب کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
ابن منظور کہتے ہیں موضوع ادب کو”
أَدَباً“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے لوگ عمدہ اوصاف کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ بری عادتوں سے رکتے ہیں ۔انہیں کا قول ہے کہ ”اَدَبَ“ کا معنی دعوت کا ہے اسی لئے د ستر خوان پر سجے کھانے کو مَاْدَبَةٌ کہا جاتا ہے (دال پر زبر اور پیش بھی پڑھا جا سکتا ہے۔) ابو زید انصاری کا قول ہے "ادب ہر اس مشق کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ انسان کوئی شرف حاصل کرے ۔اس کی جمع آدبہے اداب سکھانے کو”تَأْدِیْب“ کہتے ہیں اَدَبَ یَأْدِبُ أَدْبًا باب ضرب یضرب سے کھانے کے لئے لوگوں کو بلانا شاعر کا قول ہے :
نَحْنُ فِي الْمَشْتَاةِ نَدْعُو الْجَفَلَی
لَا تَرَی الآدِبَ فِینَا یَنْتَقِرْ

اس شعر میں آدب سے مراد کھانے کے لئے آواز لگانے والا۔
ابن مسعود فرماتے ہیں
إِنَّ ھَذَا القُرآنَ مَأْدُبَةُ اللہِ تَعَالَى فَتَعَلَّمُوا مِنْ مَأْدُبَتِهِقرآن اللہ تعالیٰ کا بچھایا ہوا دستر خوان ہے۔ اس دستر خوان سے چناؤ کرو۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ابن مسعودؓ کا مقصدقرآن کو دسترخوان سے تشبیہ دینا ہے۔ پھر ابو عبید نے درج بالاشعر بھی دلیل میں پیش کیا۔
اصطلاح میں ادب ریاضت کرنے اور عمدہ اخلاق کو کہا جاتا ہے ۔
ہر وہ ریاضت جو انسان کو شریف اور باعزت بنادے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوتاہیوں اور سیاہ کاریوں سے احتراز کرنے کو کہا جاتا ہے۔
مثلاً شان و شوکت کے ساتھ اٹھک بیٹھک بہترین اخلاق کا مالک ہونا اور دیگر لائق تحسین عادات۔
ادب اورتعلیم میں فرق یہ ہے کہ تعلیم شرعی معاملہ ہے اور ادب معاشرے کا عرف ہے یعنی ادب عام دنیاوی امر ہے جبکہ تعلیم امر دینی ہے۔ بعض نے کہا کہ لوگوں کے ساتھ سچائی سے پیش آنا یہ ادب ہے۔

اہل شریعت کے نزدیک ادب تقویٰ اور خوف الٰہی کا نام ہے حکماء کے نزدیک نفس کی حفاظت کا نام ادب ہے ۔امام ابن قیم فرماتے ہیں حقیقی ادب یہ ہے کہ بہترین اخلاق سے پیش آیاجائے ۔گفتارو کردار سمیت ہر کمال کو ظاہر کیا جائے مثلاً بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کی جائے۔
بعض نے کہا کہ ہر وہ نفیس کلام جو سننے پڑھنے والے کے دل پر مثبت اثر چھوڑدے ۔اور پھر ادب دو قسم کا ہے ادب شرعی ،اور ادب سیاسی شرعی ادب یہ ہے کہ فرائض انجام دیئے جائیں اورسیاسی ادب یہ ہے کہ زمین کو آباد رکھا جائے۔ جس کا لازمی مطالبہ قیام عدل ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ …التحريم: ٦
ابن عباس فرماتے ہیں یعنی ان کو ادب سکھاؤ اور تعلیم دو امام ابن قیم فرماتے ہیں: طرز کلام اور انداز بیان کی اصلاح کا نام علم الادب ہے اس کے ساتھ ساتھ الفاظ کی شستگی اور اسے پر اثر بنانا یہ بھی ادب کا حصہ ہے۔ بہر حال قابل تحسین ولائۃ ستائش گفتارو کردار کا نام ادب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انواع الادب
امام ابن قیم فرماتے ہیں :ادب تین طرح کاہوتاہے
اولاً:
اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ادب یہ بھی ذیلی تین قسموں پر مشتمل ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی میں اس کے احکام کا لحاظ رکھا جائے اور اپنے دل کو اس کی محبت سے لبریز کر کے دوسروں سے یکسر بے رخی اختیار کر لے اور اس کی رضا ور غبت کو ترجیح دی جائے اور اپنے حرکات و سکنات میں اس کی عظمت و جلال کو مدنظر رکھا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی فطرت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ کمالات کو قبول کرتی ہے اور پھر کمالات کی سپردگی کے لئے رسول بھیجے ۔اور کتابیں نازل فرمائی ۔اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:" وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَ‌هَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩ (الشمس)یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صفات کمال و نقصان دونوں بتادیئے۔ کہ کامیاب وہ رہے گا جو اپنے نفس کو آداب دے کر پاک و صاف کرنے اور بلند شان عنایت کرے جو آداب انبیاء نے سکھا دیئے دوسرے لفظوں میں اس کوتقویٰ کہا جاتا ہے۔
اور ناکامی اس کی مقدر ہوگی جو اپنے نفس کو گناہوں میں لت پت کر دے ،گندا میلا کچیلا کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا:
رسول کے آداب بجالانااللہ تعالیٰ کے حضور و جناب میں قرآ ن نے اس منظر کی بہتر تصویر کشی کی ہے فرمایا:
" مَا زَاغَ الْبَصَرُ‌ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧ النجم: ١٧ کہ ادب کی کیفیت یہ ہے کہ نظر یں بھی پھر نہیں رہی پلکیں جھپک نہیں رہی اور جب توجہ کا عالم یہ ہو کہ دائیں بائیں نگاہیں نہ کی جائے تو یہ ادب کمال کا کہلاتاہے اس آیت میں اور بھی عجیب عجیب راز پنہاں ہیں جسے ادب کی گہرائی کا نام دیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ وہاں بصیر و بصارت متفق تھیں جو بصر نے دیکھا مشاہدہ کیا بصیرةنے اس کی تصدیق کی کیونکہ بصارت نے حق ہی دیکھتا تھا۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَ‌أَىٰ ﴿١١النجم یعنی جو آنکھوں نے دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی اور اس لئے ابو جعفر نے ”مَا كَذَّبَ الفُؤَادُ“ پڑھا ہے یعنی دل نے نظر کو جھوٹا قرار نہیں دیا بلکہ اس کی تصدیق کی اور عام قرات بغیر شد کے ہے جس کا معنی بھی قریبا وہی ہے کہ دل نے آنکھوں کو جھٹلایا نہیں بلکہ موافقت کی اور دل و نظر دونوں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے ۔دائیں بائیں مائل نہیں ہوئے جس طرح دل کی توجہ رہی اس طرح نظر بھی اسی جانب ٹکی ٹکی باندھی رہی ۔یہ اللہ کے ساتھ کمال ادب کا معاملہ ہے ادب میں اخلاق داخل ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤القلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا:
تمام انبیاءکرام کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ادب کا معاملہ رکھنا۔ انبیاء علیھم السلام کے احوال پر غور کیا جائے تو معلوم ہو تاکہ انکا معاملہ ادب سے بھر پور رہا۔
عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ المائدة
اگر یہ بات میں نے کی تو آپ تو جانتے ہیں۔ یہ نہیں کہ میں نے یہ بات نہیں کی پھر مزید فرمایا کہ:
تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي المائدة: ١١٦ آپ تو میرے دل کی باتیں بھی جانتے ہیں ۔پھر اپنا عدم علم غیب کا اظہار کیا کہ:
وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ پھر اپنے رب کی تعریف کی کہ:
إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦ (المائدة)بے شک تو غیب جاننے والا ہے ۔پھر توحید کا اقرار کرتے ہوئے ان باتوں کی نفی کی کہ : مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْ‌تَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَ‌بِّي وَرَ‌بَّكُمْ المائدة: ١١٧ میں تو وہی کہہ سکتا ہوں جو آپ نے حکم کیا کہ بس اللہ کی عبادت کرو جو ہمارا رب ہے۔
پھر اپنی گواہی کا تعجب کیا کہ: وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ ۚالمائدة: ١١٧ میں جب تک زندہ تھا میں ان کو دیکھتا تھا مگر جب آپ نے مجھے اٹھالیا پھر تو آپ ہی دیکھنے والا رہ گئے۔
پھر اللہ کے علم کی وسعت بیان کی فرمایا کہ: وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧ (المائدة)سب سے بڑے گواہ آپ ہو اور ہر چیز پر گواہ ہو۔
پھر فرمایا : إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ المائدة: ١١٨ اگر آپ انہیں عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں آپ کا حق ہے اور اس جملہ اد کی انتہاء ہو گئی ہے کہ مالک کو چاہیے کہ وہ غلاموں پر فضل احسان کرے اور یہ تیرے غلام ہیں بندے ہیں کسی اور کے نہیں تو جب یہ تیرے بندے ہیں تو ظاہر ہے آپ انہیں بلا وجہ وسیع تو عذاب نہیں دیں ۔ان کی سر کشی اور ان کے گناہ ہی باعث عذاب ہو نگے ۔اور یہ بات بھی گذر چکی کہ: إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦ (المائدة)آپ غیب جاننے والے ہیں یعنی یہ تیرے بندے ہیں آپ کو ان کی ہر بات کا علم ہے لہٰذا آپ انہیں برحق ہی عذاب دینگے ۔تو یہ اللہ کی حکمت و عدل کا اقرار ہے اور اس بات کا کہ یہ لوگ عذاب کے حق دار ہونگے ۔
پھر فرمایا: وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨ (المائدة) اگر آپ نے انہیں بخش دیا تو بے شک آپ غالب اور حکمت والے ہیں یہ نہیں کہاکہ: يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٠٧ (يونس)آپ غفور رحیم ہیں کیونکہ یہ مقام نرمی و سفارش کا نہیں بلکہ اظہار برأت کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت غصہ میں ہونگے اور انہیں جہنم کا پروانہ دے چکے ہونگے۔ اگر کہتے کہ:انک غفور رحیم تو اس سے معلوم ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کے متعلق نرمی کا مطالب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تو ان پر غصہ ہیں تو جس پر اللہ غصہ ہیں ان پر اس وقت غصہ ہو جائے تاکہ اللہ کے ساتھ موافقت ہوجائے۔ نہ کہ مخالفت میں صفات استعمال کی۔ مقصد یہ آپ اگر بخشیں گے تو اس لئے بخشیں گے کہ وہ اس قابل ہیں یہ نہیں کہ آپ کہیں عاجز آگئے یا آپ کو ان کی اکثر خطاؤں کا علم ہی نہ ہو ایک انسان دوسرے کو اس لئے معاف کرتا ہے کہ یا تو وہ عاجز ہے یا اسے دوسرے کی کرتوتوں کا مکمل علم نہیں جبکہ کمال یہ ہے کہ قدرت علم ہونے کے باوجود بخشش کردی جائے اور یہ صفت ایک عزیز و حکیم کی ہے تو یہ بھی ادب کی انتہاء ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض آثار میں ہے کہ عرش کے حامل فرشتے چار ہیں دو کہتے ہیں پاک ہے تو اللہ اور ہمارے رب ساتھ میں تیری تعریف بھی ہو آپ کے لئے ہو کہ علم ہو نے کے باوجود نرمی کا برتاؤ کرتا ہے اور دوسرے دو کہتے ہیں کہ "سبْحَانَكَ اللهم رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ لَكَ الْحَمْدآپ کے لئے تعریف ہو کہ طاقت ہونے کے باوجود معاف فرماتا ہے۔کہ ہر دو فرشتے قدر و علم کی صفت کو دیگر اوصاف کے ساتھ ملا لیتے ہیں۔
إِن تُبْدُوا خَيْرً‌ا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرً‌ا ﴿١٤٩النساء: ١٤٩
اور اسی طرح ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾ وَإِذَا مَرِ‌ضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠الشعراء
جس ذات نے مجھے پیدا کیا تو ہدایت بھی دےگا کھلائے گا پلائے گا بھی وہی ۔اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے اور دیگا ۔ یہاں ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ جب وہ مجھے بیمار کر دیتا ہے تو شفا بھی دیتا ہے۔
خضر علیہ السلام فرماتے ہیں:
فَأَرَ‌دتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ ۔۔۔ ﴿٧٩الكهف: ٧٩
میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں۔یہ نہیں فرمایا کہ رب نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادے جیسے کہ ان بچوں کے متعلق فرمایا کہ :
فَأَرَ‌ادَ رَ‌بُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا۔۔۔۔۔الكهف: ٨٢
رب نے چاہا کہ یہ دونوں جوانی کو پہنچ کر مضبوط ہو۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح وہ جن جوقرآن سن کر ایمان لے آئے تھے انہوں نے کہا کہ:
وَأَنَّا لَا نَدْرِ‌ي أَشَرٌّ‌ أُرِ‌يدَ بِمَن فِي الْأَرْ‌ضِ أَمْ أَرَ‌ادَ بِهِمْ رَ‌بُّهُمْ رَ‌شَدًا ﴿١٠الجن: ١٠
ہمیں معلوم نہیں کہ اہل زمین کے بارے میں کوئی برا فیصلہ ہوا ہے یا: (أَرَادَهُ رَبُّهُمْ) رب نے ان کے ساتھ نیک سلوک کا ارادہ کیا ہے پہلے برے فیصلہ کے بارے میں یہ کہا کہ رب نے برا فیصلہ کیا جبکہ خیر کے متعلق کہا کہ: أَمْ أَرَ‌ادَ بِهِمْ رَ‌بُّهُمْ رَ‌شَدًا الجن
ان کے رب نے ان کے بارے میں رشد کا ارادہ کیا ہے۔
اور ان سے بھی مزیدار بات موسیٰ علیہ السلام کی ہے فرمایا :
فَقَالَ رَ‌بِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ‌ فَقِيرٌ‌ ﴿٢٤القصص
کہ مجھے جو خیر عنایت فرمائیں گے میں اس کا محتاج ہوں۔ یہ نہیں کہا کہ یا اللہ مجھے کھانا کھلادو۔۔۔۔۔
آدم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
رَ‌بَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا ﴿٢٣ الأعراف
اے ہمارے رب ہم نے ہی ظلم کیاہے یہ نہیں کہاکہ تو نے تقدیر میں لکھا تھا سو ہو گیا۔
ایوب علیہ السلام فرماتے ہیں أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ‌ وَأَنتَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿٨٣ الأنبياء
یہ نہیں کہا کہ بس مجھے شفاء دے اور عافیت دے۔
یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَ‌جَنِي مِنَ السِّجْنِ ۔۔۔۔﴿١٠٠ يوسف
میرے رب نے میرے ساتھ بہت اچھا کیا کہ مجھے جیل سے نکالا یہ نہیں کہا کہ مجھے کنویں سے نکالا کیونکہ یہ بات بھائیوں کے ادب کے خلاف تھی۔
نبی علیہ الصلوہ والسلام نے فرمایا کہ تنہائی میں بھی اپنی شرمگاہ کو پردہ میں رکھو اگرچہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا مگر اللہ تو سمیع بصیر ہے اس کی بزرگی شان کبریائی کا ادب کرتے ہوئے کوئی اکیلے میں بھی ننگانہ ہو۔ (راجع الكتاب الأصل من صفحة رقم 146 إلى 147)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ادب مع الرسول علیہ الصلاۃ والسلام رسول ﷺکے ادب میں اس کی بے لوث اطاعت اس کی فرمانبرداری اس کی بات کے آگے سر تسلیم خم کرنا سب شامل ہے۔
مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺکے حکم سے آگے نہ بڑھا جائے اس کے امرو نہی کا پاس رکھا جائے آج کے دور میں اس کا مصداق یہ ہے کہ اس کی سنت سے روگرانی نہ کی جائے ۔
امام مجاہد فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ ۔۔۔۔ ﴿١ الحجرات
کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکے حکم سے آگے نہ بڑھو۔
عرب کہتے ہیں:”لَا تَقَدَّمْ بَیْنَ یَدَيِ الأَبْ أَى لَا تَعْجِلُوْا بِالْأَمْرِ وَالنَّهْیِ دُوْنَهُ“ ۔ کہ باپ کے حکم اور منع کرنے سے پہلے جلدی نہ کرو یعنی جب وہ حکم کرے سو کام میں جتھ جاؤ جب منع کرے فوراً رک جاؤ۔
اسی طرح رسول ﷺکی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کی جائے کیونکہ اس سے اعمال اکارت ہو جاتے ہیں ۔تو سوچے کہ جو لوگ رسولﷺ کی حدیث پر لوگوں کی رائے اور اجتہاد کو ترجیح دیتے ہیں کس سزا کے حق دار ہیں۔ ان لوگوں کے اعمال برباد نہیں ہونگے ؟بلکہ قبول کر لئے جائیں گے؟
اسی طرح رسول ﷺکا بلاوہ دوسروں کی طرح نظر انداز نہ کی جائے لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّ‌سُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ النور: ٦٣
اسی طرح صحابہ کرام جب نبی ﷺکی مجلس میں بیٹھے ہوتے تھے تو کوئی بھی بغیر اجازت کے کسی کام کے لئے کسی ضرورت و حاجت کے لئے اٹھ کرنہیں جاتا تھا بلکہ اجازت لیتا پھر اپنے کام سے جا سکتا تھا۔ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ‌ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ ۔۔۔﴿٦٢ النور: ٦٢
ھذا القیاس ادب کا تقاضہ ہے کہ اس کی بات کو کسی رائے کے مقابلہ میں ٹال نہیں دیا جائے اور نہ کوئی قیاس اس کی نص کے مقابلہ میں لایا جائے بلکہ قیاسات وآراء کو کوڑے دان کی نذر کرکے اس کی سنت کو سینےسے لگالیا جائے۔ اسی طرح کسی اپنے بزرگ امام کے قول کے موافقت کے لئے رسول ﷺکا کلام حقیقۃ الحال سے پھیرا نہ جائے اور اس کی بات کے لئے کسی کی موافقت کی ضرورت محسوس نہ کی جائے اور نہ اس کا انتظار کیا جائے کہ کوئی صاحب حدیث کی موافق بات کریں تو حدیث کو مانیں گے ورنہ۔۔۔۔کسی کا کہنا ہے کہ ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے مودب رہو اگر ظاہر میں بے ادبی ہو جائے تو ظاہری سزا بھگتنی ہو گی اگر باطن میں ادب کا پاس نہیں رکھا تو باطنی طور پر انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں جو شخص ادب کے معاملہ میں لا پروائی کرتا ہے اسے سزا یہ ملتی ہے کہ سنت اس سے چھوٹ جاتی ہے اور جو سنت کے بارے میں بے فکری اختیار کرتا ہے اس سے فرائض چھڑا لے جاتے ہیں اور جس سے فرائض چھوٹ جائے اس سے اللہ تعالیٰ اپنی معرفت چھین لیتا ہے۔
بعض نے کہا کہ عمل میں ادب کا لحاظ رکھنا قبولیت عمل کی علامت ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ادب اس انداز سے کیا جائے کہ اس کے دین پر مکمل کار بند رہا جائے ظاہر بھی باطن بھی اللہ کا ادب اس وقت حاصل ہو گا جب انسان اس کو اس کے اسماء و صفات سے پہچان لے اس کے دین و شریعت کو پہچان لے اس کی پسند نا پسند کاخیال کرے۔ اس کے کلام کو ادب کے ساتھ تلاوت کرے اس پر غور کرے کیونکہ اس میں اللہ کا تعارف و پہچان ہے اس کی طرف جانے والا راستہ بھی یہی ہے اور مومن کی شان یہ ہےکہ :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢الأنفال
جب وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں اللہ سے عجزو انکساری کے ساتھ دعاء مانگنا بھی ادب کا حصہ ہے ۔اسی طرح اللہ سے عبادات کی توفیق مانگنا بھی ادب کا تقاضا ہے نبی علیہ السلام دعا مانگا کرتے تھے "اللھم اعنی۔۔۔۔۔" اسی طرح اللہ کی پاکی بیان کرنا اس کی تعریف و ستائش کرنا اس کا شکر ادا کرنا اس کے اسماء وصفات کو بطور و سیلہ پیش کرنا استغفار کرنا اس سے مدد مانگنا اس کے در میں فریاد کرنا ہر معاملہ میں اس پر توکل کرنا یہ سب ادب کے اجزاء لا ینفک ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الادب مع اللہ فی العبادۃ
امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا کہ نماز میں ادب سے کھڑا ہوا جائے کہ تھوڑا جھکا ہوا ہو نظریں جھکیں ہوئی ہوں اور کبھی بھی اوپر نگاہیں نہ اٹھائے۔ اور سکون سے کھڑا رہے عقبہ بن عامر سے پوچھا گیا کہ "الذین ھم علی صلاتھم دائمون" کا معنی یہ کہ وہ ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں ؟فرمایا نہیں بلکہ اصل ادب ہی یہ ہے کہ ادھر اس کا حکم آجائے ادھر گردن جھک جائے فوراً امنا وصدقنا کی صدا بلند ہوجائے یہ نہیں کہ پہلے اسے اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے یا کسی امام کی اجتہاد کو دیکھنا ضروری تصور کر لیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو ہی اپنا حکم تسلیم کر لیا جائے یہ نہیں کہ اگر ہمارے امام و مذہب کی اجازت ہوتی تو حدیث سر آنکھوں پرنہیں تو حدیث کو قابل اعتناء نہ سمجھا جائے۔
ابن قیم فرماتے ہیں ایک بارمیں نے مقلد سے پوچھا کہ فرض کر لو رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود زندہ ہیں اور ہمیں کوئی حکم دیتا ہے تو کیا ہم اس کی بات مانیں گے یا کسی اور کی طرف سے اجازت کے منتظر ہونگے۔ انہوں نے کہاکہ فوراً حکم کی تعمیل کریں گے میں نے کہا پھر وہی حکم جب کتاب میں موجود ہے تو کیونکہ اس سےبے اعتنائی برتی جاتی ہے اور کیونکر قابل عمل ہیں؟ منہ دانت دبا کر رہ گیا اور مزید ایک بات بھی نہ کی۔
لہٰذا جب اس کی آواز سے اونچی آواز عمل کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے تو اس کی حدیث سے کسی کی رائے و فکرکو بلند رکھنااورسمجھنا کیا بربادی اعمال کا باعث نہیں ہوگا ؟ لا محالہ ادب یہی ہے کہ اس کی حدیث کی مخالفت نہ کی جائے کسی اور کو بیچ میں نہ لایا جائے اور معرفت اور احکام دونوں اسی سے حاصل کی جائے ایسے نہیں کہ معرفت الٰہی کے باب میں اپنی بھٹکی ہوئی عقل کو رہنما تسلیم کر لیا جائے احکام میں بعض الناس کی باتوں کو دین سمجھاجائے اور قرآن و حدیث کو ہی ترک کے لئے پرکھاجائے ۔نہ اصول دین میں اس کی ضرورت محسوس کی جائے اور نہ فروغ دین میں بلکہ جو لوگ قرآ ن وحدیث کو مشعل راہ بنائے ہم ان سے دشمنی مول لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ادب مع الخلق
انسانوں کے ساتھ جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو وہ مختلف مراتب پر محمول ہے ہر شخص کا ادب اس کی شان و مرتبہ کے لحاظ سے کیا جائے گا۔
والدین کے ساتھ علماء اساتذہ کے ساتھ اور بادشاہ کے ساتھ ان کے مرتبہ کے موافق ادب بتا جائے گا دوستوں کے ساتھ اس لحاظ سے نا اشناؤں کے ساتھ ادب کا طریقہ کار کوئی اور ہوگا مہمان کا ادب مختلف ہوگا اسی طرح ہر حالت میں الگ طرز انداز ۔۔۔۔۔
کھانے پینے کے اداب کچھ اور تو آنےجانے کے کچھ اور سفر حضر کے کچھ اور سونے جاگنے کے کچھ اور قضائے حاجت جدا اداب میں بات کرنے کے اداب مختلف ہیں۔ باادب ہونا خوش قسمتی وہ کامیابی کی علامت ہے اور سوء ادب بدبختی اور خسارہ کی نشانی ہے دنیا کا بہترین سرمایہ ادب ہے اور سب سے بڑا فر ادب کا فقدان ہے۔
دیکھئے والدین کا ادب کرنے سے کتنا فائدہ ہوا کہ غار میں قید شخص اس وسیلہ سے نکل آیا اور نجات پا گیا اور بے ادبی کا نتیجہ جنید داہب کو کس زندان سہنا پڑا کہ عبادت گاہ ڈھادی مارا پیٹا گیا اور فحاشی کا کا لک مل دیا گیا۔
آپ ہر بدقسمت کی زندگی کو ٹٹول کر دیکھیں اس میں آپ کو والدین کے ساتھ بے ادبی ضرور ملے گی جس کی وجہ سے وہ محرومیوں کا شکار ہوا ۔اچھے اخلاق اور ادب یہ رسول ﷺ کی پیروی کا نتیجہ اور اللہ کا احسان ہے "وانک لعلیٰ خلق عظیم" نبی ﷺ نے فرمایا میری بعثت کا مقصد بہترین اخلاق کی نشوونما ہے ۔اور آخرت میں اچھے اور بہترین اخلاق کابدلہ صرف جنت اور اس کی نعمتیں ہیں اور اخلاق جتنے بہترین ہونگے اتنا ہی انسان جنت میں سید البشر ﷺ کی قربت پائے گا۔ اور آپ کی محبت نصیب ہو گی "ان احبکم ٔالی واقربکم منی مجلسا یوم القیامۃ احسنکم اخلاقا۔۔۔۔" الحدیث ،نبی ﷺ نے فرمایا میزان میں اچھے اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی ۔فرمایا جس کا اخلاق جتنا اچھا اس کا اسلام اتنا بہترین و قابل رشک ۔مزید فرمایا ایمان کی تکمیل یہ ہے کہ اخلاق اچھے سے اچھے ہوں۔ اچھے اخلاق کا لازمی نتیجہ انتہائی ادب پر منتج ہے۔
جتنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہوگا اتنا ہی کوئی شخص باادب تصور کیا جائے گا اور جوامع الکلم کے مالک رسول اللہ ﷺ نے وہ بنیاد بتادی جس پر اخلاق کی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے ۔فرمایا:"لا مؤمن احدکم حی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ"اللہ تعالیٰ پر ایمان اور رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کا لازمہ یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ ادب سے پیش آیاجائے ۔اور ان کے ساتھ اخلاق کا برتاؤ کیا جائے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ روا رکھا جائے ۔تو اللہ کی محبت کا حصول ممکن ہوگا وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٦٩العنكبوت
اللہ کی معیت احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ انسان جب اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند کرے گا جو اپنے لئے کرتا ہے تو پھر اپنے نفس سے مجاہدہ کرے گا پھر لالچی نہیں بنے گا نفس امارہ کمزور ہو گا مال و دولت کی محبت میں نہیں پڑھے گا۔ تکبر وحسد کا شکار نہیں ہوگا۔ بلکہ ساتھ میں اللہ کی محبت ایثار کا جذبہ سخاوت ،جود ،تواضع ،انکساری ،انفاق فی سبیل اللہ ،صدقہ، خیرات کا جذبہ حاصل ہوگا۔پھر ان اوصاف کو مزید احسان رحم و کرم شفقت و رحمت عفو درگز روفا و داد رسی عدل و انصاف ذہانت و سچائی کے ذریعہ مضبوط کرے گا ۔فرمان نبوی ہے ”ما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبه“ فرائض کے علاوہ نیکیاں کر کر کے انسان اس درجہ تک پہنچتا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے ۔
 
Top