• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الادب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں افضل عمل یہ ہے کہ فرائض بجا لائے اللہ کی حرام کردہ امور سے بچا جائے اور نیت صاف رکھی جائے۔اللہ کی طرف دعوت کے لئے کسی سے مناظرہ اور گفتگو کرنے کے آداب ایک دوسرے سے گفتگو (جوار) کا مطلب یہ ہے کہ طرفین ایک دوسرے کی بات سن کر اس کا جواب دے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُ‌هُ ….﴿٣٧الكهف
ترجمہ: "اس کے ساتھی نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔"
حوار(گفتگو) اور مناظرہ ،اصطلاحی معنی کے لحاظ سے آپس میں بھی تقریب ہیں ۔ مناظرہ یہ ہے کہ آپس میں دو گفتگو کرنے والے ایک دوسرے کی باتوں پر غور کرے تا کہ ان دونوں کی باتوں سے حق واضح ہو جائے ۔
مناظرہ اور گفتگو دونوں بہتر انداز میں مجادلہ کرنا ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔فرمایا: وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚالنحل: ١٢٥ ترجمہ: "ان سے اچھے انداز سے بحث و مباحثہ کریں ۔ ([1])

[1]- التواقيف علی امهات التعاريف (۱۴۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک طرف اسلام نے لڑائی اور ضد بازی کے مباحثے سے منع کیا اور ضد بازی کے مباحثہ کرنے والوں کو ڈرایا ہے تو دوسری طرف حق معلوم کرنے کے لئے اور اچھی رائے جاننے کے لئے آپس میں بات چیت کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ (جیسے امام غزالی نے کہاہے) یہ حق کی تلاش میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون ہے جو کہ دین کا حصہ ہے ۔آپس میں گفتگو کرنے والوں کو درج ذیل شروط کی پابندی کرنی چاہیئے:

(۱)مناظرہ اور گفتگو کی وجہ سے فرض عین (فرائض )نہ چھوڑے اس لئے کہ دینی معلومات کے لئے بحث مباحثہ فرض کفایہ ہے ہر کسی پر الگ الگ فرض نہیں۔
(۲)مناظر اور گفتگو کرنے والے کے سامنے اس وقت اور اس جگہ کوئی اور اس سے اہم فرض کفایہ موجود نہ ہو۔
(۳)مناظر اور گفتگو کرنے والا اپنے علم اور فہم سے بات کرے کسی اور کے مذہب اور رائے پر مناظرہ نہ کرے۔
(۴)جس مسئلے میں مناظرہ ہو وہ واقع ہونے والا ہو یا واقع ہو چکا ہو۔ فرضی یا غیر پیش آنے والے مسئلے میں مناظرہ نہ ہو کیونکہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم) صر ف اس وقت ایک دوسرے سے رائے لیتے اور مشورہ لیتے جب کوئی نیا مسئلہ پیش آتا ۔یا جس مسئلے کے پیش آنے کا غالب امکان ہوتا۔
(۵)مناظرہ تنہائی میں ہو کیونکہ حکمرانوں کے سامنے اور عام مجالس میں مناظرہ کرنے سے زیادہ فائدہ مند اور بہتر ہوتا ہے اسلئے مجمع کے سامنے بندے میں ریاء پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور اپنے آپ کو ہر صورت میں غالب ثابت کرنے کا حرص ہوتا ہے وہ حق پر ہو یا غلطی پر۔
(۶)مناظرہ کرنے کا مقصد صرف حق کو تلاش کرنا ہو جیسے کوئی شخص گم شدہ چیز کو ڈھونڈ رہا ہو اس کو اپنے ہاتھ پر گم شدہ چیز مل جائے یا کسی اور کےہاتھ پر ہر صور ت میں وہ اسے قبول کرتا ہے اور لے لیتا ہے۔
(۷)مناظرہ کرنے والے ہر ایک دوسرے کو اپنا معاون تصور کرے نہ کہ دشمن اور مد مقابل اور جب اس کے ساتھ مناظرہ کرنے والا اس کی کسی غلطی کی نشاندھی کرے اور اس پر حق واضح کردے تو یہ اس کا شکریہ ادا کرے۔
(۸)اپنے ساتھ مناظرہ کرنے والے کو اس سے نہ روکے کہ وہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف منتقل ہو جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مناظرے اور مباحثے دیکھے جائیں تو وہ اسی قسم کے ہیں ان میں سے جس کے ذہن میں جو دلیل آتی وہ اسے بیان کرتے اور سب اس میں غورو فکر کرتے۔
(۹)مناظرہ صرف ایسے شخص کے ساتھ کیا جائے جس سے کسی علمی فائدہ ملنے کی امید ہو۔([1])

[1]- احياء علوم الدين (۱/۴۴) اختصار کے ساتھ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اپنے نفس کے ساتھ ادب سے پیش آنا
امام ماوردی کہتے ہیں،کہ نفس کے مزاج میں کچھ بے کار عادتیں اور بے ھودہ اخلاق رکھے گئے ہیں جس میں اچھے اخلاق ڈالنے کی تربیت ضروری ہے ۔اور جو اچھی عادتیں اس میں ہیں ان کو مہذب بنانا بھی ضروری ہے کیونکہ اچھی عادات کے مقابلہ میں بری عادتیں ہیں جو خواہشات نفس اور شہوات کی مدد سے قوت پکڑتی ہیں اگر انسان اپنے
نفس کو اچھی عادات کی تربیت پر توجہ نہ دے تو اسکی یہ غفلت اس کے مزاج سے اچھی عادات نکال دے گی۔ پھر بے مراد لوگوں کی طرح پچھتائے گا ۔لیکن ادب سے خالی ہو گا اس لئے کہ ادب تجربہ اور محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ یا
کسی کی اپنی عادت ڈالنے سے اس کو ادب حاصل ہوتا ہے ۔اور ہر قوم میں الگ الگ مزاج رکھے گئے ہیں۔ لیکن ادب کلی طورپر صرف عقل سے حاصل نہیں ہوتا اور نہ مزاج کے تابع ہونے سے ادب حاصل ہوتا ہے۔
بلکہ مشقت اور محنت کے کرنے اور اپنے اندر اچھی عادات ڈالنے سے ادب حاصل ہوتا ہے۔ اور عقل پھر اس کی نگرانی کرتی ہے۔ اور اگر صرف عقل سے ادب حاصل ہوتا تو انبیاء کو وحی آنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ وہ عقل کو ہی کافی سمجھتے ۔([1])

[1]- أدب الدنيا والدين للماوردي (۲۲۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انسان کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا ادب:
دو قسم کا ادب ہے جو انسان کی پیدائش سے اس کے بڑھاپے تک اس کے ساتھ رہتا ہے ۔
(۱)ایک جو خود اس کے مزاج کے اندر رکھا گیا ہے
(۲) دوسرا جو اس کو محنت اور اپنے نفس کی اصلاح سے حاصل ہوتا ہے۔
خود کسی قوم کے مزاج کے ادب سے مراد وہ عادات ہیں جو عقل مند لوگوں کے ہاں اچھی سمجھی جاتی ہیں۔ اور ادباء اس کو اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جیسے کسی کو مخاطب کرنے کے لئے سلجھے ہوئے الفاظ کا استعمال یا کسی قوم کا کسی لباس کی ھیئت کو اختیار کرنے پر اتفاق ۔جو انسان اس متفقہ طرز تخاطب اور پہنادے سے تجاوز کرتا ہے۔ وہ ادب کا مخالف اور قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔
(۲)اصلاح نفس کی کوشش اور محنت سے جو ادب حاصل ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے انسان اپنے آپ کو اس کام پر مجبور کرے جس کی مخالفت عقلمند کے خلاف ہو اور عاقل لوگوں کو اس کی اچھائی میں شک نہ ہو۔
اس میں پہلی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر حسن ظن نہ کرے کیونکہ اپنے بارے میں حسن ظن رکھنے سے اپنی برائیاں اور برے اخلاق آدمی کو نظر نہیں آتے ۔کیونکہ نفس برائی کا حکم دیتا ہے اور اچھے کاموں سے نفرت کرتا ہے۔ تو نفس پر حسن ظن کرنا اپنے اختیارات نفس کے ہاتھ میں دینے کے مترادف ہے اور اپنے نفس کو اپنے اوپر حاکم مسلط کرنا اخلاق کی خرابی کا ذریعہ ہے۔ اور جب نفس پر حسن ظن نہ ہو تو غلطیوں اور کوتاہیوں پر آدمی اپنا احتساب کرتا ہے اور اپنی غلطیوں سے با ز آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محنت اور مشقت سے حاصل ہونے والے ادب کی مختلف صورتیں:

(۱)تکبر اور اپنے نفس مال و جاہ پر فخر کرنے سے بچ کر رہنا۔
اس لئے کہ یہ دونوں( تکبر اور فخر) انسان سے اچھی خصلتیں نکال کر اس میں بری خصلتیں پیدا کرتے ہیں۔ جس پر تکبر اور فخر مسلط ہو وہ نصیحت کی بات سننے کے لئے تیار ہوتا ہے نہ کسی سے ادب سیکھنا گوارا کرتا ہے ۔تکبر انسان اپنے مقام اور مرتبے وعہدے کی وجہ سے کرتا اور فخر کسی نعمت اور کثرت کی وجہ سے تو متکبر شخص اپنے آپ کو سب سے بڑا جانتا ہے تعلیم دینے والے اور نصیحت کرنے والے اس کو بہت کم تر اور حقیر نظر آتے ہیں۔ اور فخر کرنے والا مزید کسی سے کچھ سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
مزید برآں تکبر لوگوں کے دلوں میں نفرت بٹھاتا ہے اور انسان کو کسی سے محبت اور دوستی کرنے سے غافل کرتا ہے۔ اور بھائیوں کے درمیان بغض اور عناد پیدا کرتا ہے اور اپنے نفس پر فخر کرنے سے انسان کی خوبیاں چھپ جاتی ہیں اور برائیاں سامنے آتی ہیں اور انسان ہر کسی اچھائی کرنے سے اپنے نفس پر فخر کرنے کی وجہ سے رک جاتا ہے۔
(تکبر کے مزید نقصانات کے لئے صفات مذمومہ میں سے کبر کا مطالعہ کیجئے)

(۲)اچھے اخلاق اپنانا:
اس لئے کہ جب انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس سے محبت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ دشمنی کرنے والے کم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے مشکل کام اس کے لئے آسان ہو جاتے ہیں اور غصے سے بھرے دل اس کے لئے نرم پڑجاتے ہیں۔
اچھے اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ انسان نرم مزاج، نرم گوشہ رکھنے والے ،خندہ پیشانی سے پیش آنے والا بہت کم نفرت کرنےوالا اور اچھی میٹھی بات کرنے والا ہو۔
(مزید تفصیل کے لئے حسن الخلق کا مطالعہ کیجئے)۔

(۳)باحیا ہونا:
انسان میں خیر اور شر دونوں پوشید ہ چیزیں ہیں جو کہ انسان کے ظاہری نشانیوں سے معلوم ہوتی ہیں۔ خیر کی ظاہری نشانی حیا اور فراخدلی سے پیش آنا ہے۔ اور شر کی ظاہری نشانی بد زبانی اور فحش گوئی ہے۔
تو حیا کے خیر ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ خیر کی ایک ظاہری نشانی ہے اور بدزبانی و فحش گوئی کے شر ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ یہ شر کا راستہ ہے اور جس شخص میں حیا نہ ہو اس کو بری خصلت سے اور ممنوع کا موں سے کوئی روکنے والا اور ڈانٹنے والا نہیں ہوتا۔ جو چاہے وہ کر گزرتا ہے ۔

(۴)بردباری اور صبر اپنے اندر پیدا کرنا:
اس لئے کہ بردباری سب سے اعلیٰ اور عقل مندوں کے سب سے مناسب اخلاق میں سے ہے ۔کیونکہ اس میں عزت اور جسم دونوں کی سلامتی و حفاظت ہے ۔اور اس سے انسان قابل تعریف ٹھہرتا ہے۔ بردباری پیدا ہونے کے کئی اسباب ہیں جن میں سے رحم و شفقت بدلہ لینے کی قوت اورگالی گلوچ سے بچنے کی کوشش وغیرہ ہیں ۔
(مزید تفصیل کے لئے اس کتاب میں "حِلم "کا مطالعہ کیجئے)

(۵)سچائی کی صفت اپنانااور جھوٹ سے بچ کر رہنا ۔
(مزید وضاحت کے لئے کتاب ہذا میں الصدق اور الکذب دیکھئے۔)

(۶)حسد و کینہ سے بچ کر رہنا کیونکہ حسد ایک بری خصلت ہے جو انسان کے جسم اور دین دونوں کو تباہ کرتی ہے اور اس کی شریعت میں اگر کوئی اور قباحت بیان نہ کی جاتی تب بھی اس کا کمینہ ہونا ہی اس سے بچنے کے لئے کافی ہے۔ تاکہ انسان عزت و سلامتی سے رہے جبکہ اس سے نفس پر انسان کے خیالات اور نیتوں پر بھی بہت برا اثرہوتا ہے۔یہاں تک کہ بعض دفعہ حسد انسان کی ہلاکت اور موت کا سبب بن جاتا ہے ۔
لیکن اس سے دشمن کو کو ئی دکھ پہنچایا جا سکتا ہے نہ جس سے حسد کیا جاتا ہے اس کو اس سے کوئی تکلیف ہو سکتی ہے۔
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل اوصاف کا مطالعہ کیجئے:
الاحسان، الاخلاص، الاستقامة، التواضع، حسن الخلق، حسن ،حسن المعاملة ،الحلم، الحیاء، غض البصر، کظم الغیظ۔
اس کے مقابل میں دیکھئے:
اتباع الھویٰ، سوء الخلق، سوء المعاملة، الضف، الفجور، الفحش، الفضح، الکبر والعجب، الکذب، العو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آیات
الا دب:
الا دب مع الله عزوجل والقرآن الكريم:
(١)يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩البقرة
(١)لوگ آپ سے چاند كے بارے میں سوال كرتے ہیں آپ كہہ دیجئے كہ یہ لوگوں ( كی عبادت) كے وقتوں اور حج كے موسم كے لئے ہے( احرام كی حالت میں) اور گھروں كے پیچھے سے تمہارا آنا كچھ نیكی نہیں ،بلكہ نیكی والا وہ ہے جو متقی ہو، اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا كرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاكہ تم كامیاب ہو جاؤ۔

(٢)وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٢٤البقرة
(٢)اور اللہ تعالیٰ كو اپنی قسموں كا ( اس طرح ) نشانہ نہ بناؤ كہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں كے درمیان كی اصلاح كو چھوڑ بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔

(٣)أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ﴿٨٢﴾ النساء
(٣)كیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں كرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ كے سوا كسی اور كی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت كچھ اختلاف پاتے ۔

(٤)وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْ‌تَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَ‌بِّي وَرَ‌بَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧﴾ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ‌ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨ المائدة
(٤)حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا كہ میں وہ كھانا تم لوگوں پر نازل كرنے والا ہوں پھر جو شخص تم میں سے اس كے بعد ناحق شناسی كرے گا تو میں اس كو ایسی سزا دوں گا كہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے كسی كو نہ دوں گا۔اور وہ وقت بھی قابل ذكر ہے جب كہ اللہ تعالیٰ فرما ئے گا كہ اے عیسیٰ ابن مریم كیا تم نے ان لوگوں سے كہہ دیا تھا كہ مجھ كو اور میری ماں كو بھی علاوہ اللہ كے معبود قرار دے لو عیسیٰ عرض كریں گے كہ میں تجھ كو منزہ سمجھتا ہوں ،مجھ كو كسی طرح زیبا نہ تھا كہ میں ایسی بات كہتا جس كے كہنے كا مجھ كو كوئی حق نہیں، اگر میں نے كہا ہو گا تو تجھ كو اس كا علم ہو گا ،تو تو میرے دل كے اندر كی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو كچھ ہے اس كو نہیں جانتا ، تمام غیبوں كا جاننے والا تو ہی ہے۔میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو، جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا ،پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پرمطلع رہا۔ اور تو ہرچیز کی پوری خبررکھتا ہے۔اگر تو ان کوسزا دےتو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تو زبردست ہےحکمت والا ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(٥) قَالَا رَ‌بَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ‌ لَنَا وَتَرْ‌حَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٢٣ الأعراف
(٥)دونوں نے كہا اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان كیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ كرے گا اور ہم پر رحم نہ كرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

(٦) وَإِذَا قُرِ‌ئَ الْقُرْ‌آنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٢٠٤ الأعراف
(٦)اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس كی طرف كان لگا دیا كرو اور خاموش رہا كرو امید ہے كہ تم پر رحمت ہو۔

(٧) وَالَّذِينَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢الرعد
(٧)اور وہ اپنے رب كی رضامندی كی طلب كے لئے صبر كرتے ہیں اور نمازوں كو برابر قائم ركھتے ہیں ،اور جو كچھ ہم نے انہیں دے ركھا ہے اسے چھپے كھلے خرچ كرتے ہیں اور برائی كو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں انہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔

(٨) فَإِذَا قَرَ‌أْتَ الْقُرْ‌آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٩٨النحل
(٨)قرآن پڑھنے كے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ كی پناہ طلب كرو۔

(٩) وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿٥٣الإسراء
(٩)اور میرے بندوں سے كہہ دیجئے كہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نكالا كریں كیونكہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے بے شك شیطان انسان كا كھلا دشمن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(١٠) أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ‌ فَأَرَ‌دتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَ‌اءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ﴿٧٩﴾ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْ‌هِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرً‌ا ﴿٨٠﴾ فَأَرَ‌دْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَ‌بُّهُمَا خَيْرً‌ا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَ‌بَ رُ‌حْمًا ﴿٨١﴾ وَأَمَّا الْجِدَارُ‌ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَ‌ادَ رَ‌بُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِ‌جَا كَنزَهُمَا رَ‌حْمَةً مِّن رَّ‌بِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِ‌ي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرً‌ا ﴿٨٢ الكهف
(١٠)كشتی تو چند مسكینوں كی تھی جو دریا میں كام كاج كرتے تھے میں نے اس میں كچھ توڑ پھوڑ كرنے كا ارادہ كر لیا كیونكہ ان كے آگے ایك باشاہ تھا جو ہر ایك ( صحیح سالم) كشتی كو جبراً ضبط كر لیتا تھا۔اور اس لڑكے كے ماں باپ ایمان دار تھے ہمیں خوف ہوا كہ كہیں یہ انہیں اپنی سركشی اور كفر سے عاجز و پریشان نہ كردے۔اس لئے ہم نے چاہا كہ انہیں ان كا پروردگار اس كے بدلے اس سے بہتر پاكیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عنایت فرمائے۔دیوار كا قصہ یہ ہے كہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن كا خزانہ ان كی اس دیوار كے نیچے دفن ہے ،ان كا باپ بڑا نیك شخص تھا تو تیرے رب كی چاہت تھی كہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی كی عمر میں آكر اپنا خزانہ تیرے رب كی مہربانی اور رحمت سے نكال لیں ،میں نے اپنی رائے سے كوئی كام نہیں كیا، یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات كی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سكا۔

(١١)ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴿٩٦المؤمنون
(١١)برائی كو اس طریقے سے دور كریں جو سراسر بھلائی والا ہو، جو كچھ یہ بیان كرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں ۔

(١٢)إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥١النور
(١٢)ایمان والوں كا قول تو یہ ہے كہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے كہ اللہ اور اس كا رسول ان میں فیصلہ كر دے تو وہ كہتے ہیں كہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ كامیاب ہونے والے ہیں ۔

(١٣)الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿٧٨﴾ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿٧٩﴾ وَإِذَا مَرِ‌ضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠الشعراء
(١٣)جس نے مجھے پیدا كیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے۔وہی ہے جو مجھے كھلاتا پلاتاہے۔اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔

(١٤)أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَ‌هُم مَّرَّ‌تَيْنِ بِمَا صَبَرُ‌وا وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٥٤القصص
(١٤)یہ اپنے كیے ہوئے صبر كے بدلے دوہرا اجر دیئے جائیں گے، یہ نیكی سے بدی كو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے ركھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(١٥)الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْ‌شَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَ‌بِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَ‌بَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّ‌حْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ‌ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿٧﴾ رَ‌بَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٨﴾ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَ‌حِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٩غافر
(١٥)عرش كے اٹھانے والے اور اس كے اس پاس كے ( فرشتے) اپنے رب كی تسبیح حمد كے ساتھ ساتھ كرتے ہیں اور اس پر ایمان ركھتے ہیں اور ایمان والوں كے لئے استغفار كرتے ہیں، كہتے ہیں كہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز كو اپنی بخشش اور علم سے گھیر ركھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ كریں اور تیری راہ كی پیروی كریں اور تو انہیں دوزخ كے عذاب سے بھی بچالے۔اے ہمارے رب تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن كا تو نے ان سے وعدہ كیا ہے اور ان كے باپ دادؤں اور بیویوں اور اولاد میں سے ( بھی) ان( سب) كو جو نیك عمل ہیں،یقینا تو غالب وبا حكمت ہے۔انہیں برائیوں سے بھی محفوظ ركھ ،حق تو یہ ہے كہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت كر دی اور بہت بڑی كامیابی تو یہی ہے۔

(١٦)وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُ‌وا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥فصلت
(١٦)اور اس سے زیادہ اچھی بات والا كون ہے جو اللہ كی طرف بلائے اور نیك كام كرے اور كہے كہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں۔ نیكی اور بدی برابر نہیں ہوتی برائی كو بھلائی سے دفع كرو پھر وہی جس كے اور تمہارے درمیان دشمنی ہےایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں كو نصیب ہوتی ہے جو صبر كریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں كے كوئی نہیں پا سكتا۔

(١٧)يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿٣﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَ‌تِّلِ الْقُرْ‌آنَ تَرْ‌تِيلًا ﴿٤ المزمل
(١٧)اے كپڑے میں لپٹنے والے۔رات( وقت نماز) میں كھڑے ہو جاؤ مگر كم۔آدھی رات یا اس سے بھی كچھ كم كر لے۔یا اس پر بڑھادے اور قرآن كو ٹھہر ٹھہر كر (صاف) پڑھا كر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الا دب مع رسول الله
(١٨)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَ‌اعِنَا وَقُولُوا انظُرْ‌نَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِ‌ينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٠٤البقرة
(١٨)اے ایمان والو تم ( نبی كو)"راعنانہ "كہا كرو، بلكہ "انظرنا"كہو یعنی ہماری طرف دیكھئے اور سنتے رہا كرو اور كافروں كے لئے دردناك عذاب هے۔

(١٩)إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ‌ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ‌ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٦٢النور
(١٩)باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اوراس كے رسول پر یقین ركھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں كے جمع ہونے كی ضرورت ہوتی ہے نبی كے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تك آپ سے اجازت نہ لیں كہیں نہیں جاتے جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس كے رسول پر ایمان لا چكے ہیں ،پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے كسی كام كے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دیدیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا مانگیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا معمولی بلاوانہ کر لو جیسے آپس میں ایک کا ایک کو ہوتا ہے ۔تم سب سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں ،سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ،ڈرتے رہنا چاہے کہ ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں کوئی دکھ کی مار نہ پڑے۔

(٢٠)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ‌ نَاظِرِ‌ينَ إِنَاهُ وَلَـٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُ‌وا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّـهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ‌ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَ‌سُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا ﴿٥٣الأحزاب
(٢٠)اے ایمان والو! جب تك تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبیﷺ كے گھروں میں نہ جایا كرو كھانے كے لئے ایسے وقت میں كہ اس كے پكنے كا انتظار كرتے رہو بلكہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب كھا چكو نكل كھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا كرو، نبی كو تمہاری اس بات سے تكلیف ہوتی ہے، تو وہ لحاظ كر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ( بیان ) حق میں كسی كا لحاظ نہیں كرتا،جب تم نبی كی بیویوں سے كوئی چیز طلب كرو تو پردے كے پیچھے سے طلب كرو، تمہارے اور ان كے دلوں كے لئے كامل پاكیزگی یہی ہے، نہ تمہیں یہ جائز ہے كہ تم رسول اللہﷺ كو تكلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے كہ آپ كے بعد كسی وقت بھی آپ كی بیویوں سے نكاح كرو(یاد ركھو) اللہ كے نزدیك یہ بہت بڑا(گناہ) ہے۔

(٢١)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّ‌أَهُ اللَّـهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّـهِ وَجِيهًا ﴿٦٩الأحزاب
(٢١)اے ایمان والو ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ كو تكلیف دی ،پس جو بات انہوں نے كہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرمادیا، اور وہ اللہ كے نزدیك باعزت تھے۔

(٢٢)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْ‌فَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُ‌وا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ‌ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿٢﴾ إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَأَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿٣الحجرات
(٢٢)اے ایمان والے لوگو اللہ اور اس كے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا كرو یقینا اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی كی آواز سے اوپر نہ كرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات كرو جیسے آپس میں ایك دوسرے سے كرتے ہو، كہیں (ایسا نہ ہو كہ) تمہارے اعمال اكارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔بے شك جو لوگ رسول اللہﷺ كے حضور میں اپنی آوازیں پست ركھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن كے دلوں كو اللہ نے پر ہیزگاری كے لئے جانچ لیا ہے ان كے لئے مغفرت ہے اور بڑا ثواب ہے۔
 
Top