- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
الاستئذان
لغوی بحث:
”اسْتِئْذَان“ کا معنی اجازت طلب کرنا ہے اور یہ فعل ”اسْتَأْذَنَ“استفعال کا مصدر ہے۔ اس کا اصل مادہ”أَذِنَ“ہے جو کہ دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے ۔اول:ہر صاحب اجازت کا اجازت دینا ۔ثانی:علم و اعلام(یعنی خبر دینا)۔کہتے ہیں ”قَدْ أَذِنْتُ بِهَذَا الأَمْر“یعنی میں نے اس معاملہ کو جان لیا ہے اور” آذَنَنِی فُلاَن“ یعنی فلاں نے مجھے خبر دی اور ”فَعَلَهُ بِإِذْنِی“یعنی اس نے یہ میرے علم( یعنی جانتے ہوئے) کام کیا۔خلیل نے کہا ”أَذِنَ لِی فِی کَذَا“ یعنی اس نے مجھے اس چیز کے بارے میں اجازت دی۔نماز کی اذان بھی اسی قبیل سے ہے ۔ کیوں کہ یہ(نماز کے وقت کا)اعلان ہوتا ہے۔ اور ”أَذِنَ بِالشَّيْءِ إِذْناً وَأَذْنًا وأَذَانَةً“یعنی اس نے جانا۔اور فرمان الٰہی ہے: فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ البقرة: ٢٧٩ یعنی جان لو۔ ”وَقَدْ آذَنْتُهُ بِکَذَا“یعنی میں نے اسے بتا دیا ہے۔ اور ”اسْتَأْذَنْتُ فُلاَناً“یعنی میں نے اس سے اجازت طلب کی۔”وَاَذَّنْتُ“ کا معنیٰ ”أَکْثَرْتُ الأَعْلاَمَ بِالشَّيْءِ“ یعنی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ خبر دی۔ اور ”آذَنْتُكَ بِالشَّیْءِ“کا معنی ہے میں نے تجھے بتایا۔فرمان الٰہی ہے: آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ الأنبياء: ١٠٩ یعنی میں نے برابر سب کو خبر د ے دی ہے ۔کسی شاعر نے کہا:”آذَنَتْنَا بِبَیْنِهَا أَسْمَاءُ“یعنی اسماء نے ہمیں اپنی ناراضگی کی خبر دی۔اور ”فَعَلْتُ بِإِذْنِهِ“ کا معنی میں نے اس کے جانتے ہوئے یہ ،یہ کیا۔ یا اس کی اجازت سے اس کے حکم سے۔ اور” أَذِنَ لَهُ فِي الشَّيْءِ“کا معنی ہے اس نے اس کے لئے یہ چیز مباح کردی۔ اور ”اَذِنَ لَهُ عَلَيْهِ“کا معنی ہے اس نے اپنے لئے (یا دوسرے بند ے کے لئے) اس سے اجازت لی اورا۔”اَذِنَ“کا معنیٰ ”سَمِعَ“ یعنی اس نے سنا بھی آتا ہے ۔مثلا فرمان الٰہی ہے: وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ﴿٢﴾الانشقاق یعنی اس نے اپنے رب کو سنا۔اور ایک حدیث میں ہے”مَا أَذِنَ اللہُ لِنَبِیِّ کَأَذَنِهِ لِنَبِیٍّ یَتَغَنَّی بِالْقُرْآنِ“یعنی اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی نبی کو( اس طرح) نہیں سنا ۔ جس طرح اس نے کسی نبی کو اللہ کی کتاب کو میٹھی آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔
”اسْتِئْذَان“ کا معنی اجازت طلب کرنا ہے اور یہ فعل ”اسْتَأْذَنَ“استفعال کا مصدر ہے۔ اس کا اصل مادہ”أَذِنَ“ہے جو کہ دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے ۔اول:ہر صاحب اجازت کا اجازت دینا ۔ثانی:علم و اعلام(یعنی خبر دینا)۔کہتے ہیں ”قَدْ أَذِنْتُ بِهَذَا الأَمْر“یعنی میں نے اس معاملہ کو جان لیا ہے اور” آذَنَنِی فُلاَن“ یعنی فلاں نے مجھے خبر دی اور ”فَعَلَهُ بِإِذْنِی“یعنی اس نے یہ میرے علم( یعنی جانتے ہوئے) کام کیا۔خلیل نے کہا ”أَذِنَ لِی فِی کَذَا“ یعنی اس نے مجھے اس چیز کے بارے میں اجازت دی۔نماز کی اذان بھی اسی قبیل سے ہے ۔ کیوں کہ یہ(نماز کے وقت کا)اعلان ہوتا ہے۔ اور ”أَذِنَ بِالشَّيْءِ إِذْناً وَأَذْنًا وأَذَانَةً“یعنی اس نے جانا۔اور فرمان الٰہی ہے: فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ البقرة: ٢٧٩ یعنی جان لو۔ ”وَقَدْ آذَنْتُهُ بِکَذَا“یعنی میں نے اسے بتا دیا ہے۔ اور ”اسْتَأْذَنْتُ فُلاَناً“یعنی میں نے اس سے اجازت طلب کی۔”وَاَذَّنْتُ“ کا معنیٰ ”أَکْثَرْتُ الأَعْلاَمَ بِالشَّيْءِ“ یعنی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ خبر دی۔ اور ”آذَنْتُكَ بِالشَّیْءِ“کا معنی ہے میں نے تجھے بتایا۔فرمان الٰہی ہے: آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ الأنبياء: ١٠٩ یعنی میں نے برابر سب کو خبر د ے دی ہے ۔کسی شاعر نے کہا:”آذَنَتْنَا بِبَیْنِهَا أَسْمَاءُ“یعنی اسماء نے ہمیں اپنی ناراضگی کی خبر دی۔اور ”فَعَلْتُ بِإِذْنِهِ“ کا معنی میں نے اس کے جانتے ہوئے یہ ،یہ کیا۔ یا اس کی اجازت سے اس کے حکم سے۔ اور” أَذِنَ لَهُ فِي الشَّيْءِ“کا معنی ہے اس نے اس کے لئے یہ چیز مباح کردی۔ اور ”اَذِنَ لَهُ عَلَيْهِ“کا معنی ہے اس نے اپنے لئے (یا دوسرے بند ے کے لئے) اس سے اجازت لی اورا۔”اَذِنَ“کا معنیٰ ”سَمِعَ“ یعنی اس نے سنا بھی آتا ہے ۔مثلا فرمان الٰہی ہے: وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ﴿٢﴾الانشقاق یعنی اس نے اپنے رب کو سنا۔اور ایک حدیث میں ہے”مَا أَذِنَ اللہُ لِنَبِیِّ کَأَذَنِهِ لِنَبِیٍّ یَتَغَنَّی بِالْقُرْآنِ“یعنی اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی نبی کو( اس طرح) نہیں سنا ۔ جس طرح اس نے کسی نبی کو اللہ کی کتاب کو میٹھی آواز کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔