• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستئذان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الاستئذان کےمتعلق آثار اور علماء مفسرین کے اقوال

(۱)عمر بن خطاب نے کہا جس نے بھی اجازت ملنے سے پہلے گھر کے سوراخ کے اندر سےدیکھا (یعنی جان بوجھ کردیکھتا ہے ) تو وہ فسق (برائی اور نافرمانی) کرتا ہے ۔([1])

(۲)ابو سوید العبدی نے کہا ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان کے دروازے پر بیٹھ گئے تاکہ ہمیں اجازت دی جائے( اندر جانے کی) ہمیں اجازت ملنے میں دیر ہوئی تو میں اٹھ کر دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکنے لگا ،جس کو انہوں نے بھانپ لیا۔ پھر جب ہمیں (اندر آنے کی) اجازت دی اور ہم بیٹھ گئے تو کہا ابھی کون میرے گھر کے اندر جھانک رہا تھا؟ میں نے کہا "میں" ۔کہا کس چیز (دلیل)سے تونے میرے گھر میں دیکھنے کو حلال تصور کیا؟ میں نے کہا آپ نے ہمیں اجازت دینے میں دیر کی تو میں نے دیکھا اور جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔([2])

(۳)عبداللہ بن مسعود سے کسی آدمی نے پوچھا، کیا آدمی اپنی والدہ سے بھی (اس کے کمرے وغیرہ میں اندر)آنے کے لئے اجازت مانگے ؟ کہا وہ بھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ تو ہر حالت میں اسے دیکھے۔

(۴)ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّ‌اتٍ …(النور: ٥٨)”ان لوگوں کو جو تمہارے مملوک ہیں چاہیئے کہ تم سے (گھروں کے اندر آنے کی ) اجازت مانگیں۔۔۔“ کی تفسیر میں کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ حکمت والا اور مومنوں پر مہربان ہے۔ پردہ کو پسند کرتا ہے ،اور (ان دنوں میں )لوگوں کے گھروں کے پردے نہیں ہوتے تھے۔ پھر کبھی کبھی غلام یا بیٹا یا آدمی کی یتیم بچی گھر کے اندر آتی اور آدمی اپنے اہل کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر دہ کے اوقات میں اندر آنے کے لئے

اجازت مانگنے کا حکم دیا ہے۔([3])

(۵)ابو ہریرہ نے کہا جو شخص اجازت مانگنے سے پہلے سلام نہیں کرتا اسے اجازت نہیں دی جائے ،یہاں تک کہ پہلے سلام کرے۔([4])

(۶)جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آدمی اپنی اولاد اور ماں کے پاس اگرچہ بوڑھی ہو اور بھائی بہن اور باپ کے پاس آنے سے قبل اجازت مانگے۔([5])

(۷)ابو موسیٰ نے کہا جب تم میں سے کوئی اپنی والدہ کے پاس آئے تو اجازت مانگے۔([6])


[1] - الادب المفرد للبخاری رقم (۹۲۱)
[2] - مجمع الزوائد (۴۴/۸)
[3] - الآداب الشرعية (۳۹۳/۱)
[4] - الادب المفرد رقم (۱۰۷۰)
[5] - الادب المفرد رقم (۱۰۶۶)
[6] - الآداب الشرعية (۳۹۱/۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۸)عبداللہ بن مسعود  کی بیوی زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود جب کسی کام سے واپس آتے اور دروازے پر پہنچتے تو کھنکارتے اور (اونچی آواز کے ساتھ تھوکتے) اس لئے کہ کہیں وہ ہمارے پاس اس حال میں نہ آئیں کہ وہ اس کو نا پسند کریں۔ اور ابو عبیدہ نے کہا عبداللہ بن مسعود جب گھر میں داخل ہونا چاہتے تو بلند آواز سے بولتے ۔([1])

(۹)عطاء نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا میں اپنی بہن کے پاس جاتے وقت بھی پہلے اجازت مانگوں؟ کہا ہاں، میں نے پھر بات دھرائی اور کہا میری بہن میری پرورش میں ہے اور میں ہی ان کے خرچے کا بوجھ اٹھاتا ہوں کیا ان کے پاس جاتے وقت بھی اجازت مانگوں ؟ کہا ہاں کیا تو چاہتا ہے کہ تو ان دونوں کو ننگی دیکھے(یعنی اس وقت کپڑے کم ہوتے تھے) سوتے وقت کبھی چادر جسم سے ہٹ بھی جاتی ہے)پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّ‌اتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ‌ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَ‌ةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَ‌اتٍ لَّكُمْ ۚ ۔۔۔۔ ﴿٥٨النور:” ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پرده کے ہیں۔ “ کہا ان کو ان ہی تین پردہ کے اوقات میں اجازت مانگنے کا حکم ہے۔ کہا " وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ ۔۔۔ ﴿٥٩ النور: یعنی جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچیں تو وہ بھی اجازت مانگیں (اندر آنے کے لئے) جس طرح اس سے پہلے دوسرے اجازت مانگتے ہیں ۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لہٰذا اذن یعنی اجازت مانگنا واجب ہے۔ابن جریج نے الفاظ بڑھا ئے ہیں کہ سب لوگوں پر (فرض ہے)۔ ([2])

(۱۰)موسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے کہا میں اپنے والد کے ساتھ اپنی ماں کے پاس گیا اور جب وہ داخل ہوئے تو میں بھی ان کے پیچھے جانے لگا تو انہوں نے مڑکر دیکھا اور مجھے سینے پر ایسا مارا کہ سرین کے بل گرادیا اور کہا ،کیا تو بغیر اجازت داخل ہوتا ہے۔([3])

(۱۱)قتادہ نے لفظ "حتی تستأنسوا" سےتین مرتبہ اجازت لینا مراد لیا ہے اور کہا کہ جس کو اجازت نہیں ملتی اسے واپس چلا جانا چاہیئے ۔اور کہا پہلی مرتبہ (اتنا زور سے )بولے کہ محلے والے بھی سنیں اور دوسری بات اتنی آواز سے بولے کہ وہ خود خبردار ہو جائیں اور تیسری بار اجازت مانگنے کے بعد) وہ چاہیں تو اجازت دیں اور چاہیں تو اپنے دروازے سے لوٹا دیں کیوں کہ لوگوں کے کام کاج اور مشغولیات ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر عذر قبول کرنے والا ہے۔([4])

(۱۲)مہاجرین میں سے کسی نے کہا، میں نے اپنی ساری زندگی اس آیت پر عمل کرتے ہوئے گزاردی ہے لیکن مقصد حاصل نہیں ہوا۔ یعنی اپنے کسی بھائی سے (گھر میں جانے کی ) اجازت مانگوں پھر وہ مجھے کہے کہ واپس جا، تو میں خوشی خوشی واپس چلا جاؤں۔(ایضاً)


[1] - تفسير ابن کثير (۲۸۰/۳) (ابن کثیر فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے)
[2] - الادب المفرد رقم (۱۰۶۷) (اس کے تعلق لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ابن حجر نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے)
[3] - الادب المفرد رقم (۱۰۶۱)
[4] - تفسير ابن کثير (۲۸۱/۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱۳)ابن کثیر نے اس آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ‌ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ۔۔ ﴿٢٧النور یعنی" اے ایمان والو! اپنے سوا دوسروں کے گھروں میں تب تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت مانگو اور ان پر سلام نہ کرو" کی تفسیر میں کہا ہے یہ شرعی آداب ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسلمان بندوں کو سکھلائے ہیں یعنی گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت مانگنے کے لئےاللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ تین مرتبہ اجازت مانگنےسے پہلے کسی کے گھر میں داخل نہ ہوں۔ اور اس کے بعد سلام بھی کریں اور تین مرتبہ اجازت مانگناچاہئے۔ پھر اجازت ملتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلاجائے۔اجازت مانگنے والا گھر کے عین سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ دائیں یا بائیں کھڑا ہو۔ اور اجازت مانگنے والے سے جب پوچھا جائے کہ کون ہے تو جواب میں "میں ہوں" نہیں کہنا چاہیئے کیوں کہ یہ اچھا نہیں ہے کیوں کہ اس سے پتہ نہیں چلتا کہ اجازت مانگنے والا کون ہے؟ یہاں تک کہ اپنا نام یا کنیت جو مشہور ہو بتائے۔ ورنہ ہر کوئی اگر میں میں کہے گا تو اجازت سے جو مقصود ہے وہ حاصل نہیں ہوگا جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔

(۱۴)شنقیطی نے کہا ہے "جاننا چاہئے کہ جب اجازت چاہنے والے کو پتہ چل گیا ہے کہ گھر والوں نے سن لیا ہے تو تیسری دفعہ اجازت مانگنے کے بعد واپس چلا جائے ،کیوں کہ جب انہوں نے سن لیا اور اس کو اجازت نہیں دی ہے تو یہ اجازت نہ دینے کی دلیل ہے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ تین سے زیادہ بار اجازت نہ مانگے بر خلاف ان بعض اہل علم کے جنہوں نے کہا ہے کہ وہ تین سے زائد بار اجازت مانگ سکتا ہے اور اس طرح جب اسے پتہ نہیں چلتا کہ آیا انہوں نے سنا ہے یا نہیں تو اس پر تیسری مرتبہ اجازت مانگنے کے بعد لوٹ جانا واجب ہے ۔ دلائل کی ترجیح سے ہمیں جو بات قوی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اجازت چاہنے والا اگر سمجھتا ہے کہ گھر والوں نے اس کی بات نہیں سنی تو تین دفعہ سے مزید اجازت نہیں مانگے گا، بلکہ دلائل کے عموم سے اور ان( دلائل) میں سے کسی چیز کے بھی ان کے عدم سماع کے ساتھ غیر مقید ہونے کی وجہ سے (ثابت ہوتا ہے کہ ) وہ لوٹ جائے گا۔بر خلاف ان اہل علم کے جنہوں نے کہا کہ

مزید اجازت مانگ سکتا ہے یا جنہوں نے اس بارے میں تفصیل بیان کی ہے ۔بلکہ صواب ان شاء اللہ یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے یعنی تین سے زیادہ بار اجازت نہیں طلب کر سکتا اس لئے کہ یہی دلائل کا ظاہر ہے اور ظاہر النص سے کسی طور پر بھی عدول جائزنہیں۔ الا یہ کہ کوئی دلیل ہو جس کی طرف رجوع کرنا واجب ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الاستئذان کے فوائد

(۱)استاٴذان انسان کو یہ اختیار مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر جس طرح چاہے معاملہ چلائے یعنی اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے بغیر کسی حرج کے جس کو چاہے اجازت دے اور جس کو چاہے نہ دے۔

(۲)(فساد کے) ذرائع کا سدباب ہوتا ہے کیوں کہ عدم اجازت سے لازماً وہاں نظر جا سکتی ہے جو حلال نہ ہو اور کبھی یہ بعد میں فتنہ کا سبب بھی بنتا ہے۔

(۳)اجازت مانگنے سے اجازت لینے اور دینے والے دونوں سے حرج ختم ہوتا ہے۔

(۴)استيذان سے معاشرہ میں امان کی فضا عام ہوتی ہے۔اس سے ہر کوئی شخص اپنے گھر کے اندر کسی کے اچانک بغیر اجازت کے چلے آنے سے بے خوف رہتا ہے۔

(۵)استئذان (اجازت طلب کرنے) کی فضیلت اور بھلائی فرح و سرور پہنچاتی ہے ۔

(۶)استئذان (لوگوں کو) انسیت پہنچتی ہے ڈر اور خوف کا ازالہ ہوتاہے۔

(۷)استئذان سے گھر والے کو یہ فرصت ملتی ہے کہ وہ پردہ کا بندوبست کرے اور جس چیز کا دیکھنا نا پسند سمجھے اسے چھپائے ۔

(۸)استئذان سے دل خوش ہوتا ہے اور ان کے اندر ناراضگی نہیں آتی اور حرمت کا تحفظ ہوتاہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top