- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
الاستئذان کےمتعلق آثار اور علماء مفسرین کے اقوال
(۱)عمر بن خطاب نے کہا جس نے بھی اجازت ملنے سے پہلے گھر کے سوراخ کے اندر سےدیکھا (یعنی جان بوجھ کردیکھتا ہے ) تو وہ فسق (برائی اور نافرمانی) کرتا ہے ۔([1])
(۲)ابو سوید العبدی نے کہا ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان کے دروازے پر بیٹھ گئے تاکہ ہمیں اجازت دی جائے( اندر جانے کی) ہمیں اجازت ملنے میں دیر ہوئی تو میں اٹھ کر دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکنے لگا ،جس کو انہوں نے بھانپ لیا۔ پھر جب ہمیں (اندر آنے کی) اجازت دی اور ہم بیٹھ گئے تو کہا ابھی کون میرے گھر کے اندر جھانک رہا تھا؟ میں نے کہا "میں" ۔کہا کس چیز (دلیل)سے تونے میرے گھر میں دیکھنے کو حلال تصور کیا؟ میں نے کہا آپ نے ہمیں اجازت دینے میں دیر کی تو میں نے دیکھا اور جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔([2])
(۳)عبداللہ بن مسعود سے کسی آدمی نے پوچھا، کیا آدمی اپنی والدہ سے بھی (اس کے کمرے وغیرہ میں اندر)آنے کے لئے اجازت مانگے ؟ کہا وہ بھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ تو ہر حالت میں اسے دیکھے۔
(۴)ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ …(النور: ٥٨)”ان لوگوں کو جو تمہارے مملوک ہیں چاہیئے کہ تم سے (گھروں کے اندر آنے کی ) اجازت مانگیں۔۔۔“ کی تفسیر میں کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ حکمت والا اور مومنوں پر مہربان ہے۔ پردہ کو پسند کرتا ہے ،اور (ان دنوں میں )لوگوں کے گھروں کے پردے نہیں ہوتے تھے۔ پھر کبھی کبھی غلام یا بیٹا یا آدمی کی یتیم بچی گھر کے اندر آتی اور آدمی اپنے اہل کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر دہ کے اوقات میں اندر آنے کے لئے
اجازت مانگنے کا حکم دیا ہے۔([3])
(۵)ابو ہریرہ نے کہا جو شخص اجازت مانگنے سے پہلے سلام نہیں کرتا اسے اجازت نہیں دی جائے ،یہاں تک کہ پہلے سلام کرے۔([4])
(۶)جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آدمی اپنی اولاد اور ماں کے پاس اگرچہ بوڑھی ہو اور بھائی بہن اور باپ کے پاس آنے سے قبل اجازت مانگے۔([5])
(۷)ابو موسیٰ نے کہا جب تم میں سے کوئی اپنی والدہ کے پاس آئے تو اجازت مانگے۔([6])
[2] - مجمع الزوائد (۴۴/۸)
[3] - الآداب الشرعية (۳۹۳/۱)
[4] - الادب المفرد رقم (۱۰۷۰)
[5] - الادب المفرد رقم (۱۰۶۶)
[6] - الآداب الشرعية (۳۹۱/۱)
(۱)عمر بن خطاب نے کہا جس نے بھی اجازت ملنے سے پہلے گھر کے سوراخ کے اندر سےدیکھا (یعنی جان بوجھ کردیکھتا ہے ) تو وہ فسق (برائی اور نافرمانی) کرتا ہے ۔([1])
(۲)ابو سوید العبدی نے کہا ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان کے دروازے پر بیٹھ گئے تاکہ ہمیں اجازت دی جائے( اندر جانے کی) ہمیں اجازت ملنے میں دیر ہوئی تو میں اٹھ کر دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکنے لگا ،جس کو انہوں نے بھانپ لیا۔ پھر جب ہمیں (اندر آنے کی) اجازت دی اور ہم بیٹھ گئے تو کہا ابھی کون میرے گھر کے اندر جھانک رہا تھا؟ میں نے کہا "میں" ۔کہا کس چیز (دلیل)سے تونے میرے گھر میں دیکھنے کو حلال تصور کیا؟ میں نے کہا آپ نے ہمیں اجازت دینے میں دیر کی تو میں نے دیکھا اور جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔([2])
(۳)عبداللہ بن مسعود سے کسی آدمی نے پوچھا، کیا آدمی اپنی والدہ سے بھی (اس کے کمرے وغیرہ میں اندر)آنے کے لئے اجازت مانگے ؟ کہا وہ بھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ تو ہر حالت میں اسے دیکھے۔
(۴)ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ …(النور: ٥٨)”ان لوگوں کو جو تمہارے مملوک ہیں چاہیئے کہ تم سے (گھروں کے اندر آنے کی ) اجازت مانگیں۔۔۔“ کی تفسیر میں کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ حکمت والا اور مومنوں پر مہربان ہے۔ پردہ کو پسند کرتا ہے ،اور (ان دنوں میں )لوگوں کے گھروں کے پردے نہیں ہوتے تھے۔ پھر کبھی کبھی غلام یا بیٹا یا آدمی کی یتیم بچی گھر کے اندر آتی اور آدمی اپنے اہل کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر دہ کے اوقات میں اندر آنے کے لئے
اجازت مانگنے کا حکم دیا ہے۔([3])
(۵)ابو ہریرہ نے کہا جو شخص اجازت مانگنے سے پہلے سلام نہیں کرتا اسے اجازت نہیں دی جائے ،یہاں تک کہ پہلے سلام کرے۔([4])
(۶)جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آدمی اپنی اولاد اور ماں کے پاس اگرچہ بوڑھی ہو اور بھائی بہن اور باپ کے پاس آنے سے قبل اجازت مانگے۔([5])
(۷)ابو موسیٰ نے کہا جب تم میں سے کوئی اپنی والدہ کے پاس آئے تو اجازت مانگے۔([6])
[1] - الادب المفرد للبخاری رقم (۹۲۱)[2] - مجمع الزوائد (۴۴/۸)
[3] - الآداب الشرعية (۳۹۳/۱)
[4] - الادب المفرد رقم (۱۰۷۰)
[5] - الادب المفرد رقم (۱۰۶۶)
[6] - الآداب الشرعية (۳۹۱/۱)