- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
الاستعاذة
لغوی بحث:
”اسْتِعَاذَة اسْتِعَاذ“ (ازباب استفعال ) کا مصدر ہے اس کا اصل مادہ(ع و ذ)ہے جو کسی چیز کے ہاں پناہ لینے اور اس سے قوت لینے وغیرہ کا معنی دیتا ہے ۔بعد میں یہ ہر اس چیز کے لئے استعمال ہونے لگا جو کہ کسی چیز سے مل جائے۔ اور اس کو لازم کرے۔ خلیل نے کہا ”أَعُوذُ بِاللہِ جَلَّ ثَنَاؤُہُ أَیْ مَلْجَأُ إِلَیْهِ تَبَارَكَ وَتَعَالی عَوْذًا وَعِیَاذًا“یعنی میں اللہ کے پاس پناہ لیتا ہوں اور ”فُلَانٌ عَیَاذٌ لَكَ“ فلاں تمہارے لئے پناہ کی جگہ ہے۔ اور ”عَاذَ بِهِ یَعُوْذُ عَوْذًا وَعِیَاذًا وَمَعَاذًا: لاَذَبِهِ وَلَجَأَ إِلَیْهِ وَاعْتَصَمَ“ یعنی وہ اس کی طرف پناہ کے لئے آیا اور اس سے چمٹ گیا۔ اور”مَعَاذَ اللہِ“کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی پناہ (چاہتے ہیں) فرمان الٰہی ہے : قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ﴿٧٩﴾ يوسف یعنی ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ مجرم کے علاوہ کوئی دوسرا شخص پکڑیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک عربی عورت سے شادی کی پھر جب اس کو آپ ﷺ کے ہاں لایا گیا تو اس نے کہا:”أَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ“ یعنی میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا :”تو نے (بڑے)پناہ دینے والے سے پناہ مانگی ہے لہٰذا اب اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا“ ۔
اس حدیث میں لفظ ”مَعَاذ“ کا معنی ہے وہ ذات جس سے پناہ مانگی جائے۔ اور معاذ مصدر بھی ہے اور مکان اور زمان (یعنی ظرف)بھی۔ اور اللہ تعالیٰ” مَعَاذٌ“(پناہ دینے والا)”مَلْجَأْ“اور ”مَلاَذُ“ہے سب کا ایک ہی معنی ہے۔ اور”عُذْتُ بِفُلاَنٍ وَاسْتَعَذْتُ بِهِ “یعنی میں نے اس کے یہاں جاء پناہ لی۔فرمان الٰہی ہے فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾النحلیعنی جب آپ قرآن پڑھیں تو أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھیں ”وَوَسْوَتِهِ“ کہے۔اور ”العُوْذَةُ وَالْمَعَاذَةُ وَالتَّعْوِیْذُ“ اس رقیہ/ دم کو کہتے ہیں جو انسان پریشانی اور جنوں کی وجہ سے کرتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے پناہ لی جاتی ہے۔
اور”عَوَّذْتُ فُلاَناً بِاللہِ وَأَسْمَائِهِ وَبِالْمُعَوِّذَتَیْن“(میں نے فلاں کو اللہ اور اس کے اسماء اور معوذتین (سورۂ الفلق والناس)سے دم کیا)۔یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب تم کہو: ”اُعِیْذُكَ بِاللہِ وَأَسْمَائِهِ مِنْ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَکُلِّ دَاءٍ وَحَاسِدٍ وعَیْنٍ“یعنی میں دم کرتا ہوں تجھے اللہ اور اس کے اسماء سے ہر شر والی چیز اور ہر بیماری اور حسد کرنے والے اور نظر بد سے (یعنی ان سب چیزوں سے تجھے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں)۔اور وہ تعویذ جو لکھ کر انسان کو باندھے جاتے ہیں وہ ممنوع ہیں ان کا باندھنا جائز نہیں ہے اور ان کو ”مَعَاذَاتٌ“ کہا جاتا ہے۔
قرطبی نے کہا: ”اسْتِعَاذَة“عربی لغت میں پناہ طلب کرنے اور کسی چیز سے امتناع و دفاع کو کہتے ہیں“۔ ابن قیم نے کہا: لفظ”عَاذَ“ اور اس کےتمام تصرفات ،بچاؤ، دفاع اور نجات لینے پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے اصل معنی کے بارے میں دو قول ہیں ۔بعض نے کہا یہ”سِتْر“ سے ماخوذ ہے اور بعض نے کہا یہ ”مُجَاوَرَة“اور”التِصَاق“(یعنی کسی چیز کے ساتھ ہو جانے ) سے ماخوذ ہے۔
پہلے معنی کی مثال یہ ہے کہ وہ اس گھر کو ”عُوَّذٌ“کہتے ہیں جو کہ درخت کے تنے سے متصل ہوتا ہے ۔کیوں کہ وہ درخت کے پاس جگہ لیتا ہے اوراس کے ساتھ چھپ جاتا ہے ۔اس طرح”العَائِذ“(پناہ لینے والا)اپنے دشمن سے پناہ دینے والے کے پاس چھپ جاتا ہے۔
اور دوسرامعنی اس کا’’عُوْذٌ‘‘وہ گوشت جو ہڈی کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا”عَوِّذٌ“ کہتے ہیں ۔اور مثال ہے کہ ”أَطْیَبُ اللَّحْمِ عُوذُہُ“ یعنی بہترین گوشت وہ ہے جو ہڈی کے ساتھ چمٹا ہوا ہو ۔ اور اسی طرح پناہ چاہنے والا ”مُسْتَعَاذ“ (یعنی پناہ دینے والے)کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ۔لہٰذا دونوں قول صحیح ہیں کیوں کہ پناہ چاہنے والا پناہ دینے والے سے چمٹ جانے اور اس کے پاس چھپ جانے والا ہے۔