• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستعاذة

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

الاستعاذة


لغوی بحث:

”اسْتِعَاذَة اسْتِعَاذ“ (ازباب استفعال ) کا مصدر ہے اس کا اصل مادہ(ع و ذ)ہے جو کسی چیز کے ہاں پناہ لینے اور اس سے قوت لینے وغیرہ کا معنی دیتا ہے ۔بعد میں یہ ہر اس چیز کے لئے استعمال ہونے لگا جو کہ کسی چیز سے مل جائے۔ اور اس کو لازم کرے۔ خلیل نے کہا ”أَعُوذُ بِاللہِ جَلَّ ثَنَاؤُہُ أَیْ مَلْجَأُ إِلَیْهِ تَبَارَكَ وَتَعَالی عَوْذًا وَعِیَاذًا“یعنی میں اللہ کے پاس پناہ لیتا ہوں اور ”فُلَانٌ عَیَاذٌ لَكَ“ فلاں تمہارے لئے پناہ کی جگہ ہے۔ اور ”عَاذَ بِهِ یَعُوْذُ عَوْذًا وَعِیَاذًا وَمَعَاذًا: لاَذَبِهِ وَلَجَأَ إِلَیْهِ وَاعْتَصَمَ“ یعنی وہ اس کی طرف پناہ کے لئے آیا اور اس سے چمٹ گیا۔ اور”مَعَاذَ اللہِ“کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی پناہ (چاہتے ہیں) فرمان الٰہی ہے : قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ﴿٧٩ يوسف یعنی ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ مجرم کے علاوہ کوئی دوسرا شخص پکڑیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک عربی عورت سے شادی کی پھر جب اس کو آپ ﷺ کے ہاں لایا گیا تو اس نے کہا:”أَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ“ یعنی میں آپ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا :”تو نے (بڑے)پناہ دینے والے سے پناہ مانگی ہے لہٰذا اب اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا“ ۔
اس حدیث میں لفظ ”مَعَاذ“ کا معنی ہے وہ ذات جس سے پناہ مانگی جائے۔ اور معاذ مصدر بھی ہے اور مکان اور زمان (یعنی ظرف)بھی۔ اور اللہ تعالیٰ” مَعَاذٌ“(پناہ دینے والا)”مَلْجَأْ“اور ”مَلاَذُ“ہے سب کا ایک ہی معنی ہے۔ اور”عُذْتُ بِفُلاَنٍ وَاسْتَعَذْتُ بِهِ “یعنی میں نے اس کے یہاں جاء پناہ لی۔فرمان الٰہی ہے فَإِذَا قَرَ‌أْتَ الْقُرْ‌آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٩٨النحلیعنی جب آپ قرآن پڑھیں تو أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھیں ”وَوَسْوَتِهِ“ کہے۔اور ”العُوْذَةُ وَالْمَعَاذَةُ وَالتَّعْوِیْذُ“ اس رقیہ/ دم کو کہتے ہیں جو انسان پریشانی اور جنوں کی وجہ سے کرتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے پناہ لی جاتی ہے۔
اور”عَوَّذْتُ فُلاَناً بِاللہِ وَأَسْمَائِهِ وَبِالْمُعَوِّذَتَیْن“(میں نے فلاں کو اللہ اور اس کے اسماء اور معوذتین (سورۂ الفلق والناس)سے دم کیا)۔یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب تم کہو: ”اُعِیْذُكَ بِاللہِ وَأَسْمَائِهِ مِنْ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَکُلِّ دَاءٍ وَحَاسِدٍ وعَیْنٍ“یعنی میں دم کرتا ہوں تجھے اللہ اور اس کے اسماء سے ہر شر والی چیز اور ہر بیماری اور حسد کرنے والے اور نظر بد سے (یعنی ان سب چیزوں سے تجھے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں)۔اور وہ تعویذ جو لکھ کر انسان کو باندھے جاتے ہیں وہ ممنوع ہیں ان کا باندھنا جائز نہیں ہے اور ان کو ”مَعَاذَاتٌ“ کہا جاتا ہے۔
قرطبی نے کہا: ”اسْتِعَاذَة“عربی لغت میں پناہ طلب کرنے اور کسی چیز سے امتناع و دفاع کو کہتے ہیں“۔ ابن قیم نے کہا: لفظ”عَاذَ“ اور اس کےتمام تصرفات ،بچاؤ، دفاع اور نجات لینے پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے اصل معنی کے بارے میں دو قول ہیں ۔بعض نے کہا یہ”سِتْر“ سے ماخوذ ہے اور بعض نے کہا یہ ”مُجَاوَرَة“اور”التِصَاق“(یعنی کسی چیز کے ساتھ ہو جانے ) سے ماخوذ ہے۔
پہلے معنی کی مثال یہ ہے کہ وہ اس گھر کو ”عُوَّذٌ“کہتے ہیں جو کہ درخت کے تنے سے متصل ہوتا ہے ۔کیوں کہ وہ درخت کے پاس جگہ لیتا ہے اوراس کے ساتھ چھپ جاتا ہے ۔اس طرح”العَائِذ“(پناہ لینے والا)اپنے دشمن سے پناہ دینے والے کے پاس چھپ جاتا ہے۔
اور دوسرامعنی اس کا’’عُوْذٌ‘‘وہ گوشت جو ہڈی کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا”عَوِّذٌ“ کہتے ہیں ۔اور مثال ہے کہ ”أَطْیَبُ اللَّحْمِ عُوذُہُ“ یعنی بہترین گوشت وہ ہے جو ہڈی کے ساتھ چمٹا ہوا ہو ۔ اور اسی طرح پناہ چاہنے والا ”مُسْتَعَاذ“ (یعنی پناہ دینے والے)کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ۔لہٰذا دونوں قول صحیح ہیں کیوں کہ پناہ چاہنے والا پناہ دینے والے سے چمٹ جانے اور اس کے پاس چھپ جانے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں استعاذہ ہر شر اور شر والی چیز سے اللہ کی پناہ لینے اور اس کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنے کو کہتے ہیں۔
استعاذہ تین چیزوں کو متضمن ہے:
”مُسْتَعَاذاً بِهِ“ (جس کے ہاں پناہ لی جائے)۔
”مُسْتَعَاذاً مِنْهُ“ (جس کے شر سے پناہ لی جائے)۔
”صِیْغَة“ (یعنی وہ الفاظ جو استعاذہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں) یہاں ہم سب کا اختصار سے جائزہ لیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
المُسْتَعَاذُ بِهِ :
”یا مُسْتَعَاذ“ ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ اور فقط اللہ سے اور اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات العلیٰ اور کلمات تامہ کے ذریعے سے ہی استعاذہ جائز ہے اور اللہ کے سوا مخلوق میں سے کسی سے استعاذہ جائز نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایمان لانے والے جنات کی بات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وَأَنَّهُ كَانَ رِ‌جَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِ‌جَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَ‌هَقًا ﴿٦ الجن یعنی (جنوں نے کہا )کہ کچھ انسان لوگ جنوں کے پاس پناہ لیتے تھے تو انہوں نے انہیں سرکشی اور نافرمانی میں بڑھادیا۔
ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ جنات کہتے ہیں کہ: ہم سمجھتے تھے کہ ہم انسانوں سے زیادہ افضل ہیں کیوں کہ وہ جب بھی کسی وادی یا باہر کسی خالی مکان میں اترتے تو عرب لوگ جاہلیت کے دور میں اس جگہ کہ جنوں کے بڑے کے پاس پناہ لیتے تھے۔ کہ کہیں وہ انہیں کوئی مصیبت نہ پہنچائے۔ پھر جب جنوں نے دیکھا کہ انسان ان سے ڈر کر ان سے پناہ چاہتے ہیں تو ان کو مزید خوف کے اندر مبتلا کر دیا۔اور وہ جنوں سے مزید استعاذہ کرنے لگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
المُسْتَعَاذُ مِنْہُ:
مُسْتَعَاذَہُ مِنْهُ“سے مراد ہر وہ شر ہے جو انسان کو پہنچتا ہے ۔امام ابن قیم نے اس شرکے انواع کی اس طرح تلخیص کی ہےکہ :وہ شر جو انسان کو پہنچتا ہے وہ دو قسموں سے خالی نہیں ہوگا۔یا تو وہ گناہ ہونگے جو اس سے سر زد ہوتے ہیں اس کا تعلق خود انسان سے ہے یا وہ شر جو انسان کو کسی دوسری چیز سے پہنچتا ہے ،یہ دوسری ذات جس سے اس کو شر پہنچتا ہے وہ یا تو مکلف ہوگی یا غیر مکلف ،اگر مکلف ہے تو پھر یا تو اس کی نظیر ہوگی، یعنی انسان یا اس کی نظیر نہیں ہوگی، اور وہ جنات ہیں۔
اور غیر مکلف سے مراد وہ کیڑے اور بچھو اورسانپ وغیرہ ہیں جو ڈنگ مارتے یا کاٹتے ہیں۔اور”مُعَوِّذَتَانِ“(سورہ ٔفلق اور سورۂ ناس) ان سارے شرور سے استعاذہ (پناہ مانگنے ) کو متضمن ہے۔ سورۃ الفلق میں ان چیزوں سے استعاذہ موجودہے۔
(۱)وہ اس مخلوق کے شر سے جن کا شر عمومی ہوتا ہے۔
(۲)اور رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔
(۳)گرہوں کے اندر پھونکنے والیوں(جادو گریانیوں ) کے شر سے۔
(۴)حاسد کے شر سے جب بھی وہ حسد کرے۔
جبکہ سورۂ ناس میں اس شر سے استعاذہ ہے ۔جو کہ بندے کےخود پر ظلم کرنے کا سبب ہے (یعنی داخلی شر)یعنی وہ وسوسہ جو کہ شیطان کی طرف سے پیدا ہوتاہے اور یہ شر تکلیف میں داخل ہے ۔اور اس سے نہی بھی تعلق رکھتی ہے۔ (یعنی اس سے روکا گیا ہے) اور یہ معائب (عیوب ذاتی یعنی گناہ و کوتاہی )کاشر ہے۔ جبکہ وہ شر جو سورۃ الفلق میں ذکر کیا گیا ہے وہ مصائب سے تعلق رکھتا ہے، اور جتنے بھی شر ہیں وہ یا تو معائب سے تعلق رکھتے ہیں یا مصائب سے ۔اور وسواس سے مراد خودشیطان ہے اور اسے حدیث میں خناس (پیچھے ہٹ جانے والا) کہا گیا ہے۔کیوں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے یعنی چھپ جاتا ہے پھر جب انسان (اللہ تعالیٰ کے ذکر سے) غافل ہوتا ہے تو اس کو دوبارہ وسوسہ ڈالتا ہے۔
اور قرآن مجید میں درج ذیل اشیاء سے استعاذہ آیا ہے۔
جہالت (آیت:8،9)، فحش ،(آیت:10، 12) ظلم (آیت:11) ، متکبرین، کا فرین(آیت:13) ، اور رجم (آیت:14) سے۔
اور حدیث شریف میں درج ذیل اشیاء سے استعاذہ وارد ہے۔
(۱)”شَرِّالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ وَاللِّسَانِ وَالْقَلْبِ وَالْفَرْجِ“.(حدیث:3)
(۲)اور ہر شر سے”عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ“جلدی پہنچنے والے یا دیر سے پہنچنے والے شر سے۔(حدیث:7، 17)
(۳)”عَذَابِ القَبرِ وَعَذَابِ جَهَنَّمَ وَفِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَات وَفِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّال“. عذاب قبر ،عذاب جہنم ،زندگی اور موت کا فتنہ ،اور مسیح دجال کے فتنے سے ۔(حدیث:14)
(۵)”شَرُّ الْمَرْأَةِ وَالخَادِمِ“ عورت اور غلام کے شر سے۔(حدیث:16)
(۶)”شَرُّ الرِّیَاحِ وَمَا أُرْسِلَتْ بِهِ“ یعنی تیز آندھی کے شر سے اور جو اس کو حکم دے کر بھیجا گیا ہے۔(حدیث:17)
(۷)”جَارُ السُّوءِ فِی دَارِالْمَقَامِ“. جائے سکونت کے برے پڑوسی سے۔(حدیث:24)
(۸)”وَمِنْ ضِیْقِ الْمَقَامِ یَوْم القِیَامَةِ مِنْ شَرِّمَا عَمِلَ الإِنْسَانُ“انسان کے گناہوں کی وجہ سے قیامت کے دن کی سختی سے۔(حدیث:29، 31)
(۹)”وَمِنْ سَخَطِ اللہِ وَعُقُوبَتِهِ“اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی سزا سے۔(حدیث:32)
(۱۰)”وَمِنْ الْهَمِّ وَالحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ“دکھ ، غم ، بے بسی، سستی،بخل، بزدلی ، قرضوں کے بوجھ اور لوگوں کے غالب آنے سے۔(حدیث:33)
(۱۱)”زَوَالِ النِّعْمَةِ وَتَحَوُّلِ الْعَافِیْةِ“،نعمت کے زائل ہونے اور عافیت کے ختم ہونے سے۔(حدیث:40)
(۱۲)”شَرِّ النَّفْسِ وَالشَّیْطَانِ“ ،نفس اور شیطان کے شرسے۔(حدیث:46، 47)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استعاذہ کا حکم اور اس کے صیغے (الفاظ):
قرآن مجید کی قراٴت کرتے وقت استعاذہ مطلوب ہے اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ مندوب یعنی مستحب ہے (جس کے ترک کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے)۔البتہ امام عطاء کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کو واجب کہا ہے۔اور اس کے صیغہ اداء کے لئے جمہور نے ”أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَیْطَانِ الرَّجِیْم“ کو اختیار کیا ہے۔ اس کو اختیار کرنے کی علت یہ ہے کہ الفاظ اصل نص میں آجائیں۔ جس کا مطلب ترغیب ہے۔ اور وہ اس طرح ہے: فَإِذَا قَرَ‌أْتَ الْقُرْ‌آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٩٨النحل یہاں اللہ نے ہمیں قرأت شروع کرتے وقت ”أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَیْطَانِ الرَّجِیْم“کہنے کی ترغیب دی ہے۔ اور ہمیں اس ترغیب پر عمل کرتے ہوئے قرأت شروع کرتے وقت اسی طرح کہنا چاہیئے ۔
اور ابن الباذش نے کہا اکثر لوگ ”أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَیْطَانِ الرَّجِیْم“ کہنے کی طرف گئے ہیں۔ اس لئے کہ جناب عبداللہ بن مسعود ؓ،ابو ہریرہ ؓاور جبیر بن نفیر ؓنے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے بعینہ یہی الفاظ قرأت شروع کرتے وقت کہے ہیں۔جبکہ دوسرے مواقع پر استعاذہ کا حکم ہے (یعنی واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے) اس کے کئی صیغے ہیں جو مختلف آیات میں ہیں۔ اور احادیث میں بھی آئے ہیں، مثلاً:”اللهم إِنِّی أَعْوذُبِكَ، أَعْوذُ بِاللہِ وَقُدْرَتِهِ،أَعْوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ، اللهم أَعْوذُ بِرِضَاكَ، اللهم رَبَّ جِبْرَائِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَّرَبَّ إِسْرَافِیْلَ أَعُوذْ بِكَ مِنْ كَذَا... “
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل صفات کا مطالعہ کیجئے:
الإسْتِعَانَة ، الإسْتِغَاثَة، الإسْتِخَارَة، الإبْتِھَال، التَوَکل، الدُعَاء، الضَرَاعَة وَالتَضرُع.
اور اس کی ضد کے لئے دیکھئے:
الغَیّ وَالاغواء، الفِتْنَة، الغُرُوْر، الغَفْلَة، الکِبْر وَالعَجْز.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آيات

الآيات الواردة في(الاستعاذة):
أولاً: المستعاذ منه هو الشيطان:

(١)إِذْ قَالَتِ امْرَ‌أَتُ عِمْرَ‌انَ رَ‌بِّ إِنِّي نَذَرْ‌تُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّ‌رً‌ا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٥﴾ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَ‌بِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ‌ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْ‌يَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّ‌يَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٣٦ آل عمران
(١)جب عمران كی بیوی نے كہا كہ اے میرے رب میرے پیٹ میں جو كچھ ہے اسے میں نے تیرے نام آزاد كرنے كی نذر مانی ،تو میری طرف سے قبول فرما یقینا تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے(35)جب بچی كو جنا تو كہنے لگیں كہ پروردگار مجھے تو لڑكی ہوئی،اللہ تعالیٰ كو خوب معلوم ہے كہ كیا اولاد ہوئی ہے اور لڑكا لڑكی جیسا نہیں میں نے اس كا نام مریم ركھا میں اسے اور اس كی اولاد كوشیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں(36)

(٢)وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٠٠ الأعراف
(٢)اور اگر آپ كو كوئی وسوسہ شیطان كی طرف سے آنے لگے تو اللہ كی پناہ مانگ لیا كیجئے بلا شبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے(200)

(٣)فَإِذَا قَرَ‌أْتَ الْقُرْ‌آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ ﴿٩٨ النحل
(٣)قرآن پڑھنے كے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ كی پناہ طلب كرو(98)

(٤)وَقُل رَّ‌بِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ﴿٩٧﴾ وَأَعُوذُ بِكَ رَ‌بِّ أَن يَحْضُرُ‌ونِ ﴿٩٨ المؤمنون
(٤)اور دعا كریں كہ اے میرے پروردگار میں شیطانوں كے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں (97)اور اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں(۹۸)

(٥)إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِن فِي صُدُورِ‌هِمْ إِلَّا كِبْرٌ‌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿٥٦ غافر
(٥)جو لوگ باوجود اپنے پاس كسی سند كے نہ ہونے كے آیات الہی میں جھگڑا كرتے ہیں ان كے دلوں میں بڑائی لڑائی كے اور كچھ نہیں وہ اس تك پہنچنے والے ہی نہیں، سو تو اللہ كی پناہ مانگتا رہ بے شك وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیكھنے والا ہے(56)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(٦)وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٣٦ فصلت
(٦)اور اگر شیطان كی طرف سے كوئی وسوسہ آئے تو اللہ كی پناہ طلب كرو، یقینا وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے(36)

(٧) قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَـٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ‌ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ‌ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦الناس
(٧)آپ كہہ دیجئے كہ میں لوگوں كے پروردگار كی پناہ میں آتا ہوں(1) لوگوں كے مالك كی ( اور)(2) لوگوں كے معبود كی ( پناہ میں)(3)وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے كے شر سے(4)جو لوگوں كے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے(5)( خواہ ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے(6)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ثانياً:المستعاذ منه ھو الجھل ا و الظلم ا و الظالمين ا والشر عموماً:

(٨)وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَ‌ةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّـهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٦٧ البقرة
(٨)اور موسیٰنے جب اپنی قوم سے كہا كہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایك گائے ذبح كرنے كا حكم دیتا ہے ،تو انہوں نے كہا ہم سے مذاق كیوں كرتے ہیں؟آپ نے جواب دیا كہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ كی پناہ پكڑتا ہوں(67)

(٩)وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّ‌بَّهُ فَقَالَ رَ‌بِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ‌ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦هود
(٩)نوح نے اپنے پروردگار كو پكارا اور كہا كہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے ،یقینا تیرا وعدہ بالكل سچا ہے اور تو تمام حاكموں سے بہتر حاكم ہے(45)اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقینا وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس كے كام بالكل ہی نا شائستہ ہیں تجھے ہر گز وہ چیزنہ مانگنی چاہیئے جس كا تجھے مطلقا علم نہ ہو،میں تجھے نصیحت كرتا ہوں كہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار كرانے سے باز رہے (46)

(١٠)وَرَ‌اوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ رَ‌بِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣ يوسف
(١٠)اس عورت نے جس كے گھر میں یوسف تھے، یوسف كو بہلانا پھسلانا شروع كیا كہ وہ اپنے نفس كی نگرانی چھوڑ دے اور دروازے بند كر كے كہنے لگی لو آجاؤ ،یوسف نے كہا اللہ كی پناہ وہ میرا رب ہے، مجھے اس نے بہت اچھی طرح ركھا ہے ،بے انصافی كرنے والوں كا بھلا نہیں ہوتا(23)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(١١)قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرً‌ا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَ‌اكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٧٨﴾ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّا إِذًا لَّظَالِمُونَ ﴿٧٩يوسف
(١١)انہوں نے كہا كہ اے عزیزمصر اس كے والد بہت بڑی عمر كے بالكل بوڑھے شخص ہیں ،آپ اس كے بدلے ہم میں سے كسی كو لے لیجئے ہم دیكھتے ہیں كہ آپ بڑے نیك نفس ہیں (78)یوسف نے کہا كہ ہم نے جس كے پاس اپنی چیز پائی ہے اس كے سوا دوسرے كی گرفتاری كرنے سے اللہ كی پناہ چاہتے ہیں ،ایسا كرنے سے تو ہم یقینا نا انصافی كرنے والے ہو جائیں گے(79)

(١٢)وَاذْكُرْ‌ فِي الْكِتَابِ مَرْ‌يَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْ‌قِيًّا ﴿١٦﴾ فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمْ حِجَابًا فَأَرْ‌سَلْنَا إِلَيْهَا رُ‌وحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرً‌ا سَوِيًّا ﴿١٧﴾ قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّ‌حْمَـٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا ﴿١٨ مريم
(١٢)اس كتاب میں مریم كا بھی واقعہ بیان كر جبكہ وہ اپنے گھركے لوگوں سے علیحدہ ہو كر مشرقی جانب آئیں(16)اور ان لوگوں كی طرف سے پردہ كر لیا، پھر ہم نے اس كے پاس اپنی روح( جبرائیل ) كو بھیجا پس وہ اس كے سامنے پورا آدمی بن كر ظاہر ہوا(17)یہ كہنے لگیں میں تجھ سے رحمن كی پناہ مانگتی ہوں اگر تو كچھ بھی اللہ سے ڈرنے والا ہے(18)

(١٣)وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ‌ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴿٢٧ غافر
(١٣)موسیٰ نے كہا میں اپنے اور تمہارے رب كی پناہ میں آتاہوں ہر اس تكبر كرنے والے شخص ( كی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں ركھتا(27)

(١٤)وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْ‌عَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَ‌سُولٌ كَرِ‌يمٌ ﴿١٧﴾ أَنْ أَدُّوا إِلَيَّ عِبَادَ اللَّـهِ ۖ إِنِّي لَكُمْ رَ‌سُولٌ أَمِينٌ ﴿١٨﴾ وَأَن لَّا تَعْلُوا عَلَى اللَّـهِ ۖ إِنِّي آتِيكُم بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٩﴾ وَإِنِّي عُذْتُ بِرَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُمْ أَن تَرْ‌جُمُونِ ﴿٢٠ الدخان
(١٤)یقینا ان سے پہلے ہم قوم فرعون كو( بھی) آزما چكے ہیں، جن كے پاس ( اللہ كا) باعزت رسول آیا(17)كہ اللہ تعالیٰ كے بندوں كو میرے حوالے كر دو، یقین مانو كہ میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں(18)اور تم اللہ تعالیٰ كے سامنے سر كشی نہ كرو، میں تمہارے پاس كھلی دلیل لانے والا ہوں(19)اور میں اپنے اور تمہارے رب كی پناہ میں آتا ہوں اس سے كہ تم مجھے سنگسار كردو(20)

(١٥)قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ‌ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ‌ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ‌ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ‌ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥ الفلق
(١٥)آپ كہہ دیجئے كہ میں صبح كے رب كی پناہ میں آتا ہوں(1)ہر اس چیز كے شر سے جو اس نے پیدا كی ہے(2)اور اندھیری رات كی تاریكی كے شر سے جب اس كا اندھیرا پھیل جائے (3)اور گرہ( لگا كر ان) میں پھونكنے والیوں كے شر سے (بھی )( 4)اور حسد كرنے والے كی برائی سے بھی جب وہ حسد كرے(5)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احادیث

پناہ طلب کرنے کا بیان:
1- عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍؓ قَالَ: اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَغَضِبَ أَحَدُهُمَا فَاشْتَدَّ غَضَبُهُ حَتَّى انْتَفَخَ وَجْهُهُ وَتَغَيَّرَ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ الَّذِي يَجِدُ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ وَقَالَ: تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ الشَّيْطَانِ. فَقَالَ: أَتَرَى بِي بَأْسٌ؟ أَمَجْنُونٌ أَنَا؟ اذْهَبْ. ([1])
(١)سلیمان بن صرد كہتے ہیں كہ نبی کریم ﷺ كے سامنے دو آدمیوں نے آپس میں گالی گلوچ كی ایك صاحب كو بہت زیادہ غصہ آیا۔ا ن كا چہرہ پھول گیا اور رنگ بدل گیا ۔تو نبیﷺنے اس وقت فرمایا: كہ مجھے ایك كلمہ معلوم ہے كہ اگر یہ غصہ كرنے والا شخص اسے كہہ لے تو اس كا غصہ دور ہو جائے گا۔ چنانچہ ایك صاحب نے جاكر غصہ ہونے والے كو نبیﷺكا ارشاد سنایا اور كہا شیطان سے اللہ كی پناہ مانگ وہ كہنے لگا كیا میں دیوانہ ہوں؟ كیا مجھے كوئی روگ لگ گیا ہے جا اپنا راستہ ناپ۔

2- عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍؓ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَهُوَ رَاكِبٌ فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى قَدَمِهِ فَقُلْتُ: أَقْرِئْنِي سُورَةَ هُودٍ أَقْرِئْنِي سُورَةَ يُوسُفَ فَقَالَ: لَنْ تَقْرَأَ شَيْئًا أَبْلَغَ عِنْدَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ. ([2])
(٢)عقبہ بن عامر كہتے ہیں كہ میں رسول اللہﷺ كی سواری كے پیچھے چلا اور آپ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ تو میں نے اپنا ہاتھ آپ كے قدم مبارك پر ركھ كر عرض كیا اے اللہ كے رسول مجھے سورۃ ہود یا سورۃ یوسف پڑھائیں، آپ نے فرمایا: اللہ كے پاس نفع دینے والی كوئی سورت قل اعوذ بر ب الفلق زیادہ نہیں۔

3- عَنْ شَكَلِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِي تَعَوُّذًا أَتَعَوَّذُ بِهِ قَالَ: فَأَخَذَ بِكَتِفِي فَقَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي يَعْنِي فَرْجَهُ. ([3])
(٣)شكل بن حمید بیان كرتے ہیں كہ میں نے عرض كیا اے اللہ كے رسول ﷺمجھے كوئی دعا سكھادیں جس كے ذریعے میں پناہ مانگوں۔كہتے ہیں كہ نبیﷺنے مجھے كاندھے سے پكڑا اور فرمایا:كہہ الہٰی میں اپنی سماعت و بصارت زبان و دل اور خواہش كی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

4- عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍؓ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي إِغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. قَالَ: وَمَنْ قَالَهَا مِنْ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنْ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. ([4])
(٤)شداد بن اوس كہتے ہیں كہ نبیﷺنے فرمایا: استغفار كا سردار یہ دعا ہے:‘‘اے اللہ تو میرا پروردگار ہے تیرے سوا كوئی معبود برحق نہیں ،تو میرا خالق ہے اور میں تیرہ بندہ ہوں،اور میں استطاعت كے مطابق تیرے وعدے پر قائم ہوں، میں تجھ سے اس چیز كے شر سے پناہ طلب كرتا ہوں جو مجھ سے سرزد ہوئی، میں تیرے احسانات كا اقرار كرتا ہوں جو مجھ پر ہیں اور میں اپنے گناہوں كا اعتراف كرتا ہوں تو مجھے معاف فرما تیرے سوا كوئی گناہوں کومعاف نہیں كر سكتا ٬٬۔ نبیﷺنے فرمایا: جو شخص دن میں یہ كلمات ان پر یقین ركھتے ہوئے كہے اور وہ شام ہونے سے پہلے دن میں ہی فوت ہو جائے تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو شخص رات میں یہ كلمات ان پر یقین ركھتے ہوئے كہے اور وہ صبح ہونے سے پہلے فوت ہو جائے تو وہ بھی جنت میں داخل ہوگا۔



[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الْأَدَبِ، بَاب مَا يُنْهَى مِنْ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ، رقم (6048)، صحيح مسلم رقم (2610)
[2] - (صحيح) صحيح سنن النسائي رقم (5439)، سنن النسائي،كِتَاب الِاسْتِعَاذَةِ، رقم (254)
[3] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (3492)، سنن الترمذى،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ، رقم (3492)
[4] - صحيح البخاري،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ، رقم (5831)​
 
Top