عبادت کو استعانت پر مقدم کیوں رکھا گیا ہے
عبادت کو استعانت یا جو اس کے معنی میں ہے مثلا تو کل کو سو رۂ فاتحہ کی آیت
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یا دوسری آیات میں مقدم کر نے کے کئی اسباب ہیں جن کو ابن القیم اور دیگر علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔ ان اسباب میں سے کچھ درج ذیل ہیں ۔
(1)کیوں کہ عبادت وہ اصل غایت ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے، جبکہ استعانہ اس کی طرف (پہنچنے کا) وسیلہ ہے۔ اس لئے یہ غایا ت کو وسائل پرمقدم کر نے کے باب سے ہے ۔
(2)اس لئے کہ ایاک نعبد باری تعالیٰ کی الوہیت کے متعلق ہے جبکہ ایاک نستعین اس کی ربوبیت سے متعلق ہے۔ (اور الو ہیت ربوبیت پر مقدم ہے )
(3)سورۂ فاتحہ کی ابتداء میں اسم ”
اللہ“کی اسم ”
الرَّب“پر تقدیم کی مناسبت سے عبادت کو استعانت پر مقدم کیا ہے ۔ کیوں کہ الوہیت رب تعالیٰ کا حصہ ہے اس لئے اسے شروع میں لایا گیا اور ربوبیت بندے کا نصیب ہے اس لئے اسے اس حصہ میں لایا گیا جو اس کے لئے ہے
(4)اس لئے کہ عبادت مطلقا استعانت کو متضمن ہے جبکہ اس کے بر عکس ایسا نہیں ہے سو اللہ تعالیٰ کی کامل عبادت کر نے والا مستعین (مدد طلب کر نے والا )ہے جبکہ ہر مستعین عابد نہیں ہے ۔ کیوں مفاد پرست اور خوا ہشات کے پجاری بھی کبھی اللہ تعالیٰ سے اپنی خواہشات کے لئے مدد چاہتے ہیں (لیکن وہ عبادت نہیں ہے)۔
(5)کیوں کہ استعانت عبادت کا جزء ہے اس کے برعکس عبادت استعانت کا جزء نہیں ہو سکتی ، اسی وجہ سے کُل کو جزء پر مقدم کیا گیا ہے ۔
(6)کیوں کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلوب ہے جبکہ استعانت بندے کی طرف سے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مطلوب کو مقدم کیا گیا ہے ۔
(7)اس لئے کہ حقیقی عبادت مخلص بندے کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے جبکہ استعانت مخلص اور غیر مخلص دونوں کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے اس کو مقدم کیا گیا ہے جو کہ ا خلاص پر ہی مبنی ہے ۔
(۸)اس لئے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کا وہ حق ہے جو کہ اس نے بندے پر وا جب کیا ہے ، اور استعانت عبادت کے لئے مدد مانگنے کو کہتے ہیں اور یہ اس کے اس صدقہ کا بیان ہے جو کہ اس نے تجھے دیا ہے ۔ لھذا اس کا حق ادا کر نا اس کے صدقہ کو حاصل کر نے سے اہم ہے (اس لئے یہ”اَهَمِّ “کو”مُهِمّ“ پر مقدم کر نے کے باب سے ہے )
(9)اس لئے کہ عبا دت اس کی تمہا رے او پر نعمت و احسان کا شکر ادا کر نے کا نام ہے اور اللہ تعا لیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جا ئے ۔ اور اعانت باری تعا لیٰ تمہارے ساتھ کرتا ہے اور تجھے تو فیق دیتا ہے ، لھذا اگر تو اس کی عبودیت کو لازم کر ےگا اور اس کی غلامی میں داخل ہو جائے گا تو وہ تیری اس (عبادت ) کے لئے مدد کرےگا ۔ پھر اس عبا دت کا احترام مدد کے حصول کا سبب بنے گا اور بندہ جتنا کا مل عبودیت والا ہو گا اتنی ہی االلہ کی طرف سے زیا دہ اعانت حا صل ہو گی ۔ اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ عبادت کو مقدم کرنا سبب کو مسبَّبَ پر مقدم کر نے کے باب سے ہے ۔
(10) اور جو اللہ کے لئے ہے وہ اس پر مقدم ہے اس سے جو اس کی طرف سے ہے ۔اس لئے کہ جو اس کے لئے ہے وہ اس کی محبت اور رضا سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس کی طرف سے ہے وہ اس کی مشیئت سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس کی محبت سے تعلق رکھتا ہے وہ زیادہ کا مل ہے اس سے جو فقط اس کی مشیئت سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیوں کہ جو کچھ کا ئنات میں ہو رہا ہے وہ سارا مشیئت سے تعلق رکھتا ہے ۔اور فرشتے اور شیاطین ، مومنین ، کفار ، نیکیاں ، گناہ وغیرہ اور اس کی محبت سے مخلوق کی طاعات اور ایمان متعلق ہے ۔ لھذا کفار اس کی مشیئت والے ہیں جبکہ مومنین اس کی محبت والے ہیں ۔ اس لئے جو اللہ کے لئے ہے ( یعنی اس کی عبادت کر نے والا ہے ) وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہےگا اور جو بھی اس کے اندر ہو گا وہ ہو گا جو فقط اس کی مشیئت سے تعلق رکھنے والا ہو گا ۔