• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستعانہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

الاستعانة


استعانت کی لغوی بحث:
اسْتَعَان“(صیغہ واحد مذکر غائب ،فعل ماضی معروف ،باب استفعال) کا مصدر ہے ۔ اور یہ”عَوْن“سے مشتق ہے جس کا معنی کسی چیز کے لئے مدد کرنا، مثلاً:”فُلاَنٌ عَوْنِی“ فلاں میرا مددگار ہے ۔اور ”أَعَنْتُهُ“ میں نے اس کی مدد کی۔ اور ”اسْتِعَانَةُ طَلَبُ الْعَوْنِ“ یعنی استعانہ مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ …﴿٤٥البقرة یعنی صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو ۔اور ”العَوْن“مدد کرنے والے کو کہتے ہیں اور یہ مذکر و مؤنث واحد تثنیہ اور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ (یعنی اصل میں مصدر ہے اس وجہ سے) اور اس کی جمع تکسیر”أَعْوَانٌ“مروی ہے ۔
کہتے ہیں: ”إِذَا جَاءَتِ السُّنِّةُ جَاءَ مَعَھَا أَعْوَانُھَا“یعنی جب قحط آئے گاتو اس کے مددگا ر یعنی ٹڈی ،بھیڑئیے ،اور بیماریاں بھی ساتھ آئیں گی۔”اِستَعَنْتُ بِهِ“ میں نے اس سے مدد مانگی ”فَأَعَانِي“ تو اس نے میری مدد کی اور ”تَعَاوَنُو عَلَیَّ وَاعْتَوَنُوا“بھی اس معنی میں ہے اور”إِعتَوَنُوا“معنی انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ۔اور” أَلْمَعُونَةُ أَعَانَةُ“ (مدد کرنے) کو کہتے ہیں اور ”رَجُلٌ مِعْوَانٌ“ اچھی مدد کرنے والا مرد یا بہت مدد کرنے والا اور ہر وہ چیز جو تیری (کسی طرح)مدد کرے وہ تیری”عَوْن“ہے۔جس طرح روزہ عبادت کے معاملہ میں ”عَوْنٌ“(مدد گار )ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی بحث:

ابن تیمیہ نے کہا :”الإِسْتِعَانَةُ طَلَبُ العَوْنِ مِنَ اللہِ وَیَطْلُبُ مِنَ المَخْلُوقِ مَا یَقْدِرُ عَلَیْهِ مِنَ الأُمُوْر“یعنی استعانہ کا معنی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ہے اور مخلوق سے اس کے لئے مدد طلب کی جا سکتی ہے جس پر اسے قدرت حاصل ہو۔

استعانت ایمانی اور استعانت شر کی:

امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ: یہ بندے کی طبیعت میں شامل ہے کہ وہ کسی چیز کا قصد اور ارادہ کرے اور کسی سے مدد طلب کرے اور اپنی مراد کے حصول کے لئے اس پر اعتماد کرے ۔یہ ”مُسْتَعَانٌ بِهِ“(یعنی جس سے مدد لی جاتی ہے)دو طرح کا ہے:
اول:وہ جس کی ذات سے اعانت طلب کی جائے اور وہ ہی غایت ہو جس پر بندہ اعتماد اور توکل کرے اور اسی سے قوت لے اور اس کے پاس اس سے بڑھ کر استعانت کے لئے غایت و مقصود نہ ہو۔
ثانی: وہ جو دوسرے کے تابع ہو جیسا کہ قلب کے ساتھ”بِمَنْزِلَةِ الْأَعْضَاءِ“ کے اور مالک کے مقابلے میں ”بِمَنْزِلَةِ مَالِهِ“ کے اور ”صَانِع“(کاریگر )کے سامنے ”بَمَنْزِلَةِ والْآلاَتِ“ کے۔ اور مخلوق کی حالات پر غور کرنے والے کو معلوم ہو گاکہ نفس کے لئے ایک چیز کا ہونا ضروری ہے جس پر وثوق و بھروسہ کرے اور اپنے مطلب کے حصول٫کے لئے اس پر اعتماد کرے ۔یہ اس کا ”مُسْتَعَان“( یعنی وہ ذات جس سے استعانت کرتا ہے ) ہے پھر یہ برابر ہے کہ وہ مستعان اللہ تعالیٰ کی ذات ہو یا کوئی اور۔
اور جب مستعان غیر اللہ ہو تو وہ عام ہے(یعنی تمام غیر اللہ ایک ہی حکم میں ہے)۔ اور یہ کفر ہے ۔جس طرح کوئی مطلقا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ یا اسے پکارتا ہے (یعنی کوئی فرق نہیں ہے نبی اور شجر کی عبادت میں دونوں برابر کے کفر ہیں) اور کبھی یہ خالص مسلمانوں کے اندر ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن پر مال یا کسی شخص یا ریاست وغیرہ کی محبت غالب آگئی ہو۔ تو وہ شخص ان چیزوں پر اعتماد کرتا اور ان سے مدد طلب کرتا ہے۔اور عبادت تو استعانت کو لازم کرتی ہے اور انسان کے لئے خیراکیلے اللہ کی عبادت اور اس سے استعانت و مدد مانگنے میں ہے ۔اور اس کا نقصان اور تباہی اور فساد غیر اللہ کی عبادت اور اس سے استعانت میں ہے۔ اور قرآن نے اکیلے اللہ کی عبادت اور اسی سے استعانت پر زور دیا ہے۔ بلکہ یہی ایمان کا دل ہے اور اول و آخر اسلام ہے۔ اور یہی جمیع انبیاء کا دین ہے جس کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ۔لہٰذا عبادت اور استعانت میں سے کوئی چیز غیر اللہ کو نہیں دی جائے گی۔ کیوں کہ عبادت کی جمیع انواع کا تعلق الوہیت کے ساتھ ہے اور استعانت اس کی ربوبیت سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اللہ رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس کے سوا ہمارا کوئی رب نہیں ہے۔ نہ فرشتہ اور نہ نبی اور نہ کوئی دوسرا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعمال صالحہ کے ذریعے سے استعانت:

اس آیت میں صبر و صلاۃکے ساتھ استعانت کا بھی حکم ہے: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ ..﴿٤٥البقرة اور فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣البقرة
امام طبری اس کی تفسیر میں کہتے ہیں ۔یعنی تم نے جو میرے ساتھ عہد کیا ہے میری اطاعت اور میرے امر کی پیروی اور اس چیز کو جس کی تم خواہش رکھتے ہو یعنی جا گیرداری اور ریاست وجاہ کی اور دنیا کی محبت کو چھوڑدینا اور جو تم میرے امر کو تسلیم کرنے کو نا پسند کرتے ہو(اس کو ترک کرنا)اور میرے رسول محمدﷺ کی اتباع ۔ان تمام معاملات پر صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں صبر سے مراد صوم یعنی روزہ ہے کیوں صبر کا معنی صوم بھی ہوتا ہے۔
ابن رجب فرماتے ہیں کہ :انسان اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر نے کا محتا ج ہے ، کیونکہ ما مو رات کو بجا لا نے میں۔ ممنو عات کو ترک کر نے میں اور ساری مقدو رات (یعنی جو کام ہو سکتے ہیں ان )پر صبر کر نے میں، دنیا میں اور موت کے وقت، اور اس کے بعد برزخ اور قیا مت کے دن کی جو ہو لنا کیاں ہیں(ان سے بچنے کے لئے بھی )اور اس پر اللہ کے سواکو ئی بھی مدد کر نے کی قدرت نہیں رکھتا سو جو اللہ تعا لیٰ سے ان تمام معاملات میں مدد کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کر تا ہے ۔ اور جو اللہ تعالیٰ سے استعانت یعنی مدد طلب کر نے کو چھو ڑکر کسی اور سے مدد طلب کر تا ہے تو وہ ذلیل ہو جا تا ہے اور اسی طرح وہ دنیا کے معا ملات میں بھی اللہ تعالیٰ سے استقا مت کا محتا ج ہے ۔ اس لئے کہ وہ اپنے فوا ئد و منا فع کو حا صل کر نے اور ضرر کو دور کر نے سے عاجز ہے ۔ اور اس کے دین دنیا کے مصا لح و فوا ئد کے لئے اللہ تعالیٰ کے سواء کو ئی بھی مدد کر نے والا نہیں ہے ۔ اور یہی معنی ”لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ“کا ہے ۔ یعنی بندے کا حال تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کی قوت ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استعانہ کیا ہے ؟
ابن القیم نے توکل اور استعانہ کو ایک ہی چیز گر دانا ہے اور دو نوں کی تعریف میں کہا ہےکہ :توکل اور استعانہ قلب کی ایک حالت ہے جو کہ پیدا ہو تی ہے اس کی اللہ تعا لیٰ کے با ر ے میں معر فت سے اور اس چیز کو ما ننے اور ایمان لا نے سے اور یہ نظریہ اپنانا کے وہ ہی اکیلا پیدا کر نے والا ،تدبیر کر نے والانفع ونقصان پہچا نے والا ، دینے والا ، اور رو کنے والا ہے اور یہ کہ وہ جو کچھ چا ہتا ہے وہی ہو تا ہے اور جو نہیں چا ہتا وہ نہیں ہو تا اگر چہ سا رے لو گ چا ہتے ہو ں ۔ یہ چیز اس کے لئے اللہ تعا لیٰ پر اعتما د اور اس سے استعا نت کو وا جب کر تی ہے ۔ اور اسکی طرف ہر معا ملہ کو تفو یض (سپرد ) کر نے اور اسی سے اطمینان حاصل کر نے اور اسی پر بھر وسہ کر نے اور یہ یقین کر نے سے کہ جس معا ملہ میں اس نے اس پر تو کل کیا ہے اور اس سے مدد طلب کی ہے اس میں وہ کا فی ہو گا ۔ اور جو کچھ ہو گا وہ اس کی مشیئت سے ہو گا لو گ چا ہیں یا نہ چا ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استعانہ کی منز لت و مقام

امام ابن القیم نے کہا :استعانہ دو اصول کو جمع کر تا ہے ۔ اس پر وثو ق و بھر وسہ اور اس پر اعتما د ۔ کیو نکہ انسان کبھی کسی پر وثوق و بھر وسہ کر تا ہے لیکن اسکے با وجود وہ اس پر اعتما د نہیں کر تا ۔ کیوں کہ اسے اس کی ضرورت نہیں ہو تی ۔ اور کبھی تو اس پر بھروسہ اور وثوق نہ کر نے کے با وجود اس پر اعتما د کر تا ہے کیوں کہ اسے اس کی ضرورت ہو تی ہے ، کیوں کہ اسے اس کا متبادل دستیاب نہیں۔ لہٰذا اس پر اعتماد نہ ہونے کے باوجود اسے ایسے شخص پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے ۔ اور توکل بھی استعا نت کی طرح ہے کیوں کہ وہ بھی ان دو اصول پر مشتمل ہے یعنی وثوق اور اعتماد ۔
اور یہ دو اصول (توکل و استعا نہ) اور عبادت قرآن مجید کے کئی موا ضع میں یکجا ں بیان ہو ئے ہیں ۔
1:فر مان الہی ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ الفاتحہ ”
یا اللہ ہم فقط تیری عبادت کر تے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چا ھتے ہیں ۔
2: وَلِلَّـهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُ الْأَمْرُ‌ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۚ … ﴿١٢٣هود
اور اللہ کے لئے ہی ہے آسمانوں اور زمین کا غیب (جا ننا ) اور ہر امر اسی کی طرف لوٹتا ہے پس اسی کی عبا دت کر اور اسی پر توکل کر ۔
3: وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴿٨٨ هود
(شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا ) اور نہیں ہے میری توفیق مگر اللہ (کی مدد ) کے سا تھ اسی پر تو کل کر تا ہو ں اور اسی کی طرف لو ٹتا ہوں ۔
4: قُلْ هُوَ رَ‌بِّي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴿٣٠الرعد۔
کہہ دیجئے کہ وہ ہی میر ارب ہے اس کے سواکوئی بھی معبود حقیقی نہیں ہے ۔ اسی پر توکل کر تا ہو ں اور اسی کی طرف لو ٹنا ہے ۔
5: رَّ‌بَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ‌ ﴿٤ الممتحنة
(یعنی مو منین کہتے ہیں کہ ) اے رب ہما رے ہم نے تجھ پر تو کل کیا ہے تیری طرف ہی (معا صی کو چھو ڑکر ) لو ٹتے ہیں ۔ اور تیری طرف ہی (لو ٹ کر)آنے کی جگہ ہے۔
6: وَاذْكُرِ‌ اسْمَ رَ‌بِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ﴿٨﴾ رَّ‌بُّ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا ﴿٩ المزمل
”اور تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کراور تمام خلائق سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہو جا۔ مشرق و مغرب کا رب جس کے سواء کو ئی معبود بر حق نہیں تو اسی کو کا ر ساز بنا لے “۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عبادت کو استعانت پر مقدم کیوں رکھا گیا ہے
عبادت کو استعانت یا جو اس کے معنی میں ہے مثلا تو کل کو سو رۂ فاتحہ کی آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یا دوسری آیات میں مقدم کر نے کے کئی اسباب ہیں جن کو ابن القیم اور دیگر علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔ ان اسباب میں سے کچھ درج ذیل ہیں ۔
(1)کیوں کہ عبادت وہ اصل غایت ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے، جبکہ استعانہ اس کی طرف (پہنچنے کا) وسیلہ ہے۔ اس لئے یہ غایا ت کو وسائل پرمقدم کر نے کے باب سے ہے ۔
(2)اس لئے کہ ایاک نعبد باری تعالیٰ کی الوہیت کے متعلق ہے جبکہ ایاک نستعین اس کی ربوبیت سے متعلق ہے۔ (اور الو ہیت ربوبیت پر مقدم ہے )​
(3)سورۂ فاتحہ کی ابتداء میں اسم ”اللہ“کی اسم ”الرَّب“پر تقدیم کی مناسبت سے عبادت کو استعانت پر مقدم کیا ہے ۔ کیوں کہ الوہیت رب تعالیٰ کا حصہ ہے اس لئے اسے شروع میں لایا گیا اور ربوبیت بندے کا نصیب ہے اس لئے اسے اس حصہ میں لایا گیا جو اس کے لئے ہے
(4)اس لئے کہ عبادت مطلقا استعانت کو متضمن ہے جبکہ اس کے بر عکس ایسا نہیں ہے سو اللہ تعالیٰ کی کامل عبادت کر نے والا مستعین (مدد طلب کر نے والا )ہے جبکہ ہر مستعین عابد نہیں ہے ۔ کیوں مفاد پرست اور خوا ہشات کے پجاری بھی کبھی اللہ تعالیٰ سے اپنی خواہشات کے لئے مدد چاہتے ہیں (لیکن وہ عبادت نہیں ہے)۔
(5)کیوں کہ استعانت عبادت کا جزء ہے اس کے برعکس عبادت استعانت کا جزء نہیں ہو سکتی ، اسی وجہ سے کُل کو جزء پر مقدم کیا گیا ہے ۔
(6)کیوں کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلوب ہے جبکہ استعانت بندے کی طرف سے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مطلوب کو مقدم کیا گیا ہے ۔
(7)اس لئے کہ حقیقی عبادت مخلص بندے کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے جبکہ استعانت مخلص اور غیر مخلص دونوں کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے اس کو مقدم کیا گیا ہے جو کہ ا خلاص پر ہی مبنی ہے ۔
(۸)اس لئے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کا وہ حق ہے جو کہ اس نے بندے پر وا جب کیا ہے ، اور استعانت عبادت کے لئے مدد مانگنے کو کہتے ہیں اور یہ اس کے اس صدقہ کا بیان ہے جو کہ اس نے تجھے دیا ہے ۔ لھذا اس کا حق ادا کر نا اس کے صدقہ کو حاصل کر نے سے اہم ہے (اس لئے یہ”اَهَمِّ “کو”مُهِمّ“ پر مقدم کر نے کے باب سے ہے )​
(9)اس لئے کہ عبا دت اس کی تمہا رے او پر نعمت و احسان کا شکر ادا کر نے کا نام ہے اور اللہ تعا لیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جا ئے ۔ اور اعانت باری تعا لیٰ تمہارے ساتھ کرتا ہے اور تجھے تو فیق دیتا ہے ، لھذا اگر تو اس کی عبودیت کو لازم کر ےگا اور اس کی غلامی میں داخل ہو جائے گا تو وہ تیری اس (عبادت ) کے لئے مدد کرےگا ۔ پھر اس عبا دت کا احترام مدد کے حصول کا سبب بنے گا اور بندہ جتنا کا مل عبودیت والا ہو گا اتنی ہی االلہ کی طرف سے زیا دہ اعانت حا صل ہو گی ۔ اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ عبادت کو مقدم کرنا سبب کو مسبَّبَ پر مقدم کر نے کے باب سے ہے ۔
(10) اور جو اللہ کے لئے ہے وہ اس پر مقدم ہے اس سے جو اس کی طرف سے ہے ۔اس لئے کہ جو اس کے لئے ہے وہ اس کی محبت اور رضا سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس کی طرف سے ہے وہ اس کی مشیئت سے تعلق رکھتا ہے اور جو اس کی محبت سے تعلق رکھتا ہے وہ زیادہ کا مل ہے اس سے جو فقط اس کی مشیئت سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیوں کہ جو کچھ کا ئنات میں ہو رہا ہے وہ سارا مشیئت سے تعلق رکھتا ہے ۔اور فرشتے اور شیاطین ، مومنین ، کفار ، نیکیاں ، گناہ وغیرہ اور اس کی محبت سے مخلوق کی طاعات اور ایمان متعلق ہے ۔ لھذا کفار اس کی مشیئت والے ہیں جبکہ مومنین اس کی محبت والے ہیں ۔ اس لئے جو اللہ کے لئے ہے ( یعنی اس کی عبادت کر نے والا ہے ) وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہےگا اور جو بھی اس کے اندر ہو گا وہ ہو گا جو فقط اس کی مشیئت سے تعلق رکھنے والا ہو گا ۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ سے استعانت (یعنی مدد طلب کر نے ) کا طریقہ

اللہ تعا لیٰ سے استعانت کے لئے اس کی طرف رغبت پیدا کر نے کے دو طریقے ہیں:
(۱) ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مہر با نی کا سوال کرے جو کہ اس کی ہمت کو مضبو ط کرے اور اس کے لئے اس کا کر نا آسان بنا دے ۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی مہر بانی اور کرم سے اسے یہ خیال دے گا کہ استعانت طلب کرنے میں عظیم ثواب ہے تو یہ اس کے نشاط اور رغبت کو بڑھا دے گا ۔
(۲)دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ استعانت کے ذریعہ یہ طلب کرتا رہے کہ وہ ہمیشہ نیکیوں پر قادر ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استعانت کے اعتبار سے لو گوں کی اقسام

امام ابن القیم کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت اور استعانت کے اعتبار سے انسانوں کی چار قسمیں ہیں :

اول: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں ۔ اور یہ سب سے افضل قسم ہے ۔
ثانی: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر اس کی عبادت اور اس سے استعانت سے اعراض کرتے ہیں ۔
اگر ان میں سے کوئی اس سے مانگتا ہے یا مدد چاہتا ہے تو اپنے دنیوی مفاد اور خوا ہشات کی خاطر ، اپنے رب کی رضا مندی اور اس کے حقوق کی ادا ئیگی کے لئے نہیں یہ سب سے برے انسان ہیں ۔
ثالث:وہ لوگ جو کوئی عبادت کر تے ہیں لیکن بغیر استعانت کے یا ناقص استعانت کے ان لو گو ں کی دو قسمیں ہیں :
1:قدریہ: جو کہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لئے جو لطف و مہر بانی کرنی تھی وہ کر دی اور اب اس کے مقدور میں بندے کے لئے کسی فعل پر اعانت باقی نہیں رہی ۔ کیوں کہ اس نے آلات بنانے اور ان کو ٹھیک کر نے اور راستہ بتانے اور پیغمبروں کو ارسال کر نے کے ذریعے سے اور اس کو فعل پر قدرت دینے سے اس کی اعانت کر دی ۔ اور اب اس کے بعد کوئی بھی ایسی اعانت باقی نہیں رہی کہ بندہ اس کا اللہ تعا لیٰ سے سوا ل کرے ۔
(۲)وہ لوگ جو عبادات و اذکار کرتے بھی ہیں لیکن ان کا توکل و استعانت سے حصہ ناقص ہے ۔سو یہ لوگ اور وہ(پیچھے ذکر کئے گئے ) لوگ ان کا توفیق اور تاثیر سے ان کی استعانت اور توکل کے حساب سے حصہ ہے اور ان کے لئے رسوائی ،ضعف ،خواری اور عجزوبے بسی ان کی قلت استعانت و توکل کے حساب سے حصہ ہے۔ اگر بندہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی توکل کرتا اور ویسی استعانت چاہتا جو استعانت کا حق ہے تو وہ کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹا سکتا ہے ۔اگر اسے اس پہاڑ کو ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔
رابع: یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا نفع و نقصان کا مالک ہے اور جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ لوگ اللہ کی محبت اور رضا کے کام نہیں کرتے اس کے باوجود اس پر اپنے دنیوی فوائد اور خواہشات اور اغراض کے لئے توکل بھی کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی کوئی (اچھی) عاقبت نہیں ہے ۔اور جو کچھ انہیں دیا جاتا ہے وہ ظاہری بادشاہی اور ان اموال سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ جو ان کے لئے اسلام کو بھی لازم نہیں کرتے ( یعنی اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ مسلمان ہیں) ولایت اور قرب الٰہی تو دور کی بات ہے۔
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل صفات دیکھئے:
الإسْتِخَارَہ ،الإِسْتِعَاذَہ، الإِسْتِغَاثَة، التَوَّسُل، الضَرَاعَة وَالتَضَرعَة ، التَوکل، الدُعَاء.
اور اس کی ضد کے لئے دیکھئے: الغُرُور الغِفْلَة، الکِبْر وَالعَجَب، القُنُوط.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الآيات الواردة في (الاستعانة)
(١)بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧الفاتحة
(١) شروع كرتاہوں اللہ تعالیٰ كے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے(1)سب تعریف اللہ تعالی كے لئے ہے جو تمام جہانوں كاپالنے والا ہے(2)بڑا مہربان نہایت رحم كرنے والا (3)بدلے كے دن( یعنی قیامت ) كامالك ہے(4)ہم صرف تیری ہی عبادت كرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (5)ہمیں سیدھی ( اور سچی) راہ دكھا(6)ان لوگوں كی راہ جن پر تونے انعام كیا،ان كی نہیں جن پر غضب كیا گیا( یعنی وہ لوگ جنہوں نے حق كو پہچانا مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے) اور نہ گمراہوں كا ( یعنی وہ لوگ جو جہالت كے سبب راہ ِحق سے برگشتہ ہو گئے)(7)

(٢)أَتَأْمُرُ‌ونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ‌ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَ‌ةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥﴾ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَ‌بِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿٤٦البقرة
(٢)كیا لوگوں كو بھلائیوں كا حكم كرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ كو بھول جاتے ہو باوجودیہ كہ تم كتاب پڑھتے ہو، كیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟(44)اور صبر اور نماز كے ساتھ مدد طلب كرو یہ چیز شاق ہے مگر ڈر ركھنے والوں پر( 45)جو جانتے ہیں كہ بے شك وہ اپنے رب سے ملاقات كرنے والے اور یقینا وہ اسی كی طرف لوٹ كر جانے والے ہیں (46)

(٣)يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣البقرة
(٣)اے ایمان والو صبر اور نماز كے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں كا ساتھ دیتا ہے(153)

(٤)قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّـهِ وَاصْبِرُ‌وا ۖ إِنَّ الْأَرْ‌ضَ لِلَّـهِ يُورِ‌ثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٢٨ الأعراف
(٤)موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ كا سہارا حاصل كرو اور صبر كرو، یہ زمین اللہ تعالیٰ كی ہے، اپنے بندوں میں سے جس كو چاہے وہ مالك بنا دے اور اخیر كامیابی ان ہی كی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں(128)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(٥)وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ﴿١٦﴾ قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَ‌كْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ﴿١٧﴾ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرً‌ا ۖ فَصَبْرٌ‌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨ يوسف
(٥)اور عشاء كے وقت ( وہ سب) اپنے باپ كے پاس روتے ہوئے پہنچے( 16)اور كہنے لگے كہ اباجان ہم تو آپس میں دوڑ میں لگ گئے اور یوسف علیہ السلام كو ہم نے اسباب كے پاس چھوڑا پس اسے بھیڑیا كھا گیا آپ تو ہماری بات نہیں مانیں گے، گو ہم بالكل سچے ہی ہوں(17)اور یوسف كے كرتے كو جھوٹ موٹ كے خون سے خون آلود بھی كر لائے تھے، باپ نے كہا یوں نہیں بلكہ تم نے اپنے دل ہی سے ایك بات بنالی ہے پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد كی طلب ہے(18)

(٦)حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوْمًا لَّا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا ﴿٩٣﴾ قَالُوا يَا ذَا الْقَرْ‌نَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْ‌جًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ﴿٩٤﴾ قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَ‌بِّي خَيْرٌ‌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَ‌دْمًا ﴿٩٥الكهف
(٦)یہاں تك كہ وہ دو دیواروں كے درمیان پہنچا ان دونوں كے پرے اس نے ایك ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے كے قریب بھی نہ تھی(93)انہوں نے كہا كہ اے ذوالقرنین یا جوج ماجوج اس ملك میں ( بڑے بھاری) فسادی ہیں، تو كیا ہم آپ كے لئے كچھ خرچ كا انتظام كر دیںِ ( اس شرط پر كہ) آپ ہمارے اور ان كے درمیان ایك دیوار بنادیں (94)اس نے جواب دیا كہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے ركھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد كرو(95)

(٧)فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِ‌ي أَقَرِ‌يبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ ﴿١٠٩﴾ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ‌ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ ﴿١١٠﴾ وَإِنْ أَدْرِ‌ي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿١١١﴾ قَالَ رَ‌بِّ احْكُم بِالْحَقِّ ۗ وَرَ‌بُّنَا الرَّ‌حْمَـٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١١٢ الأنبياء
(٧)پھر اگر یہ منہ موڑ لیں تو كہہ دیجئے كہ میں نے تمہیں یكساں طور پر خبردار كردیا ہے مجھے علم نہیں كہ جس كا وعدہ تم سے كیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور (109) البتہ اللہ تعالیٰ تو كھلی اور ظاہر بات كو بھی جانتا ہے اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے(110)مجھے اس كا بھی علم نہیں ،ممكن ہے یہ تمہاری آزمائش ہو اور ایك مقررہ وقت تك كا فائدہ ( پہنچانا) ہے(111)خود نبی نے كہا اے رب انصاف كے ساتھ فیصلہ فرما اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب كی جاتی ہے ان باتوں پر جو تم بیان كرتے ہو(112)
 
Top