اقسام ِاستغاثہ
(1)غیر مشروع استغاثہ
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےفرمایا : تکلیف اور مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر نے کے لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ کا قرب چاہتا ہے) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرب و مصیبت کے اندر گویا کہ پکارتا ہے ، برابر ہے کہ یہ استغاثہ کے لفظ سے ہو یا توسل (یا وسیلہ وغیرہ ) کے لفظ سے ہو ۔جو کہ اس کا معنی دیتا ہو ۔ اور آدمی کا کہنا کہ :یا اللہ میں تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے تیرے قریب ہوتا ہوں یا کہے کہ:
”اَسْتَغِیْثُ بِرَسُوْلِكَ عِنْدَكَ أَنْ تَغْفِرلِي“ یعنی میں تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وا سطے سے پکارتا ہوں کہ مجھے بخش دے ، یہ در حقیقت لغت عربی اور ساری امتوں کی زبانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل وسیلہ لینا آپ کو پکارنا ہے اور یہ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کر وانا ) آپ کی زندگی میں اور اس وقت جب کہ آپ مجلس میں بنفس نفیس موجود ہوتے جائز تھا ۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیابت و غیرحاضر ی میں یہ جا ئز نہیں ہے اور پھر یہ استغاثہ (مخلوق سے)کیا بھی ان امور میں جا سکتا ہے جن پر ان کو قدرت بھی ہو ، جیسا کہ فر مان الہی ہے کہ :
وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ ۔۔(الأنفال: ٧٢) یعنی اگر وہ تم سے دین (کے معا ملہ میں )مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے ۔ اور فرمان الہٰی ہے:
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ ۔۔﴿١٥﴾ (القصص )یعنی (مو سیٰ علیہ السلام کو اس شخص نے مدد کے لئے پکارا جو کہ اس کے جماعت سے تھا اس شخص کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا ۔ جبکہ وہ کام جن پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو قدرت نہیں ہے وہ فقط اللہ اکیلےسے مانگے جائیں گے ۔اسی وجہ سے مسلمان صحا بہ کرام و تا بعین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وا سطے سے نہیں پکارتے تھے اور نہ با رش طلب کر تے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سل سے ما نگتے تھے ۔
جیسا کہ صحیح بخا ری میں ہے کہ جناب عمر بن خطاب ؓ نے عباس ؓ کے ذریعہ سے بارش طلب کی یعنی ان سے دعا کروائی اور پھر کہا :
”اللهم إِنَّا کُنَّا إِذَا أَجْدَبْنَا نَتَوَسَّلُ إِِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَسْتَسْقِیَنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا فَیُسْقَوْنَ “۔ ”یااللہ جب ہم قحط سالی کا شکار ہوتے تھے تو تجھ سے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے بارش مانگتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے ذریعہ سے پھر تو ہمیں بارش دیتا تھا ، اور اب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کر تے ہیں یا اللہ ہمیں پانی دے“۔ تو بارش برستی تھی ۔ (
[1])
(2) مشروع استغا ثہ :
اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرنا یعنی اسے پکارنا یا انبیاء اکرام یا صالحین سے ان کی زندگی میں ان سے دعا کروانا یا اس کام کے لئے مدد مانگنا جس پر ان کو قدرت ہو۔ باقی ان کی وفات کے بعد یا اس چیزکے لئے جس کی ان کو قدرت نہ ہو استغاثہ جائز نہیں ہے ۔
اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی رحمت کےواسطے سے استغاثہ کرنا حقیقت میں اس کی ذات سے استغاثہ کرنے (پکارنے) کی طرح ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے وا سطے سے استعاذہ (یعنی پناہ طلب کرنا ) اس کی ذات سے استعاذہ کرنے کی طرح ہے ۔ (
[2])
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں”شرک کی اقسام سے ، مردوں سے حاجت روائی کے لئے سوال کرنا یا ان کو تکلیف میں پکارنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ہے۔ اور یہ حقیقی شرک ہے جو اس وقت دنیا میں واقع ہوتا ہے۔ کیوں کہ مرنے والے کا کا م ختم ہو چکا اور اب وہ پکارنے والے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے پاس سفا رش کرنے کی استدعا کرنے والے کے لئے نفع و نقصان دینا تو دور کی بات ہے، خود کے لئے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے “ ۔(
[3])
الاستعاذة، الإغاثة، التعاون على البر والتقوى، الدعاء، التوسل، الضراعة والتضرع، الابتهال .
الإعراض، الشرك، الغفلة، الكسل، القنوط، الكبر والعجب، اليأس .
[1]- مجموع الفتاويٰ (1/105،101) بتصرف شديد
[2]- السابق(1/111)
[3]- فتح المجيد (168)