• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستغاثة

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استغاثہ
لغوی بحث

إِسْتِغَاثَة“(ازباب استفعال)”اِسْتَغَاثَ“ کا مصدر ہے اور یہ ”الغَوْثُ“سے ما خوذ ہے ۔ جس کا معنی اغاثہ یعنی تکلیف کے وقت میں کسی کی مدد کر نا اور ”الْغَیْثُ“ کا معنی بارش ہے ، ”اسْتَغَثْتُهُ“کا معنی ہے میں نے اس سے مدد یا با رش طلب کی”فَأَغَاثَنیِ“ یعنی اس نے میری مدد کی یا با رش دی۔ فرمان الٰہی ہے:وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ ﴿٢٩﴾(الكهف)اس آیت کریمہ میں واردفعل ”الغَوْثُ“اور”الْغَیْثُ“دونوں سے مشتق ہو سکتا ہے۔”غَوَّثَ الرَّجُلُ وَاسْتَغَاثَ“کا معنی ہے اس نے مدد کے لئے ”وَاغَوْثَاہ“پکارا ۔اوراسی طرح مصیبت زدہ آدمی یہ کہتا ہے ”اَغِثْنِی“یعنی میرے لئے کشادگی فرما ،تنگی کو دور فرما ۔ اور ”اِسْتَغَاثَنِی فُلانٌ فَأَغَثْتُهُ“ اس نے مجھے مدد کے لئے پکارا تو میں نے اس کی مدد کی ۔ اور اس کا اسم مصدرغِیَاثٌ ہے ایک اور محاورہ استعمال کرتے ہیں :”وَاسْتَغَثْتُ فُلاناً فَمَا کَانَ لِیَ عِنْدَہُ مَغُوْثَةٌ وَلَاغَوْثٌ“، یعنی میں نے فلاں سے مدد مانگی لیکن اس کے ہاں میرے لئے کوئی مدد نہیں تھی۔ نیز ”ضُرِبَ فُلانٌ فَغَوَّثَ تَغْوِیْثًا“،یعنی فلاں کو مارا گیا تو اس نے”وَاغَوْثَاہ“کہا، اور”وَأَغَاثَهُ اللہُ“(باب افعال سے ہے) اور”غَاثَهُ غَوْثًا وَغِیَاثًا“(باب مجرد)اس کا معنی ہے : اللہ نے مدد کی۔([1])

[1]- لسان العرب (6/3312) الصحاح(۲۸۹/۱) المختار(۴۸۳) مقاييس اللغة (4/400)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اصطلاحی بحث

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ”الِاسْتِغَاثَةُ طَلَبُ الْغَوْثِ وَھُوَ لإِزَالَةِ الشِّدَّةِ“ یعنی استغاثہ کا معنی ہے تکلیف کو دور کرنے کے لئے پکارنا ۔ جس طر ح ”الِاسْتِنْصَارُ“ طلب نصرت کو کہتے ہیں ۔ اور الإِسْتِعَانَةُ معونت (مدد ) طلب کرنے کو کہتے ہیں ۔ ([1])

المُغِیْثُ اسمِ باری تعالیٰ ہے :
”المُغِیْثُ“ کا معنی ہے”المُجِیْبُ“(قبول کرنے والا)لیکن”الإِغَاثَةُ“افعال کے ساتھ خاص ہے جبکہ”الإِجَابَةُ“اقوال کے ساتھ ۔
[1]- مجموع الفتاوي (1/105)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استغاثہ اور دعاء کے درمیان کیا فرق ہے

بعض اہل علم نے کہا ہے:استغاثہ اور دعاء میں یہ فرق ہے کہ استغاثہ مکروب (یعنی کرب و مصیبت) والے کی طرف سے ہوتا ہے جبکہ دعاء عام ہے۔ مصیبت زدہ و غیرہ سےصادر ہوتی ہے ۔دونوں کے درمیان عموم و خصوص کی نسبت مطلق ہے یعنی دعاءا لمکروب میں استغاثہ اور دعاء دونوں ہیں دیگر پکاروں میں اکیلی دعاء ہوتی ہے اس طرح ہر استغاثہ دعاء ہے لیکن ہر دعا استغاثہ نہیں ہے ۔ ([1])

ابو عبدا للہ الحلیمی رحمہ اللہ نے کہا:”الغَیَّاثُ مُغِیْثٌ“مدد کرنے والے کو کہتے ہیں اور اکثر کہاجاتا ہے:”غِیَاثُ الْمُسْتَغِیْثِیْن“
یعنی مصائب وشدائد میں اپنے بندوں (کی مدد) کو پہنچنے والا۔ جب بھی اسے پکارتے ہیں ان کی دعاء قبول کرتا ہے اور انہیں چھٹکارا دینے والا ہے ۔ ([2])

[1]- فتح المجيد (166،165) مختصرا
[2]- مجموع الفتاويٰ (1/111)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اقسام ِاستغاثہ
(1)غیر مشروع استغاثہ

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےفرمایا : تکلیف اور مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر نے کے لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ کا قرب چاہتا ہے) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرب و مصیبت کے اندر گویا کہ پکارتا ہے ، برابر ہے کہ یہ استغاثہ کے لفظ سے ہو یا توسل (یا وسیلہ وغیرہ ) کے لفظ سے ہو ۔جو کہ اس کا معنی دیتا ہو ۔ اور آدمی کا کہنا کہ :یا اللہ میں تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے تیرے قریب ہوتا ہوں یا کہے کہ: ”اَسْتَغِیْثُ بِرَسُوْلِكَ عِنْدَكَ أَنْ تَغْفِرلِي“ یعنی میں تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وا سطے سے پکارتا ہوں کہ مجھے بخش دے ، یہ در حقیقت لغت عربی اور ساری امتوں کی زبانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل وسیلہ لینا آپ کو پکارنا ہے اور یہ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کر وانا ) آپ کی زندگی میں اور اس وقت جب کہ آپ مجلس میں بنفس نفیس موجود ہوتے جائز تھا ۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیابت و غیرحاضر ی میں یہ جا ئز نہیں ہے اور پھر یہ استغاثہ (مخلوق سے)کیا بھی ان امور میں جا سکتا ہے جن پر ان کو قدرت بھی ہو ، جیسا کہ فر مان الہی ہے کہ :وَإِنِ اسْتَنصَرُ‌وكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ‌ ۔۔(الأنفال: ٧٢) یعنی اگر وہ تم سے دین (کے معا ملہ میں )مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے ۔ اور فرمان الہٰی ہے: فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ ۔۔﴿١٥ (القصص )یعنی (مو سیٰ علیہ السلام کو اس شخص نے مدد کے لئے پکارا جو کہ اس کے جماعت سے تھا اس شخص کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا ۔ جبکہ وہ کام جن پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو قدرت نہیں ہے وہ فقط اللہ اکیلےسے مانگے جائیں گے ۔اسی وجہ سے مسلمان صحا بہ کرام و تا بعین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وا سطے سے نہیں پکارتے تھے اور نہ با رش طلب کر تے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سل سے ما نگتے تھے ۔
جیسا کہ صحیح بخا ری میں ہے کہ جناب عمر بن خطاب ؓ نے عباس ؓ کے ذریعہ سے بارش طلب کی یعنی ان سے دعا کروائی اور پھر کہا :”اللهم إِنَّا کُنَّا إِذَا أَجْدَبْنَا نَتَوَسَّلُ إِِلَیْكَ بِنَبِیِّنَا فَسْتَسْقِیَنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِِلَیْكَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا فَیُسْقَوْنَ “۔ ”یااللہ جب ہم قحط سالی کا شکار ہوتے تھے تو تجھ سے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے بارش مانگتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے ذریعہ سے پھر تو ہمیں بارش دیتا تھا ، اور اب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کر تے ہیں یا اللہ ہمیں پانی دے“۔ تو بارش برستی تھی ۔ ([1])

(2) مشروع استغا ثہ :

اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرنا یعنی اسے پکارنا یا انبیاء اکرام یا صالحین سے ان کی زندگی میں ان سے دعا کروانا یا اس کام کے لئے مدد مانگنا جس پر ان کو قدرت ہو۔ باقی ان کی وفات کے بعد یا اس چیزکے لئے جس کی ان کو قدرت نہ ہو استغاثہ جائز نہیں ہے ۔
اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی رحمت کےواسطے سے استغاثہ کرنا حقیقت میں اس کی ذات سے استغاثہ کرنے (پکارنے) کی طرح ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کے وا سطے سے استعاذہ (یعنی پناہ طلب کرنا ) اس کی ذات سے استعاذہ کرنے کی طرح ہے ۔ ([2])
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں”شرک کی اقسام سے ، مردوں سے حاجت روائی کے لئے سوال کرنا یا ان کو تکلیف میں پکارنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ہے۔ اور یہ حقیقی شرک ہے جو اس وقت دنیا میں واقع ہوتا ہے۔ کیوں کہ مرنے والے کا کا م ختم ہو چکا اور اب وہ پکارنے والے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے پاس سفا رش کرنے کی استدعا کرنے والے کے لئے نفع و نقصان دینا تو دور کی بات ہے، خود کے لئے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے “ ۔([3])
الاستعاذة، الإغاثة، التعاون على البر والتقوى، الدعاء، التوسل، الضراعة والتضرع، الابتهال .
الإعراض، الشرك، الغفلة، الكسل، القنوط، الكبر والعجب، اليأس .

[1]- مجموع الفتاويٰ (1/105،101) بتصرف شديد
[2]- السابق(1/111)
[3]- فتح المجيد (168)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آیات

(١)إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ ﴿٩﴾ وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ إِلَّا بُشْرَ‌ىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ‌ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿١٠الأنفال
(١)اس وقت كو یاد كرو جب كہ تم اپنے رب سے فریاد كر رہے تھے ،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی كہ میں تم كو ایك ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے(9)اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لئے كی كہ بشارت ہو اور تاكہ تمہارے دلوں كو قرار ہو جائے اور مدد صرف اللہ ہی كی طرف سے ہے جو كہ زبردست حكمت والا ہے(10)

(٢) وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَ‌جُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ ﴿١٥القصص
(٢) اور موسیٰ علیہ السلام ایك ایسے وقت شہر میں آئے جبكہ شہر كے لوگ غفلت میں تھے یہاں دو شخصوں كو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایك تو ان كے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا ان كے دشمنوں میں سے، ان كی قوم والے نے اس كے خلاف جو ان كے دشمنوں میں سے تھا ان سے فریاد كی ،جس پر موسیٰ علیہ السلام نے اس كو مكا مارا جس سے وہ مرگیا موسیٰ علیہ السلام كہنے لگے یہ تو شیطانی كام ہے، یقینا شیطان دشمن اور كھلے طور پر بہكانے والا ہے(15)

(٣)وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَ‌جَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُ‌ونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّـهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ‌ الْأَوَّلِينَ ﴿١٧الأحقاف
(٣)اور جس نے اپنے ماں باپ سے كہا كہ تم سے میں تنگ آگیا ،تم مجھ سے یہی كہتے رہو گے كہ میں مرنے كے بعد زندہ كیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چكی ہیں ،وہ دونوں جناب باری میں فریادیں كرتے ہیں اور كہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ ،بے شك اللہ كا وعدہ حق ہے وہ جواب دیتا ہے كہ یہ تو صرف اگلوں كے افسانے ہیں (17)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
استغاثہ کے بارے میں معناً وارد آیات مبارکہ

(٤)وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَ‌كَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُ‌ونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٤٨﴾ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ‌ فَمَن شَرِ‌بَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَ‌فَ غُرْ‌فَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِ‌بُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّـهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَ‌ةً بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿٢٤٩﴾ وَلَمَّا بَرَ‌زُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَ‌بَّنَا أَفْرِ‌غْ عَلَيْنَا صَبْرً‌ا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْ‌نَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٥٠البقرة
(٤)ان كے نبی نے انہیں پھر كہا كہ اس كی بادشاہت كی ظاہری نشانی یہ ہے كہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب كی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون كا بقیہ تركہ ہے، فرشتے اسے اٹھا كر لائیں گے یقینا یہ تو تمہارے لئے كھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو(248) جب طالوت لشكروں كو لے كر نكلے تو كہا سنو اللہ تعالیٰ تمہیں ایك نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چكھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے كہ اپنے ہاتھ سے ایك چلو بھرلے لیكن سوائے چند كے باقی سب نے وہ پانی پی لیا طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ كہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں كہ جالوت اور اس كے لشكروں سے لڑیں ،لیكن اللہ تعالیٰ كی ملاقات پر یقین ركھنے والوں نے كہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ كے حكم سے غلبہ پالیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں كے ساتھ ہے(249) جب ان كا جالوت اور اس كے لشكر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی كہ اے پروردگار ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم كفار پر ہماری مدد فرما(250)

(٥)إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ‌وا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُ‌وا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُ‌وا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُ‌وكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ‌ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿٧٢ الأنفال
(٥)جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت كی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ كی راہ میں جہاد كیا اور جن لوگوں نے ان كو پناہ دی اور مدد كی، یہ سب آپس میں ایك دوسرے كے رفیق ہیں اور جو ایمان تو لائے ہیں لیكن ہجرت نہیں كی تمہارے لئے ان كی كچھ بھی رفاقت نہیں جب تك كہ وہ ہجرت نہ كریں ،ہاں اگر وہ تم سے دین كے بارے میں مدد طلب كریں تو تم پر مدد كرنا ضروری ہے سوائے ان لوگوں كے كہ تم میں اور ان میں عہدو پیمان ہے تم جو كچھ كر رہے ہو اللہ خوب دیكھتا ہے(72)

(٦) وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ ﴿٨٤﴾ فَقَالُوا عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا رَ‌بَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٨٥﴾ وَنَجِّنَا بِرَ‌حْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٨٦ يونس
(٦)اورموسیٰ( علیہ السلام )نےفرمایاكہ اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان ركھتے ہو تو اسی پر توكل كرو اگر تم مسلمان ہو(84) انہوں نے عرض كیا كہ ہم نے اللہ ہی پر توكل كیا اے ہمارے پروردگار ہم كو ان ظالموں كے لئے فتنہ نہ بنا(85) اور ہم كو اپنی رحمت سے ان كافر لوگوں سے نجات دے(86)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(٧)وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَ‌حْمَتِنَا ۖ إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٧٥﴾ وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْ‌بِ الْعَظِيمِ ﴿٧٦﴾ وَنَصَرْ‌نَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَ‌قْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٧٧الأنبياء
(٧)نوح كے اس وقت كو یاد كیجئے جبكہ اس نے اس سے پہلے دعا كی ہم نے اس كی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس كے گھر والوں كو بڑے كرب سے نجات دی(76)اور جو لوگ ہماری آیتوں كو جھٹلا رہے تھے ان كے مقابلے میں ہم نے اس كی مدد كی، یقینا وہ برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب كو ڈبو دیا(77)

(٨)وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَ‌بَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ‌ وَأَنتَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ ﴿٨٣﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ‌ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَ‌حْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَ‌ىٰ لِلْعَابِدِينَ ﴿٨٤الأنبياء
(٨)ایوب( علیہ السلام ) كی اس حالت كو یاد كرو جبكہ اس نے اپنے پروردگار كو پكارا كہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم كرنے والوں سے زیادہ رحم كرنے والا ہے(83)تو ہم نے اس كی سن لی اور جو دكھ انہیں تھا اسے دور كر دیا اور اس كو اہل و عیال عطا فرمائے بلكہ ان كے ساتھ ویسے ہی اور اپنی خاص مہربانی سے تاكہ سچے بندوں كے لئے سببِ نصیحت ہو(84)

(٩) وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ‌ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨ الأنبياء
(٩)مچھلی والے ( یونس علیہ السلام ) كو یاد كرو جبكہ وہ غصہ سے چل دیا اور خیال كیا كہ ہم اسے نہ پكڑ سكیں گے بالآخر وہ اندھیروں كے اندر سے پكار اٹھا كہ الہٰی تیرے سوا كوئی معبود نہیں تو پاك ہے، بے شك میں ظالموں میں ہو گیا(87)تو ہم نے اس كی پكار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں كو اسی طرح بچا لیا كرتے ہیں (88)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(١٠) قَالَ رَ‌بِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ ﴿١١٧﴾ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾ فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿١١٩﴾ ثُمَّ أَغْرَ‌قْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ ﴿١٢٠الشعراء
(١٠)آپ نے كہا اے میرے پروردگار میری قوم نے مجھے جھٹلادیا(117)پس تو مجھ میں اور ان میں كوئی قطعی فیصلہ كر دے اور مجھے اور میرے باایمان ساتھیوں كو نجات دے(118)چنانچہ ہم نے اسے اور اس كے ساتھیوں كو بھری ہوئی كشتی میں ( سوار كراكر) نجات دے دی(119) اس کے بعدہم نے باقیوں کو غرق کردیا (120)

(١١) رَ‌بِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ ﴿١٦٩ الشعراء
(١١)میرے پروردگار مجھے اور میرے گھرانے كو اس ( وبال ) سے بچا لے جویہ كرتے ہیں(169)

(١٢) أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْ‌ضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٦٢ النمل
(١٢)بے كس كی پكار كو جب كہ وہ پكارے كون قبول كر كے سختی كو دور كر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین كا خلیفہ بناتا ہے، كیا اللہ تعالیٰ كے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت كم نصیحت و عبرت حاصل كرتے ہو(62)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(١٣) فَخَرَ‌جَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَ‌قَّبُ ۖ قَالَ رَ‌بِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢١القصص
(١٣)پس موسیٰ علیہ السلام وہاں سے خوفزدہ ہو كر دیكھتے بھالتے نكل كھڑے ہوئے كہنے لگے اے پروردگار مجھے ظالموں كے گروہ سے بچالے(21)

(١٤) وَاذْكُرْ‌ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَ‌بَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾ ارْ‌كُضْ بِرِ‌جْلِكَ ۖ هَـٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ‌دٌ وَشَرَ‌ابٌ ﴿٤٢﴾ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَ‌حْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَ‌ىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٤٣﴾ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِ‌ب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرً‌ا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ ﴿٤٤ ص
(١٤)اور ہمارے بندے ایوب علیہ السلام كا ( بھی) ذكر كر، جبكہ اس نے اپنے رب كو پكارا كہ مجھے شیطان نے رنج اور دكھ پہنچایا ہے(41)اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے كا ٹھنڈا اور پینے كا پانی ہے(42)اور ہ اپنے ہاتھ میں تنكوں كا ایك مٹھا( جھاڑو) لے كر مار دے اور قسم كا خلاف نہ كر، سچ تو یہ ہے كہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیك بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت ركھنے والا(44)

(١٥) فَدَعَا رَ‌بَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ‌ ﴿١٠﴾ فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ‌ ﴿١١﴾ وَفَجَّرْ‌نَا الْأَرْ‌ضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ‌ قَدْ قُدِرَ‌ ﴿١٢﴾ وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ‌ ﴿١٣﴾ تَجْرِ‌ي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ‌ ﴿١٤ القمر
(١٥)پس اس نے اپنے رب سے دعا كی كہ میں بے بس ہوں تو میری مدد كر(10) پس ہم نے آسمان كے دروازوں كو زور كے مینہ سے كھول دیا(11)اور زمین سے چشموں كو جاری كر دیا پس اس كام كے لئے جو مقدر كیا گیا تھا( دونوں ) پانی جمع ہو گئے(12)اور ہم نے اسے تختوں اور كیلوں والی( كشتی) پر سوار كر لیا(13)جو ہماری آنكھوں كے سامنے چل رہی تھی،بدلہ اس كی طرف سے جس كا كفر كیا گیا تھا(14)

(١٦) وَضَرَ‌بَ اللَّـهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَ‌أَتَ فِرْ‌عَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَ‌بِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْ‌عَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿١١﴾التحريم
(١٦)اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں كے لئے فرعون كی بیوی كی مثال بیان فرمائی جبكہ اس نے دعا كی كہ اے میرے رب میرے لئے اپنے پاس جنت میں مكان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس كے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے(11)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
احادیث

1- عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍؓ قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَوَّلُ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى الْمَسْجِدِ وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَتْ: يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ؟ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا فَقَالَتْ لَهُ: أَاللهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَتْ: إِذَنْ لَا يُضَيِّعُنَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ حَتَّى بَلَغَ يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ (إبراهيم) وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى أَوْ قَالَ: يَتَلَبَّطُ فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ فَوَجَدَتْ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الْأَرْضِ يَلِيهَا فَقَامَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْ الْوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَهَبَطَتْ مِنَ الصَّفَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ حَتَّى جَاوَزَتْ الْوَادِيَ ثُمَّ أَتَتْ المَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّﷺ: فَذَلِكَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا فَقَالَتْ: صَهٍ تُرِيدُ نَفْسَهَا ثُمَّ تَسَمَّعَتْ أَيْضًا فَقَالَتْ: قَدْ أَسْمَعْتَ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ أَوْ قَالَ: بِجَنَاحِهِ حَتَّى ظَهَرَ الْمَاءُ فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا: هَكَذَا وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنْ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّﷺ: يَرْحَمُ اللهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنْ الْمَاءِ لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا قَالَ فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا فَقَالَ لَهَا الْمَلَكُ: لَا تَخَافُوا الضَّيْعَةَ فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللهِ يَبْنِي هَذَا الْغُلَامُ وَأَبُوهُ وَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَهْلَهُ وَكَانَ الْبَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنْ الْأَرْضِ كَالرَّابِيَةِ تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَكَانَتْ كَذَلِكَ حَتَّى مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمٍ أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمٍ مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ كَدَاءٍ فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَكَّةَ فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَى مَاءٍ لَعَهْدُنَا بِهَذَا الْوَادِي وَمَا فِيهِ مَاءٌ فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَاءِ فَأَقْبَلُوا قَالَ: وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ الْمَاءِ فَقَالُوا: أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ فَقَالَتْ: نَعَمْ وَلَكِنْ لَا حَقَّ لَكُمْ فِي الْمَاءِ قَالُوا: نَعَمْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّﷺ: فَأَلْفَى ذَلِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيهِمْ فَنَزَلُوا مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَمَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ: نَحْنُ بِشَرٍّ نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ فَشَكَتْ إِلَيْهِ قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا فَقَالَ: هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ قَالَ: فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا قَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ؟ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ: نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ وَأَثْنَتْ عَلَى اللهِ فَقَالَ: مَا طَعَامُكُمْ قَالَتْ: اللَّحْمُ قَالَ: فَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتْ: الْمَاءُ قَالَ: اللهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَاءِ قَالَ النَّبِيُّﷺ: وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ قَالَ: فَهُمَا لَا يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ قَالَ: هَلْ أَتَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ قَالَ: فَأَوْصَاكِ بِشَيْءٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللهُ ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَالْوَلَدُ بِالْوَالِدِ ثُمَّ قَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ اللهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ قَالَ: فَاصْنَعْ مَا أَمَرَكَ رَبُّكَ قَالَ: وَتُعِينُنِي قَالَ: وَأُعِينُكَ قَالَ فَإِنَّ اللهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَى مَا حَوْلَهَا قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَيْتِ فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَاءَ بِهَذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ فَقَامَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَهُمَا يَقُولَانِ: رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾قَالَ: فَجَعَلَا يَبْنِيَانِ حَتَّى يَدُورَا حَوْلَ الْبَيْتِ وَهُمَا يَقُولَانِ: رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾ (البقرة) . ([1])
(۱)سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس نے بیان کیا عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ )سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پر پٹہ اس لئے باندھا تھا تاکہ سارہ ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں)پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم ( علیہ السلام )ساتھ لے کر مکہ میں آئے۔ اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں آب زمزم ہے مسجد کی بلند جانب میں ان دنوں مکہ میں کو ئی انسان نہیں تھا۔ اس لئے وہاں پانی بھی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لئے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لئے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا ۔وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آگئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ تو ادھر رخ کیا جہاں اب کعبہ ہے(جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو اس بے آب و دانہ میدان میں ٹھہرایا ہے(سورۃ ابراہیم) یشکرون تک۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور ان کے لخت جگربھی پیاسے رہنے لگے وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا(پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا( کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے ۔وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیوں کہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہو تا تھا صفا پہاڑ ی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں ) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا۔ وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں)اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا( صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لئے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آوازسنائی دی۔ انہوں نے کہا خاموش ! وہ اپنے آپ سے کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگادیئے ۔آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں آب زمزم (کا کنواں)ہے وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ سیدہ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا(تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہو تا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔بیان کیا کہ پھر ہاجرہ نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہر گز نہ کرنا کیوں کہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا۔ جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اب جہاں بیت اللہ ہے اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اورآخر ایک دن قبیلہ جر ہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا(آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا(قریب ہی ) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سےگزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا ۔چنانچہ انہوں نے واپس آکر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہا السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے تسلیم کر لیا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لئے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آکر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے۔ اور بچہ(اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہو ا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل ایسے خوبصورت تھے۔ کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ )کا انتقال ہو گیا۔ اسماعیل کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لئے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئےہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے۔بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے۔ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے۔ اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ وصیت بھی کی تھی؟ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں۔ اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ کو منظور رہا ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے ۔پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر میں موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لئے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے۔ بڑی فراخی ہے۔ انہوں نے اس کے لئے اللہ کی تعریف و ثنا کی ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایاکہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے(جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آجائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا(کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتادیا پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟انہوں نے کہا جی ہاں انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے۔ چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔پھر جتنے دنوں اللہ کو منظور رہا اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف!رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے اور ابراہیم علیہ السلام دیوار بناتے رہے ۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت قبول کر بے شک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایاکہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے:”اے ہمارے رب !ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والاہے“۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا} رقم (3364)
 
Last edited:
Top