• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستغاثة

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّؓ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ عَنْ الدَّجَّالِ وَحَذَّرَنَاهُ فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ: إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَإِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ فَأَنَا حَجِيجٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ وَإِنْ يَخْرُجْ مِنْ بَعْدِي فَكُلُّ امْرِئٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَيَعِيثُ يَمِينًا وَيَعِيثُ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللهِ فَاثْبُتُوا فَإِنِّي سَأَصِفُهُ لَكُمْ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا إِيَّاهُ نَبِيٌّ قَبْلِي إِنَّهُ يَبْدَأُ فَيَقُولُ: أَنَا نَبِيٌّ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي ثُمَّ يُثَنِّي فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ وَلَا تَرَوْنَ رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا وَإِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ أَوْ غَيْرِ كَاتِبٍ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ فَمَنْ ابْتُلِيَ بِنَارِهِ فَلْيَسْتَغِثْ بِاللهِ وَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ الْكَهْفِ فَتَكُونَ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا كَمَا كَانَتْ النَّارُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ...) ([1])
(۲)ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ہم کو خطبہ سنایا تو بڑا خطبہ آپ کا دجال سے متعلق تھا آپ نےدجال کا ہم سے بیان کیا اور ہم کو اس سے ڈرایا تو فرمایا کوئی فتنہ دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ اور اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں ،اور تم آخر میں ہو سب امتوں سے اور دجال تم ہی لوگوں میں ضرور پیدا ہوگا پھر اگر وہ نکلے اور میں تم میں موجود ہوا تو میں ہر مسلمان کی طرف سے لڑنے والا ہوں گا۔ ( اس سے یہ نکلتا ہے کہ شاید رسول اللہ ﷺکو اس وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ دجال کے نکلنے کا وقت کونسا ہے۔ لیکن اس حدیث میں ہے کہ دجال کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے۔اور وہ امام مہدی کے بعد نکلے گا ۔پس یہ کلمہ صحابہ کی تشفی کے لئے ہے یا اس سے اور ڈرانا مقصود ہے کہ دجال کا فتنہ ایسا بڑا ہے کہ اگر میرے سامنے نکلے تو مجھ کو اس سے بحث کرنا پڑے گی۔ اور کوئی شخص اس کام کے لئے کافی نہ ہوگا)اور اگر میرے بعد نکلے تو ہر شخص اپنی ذات کی طرف سے حجت کرلے۔ اور اللہ سبحانہ میرا خلیفہ ہے ہر مسلمان پر دیکھو دجال نکلے گا خلہ سے جو شام اورعراق کے درمیان ہے (خلہ کہتے ہیں راہ کو) پھر وہ دائیں اور بائیں ہر طرف فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو جمے رہنا ،ایمان پر کیوں کہ میں تم سے اس کی ایسی صفت بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کی( پس اس صفت سے تم اس کو خوب پہچان لو گے) پہلے تو وہ کہے گا میں نبی ہوں۔ حالانکہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے۔ پھر دوبارہ کہے گا میں تمہارا رب ہوں، اور دیکھو تم اپنے رب کو مرنے تک نہیں دیکھ سکتے( پس دجال جو دنیا کی زندگی میں دکھلائی دے گا کیوں کر رب ہو سکتا ہے) اور ایک بات اور ہے وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ ( وہ اللہ ہر ایک عیب سے پاک ہے) اور دوسرا یہ کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا۔ "کافر"،اس کو ہر ایک مومن (بقدرت الٰہی) پڑھ لے گا۔ خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اور اس کا فتنہ یہ ہوگا کہ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہو گی لیکن اس کی جنت دوزخ ہے۔(فی الحقیقت) اور اس کی دوزخ جنت ہے پس جو کوئی اس کی دوزخ میں ڈالا جائے گا اور ضرور وہ سچے مومنوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دے گا) وہ اللہ سے فریاد کرے اور سورہ کہف کے شروع کی آیتیں پڑھے وہ دوزخ ( اللہ کے حکم سے ) اس پر ٹھنڈی ہو جائے گی۔ اور سلامتی جیسے ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔

[1] - (ضعيف) ضعيف سنن ابن ماجة رقم (4077)، سنن ابن ماجه،كِتَاب الْفِتَنِ، بَاب فِتْنَةِ الدَّجَالِ وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ...، رقم (4077)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-عَنْ أَنَسٍؓ عَنْ النَّبِيِّﷺ: يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُونَ: لَوْ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو النَّاسِ خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ ذَنْبَهُ فَيَسْتَحِي ائْتُوا نُوحًا فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ سُؤَالَهُ رَبَّهُ مَا لَيْسَ لَهُ بِهِ عِلْمٌ فَيَسْتَحِي فَيَقُولُ: ائْتُوا خَلِيلَ الرَّحْمَنِ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللهُ وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ فَيَأْتُونَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ قَتْلَ النَّفْسِ بِغَيْرِ نَفْسٍ فَيَسْتَحِي مِنْ رَبِّهِ فَيَقُولُ: ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَةَ اللهِ وَرُوحَهُ فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ ائْتُوا مُحَمَّدًاﷺ عَبْدًا غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ فَيَأْتُونِي فَأَنْطَلِقُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنَ لِي فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَقُلْ يُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ إِلَيْهِ فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي مِثْلَهُ ثُمَّ أَشَفَّعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمْ الْجَنَّةَ ثُمَّ أَعُودُ الثَّالِثَّةَ ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ فَأَقُولُ: مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.
و له لفظ آخرعند البخاري وهو : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ ثُمَّ بِمُوسَى ثُمَّ بِمُحَمَّدٍﷺ وَزَادَ عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ فَيَشْفَعُ
لِيُقْضَى بَيْنَ الْخَلْقِ فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ الْبَابِ فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللهُ مَقَامًا مَحْمُودًا يَحْمَدُهُ أَهْلُ الْجَمْعِ كُلُّهُمْ.

([1])
(۳)انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا مومنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور(آپس میں)کہیں گے۔ بہتر یہ تھا کہ اپنےر ب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ سیدنا آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا ۔آپ کے لئے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے ۔آپ ہمارے لئے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تا کہ آج کی اس مصیبت سے ہمیں نجات ملے ۔آدم علیہ السلام کہیں گے میں اس کے لائق نہیں ہوں ۔وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کردیں گے کہ مجھ میں اس کی جرأت نہیں ۔ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آجائے گا اور اپنےر ب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں ۔لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں تم جناب محمد ﷺکے پاس جاؤوہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھرمیں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گااور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو۔ تمہیں دیا جائے گا۔ جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہوگی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا اور پھر جب واپس آؤں گا تو اپنےر ب کو پہلے کی طرح دیکھوں گا میں پھر سفارش کروں گا، اور میرے لئے اللہ حد متعین کرے گا ۔۔۔ میں ان لوگوں کو بھی جنت میں داخل کراؤں گا۔اور شفاعت میں جنت میں داخل کراؤں گا۔ چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا ضرور قرار دے دیا ہے۔(بخاری کی دوسری روایت میں ہے)اور آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا ۔لوگ اسی حال میں اپنی خلاصی کے لئے سیدنا آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور پھر محمد ﷺسے عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺشفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ بڑھیں گے اورجنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے ۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ {وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا} رقم (4476)، صحيح مسلم رقم (193)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ: أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ بَوَاكِيَ فَقَالَ: اللهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ قَالَ: فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ السَّمَاءُ. ([1])
(۴)جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بارش کے طلبگار آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمیں فائدے مند، خوشگوار اور خوشحال کرنے والی نفع مند نہ کہ نقصان دے، تاخیر کے بجائے جلدی برسنے والی بارش عطا فرما۔ چنانچہ اسی وقت ان پر بادلوں سے آسمان (فضا) بھر گیا۔

5- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ الْيَهُودِ فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ فَأَبَى أَنْ يُنْظِرَهُ فَكَلَّمَ جَابِرٌ رَسُولَ اللهِ ﷺ لِيَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ فَأَبَى فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّخْلَ فَمَشَى فِيهَا ثُمَّ قَالَ لِجَابِرٍ: جُدَّ لَهُ فَأَوْفِ لَهُ الَّذِي لَهُ فَجَدَّهُ بَعْدَمَا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَأَوْفَاهُ ثَلَاثِينَ وَسْقًا وَفَضَلَتْ لَهُ سَبْعَةَ عَشَرَ وَسْقًا فَجَاءَ جَابِرٌ رَسُولَ اللهِ ﷺ لِيُخْبِرَهُ بِالَّذِي كَانَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَخْبَرَهُ بِالْفَضْلِ فَقَالَ: أَخْبِرْ ذَلِكَ ابْنَ الْخَطَّابِ فَذَهَبَ جَابِرٌ إِلَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ عَلِمْتُ حِينَ مَشَى فِيهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ لَيُبَارَكَنَّ فِيهَا. ([2])
(۵)جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ جب ان کے والد شہید ہوئے تو ایک یہودی کا تیس وسق قرض اپنے اوپر چھوڑ گئے، جابر ؓ نے اس سے مہلت مانگی لیکن وہ نہیں مانا، پھر جابر ؓ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ اس یہودی(ابوشحم) سے (مہلت دینے کی) سفارش کر دیں۔ رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور یہودی سے یہ فرمایا کہ جابر ؓ کے باغ کے پھل( جو بھی ہوں ) اس قرض کے بدلے میں لے لے، جو ان کے والد کے اوپر اس کا ہے، اس نے اس سے بھی انکار کیا۔ اب رسول اللہ ﷺباغ میں داخل ہوئے اور اس میں چلتے رہے پھر جابر ؓ سے آپ نے فرمایا کہ باغ کا پھل توڑ کے اس کا قرض ادا کرو، جب رسول اللہ ﷺواپس تشریف لائے تو انہوں نے باغ کی کھجوریں توڑیں اور یہودی کا تیس وسق ادا کر دیا۔ سترہ وسق اس میں سے بچ بھی رہا۔ جابر ؓ آپ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ کو بھی یہ اطلاع دیں۔ آپ اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہے تھے جب آپ ﷺفارغ ہوئے تو انہوں نے آپ کو اطلاع دی۔آ پ نے فرمایا کہ اس کی خبر ابن خطاب کو بھی کردو۔ چنانچہ جابر ؓ عمر ؓ کے یہاں گئے، عمر ؓ نے فرمایا میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب رسول اللہ ﷺباغ میں چل رہے تھے کہ اس میں ضرور برکت ہوگی۔

[1] - (صحيح) صحيح سنن أبي داود رقم (1169)، سنن أبى داود،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، رقم (1169)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب فِي الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ، بَاب إِذَا قَاصَّ أَوْ جَازَفَهُ فِي الدَّيْنِ تَمْرًا بِتَمْرٍ أَوْ غَيْرِهِ، رقم (2396)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍؓ قَالَ إِنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ جُمُعَةٍ مِنْ بَابٍ كَانَ نَحْوَ دَارِ الْقَضَاءِ وَرَسُولُ اللهِ ﷺ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَائِمًا ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ يُغِثْنَا قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ أَغِثْنَا اللهُمَّ أَغِثْنَا اللهُمَّ أَغِثْنَا قَالَ أَنَسٌ: وَلَا وَاللهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَةٍ وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ قَالَ فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتِ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ قَالَ: فَلَا وَاللهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللهِ ﷺ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللهَ يُمْسِكْهَا عَنَّا قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ حَوْلَنَا وَلَا عَلَيْنَا اللهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْقَلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ. ([1])
(۶)انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص (کعب بن مرہ یا ابو سفیان )کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازہ سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا ۔رسول اللہ ﷺکھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ ﷺسے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (بارش نہ ہونے سے )جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے ۔آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے یہ سنتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر ،اے اللہ! ہمیں سیراب کر ۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔انس ؓ نے کہا اللہ کی قسم! کہیں دور دورتک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا۔ اور نہ کوئی اور چیز( ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا(کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہو گئی ۔اللہ کی قسم ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ ﷺکھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے اس شخص نے پھر آپ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (بارش کی کثرت سے) مال و متاع پر تباہی آگئی اور راستے بند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے ۔پھر رسول اللہ ﷺنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا اللہ اب ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں پہاڑوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلےتو دھوپ نکل چکی تھی۔

7- عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِقَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللهِﷺإِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ: اللهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتَكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ (الأنفال) فَأَمَدَّهُ اللهُ بِالْمَلَائِكَةِ. ([2])
(۷)عمر ؓ سے روایت ہے کہ جس دن بدر کی لڑائی ہوئی تو جناب رسول اللہ ﷺنے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے اصحاب تین سو انیس تھے جناب رسول اللہ ﷺنے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا پھر دونوں ہاتھ پھیلائے اور پکار کر دعا کرنے لگے ،اپنے پروردگار سے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) یا اللہ جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کریا اللہ اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی(بلکہ جھاڑ پہاڑ پوجے جائیں گے) پھر آپ برابر دعا کرتے رہے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک مونڈھوں سے اتر گئی ،ابو بکر ؓ آئے اور آپ کی چادر مونڈھے پر ڈال دی۔ پھر پیچھے لپٹ گئے اور فرمایا اے اللہ کے نبیﷺبس آپ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ اس وعدہ کو پورا فرمائے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے ۔ تب اللہ نے یہ آیت اتاری : إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ ﴿٩الأنفال

8- عَنِ السُّدِّيّ قَالَ: أَقْبَلَ النَّبِيّ ﷺ يَدْعُو اللهَ وَيَسْتَغِيثُهُ وَيَسْتَنْصِرُهُ فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَة . ([3])
(۸)امام سدی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺاپنے رب سے دعا فرمانے لگے مدد اوراستغاثہ طلب کرتے رہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کے لئے فرشتے نازل فرمائے۔


[1] - صحيح مسلم،كِتَاب صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ، بَاب الدُّعَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، رقم (897)
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب الْإِمْدَادِ بِالْمَلَائِكَةِ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ وَإِبَاحَةِ الْغَنَائِمِ، رقم (1763)
[3]- تفسير الطبري رقم (126،127)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استغاثہ کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کرام کےاقوال
(۱)جناب موسیٰ علیہ السلام کہا کرتے تھے"یا اللہ !تیرے لئے ہی ہر قسم کی تعریف ہے۔ اور تیرے پاس ہی شکایت کرتے ہیِں، اور تجھ سے ہی مدد مانگی جاتی ہے اور تجھ سےہی بے بسی کے عالم میں مدد کی درخواست کی جاتی ہے۔ اور تجھ پر ہی توکل کیا جاتا ہے اور تیری مشیئت کے سوا نہ کوئی قدرت ہے نہ طاقت ۔([1])
(۲)ابو یزید بسطامی نے کہا"مخلوق کا مخلوق سے امداد طلب کرنا ڈوبنے والے کا ڈوبنے والے کو مدد کے لئے پکارنے کی طرح ہے۔([2])
(۳)امام طبری رحمہ اللہ نے اس آیت : وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْ‌بِ الْعَظِيمِ ﴿٧٦ الأنبياء یعنی "اور نوح نے جب اس سے پہلے پکارا تو ہم نے اس کی دعا کو قبول کیا پھر اس کو اور اس کے اہل کو عظیم تکلیف سے نجات دی ۔اور ہم نے اس کی مدد کی"۔ کی تفسیر میں کہا ہے یعنی "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد ﷺ! نوح علیہ السلام کو یاد کر جب اس نے اپنے رب کو پکارا ۔آپ سے پہلے اور ابراہیم اور لوط علیہ السلام سے بھی پہلے اور اس نے ہم سے سوال کیا کہ ہم اس کی قوم کو ہلاک کریں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی تکذیب کی تھی اس وعید میں جو نوح علیہ السلام نے انہیں سنائی تھی۔ اور نوح علیہ السلام کی تکذیب کی اس چیز کے بارے میں جو وہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف سے لائے تھے۔ اور نوح علیہ السلام نے کہا: وَقَالَ نُوحٌ رَّ‌بِّ لَا تَذَرْ‌ عَلَى الْأَرْ‌ضِ مِنَ الْكَافِرِ‌ينَ دَيَّارً‌ا ﴿٢٦ نوح یعنی"اے رب زمین پر ایک بھی کافر رہنے والا نہ چھوڑ "پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو اور اس کے اہل( یعنی اہل ایمان ) کو عظیم تکلیف یعنی اس عذاب سے نجات دی جو تکذیب کرنے والوں پر نازل ہوا تھا۔([3])
(۴)طبری نے اس آیت: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِينَ ﴿٩الأنفال یعنی" تم اپنے دشمن سے اپنے رب کی پناہ مانگ رہے تھے اور اس کو ان( کفار) پر مدد کے لئے پکار رہے تھے۔ (فاستجاب لکم) یعنی تمہاری دعا اس طرح قبول فرمائی کہ فرمایا"میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کر رہا ہوں" جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔([4])
(۵)اور امام قرطبی نے آیت: فَدَعَا رَ‌بَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ‌ ﴿١٠ (القمر)یعنی "نوح علیہ السلام نے ان( کفار)پر اس وقت بد دعا کی اور کہا اے میرے رب( میں مغلوب ہوں) یعنی وہ اپنی سر کشی سے مجھ پرغالب آگئے ہیں۔ (فَانتَصِرْ‌) یعنی میری مدد فرما: ہم نے اس کی دعا قبول کی اور (اسے) بحری جہاز بنانے کا حکم دیا اور آسمان کے دروازے زبردست پانی سے کھول دئیے۔([5])
(۶)شیخ ابو عبداللہ قرشی رحمہ اللہ نے کہا" مخلوق کا مخلوق کو پکار کر امدا د طلب کرنا ویسا ہے جیسا قیدی کا قیدی کو مدد کے لئے پکارنا ہے۔
(۷)امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا "اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں انصاف کرنے والے علماء کرام نے کہا ہے کہ ہر مکلف( بالغ مسلمان) پر واجب ہے کہ و ہ یہ جان لے کہ مطلقاً اللہ کے سوا کوئی بھی عنایت کرنے والا اور مدد کرنے والا نہیں اور ہر مدد در حقیقت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔

[1]- مجموع الفتاوى رقم (1/206)
[2]- مجموع الفتاوى رقم (1/112)
[3]- تفسير الطبري رقم (9/37)
[4]- تفسير الطبري رقم (6/126،127)
[5]- تفسير الطبري رقم (17/131)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استغاثہ کے فوائد
(۱)استغاثہ میں پوری ہمت (و توجہ) اس اللہ کی طرف لگائی جاتی ہے جو ساری کائنات کے اندر اپنی کمال قدرت کے ساتھ تصرف کرنے والا ہے۔ اور یہ بھی یقین کرناہے کہ مخلوق اس کی تقدیر اور امر پر عمل کر رہے ہیں۔

(۲)ان امور کے اندر (اللہ کو) مدد کے لئے پکارنا کہ جن پر کوئی دوسرا گرفت نہیں رکھتا، توحید سے ہے اور یہ فقط اسی پر ایمان رکھنے کی دلیل ہے۔

(۳)استغاثہ کی وجہ سے انسان کا عزم قوی ہوتا ہے اس کے اس علم کی وجہ سے کہ وہ جس کو پکار رہاہے وہ اس کی مدد پر پورا قادر ہے۔

(۴)استغاثہ مدد الٰہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے جس طرح بدر کے دن مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔

(۵)استغاثہ سے پکارنے والے کی روحانیت پختہ ہوتی ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ جلد ہی تکلیف اور مصیبت دور ہو جائیگی۔

(۶)استغاثہ سے خیر حاصل ہوتی ہے اور انسانوں اور زمین میں خیر عام ہوتا ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top