- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
21- عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ قَالَ بِسْمِ اللهِ ثَلَاثًا فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾الزخرف ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا وَاللهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ ضَحِكَ قُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ. ([1])
(۲۱)علی بن ربیعہ بیان کرتےہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ وہ اس پر سوار ہوں پس جب انہوں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو فرمایا"بسم اللہ " پھر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا" الحمدللہ" پھر فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾الزخرف (وہ ذات پاک ہے جس نے اسے ہماے لئے مسخر کر دیا اور ہم میں یہ صلاحیت نہیں تھی اور بے شک ہم نے اپنے پروردگار کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے) پھر تین بار الحمد للہ اور تین با اللہ اکبر کہا پھر یہ کلمات پڑھے:”سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ“(تیری ذات پاک ہے میں نے اپنے اوپر ظلم کیا پس مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا) پھرآپ مسکرائے ہیں پس ان سے کسی نے کہا اے امیر المومنین !آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں ؟انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺکو ایسے کرتے ہوئے دیکھا جیسے میں نے کیا پھر آپ مسکرائے تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ”اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي“میرے گناہ معاف کر دے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ میرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔
22- عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ. ([2])
(۲۲)عوف بن مالک ؓکہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ کی دعا میں سے یہ لفظ یاد رکھے ”اللهُمَّ“سے ”النَّارِ“تک یعنی یا اللہ بخش اس کو اور رحم کر اور تندرستی دے اس کو اور معاف کر اس کو اور اپنی عنایت سے مہربانی کر اس کی اس کا گھر (قبر) کشادہ کر اور اس کو پانی اور برف اور اولوں سے دھودے اور اس کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے اور اس کو اس گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے اور اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے اور جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مردہ میں ہوتا۔
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ، رقم (963)
(۲۱)علی بن ربیعہ بیان کرتےہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ وہ اس پر سوار ہوں پس جب انہوں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو فرمایا"بسم اللہ " پھر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا" الحمدللہ" پھر فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ ﴿١٣﴾الزخرف (وہ ذات پاک ہے جس نے اسے ہماے لئے مسخر کر دیا اور ہم میں یہ صلاحیت نہیں تھی اور بے شک ہم نے اپنے پروردگار کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے) پھر تین بار الحمد للہ اور تین با اللہ اکبر کہا پھر یہ کلمات پڑھے:”سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ“(تیری ذات پاک ہے میں نے اپنے اوپر ظلم کیا پس مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا) پھرآپ مسکرائے ہیں پس ان سے کسی نے کہا اے امیر المومنین !آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں ؟انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺکو ایسے کرتے ہوئے دیکھا جیسے میں نے کیا پھر آپ مسکرائے تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ”اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي“میرے گناہ معاف کر دے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ میرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔
22- عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ. ([2])
(۲۲)عوف بن مالک ؓکہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ کی دعا میں سے یہ لفظ یاد رکھے ”اللهُمَّ“سے ”النَّارِ“تک یعنی یا اللہ بخش اس کو اور رحم کر اور تندرستی دے اس کو اور معاف کر اس کو اور اپنی عنایت سے مہربانی کر اس کی اس کا گھر (قبر) کشادہ کر اور اس کو پانی اور برف اور اولوں سے دھودے اور اس کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے اور اس کو اس گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے اور اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے اور جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مردہ میں ہوتا۔
[1] - (صحيح)صحيح سنن الترمذي رقم (3446)، سنن الترمذى،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ (3446)[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ، رقم (963)