• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستغفار

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
21- عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَهَا فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الرِّكَابِ قَالَ بِسْمِ اللهِ ثَلَاثًا فَلَمَّا اسْتَوَى عَلَى ظَهْرِهَا قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ قَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ‌ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِ‌نِينَ ﴿١٣﴾الزخرف ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ ثَلَاثًا وَاللهُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ ضَحِكَ قُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ. ([1])
(۲۱)علی بن ربیعہ بیان کرتےہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ وہ اس پر سوار ہوں پس جب انہوں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو فرمایا"بسم اللہ " پھر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا" الحمدللہ" پھر فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ‌ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِ‌نِينَ ﴿١٣الزخرف (وہ ذات پاک ہے جس نے اسے ہماے لئے مسخر کر دیا اور ہم میں یہ صلاحیت نہیں تھی اور بے شک ہم نے اپنے پروردگار کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے) پھر تین بار الحمد للہ اور تین با اللہ اکبر کہا پھر یہ کلمات پڑھے:”سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ“(تیری ذات پاک ہے میں نے اپنے اوپر ظلم کیا پس مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا) پھرآپ مسکرائے ہیں پس ان سے کسی نے کہا اے امیر المومنین !آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں ؟انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺکو ایسے کرتے ہوئے دیکھا جیسے میں نے کیا پھر آپ مسکرائے تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ”اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي“میرے گناہ معاف کر دے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ میرے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔

22- عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى جَنَازَةٍ فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَيِّتَ. ([2])
(۲۲)عوف بن مالک ؓکہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ کی دعا میں سے یہ لفظ یاد رکھے ”اللهُمَّ“سے ”النَّارِ“تک یعنی یا اللہ بخش اس کو اور رحم کر اور تندرستی دے اس کو اور معاف کر اس کو اور اپنی عنایت سے مہربانی کر اس کی اس کا گھر (قبر) کشادہ کر اور اس کو پانی اور برف اور اولوں سے دھودے اور اس کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے اور اس کو اس گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے اور اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے اور جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مردہ میں ہوتا۔


[1] - (صحيح)صحيح سنن الترمذي رقم (3446)، سنن الترمذى،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ (3446)
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلَاةِ، رقم (963)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
23- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ وَصَلَاتِهِ فِي سُوقِهِ بِضْعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً وَذَلِكَ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فَلَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ حَتَّى يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ فَإِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ كَانَ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَتْ الصَّلَاةُ هِيَ تَحْبِسُهُ وَالْمَلَائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى أَحَدِهِمْ مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ يَقُولُونَ: اللهُمَّ ارْحَمْهُ اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ. ([1])
(۲۳)ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا آدمی کا جماعت سے نماز پڑھنا اپنے گھر اور بازار میں نماز پڑھنے سے ۲۵ گنا زیادہ ( اجرو ثواب کا باعث) ہے اور یہ اس لئے ہے کہ جب آدمی وضو کرے اور اچھے طریقے سے وضو کرے پھر وہ مسجد کی طرف جائے اور مسجد کی طرف جانے سے اس کا مقصد سوائے نماز کے کوئی اور نہ ہو۔ تو یہ جو قدم بھی اٹھائے گا ،اس کے ذریعے سے اس کا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف ہوگا پھر جب نماز پڑھ لے گا تو جب تک باوضو اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے گا ،فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے۔ فرشتے کہتے ہیں اے اللہ! اس پر رحمت فرما ،اے اللہ! اس پر مہربان ہو جا، اور جب تک وہ نماز کا انتظار کرتا ہے وہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے۔

24- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍؓ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللهُ يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً.
(۲۴)انس ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے اے انسا! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے( اچھی ) امید رکھے گا ،میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے عمل کیسے ہی ہوں، اور میں پروا نہیں کروں گا، اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں ،پھر تو مجھ سےبخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا، اے آدم کے بیٹے! اگر مجھے اس حال میں ملے کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہو گا تو میں تیرے پاس زمیں بھر بخشش لے کر آؤں گا۔ ([2])

[1] - مسند أحمد رقم (7121)،صحيح البخاري،كِتَاب الْبُيُوعِ، بَاب مَا ذُكِرَ فِي الْأَسْوَاقِ، رقم (445)، صحيح مسلم،كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ، بَاب فَضْلِ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ، رقم (649)
[2] - (صحيح)صحيح سنن الترمذي رقم (3540)، سنن الترمذى،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ...، رقم (3540)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
25- عَنْ أَنَسؓ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ أَعْلَى الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللهِ فَقَالَ أَنَسٌ فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ ﷺ مَعَهُمْ وَهُوَ يَقُولُ : اللهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ. ([1])
(۲۵)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم ﷺمدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس راتیں قیام فرمایا پھر آپ بنو نجار کو بلا بھیجا تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ۔انس نے کہا گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں، جبکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بنو نجار کےلوگ آپ کے چاروں طرف ہیں یہاں تک کہ آپ ابو ایوب کے گھر کے سامنے اترے اور آپ یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آجائے تو فوراً نماز ادا کر لیں۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر آپ نے یہاں مسجد بنانے کے لئے حکم فرمایا۔ چنانچہ بنو نجار کے لوگوں کو آپ بلوا کر فرمایا کہ اے بنو نجار! تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انہوں نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ !اس کی قیمت ہم صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں۔ اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت بھی تھے پس نبی کریم ﷺنے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انہیں مضبوط بنادیا۔ صحابہ پتھر اٹھائے ہوئے تھےاور نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ :اے اللہ! آخرت کے فائدے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمانا۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الْجَاهِلِيَّةِ وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ، رقم (428)، صحيح مسلم رقم (1805)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26- عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ مَعَهُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ مَسِيرَنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ غَزْوِهِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ فَلَمَّا قَضَيْتُ مِنْ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدْ انْقَطَعَ فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي فَحَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِيَ الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنِّي فِيهِ قَالَتْ وَكَانَتْ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُهَبَّلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنْ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرْ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَحَلُوهُ وَرَفَعُوهُ وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ فِيهِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ قَدْ عَرَّسَ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ فَادَّلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي وَقَدْ كَانَ يَرَانِي قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ الْحِجَابُ عَلَيَّ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي وَ وَاللهِ مَا يُكَلِّمُنِي كَلِمَةً وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِيَ الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ فِي شَأْنِي وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ وَلَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي إِنَّمَا يَدْخُلُ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ كَيْفَ تِيكُمْ فَذَاكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ وَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّنَزُّهِ وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ بِنْتُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا ابْنَةُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِي رُهْمٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا قَدْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَتْ أَيْ هَنْتَاهْ أَوْ لَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ قُلْتُ وَمَاذَا قَالَ قَالَتْ فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ كَيْفَ تِيكُمْ قُلْتُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَتَيَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ فَجِئْتُ أَبَوَيَّ فَقُلْتُ لِأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا قَالَتْ قُلْتُ سُبْحَانَ اللهِ وَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي وَدَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ قَالَتْ فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ لَهُمْ مِنْ الْوُدِّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ هُمْ أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لَمْ يُضَيِّقْ اللهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَإِنْ تَسْأَلْ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ قَالَتْ فَدَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ بَرِيرَةَ فَقَالَ أَيْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ مِنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ قَالَتْ فَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي فَوَاللهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللهِ لَنَقْتُلَنَّهُ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنْ الْمُنَافِقِينَ فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ قَالَتْ وَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ بَكَيْتُ لَيْلَتِي الْمُقْبِلَةَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَأَبَوَايَ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي اسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ قَالَتْ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ لِي مَا قِيلَ وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ قَالَتْ فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللهِ ﷺ حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللهُ وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللهُ عَلَيْهِ قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً فَقُلْتُ لِأَبِي أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللهِ ﷺ فِيمَا قَالَ فَقَالَ وَاللهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ لِأُمِّي أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ وَاللهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنْ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللهِ لَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِهَذَا حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي نُفُوسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ فَإِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُونَنِي وَإِنِّي وَاللهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا كَمَا قَالَ أَبُو يُوسُفَ فَصَبْرٌ‌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ يوسف قَالَتْ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي قَالَتْ وَأَنَا وَاللهِ حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ وَأَنَّ اللهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي وَلَكِنْ وَاللهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى وَلَشَأْنِي كَانَ أَحْقَرَ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللهُ بِهَا قَالَتْ فَوَاللهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ ﷺ فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنْ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْيِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنْ الْعَرَقِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ قَالَتْ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللهُ فَقَدْ بَرَّأَكِ فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ وَاللهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللهَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي قَالَتْ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ} عَشْرَ آيَاتٍ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ بَرَاءَتِي قَالَتْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ وَاللهِ لَا أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢٢﴾النور قَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذِهِ أَرْجَى آيَةٍ فِي كِتَابِ اللهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لِي فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ وَقَالَ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ أَمْرِي مَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا قَالَتْ عَائِشَةُ وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فَعَصَمَهَا اللهُ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ. ([1])
(۲۶)سعید بن المسیب اور عروہ بن زبیر اور علقمہ بن وقاص اورعبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے ان سب لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی جب ان پر تہمت کی تہمت کرنے والوں نے اور کہا جو کہاپھر اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ان کو ان کی تہمت سے۔زہری نے کہا ان سب لوگوں نے ایک ایک ٹکڑا اس حدیث کا مجھ سے روایت کیا اور بعض ان میں سے زیادہ یاد رکھنے والے تھے اس حدیث کو بعض سے اور زیادہ حافظ تھے اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اس کو اور میں نے یاد رکھی ہر ایک سے جو روایت سنی اور بعض کی حدیث بعض کو تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو قرعہ ڈالتے اپنی عورتوں پر اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے قرعہ ڈالا ایک جہاد کے سفر میں اس میں میرا نام نکلا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئی اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا میں اپنے ہودے میں سوار ہوتی اور راہ میں جب اترتی تو بھی اسی ہودے میں رہتی جب رسول اللہ ﷺ جہاد سے فارغ ہوئے اور لوٹے اور مدینہ سے قریب ہوگئے ایک بار آپ نے رات کو کوچ کا حکم دیا میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی اور چلی یہاں تک کہ لشکر کے آگے بڑھ گئی۔ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودے کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا ۔معلوم ہوا کہ میرا ہار ظفار کے نگینوں کا گر گیا ہے (ظفار ایک گاؤں ہے یمن میں) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی۔ اس کو ڈھونڈھنےمیں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آپہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) تھیں۔ کیونکہ تھوڑا کھاتی تھیں۔ اس لئے ان کو ہودے کا بوجھ عادت کے خلاف معلوم نہ ہوا۔ جب انہوں نے اس کو اونٹ پر لادا اور اٹھایا اور میں ایک کم سن لڑکی بھی تھی آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دیئے اور میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا۔ میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز ہے نہ کوئی سننے والا ہے۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں۔ اور میں یہ سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی اتنے میں میرے آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ایک شخص تھا وہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرا تھا جب وہ روانہ ہوا تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچا اس کو ایک آدمی کاحبثہ معلوم ہوا جو سو رہا ہے وہ میرے پاس آیا اور مجھ کو پہچان لیا۔ دیکھتے ہی اس لئے کہ میں پردہ کا حکم اتر نے سے پہلے اس کے سامنے ہوا کرتی تھی۔ میں جاگ اٹھی اس کی آواز سن کر جب اس نے "اناللہ وانا للہ الیہ راجعون " پڑھا مجھ کو پہچان کر میں نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اپنی اوڑھنی سے ۔قسم اللہ کی اس نے کوئی بات مجھ سے نہیں کی نہ میں نے اس کی کوئی بات سنی سوا "انا اللہ وانا الیہ راجعون" کہنے کے پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اپنا ہاتھ میرے چڑھنے کے لئے بچھا دیا ۔میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ پیدل چلا اونٹ کو کھینچتا ہوا یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ اتر چکے تھے سخت دوپہر کی گرمی میں۔ تو میرے مقدمہ میں تباہ ہوئے جو لوگ تباہ ہوئے( یعنی جنہوں نے بدگمانی کی )اور قرآن میں جس کی نسبت "تولی کبرہ" آیا ہے ۔یعنی بانی مبانی اس تہمت کا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول (منافق) تھا، آخر ہم مدینہ میں آئے اور میں جب مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان کرنے والوں کی باتوں میں غور کرتے اور مجھے ان کی کسی بات کی خبر نہ تھی۔ صرف مجھ کو اس امر سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ ﷺ کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میرے حال پر ہوتی۔ جب میں بیمار ہوئی آپ صرف اندر آتے سلام کرتے پھر فرماتے یہ عورت کیسی ہے ۔ سو اس امر سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی یہاں تک کہ جب میں دبلی ہو گئی بیماری جانے کے بعد تو میں نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی نکلی مناصع کی طرف(مناصع موضع تھے مدینہ کے باہر) اور وہ پائخانے تھے ہم لوگوں کی (پائخانے بننے سے پہلے) ہم لوگ رات ہی کو نکلا کرتے اور رات ہی کو چلے آتے اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں کے نزدیک پائخانے نہیں بنے تھے۔ اور ہم اگلے عربوں کی طرح جنگل میں جا یا کرتے( پائخانے کے لئے) اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تو میں چلی اور ام مسطح میرے ساتھ تھی وہ بیٹی تھی ابی رہم بن مطلب بن عبدمناف کی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو خالہ تھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی( اس کا نام سلمٰی تھا) اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا ۔غرض میں اور ام مسطح دونوں جب اپنے کام سے فارغ ہوچکیں تو لوٹی ہوئی اپنے گھر کی طرف آرہی تھیں اتنے میں ام مسطح کا پاؤں الجھا اپنی چادر میں اور بولی ہلاک ہوا مسطح ،میں نے کہا تو نے بری بات کہی۔ تو برا کہتی ہے اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا۔ وہ بولی اے نادان تو نے کچھ نہیں سنا مسطح نے کیا کہا میں نے کہا کیا کہا۔ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا ،یہ سن کر میری بیماری دو چند ہو گئی اور بیماری بڑھی ۔میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا اب اس عورت کا کیا حال ہے میں نے کہاآپ مجھے اجازت دیتے ہیں اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کےپاس جا کر اس خبر کی تحقیق کروں۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔میں نے اپنی ماں سے کہا اماں یہ لوگ کیا بک رہے ہیں ۔وہ بولی بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ قسم اللہ کی ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں میں نے کہا سبحان اللہ ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی۔ صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی صبح کو بھی میں رو رہی تھی اور جناب رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی۔ اور ان دونوں سے مشورہ کیا مجھ کو جدا کرنے کے لئے (یعنی طلاق دینے کے لئے) اسامہ بن زید نے تو وہی رائے دی جو وہ جانتے تھے رسول اللہ ﷺ کی بی بی کے حال کو اور اس کی عصمت کو اور آپ کی محبت کو اس کے ساتھ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی بی بی ہیں اور ہم تو سوابہتری کے اور کوئی بات اس کی نہیں جانتے ،علی بن ابی طالب ؓنے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ لونڈی سے پوچھئے تو وہ آپ سے سچ کہہ دیگی ّلونڈی سے مراد بریرہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا اے بریرہ تونے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھ کو اس کی پاکدامنی میں شک پڑے بریرہ نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی کبھی تو میں ان میں عیب بیان کرتی۔ اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے آٹا چھوڑ کر گھر کو سوجاتی ہے پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھالیتی ہے( مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول سے بدلا چاہا۔ آپ نے فرمایا منبر پر اے مسلمان لوگوں ! کون بدلہ لے گا میرا اس شخص سے جس کی سخت بات ایذادینے والی میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی ۔قسم اللہ کی میں تو اپنی گھر والی( یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کو) نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص سے یہ لوگ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل سے اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری (جو قبیل اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنےلگے یا رسول اللہ! آپ کا بدلہ میں لیتا ہوں ۔اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور ہم ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہو تو آپ حکم کیجئے ہم آ کے حکم کی تعمیل کریں گے ( یعنی اس کی گردن ماردیں گے) یہ سن کر سعد بن عباد کھڑے ہوئے اور وہ خزرج قبیلہ کے سردار تھے ۔ اور نیک آدمی تھے پر اس وقت ان کو اپنی قوم کی پچ آگئی اور کہنے لگے اے سعد بن معاذ قسم اللہ کی بقا کی تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کرے گا نہ کر سکے۔ یہ سن کر اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ سے کہنے لگے تو نے غلط کہا قسم اللہ کے بقا کی ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جب تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزرج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ کشت و خون شروع ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے تھے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ فرو کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ بھی خاموش ہو رہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں اس دن بھی سارا دن رویا کرتی میرے آنسو نہ تھمتے تھے نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا ۔میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آکر رونے لگی پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سلام کیا اور بیٹھے ۔اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی اس روز سے آج تک آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ اور ایک مہینہ یونہی گذرا تھا میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر رسول اللہ نے تشہد پڑھا بیٹھتے ہیں اور فرمایا اما بعد! اے عائشہ مجھ کو تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کردیگا ،اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور بخشش مانگ اللہ سے اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے اللہ اس کو بخش دیتا ہے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب رسول ا للہ ﷺ اپنی بات تمام کر چکے تو میرے آنسو بند ہو گئے یہاں تک ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا تم جواب دو میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو اس مقدمہ میں جو آپ نے فرمایا۔ میرے باپ بولے قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کیا میں جواب دوں رسول اللہ ﷺ کو( سبحان اللہ باپ تو محب رسول تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا پر رسول اللہ ﷺ کے سامنے دم نہ مارا، میں نے اپنے ماں سے کہا تم جواب دومیری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو ۔وہ بولی قسم اللہ کی میں نہیں جانتی کیا جواب دوں رسول اللہ ﷺ کو ۔آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کم سن لڑکی تھی میں نے قرآن نہیں پڑھا ہے لیکن میں اللہ کی قسم یہ جانتی ہوں کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا کہ تمہارے دل میں جم گئی ۔اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ۔(یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا بجز تمہت کرنے والوں کے) پھر اگر تم سے کہوں میں بے گناہ ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں تو بھی تم مجھ کو سچا نہیں سمجھنے کے اور اگر میں ایک گناہ کا اقرار کر لوں جس کو میں نے نہیں کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھ کو سچا سمجھو گے ۔اور میں اپنی اور تمہاری مثل سوا اس کے کوئی نہیں پاتی جو سیدنا یوسف uکے باپ کی تھی (سیدنا یعقوب uکی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام نہ یاد آیا تو یوسف علیہ السلام کا باپ کہا)جب انہوں نے کہا : فَصَبْرٌ‌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨ يوسف، یعنی اب صبر بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے پھر میں نے کروٹ موڑلی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری پاکی ظاہری کرے گا لیکن قسم اللہ کی مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو پڑھا جائے گا۔ (قیامت تک) کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرےاور کلام بھی ایسا جو پڑھا جائے ۔ البتہ مجھ کو یہ امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ خواب میں کوئی مضمون ایسا دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکی ظاہر کر دے گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوںمیں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر وحی بھیجی اور اتارا قرآن کو، آپ کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی یہاں تک کہ آپ کے جسم مبارک پرسے موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے جاڑوں کے دنوں میں اس کلام کی سختی سے جو آپ پر اترا( اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا )جب یہ حالت آپ کی جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ ہنسنے لگے اور اول آپ نے یہ کلمہ منہ سے نکالا فرمایا اے عائشہ ! خوش ہوجا اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بے گناہ اور پاک فرمایا میری ماں نے کہا اٹھ اور جناب ﷺ کی تعریف کر ( اور شکر کر اور آپ کے سر کا بوسہ لے) میں نے کہا اللہ کی قسم میں تو جناب کی طرف نہیں اٹھونگی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی۔ سوا اللہ کے اسی نے میری پاکی اتاری ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ نے اتارا: إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ …﴿١١النور" آخر تک دس آیتوں کو تو اللہ جل جلالہ نے ان آیتوں کو میری پاکی کے لئے اتارا ابو بکر صدیق نے جو مسطح سے عزیز داری کی وجہ سے سلوک کرتے ۔یہ کہا کہ قسم اللہ کی اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا جب اس نے عائشہ کی نسبت ایسا کہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ … ﴿٢٢النور آخر تک ۔حبان بن موسیٰ نے کہا عبداللہ بن مبارک نے کہا یہ آیت بڑی امید کی ہے اللہ کی کتاب میں(کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ناتے داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا) ابو بکر نے کہا قسم اللہ کی میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ کو بخشے پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا میں کبھی بند نہ کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین زینب بنت حجش سے میرے باب میں پوچھا جو وہ جانتی تھیں یا انہوں نے دیکھاہو۔ انہوں نے کہا(حالانکہ وہ سوکن تھیں) یا رسول اللہ میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں ۔میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا زینب ہی ایک بی بی تھیں جو میرے مقابل کی تھیں۔ جناب کی بی بیویوں میں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تہمت سے بچا یا ان کی پرہیز گاری کی وجہ سے اوران کی بہن حمنہ بنت حجش نے ان کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں( یعنی تہمت میں شریک تھیں) زہری نے کہا تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم کو پہنچا۔

[1] - صحيح مسلم،كِتَاب التَّوْبَةِ، بَاب فِي حَدِيثِ الْإِفْكِ وَقَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاذِفِ، رقم (2770)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27- عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أَمَرَهُمْ أَمَرَهُمْ مِنْ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ قَالُوا إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ ثُمَّ يَقُولُ إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللهِ أَنَا. ([1])
(۲۷)عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی( اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں( آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرمادی ہیں (اس لئے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے) (یہ سن کر) آپ ناراض ہوئے حتی کہ خفگی آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی پھر فرمایا کہ بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اور تم سے زیادہ اسے جانتا ہوں ( پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ، رقم (20)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
35- عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ لَوْ أَنَّكُمْ لَمْ تَكُنْ لَكُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا اللهُ لَكُمْ لَجَاءَ اللهُ بِقَوْمٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا لَهُمْ. ([1])
(۳۵)ابو ایوب انصاری ؓسے روایت ہے محمد رسول اللہ ﷺ سے آپ سے فرماتے تھے اگر تم گناہ نہ کرو البتہ اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا کرے جو گناہ کریں (پھر بخشش مانگیں) اللہ ان کو بخش دے۔

36- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَنْ جَلَسَ فِي مَجْلِسٍ فَكَثُرَ فِيهِ لَغَطُهُ فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ مِنْ مَجْلِسِهِ ذَلِكَ سُبْحَانَكَ اللهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ فِي مَجْلِسِهِ ذَلِكَ.
(۳۶)ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس میں اس نے بہت سی لایعنی باتیں کیں۔ پس اپنی اس مجلس سے کھڑے ہونے سے قبل اس نے کہا، اے اللہ! تو پاک ہے اپنی خوبیوں کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے گناہوں کی معافی مانگتا اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اس کے اس مجلس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ([2])

37- عَنْ زَيْدٍ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ (ثَلاَثاً) غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ قَدْ فَرَّ مِنْ الزَّحْفِ. ([3])
(۳۷)زید ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص یہ دعا پڑھے: أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ . (میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ زندہ ہے اور قائم رکھنے والا ہے میں اسی سے توبہ کرتا ہوں)اگر چہ وہ میدان جہاد سے ہی کیوں نہ فرار ہوا ہو اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔


[1] - صحيح مسلم،كِتَاب التَّوْبَةِ، بَاب سُقُوطِ الذُّنُوبِ بِالِاسْتِغْفَارِ تَوْبَةً، رقم (2748)
[2] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (3433)، سنن الترمذى،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب مَا يَقُولُ إِذَا قَامَ مِنْ الْمَجْلِسِ، رقم (3433)
[3] - (صحيح) صحيح سنن أبي داود رقم (1517)، سنن أبى داود،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب فِي الِاسْتِغْفَارِ، رقم (1517)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استغفار کے متعلق آثار
(۱)عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے کہا "جب میرے والد نا بینا ہو گئے تو اس کو (نماز کے لئے)لے جاتا تھا۔ اور میں جب بھی اس کو جمعہ کے لئے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓکے لئے استغفار کرتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ میں ان سے یہ ایک وقت تک سنتا رہا۔ پھر میں نے اپنے دل میں کہا اللہ کی قسم یہ کتنی نہ لاچاری ہے کہ میں انہیں سنتا ہوں جب بھی جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابو امامہ کے لئے استغفار کرتے ہیں دعا مانگتے ہیں ،لیکن میں ان سے پوچھتا بھی نہیں ہوں کہ یہ کیوں کر رہے ہیں ۔ پھر میں انہیں لے کر چلا جیسے ان کو جمعہ کے لئے لے کر جاتا تھا اور پھر جب انہوں نے اذان سنی تو ابو امامہ کے لئے استغفار کیا جس طرح پہلے کرتے تھے تو میں نے انہیں کہا اے بابا آپ جب بھی جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابو امامہ اسعد بن زرارہ کے لئے دعا و استغفار کر تے ہیں کیوں؟انہوں نے کہا اے بیٹے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ میں ہجرت کر کے آنے سے پہلے بنی بیاضہ کی سیاہ پتھریلی زمین کے میدان میں حضمات کے کنویں کے پاس جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ میں نے کہا آپ اس دن کتنے تھے۔ کہا چالیس۔([1])

(۲)ابو موسیٰ ؓنے کہا"ہمارے لئے دو امام تھے ۔ان میں سے ایک چلا گیا یعنی رسول اللہ ﷺ اور ( دوسرا) استغفار باقی ہے۔ یہ اگر ختم ہو گیا تو ہم ہلاک ہو جائینگے ۔([2])

(۳)ربیع بن خثیم تابعی نے کہا "اپنے رب کی طرف عاجزی کے ساتھ (اور گریہ زاری کے ساتھ) آؤ اور اسے آسانی کے وقت میں پکارو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے "جو مجھے آسانی کے وقت میں پکارے گا میں اس کی سختی اور تنگی کے وقت میں دعاء قبول کروں گا۔ جو مجھ سے مانگے گا میں اسے دوں گا اور جو میرے لئے تواضع کرے گا میں اسے بلند کروں گا ۔اور جو میرے سامنے عاجزی و گریہ زاری کرے گا میں اس پر رحم کروں گا اور جو مجھ سے استغفار (یعنی بخشش) مانگے گا میں اسے بخش دوں گا۔([3])

(۴) فضیل رحمہ اللہ نے کہا بغیر گناہ ترک کرنےکے استغفار کرنا کذابوں کی توبہ کی طرح ہے۔ اس سے ملتا جلتا قول رابعہ عدویہ کا ہے کہا ہمارا استغفار بہت زیادہ استغفار کا محتاج ہے۔([4])

(۵) سہل سے اس استغفار کے متعلق پوچھا گیا جو گناہوں کو مٹاتا ہے۔ کہا :استغفار کی ابتداء”الإِسْتِجَابَة“(یعنی امرالٰہی کو ماننے) سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد”الإِنَابَة“(یعنی رب تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے)اور اس کے بعد توبہ (یعنی گناہوں کوچھوڑنا ہے)۔ ”الإِسْتِجَابَةُ أَعْمَالُ الْجَوَارِح“ ظاہری اعمال حسنہ ہیں۔ ”الإِنَابَة“ "اعمال قلوب ہیں" توبہ کا مطلب اپنے رب کی طرف متوجہ ہونا ہے ،یعنی مخلوق کو چھوڑ دے پھر اپنی اس کوتاہی سے استغفار کرے جو اس سے ہو رہی ہے۔ ([5])

(۶)ابن الجوزی نے کہا :ابلیس نے کہا میں نے آدم کی اولاد کو گناہوں سے ہلاک کیا اور انہوں نے استغفار سے اور لا الہ الا اللہ سے مجھے ہلاک کر دیا۔ پھر جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے ان کے اندر خواہشات کو پھیلا دیا پھر وہ گناہ کرتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔([6])


[1] - ابن ماجه رقم (1082)
[2] - التوبة إلى الله، للغزالي رقم (124)
[3] - منهاج الصالحين رقم (951)
[4] - الأذكار رقم (481)
[5] - التوبة إلى الله، للغزالي رقم (125)
[6] - مفتاح دار السعادة لابن القيم رقم (1/142)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استغفار کے فوائد

(۱)استغفار ،بخشش مانگنے والوں کے لئے موسلا دھار بارش لاتا ہے اور ان کے لئے باغات اوردریاؤں میں برکت کا باعث بنتا ہے۔

(۲)استغفار اصحاب استغفار کے لئے اللہ کی طرف سے رزق اور اولاد کی نعمت کا سبب بنتا ہے۔

(۳)نیکیاں آسان ہوتی ہیں ،کثرت کے ساتھ دعا مانگنے کی ہمت ملتی ہے اور رزق میں آسانی ہوتی ہے۔

(۴)اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان میں وحشت ختم ہو جاتی ہے۔

(۵)استغفار کرنے والے کے دل میں دنیا کم اور چھوٹی ہو جاتی ہے۔

(۶)شیاطین انسان اور شیاطین جن دور بھاگ جاتے ہیں۔

(۷)ایمان اور نیکی کا مزہ حاصل ہوتاہے۔

(۸)اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔

(۹)عقل و ایمان میں زیادتی ہوتی ہے۔

(۱۰)رزق میں آسانی ہوتی ہے۔ پریشانی ،غم اور دکھ ختم ہو جاتے ہیں۔

(۱۱)اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی توبہ پر خوش ہوتاہے۔

(۱۲)اور جب اسے موت آتی ہے تو فرشتے اللہ کی طرف سے اس کے لئے خوش خبری لاتے ہیں۔

(۱۳)اور قیامت کے دن لوگ جب تپش اور پسینے میں ڈوب رہے ہونگے تو استغفار کرنے والا عرش کے سائے تلے ہوگا۔

(۱۴)لوگ جب وقف(عرفات) سے لوٹتے ہیں تو استغفار کرنے والا اللہ تعالیٰ کے متقین اولیاء کرام کے ساتھ ہوتا ہے۔

(۱۵)استغفار سے فرد اور معاشرہ کے برے افعال سے طہارت اور اصلاح ہوتی ہے۔

(۱۶)عرش الٰہی کو اٹھانے والے فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔

نضرۃ النعیم
 
Top