• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستقامة

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الاستقامة

لغوی بحث:

اسْتِقَامَةٌ“(بروزن استفعال) استقام کا مصدر ہے۔ بمعنی سیدھا ہونا۔ اس کا اصل مادہ (ق وم )ہے جو کہ دو معانی پر دلالت کرتا ہے ۔ ایک لوگوں کی جماعت اور دوسرا معنی سیدھا کھڑا ہونا یا عزم کرنا اور اعتدال کے معنی میں لفظ ”اسْتِقَامَة“ اسی سے متعلق ہے۔ (یعنی دوسرے معنی سے) کہا جاتا ہے۔ ”قَامَ الشَّيْءُ وَاسْتَقَامَ“یعنی معتدل اور برابر ہوئی۔اور ”اسْتَقَامَ لَهُ الأَمْر“یعنی معاملہ اس کے لئے معتدل ہو گیا۔ اور فرمان الٰہی ہے: فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ فصلت: ٦ یعنی معبودان باطل کو ترک کر کے اکیلے اللہ تعالیٰ کی طرف تو جہ میں سیدھے ہو جاؤ۔ اور فرمان الٰہی ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا…﴿٣٠فصلت، یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہی ہے پھر استقامت اختیار کی۔یہاں استقامت کا معنی ہے کہ انہوں نے اس کی اطاعت اختیار کی اور اس کے نبی ﷺکی سنت کو لازم کیا ۔اور ”اسْتَقَامَ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ“یعنی اس نے اس کی مدح اور تعریف کی۔
ابو اسحاق رحمہ اللہ نے کہا: ”اسْتَقَامَ الشِّعْرُ“ یعنی شعر صحیح وزن پر ٹھہرا اور ”قَوَّامُ الأَمْرِ“ نظام الامراور اس کی بنیاد کو کہتے ہیں ۔ جبکہ”القَوَّام“(بالفتح) عَدل کو کہتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے: وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧الفرقان اور ”القَائِمُ“ ثابت کو کہتے ہیں اور”کُلُّ مَنْ قَامَ عَلَی شَيْءٍ فَهُوَ ثَابِتٌ عَلَیْهِ مُسْتَمْسِكٌ بِهِ“ یعنی جو بھی کسی چیز پر کھڑا ہے تو وہ اس پر ثابت اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّـهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ ﴿١١٣آل عمران، یعنی وہ جماعت دین پر (اعما ل صالحہ میں) مداومت کرنے والی اس کا قیام کرنے والی ہے۔اور ”فُلاَنٌ قَائِمٌ بِکَذَا“ معنی وہ اس کی حفاظت کرنے والا اور اس کو مضبوطی سے لینے والا ہے۔
ابن برّی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ”القَائِمُ عَلَی الشِّرَاءِ“خریداری پر کھڑا ہونے والا۔ ”القَیِّمُ“ معنی معتدل اور”المِلَّةُ الْقَیِّمَة“ یعنی معتدل امت ،یہی معنی ”الأُمَّةُ الْقَیِّمَة“ کا ہے۔ ([1])

[1]- لسان العرب (6/3781-3787)، الصحاح (5/2016-2018)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسم باری تعالیٰ”القَیُّوم“ کا معنی

اسم باری تعالیٰ القیوم کا معنی ہے وہ جو بذات خود قائم ہو۔ کسی غیر کی وجہ سے اس کا قیام نہیں ہے۔ اور اس کے دائمی وجود کے لئے کسی دوسرے کے وجود کی شرط نہیں ہے۔ اور ہر موجود اسی سے قائم ہے۔ یہاں تک کہ اشیاء کے وجود کا تصور بھی اس کے وجود کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔ اور نہ کسی کے وجود کے دوام کا مگر اس کے وجود سے۔
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا:”القَیُّومُ: القَائِمُ الدَّائِمُ بِلاَزَوَالٍ ویُقَالُ: هُوَ الْقَیِّمُ عَلَی کُلِّ شَيْءٍ بِالرِّعَایَةِ“ یعنی قیوم کا معنی ہے ہمیشہ موجود جس کو زوال نہ آئے۔ بعض نے کہا وہ ہر چیز پر نگہبا ن ہے یعنی اس کو سنبھالتا ہے۔
اور ”قُمْتُ بِالشَّيْءِ“ اس وقت کہہ سکتا ہے جب تو نے اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری لی ہو۔([1])

[1]- المقصد الاسنی للغزالی(132) بتصرف
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اصلاحی بحث:

اصطلاحاً ”اسْتِقَامَة“صراط مستقیم پر چلنے کو کہتے ہیں اور یہ (صراط مستقیم) وہ سیدھا دین ہے کہ اس کے نہ دائیں ٹیڑھا پن ہے نہ بائیں۔ اور ظاہری و باطنی طاعات ،نیکیاں اور نافرنانیوں کو چھوڑ نا بھی اسی کو شامل ہے ۔([1])
ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:”الإِسْتقَامَة کِنَایَةٌ عَنِ التَّمَسُّكِ بِأَمْرِاللہِ فِعْلاً وَتَرْکًا“ یعنی استقامت امر الٰہی کو مضبوطی سے تھام لینے کا نام ہے معروف پر عمل کرتے ہوئے منھی و منکر کو ترک کرتے ہوئے۔ ([2])
امام جرجانی رحمہ اللہ نے کہا: ”اسْتِقَامَة“ یہ ہے کہ خطِ مستقیم اس کیفیت و صورت میں ہو کہ اس کےفرض کئے گئے اجزاء اس کی جمیع اوضاع یعنی ساری ہیئات و اشکال میں ایک دوسرے کےساتھ موافق اور مناسب ہوں۔ اور اہل علم کی اصطلاح میں”اسْتِقَامَةٌ“ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ عہد وپیمان کو لازم کرنا ،سیدھے راستے پر ہمیشگی اختیار کرنا اور اعتدال کی حد کا لحاظ کرتے ہوئے سارے امور میں یعنی کھانا پینا لباس اور ہر دینی اور دنیاوی معاملات میں،سو یہی صراط مستقیم ہے۔
اور بعض نے”اسْتِقَامَة“کی تعریف یوں کی ہے کہ: نیکیاں بھی کرے اور معاصی سے بھی اجتناب کرے۔ اور کسی نے کہا کہ: ”اسْتِقَامَة ضِدُّ الاعْوِجَاج“ استقامۃ ٹیڑھے پن کی ضد ہے اس کا مطلب ہے بندہ بندگی کے راستے سے شریعت و عقل کے ارشاد (و احکام )کے مطابق گذرے۔([3])
اور ماوردی رحمہ اللہ نے اس فرمان الٰہی میں پانچ تو جیہات ذکر کی ہیں إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا۔۔۔ ﴿٣٠فصلت، یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر استقامت اختیار کی۔
(۱) ”ثُمَّ اسْتَقَامُوا عَلَی أَنَّ اللہَ رَبُّهُمْ وَحْدَہُ وَھُوَ قَوْلُ أَبِی بَکْرٍ ؓ وَمُجَاهِد“ یعنی پھر اس بات پر ثابت قدم ہو گئے کہ اللہ اکیلا ہی ان کا رب ہے یہ ابو بکر ؓاور مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے۔
(۲)اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض کی ادائیگی پرثابت قدم رہے۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما،حسن بصری رحمہ اللہ ، اور قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
(۳)موت تک دین و عمل کو خالص کرنے پر مستقیم رہے۔ یہ ابو العالیہ رحمہ اللہ اور سدّی رحمہ اللہ کا قول ہے۔
(۴)اپنے اقوال کی طرح افعال میں بھی استقامت اختیار کی ۔
(۵)ظاہر کی طرح اندر میں بھی استقامت اختیار کی۔
اور کہا :چھٹی وجہ بھی احتمال رکھتی ہے کہ استقامت یہ ہے کہ نیکی کرنے اور معاصی سے اجتناب کرنے کو جمع کرے کونکہ تکلیف (ایمان وعمل کا امر)نیکی کے لئے امر پر مشتمل ہے جو کہ اسے رغبت دلاتا ہے اور معصیت سے روکنےپر مشتمل ہے جو کہ اسے اللہ کے خوف کی دعوت دیتی ہے۔

[1]- جامع العلوم والحکم ابن رجب(۱۹۳)
[2]- الفتح (13/257)
4- التعريفات للجرجانی(19) بتصرف يسير
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استقامت ہی نجات کا راستہ ہے

ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا: استقامت صراط مستقیم کو لازم کرنے کا نام ہے۔ فرمان الٰہی ہے : إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ … ﴿٣٠فصلت
بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے ان کے پاس فرشتے آئیں گے ۔اور فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١٣الأحقاف
یعنی استقامت اختیار کرنے والوں پر خوف نہیں ہوگا۔ اور رب تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو فرمایا: فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْ‌تَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ … ﴿١١٢هود
یعنی ثابت قدم رہیں جس طرح آپ کو حکم ہے اور جو لوگ آپ کے ساتھ مسلمان ہوتے ہیں ۔
اس سے واضح ہوا کہ استقامت میں طغیان اور سر کشی نہیں ہو گی(طغیانی کا مطلب حدود الٰہی کو پامال کرنا ہے)۔
اور فرمایا : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ‌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُ‌وهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٦ فصلت
اور انسان سے استقامت مطلوب ہے اور یہ صراط مستقیم پر سیدھا چلنے کانام ہےپھر اگر اس کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ (یعنی معاصی کی طرف زیادہ مائل نہ ہو)۔
صحیح مسلم میں آپ ﷺکا فرمان ہے ”سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاعْلَمُوا أَنَّهُ لَنْ یَنْجُوَ أَحَدٌ مِنْکُمْ بِعَمَلِهِ، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: وَلاَ أَنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِي اللہُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ“
یعنی سیدھے ہو کر چلو اور مقاربت (یعنی استقامت کے قریب رہو) اور جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ بھی نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ؟ فرمایا میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ دے۔
اس حدیث نے دین کے مقامات کو جمع کر دیا ہے آپ ﷺنےسیدھی راہ پر چلنےکا حکم دیا اور نیت و اقوال میں اخلاص کا بھی۔ اور ثوبانؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا وہ استقامت کی طاقت نہیں رکھتے تو ان کے قریب ہونے کی کو شش کریں ۔ اور اس کا معنی یہ ہے کہ اپنی حسب طاقت استقامت کے قریب رہیں۔ اور اس کے باوجود ان کو بتایا کہ استقامت اور اس کا قرب قیامت کی سختیوں سے بچا نہیں سکتے ۔بلکہ نجات اللہ تعالیٰ کی رحمت ،مغفرت اور فضل سے ہی ملے گی۔
استقامت جامع کلمہ ہے دین کے تمام مجموعات کو لینے والا ہے اور مجامع الدین اللہ تعالیٰ کے سامنے حقیقۃالصدق (ایمان واخلاص کے اندر) اور ایفاء عہد کے ساتھ کھڑا ہونے کا نام ہے۔
اور استقامت ،اقوال و افعال اور احوال و نیات سے تعلق رکھتی ہے ۔اور ان کے اندر استقامت کا مطلب ہے کہ سارے اقوال اللہ کے لئے خالص ہوں۔سارے افعال اللہ کے امر کے مطابق ہوں اور نیات اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوں ۔
کسی نے کہا ہےکہ :استقامت اختیار کرنے والے بنو برتری چاہنے والانہ بنو کیوں کہ تیر انفس برتری کے لئے متحرک ہے۔لہٰذاہر حال کے لئے استقامت کا ہونا ویسا ضروری ہے جیسا بدن کے لئے روح کا ۔جس طرح روح کے نکلنے سے بدن مر جاتا ہے اسی طرح حال جب استقامت سے خالی ہو تو وہ فاسد و بے کار ہے۔ پھر جس طرح احوال کی زندگی استقامت سے ہے اسی طرح زاہدین کے
اعمال کا بڑھنا اور ان (اعمال ) کا نور اور پاکائی استقامت پر منحصر ہے۔ اوربغیر استقامت کے اعمال نہ پاک ہو سکتے ہیں اور نہ صحیح ۔
اور کہا :جس شخص کو اس دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی وہ صراط مستقیم جو کہ رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں اور اس کے بارے میں کتابیں نازل ہوئیں ہیں۔قیامت کے دن اسی شخص کو جنت کا راستہ دکھلا یا جایا گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے بندوں کے لئے صراط مستقیم متعین کی ہے۔ اس پر ثابت قدمی کے حساب سے ہی قیامت کے دن بندہ پل صراط پر سے گزرنے میں ثابت قدم رہے گا۔ اور جس طرح وہ دنیا میں اس صراط مستقیم پر چلتا ہے اسی حساب سے وہ قیامت کےد ن پل صراط سے چلے گا۔
لھذا بندے کو شبہات اور خواہشات سے بچ کر چلنا چاہیئے جو اسے اس صراط مستقیم سے چلنے سے روکتی ہیں اور وہی کلالیب چمٹے تو ہیں جو پل صراط کے دونوں اطراف میں ہونگی۔ جو کہ اسے پکڑ لیں گے اور اس پر سے گذرنے سے روکیں گی پھر اگر یہی شبہات و خواہشات (یعنی اعتقادی و عملی برائیاں) زیادہ ہونگی تو اسی طرح وہاں پر پل صراط کے پاس کلالیب زیادہ ہونگی۔ وَمَا رَ‌بُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴿٤٦ فصلت
اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔([1])

[1]- التفسير القيم (۱۰۹)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جب دل سیدھا ہو تو جوارح بھی سیدھے ہونگے

ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا :اصل استقامت قلب کا تو حید پر استقامت اختیار کرنا ہی ہے۔
ابو بکر ؓنے استقامت کے بارے میں کہا :”لَمْ یَلْتَفِتُوا إِلَى غَیْرِہِ“پھر وہ کسی دوسرے کی طرف التفات نہیں کرتے ۔لہٰذا جب دل اللہ کی معرفت ،خشیت ،اجلال، ہیئت، محبت، امید، دعا اس پر توکل اور اس کے سوا ہر چیز سے اعراض کرنے میں ثابت قدم رہے گا تو ”جوارح“ (ظاہری اعضاء) اس کی اطاعت اور فرمانبرداری میں استقامت اختیار کریں گے۔ کیوں کہ دل ہی اعضاء کا بادشاہ ہے ۔اور وہ اس کے لشکر ہیں اس لئے جب ملک یعنی بادشاہ استقامت اختیار کرےگا۔ تواس کا لشکر اور رعیت بھی استقامت اختیار کرے گی۔اور دل کے بعد انسان کی استقامت کا سب سے زیادہ لحاظ رکھنے والی چیز اس کی زبان ہے کیوں کہ یہی دل کی ترجما ن ہے ۔اور اس کی تشریح کرنے والی ہے۔([1])
اس طرح استقامت کا حقیقی معنی ہوا”اسْتَقَلَّ غَیْرَ مَائِلٍ، وَلاَ مُنْحَنٍ“ یعنی مستقل سیدھا چلا اور ادھر نہ مڑا۔ اور استقامۃ حق اور سچ پر اچھائی کے ساتھ عمل کرنے اور چلنے کو بھی کہتے ہیں۔
فرمان الٰہی ہے فَاسْتَقِيمُوا فصلت: ٦ اور فرمایا : فَاسْتَقِمْ هود: ١١٢ ([2])
لہٰذا”فَاسْتَقَامُوا“ جس چیز کی انہیں تکلیف دی گئی ہے (یعنی ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) اس کو ادا کرنے اور پورا کرنے کے معنی پر مشتمل ہے اور اس کے مشمولات میں سے سب سے پہلی چیز توحید پر ثابت قدم رہنا۔ جناب ابو بکر ؓسے مروی ہے کہ: ”لَمْ یُشْرِکُوا بِاللہِ شَیْئاً“یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ۔عمر ؓنے کہا:سیدھی راہ پرچلتےرہتےہیں اس کی فرمانبرداری کے لئے اور لومڑیوں کی طرح دائیں بائیں یا ادھر ادھر نہیں بھاگتے۔ اور عثمانؓ کہا : اور عمل کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہیں ۔ علی ؓنے کہا :پھر فرائض ادا کرتے ہیں ۔ یہ سارے اقوا ل ایمان اور اس کے آثار (اعمال صالحہ)کے معنی پر مشتمل ہیں۔تو استقامت اقرار بالتوحید سے مرتبے میں اعلیٰ ہے کیوں کہ استقامت میں اقرار بالتوحید ، اس پر ثابت قدم رہنا اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا بھی شامل ہے۔
اور اعتقاد کا کمال استقامت پر منحصر ہے۔ اور حقیقی اعتقاد یہ ہے کہ نفی کی جانب اتنا نہ چلا جائے کہ تعطلی (صفات کا انکار) کر دے اور نہ ہی اثبات کی طرف اتنا چلا جائے کہ تشبیہ اور تمثیل کو اختیار کرے۔ بلکہ تشبیہ و تعطل کے درمیان خط فاصل (یعنی فرق کرنے والی لائن )پر چلے اور اسی طرح جبریہ اور قدریہ کے درمیان چلے اور رجاء اور قنوط کے درمیان چلے اور اعمال میں غلو اور تفریط کے درمیان چلے۔([3])
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل صفات دیکھئے:
الإتباع، الإيمان، الإخلاص، الإسلام، الأدب، التقوى، تعظيم، الحرمات، حسن الخلق، الحجاب، حسن العشيرة، غض البصر، حسن المعاملة، الهدى.
اور اس کے مقابل میں دیکھئے :
الإعوجاج، اتباع الهوى، الضلال، الفسوق، الفجور، العصيان، الفساد، الغي والإغواء، الفحش، التبرج، إطلاق البصر، الإعراض.

[1]- جامع العلوم والحکم (193-194)
[2]- بصائر زوی التميز (6/312)
[3]- التحرير والتمييز (24/282-284)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استقا مت کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال

(۱)جنا ب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : تم ان دو آیتوں کے با رے میں کیا کہتے ہو ؟ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُ‌وا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠ (فصلت)اور الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢ (الأنعام)انہوں نے کہا:”لم یذنبوا“یعنی گناھ نہیں کیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا "تم نے تو اس آیت کو بہت ہی مشکل بات پر محصول کیا ہے ۔”بظلم“کا معنی ہے”بشرک“یعنی شرک نہیں کیا ۔ اور إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی جنہوں نے کہا ہما را رب اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے ) اس سے مراد ہے کہ وہ پھر بت پرستی کی طرف نہیں لوٹے (اور مرتد نہیں ہو ئے )۔ ([1])

(۲)اس امت کے صدیق اور سب سے بڑے استقا مت والے جنا ب ابو بکر صدیق ؓسے استقامت کے متعلق پو چھا گیا تو انہوں نے کہا :(استقا مت کا مطلب ہے ) کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر " ان کی مراد محض توحید پر استقا مت ہے ۔ ([2])

(۳)جناب عمر بن خطاب ؓنے کہا :استقا مت کا معنی ہے کہ تو امر و نھی پر استقا مت اختیار کر اور لومڑ کی طرح ادھر ادھر نہ جا ۔([3])

(۴)جناب عثمان ؓنے کہا : استقا مت کا معنی ہے اعمال کو اللہ کے لئے خا لص کیا ۔([4])

[1] - الدر المنثور رقم (7/322)
[2] - مدارج السالكين رقم (2/108)، وبصائر ذوي التمييز رقم (4/312)
[3] - مدارج السالكين رقم (2/109)
[4] - المرجع السابق نفسه، والصفحة نفسها .
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۵)علی بن ابی طا لب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا : استقا مو " فرا ئض کو ادا کیا "۔([1])

(۶) حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا :اللہ کے دین پر ثا بت قدم رہے اور اس کی اطا عت کی اور اس کی نا فر ما نی سے بچے "۔([2])

(۷) مجا ھد نے کہا: اس بات کی گوا ھی پر قا ئم رھے کہ اللہ کے سوا ء کو ئی معبو د نہیں ہے یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ سے جا ملے ۔ ([3])

(۸) قیس بن ابی حا زم نے کہا کہ ابو بکر ؓکی ایک عورت کے پا س آئے جس کا نام زینب تھا ، اس کو دیکھا کہ بات نہیں کر رہی ہے ، پو چھا کیو ں نہیں با ت کر رہی ہے؟ لو گو ں نے کہا اس نے چپ سے حج کر نے کی نیت کی ہے ۔ ابو بکر ؓنے کہا : بول ، یہ (چپ سے حج کرنا ) جا ئز نہیں ہے ، یہ جا ہلیت کا کام ہے ، اس پر وہ عو رت بات کر نے لگی ۔ اس نے پو چھا آپ کو ن ہیں ۔ ابو بکر نے کہا مہا جرو ں میں سے ہوں ۔ کہا کو ن سے مہا جرہو ، کہا قر یش سے اس نے پو چھا کو ن سے قریش سے ابو بکر نے کہا تو بہت سوال پو چھنے وا لی ہے ، میں ابو بکر ہوں ،اس نے پو چھا ، جا ھلیت کے بعد جو یہ اللہ تعا لیٰ نے ہمیں بہتر ین دین دیا ہے اسی پر ہم کب تک رہ سکتے ہیں ۔ ابو بکر نے کہا ، اس دین پر تم تب تک رہ سکتے ہو جب تک تمہا رے رھنما تمہیں (اس دین پر ) سیدھا رکھیں گے ۔ اس نے کہا وہ راہنما کون ہیں ؟ ابو بکر نے کہا " کیا تیری قو م کے سر دار اور بڑے آدمی نہیں جو حکم کر تے ہیں تو لو گ ان کی بات ما نتے ہیں ۔ اس عو رت نے کہا ہا ں ۔ ابو بکر نے کہا یہی لو گ ہی جو لو گو ں پر (حکم چلاتے ) ہیں ۔ ([4])

(۹) حذیفہ بن یمان ؓنے کہا ( اے قراء کی جما عت ، استقامت پکڑو ، بیشک تم بہت آگے نکل گئے ہو ۔ پھر اگر تم دا ئیں با ئیں مڑو گے تو بہت دور کے گمراہ ہو جا ؤ گے ۔ ([5])

(۱۰)ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا :”اسْتَقَامُوا عَلَی أَدَاءِ الْفَرَائِضِ“ یعنی فرا ئض کی ادا ئیگی میں استقا مت سے کا م لیتے ہیں ۔ اور کہا : ”أَخْلَصُوا لَهُ الدِّینَ وَالْعَمَل“ یعنی اللہ کےلئے ہی دین و عمل کو خا لص کر تے ہیں اور اللہ تعا لیٰ کی اطا عت پر استقا مت اختیا ر کر تے ہیں ۔ ([6])

(۱۱)اور انہو ں نے ہی کہا ہے: ”عَلیَ شَھَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللہ“ یعنی کلمہ شہا دت (جو کہ تو حید پر مبنی ہے اس کے مطلب )پر استقا مت اختیا ر کر تے ہیں ۔ ([7])

(۱۲)اور ابن عبا س رضی اللہ عنہا سے پو چھا گیا کہ کتاب اللہ کے اندر کو ن سی آیت زیا دہ امید د لا نے وا لی ہے ؟ فر مان الہیٰ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی وہ لو گ جنہو ں نے کہا کہ ہما را رب فقط اللہ اکیلا ہے پھر استقامت اختیا ر کر تے ہیں ) یعنی اس بات کی گوا ھی پر کہ اللہ تعا لیٰ کے علا وہ کو ئی عبا دت کے لا ئق نہیں ہے ۔ ([8])

(۱۳)شیخ الا سلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ٰ نے کہا ہے : سب سے بڑی کرا مت استقا مت کو لا زم کر نا ہے۔([9])

(۱۴)اور ان سے ہی پچھلی آیت کی تفسیر میں مر وی ہے کہ ( استقا مت رکھتے ہیں اللہ تعا لیٰ کی محبت اور عبا دت پر اور اس سے دا ئیں و با ئیں نہیں مڑ کر دیکھتے ۔([10])


[1] - المرجع السابق نفسه، والصفحة نفسها .
[2] - المرجع السابق نفسه، والصفحة نفسها .
[3] - مدارج السالكين رقم (2/109)
[4] - البخاري رقم (7/3834)
[5] - البخاري رقم (13/7282)
[6] - جامع العلوم والخكم رقم (192)
[7] - مدارج السالكين رقم (2/109)
[8] - الدر المنثور رقم (7/322)
[9] - المرجع السابق نفسه، والصفحة نفسها.
[10] - المرجع السابق رقم (2/109)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استقامت کے فوا ئد
(۱)استقا مت کما لِ ایمان اور حسنِ اسلام سے ہے۔( یعنی صا حب استقا مت اسی قدر کا مل ایما ن اور بہتر مسلمان ہو گا )

(۲)استقا مت سے ہی انسان اللہ تعا لیٰ کے ہا ں کرا مت ( یعنی عزت و در جہ ) اور اعلٰی مقام حا صل کر ے گا ۔

(۳)استقامت قلبی سے اعصال جوا رح کے اندر استقا مت آتی ہے ۔

(۴) استقا مت پر دوام بہت سی نفلی عبا دات سے بہتر ہے ۔

(۵) استقا مت بہت بڑی کرا مت ہے ۔

(۶)استقا مت یقین اور رب تعا لی کی رضا مندی کی دلیل ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top