• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

التحقیق والتنقیح فی مسئلۃ التدلیس

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس

امام الشافعیؒ کے قول کے تناظر میں
محمد خُبیب احمد​
علم اُصولِ حدیث کے ذریعے محدثینِ عظام نے 14 صدیوں پہلے نبی کریمﷺ کی طرف ہرمنسوب بات کی غلطی وصحت جانچنے کے لئے ایسے بہترین اُصول وضع کئے جن میں آج تک کوئی اضافہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کسی بھی قول کے مستند ہونے کے لئے راویوں کا سلسلۂ اسناد متصل ہونا ازبس ضروری ہے اور یہ اتصالِ سند کسی حدیث کے صحیح ہونے کی پہلی شرط ہے۔سند میں یہ انقطاع اگر ظاہری ہو یعنی کسی مرحلہ پر راویوں کا سلسلہ منقطع ہو تو اس کو عام علمابھی جان سکتے ہیں۔ تاہم بعض راویانِ حدیث سند کے مخفی عیب؍انقطاع کو دانستہ یا نادانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو اُصولِ حدیث کی اصلاح میں ’تدلیس‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد اقسام کی بنا پر اس کا حکم بھی مختلف ہے۔
مگر بعض حضرات جبلِ علم امام شافعیؒ کے قول ( چند صفحات کے بعد ملاحظہ کریں) کو اَساس قرار دے کر سبھی مدلِّسین کی مرویات سے مساوی سلوک کرتے ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک جس راوی نے بھی زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی تو اس کی ہر مُعنعن روایت ناقابل قبول ہوگی اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اسے ’جمہور محدثین‘ کا منہج باور کراتے ہیں جو سراسر حقیقت کے منافی ہے۔درج ذیل تحریر میں مدلسین کے بارے میں صحیح موقف کے تعین کی کوشش کی گئی ہے اور جمہورمحدثین کے اصل موقف کو پیش کیا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تدلیس کے لغوی معنی
’تدلیس‘ کے لغوی معنی پوشیدگی اور پردہ پوشی کے ہیں۔ اسی سے الدَلس (دال اور لام کی زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب ہے: اختلاط النور بالظلمَة یعنی ’’اندھیرے اور اُجالے کا سنگم‘‘ دلس البائع کے معنی:بائع کا خریدار سے سودے کے عیب کو چھپانا ہے۔ (مزید تفصیل:الصحاح للجوھري:۲؍۹۲۷،لسان العرب:۷؍۳۸۹، تاج العروس: ۴؍۱۵۳ )
اِصطلاحی تعریف
اگر راوی اپنے ایسے اُستاد جس سے اس کا سماع یا معاصرت ثابت ہے وہ روایت عَن، أنَّ،قَال،حدَّث وغیرہ الفاظ سے بیان کرے، جسے درحقیقت اُس نے اپنے اُستاد کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے سنا ہے اور سامعین کو یہ خیال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے سنی ہوگی تو اسے ’ تدلیس‘ کہا جاتا ہے۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تدلیس کی اقسام
تدلیس کی مرکزی قسمیں دوہیں:
1۔ تدلیس الاسناد
اس کی دو تعریفیں ہیں:
1۔راوی کا اپنے اُستاد سے ایسی اَحادیث بیان کرنا جو دراصل اُس نے اِس اُستاد کے علاوہ کسی اور سے سنی ہیں۔
2۔راوی کا اپنے ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی اور ایسے صیغوں سے بیان کرنا جس سے یہ شبہ پیدا ہو کہ راوی نے مروی عنہ سے اس حدیث کی سماعت کی ہے۔
پہلی صورت کی تفصیل یہ ہے کہ راوی نے اپنے کسی شیخ سے چند اَحادیث بالمشافہ سماعت کی ہوتی ہیں مگر اس کے ہاں کچھ ایسی بھی اَحادیث ہوتی ہیں جنہیں اس شیخ سے بالمشافہ سماعت نہیں کیا ہوتا بلکہ اُس راوی سے سنا ہوتا ہے جس نے مدلس کے شیخ سے سنی ہوتی ہیں۔ وہ اس واسطہ کو گرا کر اپنے شیخ سے براہِ راست ایسے صیغوں سے بیان کرتا ہے جو صراحتاً اتصال پر دلالت کرتے ہیں اور نہ صراحتاً عدمِ اتصال پر ، مگر عرفِ عام میں وہ سماع پر محمول کیے جاتے ہیں۔اس صورت کے تدلیس ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
دوسری صورت کی توضیح یہ ہے کہ راوی اپنے ایسے معاصرجس سے اس نے کچھ سنا نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کی مروی عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں ہوتی،سے ایسے ہی صیغوں سے بیان کرتا ہے جن میں سماع اور عدمِ سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر یہ مدلسین کوئی ایسا صیغہ استعمال کریں جو تحدیث یا سماع پر دلالت کرے اور اس میں تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو تو وہ صیغہ جھوٹ ہوگا جس کا مرتکب متروک درجے کا راوی ہوگا۔
حافظ ابن حجرؒ اور ان کے مابعد محدثین نے تدلیس الاسناد کی اس دوسری صورت کو ’اِرسال خفی‘ قرار دیتے ہوئے تدلیس سے خارج قرار دیا ہے۔ (النکت لابن حجر: ۲؍۶۱۴، ۶۲۲ تا۶۲۴)
مگر معلوم ہوتا ہے کہ ’ارسالِ خفی‘ بھی تدلیس کی ذیلی قسم ہے،مستقل قسم نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ فرمارہے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تدلیس الاسناد کی اس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم اس کی ذیلی اَقسام کی طرف چلتے ہیں جس میں تدلیس التسویۃ، تدلیس السکوت، تدلیس القطع، تدلیس العطف اور تدلیس الصیغ شامل ہیں۔
1۔ تدلیس التسویۃ
اس کی تعریف ہے کہ مدلس راوی اپنے کسی ایسے ثقہ اُستاد سے حدیث سنتا ہے جس نے وہ حدیث ضعیف راوی سے سنی ہوتی ہے اور وہ ضعیف راوی آگے ثقہ یا صدوق راوی سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔گویا دو ثقہ راویوں کا درمیانی واسطہ ایک ضعیف راوی ہوتا ہے۔
مدلس راوی ان دونوں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا کر ثقہ کو ثقہ سے ملا دیتا ہے اور سند کو بظاہر عمدہ بنا دیتا ہے،کیونکہ پہلے ثقہ راوی کا دوسرے ثقہ راوی سے سماع ثابت ہوتا ہے یا کم از کم وہ دونوں ہم عصر ہوتے ہیں۔دیکھئے ( الکفایۃ۲؍۳۹۰)
ایسا فعل صفوان بن صالح الدمشقي اور محمد بن مصفّٰی سے منقول ہے۔
تدلیس التسویۃ تدلیس کی بدترین قسم ہے۔ محدثین نے تدلیس کی جو شدیدمذمت کی ہے، ان اَسباب میںسے ایک سبب تدلیس التسویۃ بھی ہے۔
2۔ تدلیس السکوت
تدلیس الاسناد کی ذیلی اقسام میں دوسری قسم یہ ہے کہ مدلس راوی حدثنا وغیرہ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے اور دل ہی میں اپنے شیخ کا نام لیتا ہے، پھر روایت آگے بیان کرنا شروع کردیتا ہے جس سے سامعین کو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حدثنا کا قائل وہی ہے جومدلس نے بہ آواز بلند ذکر کیا ہوتا ہے۔ ایسا فعل عمر بن عبید طنافسی سے مروی ہے۔ (النکت لابن حجر:۲؍۶۱۷) ابن حجرؒ نے مذکورہ کتاب میں اسے تدلیس القطع قرار دیا ہے۔
3۔ تدلیس القطع
تدلیس الاسناد کی تیسری قسم تدلیس القطع ہے جس میں مدلس راوی صیغۂ اَدا حذف کردیتا ہے اور بطورِ مثال الزہري عن أنس پر اکتفا کرتا ہے۔ (تعریف أھل التقدیس لابن حجر :ص۱۶) اس تدلیس کو تدلیس الحذف بھی کہا جاتا ہے۔
4۔تدلیس العطف
چوتھی قسم تدلیس العطف ہے جس میں مدلس راوی اپنے دو اساتذہ، جن سے اس کا سماع ثابت ہوتا ہے، سے روایت بیان کرتاہے۔مگر وہ روایت اس نے صرف پہلے اُستاد سے سنی ہوتی ہے، اس لیے اس سے سماع کی تصریح کردیتا ہے اور دوسرے استاد کو پہلے اُستاد پر عطف کردیتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ میں نے یہ روایت ان دونوں اساتذہ سے سماعت کی ہے۔ جیسے ہشیم بن بشیر نے کہا:حدثنا حصین ومغیرۃ حالانکہ ہُشیم نے اس مجلس میں بیان کردہ ایک حرف بھی مغیرہ سے نہیں سنا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:ص۱۰۵،جزء في علوم الحدیث لأبي عمرو الداني: ص۳۸۲، ۳۸۳ رقم ۹۴)
5۔تدلیس الصیغ
پانچویں قسم یہ ہے کہ مدلس راوی اپنے شیخ سے روایت کرنے میں ایسے صیَغ اَدا استعمال کرتا ہے جس کے لیے وہ اصطلاحات وضع نہیں کی گئیں۔ مثلاً غیر مسموع روایت پر حدثنا کا اطلاق کرنا جیسے فطر بن خلیفہ کا طرزِ عمل تھا۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلي:۳؍۴۶۵، فتح المغیث للسخاوي: ۱؍۲۱۱،۲۱۲)
اسی طرح إجازۃ بدون سماع والی روایت کو أخبرناسے بیان کرنا جیسے امام ابونعیمؒ اور دیگر اَندلسیوں کا یہی طریقہ تھا۔ (سیرأعلام النبلاء للذہبي:۱۷؍۴۶۰)
اسی طرح وِجادۃ پر حدَّثنا کا اطلاق کرنا جیسے اسحق بن راشد کا رویہ تھا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص۱۱۰)
یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ علامہ الشریف حاتم نے (المرسل الخفي:۱؍ ص۵۳۰،۵۳۱) میں اس نوع کے آٹھ مدلسین ذکر کیے ہیں اور شرح الموقظۃ للذہبي میں نویں مدلس مسیب بن رافع کابھی اضافہ کیا ہے۔ (شرح موقظۃ الذہبي للعوني:ص۱۲۴)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔تدلیس الشیوخ
مدلس راوی نے جس اُستاذ سے حدیث سنی ہوتی ہے، اس کا ایسا وصف بیان کرتا ہے جس سے اس کی شخصیت مجہول ہوجاتی ہے یا پھر سامعین کی توجہ اسی نام کے کسی دوسرے شیخ کی طرف مائل ہوجاتی ہے مثلاً وہ اس کا غیر معروف نام، کنیت، قبیلے یا پیشے کی طرف نسبت کردیتا ہے۔ تدلیس کی اس نوع میں صیغ اَدا میں تدلیس نہیں ہوتی اور نہ ہی سند سے کسی راوی کا اسقاط ہوتا ہے، محض شیخ کا نام وغیرہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ بنابریں ایسی تدلیس میں مدلس کا عنعنہ اور صراحت ِسماع دونوں یکساں ہیں۔ (معرفۃ أنواع علم الحدیث لابن الصلاح:ص۶۶، إرشاد طلاب الحقائق للنووي:۱؍۲۰۷،۲۰۸)
تدلیس الشیوخ کی ذیلی قسم تدلیس البلدان ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
تدلیس البلدان
حافظ ابن جوزیؒ اس کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بغداد میں ایک طالب ِحدیث داخل ہوا۔ وہ شیخ کو لے جاکر رقّہ میں بٹھاتا ہے، یعنی اس باغ میں جو دریاے دجلہ کے دونوں کنارے چلا گیا ہے اور شیخ کو حدیث سناتا ہے۔ پھراپنے حدیث کے مجموعے کو یوں لکھتا ہے کہ مجھ سے رقّہمیں فلاں فلاں شخص نے حدیث بیان فرمائی۔ اس سے وہ لوگوں کو وہم میں ڈالتا ہے کہ رقّہ سے وہ شہر مراد ہے جو ملک ِشام کی طرف ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس محدث نے طلب ِحدیث میں دوردراز کے سفر کیے ہیں۔‘‘ (تلبیس ابلیس لابن جوزی:ص۱۱۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مدلس کی روایت کا حکم او رامام شافعیؒ کے موقف کی توضیح
اب امام شافعیؒ اور دیگر محدثین کا مدلس کی روایت کے بارے میں موقف ملاحظہ فرمائیں:
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
1۔’’ جس شخص کے بارے میں ہمیں علم ہوجائے کہ اس نے صرف ایک ہی دفعہ تدلیس کی ہے تو اس کا باطن اس کی روایت پر ظاہر ہوگیا۔
2۔اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مدلس کی حدیث اتنی دیر تک قبول نہیں کرتے جتنی دیر تک وہ حدثني یا سمعتُ (صراحت ِسماع ) نہ کہے۔‘‘ (الرسالۃ للإمام الشافعي: ص۳۷۹، ۳۸۰، فقرہ:۱۰۳۳،۱۰۳۵)
امام شافعیؒ کے مذکورہ بالا کلام کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فرمایا کہ جو راوی صرف ایک ہی بار تدلیس کرے، اس کی ہر معنعن روایت قابل ردّ ہوگی۔ گویا امام موصوف کے ہاں راوی کے سماع کی تتبع کے بعد تدلیس کا مکرر ہونا یا اس کی مرویات پر تدلیس کا غالب آنا شرط نہیں ہے بلکہ محض ایک بار تدلیس کا پایا جانا ہی کافی ہے۔
حافظ ابن رجبؒ نے بھی امام شافعیؒ کے اس قول کی یہی تعبیر کی ہے۔(شرح علل الترمذي:۲؍۵۸۲-۵۸۳)
مدلس کی ایک ہی بار تدلیس کے حوالے سے حافظ ِمشرق خطیب بغدادیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔(الکفایۃ للخطیب البغدادي: ۲؍۳۸۹-۳۹۰)
مدلس کی ایک بار تدلیس کے حوالے سے ان دونوں ماہر محدثین کے علاوہ کسی اور کا یہ موقف معلوم نہیں ہوسکا۔
امام شافعیؒ نے اپنے کلام کے دوسرے حصہ میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ مدلس راوی کی معنعن روایت قابل قبول نہیں ہے۔ یہی موقف متعدد محدثین کا بھی ہے،مگر ان کا یہ موقف کثیر التدلیس راوی کے بارے میں ہے، صرف ایک بار والے مدلس راوی پر نہیں۔
٭ بعض لوگوں نے حافظ ابن حبانؒ کا بھی یہی موقف بیان کیاہے۔ بلا شبہ حافظ ابن حبانؒ نے اسی مسلک کو اپناتے ہوئے یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ امام شافعیؒ اور ہمارے دیگر اساتذہ کا موقف ہے۔ (مقدمۃ المجروحین لابن حبان:۱؍۹۲)
مگر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حبانؒ کا یہ موقف مطلق طور پر نہیں ہے،کیونکہ ان کے ہاں جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی صراحت کے بغیربھی قبول کی جائے گی۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدمِ صراحت ِسماع کے باوجود قبول کی جائے گی۔ دنیا میں صرف سفیان بن عینیہ ایسے ہیں جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں۔ سفیان بن عینیہ سے مروی کوئی حدیث ایسی نہیںہے جس میںوہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے۔‘‘ (مقدمہ صحیح ابن حبان:۱؍۹۰، الاحسان)
امام ابن حبانؒ کے قول سے یہ اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کے ہاں جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں، وہ صرف ابنِ عیینہ ہیں۔ حالانکہ یہ مفہوم درست نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام ابن عیینہؒ اپنے ہی جیسے ثقہ متقن راوی سے تدلیس کرتے ہیں۔ عام ثقات سے تدلیس نہیں کرتے اور یہ عمومی قاعدہ ہے، اس سے وہ روایات مستثنیٰ ہوں گی جن میں تدلیس پائی جائی گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیگر محدثین کا امام شافعی وبغدادی سے اختلاف
1۔امام شافعیؒ اور حافظ بغدادیؒ کا مذکورۃ الصدر موقف محل نظر ہے بلکہ جمہور محدثین اور ماہرینِ فن کے خلاف ہے۔ جیسا کہ حافظ بدر الدین زرکشیؒ ۷۹۴ھ امام شافعیؒ کے اس قول کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وھو نص غریب لم یحکمہ الجمہور‘‘ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشي:ص۱۸۸)
’’یہ انتہائی غریب دلیل ہے، جمہور کا یہ فیصلہ نہیں۔‘‘
2۔حافظ ابن عبدالبرؒ نے بھی امام شافعیؒ کے اس موقف کو اپنانے والوں پرافسوس کا اِظہار کیا ہے۔مشہور مالکی امام ابن عبدالبرؒ نے امام قتادہ بن دعامہ،جو تدلیس کرنے میں مشہورہیں، کے عنعنہ کومطلق طور پر ردّ کرنے والوں کا تعاقب فرمایا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قال بعضھم قتادة إذا لم یقل: سمعتُ أو حدثنا فلا حجة في نقلہ وھٰذا تعسف‘‘(التمہید لابن عبدالبر:۱۹؍۲۸۷)
’’بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ قتادہ جب سمعتُ یا حدثنا وغیرہ سے اپنے سماع کی صراحت نہ کریں تو ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، یہ انتہائی افسوس ناک موقف ہے۔‘‘
یعنی حافظ ابن عبدالبرؒ کے ہاں امام قتادہؒ ایسے مشہور مدلس بھی جب روایت ِعنعنہ سے بیان کریں تو وہ مقبول الروایہ ہیں۔ ان کا عنعنہ اسی وقت ردّ کیا جائے گا جب اس میں تدلیس پائی جائے گی۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبرؒ دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں :
’’قتادة إذا لم یقل: سمعت وخُولف في نقلہ، فلا تقوم بہ حجة لأنہ یدلس کثیرًا عمن لم یسمع منہ، ورُبّما کان بینھم غیر ثقة‘‘(التمہید لابن عبدالبر:۳؍۳۰۷)
’’ قتادہ جب (سمعتُ) نہ کہیں اور ان کی حدیث دوسروں کے مخالف ہو توقابل حجت نہیں ہوگی،کیونکہ وہ بکثرت ایسوں سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے سماع نہیں ہوتا اور بسا اَوقات اس (تدلیس) میں غیر ثقہ راوی بھی ہوتا ہے۔‘‘
حافظ صاحب کی ان دونوں نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ امام ابن عبدالبر، قتادہ کے عنعنہ کو رد کرنے میںتدلیس شرط قرار دے رہے ہیں، بالفاظِ دیگر اِمام شافعیؒ کے موقف کی تردید بھی کررہے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعیؒ کا مدلسین کی روایات سے استدلال
اوپر آپ امام شافعیؒ کے حوالے سے پڑھ آئے ہیں کہ جو راوی ایک بار تدلیس کرے، اس کی سبھی معنعن روایات ناقابل قبول ہوں گی۔مگر اس اُصول کی انہوں نے خود مخالفت کی ہے:
1۔امام صاحب نے ابن جریج کی معنعن روایت سے استدلال کیا ہے۔ (دیکھئے کتاب الرسالۃ للشافعی :ص۱۷۸ فقرہ ۴۹۸، ص۳۲۵ فقرہ۸۹۰ ،ص۳۳۰ فقرہ ۹۰۳ ،ص ۴۴۳ فقرہ۱۲۲۰)
حالانکہ ابن جریج سخت مدلس ہیں اور مجروحین سے بھی تدلیس کرتے ہیں۔ان کی ضعفا اور کذابین سے تدلیس کی وجہ سے محدثین ان کی مرویات کی خوب جانچ پرکھ کیا کرتے تھے۔جس کی تفصیل مُعجم المدلسین للشیخ محمد بن طلعت :ص۳۱۱ تا۳۲۰، التدلیس في الحدیث للشیخ مسفر:ص۳۸۳ تا ۳۸۶،بھجۃ المنتـفع للشیخ أبي عبیدۃ: ص۴۱۶تا۴۲۲ میں ملاحظہ فرمائیں۔
2۔اسی طرح دوسری جگہ مشہور مدلس ابوالزبیر محمدبن مسلم بن تدرس کی معنعن روایت سے اِستدلال کیا ہے۔ دیکھئے کتاب الرسالۃ :ص۱۷۸ فقرۃ۴۹۸ ، ص۳۲۴ فقرۃ۸۸۹
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ امام شافعیؒ نے ان دونوں اور دیگر مدلسین کی معنعن روایات سے استدلال کیوں کیاہے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام شافعیؒ کے موقف کی وضاحت
امام شافعیؒ کے موقف کے بارے میں شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن سعد فرماتے ہیں:
’’یہ کلام صرف نظریات کی حد تک ہے بلکہ ممکن ہے کہ امام شافعیؒ نے خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ اُنھوں نے اپنی اسی کتاب (الرسالۃ) میں متعدد مقامات پر ابن جریج کی معنعن روایت سے احتجاج کیا ہے۔اس حدیث میں امام شافعیؒ نے ابن جریج کی اپنے شیخ سے صراحت ِسماع ذکر نہیں کی،ایسے ہی ابوالزبیر کا معاملہ ہے۔‘‘
اسی طرح شیخ ناصر بن حمد الفھد رقم طراز ہیں :
’’ ائمۂ حدیث امام شافعیؒ کے اس قول کی موافقت نہیں کرتے جیسا کہ امام احمد، امام ابن مدینی، امام ابن معین اور امام فسوی رحمہم اللہ اجمعین کا موقف ہے۔ امام شافعیؒ اُمت کے فقہا اور علماے اسلام میں سے ہیں، مگر حدیث کے بارے میں ان کی معرفت ان حفاظ جیسی نہیں ہے، اور اگر ہم امام شافعیؒ کے قول کا اعتبار کریں تو ہمیں ایسی صحیح احادیث بھی ردّ کرنا ہوں گی جنہیں کسی نے بھی ردّ نہیں کیا یہاں تک کہ (امام شافعیؒ کی موافقت میں) شوافع نے بھی ردّ نہیں کیں بلکہ اُنہوں نے مدلسین کے مراتب قائم کیے ہیں۔‘‘ (معجم المدلسین شیخ محمد طلعت: ص۲۱۶،۲۱۷)
امام شافعیؒ کے قول کے جواب میں شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن نے بھی اسی قسم کا جواب دیا ہے۔ دیکھئے (التعلیق علی الکافی فی علوم الحدیث للأردبیلی:ص۳۸۹)
٭ علامہ زرکشیؒ کا نقد آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ اُنہوں نے امام شافعیؒ کے اس قول کو غریب کہا ہے۔ ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعیؒ کا یہ موقف محل نظر ہے۔
اس کے مزید دلائل درج ذیل ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلی دلیل:تدلیس کا حکم
تدلیس کا حکم لگانے سے قبل یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ اس کی تدلیس کی نوعیت کیا ہے؟ اس بنا پرتدلیس اور اس کے حکم کو چار حصوں میںمنقسم کیا جائے گا:
پہلی قسم:یہ ہے کہ راوی اپنے استاد سے وہ اَحادیث بیان کرتا ہے جو اس نے مروی عنہ (جس سے روایت کررہا ہے) سے سنی نہیں ہوتی، جب کہ مطلق طور پر اس کا سماع متحقق و یقینی ہوتاہے۔اس قسم کا حکم یہ ہے کہ مدلس کی ہر حدیث میں اس کے شیخ سے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، کیونکہ وہ جس حدیث کوبھی محتمل صیغہ سے بیان کررہا ہے، اس میں احتمال ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے اُستاد سے نہیں سنی۔ یہ حکم کثیر التدلیس مدلسین کا ہے۔
دوسری قسم:راوی اپنے ایسے ہم زمانہ سے حدیث بیان کرے جس سے اس کی ملاقات نہیں ہوتی، مگر وہ جس صیغے سے بیان کرتا ہے، اس سے یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث بھی اس کی مسموعات میں سے ہے۔ تدلیس کی اس قسم کو حافظ ابن حجرؒ اِرسالِ خفی قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کے حکم کے بارے میں علامہ حاتم بن عارف الشریف رقم طراز ہیں:
’’میں راوی کا عنعنہ اتنی دیر تک قبول نہیں کرتا جب تک اس کی مروی عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہوجاتی۔ اگرچہ یہ ملاقات یا سماع حدیث صرف ایک ہی حدیث سے ثابت ہوجائے تو میں اس راوی کی اس شیخ سے بقیہ اَحادیث سماع پر محمول کرتا ہوں، کیونکہ اس میں تدلیس کی جو قسم پائی جاتی ہے وہ ایسے معاصر سے روایت کرتا ہے جس سے سماع ثابت نہیں، اس لیے اگر ایک ہی حدیث میں سماع ثابت ہوجائے تو اس مخصوص شیخ سے تدلیس کا الزام ختم ہوجائے گا۔‘‘ (شرح موقظۃ الذہبي للعوني:ص۱۲۶)
تیسری قسم:اس قسم میں ’تدلیس الشیوخ‘ہے جس میں صیغِ اَدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا حکم مدلس راوی کی معرفت پر موقوف ہوتاہے۔اگر وہ ثقہ ہے تو اس کی نقل کردہ چیز مقبول ہوگی اور اگر وہ ضعیف ہو تو اس کا نقل کردہ قول بھی لائق التفات نہیں ہوگا اور جو ہر مدلس کے عنعنہ کو رد کرتے ہیں، وہ تدلیس الشیوخ کے مرتکب مدلس اگرچہ وہ ثقہ ہوں کی عنعنہ کوبھی رد کردیں گے جو کہ درست نہیں۔
چوتھی قسم:اس میں تدلیس الصیغ (صیغوں میں تدلیس)ہے۔اس قسم میں بھی تدلیس کی نوع متعین کرنا ہوگی اور اس کے مرتکبین کوبھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔اس تدلیس کی تاثیر تدلیس الاسناد کی تاثیر سے مختلف ہے، کیونکہ تدلیس الاسناد میں تو راوی کا عنعنہ مردود ہوتا ہے اور جو آدمی تحمل حدیث میں روایت بالاجازۃ کو قبول نہیں کرتا، اس کے ہاں ایسے مدلس کی تصریح سماع قابل رد اور عنعنہ مقبول ہوگا۔ اس تدلیس کے حکم میں ان لوگوں کا بھی ردّ موجود ہے جو محض تدلیس سے موصوف ہر شخص کے عنعنہ کو مردود سمجھتے ہیں۔
 
Top