- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
التحقیق والتنقیح في مسئلۃ التدلیس
امام الشافعیؒ کے قول کے تناظر میں
محمد خُبیب احمد
علم اُصولِ حدیث کے ذریعے محدثینِ عظام نے 14 صدیوں پہلے نبی کریمﷺ کی طرف ہرمنسوب بات کی غلطی وصحت جانچنے کے لئے ایسے بہترین اُصول وضع کئے جن میں آج تک کوئی اضافہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مگر بعض حضرات جبلِ علم امام شافعیؒ کے قول ( چند صفحات کے بعد ملاحظہ کریں) کو اَساس قرار دے کر سبھی مدلِّسین کی مرویات سے مساوی سلوک کرتے ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک جس راوی نے بھی زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی تو اس کی ہر مُعنعن روایت ناقابل قبول ہوگی اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اسے ’جمہور محدثین‘ کا منہج باور کراتے ہیں جو سراسر حقیقت کے منافی ہے۔درج ذیل تحریر میں مدلسین کے بارے میں صحیح موقف کے تعین کی کوشش کی گئی ہے اور جمہورمحدثین کے اصل موقف کو پیش کیا گیا ہے۔کسی بھی قول کے مستند ہونے کے لئے راویوں کا سلسلۂ اسناد متصل ہونا ازبس ضروری ہے اور یہ اتصالِ سند کسی حدیث کے صحیح ہونے کی پہلی شرط ہے۔سند میں یہ انقطاع اگر ظاہری ہو یعنی کسی مرحلہ پر راویوں کا سلسلہ منقطع ہو تو اس کو عام علمابھی جان سکتے ہیں۔ تاہم بعض راویانِ حدیث سند کے مخفی عیب؍انقطاع کو دانستہ یا نادانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کو اُصولِ حدیث کی اصلاح میں ’تدلیس‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد اقسام کی بنا پر اس کا حکم بھی مختلف ہے۔