تیسری دلیل:تدلیس کی کمی و زیادتی کی تاثیر
امام شافعیؒ کے موقف کے خلاف تیسری دلیل یہ ہے کہ محدثین حکم لگاتے ہوئے تدلیس کی قلت اور کثرت کا بھی اعتبار کرتے ہیں جیسا کہ مدلسین کی معنعن روایات کا عمومی حکم اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ایسی مرویات ضعیف ہوں گی، اِلا یہ کہ وہ مدلس راوی اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کردے یا اس کا کوئی متابع یا شاہد موجود ہو۔مگر جو راوی قلیل التدلیس ہو،اس کی معنعن روایت مقبول ہوگی، بشرطیکہ وہ خود ثقہ ہو اور اس روایت میں نکارت نہ پائی جائے۔ اگر نکارت موجود ہو اور اس کا بظاہر کوئی اور سبب نہ ہو تو وہ (نکارت) تدلیس کا شاخسانہ قرار دی جائے گی۔ گویا ثقہ مدلس راوی کے عنعنہ کو تبھی تدلیس قرار دیا جائے گا جب اس کی سند یا متن میں نکارت پائی جائے گی۔ یہی فہم ناقدینِ فن کے اقوال سے مترشح ہوتا ہے۔
1۔امام ابن معینؒ کا فیصلہ
٭ امام یعقوب بن شیبہؒ (م ۲۶۲ھ) نے امام العلل یحییٰ بن معینؒ (م۲۳۳ھ) سے تدلیس کی بابت اِستفسار کیا تو امام ابن معینؒ نے تدلیس کو معیوب اور مکروہ جانا۔ امام ابن شیبہؒ نے امام العلل سے سوال کیا:
اگر مدلس اپنی روایت میں قابل اعتماد ہوتاہے یا وہ ’حدثنا‘ یا ’أخبرنا‘کہے؟ یعنی اپنے سماع کی صراحت کرے۔امام صاحب نے انتہائی لطیف جواب ارشاد فرمایا جو اُن کے اس فن کے شہسوار ہونے پر دلالت کرتا ہے، فرمایا:
لایکون حجة فیما دلَّس
’’جس روایت میں وہ تدلیس کرے گا، اس میں قابل اعتماد نہیں ہوگا۔‘‘ (الکفایۃ البغدادي:۲؍۳۸۷ اِسنادہ صحیح، الکامل لابن عدی: ۱؍۴۸، التمہید لابن عبدالبر:۱؍۱۷،۱۸)
قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ امام ابن معینؒ نے مدلس کی روایت کے عدمِ حجت ہونے میں یہ قاعدہ بیان نہیں فرمایا کہ جب وہ روایت عنعنہ سے کرے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا،بلکہ فرمایا کہ اس کی عنعنہ مقبول ہے مگر اس شرط پر کہ اس عنعنہ میں تدلیس مضمر نہ ہو۔ بصورتِ دیگر وہ روایت منکر اور ناقابل اعتماد ہوگی۔ یہی سوال امام یعقوبؒ نے امام ابن معینؒ کے ہم عصر امام علی بن مدینیؒ سے کیا۔
2-امام ابن المدینیؒ کے ہاں تاثیر
٭ إمام العلل وطبیبھا علی بن مدینیؒ امام ابن شیبہ کے استفسار پر فرماتے ہیں:
’’إذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا، حتی یقول: حدثنا‘‘(الکفایۃ للبغدادي:۲؍۳۸۷، اسنادہ صحیح، التمہید لابن عبدالبر:۱؍۱۸)
’’جب تدلیس اس پر غالب آجائے تو تب وہ حجت نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے سماع کی توضیح کرے۔‘‘
امام علی بن مدینیؒ نے اس جوابی فقرہ میں دو باتوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے:
اولاً: مدلَّس روایت حجت نہیں۔
ثانیاً: اس راوی کی جتنی مرویات ہیں، ان کے تناسب سے وہ بہت زیادہ تدلیس کرتاہے یعنی اس کی تدلیس مرویات پر غالب ہے تو اس کی روایت کے قبول کرنے میں یہ شرط لاگو کی جائے گی کہ وہ اپنے سماع کی صراحت کرے۔
امام ابن المدینیؒ کے کلام کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اِلا یہ کہ اس میں تدلیس ہو۔جیسا کہ امام سخاویؒ نے امام ابن مدینیؒ کے اس قول کی توضیح میں فرمایا ہے۔دیکھئے فتح المغیث للسخاوي:۱؍۲۱۶
3۔حافظ ابن رجبؒ کا موقف
٭ حافظ ابن رجبؒ امام شافعیؒ کا قول:
’’ہرمدلس کی عنعنہ مردود ہوگی‘‘ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’امام شافعیؒ کے علاوہ دیگر محدثین نے راوی کی حدیث کے بارے میں تدلیس کے غالب ہونے کا اعتبار کیا ہے۔جب تدلیس اس پر غالب آجائے گی تو اس کی حدیث اسی وقت قبول کی جائے گی جب وہ صراحت ِسماع کرے۔ یہ علی بن مدینیؒ کا قول ہے جسے یعقوب بن شیبہؒ نے بیان کیا ہے۔‘‘ (شرح علل الترمذي لابن رجب:۲؍۵۸۳)
حافظ ابن رجبؒ کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کا رجحان بھی امام علی بن مدینیؒ وغیرہ کی طرف ہے۔
4۔امام احمدؒبن حنبل کا نظریہ
امام احمدؒ بھی اس مسئلہ میں دیگر ناقدین کے ہمدم ہیں، کیونکہ ہشیم بن بشیر الواسطی ابومعاویہ کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’ثقة ثبت کثیر التدلیس والإرسال الخفي‘‘ (التقریب:۸۲۳۲)
ان سے قبل حافظ علائیؒ نے اُنہیں مشہور بالتدلیس قرار دیاہے۔(جامع التحصیل للعلائي:ص۱۲۸، رقم۵۷)
بلکہ امام احمدؒ نے اس کی مدلس روایات کی بھی بخوبی انداز میں نشان دہی فرمائی ہے۔ ملاحظہ ہو: کتاب العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد:فقرۃ:۶۴۴،۷۲۳، ۱۴۵۹،۲۱۲۷، ۲۱۲۹، ۲۱۳۲ تا۲۱۴۰ وغیرہ
یہاں تک کہ ہشیم خود فرماتے ہیں:
’’جب میں تمہیں حدثنا یا أخبرنا سے بیان کروں تو اسے مضبوطی سے تھام لو۔‘‘ (علل الامام احمد:فقرہ۲۱۳۴)
مگر اس کے باوجود امام احمدؒ نے ہشیم کے عنعنہ پر توقف بھی کیا ہے۔ چنانچہ امام ابوداؤد فرماتے ہیں، میں نے امام احمدؒ سے سنا:
حدیث ابن شبرمة،قال رجل للشعبي: نذرت أن أطلّق امرأتی لم یقل فیہ ہشیم: أخبرنا، فلا أدري سمعہ أم لا‘‘
کہ’’ اس حدیث میں ہشیم نے أخبرنا نہیں کہا،مجھے نہیں معلوم کہ اس نے عبداللہ بن شبرمہ سے اس حدیث کو سنا ہے یا نہیں۔‘‘ (مسائل الإمام أحمد تالیف ابی داؤد:ص۳۲۲)
اگرہرمدلس کا عنعنہ مردود ہوتا بالخصوص ہشیم ایسے راوی کا، تو امام احمدہشیم کے عنعنہ کے بارے میں کیوں توقف کرتے؟جس طرح بیسیوں روایات میں اس کی تدلیس کوواضح کیا ہے، جیسا کہ علل الإمام أحمد سے معلوم ہوتا ہے،اسی قاعدہ کی رُو سے ابن شبرمہ والی حدیث کے بارے میں فیصلہ کن نقد فرما دیتے،مگر امام احمدؒ نے ایسا نہیں کیا۔بلکہ امام ابوداؤدؒ نے امام احمدؒ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو تدلیس کی وجہ سے معروف ہے کہ جب وہ’سمعت‘ نہ کہے تو وہ قابل اعتماد ہوگا؟
امام احمدؒ نے فرمایا: ’’مجھے نہیں معلوم!‘‘
میں نے پوچھا:اعمش کی تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کے لیے کیسے الفاظ تلاش کیے جائیں گے (انکی ان مرویات کو کیسے اکٹھا کیا جائے گا جن میں سماع کی صراحت نہیں)
امام احمدؒ نے جواباً فرمایا: ’’یہ کام بڑا مشکل ہے۔‘‘
امام ابوداؤد نے فرمایا: أي إنک تحتج بہ ’’آپ اعمش کی معنعن روایات کو قابل اعتماد گردانتے ہیں!‘‘ (سؤالات أبي داؤد للامام احمدؒ:ص۱۹۹ ، فقرہ:۱۳۸)
گویا امام احمدؒ کا مقصود یہ ہے کہ ایسا راوی جو اپنی مرویات کے تناسب سے بہت کم تدلیس کرتا ہے تو اس کے عنعنہ کو محض اس وجہ سے ردّ نہیں کیا جائے گا کہ وہ مدلس راوی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بہت ساری مقبول اَحادیث بھی ردّ کرنا ہوں گی جو تشدد اور بے موقع سختی کا اِظہار ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اعمش اور ان جیسے دوسرے مدلسین کی معنعن روایات کو مطلق طور پر قبول کریں یہاں تک کہ کسی دلیل سے اس مخصوص حدیث میں تدلیس معلوم ہوجائے۔ مثلاً صحیح سند کے باوجود متنِ حدیث میں نکارت آجائے یا پھر کسی دوسری روایت میں اس شیخ سے عدمِ سماع کی صراحت کرے وغیرہ تو وہ مخصوص روایت ناقابل اعتبار ہوگی۔
مزید برآں امام احمدؒ کے قول:
’میں نہیں جانتا‘سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سبھی مدلسین سے یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ سائل خواہش مند تھے کہ امام احمدؒ اس حوالے سے کوئی کلی قاعدہ بیان فرما دیں مگر امام احمد نے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بتا دیا۔
امام احمدؒ اِن دونوں(ہشیم اور اعمش) کی عنعنہ کا ردّ نہیں کررہے جو مشہور بالتدلیس ہیں تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ قلیل التدلیس راوی کے عنعنہ کو بالاولیٰ سماع پر محمول کرتے ہیں۔ اِلا یہ کہ قلیل التدلیس راوی کی روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے۔گویا یہ وہی منہج ہے جو امام ابن معینؒ، امام ابن مدینیؒ وغیرہ کا ہے۔جس پر امام یعقوب بن شیبہ نے سکوت فرما کر شیخین کی تائید کی ہے اور امام بخاری کا مذہب ہے۔
5۔ امام بخاریؒ
امام بخاریؒ، سفیان ثوریؒ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ولا أعرف لسفیان الثوري عن حبیب بن أبي ثابت ولا عن مسلمة بن کھیل ولا عن منصور وذکر مشائخ کثیرة،ولا أعرف لسفیان عن ھولاء تدلیساً ما أقل تدلیسہ (علل الترمذي:۲؍۹۶۶،التمہید لابن عبدالبر: ۱؍ ۳۵،جامع التحصیل للعلائي:ص۱۳۰، النکت لابن حجر:۲؍۶۳۱)
امام بخاریؒ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ امام بخاریؒ نے یہ نہیں فرمایا کہ سفیان ثوریؒ جن اَساتذہ سے تدلیس نہیں کرتے، ان سے معنعن روایت بھی بیان نہیں کرتے۔بلکہ یہ فرمایا:
’’سفیان ثوری کی ان شیوخ سے تدلیس کو میں نہیں جانتا۔‘‘
اور یہ بات بھی انتہائی بعید ہے کہ سفیان ثوری کی ان شیوخ سے سبھی مرویات جو امام بخاریؒ تک پہنچی ہیں، وہ سماع یا تحدیث کی صراحت کے ساتھ ہوں،بلکہ سفیان ثوری کی ان شیوخ سے معنعن روایات کا موجود ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ مگر اس کے باوجود امام بخاریؒ نے سفیان ثوری کی ان سے معنعن روایات پر تنقید نہیں کی۔بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امام صاحب نے سفیان کی ان سے معنعن روایات کو اتصال پرمحمول کیا ہے۔
امام بخاریؒ نے مدلس (تدلیس والی) روایات کا تتبع کیا ہے ۔ ایسی مرویات کا نہیں جن میں سماع اور تدلیس دونوں کا احتمال ہو۔اگر امام بخاریؒ كا مذکورہ بالا کلام تدلیس اور تدلیس کے احتمال دونوں کامحتمل ہوتا تو امام صاحب کا یوں کہنا زیادہ مناسب تھا:’’سفیان ثوری نے ان شیوخ سے سماع اور تحدیث کی صراحت کی ہے۔‘‘مگر امام صاحب نے ایسا نہیں فرمایا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ نے ثوریؒ کی ان شیوخ سے روایات میں اصل ’اتصالِ سند‘ کو رکھا ہے تاآنکہ کسی روایت میں صراحتاً تدلیس ثابت ہوجائے؟یاپھر ثوری کی ان سے روایات میں اصل انقطاع ہے یہاں تک کہ ہرہر حدیث میں سماع یا تحدیث کی صراحت موجود ہو؟
اوّلا:اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے امام ثوری کی ان شیوخ سے روایات کو سماع پر محمول کیا ہے تاآنکہ کسی قرینے سے معلوم ہوجائے کہ یہ روایت مدلس ہے جیسا کہ دیگر ماہرین فن کا اُسلوب ہے۔
ثانیاً :چونکہ سفیان ثوری کو امام بخاریؒ سے قبل متعدد محدثین نے مدلس قرار دیا ہے جن میں امام یحییٰ بن سعید القطان بھی شامل ہیں۔ (التاریخ لابن معین:۳؍۳۷۴، فقرہ ۱۸۲۲، روایۃ الدوري،العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد: ۱ ؍۲۴۲، فقرہ۳۱۸)
جس بنا پر امام بخاریؒ جانتے تھے کہ ثوری مدلس ہیں۔ اب سوال یہ تھا کہ ان کی تدلیس کی ماہیت کیا ہے؟ جس کے پیش نظر امام صاحب نے ثوری کی سبھی روایات کا استقرا کیا اور پھر ِٖ نتیجہ نکالا کہ ثوری قلیل التدلیس ہیں، لہٰذا ان کا عنعنہ سماع پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے گا۔ مدلس روایت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔
ثالثا ً:امام بخاریؒ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ثوری ان نامزد اور دیگر متعدد شیوخ سے بھی تدلیس نہیں کرتے۔
امام بخاریؒ کے شاگرد امام مسلم ؒ کا قول اس مسئلہ میں دلیل قطعی ہے۔
6۔امام مسلمؒ کی صراحت
امام مسلمؒ رقم طراز ہیں:
إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواة الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر بہ، فحینئذ یبحثون عن سماعہ في روایتہ ویتفقدون ذلک منہ،کي تنزع عنہم علۃ التدلیس(مقدمہ صحیح مسلم:ص۲۲، طبع دارالسلام)
’’محدثین نے جن راویوں کے اپنے شیوخ سے سماع کا تتبع کیا ہے، وہ ایسے راوی ہیں جو تدلیس کی وجہ سے شہرت یافتہ ہیں۔ وہ اس وقت ان کی روایات میں صراحت ِسماع تلاش کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہوسکے۔‘‘
امام مسلمؒ کا یہ قول اس بارے میں نص صریح ہے کہ صراحت ِسماع صرف ان راویوں کی تلاش کی جائے گی جو بکثرت تدلیس کرتے ہیں اور ان کی شہرت کی وجہ ان کامدلس ہونا ہی ہے۔ گویا قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا ماسوائے مدلس (تدلیس والی) روایت کے۔
حافظ ابن رجبؒ امام مسلمؒ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس قول میں احتمال ہے کہ امام صاحب کامقصود یہ ہے کہ اس راوی کی حدیث میںتدلیس کی کثرت ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام صاحب اس قول سے مراد تدلیس کا ثبوت اور صحت لے رہے ہوں۔ اس صورت میں امام مسلمؒ کا قول امام شافعیؒ کے قول کے مترادف ہوگا۔‘‘(شرح علل الترمذي لابن رجب:۲؍۵۸۳)
حافظ ابن رجبؒ کے اس قول کے حوالے سے عرض ہے کہ ان کا ذکر کردہ پہلا احتمال امام مسلمؒ کے منہج کے عین مطابق ہے، کیونکہ تدلیس کی بنا پر راوی اسی وقت مشہور ہوگا جب وہ کثرت سے کرے گا۔ رہا ایک حدیث میں تدلیس کرنا یا ایک ہی بار تدلیس کرنا تو اس سے تدلیس میں شہرت نہیںمل سکتی۔
ان متقدمین کے علاوہ متعدد متاخرین بھی تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کرتے ہیں۔ امام حاکمؒ، امام ابونعیمؒ، امام ابوعمرو الدانیؒ، حافظ علائیؒ اور حافظ ابن حجرؒ وغیرہ کے حوالے سے ہم ’’دوسری دلیل: طبقاتی تقسیم‘‘ کے تحت عرض کرچکے ہیں۔ جبکہ حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے مزید عرض ہے:
7-حافظ ابن حجرؒ
موصوف بھی تدلیس کی کمی اور زیادتی کا اعتبار کرتے ہیں۔ جس کی تائید ان کی مدلسین کی طبقاتی تقسیم بھی کرتی ہے۔ بلکہ اُنہوں نے مقدمہ کتاب طبقات المدلسین اور النکت علی کتاب ابن الصلاح(ج۲ ص۶۳۶تا۶۴۴) میں اس کی صراحت بھی فرمائی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ یحییٰ بن ابی حیہ کلبی کے بارے میں محدثین کی جرح کی تلخیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ضعفوہ لکثرة تدلیسہ (التقریب:۸۴۸۹)
’’محدثین نے کثرتِ تدلیس کی بنا پر اسے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
اس قول سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کثرتِ تدلیس بھی باعث ِجرح ہے۔ یادرہے کہ حقیقی مدلس وہی ہوتا ہے جو تدلیس کثرت سے کرے۔یہی رائے دیگر بہت سے معاصرین کی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نشاندہی بھی کردی جائے گی۔
قارئین کرام! ان ناقدین کے اقوال سے یہ بات بخوبی سامنے آچکی ہے کہ تدلیس کا حکم لگانے سے پہلے یہ تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ راوی قلیل التدلیس تو نہیں، کیونکہ اس کی معنعن روایت قبول کی جائے گی، الا یہ کہ کسی خاص حدیث میں تدلیس کا وجود پایا جائے۔
یہ اَقوال ان لوگوں کے موقف کی ترجمانی نہیں کرتے جو ایک ہی بار کی تدلیس کی وجہ سے ہر معنعن روایت کو قابل ردّ قرار دیتے ہیں اور جو مطلق طور پر ہرمدلس کی معنعن روایت کو لائق التفات نہیں سمجھتے۔