• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الجوابات الفاضلہ فی رَدِّ تاویلاتِ فاسدہ (دوسری و آخری قسط)

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
الجوابات الفاضلہ فی رَدِّ تاویلاتِ فاسدہ

(دوسری و آخری قسط)​
الزامات اور ان کے جوابات

۱) ساقی صاحب نے لکھا:
’’جب علمائے احناف نے قادیانی کی تکفیر کی تو اسوقت محمد حسین بٹالوی اس کی وکالت کر رہا تھا اور ثناء اللہ امرتسری اس کی زیارت کا شوق لے کر قادیان جا رہا تھا۔(تاریخ مرزاص۵۲)‘‘
(الحقیقہ ، جنوری ۲۰۱۲ء ص۴۱)
الجواب:
۱۔ یہ بات سراسر غلط اور جھوٹ ہے کیونکہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے مرزا قادیانی سے اپنی پہلی ملاقات کا جو احوال لکھا ہے اس میں قادیان جانے کا واقعہ اس وقت کا ہے جب مولانا ثناء اللہ امرتسری صرف ۱۷۔ ۱۸ سال کے تھے اور مرزا قادیانی کے کفریہ دعووں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا بلکہ وہ صرف ایک معمولی مصنف کی حیثیت سے معروف تھا۔ (دیکھئے تاریخ مرزا ص۴۳، احتساب قادیانیت ص۵۳۵)
کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس دور میں علمائے احناف کیا کسی بھی فرقہ کے کسی عالم نے مرزا قادیانی کی تکفیر کی ہو۔ لہٰذا ساقی صاحب نے یہاں پر کالا جھوٹ بولتے ہوئے سخت دھوکہ دہی سے کام لیا ہے۔
۲۔ بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے مرید خاص فیض احمد گولڑوی نے لکھا ہے:
’’۱۸۹۰ء میں ۔۔۔حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے بنا بر کشف آگاہ ہو کر فرمایا تھاکہ عنقریب سرزمین ہندمیں بہت بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے۔۔۔۔حضرت حاجی صاحب کی پیشگوئی کے مطابق اگلے ہی سال یعنی ۱۸۹۱ء میں مرزا صاحب نے مناظر اسلام ، مامور اور مجددکے دعووں سے آگے قدم بڑھا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اٹھائے جانے اور نزول سے انکار کر کے ان کی موت اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان کر دیا۔‘‘
(مہر منیر ص۲۰۳)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ ۱۸۹۰ء تک خود بریلویوں کے نزدیک مرزا قادیانی کا دعویٰ صرف مناظر اسلام ، مامور اور مجدد ہونے کا تھااور اس سے پہلے یہ فتنہ کشف کا دعویٰ رکھنے والوں اور ان کے ماننے والوں پر بھی ظاہر نہ تھا۔۱۸۹۰ء تک کے زمانہ کے متعلق خود فیض احمد گولڑوی نے صاف لفظوں میں بھی لکھ رکھا ہے کہ
’’اس وقت تک مرزا قادیانی کے عقائد وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ سُنی مسلمان کے ہونے چاہئیں۔‘‘
(مہر منیرص۱۷۱)
مسیح موعود ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد مرزا قادیانی نے مشہور بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو اس کے متعلق ایک دعوت نامہ بھیجا جس کے جواب میں مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھوایا:
’’میں آپ کو مسیح موعوداور مامور من اللہ نہیں مانتا۔ آپ اپنی توجہ حسب سابق غیر مسلموں کے ساتھ مناظرات اور تبلیغ اسلام پرمرکوز رکھیں اور عنداللہ ماجورہوں۔‘‘
(مہر منیرص۲۰۶)
معلوم ہوا کہ بریلوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی مرزا قادیانی کو نہ صرف پہلے مناظرِ اسلام اور مبلغِ اسلام مانتے تھے بلکہ مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کرنے والے مرزا قادیانی کوبھی مناظر اسلام اور مبلغ اسلام بنے رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ دعویٰ کا انکار ہے لیکن اس کے لئے ان کاموں پر دعویٰ کے بعد بھی اجر کی امید رکھتے ہیں۔اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
۳۔ جہاں تک مولانا محمد حسین بٹالوی ؒ کا تعلق ہے تو وہ بھی مرزا قادیانی کو پہلے مبلغ اسلام سمجھتے تھے لیکن جیسے ہی مرزا قادیانی کے واضح گمراہانہ وکفریہ عقائد و نظریات ظاہر ہوئے تو اسے ’’عند اللہ ماجور‘‘ ماننے کی بجائے ایسی مخالفت اور تردید کی کہ خود قادیانیوں کو ماننا پڑا کہ
’’اس زمانہ میں ان سے بڑھ کر مخالفت آپ کی کسی اور نے نہ کی۔‘‘
(حیاتِ طیبہ ص۸۶ از عبدالقادر قادیانی)​
۴۔ جب تک مرزا قادیانی کے کفریہ عقائد ظاہر نہ ہوئے تھے تب تک تو ہر فرقہ میں حسن ظن کی بنا پر اس کو مبلغ اسلام اور مناظر اسلام ماننے والے موجود تھے ۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ اس کے کفریہ دعووں کے بعد کون سب سے پہلے اس فتنہ کے خلاف سرگرم ہوااور سب سے پہلے کس نے مرزا قادیانی کو کافر قرار دیا ؟ مرزا قادیانی خود لکھتا ہے:
’’اور اسی بنا پر اس عاجز کا نام بھی کافر اور ملحد اور زندیق اور دجال رکھا گیا۔ بلکہ دنیا کہ تمام کافروں اور دجالوں سے بدتر قرار دیا گیا۔ اس فتنہ اندازی کے اصل بانی مبانی ایک شیخ صاحب محمد حسین نام ہیں جو بٹالہ ضلع گورداسپورمیں رہتے ہیں ۔۔۔۔اس وجہ سے پہلے سب استفتاء کا کاغذ ہاتھ میں لے کر یہی صاحب دوڑے ۔ چنانچہ سب سے پہلے کافر اور مرتد ٹھہرانے میں میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتاء کو اپنی کفر کی شہادت سے مزین کیااور میاں نذیر حسین نے جو اس عاجز کوبلا توقف و تامل کافر ٹھہرا دیا۔‘‘
(آئینہ کمالات ِ اسلام ص ۳۰۔۳۱ ،روحانی خزائن ج۵ص۳۰۔۳۱)
جس کو ہر طرف سے جوتے پڑ چکے ہوں وہ بخوبی جانتا ہے کہ سب سے پہلے جوتا کس نے مارا تھا۔ مرزا قادیانی اپنے ان مجرموں کی نشاندہی کرتے ہوئے مزید لکھتا ہے:
’’غرض بانی استفتاء بطالوی صاحب اور اول المکفرین میاں نذیر حسین صاحب ہیں اور باقی سب ان کے پیرو ہیں۔‘‘
(حوالہ ایضاً)
جھوٹ بول بول کر عوام کو دھوکہ دیتے رہنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ مرزا قادیانی کی تکفیر کے ’’بانی مبانی‘‘ اور مرزا قادیانی کے ’’اول المکفرین‘‘ ہونے کا شرف جنہیں حاصل ہے ان کا نام تاریخ کے اوراق سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۲) ساقی بریلوی صاحب نے ایک عنوان لکھا ہے : ’’وہابیوں کی قادیانیت نوازی‘‘ اور اس عنوان کے تحت اہل حدیث کے خلاف قادیانیوں کی کتب کے حوالے پیش کر کے بھی الزام قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
الجواب:
۱۔ قادیانیوں کی کتب ان کے اپنے عقائد اور اپنے بارے میں گواہیوں کے حوالے سے تو معتبر ہو سکتی ہیں، کسی دوسری جماعت یا فرقہ کے خلاف ہرگز نہیں۔ افسوس کے رضا خانی ’’مناظر اسلام‘‘ کو اتنی چھوٹی سی اصولی بات بھی ہمیں سمجھانی پڑ رہی ہے۔
’’مرزا قادیانی کا نکاح سید نذیر حسین دہلوی نے پڑھایا‘‘ جیسی باتیں قادیانیوں کی کتب سے پیش کر کے اہل حدیث پر الزام قائم کرنا انتہا درجے کی بے اصولی ہے۔ کیا بریلوی حضرات ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم ان پر الزام لگانے کے لئے قادیانیوں یا دیوبندیوں کی کتب کے حوالے پیش کریں؟
۲۔ قادیانی کتب کے حوالے سے بھی’’ مرزا قادیانی کا نکاح سید نذیر حسین دہلوی نے پڑھایا‘‘ جیسی باتیں پیش کرنے والے یہ بھی مدّنظر رکھیں کہ کہیں یہ واقعہ اس دور کا تو نہیں جب بریلویوں کے نزدیک بھی مرزا قادیانی ایک ’’سُنی مسلمان‘‘ تھا۔
۳۔ غیر اہل حدیث مئورخ ابو القاسم رفیق دلاوری نے بھی مرزا قادیانی کے اس نکاح کے وقت کے بارے میں لکھ رکھا ہے کہ
’’علمائے امت نے ہنوز مرزا صاحب کے کفر و ارتداد کا فتویٰ صادر نہیں کیا تھا ۔‘‘
(رئیس قادیاںص۱۵۴)
فیض احمد گولڑوی بریلوی نے جناب ابو القاسم رفیق دلاوری کو مشہور نقاد اور محقق تسلیم کر رکھا ہے۔ (دیکھئے مہر منیر ص۲۵۷)
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۳) ساقی صاحب نے ’’مرزا صاحب کے معمولات‘‘ کے تحت مرزا قادیانی کے ان فقہی معمولات کو پیش کیا ہے جس میں اس کا عمل اہل حدیث کے مئوقف سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پر سینے پر ہاتھ باندھنا، ایک وتر پڑھنا، تروایح کی آٹھ رکعات کا قائل ہونا، جرابوں پر مسح اور فاتحہ خلف الامام کا واجب ہونا وغیرہ۔ ان معمولات کو پیش کر کے ساقی بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ یہ تمام معمولات غیر مقلدین وہابی حضرات کے ہیں۔‘‘
(الحقیقہ ص۴۸)
الجواب:
۱۔ قادیانیوں کی مجلس شوریٰ کے اتفاق سے قائم ’’فقہ کمیٹی‘‘ کی تیار کردہ اور مرزائیوں کے چوتھے خلیفہ مرزا طاہر کی منظوری سے شائع شدہ ’’جماعتِ احمدیہ کے فقہی مذہب کی مستند دستاویز‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے:
’’فقہ احمدیہ میں عام مدون فقہ حنفی سے بعض امور میں اختلاف کیا گیا ہے۔ یہ اختلاف فقہ حنفی کے اصولوں سے باہر نہیں۔ پس جس طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ سے آپ کے بعض شاگردوں کا اختلاف فقہ حنفی کے دائرہ سے ان کو باہر نہیں لے جاتا اور ان کے اس اختلاف کوفقہ حنفی کی مخالفت نہیں سمجھا جاتا اسی طرح فقہ احمدیہ کا بعض امور میں اختلاف فقہ حنفی کے مخالف قرار نہیں دیا جا سکتاخصوصاً جبکہ یہ اختلاف انہی اصولوں پر مبنی ہے جنہیں فقہاء حنفی تسلیم کرتے ہیںکیونکہ فقہ احمدیہ کے وہی ماخذ ہیں جو فقہ حنفی کے ہیں۔‘‘
(فقہ احمدیہ ج۲ص۱۵، ادارۃ المصنفین ربوہ)
ساقی صاحب مرزا قادیانی کے چند فقہی و فروعی معمولات پیش کر کے اہل حدیث کے خلاف جو دھوکہ دینا چاہ رہے تھے مرزائیوں کے اس متفقہ اصول نے اس کا ’’لک‘‘ توڑ دیا ہے۔ مرزائیوں کے اس واضح اصول کو پڑھنے کے بعد بھی ان کے فقہ حنفی سے اختلافی چند فقہی و فروعی معاملات کو پیش کر کے اہل حدیث کے خلاف تلبیسات میں مشغول ’’حضرات‘‘ کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے۔
۲۔ مزیدعرض ہے کہ ساقی صاحب نے جتنے بھی معمولات پیش کئے ہیں صحابہ کرام ؓ اور آئمہ محدثین کی ایک جماعت سے بھی ثابت ہیں جس کا اقرار خود حنفی کتب میں موجود ہے۔ ساقی صاحب نے اہل حدیث کی دشمنی میں یہ تو لکھ دیا کہ ’’یہ تمام معمولات غیر مقلدین وہابی حضرات کے ہیں‘‘، اس فضول اور بے بنیاد بات پر اگر کوئی الزام قائم ہوتا ہے تو اس بات کا جواب دیں کہ ’’یہ تمام معمولات صحابہ کرام ؓ اور آئمہ محدثین کی ایک جماعت کے ہیں‘‘۔ کیا اس سے ان کی قادیانیت نوازی ثابت ہو گی(نعوذ باللہ)؟ یا مرزا قادیانی کا ان مبارک ہستیوں کے مسلک پر ہونا ثابت ہو جائے گا؟ یہ بریلوی ’’مناظر اسلام‘‘ کا حال ہے کہ اہل حدیث کی مخالفت ودشمنی میں ایسے بکواس اعتراضات کرنے سے بھی باز نہیں آتے کہ جس کی زد میں صحابہ کرامؓ اور آئمہ محدثین تک کی ہستیاں آ جائیں۔
۳۔ دیوبندیوں کا فقہی عمل کیا ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی تکفیر و تضلیل جو خود بریلوی حضرات نے کر رکھی ہے کیاان کے فقہی معمولات کی بنا پر فقہ حنفی کے تمام مقلدین کے لئے بھی موزوں ہے؟اگر یہ بات لغو اور فضول ہے تو ایسی باتوں کی بنیاد پر اہل حدیث کو طعن کرنے کا مقصد سوائے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے کیا ہے؟
۴۔ مرزا قادیانی کی جن باتوں پر علمائے امت کی جانب سے کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا ہے ان باتوں میں کہیں بھی یہ فقہی معمولات ہرگز بنیاد نہیں کہ ان معمولات کی وجہ سے مرزا کافر ہے کیونکہ یہ معمولات تو صحابہ کرام ؓ اور آئمہ محدثینؒ کی ایک جماعت سے ثابت ہیں۔مرزا قادیانی کے جن عقائدو نظریات پر کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا تھا ان کی بنیاد بریلوی کتب میں موجود ہے جس کا مکمل ثبوت اور وضاحت ہمارے اس مضمون کی پہلی قسط میں باتفصیل گزر چکی ہے۔ ان اصولی باتوں کو پسِ پشت ڈال کر بے بنیاد اور بے اصولی باتوں کے سہارے الزامات عائد کرنا بریلوی کتب میں موجود کفریات پر ہرگز پردہ نہیں ڈال سکتا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۴) ساقی صاحب بریلوی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ کے دو فتاویٰ پیش کئے ہیں کہ جن کے مطابق ہر کلمہ گو کے پیچھے نماز جائز ہے چاہے مرزائی ہو یا شیعہ اور یہ کہ مرزائی کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز ادا ہو جائے گی۔ان دو فتاویٰ کو پیش کر کے ساقی صاحب نے لکھا:
’’تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کافر اور گستاخ کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی یہ کہہ رہے ہیں مرزائیوں اور شیعہ کے پیچھے نماز پڑھ لو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزائی اور شیعہ حضرات کو وہابی مسلمان سمجھتے ہیں۔‘‘
(الحقیقہ ص۴۸)
الجواب:
۱۔ اہل حدیث کے نزدیک جس کی بدعت مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز ہرگز جائز نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتاب ’’بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم‘‘۔ لہٰذا ساقی صاحب کا یہ الزام باطل و مردود ہے۔
۲۔ ثناء اللہ امرتسری ؒ نے مرزائیوں کے پیچھے نماز ہو جانے کا جو فتویٰ دیا تھا اس کا مفصل رَدّ علمائے اہل حدیث نے ہی کر رکھا ہے۔ دیکھئے فتاویٰ علمائے اہل حدیث(ج۲ص۱۸۹) بحوالہ حدیث اور اہل تقلید(ج۲ص۱۰۱)
نیز سید نذیر حسین دہلوی ، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبدالجبار عمر پوری ، حافظ عبداللہ روپڑی اور مولانا عبدالجبار غزنوی وغیرہ تمام اہل حدیث علماء نے مرزائیوں کے پیچھے نماز نہ ہونے کا فتویٰ دے رکھا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مولانا داود ارشد حفظہ اللہ کی کتاب ’’حدیث اور اہل تقلید (ج۲ص۹۹۔۱۰۱)‘‘
۳۔ ساقی بریلوی صاحب نے اپنی ایک کتاب میں جہمیہ اور معتزلہ کی تکفیر اور ان کے پیچھے نماز نہ ہونے کے اقوال با تائید پیش کر رکھے ہیں۔ دیکھئے بد مذہب کے پیچھے نماز کا حکم (ص۵۴۔۵۵)
مگر بریلوی حضرات کے ’’خاتمۃ المحققین‘‘ ابن عابدین شامی نے جہمیہ و معتزلہ کے بارے میں لکھا: ’’انہم فساق عصاۃ ضلال و یصلی خلفہم ۔۔۔‘‘ یعنی ان جہمیہ و معتزلہ کی گمراہی کے باوجود ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی۔ (رد المختار ج۹ص۴۳۲، دارعالم الکتب الریاض)
جس طرح اپنے خاتمۃ المحققین شامی کا یہ فتویٰ بریلوی حضرات کے نزدیک مرجوح اور قابل رَدّ ہے اسی طرح مولانا ثناء اللہ امرتسری کا شیعہ یا مرزائیوں کے پیچھے نماز ہو جانے کایہ فتویٰ اہل حدیث کے نزدیک کتاب و سنت کے دلائل اور دیگر اہل حدیث علماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح اورقابل ِ رَدّ ہے۔
۴۔ ساقی بریلوی صاحب نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کا جو فتویٰ مرزائیوں کے پیچھے نماز ہو جانے سے متعلق نقل کیا ہے وہ ۱۹۱۶ء کا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بہت بعد مولانا امرتسری نے مرزائیوں کے پیچھے نماز کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا تھا۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:
’’کچھ شک نہیں مرزا ایک دہریہ معلوم ہوتا ہے، مفتری علی اللہ ہے، اس کے الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خدا پر بھی ایمان نہیں، ۔۔۔۔ پس اس کی امامت جائز نہیں، ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری‘‘
(فتویٰ شریعت غرا نمبر۱ مندرجہ پاک و ہند کا اولین متفقہ فتویٰ ص۱۸۶ بحوالہ حدیث اور اہل تقلیدج۲ص۹۹)
۲۳ جنوری ۱۹۴۲ء کے اپنے ایک اور فتویٰ میں فرمایا:
’’مرزا قادیان کو ان کے دعویٰ الہام اور مہدویت و مسیحیت میں سچا جاننے والاانہیں کے حکم میں ہے۔۔۔۔جو ان کو دعویٰ الہام میں سچا سمجھے وہ ان ہی جیسا ہے ۔ لہٰذا وہ امام بنائے جانے کے لائق نہیں۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ ج۱ ص۳۹۳)
لہٰذا خود مولانا ثناء اللہ امرتسری کے نزدیک بھی مرزائی نہ تو امام بنائے جانے کے لائق ہیں اور نہ ان کی امامت کسی بھی صورت جائز ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۵) ساقی صاحب نے اہل حدیث پر الزام قائم کرتے ہوئے نواب وحید الزماں کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ جس میں رام چندر، لچھمن،کشن، زرتشت، بدھا، سقراط وغیرہ ہندوستانی، فارسی، یونانی و چینی رہنمائوں کے متعلق نبی ہونے کی بات کی گئی ہے۔ (الحقیقہ ص۴۴)
الجواب:
۱۔ نواب صاحب کے بارے میں تفصیلی طور پر راقم الحروف کا مضمون ’’نواب وحید الزماں حیدرآبادی نقشبندی، ایک تحقیقی جائزہ‘‘ ماہنامہ ضرب ِحق سرگودھا (جنوری ۲۰۱۲ء شمارہ نمبر۲۱) میں شائع ہو چکا ہے۔ جس میں نواب صاحب کا سابقہ حنفی، پھر نیم غیر مقلد ، آخر میں تفضیلی شیعہ اور تاوفات نقشبندی ہونا بادلائل بیان کر دیا گیا ہے۔ نیز نواب صاحب کو اہل حدیث باور کروانے والوں کے شبہات کا شافی جواب بھی دے دیا گیا ہے، الحمد للہ۔ لہٰذا نواب صاحب کی کوئی بھی عبارت اہل حدیث پر بطور حجت و الزام ہرگز پیش نہیں کی جا سکتی ۔
۲۔ احمد رضا خان بریلوی نے صوفی بزرگ مرزا مظہر جانجاناں کے ایک مکتوب کے حوالے سے لکھا:
’’اس میں ہندوئوں کے دین کو محض بر بنائے ظن و تخمین دین سماوی گمان کرنے کی کوشش فرمائی ہے بلکہ معارف و مکاشفات و علوم عقلی و نقلی میں ان کا یدِطولیٰ مانا ہے بلکہ ان کی بت پرستی کو شرک سے منزہ اور صوفیہ کرام کے تصور ِ برزخ کے مثل مانا۔۔۔۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۱۴ص۶۵۷)
بریلوی اعلیٰ حضرت کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مرزا مظہر جانجاناں کے نزدیک بھی ہندوئوں کا دین سماوی و آسمانی ہے اور ہندوئوں کو علم و عرفان میں بھی کمال حاصل ہے نیز ان کی بت پرستی بھی شرک سے پاک ہے، سبحان اللہ۔
انہیں نظریات کے حامل مرزا مظہر جانجاناں کو احمد رضا خان بریلوی نے اپنے فتاویٰ رضویہ میں کئی جگہ بطور سند و دلیل پیش کر رکھا ہے۔ تفصیل پھر سہی فی الحال بریلوی اعلیٰ حضرت کی یہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’اس کا جواب مرزا مظہر جانجاناں شہید سے لے لیجئے جنہیں شاہ ولی اللہ دہلوی اپنے مکتوبات میں نفسِ ذکیہ ، قیم طریقہ احمدیہ، داعی سنت نبویہ، متحلی بانواع فضائل و فواضل لکھتے ہیں۔۔۔۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ ج۷ص۶۰۲۔۶۰۳)
اہل حدیث پر جھوٹے الزام قائم کرنے والے رضا خانی ’’حضرات‘‘کبھی ہندوئوں کے صریح مشرکانہ مذہب کی اتنی وکالت کرنے والے اپنے ان ’’شہید‘‘ بزرگوں کے متعلق بھی کچھ فرمائیں گے یا صرف لوگوں کو دھوکہ دینا ہی مقصود ہے؟
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۶) ساقی بریلوی صاحب نے شاہ اسماعیل دہلوی سے منسوب متنازعہ کتاب ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی عبارت بھی اہل حدیث پر بطور الزام پیش کر رکھی ہے۔ دیکھئے الحقیقہ (ص۴۴)
الجواب:
۱۔ ’’صراطِ مستقیم‘‘ نامی کتاب سخت گمراہ کن کفریہ متصوفانہ نظریات سے بھری کتاب ہے اور اس کی کسی بھی عبارت سے اہل حدیث پر کوئی الزام قائم نہیں کیا جا سکتا ۔
اعتراض: اس کتاب کی اجمالی تعریف کئی اہل حدیث سے بھی پیش کی جا سکتی ہے۔
جواب: کسی اہل حدیث عالم کا لاعلمی، سنی سنائی، محض شاہ اسماعیل دہلوی سے منسوب ہونے کی بنا پر یا کسی تاویل کی بنا پر اس گمراہ کن کتاب کو پسند کرنا ہرگز معتبر نہیں۔ اگر ان باتوں پر الزام قائم کرنا درست ہے تو ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ نامی کتاب کو پسند کرنے والے اور اس کے صاحبِ ملفوظات غوث علی شاہ پانی پتی کو ’’ولی‘‘ ماننے والے بریلوی علماء و مشائخ بھی موجود ہیں۔ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
۲۔ بریلوی شیخ الحدیث و مناظر اشرف سیالوی نے کہا:
’’مگر جب مولوی اسمعیل دہلوی صاحب (تقویۃ الایمان) جو آخری تالیف و تصنیف تھی جس کے تھوڑا عرصہ بعد وہ راہی ملک فنا ہو گئے۔‘‘
(مناظرہ جھنگ ص۲۵۸)​
شاہ اسماعیل دہلوی کے آخری دور کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں واضح طور پر ان نظریات کو کفریہ و شرکیہ اور خلافِ اسلام قرار دیا گیا ہے جو ’’صراط مستقیم‘‘ کے دورِ تصوف میں بیان ہوئے ہیں۔
۳۔ اپنے صریح کفریہ و گستاخانہ نظریات کے حامل بزرگوں کے لئے ’’شطح، سکر و غلبہ حال‘‘ کے بلا دلیل و مردود بہانے بنانے والے بریلوی حضرات کس منہ سے ’’صراط مستقیم‘‘ کی عبارات پر اعتراض کرتے ہیں؟ بریلوی حضرات کو چاہئے کہ یا تو اپنے اس جھوٹے بہانے سے توبہ کر لیں یا ’’صراط مستقیم‘‘ کی عبارات کو بھی ’’شطح، سکر و غلبہ حال‘‘ کا نتیجہ سمجھ کر اپنے گلے کا ہار بنا لیں۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۷) غلام مرتضیٰ ساقی بریلوی صاحب نے ’’امام الوہابیہ اسماعیل قتیل دہلوی کا عقیدہ انکار ختم نبوت‘‘ کے عنوان کے تحت’’ تقویۃ الایمان‘‘ کی ایک عبارت یوں پیش کی ہے:
’’اس شہنشاہ (اللہ تعالیٰ) کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی ولی جن فرشتہ جبریل اور محمد پیدا کر ڈالے(تقویۃ الایمان ص۳۱ مطبوعہ دہلی)‘‘۔
پھر اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ساقی صاحب نے لکھا:
’’یعنی حضور ﷺ کے بعد ایک نہیں کڑوڑوں نبی آنے کا امکان ہے (نعوذ باللہ)۔‘‘
(الحقیقہ ص۴۸)
الجواب:
اس عبارت میں صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ اگر چاہے تو کروڑوں نبی و ولی ایک آن میں پیدا کر دے ،اس میں ہرگز یہ بات موجود نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرے گا بھی کہ کروڑوں یا کوئی ایک بھی نبی اب پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اس بیان کو ختم نبوت کا انکار بنانا سوائے خبث باطنی کے کچھ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی اور قدرت و اختیارات کاملہ کے ایسے اظہار کی نظیر کئی آیات و احادیث نیز علماء کی عبارات میں موجودہے۔ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ جلیل القدر انبیاء علیھم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور اگر وہ شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہو جاتے۔‘‘
(سورۃ الانعام:۸۸)
مفتی احمد یار خان نعیمی نے اس آیت کے حاشیہ میں لکھا:
’’یہاں شرک سے مراد کفر ہے یعنی اگر نبیوں نے کفر کیا ہوتا تو ان کے نیک اعمال برباد ہو جاتے۔۔۔‘‘
(نورالعرفان، حاشیہ سورۃ الانعام آیت ۸۸)
کیا بریلوی اپنے گھٹیا علم الکلام کے مطابق اس آیت اور اپنے حکیم الامت کی عبارت کایہ مفہوم نکالیں گے کہ (نعوذباللہ) انبیاء کرام کے کفر وشرک کرنے اور ان کے اعمال برباد ہونے کا بھی امکان ہے؟ استغفر اللہ۔ اگر یہاں وقوع کا بیان نہیں بلکہ صرف شرک کی سنگینی بیان کی گئی ہے تو شاہ اسماعیل دہلوی کی عبارت میں بھی صرف اللہ کی قدرت و اختیار کا بیان ہے نہ کے وقوع کا۔
۲۔ ایک حدیث قدسی میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اگر تمھارے اگلے اور پچھلے انسان و جنات ، سب اس شخص کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے تو میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گااور اگر تمھارے اگلے اور پچھلے انسان و جنات ،سب اس شخص کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ فاجر و گناہگار ہے تو میری سلطنت میں کچھ کم نہ ہو گا۔‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب الاستغفارو التوبہ:۲۳۲۶)
ملا علی قاری نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے سب سے زیادہ متقی شخص کی تفسیر نبی ﷺ سے اور سب سے زیادہ فاجر و گناہگار شخص کی تفسیر شیطان سے کی ہے۔
(مرقاۃالمفاتیح 157/5، بلفظ "۔۔۔و لھذا فسر بقلب نبینا صلی اللہ علیہ وسلم و قلب الاشقیٰ بقلب ابلیس")
کیا بریلوی حضرات ملا علی قاری کا بھی یہی عقیدہ بیان کریں گے کہ ان کے نزدیک تمام اگلے پچھلے انسان و جنات کا نبی ﷺ جیسا بننے کا امکان ہے؟
۳۔ فخر الدین رازی ایک آیت (فرقان:۵۱) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’لانھا تدل علی القدرۃ علی ان یبعث فی کل قریۃ نذیراً مثل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔‘‘ یعنی یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے کہ ہر بستی میں محمد ﷺ کی مثل ڈرانے والا بھیجے۔
(تفسیر کبیر99/24)
کیا بریلوی حضرات اللہ کی قدرت کے اس اظہار پر رازی پر بھی یہ بہتان لگانے کے لئے تیار ہیں کہ ان کے نزدیک نبی ﷺ کے مثل نبی آنے کا امکان ہے۔(نعوذ باللہ)
۴۔ شیخ عبدالحق دہلوی کی مشہور اور بریلویوں کے ہاں مستندکتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ میں شیخ شرف الدین احمدیحییٰ منیری کے حالات میں درج ہے کہ
’’سلطان العارفین خواجہ بایزید فرماتے ہیں کہ اگر تمھیں عیسیٰ کی روحانیت اور موسیٰ کی خدا سے ہمکلامی اور خلیل جیسی خلت عطا کر دی جائے تو اس سے زائد کا مطالبہ کرو کیونکہ اللہ کے خزانوں میں اس سے بھی زیادہ عطائیں موجود ہیں۔‘‘
(اخبار الاخیار ص۲۶۵، اکبر بک سیلرز لاہور)
بریلوی حضرات کیا یہاں بھی یہ کہنا پسند کریں گے کہ ان بزرگوں کے ہاں سیدنا عیسیٰ ، سیدنا موسیٰ اور سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیھم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کے فضائل بھی حاصل ہونے کا امکان ہے بلکہ ان انبیاء سے بڑھ کر بھی(نعوذ باللہ )۔
۵۔ بریلویوں کے نزدیک انتہائی مقرب ولی و بزرگ خواجہ فرید الدین گنج شکر نے نبی ﷺ سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر قیامت کے دن مجھے اور میرے بھائی عیسیٰ کو دوزخ میں ڈال دیا جائے تو کون کہہ سکتا ہے کہ ایسا نہ کرو،کیونکہ تمام جہان اس (اللہ تعالیٰ) کی ملکیت ہے۔‘‘
(اسرار الاولیاء ص۹۲، اکبر بک سیلرز لاہور)
شیخ عبدالحق دہلوی نے خواجہ فرید الدین کے داماد خواجہ بدر الدین اسحاق کے تذکرہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ "رسالہ ’’اسرار الاولیاء‘‘ آپ کی تصنیف ہے جس میں آپ نے شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کو جمع کیا ہے۔" (اخبار الاخیارص۱۵۶)
اسی طرح بریلویوں کے ہاں انتہائی مستند کتاب ’’فوائد الفواد‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’اس بات پر بندے نے عرض کی کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کل قیامت کے دن حق تعالیٰ مجھے اوربھائی عیسیٰ کو دوزخ میں لے جائے تو یہ (عین) عدل ہو گا۔ ‘‘ خواجہ نظام الدین اولیاء نے جواب میں کہا: ’’ہاں!‘‘
(ٖفوائد الفواد، جلد۳ مجلس ۱۳ ص۲۶۱، اکبر بک سیلرز لاہور)
بریلوی علم الکلام کی رُو سے تو یہ عبارات حد درجہ زیادہ گستاخی و توہین قرار پاتی ہیں کہ اللہ کی قدرت ، شان صمدیت اور عدل کے اظہار کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم ﷺ کو (نعوذباللہ) دوزخ میں ڈالے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ختم نبوت کے حقیقی منکر وہ ہیں جو محمد ﷺ بننے کے دعویدار ہیں۔ بریلویوں کے ’’برہان الواصلین‘‘ سلطان باہو نے کہا:
’’اس قسم کا فقیر (شریعت) میں قدم بر قدم محمد صلی اللہ علیہ وسلم چلتا ہے وہ دم با دم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو جاتا ہے وہ نفس با نفس قلب با قلب، روح با روح، نور با نور اور حضور با حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو جاتا ہے۔‘‘
(عقلِ بیدارص۱۵۸، اردو ترجمہ، شبیر برادرز لاہور)
سلطان باہو کی اس کتاب کا یہ ترجمہ ’’سجادہ نشین دربار باہو سلطان‘‘ کی زیرِ سرپرستی شائع شدہ ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
۸) علماء و جماعتوں کے باہمی اختلافات و الزامات
ساقی صاحب نے کچھ اہل حدیث علماء کے باہمی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات و الزامات کو پوری اہل حدیث جماعت کے خلاف الزام بنا کر بھی پیش کیا ہے۔ نیز بریلوی علماء کی کئی دیگرکتابوں میں بھی علماء کے ایسے باہمی اختلافات کو اہل حدیث کے خلاف الزامات بنا کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے۔
دیکھئے البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (ص۵۷۔۶۱)، براہین صادق (ص۴۲۹۔۴۳۶)، وہابیت اور مرزائیت (ص۴۴۔۴۶،۵۲۔۵۸)
حقیقت یہ ہے کہ الزام کوئی اپنا لگائے یا پرایا اس کے لئے مستند پختہ ثبوت ہونا ضروری ہے ورنہ محض معاصرانہ ومخالفانہ الزامات کی دلائل کے میدان میں کوئی وقعت نہیں۔کسی بھی جماعت یا فرقہ کے لوگوں کا ایک دوسرے پر معاصرانہ چپقلش، غلط فہمی، عدم برداشت اور سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر بلادلیل و بلا ثبوت کفر و فسق کے الزامات لگانا قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک دوسرے پر محض دعووں کی صورت میں ایسے الزامات کی لمبی فہرست ہر جماعت و فرقہ سے پیش کی جا سکتی ہے۔رضاخانی و بریلوی جماعتوں میں بھی ایسے الزامات کا ایک لمبا سلسلہ موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ بریلویوں کے ’’ضیغم اہلسنت‘‘ حسن علی رضوی کا بریلوی جماعت ’’دعوتِ اسلامی‘‘ اور اس کے امیر الیاس قادری پر ’’مسائل دینیہ میں من مانی، خود پسندی، خود نمائی، نت نئی بدعتیں ایجاد کرنے اور جماعت کو متنازعہ بنانے ‘‘ کے الزامات۔ (دیکھئے ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ اکتوبر ۲۰۰۹ء ص۲۳۔۲۴)
۲۔ بریلویوں کے ’’پاسبانِ مسلک رضا‘‘ ابو داود صادق رضوی کا ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے امیر الیاس قادری پر ’’بدعت،قول و فعل کا تضاد،جاہ طلبی، علماء کی تحقیر،خوفِ خدا سے عاری،من مانی وخود پسندی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگانے، من گھڑت خوابوں کے ذریعہ اپنے سارے خاندان کے تعلقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دکھانے اور متنازعہ ہونے‘‘ کے سنگین الزامات۔ (دیکھئے مکتوب مولانا ابو دائودبنام مولانا ابوالبلال امیر دعوت اسلامی،ناشر: ادارہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ)
۳۔ بھارت کے کئی مشہور اور نامور رضا خانی علماء کی جانب سے ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کو مساجد سے نکال دینے سے لے کر اس کے امیر الیاس قادری کے خلاف شدید تکفیر و تضلیل کے مہر لگے تصدیق شدہ فتاویٰ اور آڈیو بیانات کے لئے دیکھئے
۴۔ بریلوی شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی کے خلاف بریلویوں کے ’’محقق دوراں‘‘ شاہ حسین گردیزی کی جانب سے ’’تکفیر بازی،انبیاء کی کلی مغفرت کا قائل نہ ہونے ،مغلوب الغضب، کافر گر ، اتہام و الزام عائد کرنے ، علماء اہلسنت کی تکفیرجبکہ اہل دیوبند کو مسلمان قرار دینے ‘‘ کے الزامات۔ (دیکھئے الذنب فی القرآن ص۲۵،۲۱۷، ۵۰۳،۵۳۰۔۵۳۱)
۵۔ بریلوی حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کے صاحبزادے ،جانشین اور اعتماد یافتہ مفتی اقتدار احمد نعیمی کا غلام رسول سعیدی کے خلاف ’’کج روی،گمراہ کن بات لکھنے،گستاخی رسول کا دروازہ کھولنے ،باطل عقیدے کو بچانے، ضلالت و گمراہی اور گستاخی رسول اللہ (ﷺ) پر ڈھٹائی‘‘ کے سنگین الزامات لگانا۔ (دیکھئے العطایہ الاحمدیہ فی فتاویٰ نعیمیہ ج۲ص۳۴۰،۳۴۳،۳۴۶)
۶۔ بریلوی پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کا مشہور بریلوی مناظر و شیخ الحدیث اشرف سیالوی کو یہودی ’’کعب بن اشرف قُرظی سے چار قدم آگے‘‘ اور شرکِ صریح کا مرتکب قرار دینا۔ (دیکھئے لطمۃ الغیب علےٰ ازالۃ الریب سرورق ،ص۸۲)
۷۔ بریلوی مفتی عبدالمجید خان سعیدی رضوی کی طرف سے اشرف سیالوی بریلوی کے خلاف ’’نفی شانِ رسالت کے ارتکاب، منکرین شانِ رسالت کی چستی والی روش کو اپنانے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور بے ادبی‘‘ کے الزامات۔ (دیکھئے تنبیہات بجواب تحقیقات ص۳۶،۴۲،۶۶)
۸۔ اسی طرح بریلوی شیخ الحدیث اشرف سیالوی کے شاگرد آفتاب آفاقی بریلوی نے اپنے استاد کی کتاب کے ابتدائیہ میں کثیر بریلوی محققین و علماء بشمول عطاء محمد بندیالوی، عبدالحکیم شرف قادری، عرفان شاہ مشہدی، مفتی منیب الرحمٰن، مفتی غلام مصطفی رضوی، حنیف قریشی کے تسلیم شدہ و مستند عالم و پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کو ’’شاہ اسماعیل دہلوی۔۔۔۔والا کردار بلکہ اس کے بھی دو قدم آگے‘‘ قرار دینا۔ ( دیکھئے ازالۃ الریب عن مقالۃ فتوح الغیب ص۲)
۹۔ پاکستان اور بھارت کے کئی ایک بریلوی مفتیان و علماء کا بریلوی ’’ضیاء الامت‘‘ پیر کرم شاہ الازہری کے خلاف مہر لگے تصدیق شدہ تضلیلی و تکفیری فتاویٰ کا مجموعہ بھی بریلوی حضرات کی جانب سے شائع ہو چکا ہے۔ (دیکھئے تنقیدی جائزہ مع اہم فتاویٰ، انجمن فکر رضالاہورص۱۷۰۔۲۴۰)
اسی طرح بریلویوں کے دو ماہی مجلہ کلمہ حق لاہور میں اعلانیہ لکھا گیا کہ ’’علماء اہلسنت نے پیر کرم شاہ کو کافر قرار دیا ہے‘‘۔ (شمارہ نمبر۷،ص۹۶)
۱۰۔ بریلوی عالم صاحبزادہ ابولخیرمحمد زبیر(حیدرآباد) کے نزدیک: ’’مسلکِ رضا والے معاذاللہ ثم معاذ اللہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو نبیوں، ولیوںبلکہ خود حضور الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر سمجھتے ہیں۔
ایضاً یہ فرقہ مرزائیوں ، خارجیوں اور پرویزیوں کی طرح خطرناک ہے۔‘‘
(معارفِ رضاکراچی، سالنامہ۲۰۰۹ء ص۱۶۰)
نیز دیکھئے احمد البیان فی رضاءِ کنز الایمان از عبدالمجید خان سعیدی رضوی (ص۳۶۔۳۷)
ساقی صاحب سے گزارش ہے کہ یا تو اپنے بریلوی علماء و عوام پر اپنوں کے ہی ان تمام الزامات کو پوری رضاخانیت پر تسلیم کرتے ہوئے ایسے مسلک سے توبہ کر لیں یا پھر ایسے بچکانہ اعتراضات سے پرہیز کریں جن کے جواب کی صورت میں آپ چُلو بھر پانی ڈھونڈتے رہیں۔
(ختم شد)​
 
Top