• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحاد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جب یہ الحادی نظریات اہل مغرب سے نکل کر مشرقی قوموں میں آئے تو اشرافیہ کے جس طبقے نے انہیں قبول کیا، بدقسمتی سے وہ اخلاقی اعتبار سے نہایت پست تھا۔جب یہ طبقہ اور اس کے زیر اثر عوام الناس عملی اعتبار سے الحاد کی طرف مائل ہوئے تو انہوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر وحشت اور درندگی کی بدترین داستانیں رقم کیں۔ اگر ہم پاکستان بننے کے بعد ان مظالم کا جائزہ لیں جو خود مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے بچ کر آنے والے اپنے مسلمان بھائیوں پر کئے تو ہمیں صحیح معنوں میں الحاد کے اثرات کا اندازہ ہوگا۔ دور جدید میں اس کا اندازہ محض روزانہ اخبار پڑھنے ہی سے ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ملحدین میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، وہ تو مسلمانوں نے پوری طرح اختیار کرلیں لیکن ان کی خوبیوں کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہ آیا۔
الحاد کے معاشرتی اثرات میں ایک بڑا واضح اثر خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ ہیں۔ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی نے بتائے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی بے راہ روی کا خاتمہ کیا ہے۔ جب ایک شخص انہی کا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کونسی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پھر ماں ، بہن اور بیٹی کا تقدس پامال کرنے بھی کیا حرج رہ جاتا ہے؟ اس کے بعد اگر نئی نئی لذتوں کی تلاش میں مرد مردوں کے پاس اور عورتیں عورتوں کے پاس جائیں تو اس میں کیا قباحت رہ جاتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الحاد کا یہ وہ اثرہے جسے مغربی معاشروں میں پوری طرح فروغ حاصل ہوا۔ دور غلامی میں خوش قسمتی سے مسلم دنیا الحاد کے ان اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی لیکن بیسویں صدی کے ربع آخر میں میڈیا کے فروغ سے اب یہ اثرات بھی ہمارے معاشروں میں تیزی سے سرایت کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں یہ فری سیکس پھیل رہا ہے وہاں وہاں اس کے نتیجے میں ایک طرف تو ایڈز سمیت بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کا خاتمہ بھی ہورہا ہے جس کے نتیجے میں کوئی نہ تو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی بوڑھوں کی خبر گیری کرنے کو۔ کڈز ہومز میں پلنے والے یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اسی بے راہ روی کا شکار ہوکر یہ ذمہ داریاں قبول نہیں کرتے اور مکافات عمل کے نتیجے میں یہ جب بوڑھے ہوتے ہیں تو پھر ان کی خبر گیری کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اچھے اولڈ ہومز میں داخلہ بھی اسی کو ملتا ہے جس کی اولاد کچھ فرمانبردار ہو اور اس اولڈ ہوم کا خرچ اٹھا سکے۔ان کی زندگی اب کڈز ہوم سے شروع ہوکر اولڈ ہوم پر ختم ہو جاتی ہے۔
معاشرتی اور معاشی اعتبار سے الحاد نے مسلم معاشروں کو جس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ دنیا پرستی کا فروغ ہے۔ دنیا پرستی کا فلسفہ مغربی اور مسلم دونوں علاقوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ جب انسان عملی اعتبار سے آخرت کی زندگی کا انکار کردے یعنی اس کے تقاضوں کو مکمل طور پر فراموش کردے تو پھر دنیاوی زندگی کی اس کی سرگرمیوں کا مطمح نظر بن جاتی ہے۔ مغربی معاشروں پر تو کسی تبصرے کی ضرورت نہیں لیکن ہمارے اپنے معاشروں میں جس طرح دنیا پرستی کی بھیڑ چال شروع ہو چکی ہے، وہ ہماری پستی کی انتہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک طر ف تو ایسے لوگ ہیں جن کی اخلاقی تربیت بہت ناقص ہے اور وہ ہر طرح کے جرائم میں مبتلا ہیں لیکن ان کے برعکس ایسے لوگ جن کی اخلاقی قدریں کافی حد تک قائم ہیں، دنیا پرستی کے مرض میں کس حد تک مبتلا ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ صرف ان کی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگ جن کی اخلاقی سطح معاشرے کے عام افراد سے بلند ہے، روزانہ صبح اٹھتے ہیں اور اپنے کاروبار یا دفاتر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو دفتری اوقات کے فوراً بعد واپس آجاتے ہوں۔ زیادہ سے زیادہ ترقی کے لئے لیٹ سٹنگز کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور عام طور پر لوگ آٹھ نو بجے تک دفتر سے اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد گھر واپس آکر کھانا کھانے ، ٹی وی دیکھنے اور اہل خانہ سے کچھ گفتگو کرنے میں گیارہ بارہ بڑے آرام سے بج جاتے ہیں۔ سوتے سوتے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔ بالعموم صبح کی نما ز چھوڑ کر لوگ سات بجے تک بیدار ہوتے ہیں اور پھر دفتر کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔چھٹی کا دن عموماً ہفتے بھر کی نیند پوری کرنے اور گھریلو مسائل میں نکل جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کو راضی کرنے ، دین سیکھنے، اپنی اخلاقی حالت بلند کرنے اور دین کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کتنا وقت نکال سکتے ہیں؟
افسوس ہے کہ اس ترقی کو حاصل کرنے کے لئے جو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سال تک کام دے گی، ہم لامحدود سالوں پر محیط آخرت کی زندگی کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی اپنے کاروبار میں بیس روپے منافع کمانے کی دھن اربوں روپے کے سرمائے کا نقصان کرلے یا پھر دریا کی تہہ میں پڑے ہوئے ایک روپے کے سکے کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپے کی دولت پھینک کر دریا میں چھلانگ لگا دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الحاد کی سائنسی اساسات کا انہدام

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول کا زمانہ الحاد کے عروج کا دورہے۔ اسی دور میں وہ سائنسی تحقیقات ہوئیں جنہوں نے الحاد ی نظریات کی توجیہ پیش کی۔ اسی دور میں الحادی نظریات اور نظام ہائے حیات کو دنیا بھر میں فروغ ملا، اسی عرصے کے دوران دنیا بھر کے انسانوں نے اپنی زندگیوں میں مختلف درجوں پر الحاد کو قبول کیا۔ کوئی الحاد کو نظریاتی طور پر بھی مان کر خالص ملحد اور دہریہ بنا اور کسی نے صرف اس کے عملی اثرات کو قبول کرنے پر اکتفا کیا۔ بیسویں صدی کے نصف آخر سے الحاد کا زوال شروع ہوا۔
دور قدیم کے ملحدین کے پاس الحادکی کوئی ٹھوس منطقی دلیل نہیں ہوا کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں کچھ ایسے سائنسی نظریات وجودمیں آئے جنہوں نے الحاد کو کسی حد تک سپورٹ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کسی کی حیثیت بھی سائنسی قانون (Law) یا مسلمہ کی نہیں تھی۔ یہ سب کے سب ابھی نظریے (Theory) کے درجے پر تھے۔ ان نظریات کا ایک مختصر جائزہ ہم پیش کرچکے ہیں، یہاں ہم ہارون یحییٰ کے مضمون The Fall of Atheism سے ان سائنسی تحقیقات کا اجمالاً ذکر کریں گے جنہوں نے الحاد کی ان سائنسی بنیادوں کو منہدم کیا۔ ان نظریات میں ڈارون کا نظریہ ارتقاء، فرائڈ کا نظریہ جنس، مارکس اور اینجلز کے معاشی نظریات اور ڈرخم کے عمرانی نظریات شامل ہیں۔جو صاحب ان کی تفصیل جاننا چاہیں، وہ اس آرٹیکل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ یہ آرٹیکل ان کی ویب سائٹ پر بھی میسر ہے۔ ان سائنسی اساسات کے انہدام پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹرک گلائن کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے:
پچھلے دو عشروں کی ریسرچ نے جدید سیکولر اور ملحد مفکرین کی پچھلی نسل کے تمام مفروضات اور پیش گوئیوں کو گرا کر رکھ دیا ہے جو انہوں نے خدا کے وجود کے بارے میں قائم کئے تھے۔ جدید (ملحد) مفکرین نے یہ فرض کر رکھا تھا کہ سائنس پر مزید تحقیقات اس کائنات کو بے ترتیب (Random) اور میکانکی ثابت کردیں گی؛ لیکن اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو غیر متوقع طور پر ایسا منظم نظام ثابت کیا ہے جو کہ ایک ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ ماڈرن (ملحد) ماہرین نفسیات یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مذہب محض ایک دماغی خلل یا نفسیاتی بیماری ثابت ہو جائے گا لیکن انسان کا مذہب کے ساتھ تعلق مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں دماغی صحت کا اعلیٰ ترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو ابھی صرف چند لوگ ہی تسلیم کر رہے ہیں لیکن یہ بات اب واضح ہو جانی چاہئے کہ مذہب اور سائنس میں ایک صدی کی بحث کے بعد اب پانسہ مذہب کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ڈارون کے نظریے کے فروغ کے دور میں ، ملحدین اور متشککین جیسے ہکسلے اور رسل یہ کہہ سکتے تھے کہ زندگی اتفاقی طور پر وجود میں آئی اور کائنات محض ایک اتفاق ہی سے بنی۔ اب بھی بہت سے سائنس دان اور دانشور اسی نقطہ نظر کو مانتے ہیں لیکن وہ اس کے دفاع میں اب بے تکی باتیں کرنے پر ہی مجبور ہیں۔ آج حقائق کے مضبوط اعداد وشمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے موجود ہونے کا نظریہ ہی درست ہے۔
(Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 1997, pp.19-20, 53)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

بگ بینگ کا نظریہ
اب تک دنیا میں یہ مانا جارہا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس نظریے کو جدید دنیا میں جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے پیش کیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔
بیسویں صدی میں فلکیات (Astronomy) کے میدان میں جدید علمی تحقیقات نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ 1929 میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ اس سے سائنس دانوں نے یہ اخذ کیا کہ ماضی میں کسی وقت یہ کہکشائیں اکٹھی تھیں۔ اس وقت یہ کائنات توانائی کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھیں جو ایک بہت عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں مادے کی صور ت اختیار کرگیا۔ملحد مفکرین نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کردیا لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے اس نظریے کو تقویت دی۔ 1960 کے عشرے میں دو سائنس دانوں ارنو پینزیاز اور رابرٹ ولسن نے دھماکے کے نتیجے میں بننے والی Cosmic Background Radiation کو دریافت کیا۔ اس مشاہدے کی تصدیق 1990 میں Cosmic Background Explorer Satellite کی ذریعے کی گئی۔ اس صورتحال میں انتھونی فلیو جو کہ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر ہیں، کہتے ہیں:
اعتراف روح کے لئے اچھی چیز ہے۔ میں اس اعتراف سے آغاز کرتا ہوں کہ علم فلکیات میں اس اتفاق رائے سے ایک ملحد کے نظریات پر زد پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات دان اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو سینٹ تھامس فلسفیانہ طور پر ثابت نہ کرسکے یعنی یہ کہ اس کائنات کی کوئی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ اطمینان رکھتے تھے کہ اس کائنات کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام------ اب یہ کہنا بگ بینگ تھیوری کے سامنے آسان نہیں ۔
(Henry Margenau, Roy Abraham Vargesse, Cosmos, Bios, Theos, La Salle IL: Open Court Publishing, 1992, p.241 )
جان میڈکس جو کہ ایک ملحد ہیں اور Nature کے نام سے رسالہ نکالتے ہیں نے اس نظریے کو اس بنیاد پر رد کر دیا کہ اس سے خدا کو ماننے والوں کو حجت مل جائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ نظریہ دس سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا لیکن مزید تحقیقات نے اس نظریے کو اور تقویت دی۔ برطانوی ملحد اور ماہر طبیعات ایچ پی لیپسن لکھتے ہیں:
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ قابل قبول تشریح یہی ہے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ملحدین کی زبان بند کردے گی جیسا کہ میرے ساتھ ہوا لیکن ہمیں کسی چیز کو صرف اس بنیاد پر رد نہیں کردینا چاہئے کہ ہم اسے پسند نہیں کرتے اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ اسے ثابت کررہاہو۔
(H. P. Lipson, "A Physicist Looks at Evolution", Physics Bulletin, vol. 138, 1980, p. 138)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کائنات کا انٹیلی جنٹ ڈیزائن
کائنات کے متعلق اہل الحاد کا ایک اور نظریہ بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ یہ کائنات بے ترتیب (Random) ہے۔ اس میں موجود مادے، اجرام فلکی اور جن قوانین کے تحت یہ چل رہے ہیں کا کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ محض اتفاق ہی ہے۔ 1970 کے عشرے میں سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ کائنات میں ایسا توازن (Balance) پایا جاتا ہے جس میں اگر ذرا سا بھی ہیر پھیر ہو تو اس میں انسانی زندگی ممکن ہی نہ ہوسکے۔ تمام طبیعی، کیمیائی اور حیاتیاتی قوانین، کشش ثقل اور مقناطیسی قوتیں، ایٹمز اور مالیکیولز کی ساخت، عناصر اور مرکبات کی موجودگی یہ سب کا سب بالکل اسی طرح اس کائنات میں موجود ہے جیسا کہ انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں نے اس غیر معمولی ڈیزائن کو Anthropic Principle کا نام دیا۔ ان کے مطابق اگر بگ بینگ کے وقت دھماکے کی شدت، مادے کے پھیلنے کی رفتا رمیں ذرا سا بھی فرق پڑ جاتا تو یا تو مادہ دوبارہ جڑ جاتا یا پھر اتنا زیادہ پھیل جاتا کہ موجودہ حالت میں کسی طور پر آہی نہ سکتا ، اس طرح انسانی زندگی کبھی ممکن نہ ہوتی۔
زمین کاسائز، سورج کا سائز، سورج اور زمین کا فاصلہ، پانی کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات، سورج کی شعاعوں کی ویو لینتھ، زمین کی فضا میں موجود گیسیں اور کشش ثقل سب کی سب اسی تناسب میں موجود ہیں جو انسانی زندگی کے لئے ہونا چاہئے تھا۔ اگر اس میں سے کسی میں 1/1039 کے برابر بھی فرق پڑ جاتا تو انسانی زندگی ممکن نہ ہوتی۔ کیا ایسا کسی مافوق الفطرت ہستی کی مداخلت کے بغیر ممکن تھا۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا کہ ہوا میں ریت ، بجری اور سیمنٹ کو یونہی اچھا ل دیا جائے اور وہ جب زمین پر بیٹھے تو ایک خوبصورت بنگلے کی صورت اختیار کرجائے جو انسانی رہائش کے لئے موزوں ترین ہو یا پھر روشنائی کے قطروں کو اچھال دیا جائے اور جب وہ نیچے گریں تو غالب کی غزل لکھی ہوئی ہو۔ شاید ایسا صرف کارٹون فلموں ہی میں ممکن ہے لیکن حقیقی دنیا میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک منظم نتیجہ حاصل کرنے کے لئے کسی برتر ہستی کی موجودگی ضروری ہوا کرتی ہے۔ ان حقائق نے بہت سے سائنس دانوں جیسے پال ڈیوس، ڈبلیو پریس، جارج گرین اسٹائن اور مالیکیولر بائیولوجسٹ مائیکل ڈینٹن کو کسی برتر ہستی کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ڈارون کے نظریے کی تردید
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ الحاد کو سب سے زیادہ سپورٹ ڈارون کے نظریہ ارتقا سے ملی ہے۔ ڈارون کے مطابق تمام جاندار اشیا بے جان مادے سے ایک ارتقائی عمل کے تحت بنی ہیں۔ سب سے پہلے ایک خلیے پر مشتمل سادہ جاندار وجود میں آئے اور پھر یہ لاکھوں سال میں نسل در نسل ارتقا پذیر ہو کر اعلیٰ جانوروں کی شکل اختیار کرتے گئے۔بیسویں صدی میں پیلی انٹالوجی کے میدان میں قدیم ترین فوسلز پر ریسرچ سے نظریہ ارتقا کسی طرح بھی ثابت نہ ہوسکا۔یہ ریسرچ محض دو جانوروں کے درمیان ارتقا ئی کڑیوں کو جوڑنے میں ناکام رہی۔
اسی طرح جانوروں کی نسلوں میں کئی عشروں تک تبدیلیوں کے مطالعے سے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی بھی نوع (Specie) میں تبدیلیاں مخصوص جینیاتی حدود (Genetic Boundries) سے باہر نہیں جاتیں۔ انسانی آنکھ سے لیکر پرندوں کے پروں تک کسی بھی جاندار کے جسم کا ہر حصہ اتنیsophisticated technology سے بنا ہوتا ہے کہ اس کا تقابل کسی بھی جدید مشینری سے کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق ہی سے اندھے قوانین کے تحت بن گیا۔ ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں اب مغربی سائنس دانوں میں Intelligent Design کا نظریہ فروغ پا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

سگمنڈ فرائڈ کے نظریات کی تردید
نفسیات کے میدان میں الحاد کی اساسات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر قائم تھیں جو کہ آسٹریا کے ماہر نفسیات تھے۔ فرائڈ مذہب کو محض ایک نفسیاتی بیماری قرار دیتے تھے او ران کا خیال یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جیسے جیسے ترقی کرے گا، یہ مرض دور ہوجائے گا۔ ماہرین نفسیات میں الحاد بہت تیزی سے پھیلا۔ 1972 میں امریکن سائکالوجی ایسوسی ایشن کے ممبرز کے مابین ایک سروے کے مطابق ماہرین نفسیات میں صرف 1.1% ایسے تھے جو کسی مذہب پر یقین رکھتے ہوں۔ انہی ماہرین نفسیات نے طویل عرصے تک لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے قائم کی، وہ پیٹرک گلائن کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:
نفسیات کے میدان میں پچیس سالہ ریسرچ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فرائڈ اور ان کے پیروکاروں کے خیال کے برعکس ، مذہب پر ایمان ذہنی صحت اور خوشی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ ریسرچ پر ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب پر ایمان اور اس پر عمل انسان کو بہت سے غیر صحت مندانہ رویوں جیسے خودکشی، منشیات کے استعمال، طلاق، ڈپریشن اور شادی کے بعد جنسی عدم تسکین سے بچاتا ہے۔ مختصراً، مشاہداتی ڈیٹا پہلے سے فرض کردہ سائیکو تھیراپک اجماع سے بالکل مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔
Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World ,Prima Publishing, California, 1997, pp.60-61)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کمیونزم کا زوال
معاشیات کے میدان میں الحاد کی سب سے بڑی شکست کمیونز م کا زوال ہے۔ کمیونزم جو دنیا میں الحاد کا سب سے بڑا داعی تھا، بالآخر اپنے دو بنیادی مراکز روس اور چین میں دم توڑ گیا۔ لینن نے اپنے تئیں خدا کو سوویت یونین سے نکا ل دیا تھا لیکن خدا نے اس کے غرور کا خاتمہ کر ہی دیا۔ کمیونزم کے آخری دور میں روسی عوام اور آخری صدر گوربا چوف کو خدا کی ضرورت بری طرح محسوس ہوئی۔ سیاسیات کے باب میں الحاد کی بنیاد پر بننے والے نظریات فاشزم وغیرہ بھی دم توڑ گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معاشریات یا عمرانیات (Sociology) کے اعتبار سے الحاد اہل مغرب کو سکون فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بے سکونی اس قدر بڑھی کہ وہاں ہیپی تحریک نے فروغ پایا جو دنیا کی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر منشیات کے نشے میں مست پڑے رہتے اور سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتے حتیٰ کہ بعض تو اسی حالت میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔
یہ چند مثالیں ہیں جو بیسویں صدی کی جدید سائنسی تحقیقات کی نتیجے میں الحادی نظریات کی تردید میں آپ کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان میں سے اگر صرف کائنات کے توازن اور اس کے عین انسانی ضروریات کے مطابق ہونے ہی کو لیا جائے تو خدا کے وجود کا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس میں بعض چیزیں تو اتنی بدیہی ہیں کہ ان کوجاننے کے لئے کسی سائنسی تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ دیہات میں رہنے والے عام انسان بھی ان کو سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں تفصیلی سائنسی دلائل کی بجائے بالعموم ایسی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے جو ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں۔
 
Top