• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحالّ المرتحل … شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری سند یہ ہے: محمد بن بشار، مسلم بن ابراہیم سے، وہ صالح مری سے، وہ قتادہ سے، وہ زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریمﷺسے روایت کرتے ہیں… الخ۔ اس طریق میں ابن عباس رحمہ اللہ کاذکر نہیں ہے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ صحیح تر ہے۔
الغرض سند کا سلسلہ چاہے جس طریقہ سے ہو، اس حدیث کا مدار ’صالح مری‘ ہی پر ہے اور اگرچہ یہ صالح شخص ہیں، لیکن محدثین کرام کے ہاں ضعیف ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہیں۔امام نسائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صالح مری متروک الحدیث ہے۔‘‘(عنایاتِ رحمانی :۳؍۴۸۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب:
اس حدیث کا مدار ’صالح مری‘ ہی پر نہیں ہے،بلکہ اس کو ’زیدبن اسلم‘ نے بھی روایت کیاہے اور امام دانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کوتفصیل کے ساتھ درج کیاہے۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کی روایت کچھ یوں ہے کہ اللہ کے رسولﷺسے پوچھا گیاکہ اعمال میں سے افضل ترین عمل کونسا ہے؟ توآپ نے جواب دیا:الحالّ المرتحل
امام ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’میں نے ابوعفان مدنی رحمہ اللہ سے سنا، وہ نبی کریمﷺسے نقل کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپﷺیہ بھی اِرشاد فرماتے تھے کہ ھذا ـ أی الحالّ المرتحل ـ خاتم القرآن و فاتحہ۔ ‘‘ (جامع البیان:ص۷۹۶)
امام دانی رحمہ اللہ نے اس کو سلیمان بن سعید کسائی رحمہ اللہ کے طریق سے بھی روایت کیا ہے:
’’ سلیمان رحمہ اللہ کہتے تھے کہ ہمیں حصیب بن ناصح رحمہ اللہ نے اور ان کو امام قتادہ رحمہ اللہ نے اور امام قتادہ رحمہ اللہ کو زرارہ بن اوفی رحمہ اللہ نے اور ان کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ أَنَّ رَجُلاً قَامَ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ﷺ أَیُّ الأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اﷲ تَعَالیٰ، قَالَ الحَالُّ المُرْتَحِلُ،فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲ ﷺ! وَمَا الْحَالٌّ المُرْتَحِلُ،قَالَ صَاحِبُ الْقُرْآنِ یَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِہٖ إِلَی آخِرِہٖ وَمِنْ ٰاخِرِہٖ إِلٰی أَوَّلِہٖ کُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ‘‘(جامع البیان:۱۱)
پس یہ دعویٰ ثابت ہوگیا کہ یہ حدیث صرف ’صالح مری‘ ہی سے منقول نہیں، بلکہ یہ ان کے علاوہ کئی اور حضرات سے بھی منقول و مروی ہے اور جب ضعیف حدیث کئی طرق سے منقول ہو تو وہ حسن ہوجاتی ہے اوریہ روایت بھی ایسی ہی ہے۔ (عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شبہ نمبر(٢)
حدیث: الحالّ المرتحل کی تفسیر میں اختلاف ہے ،اس لئے یہ حجت نہیں بن سکتی۔ قراء کرام کے قول پر قرآن کریم کے ختم کرنے اور پھر شروع کردینے کے معنی میں ہے اور بعض فقہاء کی رائے پر اس سے لگاتارجہاد میں مشغول رہنااور اس کا ترک نہ کرنا مراد ہے۔ پس ایسا مجاہد جو ایک سفر جہاد سے واپس آنے کے کچھ دیر ٹھہرنے کے بعدپھر دوسرے سفر جہاد کے لئے سفر کے لیے کوچ کرجائے وہ اس حدث کا مصداق ہے۔
اس شبہ کے بیان میں امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب غریب الحدیث کے آخرمیں، حدیث: أیّ الأعمال أفضل،قال:الحالّ المرتحل،قیل:وما الحالّ المرتحل؟ قال:الخاتم المفتتح کی توضیح میں فرماتے ہیں:
’’حالّ:قرآن کریم کا ختم کرنے والا ہے۔ اس کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس نے سفر کیا اور چلتا رہا حتیٰ کہ جب منزل پر پہنچ گیا، تو وہاں اتر گیا۔ اسی طرح قاری بھی قرآن کریم پڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے آخر میں پہنچ جاتاہے توٹھہرجاتاہے۔ اور المرتحل: قرآن کریم کا شروع کرنے والاہے۔ اس کو اس شخص کے مرتبہ میں قرار دیا گیا ہے، جو سفر کا ارادہ کرے اور پھر چل کر اس کو شروع بھی کردے۔ ‘‘(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام قتیبہ رحمہ اللہ مزید رقم طراز ہیں:
’’کبھی ان کلمات کا اطلاق الخاتم المفتتح یعنی جہاد کے ختم اور شروع کردینے والے پر بھی ہوتا ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ ایک مجاہد پہلے ایک جنگ میں مشغول ہو، پھر اس کے ختم ہوتے ہی دوسری جنگ شروع کردے۔ الحالّ المرتحل بھی اسی طرح ہے، یعنی یہ بھی دوسری جنگ کو پہلی سے متصل کردیتا ہے۔‘‘(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ کا کلام اس پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ اس حدیث کی تفسیر میں علمائے متقدمین کا اختلاف ہے، بلکہ اس سے توزیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوّلاً توانہوں نے وہی قاری والی تفسیر بیان کردی جو حدیث میں مذکور تھی، پھر آخر میں اپنی طرف سے حدیث کی تشریح کے طور پرجہاد والی تفسیر بھی بیان کردی اور یہ بات ان کی تقریر سے پوری طرح واضح ہے۔ (عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شبہ نمبر (٣)
مسلسل جہاد والی تفسیر بالکل واضح اور صراحۃً لفظ کے مطابق ہے،کیونکہ اس تقدیر پر حِلّ اور ارْتِحَال دونوں اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہیں اور جو معنی قراء کرام نے بتائے ہیں وہ مجازی ہیں، جن میں قرآن کریم کے ختم کرنے والے کو مقیم سے اور شروع کرنے والے کو مسافر سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اس اعتراض کی وضاحت حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں:
’’جہاد والی تفسیر ظاہر ہے۔ اس میں لفظ اپنے حقیقی معنی پررہتا ہے،کیونکہ جہاد میں قیام و سفر دونوں حقیقتاً پائے جاتے ہیں۔‘‘(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب
یہ کہنا کہ مسلسل جہاد والی تفسیر لفظ سے بالکل ظاہر اور واضح ہے، محل نظر ہے کیونکہ الحالّ المرتحل کا لفظ حقیقت ِشرعیہ کے اعتبار سے مسلسل جہاد کے مراد ہونے پردلالت نہیں کرتا، کیونکہ اس صورت میں ضروری تھا کہ خود شارع علیہ السلام اس کی وضاحت فرماتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ چنانچہ یہ کلمات حج و عمرہ اور تجارت وجہاد وغیرہ کے ہر سفر اور قیام کو شامل ہیں۔
رہا یہ کہ اس کی جو تفسیرقراء کرام نے کی ہے، وہ اس کے مجازی معنی ہیں، چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تاویل قراء ہی نے کی ہے، حالانکہ حقیقت ِ صورتحال اس سے مختلف ہے۔ آپ ذیل میں پیش کی گئی روایات پر غور فرمائیں اور دیکھیں کہ کیااَمر واقعہ میں ایسا ہی ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ابھی گزرا ہے کہ حضورﷺسے دریافت کیاگیا کہ یارسول اﷲﷺ أی الأعمال أحبّ إلی اﷲ … الخ
(٢) امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تشریح قراء کے موافق ہے، جیسا کہ ابھی اوپر گذرا۔
(٣) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو قراء ۃ کے ابواب میں روایت کیا ہے اوریہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے بھی ہاں یہی معنی مراد ہیں۔
(٤) امام بیہقی رحمہ اللہ اور ان کے سوا ابوعبداللہ حلیمی رحمہ اللہ جیسے اَئمہ بھی اس کو قراء ۃ ِقرآن کے باب میں لائے ہیں اور اس کوختم کے آداب میں شمار کیا ہے۔(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۴، قرآن مجید کے ختم کا مستحب طریقہ :۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) حافظ ابوالشیخ اصفہانی رحمہ اللہ اس حدیث کو فضائل ِاعمال میں لائے ہیں اورمسند الفردوس میں بھی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:’’خیرالأعمالِ الحِلُّ وَالرِّحْلَۃُ افتتاحُ القُرآنِ وخَتْمُہٗ‘‘ (عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۳)
پس یہ دعویٰ ثابت ہوگیا کہ یہ تفسیر قراء کریم ہی سے منقول نہیں ہے، بلکہ دیگر کئی آئمہ بھی ان کے ہمراہ ہیں۔
علامہ جعبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ امام ابوالحسن بن غلبون رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا ہے کہ نبی کریمﷺسے دریافت کیا گیاکہ کون سا عمل سب اعمال سے افضل ہے؟ تو آپﷺنے فرمایا: الحالّ المرتحل۔ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! الحالّ المرتحل کیا ہے،؟ تو آپ نے جواب دیا کہ قرآن کریم کاشروع کرنا اور اس کا ختم کرنا۔ صاحب قرآن اس کے شروع سے آخر تک چلا جاتاہے اور آخر سے پھر شروع کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔‘‘(شرح جعبریبحوالہ عنایات:ص۴۸۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام اہوازی رحمہ اللہ نے بھی یہ روایت اسی طرح نقل فرمائی ہے، لیکن وہ درمیان میں یا رسول اللہﷺ!کے الفاظ نہیں لائے۔اس حدیث کے صحیح ہونے کی تقدیر پراگر تفسیر متن میں شامل ہے، تب تو یہی مطلب متعین ہے ورنہ محتمل ہے اور حقیقت پر محمول ہونے اور ثُمَّ جہادٌ فِی سَبِیلِہٖ والی حدیث کے موافق ہونے کے سبب جہادوالی تفسیر راجح ہے اور ختم کی عرفی حقیقت کے سبب قاری والی تفسیر راجح ہے اور دونوں میں تفریق کی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۳)
 
Top