• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الحالّ المرتحل … شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شبہ نمبر(٤)
جو مضمون صحیح اَحادیث میں ضبط کیا گیاہے وہ اس کے ماسوا ہے، یعنی صحیح حدیثوں میں الحالّ المرتحل کے بجائے دوسرے اَعمال کو سب سے افضل بتایا ہے، چنانچہ یہ روایت اگر اپنی سند کے اعتبار سے صحیح ہو بھی تومعلول یا شاذ تو ضرور ہے۔ جن روایات سے اس روایت کا ٹکراؤ ہے وہ روایتیں یہ ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) آپﷺسے دریافت کیاگیاکہ کون ساعمل سب سے افضل ہے؟آپﷺنے فرمایا:اللہ پر ایمان لانا، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر مقبول حج۔
(٢) بعض روایات میں افضل ترین عمل کی تشریح میں آپﷺنے فرمایا کہ نمازکو اس کے وقت پرپڑھنا،پھر ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنا، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
(٣) آپﷺنے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’علیک بالصوم فإنہ لامثلَ لہ‘‘۔ روزہ کی پابندی مضبوطی سے کرو کیونکہ ریا سے دور ہونے میں کوئی عمل بھی اس کے مثل نہیں ہے۔
(٤) آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’واعلموا أن خیر أعمالکم الصلوٰۃ‘‘ جان لو کہ تمہارے اَعمال میں سے سب سے بہتر عمل نماز ہے۔(عنایاتِ رحمانی:۳؍۴۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب
حدیث: الحالّ المرتحل کی افضلیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی، کیونکہ بعض وقت کسی شے کو افضل کہا جاتاہے اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی افضل چیزوں میں سے ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، جہاد، حج، عمل الحالّ المرتحل وغیرہ کا مجموعہ اعمال کے اس طبقہ میں شامل ہے، جو سب طبقوں سے اعلیٰ ہے۔ (عنایات :۳؍۴۸۳، ’بتصرف‘)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شبہ نمبر (٥)
محدثین کرام نے اس تفسیر کو حدیث میں مدرج کرکے شامل کیاہے اور ممکن ہے کہ یہ تفسیر کسی راوی کی طرف سے ہو۔
اس شبہ کو حافظ ابوشامہ رحمہ اللہ یوں ذکر فرماتے ہیں کہ وہ تفسیر جس کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے بیان کیاہے، ممکن ہے کہ حدیث میں بعض راویوں کے کلام سے داخل ہوگئی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جامع ترمذی میں بھی تفسیرکے بغیر الحالّ المرتحل ہی آیا ہے اور گویا سوال کرنے والے بھی راوی ہی ہیں، جن میں سے ایک نے دوسرے سے سوال کیا، پھر اس نے جواب میں وہ تفسیر بتادی جو اس کی سمجھ میں آئی۔ (عنایاتِ رحمانی: ۳؍۴۸۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب
محقق ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے علم کی حد تک موصوف رحمہ اللہ کی طرح کسی نے بھی حدیث میں اس تاویل کے مدرج ہونے کی تصریح نہیں کی، بلکہ اس حدیث کے ناقلین دو طرح کے ہیں:
(١) وہ جنہوں نے تصریح کی ہے کہ یہ تفسیر خود نبی کریمﷺنے بیان فرمائی ہے، جیساکہ اکثر روایات میں اسی طرح ہے۔
(٢) وہ جنہوں نے حدیث کے ایک حصہ کے نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور جس حصہ میں تفسیر ہے، اس کو بیان نہیں کیا۔ نیز دونوں روایتوں میں منافات بھی نہیں ہے۔
پس جس روایت میں تفسیر ہے، اس کا مطلب بھی وہی لیں گے جو اس روایت کا ہے جس میں تفسیر نہیں ہے اور جب معنی میں خلل نہ آئے تو حدیث کے بعض حصہ کا روایت کرنا بھی بلاشک درست ہے۔ اس میں کسی کا بھی خلاف نہیں ہے اور اس سے دوسری روایت میں ادراج لازم نہیں آتا۔ نیز اس اختلاف کی انتہا یہیں تک تو ہے کہ بہ نسبت دوسری روایت کے تفسیر والی حدیث میں کچھ زیادتی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہے۔‘‘ (عنایاتِ رحمانی: ۳؍۴۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موصوف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ہم نے جو روایات، شواہد اورتوابع کے طور پر بیان کی ہیں، وہ سب اس حدیث کی قوت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ یہ حدیث ترقی کرکے ضعیف ہونے کے درجہ سے نکل گئی ہے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک روایت دوسری کو تقویت دے رہی ہے اور پہلی روایت کے لیے تائید کا باعث ہے۔ حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ذریعہ امام اعمش رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ شیوخ اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ قرآن کریم کے ختم کرلینے کے بعد اس کے شروع سے بھی چند آیات پڑھ لیں۔یہ روایت واضح دلیل ہے اس پر کہ اس بارے میں سلف کا مذہب اور قراء کرام کا پسند کیاہوا عمل بلاشک صحیح ہے۔ ‘‘(عنایاتِ رحمانی: ۳؍۴۸۵)
نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس کو حسن فرمایا ہے اوراس عمل کو سنت قرار دیا ہے۔ اس سے بھی اس کے ثبوت کی تائید ہوتی ہے۔ (عنایاتِ رحمانی: ۳؍۴۸۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رہی یہ بات کہ امام احمد رحمہ اللہ سے ان کے شاگرد ابوطالب رحمہ اللہ نے پوچھا کہ کیا قاری’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘پڑھنے کے بعد سورۃ البقرہ کی ابتداء سے بھی کچھ پڑھے؟تو انہوں نے فرمایا:نہ پڑھے۔ ابو طالب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گویا امام موصوف رحمہ اللہ نے ختم قرآن کو کسی اور حصہ کی قراء ۃ کے ساتھ ملانے کو پسند نہیں کیا۔ تو اس سلسلہ میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے عدم پسندیدگی بعض وجوہ سے کی ہو گی، جن میں سے دو وجوہ یہ ہوسکتی ہیں:
(١) انہوں نے عدم پسندیدگی اس لئے فرمائی کہ کوئی اس مستحب عمل کو لازم نہ سمجھ لے۔
(٢) ممکن ہے کہ اس بارے میں موصوف کو کوئی اثر نہ ملا ہو، جس کو وہ اختیار کرلیتے۔ (عنایاتِ رحمانی: ۳؍۴۸۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قارئین تصحیح فرمالیں

قراء ات نمبر (حصہ اوّل) کے صفحہ نمبر ۳۱۷ پر ڈاکٹرعبدالعزیز القاری﷾ کے مضمون: ’قراء ات قرآنیہ میں اختلاف کی حکمتیں اور فوائد‘ میں تقریباً آدھا صفحہ کی عبارت غلطی سے حذف ہوگئی، چنانچہ قارئین مذکورہ صفحہ کی آٹھویں سطر کے بعد ذیل کی عبارت کا اضافہ کرلیں:
’’۳) تبدیلی لفظ سے تبدیلی معنی بھی ہو، لیکن ایک اعتبار سے معنی میں تضاد نہیں ہوتا،مثلا ً
وظَنُّوا أنَّھُمْ قَد کُذِبُوا میں کُذِبُوْا کو ذال کی تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ پڑھا گیاہے۔ تشدید کے ساتھ پڑھنے کا معنی یہ ہوگا کہ رسولوں نے اس بات کایقین کرلیاکہ ان کی قوم نے انہیں جھٹلا دیا، جبکہ تخفیف والی قراء ت کا معنی ہوگا کہ قوم والوں نے خیال کیاکہ نبیوں کایہ کہنا کہ اگر ہم ان کی نبوت کوجھٹلادیں گے تو ہم عذاب سے دوچار کئے جائیں گے، جھوٹ پرمبنی ہے۔
پہلی قراء ت میں ظن بمعنی یقین ہوگا، اس صورت میں ظَنُّوْا میں جمع کی ضمیر رسولوں کے لئے اور کذبوا کی ضمیر جمع قوم والوں کے لئے ہوگی اور دوسری قراء ت ، جس میں ظن بمعنی یقین نہیں، میں پہلی ضمیر سے مراد قوم اور دوسری سے مراد رسول ہیں۔ (حجۃ القراء ات: ۷۷، الکشف: ۱؍۲۵،۲۶)‘‘

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top