آخری بات جو جناب ابو طالب نے فرمائی وہ یہ تھی کہ
"میں عبد المطلب کے دین پر ہوں "
اب اگر آپ نے یہ ثابت کرنا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا دین ابراھیمی پر نہ تھے
یہ بات ہم آپکے باقر مجلسی کی بات سے ثابت کرتے ہیں جو انھوں نے اوپر ابن ابی الحدید سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب کو کفر پر سمجھنے والے کہتے ہیں
مات علی دین قومہ ویرون فی ذلک حدیثا مشھورا
ذرا فی ذلک پر غور کریں کہ اس اسم اشارہ کا مصداق کیا چیز ہے
اس سے مراد کافر ہونے کی دلیل ہے یعنی کافر ہونے کے ثبوت میں یہ حدیثیں ہیں یعنی باقر مجلسی کو ان احادیث سے کفر پر دلالت پر کوئی اعتراض نہیں- اب انہیں دلائل میں لکھا ہے
وروی انہ قال انا علی دین الاشیاخ و قیل انہ قال انا علی دین عبد المطلب وقیل غیر ذلک
یعنی دین عبد المطلب سے مراد انکے بڑوں کا دین اور انکی قوم کا دین ہے جیسے کہا مات علی دین قومہ
دوسرا اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے پر انکا مندرجہ ذیل الفاظ کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ قبول نہیں کیا گیا
لو لا ان تقول العرب ان ابا طالب جزع عند الموت لاقررت بھا عینک
یعنی اس میں لفظ بھا میں ھا کی ضمیر اس پر دلالت کر رہی ہے کہ انھو نے کلمۃ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کیں
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی
اور ایسی طرح کی روایت صحیح بخاری میں بھی بیان ہوئی
یعنی اللہ تعالیٰ جناب ابو طالب کی مدد کرتے ہوئے ان کے عذاب میں تخفیف کردے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے
اصل آیت ایسے ہے
اولئک الذین اشتروا الحیوۃالدنیا بالاخرۃ فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون
پیچھے بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو اوس اور خزرج کی لڑائی میں دنیاوی فائدے کے لئے آپس میں بھی لڑائی اور قیدی بناتے تھے حالانکہ اللہ نے اسکو حرام ٹھرایا تھا پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ ان سے عذاب کم نہیں ہو گا
اب بہرام صاحب کی بات کی طرف آتے ہیں کہ اس آیت میں عذاب میں تخفیف کا انکار ہے مگر ابو طالب کے عذاب میں تخفیف ہو رہی ہے
تو یہ وہی تلبسوا الحق بالباطل والی بات ہے وضاحت یہ ہے
1۔اگر العذاب کا لام عھد کے لئے ہے (خارجی یا ذھنی) تو یہود کے عذاب یا ان جیسے کرتوت والوں کی تخفیف کی بات ہو گی جس کا پہلے خارجی یا ذھنی وجود ہو گا اب اگر شان نزول سے ہٹ کر سب پر لاگو کریں تو اسکا جواب نیچے ہے
2۔اگر العذاب کا لام جنسی ہے اور پھر استغراق کے لئے ہے تو ابو طالب پر لاگو کر سکتے ہیں مگر اسکے لئے استغراق ایک جیسے عذاب کا مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ سب کو ایک جیسا عذاب تو ہو نہیں سکتا- پس جب ایک جیسا عذاب مراد نہیں تو جو عذاب ابو طالب کے لئے انکی زندگی کے تمام امور کو دیکھنے کے بعد اللہ نے لکھا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اس میں تخفیف نہ ہو گی تو آیت اور حدیث میں اختلاف کونسا
دوسرا تفسیر میں تخفیف کے مختلف معنی آئے ہیں مثلا کم نہ ہونا یا ایک ساعۃ کے لئے بھی منقطع نہ ہونا-
تیسرا اسی طرح کی آیت اور جگہ آئی ہے
فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون الا الذین تابوا--------
تو اب جو یہاں اس تخفیف میں تخصیص ہو رہی ہے تو کیا اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے اسی طرح حدیث سے بھی تو تخصیص ہو سکتی ہے
بخاری و ترمذی کی غالبا حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کوفہ والوں نے مچھر کے بارے ایک فتوی پوچھا تو جواب ملا کہ مچھر کی اتنی فکر اور جن کو تم نے کربلا میں شہید کیا اس کی فکر ہی نہیں
بھائیو یہاں لوگ دال کے کالا ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور جن کا کپڑوں، گاڑیوں (شاہد کرتوت بھی) سمیت سب کچھ ہی کالا ہے اسکی فکر کون کرے گا