• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرد الشیعہ الرافضہ ایمان ابو طالب

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آخری بات جو جناب ابو طالب نے فرمائی وہ یہ تھی کہ
"میں عبد المطلب کے دین پر ہوں "
اب اگر آپ نے یہ ثابت کرنا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا دین ابراھیمی پر نہ تھے اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی

اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے
عنِ العباسِ بنِ عبدِالمطلبِ ؛ أنه قال : يا رسولَ اللهِ ! هل نفعتَ أبا طالبٍ بشيءٍ، فإنهُ كان يحوطُكَ ويغضبُ لكَ ؟ قال نَعَمْ . هوَ في ضَحْضَاحٍ منْ نارٍ . ولولا أنا لكان في الدركِ الأسفلِ من النارِ .

الراوي: العباس بن عبدالمطلب المحدث: مسلم - المصدر: صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 209
خلاصة حكم المحدث: صحيح

اور ایسی طرح کی روایت صحیح بخاری میں بھی بیان ہوئی
یعنی اللہ تعالیٰ جناب ابو طالب کی مدد کرتے ہوئے ان کے عذاب میں تخفیف کردے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے
کچھ تو دال میں کالا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آخری بات جو جناب ابو طالب نے فرمائی وہ یہ تھی کہ
"میں عبد المطلب کے دین پر ہوں "
اب اگر آپ نے یہ ثابت کرنا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا دین ابراھیمی پر نہ تھے
یہ بات ہم آپکے باقر مجلسی کی بات سے ثابت کرتے ہیں جو انھوں نے اوپر ابن ابی الحدید سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب کو کفر پر سمجھنے والے کہتے ہیں
مات علی دین قومہ ویرون فی ذلک حدیثا مشھورا
ذرا فی ذلک پر غور کریں کہ اس اسم اشارہ کا مصداق کیا چیز ہے
اس سے مراد کافر ہونے کی دلیل ہے یعنی کافر ہونے کے ثبوت میں یہ حدیثیں ہیں یعنی باقر مجلسی کو ان احادیث سے کفر پر دلالت پر کوئی اعتراض نہیں- اب انہیں دلائل میں لکھا ہے
وروی انہ قال انا علی دین الاشیاخ و قیل انہ قال انا علی دین عبد المطلب وقیل غیر ذلک
یعنی دین عبد المطلب سے مراد انکے بڑوں کا دین اور انکی قوم کا دین ہے جیسے کہا مات علی دین قومہ
دوسرا اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے پر انکا مندرجہ ذیل الفاظ کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ قبول نہیں کیا گیا
لو لا ان تقول العرب ان ابا طالب جزع عند الموت لاقررت بھا عینک
یعنی اس میں لفظ بھا میں ھا کی ضمیر اس پر دلالت کر رہی ہے کہ انھو نے کلمۃ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کیں

دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی
اور ایسی طرح کی روایت صحیح بخاری میں بھی بیان ہوئی
یعنی اللہ تعالیٰ جناب ابو طالب کی مدد کرتے ہوئے ان کے عذاب میں تخفیف کردے گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے
اصل آیت ایسے ہے
اولئک الذین اشتروا الحیوۃالدنیا بالاخرۃ فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون
پیچھے بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو اوس اور خزرج کی لڑائی میں دنیاوی فائدے کے لئے آپس میں بھی لڑائی اور قیدی بناتے تھے حالانکہ اللہ نے اسکو حرام ٹھرایا تھا پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ ان سے عذاب کم نہیں ہو گا
اب بہرام صاحب کی بات کی طرف آتے ہیں کہ اس آیت میں عذاب میں تخفیف کا انکار ہے مگر ابو طالب کے عذاب میں تخفیف ہو رہی ہے
تو یہ وہی تلبسوا الحق بالباطل والی بات ہے وضاحت یہ ہے
1۔اگر العذاب کا لام عھد کے لئے ہے (خارجی یا ذھنی) تو یہود کے عذاب یا ان جیسے کرتوت والوں کی تخفیف کی بات ہو گی جس کا پہلے خارجی یا ذھنی وجود ہو گا اب اگر شان نزول سے ہٹ کر سب پر لاگو کریں تو اسکا جواب نیچے ہے
2۔اگر العذاب کا لام جنسی ہے اور پھر استغراق کے لئے ہے تو ابو طالب پر لاگو کر سکتے ہیں مگر اسکے لئے استغراق ایک جیسے عذاب کا مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ سب کو ایک جیسا عذاب تو ہو نہیں سکتا- پس جب ایک جیسا عذاب مراد نہیں تو جو عذاب ابو طالب کے لئے انکی زندگی کے تمام امور کو دیکھنے کے بعد اللہ نے لکھا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اس میں تخفیف نہ ہو گی تو آیت اور حدیث میں اختلاف کونسا

دوسرا تفسیر میں تخفیف کے مختلف معنی آئے ہیں مثلا کم نہ ہونا یا ایک ساعۃ کے لئے بھی منقطع نہ ہونا-
تیسرا اسی طرح کی آیت اور جگہ آئی ہے
فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون الا الذین تابوا--------
تو اب جو یہاں اس تخفیف میں تخصیص ہو رہی ہے تو کیا اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے اسی طرح حدیث سے بھی تو تخصیص ہو سکتی ہے

کچھ تو دال میں کالا ہے
بخاری و ترمذی کی غالبا حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کوفہ والوں نے مچھر کے بارے ایک فتوی پوچھا تو جواب ملا کہ مچھر کی اتنی فکر اور جن کو تم نے کربلا میں شہید کیا اس کی فکر ہی نہیں
بھائیو یہاں لوگ دال کے کالا ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور جن کا کپڑوں، گاڑیوں (شاہد کرتوت بھی) سمیت سب کچھ ہی کالا ہے اسکی فکر کون کرے گا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ بات ہم آپکے باقر مجلسی کی بات سے ثابت کرتے ہیں جو انھوں نے اوپر ابن ابی الحدید سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب کو کفر پر سمجھنے والے کہتے ہیں
مات علی دین قومہ ویرون فی ذلک حدیثا مشھورا
ذرا فی ذلک پر غور کریں کہ اس اسم اشارہ کا مصداق کیا چیز ہے
اس سے مراد کافر ہونے کی دلیل ہے یعنی کافر ہونے کے ثبوت میں یہ حدیثیں ہیں یعنی باقر مجلسی کو ان احادیث سے کفر پر دلالت پر کوئی اعتراض نہیں- اب انہیں دلائل میں لکھا ہے
وروی انہ قال انا علی دین الاشیاخ و قیل انہ قال انا علی دین عبد المطلب وقیل غیر ذلک
یعنی دین عبد المطلب سے مراد انکے بڑوں کا دین اور انکی قوم کا دین ہے جیسے کہا مات علی دین قومہ
دوسرا اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے پر انکا مندرجہ ذیل الفاظ کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ قبول نہیں کیا گیا
لو لا ان تقول العرب ان ابا طالب جزع عند الموت لاقررت بھا عینک
یعنی اس میں لفظ بھا میں ھا کی ضمیر اس پر دلالت کر رہی ہے کہ انھو نے کلمۃ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں کیں


اصل آیت ایسے ہے
اولئک الذین اشتروا الحیوۃالدنیا بالاخرۃ فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون
پیچھے بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو اوس اور خزرج کی لڑائی میں دنیاوی فائدے کے لئے آپس میں بھی لڑائی اور قیدی بناتے تھے حالانکہ اللہ نے اسکو حرام ٹھرایا تھا پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ ان سے عذاب کم نہیں ہو گا
اب بہرام صاحب کی بات کی طرف آتے ہیں کہ اس آیت میں عذاب میں تخفیف کا انکار ہے مگر ابو طالب کے عذاب میں تخفیف ہو رہی ہے
تو یہ وہی تلبسوا الحق بالباطل والی بات ہے وضاحت یہ ہے
1۔اگر العذاب کا لام عھد کے لئے ہے (خارجی یا ذھنی) تو یہود کے عذاب یا ان جیسے کرتوت والوں کی تخفیف کی بات ہو گی جس کا پہلے خارجی یا ذھنی وجود ہو گا اب اگر شان نزول سے ہٹ کر سب پر لاگو کریں تو اسکا جواب نیچے ہے
2۔اگر العذاب کا لام جنسی ہے اور پھر استغراق کے لئے ہے تو ابو طالب پر لاگو کر سکتے ہیں مگر اسکے لئے استغراق ایک جیسے عذاب کا مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ سب کو ایک جیسا عذاب تو ہو نہیں سکتا- پس جب ایک جیسا عذاب مراد نہیں تو جو عذاب ابو طالب کے لئے انکی زندگی کے تمام امور کو دیکھنے کے بعد اللہ نے لکھا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اس میں تخفیف نہ ہو گی تو آیت اور حدیث میں اختلاف کونسا

دوسرا تفسیر میں تخفیف کے مختلف معنی آئے ہیں مثلا کم نہ ہونا یا ایک ساعۃ کے لئے بھی منقطع نہ ہونا-
تیسرا اسی طرح کی آیت اور جگہ آئی ہے
فلا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون الا الذین تابوا--------
تو اب جو یہاں اس تخفیف میں تخصیص ہو رہی ہے تو کیا اس پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے اسی طرح حدیث سے بھی تو تخصیص ہو سکتی ہے


بخاری و ترمذی کی غالبا حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کوفہ والوں نے مچھر کے بارے ایک فتوی پوچھا تو جواب ملا کہ مچھر کی اتنی فکر اور جن کو تم نے کربلا میں شہید کیا اس کی فکر ہی نہیں
بھائیو یہاں لوگ دال کے کالا ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور جن کا کپڑوں، گاڑیوں (شاہد کرتوت بھی) سمیت سب کچھ ہی کالا ہے اسکی فکر کون کرے گا
وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ
اور جب یہ ظالم عذاب دیکھ لیں گے پھر نہ تو ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ وه ڈھیل دیے جائیں گے
سورہ نحل آیت 85 ترجمہ محمد جوناگڑھی
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جناب ابو طالب دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں عذاب دیکھ چکے پھر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ان کے عذاب میں کمی کی اور عذاب ہلکا کردیا

جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں نصیحت سے منہ موڑنے والوں کے لئے فرماتا ہے کہ

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
کتاب اللہ تو یہ کہتی کہ ان کافروں کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہتی ہے کہ نہیں کافروں کو سفارش کرنے والے کی سفارش نفع دے گی ۔
یہ ہے وہ دال میں کالا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آخری بات جو جناب ابو طالب نے فرمائی وہ یہ تھی کہ
"میں عبد المطلب کے دین پر ہوں "
کیا حضرت موسٰی دین ابراھیمی پر نہیں تھے؟؟؟۔۔۔
اگر نہیں تھے تو ثابت کیجئے۔۔۔
اگر تھے تو پھر یہ روایات آپ کو آرام سے دستیاب ہوگی۔۔۔
تھوڑی کوشش کیجئے!۔۔۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تورات کے نسخے لئے ہاتھوں میں۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔
کے وہ الفاظ کے اگر موسٰی بھی اس وقت دنیا میں آجائیں تو اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتے۔۔۔
جب تک وہ میری لائی شریعت پر ایمان نہ لے آئیں۔۔۔
دوسری مثال!۔
کیا حضرت عیٰسی علیہ السلام جو نبی تھے۔۔۔
دنیا میں جب واپس آئیں گے تو کیا بحیثیت نبی آئیں گے۔۔۔یا!۔۔۔
اُمتی۔۔۔ لہذا آپ اپنی کہی ہوئی بات پر ذرا غور وخوض کیجئے۔۔۔

نوٹ!۔۔۔
آپ سے کئی بار یہ درخواست کی گئی ہے۔۔۔
کہ جب بھی عربی عبارت پیش کرتے ہیں تو ساتھ ہی اس کا۔۔۔
ترجمہ بھی پیش کریدیا کیجئے تاکہ جو لوگ عربی سے ناواقف ہیں۔۔۔
وہ آپ کی پینترے بازیوں کو سمجھ سکیں۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ

پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی -سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
کتاب اللہ تو یہ کہتی کہ ان کافروں کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہتی ہے کہ نہیں کافروں کو سفارش کرنے والے کی سفارش نفع دے گی ۔
یہ ہے وہ دال میں کالا
بہرام صاحب انتہائی معذرت کے ساتھ آجکل "دال میں کالا نہیں" کے علاوہ کچھ خاص لوگوں کے لئے ایک نئی کہاوت بھی آئی ہے آپ ابھی تک پرانی کے پیچھے پڑے ہیں اسکو بھی یاد رکھ لیں تاکہ کوئی استعمال کرے تو آپکی لا علمی ظاہر نہ ہو
"آنکھوں پر کالاہے"

(مراد چشمہ ہے)

ویسے آپ نے گڈ مڈ کرنے کی عادت نہیں چھوڑی
اس کو سمجھانے کے لئے دیکھیں کہ آپ کا اعتراض دو پہلو سے ہو سکتا ہے
1۔آپ قران کی کسی آیت کے عموم کو قران کی ہی دوسری آیت سے خاص کرنے کے قائل نہیں
2۔آپ قران کی کسی آیت کے عموم کو قران کی ہی دوسری آیت سے خاص کرنے کے تو قائل ہیں مگر بخاری وغیرہ کی حدیث سے خاص کرنے کے قائل نہیں
3۔آپ کے نزدیک جب ایک دفعہ کوئی عام بات کہ دی جاتی ہے تو عقل اسکی تخصیص نہیں مانتی-

آپ کی مراد میرے خیال میں آخری ہے کیونکہ پہلے والے اعتراض ایک علیحدہ موضوع رکھتےہیں-اسی لئے میں نے کہا کہ آپکے چشمے کی وجہ سے آپکو یہ تخصیص کالی نظر آرہی ہے کیونکہ جو چیز ایک طالب علم کو بھی دن کی طرح روشن نظر آتی ہے وہ آپکو کالی نظر آتی ہے آئیے دیکھتے ہیں

میں ان شاء اللہ نیچے مثالیں لکھتا ہوں جس سے ثابت کروں گا کہ عام بات اگر حصر کے ساتھ ہو تب بھی ہم اسکی تخصیص کر سکتے ہیں- مثلا کوئی کہتا ہے کہ مسجد میں کوئی بھی نہیں- بعد میں وہ کہتا ہے کہ زید ہے تو ایسی تخصیص عقلی طور پر جائز ہے-بغیر حصر والی کی تخصیص پھر دلالۃ الاولی سے ویسے ہی ثابت ہو جائے گی
1۔ پاکستان کے مختلف حصر کے ساتھ بنائے گئے قوانین پر بعد میں ترمیمیں موجود ہیں-
2۔کھبی بعد میں ترمیم کرنے کی بجائے اسی سیکشن کے اندر پہلی کلاز میں حصر والا قانون ہوتا ہے اور دوسری کلاز میں اسکی تخصیص ہوتی ہے- کبھی کسی دوسرے سیکشن میں پہلے سیکشن کا حوالہ دے کر کہا جاتا ہے not withstanding any thing contained in that section
3.کلمہ طیبہ میں بھی پہلے حصر سے نفی کی گئی ہے اور پھر تخصیص کی گئی ہے

خود ہی فرض کیا خود ہی غلط ثابت کیا
ان دلائل سے ہٹ کر ویسے بھی آپکو بتا دوں کہ قرآن قطعی الثبوت تو ہے مگر قطعی الدلالت نہیں پس جس آیت سے آپ شفاعت کا نفع نہ دینا دکھا رہے ہیں اس میں ما تنفع یعنی فائدہ نہ دینے کا مفہوم قطعی نہیں ہے مگر آپ پہلے خود ہی اس کا تعین کر رہے ہیں کہ اس سے مراد آپ نے خود ہی فض کی کہ کوئی بھی فائدہ ہو سکتا ہے اور پھر خود ہی اعتراض کر رہے ہیں-
حالانکہ اس سے مراد کامل فائدہ لینا زیادہ صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز والی آیت سے بالکل واضح ہے کہ اصل فائدہ جنت کا حصول اور جہنم سے چھٹکارہ ہے نہ کہ جہنم میں عذاب کا کم ہونا-
پس ہم ما تنفع میں آپ والے مفہوم کی بجائے قرآن کی اس آیت کے مفہوم کو مدنظر رکھیں تو ما تنفع کا معنی کامل فائدہ ہو گا یعنی جہنم سے چھٹکارہ جو ابو طالب کے لئے نہیں
تو پھر جس حدیث میں عذاب کی تخفیف کا ذکر ہے وہ اس آیت کے خلاف کیسے ہوئی
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اب اگر آپ نے یہ ثابت کرنا ہے تو آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا دین ابراھیمی پر نہ تھے
کتنی عجیب بات ہے؟؟؟۔۔۔
کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہیں تھا؟؟؟۔۔۔
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے یہ سوال پوچھا؟؟؟۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے جب ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت کیا تھا۔۔۔
یہ بات اہلسنت والجماعت کے سارے فرقوں کی سمجھ میں آگئی۔۔۔
لیکن رافضیوں کی سمجھ میں آج تک نہیں آئی۔۔۔

چلیں یہ بتائیں۔۔۔
کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا ابوطالب۔۔۔
نے کیوں کلمہ لاالٰہ الا اللہ نہیں پڑھا؟؟؟۔۔۔

یہ آیت جو نازل ہوئی اس کے سیاق وسباق کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہیں گے۔۔۔
نبی اور ایمان والوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں اگرچہ وہ ان کے قرابتدار ہوں جب کہ انہیں یہ ظاہر ہو چکا کہ وہ دوزخی ہیں اور یہ آیت نازل ہوئی کہ (آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے)۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر ١٠٨٧)۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304


وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ

اور جب یہ ظالم عذاب دیکھ لیں گے پھر نہ تو ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ وه ڈھیل دیے جائیں گے
سورہ نحل آیت 85 ترجمہ محمد جوناگڑھی
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جناب ابو طالب دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں عذاب دیکھ چکے پھر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ان کے عذاب میں کمی کی اور عذاب ہلکا کردیا


جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں نصیحت سے منہ موڑنے والوں کے لئے فرماتا ہے کہ

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
کتاب اللہ تو یہ کہتی کہ ان کافروں کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی لیکن اصح کتاب بعد کتاب اللہ کہتی ہے کہ نہیں کافروں کو سفارش کرنے والے کی سفارش نفع دے گی ۔
یہ ہے وہ دال میں کالا
جہنّم میں ہر طبقے کو مختلف طریقے سے عذاب دیا جائے گا - جیسا کہ قران و احادیث نبوی صل الله علیہ وسلم سے ثابت ہے- اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جس کو جو عذاب شروع میں دیا جائے گا وہ اس سے ہلکا نہ ہو گا اور نہ اسے عذاب سے مہلت ملے گی -

ابو طالب کو جو آگ کی جوتیوں والا عذاب ہو گا اس میں تخفیف نہیں ہو گی بلکہ جس طرح اس کی شدّت ابتداء میں ہو گی وہ بعد میں بھی اسی طرح جاری رہے گی -(واللہ آعلم)

باقی آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان کہ میری وجہ سے وہ صرف ٹخنوں تک عذاب میں ہوگا ورنہ نچلے طبقے میں ہوتا - تو اس کا جواب خود حدیث ،میں موجود ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ ابو طالب نے نبی کریم کے نبوت کے ابتدائی مشکل دور میں آپ کو مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے بچایا تھا--اس وجہ سے فرق عذاب کے طبقات میں ہے -نہ کہ عذاب کی شدّت میں-

جیسے ایک انسان کے دانت میں شدید درد ہو اور دوسرے کی اکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ گئی ہو -دیکھنے والا تو یہی کہے گا کہ جس کی ٹانگ ٹوٹی ہے وہ زیادہ کرب میں ہے - لیکن دانت میں درد والا بھی یہی کہے گا کہ مجھے بھی بہت درد ہے تم میرے کرب کا اندازہ نہیں کر سکتے -

بہرحال اصل بات یہ ہے کہ شرک پر موت کی وجہ سے اس کی یہ موافقت بھی اس کو جہنم سے نکلنے کا باعث نہ بن سکی-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے بدلے خریدا پس ان سے عذاب کی تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ہی انکی مدد کی جائے گی
پہلے آپ نے اس آیت کو یہودیوں کے لئے خاص کردیا
اور اب

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی
(نوٹ : یاد رہے کہ ہم یہاں ابو طالب کے عذاب میں کمی والی روایت کا جائزہ لے رہیں)
اس آیت میں آپ نفع کا معنی یہ لے رہے ہیں کہ جہنم سے آزادی نہ کہ عذاب میں تخفیف
لیکن صحیح بخاری کی حدیث میں بھی نفع کا ذکر ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کو کوئی نفع پہنچایا " اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ نفع سے مراد تو جنت کا حصول اور جہنم سے آزادی ہے میں نے اپنے چچا کوئی نفع نہیں پہنچایا بلکہ نفع پنہچانے کے سوال پر فرمایا کہ " وہ صرف ٹخنوں تک آگ میں ہیں میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوتے "
یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب جناب ابو طالب کو نفع پہنچانے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے جناب ابو طالب کو نفع پہنچایا اور اس عذاب کے تخفیف کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفع میں ہی شمار کیا
اس کے علاوہ صحیح مسلم کے الفاظ درجہ ذیل ہیں
عنِ العباسِ بنِ عبدِالمطلبِ ؛ أنه قال : يا رسولَ اللهِ ! هل نفعتَ أبا طالبٍ بشيءٍ، فإنهُ كان يحوطُكَ ويغضبُ لكَ ؟ قال نَعَمْ . هوَ في ضَحْضَاحٍ منْ نارٍ . ولولا أنا لكان في الدركِ الأسفلِ من النارِ .

اس حدیث میں جناب ابو طالب کو نفع پہنچانے کے سوال پر آپ کا یہ فرمانا کہ نَعَمْ یعنی ہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک نفع پہنچانے سے مراد عذاب میں تخفیف بھی ہے ۔

اب آتے ہیں اگلے نقطے کی طرف کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
پس انہیں (یعنی کافروں کو)سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی
سورہ مدثر آیت 48 ترجمہ محمد جوناگڑھی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کو سفارش کرنے والے سفارش بھی فائدہ نہیں دے گی لیکن جناب ابو طالب کو سفارش کرنے والے کی سفارش فائدہ دے رہی ہے اہل سنت کی صحیح روایات کے مطابق اس لئے ثابت ہوا کہ جناب ابو طالب ایمان دار تھے
والسلام
 
Top