• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الشیخ المقري اَحمد عبد العزیز الزیات ﷫

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الشیخ المقري اَحمد عبد العزیز الزیات ﷫

ڈاکٹر یاسر ابراہیم مزروعی
مترجم: کلیم اللہ حیدر​
’ماہنامہ رُشد‘ کی قراء ات کے فروغ کے حوالے سے خدمات کو اگر علمی فیض کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عالم عرب سے یہ فیض بالخصوص امام القراء ات علامہ اَحمد عبدالعزیز الزیات﷫ کے سلسلہ سے جاری ہوا ہے۔
پاکستان میں اگرچہ عرصہ دراز سے علم تجوید و قراء ات متعدد سلسلوں سے منتقل ہوتا چلاآرہا ہے لیکن اسے تحقیقی رنگ اس وقت ملا جب اصحابِ ثلاثہ یعنی شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم، شیخ القراء قاری محمد ابراہیم میرمحمدی اور شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہم اللہ مدینہ یونیورسٹی میں عالم عرب کی مشہور علمی و تحقیقی شخصیات سے انتسابِ علم کر کے پاکستان تشریف لائے۔ تینوں مشائخ کلیۃ القرآن الکریم، مدینہ نبویہ کے نمایاں فضلاء اور وہاں کے مصری اساتذہ کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔
جامعہ الازہر مصر کے تحت معہد القراء ات کے بعد سعودی حکومت نے جب جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ میں علم القراء ات کا اعلیٰ ادارہ کھولنا چاہا تو اس وقت مصر کے کبار اساتذہ کی تدریسی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان کبار اساتذہ کی محنتوں کی بدولت مدینہ یونیورسٹی کا کلیۃ القرآن اور قرآن مجید کی اشاعت کا عظیم ادارہ مجمع ملک فہد وجود میں آیا۔ ان اداروں کی نشو ونما میں جن جلیل القدر مشایخ کی خدمات نمایاں رہیں وہ تمام شیخ احمد الزیات﷫ ہی کے تلامذہ تھے۔ گذشتہ نصف صدی میں شیخ احمد الزیات﷫ علمی اعتبار سے دُنیا کے تمام مشایخ ِقراء ات کے قائد رہے۔ علاوہ ازیں آپ کو یہ خصوصی امتیاز بھی حاصل تھا کہ عصر حاضر سے رسول کریمﷺ تک قرآن مجید کی متصل اسانید میں سے واسطوں کے اعتبار سے اعلیٰ ترین سند آپ کے پاس تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ُدنیا بھر کے مشایخ قراء ات نے اپنے سلسلۂ سند کو عالی کرنے کی غرض سے خاص طور پر آپ سے اجازۂ قراء ات حاصل کیا۔
علامہ الزیات﷫ کے حالاتِ زندگی پر مشتمل یہ مضمون انہی کی کتاب ’شرح تنقیح فتح الکریم‘ پر ڈاکٹر محمد یاسر المزروعي کی تحقیق و تعلیق کے مقدمہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب وزارۃ الاوقاف، کویت نے چند سال قبل تدریس عشرہ کبریٰ کے فروغ کیلئے طبع کی ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نام و نسب
آپ کا اِسم مبارک فضیلۃ الشیخ المقري أحمد عبد العزیز بن أحمد بن محمد الزّیات المصري المدني القاہري ہے۔ اس کے علاوہ عبد العزیز، أحمد الزیات، أحمد عبد العزیز الزیات اور شیخ الزیات کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
شیخ﷫ بہت بڑے محقق ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی مفید تحریرات اور ایسی تصانیف کے مؤلف ہیں جو نایاب کتب میں شمار ہوتی ہیں۔ بہت کم لوگ اس پائے کی کتب لکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پیدائش ( ولادت باسعادت)
آپ قاہرہ میں ۷؍۲۵؍۱۳۲۵ھ بمطابق ۷؍۵؍۱۹۰۷ء کو پیدا ہوئے ۔
علمی کیفیت ( عادات و خصائص)
شیخ قراء ت کے بہت بڑے اِمام تھے۔ اس فن میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ علم، تعلیم، فضیلت و عزت میں آپ خدا تعالیٰ کی ایک نشانی تھے۔ دل کے پاکیزہ اور بیدار مغز تھے۔ شیخ موصوف کا شمار علومِ شرعیہ اور علومِ عربیہ کے ماہر علماء میں ہوتا ہے۔ اللہ نے کثیر تعداد میں لوگوں کو آپ سے نفع پہنچایا۔
شیخ اَحمد الزیات﷫ نیک طبع اِنسان تھے۔ آپ کی شخصیت زہد و تقویٰ کی پیکر تھی۔آپ رِیاء سے بچتے ہوئے جھوٹی شہرت سے کوسوں دور رہنے والے تھے۔ اَخلاقِ حسنہ کے مالک اور فرشتہ صفت اِنسان تھے۔ آپ کا تعلق ایک شریف خاندان سے تھا۔ قرآن سے اس قدر محبت اور تعلق تھا کہ ہر وقت زبان تلاوتِ قرآن پاک سے تر رہتی ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعلیم کا آغاز (مرحلہ علمیہ)
جب آپ طلب علم کیلئے موزوں عمر کو پہنچے تو آپ کی اِبتدائی تعلیم کا آغازہوگیا۔ سب سے پہلے آپ نے قرآن حفظ کرنا شروع کیا، کیونکہ تعلیم کی اصل بنیاد ہی تعلیم قرآن ہے اور قدیم و جدید مصر میں بھی یہ رواج عام ہے کہ بچے کی اِبتدائی تعلیم کا آغاز حفظ ِقرآنِ مجید سے کرایا جاتا ہے۔
آپ کیلئے جس مدرسے کا انتخاب کیا گیااس کا نام جامعۃ الازہر ہے، جو قاہرہ میں واقع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تکمیل قرآن
آپ دس سال کی عمر کو پہنچے تو آپ نے قرآنِ مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی اور تکمیل حفظ قرآن کے بعد یہیں دوسرے علومِ شرعیہ کو سیکھنے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ قراء اتِ قرآنیہ میں آپ نے قراء اتِ عشرہ صغریٰ شاطبیہ اور دُرّہ کے طریق سے اور قراء اتِ عشرہ کبریٰ طبیۃ النشر کے طریق سے تخصص حاصل کیا۔ علم قراء ات کے حصول کیلئے آپ نے بڑے شیوخ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا جن میں سرفہرست فضیلۃ الشیخ العلامۃ خلیل غنیم الجناینی اور فضیلۃ الشیخ العلامۃ عبدالفتاح الھنیدي ہیں اور آپ کے ان دونوں مشفق اَساتذہ نے علم قراء ات مصر کے شیخ، اپنے وقت کے علومِ قراء ات میں سب سے بڑے ماہر العلامۃ الکبیر شیخ محمد بن أحمد المتولي سے حاصل کیا تھا۔
آپ ﷫ کا شمار ان تلامذہ میں ہوتا تھا جو محنتی، مخلص، اَدبِ اَساتذہ سے بھرپور اور رَضائے الٰہی کی طلب کیلئے علم حاصل کررہے تھے۔ جو کچھ بھی آپ نے حاصل کیا مکمل محنت اور یکسوئی کے ساتھ حاصل کیا۔ اَساتذہ کا اس قدر احترام کرتے کہ ان کے سامنے بولنے کو بھی گستاخی شمار کرتے۔ اَدب و احترام کا یہ عالم تھا کہ آپ کے دل میں کبھی بھی کسی بھی اُستاد کے بارے میں بدگمانی پیدا نہ ہوئی۔ اپنے اَساتذہ کیلئے ہمیشہ یہ دُعا فرماتے :
’’اللھم اغفرلنا ولوالدینا ولأساتذتنا ولإخواننا ولأخواتنا ولجمیع المسلمین والمسلمات۔‘‘
’’اے اللہ۱ میرے والدین، میرے اساتذہ، میرے بھائیوں، میری بہنوں اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مشائخ عظام
آپ نے علم قراء ات اور دوسرے علوم شرعیہ کے حصول کے لیے بے شمار جلیل القدر اور ثقہ قراء کرام سے استفادہ حاصل کیا لیکن چند ایک شیوخ سے بالخصوص پڑھا جن کا ذیل میں مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
(١) شیخ المقري صفي بن إبراہیم السقاء﷫ آپ کے مشفق اَساتذہ میں سے ایک ہیں جن سے آپ نے علم قراء ات کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی درس لئے۔ شیخ صفي بن إبراہیم، شیخ خلیل الجنایني کے تلامذہ میں سے ہیں اور شیخ صفي بن إبراہیم ہی وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے شیخ خلیل سے قرآن پڑھا اور حفظ کیا۔ یہ بات اس وجہ سے ذکر کی گئی ہے کہ شیخ الزیات کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے شیخ صفی کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جاتا صرف شیخ جنایني کے تذکرے پر ہی اکتفاء کرلیا جاتا ہے۔
(٢) الشیخ المقري خلیل بن محمد غنیم الجنایني﷫ سے آپ نے قرآن کریم کو قراء اتِ عشرہ صغریٰ اور کبریٰ میں اوّل قرآن سے سورۃ الدخان کی آیت ’’ وَإِن لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ ‘‘ (الدخان: ۲۱) تک پڑھا۔ اور یہاں سے آخر قرآن تک کسی مجبوری کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) الشیخ المقري العلامۃ عبدالفتاح الھنیدي﷫ سے آپ نے قراء اتِ عشرہ صغریٰ اور کبریٰ پڑھیں اور اس کے ساتھ آپ نے حاصل کردہ علم کو آگے منتقل کرنے کی آپ سے اجازت چاہی۔ جس پر آپ کے استاد نے آپ کے خلوص و محنت کو دیکھ کر اجازت نامہ جاری کردیا۔
(٤) شیخ محمد إسمالوطي﷫ علوم شرعیہ میں حدیث شریف کا علم آپ نے شیخ إسمالوطي سے اَخذ کیا ،جن میں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور جامع ترمذی وغیرہ کو بالخصوص پڑھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء کا علمی دور
آپ چونکہ قرآن اور علوم قرآن بالخصوص قراء اتِ قرآنیہ کے علامہ اور شیخ تھے اس لیے علومِ قرآن باالخصوص قراء اتِ قرآنیہ کی نشرو اِشاعت میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جب آپ﷫ نے بڑے مشائخ و علماء سے علوم شرعیہ اور عظیم قراء کرام سے علوم قراء ات کو حاصل کرلیا تو ’’ بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً ‘‘۔ (جامع الترمذي: ۲۶۶۹) کے تحت علم کی اِشاعت کیلئے کوشاں ہوئے۔ جامعہ ازہر سے ہی آپ نے پڑھانے کی اِبتداء کی۔ آپ کی مجلس درس کا یہ عالم تھا کہ درس کیلئے مخصوص وقت تو ختم ہوجاتا لیکن بحر علم ابھی بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا۔ ابتداء آپ ازہر شریف اور قرب و جوار میں درس و دروس کی مجالس قائم کرتے رہے۔ اس کے بعد جامعہ ازہر میں ۱۳۴۵ھ الموافق ۱۹۲۵ء کو خطابت کا آغاز کیا جس میں آپ حکمت اور دانائی کے ساتھ لوگوں کواللہ کی طرف متوجہ کرواتے تھے۔ مصر میں قیام کے دوران آپ نے بہت سی مساجد کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی علمی خدمات کو قبول کیا یہی وجہ ہے کہ آپ سے بہت سارے لوگ فیض یاب ہوئے۔ خدمت ِخلق اور رضائے الٰہی کا اس قدر شوق تھا کہ آپ ہر رات مغرب سے عشاء تک لوگوں کو اکٹھا کرکے وعظ و نصیحت کیا کرتے اور رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح کا بھی خصوصی اہتمام کرایا کرتے اور امامت کے فرائض خود سرانجام دیتے۔ آپ کا اندازیہ تھا کہ جب عشاء کی فرض نماز پڑھ لیتے یا نمازتراویح کی چار رکعات مکمل کرلیتے تو وعظ و نصیحت کیلئے بیٹھ جاتے، کیونکہ آپ جانتے تھے :
’’ وَذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘ (الذاریات: ۵۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھتے کہ اللہ تعالیٰ ان دروس کے ذریعے لوگوں کے دل کھول دے گا اور میری اس تھوڑی سی کاوش سے لوگوں کے دلوں میں اطاعت ِالٰہی کا جذبہ پیدا ہوجائے گا ۔ آپ کے درس میں اتنی شیرینی، مٹھاس اور لذت ہوتی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ وعظ ونصیحت سننے کے لیے بے تاب رہتے۔ ۱۹۴۵ء میں جامعہ ازہر میں جو قراء ات کا شعبہ لغۃ العربیۃ کے تحت کھولا گیا اس میں آپ کا بطور اُستاد تقرر کیا گیا۔ اس ذمہ داری کو دلجمعی، محنت اور شوق سے نبھایا۔ دلی خواہش یہ ہوتی تھی کہ جو کچھ اللہ نے اپنی رحمت سے سکھایا ہے وہ دوسروں کو بھی سکھلا دوں اور آپ بخوبی جانتے تھے کہ اصل علم وہی ہے جس سے دوسروں کو نفع پہنچے۔ ہر وقت یہ دعا کیا کرتے تھے:
’’اَللّٰھُمَّ! إِنِّيْ أَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلاً‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۹۲۵)
’’پروردگار! میں آپ سے نفع بخش علم‘ پاکیزہ رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
آپ عرصۂ دراز تک جامعہ اَزہر میں علم قراء ات کے اُستاد رہے۔ اس کے بعد ۱۹۷۲ء سے لے کر ۱۹۸۳ء تک ازہر شریف کے جوار میں پڑھاتے رہے اور طالب علموں کو جمیع روایات عشرہ صغریٰ اورکبریٰ، طیبہ، درہ اور شاطبیہ کے طریق سے پڑھاتے رہے۔ اور طلباء جوق در جوق علوم کے اس بحر ذخار سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ حتیٰ کہ آپ علومِ شرعیہ اور علومِ عربیہ (علم حدیث، فقہ،نحو، صرف اور فن قراء ات) میں ڈاکٹربن گئے۔
آپ کو ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۹۸۳ء میں جامعۃ الإمام محمّد بن سعود الإسلامیۃ ریاض میں چار مہینوں کیلئے بطور اُستاد چنا گیا۔ لیکن آپa کی دلی خواہش اور تمنا یہ تھی کہ مجھے مدینۃ الرّسول اور جوارِ مصطفیﷺمیں کام کرنے کا موقع ملے اس خواہش کی تکمیل کیلئے اللہ کے حضور دُعا بھی کیا کرتے تھے۔ آخر اللہ نے آپ کی اس تمنا اور خواہش کو پورا کیا۔ ۱۴۰۵ھ بمطابق ۱۹۸۵ء کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیّۃ القرآن کے شعبہ قراء ا ت میں بطور راہنما اُستاذ کے آپ کا انتخاب کیاگیا۔ یہ خبر سنتے ہی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جلد مدینہ منورہ کا سفر کیا جہاں آپ نے نئے جوش و ولولے سے علم قراء ات کی ترویج واشاعت کا کام شروع کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کچھ عرصہ بعد آپ کو مجمع الملک فہد کمیٹی کا ممبر منتخب کر لیا گیا۔ یہ ادارہ قرآن کریم کی نشرو اشاعت کا کام کر رہا تھا۔اس میں آپ کو سماعت کا کام دیا گیا جسے آپ نے مسلسل محنت اور مشہور قراء کرام کی شروط کے مطابق سرانجام دیا۔ اسی دارے میں آپ نے ۱۵ سال بھرپور محنت سے گزارے۔ اور ساتھ ساتھ مشہور قراء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قراء اتِ قرآنیہ کے علم سے کون وجہان کو روشن کرتے رہے۔ دلی خواہش یہ تھی کہ اسی جگہ پر تعلیم و تعلم کا کام ہوتا رہے یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے اور جنت البقیع میں دفن ہوجاؤں لیکن آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ ۲۰۰۱ء میں آپ کو دوبارہ مصر آنا پڑا۔
 
Top