• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
شیخ کفایت اللہ صاحب کا ابوالحسن علوی صاحب پر نقد پڑھاانہوں نے فہم حدیث اورتنقید حدیث دونوں کو یکساں معیار پر رکھتے ہوئے کلام کیاہے۔ جب کہ اس سلسلے کی ایک بنیادی بات ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔
اگرچہ فہم حدیث اورتحقیق حدیث دونوں میں اجتہاد ہوتاہے اوردونوں ہی میں صواب وخطاء کا احتمال رہتاہے لیکن پھربھی بعض اعتبارات سے تحقیق حدیث کا مسئلہ ذرا زیادہ خطرناک ہے۔خاص طورپر اس دورپرفتن میں۔

مثلاایک زمین آپ کے نام پر رجسٹر ہے۔آپ اس میں کس قسم کا مکان بناناچاہئے ہ محل نما،بنگلہ ٹائپ کا ،فلیٹ یاپھراپارٹمنٹ یاپھر کچھ اور۔ایسے اختلاف سے زمین کی رجسٹری پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔
لیکن ایک زمین کاٹکرآپ کا ہے یانہیں اگراس کے ثبوت میں شک تونفس ثبوت مین شک کے ساتھ مکان کس قسم کا بنے یہ قضیہ ہی ختم ہوجاتاہے۔


اسی طرح سوچئے !ایک شخص قرآن وحدیث کوتسلیم کرنے کے بعد فہم میں اختلاف کررہاہے تواس کا معاملہ چنداں دشوار نہیں لیکن ایک قرآن وحدیث کو ہی تسلیم نہ کرے تویہ معاملہ کتناسنگین ہوتاہے۔
علماء کے فہم اختلاف سے اگرعوام بدظن ہوں گے توصرف یہیں تک کہ یہ سب علماء کا اپناالوسیدھاکرنے کا طریقہ ہے لیکن ان کو نفس قرآن وحدیث میں شک نہیں ہوگا۔

لیکن تحقیق حدیث میں اگرسہ رنگی اورچہاررنگی سے عوام بدظن ہوئے توسیدھے قرآن وحدیث میں ہی ان کو شک ہوجائے گا۔اوراسن کی سنگینی واضح ہے۔

احتیاط کا طریقہ اورروش تویہ ہے کہ اجتہاد کلی کے بجائےاجتہاد جزئی کیاجائے اوراس میں انفرادی کے بجائے اجتماعی طورپر کیاجائے تاکہ غلطی اورخطاء کا امکان کم سے کم رہے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
جزاک اللہ خیرا بھائی۔۔ بڑی دیر سے اس کی تلاش میں تھا۔
کتاب کو سکین کر کے تو میں نے ہی اپلوڈ کیا تھا پہلے بھی لیکن تھریڈ میری نظر سے ابھی گزرا ہے لہذا فورا شیئر کر دیا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یہاں پر دوباتیں ہیں :

  • ایک نفس اجتہاد کی ۔
  • دوسری مجتہدین کے معیارکی۔


اجتہاد :
آپ کا کلام صرف پہلی بات سے تعلق رکھتاہے یعنی آپ نفس اجتہاد ہی کے خطرات بتلارہے ہیں خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی بھی ہو۔

آپ کی پیش کردہ مثال بھی نفس اجتہاد پر فٹ ہوتی ہے:
مثلاایک زمین آپ کے نام پر رجسٹر ہے۔آپ اس میں کس قسم کا مکان بناناچاہئے ہ محل نما،بنگلہ ٹائپ کا ،فلیٹ یاپھراپارٹمنٹ یاپھر کچھ اور۔ایسے اختلاف سے زمین کی رجسٹری پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔
لیکن ایک زمین کاٹکرآپ کا ہے یانہیں اگراس کے ثبوت میں شک تونفس ثبوت مین شک کے ساتھ مکان کس قسم کا بنے یہ قضیہ ہی ختم ہوجاتاہے۔
[/H1]

اس مثال سے تحقیق حدیث سے متعلق اجتہاد کے مطلق خطرات معلوم ہوتے ہیں خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی بھی ہو ، یعنی نفس اجتہاد ہی بجائے خود ایک خطرناک اقدام ہے۔ یادرہے کہ مجتہدین کتنے ہی اعلی معیار کے ہوں ان کا آپس میں اختلاف کرنا ناگزیرہے۔

لیکن چونکہ نفس اجتہاد موضوع بحث نہیں ہے اس لئے ہم اس پہلو پر زیادہ بات کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

آپ نے جو حل پیش کیا ہے اس کاتعلق بھی نفس اجتہاد سے ہے نہ کہ مجتہدین کی قسم سے ، نیز آپ کا پیش کردہ حل بھی مطلق ہے یعنی ایسا لگتاہے کہ یہ حل صرف تحقیق حدیث سے متعلق نہیں بلکہ فہم حدیث سے متعلق بھی ہے ، واللہ اعلم ۔ اگر میں درست سمجھ رہا ہوں یعنی آپ فہم حدیث سے متعلق بھی یہی حل پیش کررہے ہیں تو بات پھر گھوم پھر کر وہیں آگئی یعنی دونوں اجتہاد ایک حکم میں ہے اوردونوں کا حل بھی ایک ہی ہے ۔

اور اگر آپ فھم حدیث میں آزادی کے قائل ہیں کہ کوئی بھی فھم حدیث میں اجتہاد کرسکتا ہے اورمذکورہ حل صرف تحقیق حدیث سے متعلق ہے تو اس کی صراحت کریں۔


جہاں تک تحقیق حدیث سے متعلق اجتہاد کے خطرات کو بڑا بتانے کی بات ہے تو یہ بھی درست نہیں بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے اجتہاد سے فھم حدیث کا اجتہاد زیادہ خطرناک ہے۔ حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف کی بناپر جن مسائل میں اختلاف ہوا ہے وہ اول تو فروعی ہیں نیز انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔
ہم نے آج تک نہیں سنا کہ تحقیق حدیث میں بھی مجتہدین کے فرقے بنے ہوں اوراور الگ الگ مکتب فکر قائم ہوئے ہوں ، یا عہد رسالت سے لیکر آج تک کوئی ایسافتنہ رونما ہوا ہو جس کی بنیاد تحقیق حدیث ہو ۔
اس کے برعکس سلف سے لیکر خلف تک جس قدر بھی فرقے بنے اور آج بھی دن بدن جو نئے نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں ان سب کی بنیادی وجہ فھم نصوص یعنی فھم قران وحدیث کی دعویداری ہی ہے ، حتی کہ انکار حدیث کا فتنہ بھی تحقیق کے میدان سے نہیں بلکہ فھم نصوص ہی کی وادی سے آیا ہے لوگوں نے قرآنی آیات کو سمجھنے میں اس قدر مہارت اورفقاہت دکھلائی کی ان کی فھم میں صحیح احادیث خلاف قران معلوم ہوئیں اور پھر فہم وتدبر کے اس غرور نے انہیں انکار حدیث تک پہنچا دیا ۔

قران وصحیح حدیث کو تسلیم کرتے ہوئے بھی بڑی سے بڑی گمراہی پیدا ہوسکتی ہے قبرپرست لوگ اس کی بہترین مثال ہیں یہ لوگ بھی قران اورحدیث پرایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے فہم وتدبرنے انہیں کہاں سے کہاں پہونچادیا۔

لطیفہ :
مزے کی بات یہ ہے کہ تحقیق حدیث کی کارروائی بھی بعض حالات میں فھم حدیث ہی کی بناپر کرنی پڑتی ہے:
یعنی فہم وتدبر کے کئی دعویداروں نے ایک ایسا فتوی دیا جو واضح طور پر قران وحدیث سے ثابت نہیں ہوتا تھا یا زبردستی قران وحدیث سے استدلال کیا گیا ، پھر بعد میں خود انہیں مدعیان فہم نے اپنی فہم، یا ان کی معتقدین نے اپنے آقاؤں کی فہم کو مدلل کرنے کے لئے حدیث گڑھ ڈالی ۔


علمی تعصب:
ویسے عصر حاضر کے بڑے المیوں میں سے ایک المیہ علمی وتبلیغی تعصب کا بھی ہے ۔
جو شخص جس قسم کے علم سے دلچسپی رکھتا ہے اس کی نظر میں بس وہی ایک کام کی چیز ہے باقی سب بکواس ، فتنہ ، بے وقوفی اوربچپنا ہے ۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں پھر کہہ دیتاہوں:
جو کچھ بھی تحقیق حدیث سے متعلق عرض کیا ہے عین وہی باتیں فہم حدیث سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہیں اورکہی جانی چاہئیں ، ورنہ انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوگا اورہمیں تو یہی لگے گا کہ آج ہرشخص تمام لوگوں کو محض اپنے ذوق و شوق کا پاپند بنانا چاہتا ہے۔
جسے غیر مسلموں میں کام کرنے کا شوق ہے وہ تقلیدو بدعت کے خلاف کام کرنے کو فتنہ سمجھتا ہے۔
جسے فقہ حدیث اور استنباط واستدلال سے شغف وہ تحقیق حدیث کو فساد سمجھتا ہے ۔
جسے تحقیق حدیث کا خبط ہے وہ فقہ و تدبر کے نام کی ہرشے سے متنفرہے۔

انصاف تو یہ ہے کہ آدمی اپنی ذوق اور اپنی دلچسپی کے لحاظ سے اپنے میدان میں کام کرے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو، اوردوسرے میدان کے لوگوں کے کاموں کا بھی احترام کرے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
جہاں تک تحقیق حدیث سے متعلق اجتہاد کے خطرات کو بڑا بتانے کی بات ہے تو یہ بھی درست نہیں بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے اجتہاد سے فھم حدیث کا اجتہاد زیادہ خطرناک ہے۔ حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف کی بناپر جن مسائل میں اختلاف ہوا ہے وہ اول تو فروعی ہیں نیز انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔
ہم نے آج تک نہیں سنا کہ تحقیق حدیث میں بھی مجتہدین کے فرقے بنے ہوں اوراور الگ الگ مکتب فکر قائم ہوئے ہوں ، یا عہد رسالت سے لیکر آج تک کوئی ایسافتنہ رونما ہوا ہو جس کی بنیاد تحقیق حدیث ہو ۔
اس کے برعکس سلف سے لیکر خلف تک جس قدر بھی فرقے بنے اور آج بھی دن بدن جو نئے نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں ان سب کی بنیادی وجہ فھم نصوص یعنی فھم قران وحدیث کی دعویداری ہی ہے ، حتی کہ انکار حدیث کا فتنہ بھی تحقیق کے میدان سے نہیں بلکہ فھم نصوص ہی کی وادی سے آیا ہے لوگوں نے قرآنی آیات کو سمجھنے میں اس قدر مہارت اورفقاہت دکھلائی کی ان کی فھم میں صحیح احادیث خلاف قران معلوم ہوئیں اور پھر فہم وتدبر کے اس غرور نے انہیں انکار حدیث تک پہنچا دیا ۔
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی۔
انتہائی مدلل اور جامع جواب ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے واضح طورپر کہاتھاکہ چاہے بات فہم حدیث کی ہو یاتحقیق حدیث کی دونوں میں اجتہاد کواورمجتہد کی اپنی ذہنی کاوش کو دخل ہوتاہے۔
باوجود اس کے کہ دونوں میں سائڈ افیکٹ اورذیلی مضراثرات موجود ہیں لیکن اگرتناسب اورمقدار کی بات کی جائے کہ کس کاسائڈ افیکٹ زیادہ خطرناک ہوگاتووہ وہ میری رائے میں تحقیق حدیث ہے۔
اگرزمین کی رجسٹری والی مثال پامال لگتی ہوتوہارڈ ویئر اورسافٹ ویئر کی مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کرتاہوں۔

ہارڈویئرکاکام بنیادی اہمیت رکھتاہے کہ جتنے بھی سافٹ ویئر بنیں گے وہ کمپیوٹر میں ہی چلیں گے اوراگرہارڈ ویئر کاوجود نہ ہوتوسافٹ ویئر کو چلایاکس پر جائے گا۔

لیکن باوجود اس کے نزاکت سافٹ ویئر میں ہے اورسافٹ ویئر کاکام زیادہ مشکل ماناگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی جائیں ہارڈ ویئر کے انجینئروں سے زیادہ تنخواہ سافٹ ویئر والوں کوملتی ہے۔
لیکن چونکہ سافٹ ویئر کی عمارت ہی ہارڈویئر کی زمین پر تعمیر ہوتی ہے لہذا ہارڈویئراس کیلئے اصل کی حیثیت رکھتاہے۔

قرآن وسنت اصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے الفاظ ہی بنیاد بنتے ہیں کہ اس سے معانی کا استخراج کیاجائے ۔کلام اللہ تواللہ کی حفاظت میں ہے۔ایک حدیث کے سلسلے میں ایک محدث پوری کوشش کے بعد فیصلہ کرتاہے کہ فلاں حدیث ضعیف یاصحیح ہے۔یہ فہم حدیث کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتاہے۔ اب اس حدیث کے الفاظ سے ایک فقیہہ کیاکیامستنبط کرتاہے یہ اس کے ذوق علم اورقوت استنباط پرمنحصر ہے۔

آپ نے گمراہی کے تعلق سے کچھ بات کی۔
سورہ فاتحہ جس طرح ام القرآن ہے اسی طرح حدیث جبرئیل کو شارحین اورمحدثین نے ام الحدیث قراردیاہے۔اس مین علامات قیامت کے ذکر میں کہاگیاہے
اذاوسد الامر الی غیراھلہ فانتظرالساعۃ
قیامت عالم کون ومکان کا سب سے بڑافساد کامظہر ہوگا
اس سے قبل جب بھی اورجتنے بھی چھوٹے فساد ظاہر ہوں گے اس میں بنیادی حیثیت یہی ہوگی
اذاوسدالامرالی غیراھلہ

اب چاہےنااہلوں کو تفویض کیاجائے یانااہل خود دست درازی کرکے اس منصب کے مدعی ہوجائیں اورکچھ لوگ لاعلمی وجہالت میں اس کو ماننابھی شروع کردیں۔


آپ نے جس قسم کی بھی گمراہی کاذکر کیاہے اس میں بنیادی بات یہی وسد الامرالی غیراھلہ کی ہے۔

فہم حدیث اورتحقیق حدیث کی گمراہی کے تعلق سے عرض ہے کہ فہم حدیث کا معاملہ بہت نمایاں ہوتاہے جب کہ تحقیق حدیث کا معاملہ ذراپوشیدہ رہتاہے۔اب دیکھیں معتزلہ نے ایک الگ اصول بنایاکہ حدیث کا موافق عقل ہوناضروری ہے۔ یہ ان کی تحقیق ہی توتھی۔ خوارج نے تحقیق حدیث کیلئے کچھ الگ وصول وضع کئے ۔شیعہ حضرات نے حدیث کی تحقیق کامعیار بنایاکہ وہ اہل بیت سے مروی ہو۔اسی طرح اگرآپ غورکریں تو اس گمراہی میں تحقیق حدیث کاحصہ اورجثہ بھی آنجناب کو بخوبی نظرآنے لگے گا۔

میں دورحاضر میں نفس اجتہاد کو ہی کم سے کم اورصرف ناگزیر حالات میں جائز سمجھتاہوں۔اقبال کہہ گئے ہیں
زاجتہاد عالمان کم نظر
اقتداء بارفتگاں اولی تراست​

دوسری بات یہ ہے کہ بزرگوں سے یہ کلام مروی ہے اوراس کی صداقت میں کوئی شک نہیں کہ علم کثرت معلومات کانام نہیں ہے بلکہ علم توایک نورہے جواللہ اپنے بندے کے دل میں ڈالتاہے۔

وہ کس بندے کے دل میں ڈالتاہے وہ خشیت الہی کے حامل بندوں کے دل میں ڈالتاہے کیونکہ اللہ نے خشیت کا ربط علم اورعلماء سے جوڑاہے۔انمایخشی اللہ من عبادہ العلماء۔

اس خشیت الہی کی دوسری منزل ازدیاد عبادت ہے۔جب انسان خدا سے ڈرتاہے توعبادت مین انتہائی کوشش کرتاہے اورفرائض کے علاوہ نوافل اورمستحبات وآداب تک کی پابندی کرتاہے۔اورمشہور حدیث قدسی کے مطابق کہ بندہ نوافل میں تقرب حاصل کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کا کان بن جاتے ہیں جس سے وہ سنتاہے اس کی آنکھیں بن جاتے ہیں جس سے وہ دیکھتاہے اوراس کے ہاتھ بن جات ہیں جس سے وہ کام کرتاہے مختصر یہ کہ اس کے تمام افعال تائید ربانی سے صادر ہوتے ہیں ۔اس میں اجتہاد بھی شامل ہے۔
گفتہ اوگفتہ اللہ بود
گرچہ ازحلقوم عبداللہ بود​
آج ہم مین سے ہرشخص اپنااوراپنی جماعت کے علماء کا جائزہ لے کتنے علماء ایسے ہیں جن کے دل میں خشیت الہی کی چنگاری روشن ہے کتنے علماء ہیں جومشتبہات سے پرہیز کرتے ہیں کتنے علماء ہیں جو واقعتاعبادت کی طرح عبادت کرتے ہیں اوربشمول تہجد دیگر نوافل اوراذکار کی پابندی کرتے ہیں؟

کیااس معاملے میں آج کے علماء کا سلف سے کوئی تقابل کیاجاسکتاہے؟ان کی عبادت ان کازہد،ان کاورع اوران کا تقویٰ اپنی مثال آپ ہے۔حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگرصحابہ کرام ہمیں پالیں توہمیں وہ غیرمسلم سمجھیں گے انہی سے یہ بھی مروی ہے مسلماناں درگورومسلمانی درکتاب یعنی جوواقعتامسلمان تھے وہ توقبروں کو آباد کرچکے اورمسلمان کے جواوصاف ہیں وہ محض کتابوں کی زینت بنے ہیں لوگ ان پر عمل نہیں کرتے۔
اگروہ یاان کے بعد والے ہم جیسوں کو دیکھ لیں توکیاکہیں گے یہ ہم میں سے ہرشخص اپنی دل سے جواب طلب کرے۔استفت قلبک وان افتاک المفتون
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس پوسٹ میں بھی آپ نے صرف نفس اجتہاد پر بات کی اورمثال بھی نفس اجتہاد ہی کی دی ہے۔
جبکہ زیربحث مسئلہ نفس اجتہاد کا نہیں بلکہ اجتہاد کی اہلیت کا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرتحقیق حدیث میں اجتہاد ہرطالب علم کا کام نہیں تو فھم حدیث میں اجتہاد کے لئے تمام طلباء کو آزادی کیوں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جہاں تک نفس اجتہاد اوراس کے خطرات کی بات ہے تو میں اب بھی کہوں گا کہ فھم حدیث کا اجتہاد ہی زیادہ نازک اورزیادہ خطرناک ہے۔
دنیائے علم کی تاریخ شاہد ہے کہ اب تک فھم حدیث کے نام پر ہی تمام تر فتنے واقع ہوئے ہیں :
آپ نے لکھا:
فہم حدیث اورتحقیق حدیث کی گمراہی کے تعلق سے عرض ہے کہ فہم حدیث کا معاملہ بہت نمایاں ہوتاہے جب کہ تحقیق حدیث کا معاملہ ذراپوشیدہ رہتاہے۔اب دیکھیں معتزلہ نے ایک الگ اصول بنایاکہ حدیث کا موافق عقل ہوناضروری ہے۔ یہ ان کی تحقیق ہی توتھی۔ خوارج نے تحقیق حدیث کیلئے کچھ الگ وصول وضع کئے ۔شیعہ حضرات نے حدیث کی تحقیق کامعیار بنایاکہ وہ اہل بیت سے مروی ہو۔اسی طرح اگرآپ غورکریں تو اس گمراہی میں تحقیق حدیث کاحصہ اورجثہ بھی آنجناب کو بخوبی نظرآنے لگے گا۔
عرض ہے کہ ان سارے فتنوں کی جڑ بھی اصلا فھم حدیث میں اجتہاد کی جسارت ہی ہے ، معتزلہ کا یہ اصول کہ حدیث موافق عقل ہو ، اب اس عقل کا تحقیق حدیث سے کیا تعلق ؟؟؟ یہ فھم وتدبر کا دعوی ہوا نا کہ تحقیق حدیث۔۔
خوارج کا معاملہ بھی یہی ہے بلکہ بعض روایات سے بھی پتہ چلتاہے کہ ان کی گمراہی کی وجہ فھم وتدبر کی دعویداری ہے نہ کہ تحقیق حدیث ، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خوارج کی ولادت عہدصحابہ میں ہوئی اور یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عہد صحابہ میں تحقیق حدیث کا وہ رواج نہ تھا جو بعد میں ہوا کیونکہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سننے والے صحابہ موجود تھے دریں صورت یہ بات غیرمعقول ہے کہ ان کی گمراہی کی وجہ تحقیق حدیث ہے بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی گمراہی کی وجہ بھی فھم نصوص کی دعویداری ہی ہے چنانچہ مرفوع روایات میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ قران بہت عمدہ پڑھیں گے لیکن حلق سے نہ اترے گا ، یعنی صرف قران کے نصوص کو لے بیٹھں گے اوراس کا مفہوم بدل ڈالیں گے ، نیز علی رضی اللہ عنہ نے بھی خوارج کے بارے میں کہا: : كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ،[صحيح مسلم (2/ 749) رقم1066 ] یعنی یہ حق بات سے باطل مراد لے رہے ہیں ۔معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ بھی انہیں کج فھم ہی باور کرتے تھے ، شیعت کی ولادت بھی فھم نصوص ہی کی مرہون منت ہے اورآگے چل کرانہوں نے جرح وتعدیل کے جو الگ قوانین بنائے وہ صرف اس لئے تاکہ ان کے خودساختہ عقائد ومسائل کا تحفظ ہوسکے ۔الغرض یہ کہ ان سارے فتنوں کے پیچھے بھی اصل وجہ فھم نصوص کی دعواری ہی تھی ، تحقیق حدیث سے ان فتنوں کا کوئی تعلق نہیں ۔

آپ نے ہاڈویر اورسافٹ ویر کی مثال پیش کی ہے ۔
بس آپ اسی مثال کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ کمپوٹر کے ذریعہ جونقصانات بھی سامنے آتے ہیں اس کے زیادہ تر اسباب ہاڈویر والے کی غلطی ہے یاسافٹ ویر والے کی ۔
آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگرہاڈ ویر خراب ہے ہے تو سافٹ ویر کا قضیہ ہی ختم ہے ، عرض ہے کہ اگرسافٹ ویر خراب ہے تو ہاڈویر بھی محض ایک بے سود ڈبہ ہے اورکچھ نہیں ۔

ایک مثال میں بھی پیش کردوں بلکہ آپ کے گھرسے ہی پیش کردوں آپ حضرات ہی اکثر کہا کرتے ہیں کہ محدثین دواساز ہیں اورفقہاء اطباء یعنی دواؤں کی تشخیص کرنے والے ہیں ۔
عرض ہے انسانی جسموں اورجانوں کو زیادہ ترنقصانات کن کی غلطی سے ہوتا ہے دواسازوں کی یا اطباء یعنی دواء کی تشخیص کرنے والوں کی ۔


دراصل دواسازی کا کام آسان ہے یہ کام ایک مجرب اصولوں پر ہوتا ہے اس لئے اس میں غلطی کا امکان بہت کم ہے لیکن دواء کی تشخیص کا مرحلہ انتہائی نازک ہے ۔
یہی وہ راز ہے جس کی بناپر بعض الناس مزے لے لے کر کہتے ہیں کہ محدثین صرف دوا ساز ہیں اورفقہاء دوا کی تشخیص کرتے ہیں ، یعنی بعض الناس یہ مثال پیش کرکے فقہاء کو محدثین سے برتربتلانا چاہتے ہیں ۔

ہم اس بات سے متفق ہیں دواء کی تشخیص کا مرحلہ دواسازی سے زیادہ کٹھن اورزیادہ اہمیت کا حامل ہے یعنی احادیث سے استدلال واستنباط کا مرحلہ احادیث کی تحقیق سے زیادہ دشوار ہے ، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری امام مسلم ، اوران جیسے محدثین کی جماعت کو تحقیق حدیث کے ساتھ فھم حدیث میں بھی مہارت تھی ، یعنی یہ لوگ دواساز کے ساتھ ساتھ دواء کی تشخیص سے بھی بخوبی واقف تھے۔ لہٰذا انہیں فقہاء سے کمتر بتانا سراسر ظلم ہے۔


دراصل اس بات کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے کہ تحقیق حدیث میں ایک نص کے رد کئے جانے کاخطرہ ہے یعنی جب نص ہی رد ہوگئی تو اس سے استنباط کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ نص کورد کرنے اورنص کے صحیح مفہوم کررد کرنے میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔
جو شخص نص کوسرے سے رد کررہا ہے اس نے بھی ایک حکم کو رد کیا ہے اورجس نے صحیح فھم کورد کیا اس نے بھی ایک حکم کو ردکیا ، یعنی نتیجہ کے اعتبارسے کوئی فرق نہیں ۔

اسی بات کو مثال سے سمجھیں:
ختم نبوت سے متعلق جتنی احادیث ہیں اگرکوئی انہیں رد کردے یا قادیانیوں کی طرح کوئی انہیں صحیح تسلیم کرے لیکن ان کے مفہوم کوبدل دے ان دونوں باتوں میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا،بلکہ سب سے رسواکن معاملہ انہیں لوگوں کا ہے جو صحیح نصوص پر ایمان رکھتے ہوئے بھی گمراہی وضلالت کے دلدل میں پھنسے ہوں ، مثل گدہوں کے کہ ان پر صحیح وثابت نصوص کا ذخیرہ لاد دیا جائے لیکن اس کا کیا فائدہ:

{مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ } [الجمعة: 5]۔
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے۔ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسے) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اللہ تعالیٰ شیخ محترم کفایت اللہ بھائی کو لمبی اور اجر و ثواب والی بھرپور زندگی سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مال و اولاد، ان کے علم و عمل میں خوب برکت دے، اللہ تعالیٰ ان کو دین کی خدمت، فہم و فراست میں میں اور اضافہ فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
 
Top