• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الصدقات للفقراء میں صدقہ مطلق ہے پھر ہم ذکوۃ ہی کیوں مراد لیتے ہیں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ بعض علما کون ھیں ؟
پہلی رائے کے قائلین جمہور مالکیہ ہیں۔ شوافع کی مختار رائے اور حنابلہ کی منقول رائے بھی یہی ہے۔
دوسری رائے کے قائلین شوافع ایک روایت میں اور حنابلہ ایک روایت میں ہیں۔ اسی کو ابن قدامہ، ابن عقیل، ابن شاقلا، حلوانی اور قاضی ابو یعلی نے اختیار کیا ہے۔ اور یہی حنفیہ کا قول معتمد ہے۔
تفصیل یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=169635
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
پہلی رائے کے قائلین جمہور مالکیہ ہیں۔ شوافع کی مختار رائے اور حنابلہ کی منقول رائے بھی یہی ہے۔
دوسری رائے کے قائلین شوافع ایک روایت میں اور حنابلہ ایک روایت میں ہیں۔ اسی کو ابن قدامہ، ابن عقیل، ابن شاقلا، حلوانی اور قاضی ابو یعلی نے اختیار کیا ہے۔ اور یہی حنفیہ کا قول معتمد ہے۔
تفصیل یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=169635
أن هذين اللفظين مترادفان ؛ غير مختلفين في الدلالة و في الوضع تجاه الأحكام المعلَّقة بهما ، ولو اختلفا في الوضع اللغوي ، و أن تعريفهما هو (( ما توعد الشارعُ المكلَّفَ بالعقاب على تركه )) ، وهو رأي الجمهور من المالكية ، وهو الرأي المختار عند الشافعية )2( ، والرواية الأصح عند الحنابلة المنقولة عن الإمام أحمد )
( مختصر الطوفي 1/274 ، الواضح لابن عقيل 1/ ، 125 ، القواعد والفوائد الأصولية لابن اللحام 63
حنفیہ کے نزدیک فرض اور واجب میں فرق ہے باقی تینوں امام اس بات پر متفق ھیں کہ فرض اور واجب کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت موجود ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
أن هذين اللفظين مترادفان ؛ غير مختلفين في الدلالة و في الوضع تجاه الأحكام المعلَّقة بهما ، ولو اختلفا في الوضع اللغوي ، و أن تعريفهما هو (( ما توعد الشارعُ المكلَّفَ بالعقاب على تركه )) ، وهو رأي الجمهور من المالكية ، وهو الرأي المختار عند الشافعية )2( ، والرواية الأصح عند الحنابلة المنقولة عن الإمام أحمد )
( مختصر الطوفي 1/274 ، الواضح لابن عقيل 1/ ، 125 ، القواعد والفوائد الأصولية لابن اللحام 63
حنفیہ کے نزدیک فرض اور واجب میں فرق ہے باقی تینوں امام اس بات پر متفق ھیں کہ فرض اور واجب کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت موجود ہے
انتہائی محترم حافظ بھائی
اگر آپ صرف اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو پھر تو ٹھیک ہے۔
ورنہ وہاں یہ کچھ بھی لکھا ہے:۔

الثــاني : أن " الفرض " يختلف عن " الواجب " ، فهما غير مترادفين ، بل مختلفان في الدلالة ، و أيضا في الوضع تجاه الأحكام المعلَّقة بهما ؛ موافقةً لاختلافهما في الوضع اللغوي ، وهذا الرأي هو عبارة عن الرواية الثانية عند الشافعية ، و هي الرواية الثانية أيضا للحنابلة اختارها ابن قدامة وابن عقيل و ابن شاقلا و الحلواني و القاضي أبو يعلى)3( ، وهو القول المعتمد عند الحنفية )4( .
.. تحديد الفرق بين " الفرض " و" الواجب " من خلال تعريفهما :
· جاء في الرواية الثانية عند الشافعية ، والتي حكاها القاضي حسين وابن القشـيري ، أن (( الفرض ما ثبت بنص القرآن ، والواجب ما ثبت من غير وحي مصرح به )) .
الراجح :
هو قول الحنفية بالتفريق بين " الفرض " و " الواجب " وذلك لقوة أدلتهم ، وضعف المناقشة التي وجِّهت إلى أدلتهم ـ مع رجاحة بعضها ـ ، ولضرورة تمييز الأحكام الشرعية على المكلفين من حيث اللازم و الألزم .
الظاهر لنا أن الخلاف لفظي

الحنفية يتفقون مع الجمهور بأن الفرض كالواجب كلاهما مطلوب فعله على وجه الحتم والالزام وان تاركه يستحق الذم و العاقاب

الجمهور يتفقون مع الحنفية على أن المطلوب فعله طلبا جازما قد يكون دليله قطعيا وقد يكون دليله ظنيا وأن الأول يكفر منكره

الجمهور يسوون بين الواجب والفرض لأن كلا منهما واجب على المكلف ويستوجب الذم والعقاب على تركه وهذا القدر كاف ﻷن يكونا شيئا واحدا

اما النظر الى الدليل وقوة الإلزام وشدة العقاب وكفر المنكر ﻷحدهما دون الاخر فهذه أمور خارجة عن ماهية وحقيقة الفعل الذي ألزم المكلف به

فالخلاف لفظي يرجع إلى "الدليل التفصيلي، فهو اعتبار فقهي، وليس خلافا بين الأصوليين، ولا خلافا حقيقيا بين الفقهاء - سلم الوصول للعلامة محمد بخيت المطيعي ج1 ص76"

الوجيز في أصول الفقه للدكتور عبد الكريم زيدان
باقی جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ میں بحث نہیں کرنا چاہتا اس پر۔ یہ تھریڈ ویسے بھی ان محترم بھائی کے سوالات کے جوابات کے لیے ہے۔
 
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
1) فِرْعَوْ نُ الرَّسُوْلَ والی مثال میں تو متکلم و مخاطب دونوں ہی کو معلوم ہے کہ وہاں ایک ہی رسول مراد ہیں ۔ الصدقات میں متکلم کو تو معلوم ہے مخاطب کو بھی معلوم ہے اس کی دلیل کیا ہے؟

2) یہ کیسے معلوم ہوا یہ ال عہد خارجی کا ہی ہے ۔

3) واجب اور فرض کا یہ فرق وہ ہے جو آج تک اپنے ارد گرد سے میں نے سیکھا اس کے علاوہ اگر کچھ اور بات ہے تو اس لٹریچر کا لنک دیں تاکہ پڑھ کر میری اصلاح ہوسکے۔
@حافظ عمران الٰہی یہ سوالات ابھی تک تشنہ ہیں ۔ کچھ نظر ثانی کریں۔
 
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
صدقہ لفظ مشترک ہے جو زکاۃ اور عطیہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ یہاں قرینہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد زکاۃ ہے
الصدقات تو مطلق اور قطعی الدلالت ہے تو ضرور اس کو مقید کرنے کیلئے قرینہ نہیں بلکہ قطعی دلیل چاہئے ۔

لفظ مطلق کا اطلاق اس کے فرد کامل پر اولا ہوتا ہے اور زکاۃ صدقہ کا فرد کامل ہے
یہ بات تو اس وقت صحیح ہوتی جب الفاظ یوں ہوتے ۔ الصدقہ للفقراء ۔ کہ اب یہاں الصدقہ ( واحد مطلق ) سے فرد کامل مراد ہوتا ۔ الصدقات سے فرد کامل نہیں افراد کامل مراد ہونے چاہئیں جو زکوۃ کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں

ہمارے یہاں ایک قاعدہ یہ مشہور ہے کہ جب جمع ، جمع کے مقابلے پر آتی ہے تو واحد مراد ہوتا ہے جیسے استاد طالبعلموں سے کہے 'تم سب کل پینسلیں لے آنا ' اور سب ایک ایک پنسل ہی لائیں گے
لیکن یہ ضابطہ ہر جگہ کارآمد نہیں بعض جگہ جمع، جمع کے مقابلے پر آئے تو بھی جمع ہی مراد ہوتی ہے جیسے استاد طالبعلموں سے کہے 'تم سب کل کیلے لے آنا' تو یقینا ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ ایک کیلا لے کر نہیں جانا۔ یہاں جمع ہی مراد ہے یعنی کیلے لے کر جانے ہیں۔

تو جب الصدقات ، للفقراء کے مقابلے پر آئی تو کیلے والی مثال سے اسے سمجھیں کہ یہاں صرف ذکوۃ مراد نہیں ہونی چاہئے۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
یہاں آپ ذرا سی غلطی پر ہیں۔ وہ یہ کہ عموم اور اس میں ہونے والے خصوص کی جہت ایک ہی ہونی چاہیے۔ اٰتوا الزکاۃ میں ادائے زکاۃ کا جو حکم ہے اس میں خصوص نہیں ہوا۔ بلکہ اس میں اس بات میں عموم تھا کہ کسی کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے اور خصوص اس میں ہوا ہے۔ تو دونوں کی جہتیں مختلف ہیں۔
یہاں جہت ایک ہی ہے کہ اٰتو عام ہے اور یہی مخصوص ہوا ہے بہت ساری جگہوں پر
i) رفع القلم عن الصبی
ii) من استفادہ مالا فلا زکوۃ علیہ حتی یحول علیہ الحول
iii) فی البر صدقۃ اذا کان للتجارۃ
اور دیگر احادیث بھی ہیں جو اٰتو کے عام کو مخصوص کر رہی ہیں کہ اس میں تو کہا تھا کہ تم سب دو بعد میں ان سب میں سے بہت سارے افراد باہر نکال دہئے۔

اس لیے کہ لفظ "دون" بھی خاص ہے جس کا مطلب ہے "کم، قریب"۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جب تک خمس اواق سے "کم" ہونے کی خصوصیت پائی جائے گی زکاۃ نہیں ہوگی۔
لیس فیما دون خمس اواق صدقہ کا مطلب شاید بنتا ہے خمس اواق سے کم میں صدقہ نہیں ہے تو جب کم میں تو یقینا ذیادہ میں ہے پھر بھی تو وہی مطلب بنا جو اصل سوال میں کیا گیا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
الصدقات تو مطلق اور قطعی الدلالت ہے تو ضرور اس کو مقید کرنے کیلئے قرینہ نہیں بلکہ قطعی دلیل چاہئے ۔
محترم بھائی میں نے عرض کیا کہ صدقہ لفظ مشترک ہے یعنی یہ خاص کی قسم مطلق نہیں بلکہ خاص کی قسیم مشترک ہے۔ کیوں مشترک ہے؟ اس لیے کہ یہ ایک سے زائد افراد پر وضعا دلالت کرتا ہے۔ اب آپ مطلق یا خاص کی تعریف دہرائیے۔ کیا وہ ایک سے زائد افراد پر وضعا علی سبیل الاشتراک دلالت کرتے ہیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ لفظ مطلق بیک وقت زکاۃ اور صدقہ دونوں پر دلالت کرے وضعا؟
اگر ابھی بھی نہیں سمجھ سکے تو براہ کرم لفظ کی اس پہلی تقسیم کو بمع تفصیل کے دوبارہ دہرائیے۔
اب جو لفظ مشترک ہو اس کی مراد کی تعیین قرائن کی بنیاد پر کی جاتی ہے لہذا اس کی تعیین بھی قرائن کی بنیاد پر ہوگی۔


یہ بات تو اس وقت صحیح ہوتی جب الفاظ یوں ہوتے ۔ الصدقہ للفقراء ۔ کہ اب یہاں الصدقہ ( واحد مطلق ) سے فرد کامل مراد ہوتا ۔ الصدقات سے فرد کامل نہیں افراد کامل مراد ہونے چاہئیں جو زکوۃ کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں

ہمارے یہاں ایک قاعدہ یہ مشہور ہے کہ جب جمع ، جمع کے مقابلے پر آتی ہے تو واحد مراد ہوتا ہے جیسے استاد طالبعلموں سے کہے 'تم سب کل پینسلیں لے آنا ' اور سب ایک ایک پنسل ہی لائیں گے
لیکن یہ ضابطہ ہر جگہ کارآمد نہیں بعض جگہ جمع، جمع کے مقابلے پر آئے تو بھی جمع ہی مراد ہوتی ہے جیسے استاد طالبعلموں سے کہے 'تم سب کل کیلے لے آنا' تو یقینا ہر کوئی یہی سمجھے گا کہ ایک کیلا لے کر نہیں جانا۔ یہاں جمع ہی مراد ہے یعنی کیلے لے کر جانے ہیں۔

تو جب الصدقات ، للفقراء کے مقابلے پر آئی تو کیلے والی مثال سے اسے سمجھیں کہ یہاں صرف ذکوۃ مراد نہیں ہونی چاہئے۔
جواب 1: الصدقات میں صدقہ کی جمع استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم ہے تقسیم کرنے والے کو۔ اور اس کے پاس صرف ایک شخص کی زکاۃ نہیں بلکہ کئی افراد کی زکاتیں موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے جمع لایا گیا۔
جواب 2:۔ الصدقات میں جمع اصناف زکاۃ کے اعتبار سے ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ اونٹ، گائے، بھیڑ بکری اور سونا چاندی وغیرہ کی زکات الگ الگ ہے۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ "عالم" تو ما سوا اللہ ہر چیز کو کہا جاتا ہے جیسا کہ قاضی بیضاوی نے تصریح کی ہے۔ تو الحمد للہ رب العالمین میں العالمین جمع کیسے لایا گیا جب کہ عالم ایک ہی ہے؟ جس طرح وہاں اصناف کے اعتبار سے جمع ہے اسی طرح یہاں بھی اصناف کے اعتبار سے جمع ہے۔
جواب 3: الصدقات میں ایک شخص کی مختلف بار کی زکاۃ مراد ہے۔ تعدد کی وجہ سے جمع لائی گئی۔
جواب 4: تشاکلا جمع لائی گئی ہے۔

اگر ہم آپ کی بات مانیں کہ الصدقات سے صرف زکاۃ مراد نہیں ہونی چاہیے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا مراد ہونا چاہیے؟ زکاۃ اور صدقہ؟ تو اس صورت میں بھی جمع کا استعمال درست نہیں۔ اور اگر زکاۃ، صدقہ واجبہ، صدقہ نافلہ، عطیہ وغیرہ سب مانیں تو دو اشکال ہیں:۔

  1. آپ جانتے ہی ہوں گے کہ زکاۃ اور صدقہ واجبہ کا مصرف ایک ہی ہے اور صدقہ نافلہ اور عطیہ کا مصرف ایک ہی ہے تو پھر جمع لانے کی کیا وجہ ہے۔
  2. اس طرح تو اس جمع میں مومن کو مسکرا کر دیکھنا اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہونے کی وجہ سے شامل ہوجاتا ہے جس کے ان لوگوں کے لیے خاص ہونے کے آپ بھی امید ہے قائل نہیں ہوں گے۔ تو پھر آپ کے پاس کیا قرینہ ہے کہ آپ نے صرف صدقات مالیہ کی تخصیص کر لی؟ آپ کی اس تخصیص پر بھی بعینہ آپ کے والے تمام اشکالات وارد ہوتے ہیں۔ فتدبر۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہاں جہت ایک ہی ہے کہ اٰتو عام ہے اور یہی مخصوص ہوا ہے بہت ساری جگہوں پر
i) رفع القلم عن الصبی
ii) من استفادہ مالا فلا زکوۃ علیہ حتی یحول علیہ الحول
iii) فی البر صدقۃ اذا کان للتجارۃ
اور دیگر احادیث بھی ہیں جو اٰتو کے عام کو مخصوص کر رہی ہیں کہ اس میں تو کہا تھا کہ تم سب دو بعد میں ان سب میں سے بہت سارے افراد باہر نکال دہئے۔
ایک بار پھر عرض ہے کہ اٰتوا میں حکم ہے اتیان زکاۃ کا۔ اور انما الصدقات میں تفصیل ہے مصرف زکاۃ کی۔ پھر بھلا جہتیں ایک کیسے ہوئیں؟
رہ گئی بات ان احادیث کی تو ان کے ذریعے بھی اس معنی میں تخصیص نہیں ہو رہی۔
1: رفع القلم:۔
شریعت کے اکثر احکامات بالغوں کو ہیں خصوصا مالی احکامات۔ اس حدیث سے تو صرف استدلال کیا گیا ہے۔ ورنہ یہ عقلا بھی واضح ہے کہ جب بچے کا اپنے مال پر تصرف کامل نہیں تو وہ زکاۃ کیسے دے گا اور اس کے ولی کا تصرف تو ہے لیکن اس کے مال پر ملکیت نہیں تو وہ بھی اس کی زکاۃ نہیں دے سکتا۔
ایک سوال کا جواب دیجیے۔ رفع القلم سے ہم تخصیص کو اگر نہیں مانتے تو اٰتوا کا حکم تمام مالکوں کو ہے۔ دودھ پیتے بچے کو آپ کیسے سمجھائیں گے کہ وہ کتنی زکاۃ نکالے؟ اگر آپ کہیں کہ اس کا ولی دے گا تو اس کی تخصیص کی وجہ بیان کیجیے۔ اور اگر کہیں کہ وہ دے گا ہی نہیں تو بھی وجہ تخصیص بیان کیجیے۔ فما ہو جوابکم فہو جوابنا۔

2: من استفادہ:۔
اس میں تخصیص ہے ہی نہیں کیوں کہ اس میں کسی فرد کو نکالا نہیں گیا۔ اس میں زکاۃ دینے کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے اقیموا الصلاۃ۔ آپ پانچ نمازوں کی تخصیص کرتے ہیں کیا یا یہ کہتے ہیں کہ پانچ نمازوں کی روایات میں وقت بتایا گیا ہے؟

3: فی البر:۔
اس میں بھی تخصیص نہیں ہے۔ ظاہر کیجیے تخصیص۔
 
شمولیت
جون 07، 2014
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36
اس طرح تو اس جمع میں مومن کو مسکرا کر دیکھنا اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہونے کی وجہ سے شامل ہوجاتا ہے جس کے ان لوگوں کے لیے خاص ہونے کے آپ بھی امید ہے قائل نہیں ہوں گے۔
یہ آپ نے زبردست بات کہی اس سے اگرچہ میرے اشکالات دور نہیں ہوئے مگر اس بات نے لاجواب ضرور کردیا۔


ایک بار پھر عرض ہے کہ اٰتوا میں حکم ہے اتیان زکاۃ کا۔ اور انما الصدقات میں تفصیل ہے مصرف زکاۃ کی۔ پھر بھلا جہتیں ایک کیسے ہوئیں؟
اتو عام تھا یعنی تم سب دو ۔ رفع القلم نے مخصوص کیا یعنی ۔ صبی نہ دیں . تو اب تم سب دو مخصوص ہوکر ہوا تم سب نہ دو کچھ افراد دو ( یعنی جو بالغ ہیں صرف وہ دیں ) یہ جہت ایک ہے اور مخصوص ہے

۔ ورنہ یہ عقلا بھی واضح ہے کہ جب بچے کا اپنے مال پر تصرف کامل نہیں
محترم ! یہ قاعدہ کسی اور نے بھی بتایا تھا کہ جب کچھ افراد عقلا خارج ہوں تو عام مخصوص ہو کر بھی ظنی نہیں ہوتا ۔ میں کم فہمی کی بناء پر یہ قاعدہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نابالغ عقلا کیوں خارج ہوا مثال کے طور پر بالغ ہونے سے صرف ایک دن پہلے اس میں ایسی کیا بات تھی جس کی بناء پر وہ عقلا خارج ہورہا تھا اور ایک دن بعد اب نہیں ہورہا۔ ( اور یہ بھی جب ہے کہ جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ عقلا خارج ہونا ظن پیدا نہیں کرتا )

محترم بھائی میں نے عرض کیا کہ صدقہ لفظ مشترک ہے یعنی یہ خاص کی قسم مطلق نہیں بلکہ خاص کی قسیم مشترک ہے۔ کیوں مشترک ہے؟ اس لیے کہ یہ ایک سے زائد افراد پر وضعا دلالت کرتا ہے۔ اب آپ مطلق یا خاص کی تعریف دہرائیے۔ کیا وہ ایک سے زائد افراد پر وضعا علی سبیل الاشتراک دلالت کرتے ہیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ لفظ مطلق بیک وقت زکاۃ اور صدقہ دونوں پر دلالت کرے وضعا؟
اگر ابھی بھی نہیں سمجھ سکے تو براہ کرم لفظ کی اس پہلی تقسیم کو بمع تفصیل کے دوبارہ دہرائیے۔
اب جو لفظ مشترک ہو اس کی مراد کی تعیین قرائن کی بنیاد پر کی جاتی ہے لہذا اس کی تعیین بھی قرائن کی بنیاد پر ہوگی۔
یہ سب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کے ان تمام چیزوں کو اب نئے سرے سے جاننا ضروری ہے اس طفل مکتب کی معذرت کے ساتھ کہ شاید یہ فورم جوائن کرنے کا ابھی وقت نہ تھا۔ بہرحال چند سوالات ذہن میں ضرور آئے جو حیران کن ہیں (ان سوالات کے جوابات نہ دیجئے کہ آپ کو قیمتی وقت صرف ہوگا اور یہ وقت آپ دیگر ممبرز کو جوابات دینے میں لگاسکتے ہیں )
i) کیا مطلق خاص کی قسم ہے؟
ii) قسم اور قسیم میں کیا فرق ہے ؟
iii) مطلق کا مطلب ہے without any condition یعنی کسی قید سے آزاد ۔ جیسے الطلاق مرتن میں الطلاق مطلق ہے اب یہ مطلق آزاد ہے ہر قید سے ( جب تک نصوص وارد نہ ہوں یہاں پر الطلاق کا لفظ صرف بطور مثال لایا گیا ہے ) یعنی مطلق وہ ہوتا ہے جو کیا کیوں کب کہاں کیسے سے آزاد ہو
مثال کے طور پر
i) طلاق کیوں دی؟ ج) کسی بھی وجہ سے دی ہوجائے گی۔
ii) کب دی ج)کبھی بھی دی ہوجائے گی۔
ii) کہاں دی ج) کہیں بھی دی ہوجائے گی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ آپ نے زبردست بات کہی اس سے اگرچہ میرے اشکالات دور نہیں ہوئے مگر اس بات نے لاجواب ضرور کردیا۔
غور کیجیے تو اشکالات بھی دور ہو جائیں گے۔ اصول فقہ بہت باریک مضمون ہے کیوں کہ اس کی بنیاد پر قرآن و حدیث سے استنباط کیا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے صرف کتاب میں لکھا ہوا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ انتہائی تیز اور معتدل فہم بھی ضروری ہوتی ہے۔
بسا اوقات ایک لفظ واضح نظر آرہا ہوتا ہے لیکن اصول فقہ کے عمومی قاعدہ پر اس کا انطباق کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عقل کے خلاف ہو جاتا ہے۔


محترم ! یہ قاعدہ کسی اور نے بھی بتایا تھا کہ جب کچھ افراد عقلا خارج ہوں تو عام مخصوص ہو کر بھی ظنی نہیں ہوتا ۔ میں کم فہمی کی بناء پر یہ قاعدہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نابالغ عقلا کیوں خارج ہوا مثال کے طور پر بالغ ہونے سے صرف ایک دن پہلے اس میں ایسی کیا بات تھی جس کی بناء پر وہ عقلا خارج ہورہا تھا اور ایک دن بعد اب نہیں ہورہا۔ ( اور یہ بھی جب ہے کہ جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ عقلا خارج ہونا ظن پیدا نہیں کرتا )
اگر اس قاعدے کو ہم تسلیم نہ بھی کریں تو یہ سمجھیے کہ کوئی بھی امر جو باری تعالی کی طرف سے ہو وہ ان کے لیے ہوتا ہے جو مکلف ہوں۔ یعنی جو وہ کام کر سکیں۔
اب ایک چھوٹا بچہ ایک کام کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ کر سکتا ہے تو ہم کسی عاقل سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ اسے اس کام کا حکم دے گا چہ جائیکہ شارع کے بارے میں یہ سوچیں۔
یہ دو باتیں تو واضح ہیں یعنی امر مکلفین کے لیے ہوتا ہے اور چھوٹا بچہ مکلف نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے اور بڑے کی حد کیا ہے؟ تو شریعت نے بلوغ کو حد متعین کر دیا ہے۔
اقیمو الصلاۃ اور اٰتوا الزکاۃ سے لے کر چھوٹے چھوٹے اوامر تک تقریبا سب اسی قاعدہ پر چلتے ہیں۔ ہم اسے یوں کہیں گے کہ بچہ اس امر میں ابتداء سے داخل ہی نہیں کیوں کہ وہ اسے سمجھ کر عمل نہیں کر سکتا۔ تخصیص ان کی ہوتی ہے جو داخل ہوں۔


یہ سب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کے ان تمام چیزوں کو اب نئے سرے سے جاننا ضروری ہے اس طفل مکتب کی معذرت کے ساتھ کہ شاید یہ فورم جوائن کرنے کا ابھی وقت نہ تھا۔
حیرت ہے۔ کیوں وقت نہیں تھا۔ بھائی میں بھی ایک طالب علم ہوں اور یہاں سیکھنے کے لیے آتا ہوں۔ آپ بھی سیکھئے۔ یہاں تو بڑے بڑے اہل علم افراد بھی موجود ہیں۔

i) کیا مطلق خاص کی قسم ہے؟
جی۔
التمهيد: تقسيم اللفظ الخاص باعتبار الحالة الملابسة له إلى المطلق والمقيد
المطلق و المقید 1۔111 ط عمادۃ البحث العلمی


ii) قسم اور قسیم میں کیا فرق ہے ؟
لفظ کی پہلی تقسیم کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں:۔
خاص، عام، مشترک، مؤول
یہ چاروں لفظ کی "قسم" ہیں اور ایک دوسرے کے اعتبار سے "قسیم" ہیں۔ یعنی خاص قسیم ہے عام، مشترک اور مؤول کی۔
دو قسیم ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔


iii) مطلق کا مطلب ہے without any condition یعنی کسی قید سے آزاد ۔ جیسے الطلاق مرتن میں الطلاق مطلق ہے اب یہ مطلق آزاد ہے ہر قید سے ( جب تک نصوص وارد نہ ہوں یہاں پر الطلاق کا لفظ صرف بطور مثال لایا گیا ہے ) یعنی مطلق وہ ہوتا ہے جو کیا کیوں کب کہاں کیسے سے آزاد ہو
مثال کے طور پر
i) طلاق کیوں دی؟ ج) کسی بھی وجہ سے دی ہوجائے گی۔
ii) کب دی ج)کبھی بھی دی ہوجائے گی۔
ii) کہاں دی ج) کہیں بھی دی ہوجائے گی۔
نہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لفظ مطلق ہر لحاظ سے ہر قید سے آزاد ہوگا۔ بلکہ وہ کسی خاص اعتبار سے قیود سے آزاد ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے۔ والیطوفوا بالبیت العتیق۔ والیطوفوا کا مطلب خوب چکر لگاؤ۔ یہ مطلق ہے۔ لیکن اس میں اطلاق اس جہت سے ہے کہ چکر لگانے میں کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔
لیکن اگر اسے اس جہت سے دیکھیں کہ چکر لگانے کس طرف سے ہیں۔ دائیں یا بائیں؟ تو اس لحاظ سے یہ مبہم ہے۔
اور اس جہت سے دیکھیں کہ طواف سے مراد طواف لغوی جو سات چکروں کا ایک چکر ہوتا ہے، بھی ہو سکتا ہے اور طواف اصطلاحی بھی تو یہ مشترک ہے۔

تو اطلاق کسی ایک سمت میں ہوتا ہے کم از کم۔ اور جب ایک سمت میں اطلاق ہو جائے تو باقی سمتوں میں وہی لفظ مجمل یا مشترک وغیرہ ہو سکتا ہے۔

آپ نے جو طلاق کی مثال دی۔ اس میں سوتے ہوئے شخص کی طلاق کسی کے نزدیک بھی نہیں ہوتی؟ کیوں؟ اس کی تخصیص کہاں سے ہوئی؟
حقیقت یہ ہے کہ وہ حکم میں ابتداء سے ہی داخل نہیں تھا کیوں کہ وہ حکم کو سمجھ کر عمل کر ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تو سو رہا ہے۔
اور تخصیص اس کی ہوتی ہے جو داخل ہو۔ تو یہ ایک الگ جہت ہے جس سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

واللہ اعلم
 
Top