• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القاعدہ مسلمان ممالک کی دفاعی قوت کو کمزور کر رہی ہے !!!!

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
ابن اسحاق مہدی کی ایک تحریر ملی جس میں کچھ اضافے کرنے کے بعد شائع کررہاہوں۔
عالمی صہیونی تحریک اور پاکستان ۔۔۔۔۔۔
جب اللہ نے یہودیوں پر ذلت مسلط کی تو وہ پوری دنیا میں در بدر ہوگئے ۔۔۔ انکا کوئی ملک نہ رہا ۔۔۔۔ تالمود وغیرہ میں انکو نصیحت کی گئی ہے کہ اب تم کبھی اکھٹے نہ ہونا اگر ہوگئے تو دنیا سے فنا ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔​
پچھلے دو ہزار سال سے یہی صورت حال رہی لیکن پھر ان میں ایک فرقہ پیدا ہوا جس نے کوئی پرانی دستاویزات اور نقشے فراہم کیے اور ان سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر ہم دوبارہ وہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو حضرت موسی {ٰع} اور عروج کے دور میں بنائی تھی تو خدا وند خود زمین پر آکر ہماری عالمی بادشاہت قائم کر دے گا اسی کو یہ آنے والا مسیحا کہتے ہیں اور دیوار گریہ کے پاس رو رو کر اس کی آمد کو قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اس میں پورا فلسطین ، اردن ، سیریا، لبنان، شام ، عراق ، مصر ، ایران کے کچھ علاقے اور مدینہ تک سعودی عرب کا علاقہ شامل ہے اسی کو یہ گریٹر اسرائیل کہتے ہیں آپ نوٹ کیجیے کہ دنیا کی ہر ملک کی سرحدیں ہیں لیکن اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جسکی سرحدیں نہیں ہیں اور یہ روزانہ بڑھتا رہتا ہے
(اور عالم اسلام کے سرحدوں کو کمزور کرنے کے لیے یہودیوں اور عسائیوں نے مسلمانوں میں کچھ ایسے گروہ پیدا کئے جنہوں نے بجائے کفار سے الجھنے کے اپنی ساری تگ و دو مسلمان ریاستوں میں شروع کردی،اور ان ممالک کی دفاعی قوتوں کا ایک بہت بڑا حصہ ملک کے اندر خانہ جنگی کی صورت میں مصروف کردیا۔جس سے کفار کو مسلمان ممالک پر قبضے کرنا انتہائی آسان ہوگیا۔)
یہ عقیدہ رکھنے والے یہودی بہت تھوڑے ہیں اور باقی یہودی انکو بدعتی کہتے ہیں کہ انہوں نے ملک بنا کر ہمارے دین میں نئی بات نکالی ہے اور ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف عسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی{ع} کو مصلوب کیا جسکی وجہ سے وہ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور پچھلے دو ہزار سال سے یہ یہودیوں سے برابر اسکا خوفناک انتقام لیتے رہے اور یہودیوں کو قتل کرنا کار ثواب سجھتے رہے اسکی کافی لمبی تاریخ ہے ۔۔۔۔پھر یہودیوں نے ان پر محنت کی اور ان میں ایک فرقہ پیدا کیا جن کو یہ بتایا گیا کہ جب تک عیسی{ٰع} تشریف نہیں لاتے اس وقت تک عیسائیوں کی پوری دنیا میں عالمی حکومت قائم نہیں ہو سکتی اور عیسی{ع} تب ہی تشریف لائیں گے جب دجال کا ظہور ہوگا اور دجال کا ظہور تب ہی ہوگا جب گریٹر اسرائیل بن جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عیسائیوں کا صہیونی فرقہ ہے جس سے باقی عیسائی نفرت کرتے ہیں اور انکو بدعتی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہودیوں سے دوستی کر کے دین میں نئی بات نکالی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی صہیونیوں نے بینکنگ سسٹم اور جوئے یا اسٹاک ایکسچیج کے ذریعے پوری دنیا کی دولت کو کنٹرول کر لیا پھر اس دولت کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کر کے تقریباً تمام بڑی مغربی طاقتوں پر اپنی خفیہ حکومت قائم کر لی اور ان کے حکمران عیسائی صہیونی بنا دئیے گئے جن میں بش اور اوباما بھی شامل ہیں جو انکی مرضی کے خلاف کوئی حرکت نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صہیونی تحریک پوری دنیا میں فساد کی اصل جڑ ہے اور انکا مقصد گریٹر اسرائیل کو قائم کر کے اپنے مسیحا کی آمد کی راہ ہموار کرنا ہے انکے اس مسیحا کو ہم دجال کے نام سے جانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اپنا سارا کام تقریبا کر چکے ہیں صرف ایک رکاوٹ باقی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کونسی ؟؟؟
مملکت خدادا پاکستان کا وجود ، ہمارا نیوکلیر میزائل پروگرام۔۔۔۔۔۔ انہیں یہ یقین ہے کہ مدینہ تک ان کے بڑھتے ہوئے قدم ایک نیوکلیر پاکستان ہی روک سکتا ہے پاکستان کے معاملے میں ہمیشہ ان سے شدید غلطیاں ہوئی ہیں اور اب انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔ بہت جلد یہ اپنا آخر پتا کھیلیں گے جو انڈیا اور پاکستان کی جنگ کی صورت میں ہوگا۔۔۔۔۔ اس کی وضاحت انشاءاللہ پھر کرونگا فی الحال پاکستان کے بارے میں انکا نقطہ نظر بتانے کے لیے دو تراشے شامل کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں کچھ خفیہ طور پر اور کچھ ظاہرً پاکستان کے ہاتھوں شدید زک کھانے کے بعد اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے پیرس کی ساربون یونیورسٹی میں ممتاز یہودیوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔ پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی جواب ہے۔پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعث مصیبت بن سکتی ہے ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہئے ۔بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری بلکہ مفید بھی ہے ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہئیے جو ہندو پاکستان اور اس میں رہنے وا لے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے ۔ یہ تاریخی دشمنی ہمارے لیے زبردست سرمایہ ہے۔لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئیے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں"۔۔۔۔۔۔
{یروشلم پوسٹ 9 اگست 1967}
یہی بات ایک دوسرے پیرائے میں امریکی کونسلز فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے زیر اہتمام چھپنی والی کتاب " مشرق وسطی سیاست اور عسکری وسعت " میں کہی گئی ہے اور اس میں پاک افواج کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اس میں لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پاکستان کی مسلح افواج نظریہ پاکستان ، اس کے اتحاد و سالمیت اور استحکام کی ضامن بنی ہوئی ہیں ۔ جبکہ ملک کی سول ایڈمنسٹریشن بلکل مغرب زدہ ہے اور نظریہ پاکستان پر یقین نہیں رکھتی"۔۔۔۔
اس کتاب کا مصنف عالمی شہریت یافتہ یہودی پروفیسر سی جی پروئینز ہے جس نے بڑی کاوش سے مستند حوالوں کو یکجا کیا تا کہ یہودی اصل ہدف کو پہچان سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہزاروں ایسے کام ہورہے ہیں جن کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔جن سے اہل اسلام کے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے۔لیکن اگر ہم عالم کفر کے کی ان سازشوں اور اسلام کے نام لیواؤں کے آپس میں الجھاؤ دیکھیں تو ہمیں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہی رہنمائی مل سکتی ہے۔
کہ جس نبی نے مدینہ کا دفاع کرنے کے لیے یہودیوں کے کفر کو برداشت کرلیا۔مکہ میں توحید کی دعوت کو مضبوط اور منظم کرنے کے لیے خانہ کعبہ میں پڑے تین سو ساٹھ بتوں کو برداشت کرلیا۔اور اپنی ساری کی ساری توانائیاں عالم کفر کے سرداروں کے خلاف صرف کیں(جن کے بارے قرآن بھی کہتا ہےکہ :آئمہ کفر کے سرداروں کو قتل کرو)
اور جب بڑے بڑے کفر کے سردار(جس کی مثال آج کے دور میں امریکہ اور اسرئیل ہیں،اور ان کے ہمنواء ایران،انڈیا اور اسلام کے لباس میں ملبوس القائدہ اور ٹی ٹی پی کے ہمنواء ہیں
اگر یہ اپنی ساری توانائیں مسلم حکمرانوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے عالم کفر کے خلاف استعمال کرتے تو اس سے دو فائدے لازمی طور پر ہونے تھے۔
1-عالم کفر جس حد تک اب کمزور ہے اس سے کہیں زیادہ کمزور ہو جانا تھا۔
2-جن مسلم ممالک میں جنگ برپا کی گئی ہے،جس کے نتیجے میں ان ممالک نے باقی جہادیوں کے حالات بھی تنگ کر دئے،آج یہ صورت حال نہیں ہونی تھی۔

اس لیے جہاں باقی ممالک میں اسلام کا نام لینے پر امریکہ اسرائیل سے قدرے آسانی اور آزادی ہے،وہاں پر دعوت کا کام کرکے اپنے آپ کو منظم اور مضبوط کرکے کفر کے سرداروں سے لڑکر بیرونی خطرات سےاپنے آپکو محفوظ کرنے کے بعد ان ممالک میں اصلاحی تگ ودو شروع کریں۔جس میں خصوصی طور پر پاکستان کی صورت حال سامنے آرہی ہے۔
نظریہ پاکستان کے حوالے سے اس مصنف کی تحقیق بالکل درست ہے ذرا جائزہ لیجیے کہ نظریہ پاکستان پر آجکل کتنی کمندیں ڈالی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ایک غیر معمولی ملک ہے اللہ کا ایک راز ہے اور اس سے اللہ نے بہت اہم کام لینا ہے ۔۔۔۔ اسکو سمجھیں ۔۔۔۔۔ پاکستان، نظریہ پاکستان اور پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کے خلاف جو بھی بولے وہ نہ اسلام کا خیر خواہ ہو سکتا ہے نہ مسلمان کا۔۔۔۔۔۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
یہاں پر کچھ ارشاد فرمانا پسند فرمائیں گے ابوزینب
؟؟؟؟
اللہ تمام مسلمانوں کو خارجیوں کے فتنے سے محفوظ رکھے
آمین ثم آمین
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یہاں پر کچھ ارشاد فرمانا پسند فرمائیں گے ابوزینب
؟؟؟؟
اللہ تمام مسلمانوں کو خارجیوں کے فتنے سے محفوظ رکھے
آمین ثم آمین
جگر تھام کے بیٹھو کہ اب میری باری ہے:
سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان کیلئے مددگار قرار دیا ہے۔اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں نظریاتی ریاستیں ہیں، اس لیے پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے ان کی ہدایت پر اسرائیل کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جمہوریت کا علمبردار ہے مگر حماس کی فتح قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستانی فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہیں تاہم یہودیوں کے خلاف نہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے میں تمام پاکستانی انکے ساتھ ہیں - See more at: http://waqtnews.tv/20861#sthash.PyubMQdq.dpuf - See more at: http://waqtnews.tv/20861#sthash.PyubMQdq.dpuf
تل ابیب(آئی این پی+ نوائے وقت نیوز)اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے لئے اسرائیل نے پاکستان کو جے ایف۔تھنڈر ٹیکنالوجی فراہم کی ،گزشتہ پانچ سال کے دوران برطانوی حکومت کے اجازت نامے سے اسرائیل پاکستان سمیت کئی عرب ممالک کو دفاعی سازوسامان فروخت کرنے کی کوشش کر چکا ہے ،پاکستان کے علاوہ اسرائیل نے جن ممالک کو اپنی دفاعی مصنوعات فراہم کی ہیں ان میں مصر ،الجیریا،متحدہ عرب امارات اور مراکش شامل ہیں۔اسرائیلی اخبار" ہرٹز" نے برطانوی ادارے سکل اینڈ انوویشن کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ برطانوی حکام کو اسرائیل کی جانب سے دسمبر 2008سے دسمبر2012سینکڑوں درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں اسرائیلی حکام کی جانب سے اپنا دفاع مضبوط بنانے کے لئے برطانوی اسلحہ کی خریداری کے علاوہ اسرائیلی سازوسامان کی برآمدات بڑھانے کے لئے تیسری دنیا کے ملکوں تک رسائی کے لئے اجازت نامے طلب کئے گئے ہیں۔اخبار کے مطابق برطانوی حکام کی جانب سے جاری رپورٹ میں ان ملکوں کی فہرست بھی شائع کی گئی جنہیں اسرائیل نے اپنی مصنوعات برآمد کرنے کی کوشش کی ۔ان ملکوں کی فہرست میں ایسے ملک بھی شامل ہیں جن کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔رپورٹ کے مطابق 2011میں اسرائیل پاکستان کو راڈار سسٹم کے ساتھ ساتھ ،الیکٹرونک وار فیئر سسٹم ،ہیڈ اپ کاک پٹ ڈسپلے ،لڑاکا طیاروں کے پرزے اور انجن ،تربیتی طیاروں کے پرزہ جات برآمد کرنے کے لئے برطانوی پرزے خریدنے کی کوشش بھی کر چکا ہے ۔اس سے قبل 2010میں بھی پاکستان کو الیکٹرانک وارفیئر سسٹم برآمد کرنے کے لئے اسرائیل برطانیہ سے راہداری حاصل کرنے کی کوشش کر چکا ہے ۔ 2009میں اسرائیل نے مراکو کو دفاعی ساز و سامان کی برآمد کے لئے برطانوی حکام کو درخواست دی تھی ۔اس میں مراکو کے ساتھ الجےریا اور متحدہ عرب امارات کو دفاعی سازوسامان کے ساتھ ڈرون ٹیکنالوجی کے آلات برآمد کرنا بھی شامل تھے ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے جن ممالک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان میں بھارت،سنگاپور،ترکی،ویت نام ،جنوبی کوریا،جاپان،سویڈن ،پرتگال ،امریکہ ،کینیڈا آسٹریلیا،نیوزی لینڈ ،کولمیبیا ،ہالینڈ ،اٹلی،جرمنی،سپین،تھائی لینڈ،بیلجیئم،برازیل، میکسیکو،فن لینڈ ،آئر لینڈ اور ارجنٹینا سمیت کچھ دوسرے ملک بھی شامل ہیں ۔ آئی ایس پی آر نے اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے دفاعی آلات خریدنے کی میڈیا رپورٹس میں صداقت نہیں۔ یہ رپورٹ گمراہ کن ہے اور حقائق کے برخلاف ہے،پاکستان نے اسرائیل سے کوئی دفاعی سامان نہیں خریدا ہے۔(خوارج کی تردید بے کار ہے۔کیونکہ اوپر ان کے امیر کابیان ہی کافی ہے)http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/12-Jun-2013/211859
اگرچہ باضابط معنوں میں کبھی بھی پاکستان کے اسرائیل سے کسی بھی نوعیت کے براہ راست تعلقات نہیں رہے لیکن پاکستان کی فلسطینی پالیسی کی بنیاد اس ملک کے بانی محمد علی جناح کے ان بیانات میں ڈال دی گئی تھی جو انہوں نے مئی انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطین کے حق خود ارادیت کے حق میں دیئے تھے۔ اور اس زمانے میں پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ نے اقوام متحدہ کے ہر فورم سے فلسطینی کاز کی حمایت میں زبردست تقریریں کی تھیں۔
جس دور میں بھی پاکستان سٹریٹجک لحاظ سے امریکہ کے قریب آیا اسرائیل سے اس کے ممکنہ تعلقات کا معاملہ کسی نہ کسی سطح پر اٹھتا ضرور رہا۔ اور اس بارے میں اطلاعات اور قیاس آرائیاں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں نہیں ہوئیں بلکہ ہر خبر کا ماخذ اسرائیل اور مغربی ذرائع ابلاغ ہی رہے۔ مثلاً انیس سو پچپن میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا کے زمانے میں اسرائیلی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈی جی نے دِلّی جاتے ہوئے کراچی میں ایک رات قیام کیا۔
انیس سو اکسٹھ میں جب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے معدنی وسائل اور پٹرولیم کے وزیر تھے تو انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ اس دوران انہوں نے اس وقت جنیوا میں مقیم اسرائیلی مندوب سے ملاقات کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ذاتی نوعیت کی ملاقات تھی کیونکہ مذکورہ اسرائیلی مندوب کے والد لاڑکانہ میں مجسٹریٹ کے فرائض انجام دے چکے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو کے دوستوں میں سے تھے۔
انیس سو ساٹھ کے عشرے کے آخر میں جب بیگم رعنا لیاقت علی خان ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر تھیں تو انہوں نے پاکستان کے قومی دن کے موقع پر جن سفارتکاروں کو ریسپشن میں مدعو کیا اس میں ہالینڈ میں اسرائیلی سفیر بھی شامل تھے۔
تاہم ذوالفقار علی بھٹو جب انیس سو ستر کے عشرے میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ان کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں دوری پیدا ہونا شروع ہوئی۔ بالخصوص انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بھٹو حکومت نے عرب ملکوں خصوصاً شام کی جس طرح کھل کر سٹریٹیجک حمایت کی اور اس جنگ کے بعد تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کی جانب سے مغرب کو تیل کی فراہمی روکنے کے معاملے میں پاکستان نے جس طرح کھل کر عربوں کا ساتھ دیا اس دور میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین کسی قسم کے غیر رسمی رابطے کے کوئی آثار نہیں ملتے۔
لیکن جب جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت آئی اور افغان جنگ شروع ہوئی تو پاکستان پھر سے سن پچاس کے عشرے کی طرح امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادیوں میں شمار ہونے لگا۔ اس زمانے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی اطلاعات آئیں کہ اسرائیل نے انیس سو اڑسٹھ اور انیس سو تہتر کی جنگوں میں شام اور مصر سے جو روسی ساختہ اسلحہ چھینا تھا اسے سی آئی اے کے توسط سے افغان مجاہدین تک پہنچایا گیا ہے۔
سی آئی اے نے اس قسم کا اسلحہ مصر سے بڑی مقدار میں خریدا کیونکہ مصر اس وقت روسی اسلحہ کا استعمال ترک کر چکا تھا۔
ایسی اطلاعات بھی آئیں کے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکار سی آئی اے کے اہلکاروں کے ہمراہ پشاور میں کچھ افغان تنظیموں کو سبوتاژ کی تکنیک سکھانے میں مصروف ہیں۔
جب مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بنا تو مراکش کو چھوڑ کر ہر عرب ملک نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیئے بلکہ اسے اسلامی کانفرنس کی رکنیت سے بھی معطل کر دیا گیا لیکن پاکستان کے نہ صرف مصر سے تعلقات قائم رہے بلکہ ضیا الحق نے مصر کو دوبارہ اسلامی کانفرنس میں لانے کی ذاتی کوششیں بھی کیں۔
انیس سو ترانوے چھیانوے کے دوران بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان نے خاصی کوشش کی کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات سے اظہار یکجہتی کے لیے بغیر اسرائیلی ویزہ لیے غزہ اور غرب اردن کا دورہ کر سکیں لیکن حکومت اسرائیل نے اس پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔
جب انیس سو ننانوے میں صدر جنرل مشرف برسر اقتدار آئے تو اسرائیل کی مخلوط حکومت کے وزیر اعظم شمون پیریز نے کہا کہ اسرائیل کا پاکستان سے کوئی جھگڑا نہیں اور ان کا ملک پاکستان سے تعلقات بحال کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
اس زمانے میں اسرائیل اور بھارت کے باضابطہ تعلقات بھی قائم ہو چکے تھے اور یہ خبریں آنے لگیں تھیں کہ اسرائیل بھارت کے تعاون سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ برس پہلی بار یہ عندیہ دیا کہ اسرائیل اگر مقبوضہ فلسطینی علاقےخالی کر دے تو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات پر غور ہو سکتا ہے۔ ان کے اس بیان پر پاکستان میں خاصی بحث ہوئی تھی اور حکومت کو یہ کہنا پڑا کہ اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اب جب پاکستان امریکہ کا قریب ترین سٹریٹیجک اتحادی ہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں بھی بھرپور مرحلے میں ہیں اور اسرائیل کے چین اور بھارت سے بھی معمول کے تعلقات قائم ہیں۔
اور خود فلسطینیوں کو بھی بظاہر اس معاملے پر کوئی اعتراض نہیں اور کئی مسلمان ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔
حکومت پاکستان اس فضا میں غالباً یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام سے پاکستان کا روش خیال اور اعتدال پسند ملک ہونے کا امیج اور بہتر ہوگا۔http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2005/09/050901_pak_israel.shtml
حقیقت اور بھی ثابت ہوجاتی ہے جب دشمن بھی اس حقیقت کا خود اعتراف کرلے۔اسرائیل ٹوڈے نامی اخبار نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ۶۰ سال پر محیط فوجی اور حکومتی تعلقات کا بھانڈا پھوڑ دیا۔اسرائیل پاکستان کے فوجی ٹینکوں کو اپ گریڈ کرکے دیتارہا۔
اس حقیقت کو پاکستان کے میڈیا بھی بیان کئے بغیر نہ رہ سکا۔اس کے لئے درج ذیل لینک سے ویڈیو ڈاون لوڈ کیجئے اور دوسروں سے بھی شیئر کریں۔یوٹیوب اور فیس بک پر بھی زیادہ سے زیادہ اپ لوڈ کریں۔
http://www.sendspace.com/file/kcz0z6
ڈائیریکٹ دیکھنے کے لئے لنک:
http://dunyanews.tv/index.php/ur/pv/Top-Story/8164/ep-8610/All/2013-02-20
اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے خفیہ روابط۔1947 کے آخر میں ابھی جبکہ اسرائیل کی مملکت قائم نہیں ہوئی تھی کہ عالمی صہیونی تنظیم کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے جو بعد میں اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے ، بانی پاکستان قاید اعظم محمد علی جناح کو ایک خفیہ تار بھیجا تھا جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی لیکن قائد اعظم نے اس تار کا جواب تک نہیں دیا اور یوں بن گوریان کی اس خواہش کو ٹھکرادیا تھا وجہ اس کی واضح تھی کیونکہ انہوں نے اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے 1945میں بالفور اعلانیہ کی شدید مخالفت کی تھی جس کے تحت برطانیہ نے فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کی تجویز قبول کی تھی یہی نہیں انہوں نے فلسطین کی تقسیم کی سخت مخالفت کی تھی ۔ لیکن بانی پاکستان کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں اور انگریز نواز بیوروکریٹس کی یہ کیسی وفاداری تھی کہ ان کی وفات کے فورا بعد امریکا کے دباؤ اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ان کی بے تابی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔
اب تک جتنے بھی حکمران بر سر اقتدار آئے ہیں سب نے بلا امتیاز و تفریق اسرائیل سے روابط قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پچھلے دنوں پاکستان اور امریکا کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان اشتراک عمل کے بارے میں واشنگٹن کے مذاکرات میں امریکیوں کی طرف سے زور دیا گیا تھا کہ جس طرح ISIکے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کے دور میں ISIاور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے درمیان اشتراک عمل رہا ہے وہ موثر طور پر بحال کیا جائے اور موجودہ حکمرانوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے راضی کیا جائے۔
1949میں اقوام متحدہ میں اس زمانہ کے اسرائیلی مندوب ابا ایبان نے اپنی حکومت کو اطلاع دی تھی کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں ہندوستان سے بازی لے جانا چاہتا ہے ۔ بنیاد اس اطلاع کی ان خفیہ رابطوں پر تھی جو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور ابا ایبان کے درمیان ہوئے تھے۔ فروری 1952میں مصر کے دورہ میں سر ظفراللہ خان نے کہا تھا کہ اسرائیل کو مشرق وسطی کے جسم کا ایک بازو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ 1953میں سر ظفر اللہ خان نے نیویارک میں ابا ایبان اور اسرائیلی وزارت خارجہ کے بانی گڈیون رفائیل سے ملاقات کی تھی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکان پر بات چیت ہوئی تھی۔ اس بات چیت کے بارے میں ابا ایبان نے اپنی حکومت کو مطلع کیا کہ سر ظفراللہ خان نے انہیں بتایا کہ لیاقت علی خان کے زمانہ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بات آسان تھی لیکن اب چونکہ نئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کمزور ہیں اس لیے وہ عوامی رائے عامہ سے ڈرتے ہیں اور وہ یہ فیصلہ نہیں کریں گے ۔ ظفر اللہ خان کا کہنا تھا کہ گو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان یہودی مملکت کے خلاف ہے۔
1955میں جب امریکا نے پاکستان ترکی عراق ایران اور برطانیہ پر مشتمل بغداد پیکٹ کے نام سے فوجی بلاک قائم کیا تو اس وقت سر ظفر اللہ خان نے زور دیا تھا کہ اس بلاک میں اسرائیل کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر یہ بلاک مضبوط ثابت نہیں ہو سکے گا لیکن عرب ممالک کے ممکنہ رد عمل کے پیش نظر سر ظفراللہ خان کی یہ تجویز ترک کر دی گئی۔ 1956کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دسمبر میں اٹاوہ میں ہندوستان کے ہائی کمیشن نے وزیر اعظم نہرو کے اعزاز میں جو ضیافت دی تھی اس میں پاکستان کے ہائی کمشنر مرزا عثمان علی بیگ اور اسرائیلی سفیر ایم ایس کومے بھی شریک تھے۔ اسرائیلی سفیر کومے نے اس ضیافت کے بارے میں جو رپورٹ دی اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پاکستانی ہائی کمشنر بیگ میرے پاس آئے اور مجھ سے ہاتھ ملا کر مبارک باد پیش کی کہ ایک چھوٹی سی شاندار اسرائیلی فوج نے مصریوں کو کس بری طرح سے پیٹا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ برطانیہ اور فرانس نے مداخلت کی ورنہ آپ قاہرہ کو فتح کر سکتے تھے۔ اسرائیلی سفیر کے مطابق ہائی کمشنر بیگ نے خواہش ظاہر کی کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے اور اس سلسلہ میں ترکی اہم رول ادا کر سکتا ہے ۔
فروری 1974میں لاہور میں دوسری اسلامی کانفرنس کے انعقاداور اس موقع پر پی ایل او کو فلسطینوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کرنے پر ذوالفقار علی بھٹو کی تعریف کی جاتی ہے لیکن ماضی میں اسرائیل کے ساتھ ان کے جو روابط رہے ان کے پیش نظر ان کی ایک مختلف شخصیت سامنے آتی ہے ۔ 1957میں وہ جب ملک فیروز خان نون کی قیادت میں اقوا م متحدہ میں پاکستانی وفد میں شامل تھے تو ان کی اسرائیلی نمائندہ شبتال روزینے سے ملاقاتیں رہیں جن کے بارے میں شبتال نے اپنی حکومت کو لکھا کہ بھٹو کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک سیاسی حقیقت ہے اور پاکستان کے مفاد میں ہوگا کہ اسے تسلیم کیا جائے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں اس سے زیادہ سنسنی خیز انکشاف امریکی مصنفہ لاوری ملرؤی نے اپنی کتاب 'اسٹڈی آف ریوینج' میں کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جون 1981میں اسرائیل نے عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب حملہ کر کے اوسعی ریک کے جوہری ری ایکٹر کو جو تباہ کیا تھا وہ بڑی حد تک پاکستان کی آئی ایس آئی کی ان خفیہ معلومات کا مرہون منت تھا جو اس نے عراق کے جوہری پروگرام کے بارے میں جمع کی تھیں۔ لاوری ملرؤی کا کہنا ہے کہ 1977کے اوائیل میں ذوالفقار علی بھٹو نے آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی خفیہ اطلاعات اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو فراہم کرے یوں اسرائیل کو عراق کے اوسعی ریک کے ری ایکٹر کو تباہ کرنے میں مدد ملی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ جون 1981میں اسرائیل نے عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب حملہ کر کے اوسعی ریک کے جوہری ری ایکٹر کو جو تباہ کیا تھا وہ بڑی حد تک پاکستان کی ISIکی ان خفیہ معلومات کا مرہون منت تھا جو اس نے عراق کے جوہری پروگرام کے بارے میں جمع کی تھیں۔ یہ دراصل ایک انتقامی کاروائی تھی کیونکہ صدام حسین ان دنوں بلوچستان میں باغیوں کی مدد کر رہے تھے اور انہیں اسلحہ فراہم کر رہے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اسی بنیاد پر سن 80کے عشرہ میں آئی ایس آئی کو موساد کے ساتھ روابط قائم کرنے کی ہدایت کی تھی اور اس مقصد کے لیے واشنگٹن میں پاکستان اور اسرائیلی سفارت خانوں میں خاص شعبے قائم کیے گئے تھے ۔اسی دوران افغانستان میں سویت یونین کے خلاف مجاہدین کو سویت ساخت کا اسلحہ فراہم کرنے کے لیےسی آئی اے، آئی ایس آئی اور اسرائیلی موساد نے ' آپریشن سائیکلون' کے نام سے مشترکہ کاروائی کی تھی۔اسی زمانہ میں جنرل ضیاء نے کہا تھا کہ اسرائیل پاکستان کی طرح نظریاتی مملکت ہے اور انہوں نے پی ایل او پر زور دیا تھا کہکہ وہ یہودی ریاست کو تسلیم کر لے۔
بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور میں جب کہ و ہ امریکا کے بہت قریب آئی تھیں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات استوار کرنے کی منظم کوشش کی تھی۔ 1993میں بے نظیر بھٹو نے اپنے امریکا کے دورہ میں غیر معمولی طور پر اپنے وفد میں جنرل مشرف کو شامل کیا تھا جو اس زمانہ میں ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر تھے۔اس دورہ میں نیویارک میں اسرائیل کے اعلی نمائندوں کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی خفیہ ملاقات میں جنرل مشرف کو خاص طور پر شریک کیا گیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد بے نظیر بھٹو نے نے ہدایت کی تھی کہ آئی ایس آئی اور موسادکے درمیان قریب ترین روابط قائم کیے جائیں۔ 1995 میں بے نظیر بھٹو اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان ایک اور ملاقات ہوئی جس میں شرکت کے لیے جنرل مشرف کو نیو یارک طلب کیا گیا تھا۔ نواز شریف کے زمانہ میں واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر عابدہ حسین نے ورلڈ جیوش کانگریس کے نایب صدر کے اسلام آباد کے دورہ کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کا جائز ہ لیا گیا تھا اور یہ طے ہوا تھا لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے توسط سے دونوں ملکوں کے درمیان روابط کو فروغ دیا جائے گا۔ جس روز آسی لیبل کی پاکستان کے ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی اسی روز صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں نواز شریف کی حکومت برطرف ہو گئی اور یوں سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں1996 میں پاکستان کے آٹھ صحافیوں کے اسرائیل کے پر اسرار دورے کا اہتمام کیاتھا پھر 1998میں ایک خفیہ قاصد اسرائیل بھیجا جس نے وزیر اعظم نتھن یاہو کو یقین دلایا کہ پاکستان ایران کو جوہری ٹیکنالوجی منتقل نہیں کرے گا۔
فوجی آمر پرویز مشرف نواز شریف سے ایک ہاتھ آگے رہے۔ انہوں نے آئی ایس آئی کو ہدایت کی کہ اس نے ایران اور لیبیا کے جوہری پروگراموں کے بارے میں جو خفیہ اطلاعات جمع کی ہیں وہ تمام کی تمام اسرأیل کے خفیہ ایجنسی موساد کو فراہم کردے۔اسی کے ساتھ ان دونوں خفیہ اداروں کے درمیان قریبی رابطہ اور تعاون کو فروغ دیا گیا۔ پھر 2003 میں صدر بش نے پرویز مشرف کو کیمپ ڈیوڈ بلابھیجا جہاں ان پر دباؤ ڈالا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تاکہ دھشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد مل سکے۔ اس ملاقات میں پاکستان کو دھشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد دینے کے عوض پانچ سال کے دوران 3ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے بعد جنرل مشرف نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی استواری کا امکان ظاہر کیا تھااور اسی سلسلہ میں ان کے وزیر خارجہ قصوری نے استنبول میں اسرائیل کے وزیر خارجہ شولوم سے ملاقات کی تھی جسے اسرائیلی صحافیوں نے تاریخی ملاقات قرار دیا تھا۔ اس کے فورا بعد امریکن جیوش کانگریس نے نیو یارک میں پرویز مشرف کے اعزاز میں عشایہ دیا تھااور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تیزی سے پیش رفت ہوگی لیکن سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی نا خوشی نے راستہ مسدود کر دیا۔
غرض یہ ہے مختصر داستان پاکستان کے حکمرانوں کی اپنے قائداعظم کے موقف سے 'غداری' کی ۔ ممکن ہے کہ یہ دلیل اور جواز پیش کیا جائے کہ دنیا بدل گئی اور حالات بدل گئے لیکن کوئی یہ پوچھے کہ کیا مظلوم فلسطینیوں کے حالات بدلے ہیں؟ کیا انہیں اپنی آزاد مملکت کے حصول کی منزل ملی ہے؟ کیا ان لاکھوں فلسطینیوں کا اپنے وطن واپسی کا خواب پورا ہوا ہے جو پچھلے 65 برسوں سے پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں؟ اور اس وقت جب کہ غزہ کے عوام اسرائیلی محاصرہ میں قید ہیں؟ کیا پاکستان کے حکمرانوں کو زیب دیتا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرنے والوں سے دوستی کا ہاتھ ملائیں؟ بہر حال اب پھر امریکا پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمران امریکا کے اس دباؤ کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔
- See more at: http://www.theasians.co.uk/urdu/story/20120826_israel_pak_isi_asaf#sthash.nRfEEI4e.dpuf
مصنف کے بارے میں
آصف جیلانی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز' ۱۹۵۲ء میں روزنامہ امروز کراچی سے کیا ۔ ۱۹۵۹ء میں روزنامہ جنگ کراچی کے نامہ نگار کی حیثیت سے دلی میں تعینات ہوئے۔ یوں پاکستان کے کسی اردو اخبارکے پہلے کل وقتی بیرون ملک نامہ نگار تھے۔ 1965 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ کے دوران دلی میں گرفتار کر لئے گئے اور قیدیوں کے تبادلہ تک دلی کی تہاڑ جیل میں قید تنہائی کاٹی۔رہائی کے بعد ادارہ جنگ کے اخبارات کے یورپی نامہ نگار کی حیثیت سے لندن بھیجے گئے۔ اسی زمانہ سے بی بی سی لندن کی اردو نشریات میں حصہ لینا شروع کیا۔ لندن سے روزنامہ جنگ کے اجراء کے بعد ۱۹۷۳ء میں جنگ لند ن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۸۳ء میں بی بی سی لندن کی اردو نشریات کے عملہ میں شامل ہوئے اور ۱۹۹۴ میں سینئر پروڈوسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ان کی ۲ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۱۔ وسط ایشیا ۔ آزادی کا چیلنج۔۲ ساغر شیشے لعل و گہر۔
- See more at: http://www.theasians.co.uk/urdu/story/20120826_israel_pak_isi_asaf#sthash.nRfEEI4e.dpuf
خوامخواہ شرمندگی اٹھانی پڑی ابوبصیر صاحب آپ کو ۔ آپ نے ان حکمرانوں پر اعتبار کیا یہ تو پکے خائن نکلے ۔ پکے اسرائیل نواز نکلےَ
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
خوامخواہ شرمندگی اٹھانی پڑی ابوبصیر صاحب آپ کو ۔ آپ نے ان حکمرانوں پر اعتبار کیا یہ تو پکے خائن نکلے ۔ پکے اسرائیل نواز نکلےَ
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
بے کار محنت کی خوامخوہ سرور پر لوڈ ڈالا جارہا ہے۔ مندرجہ بالا تمام پوسٹرز کے دندان شکن جوابات دیئے جاچکے ہیں۔ابوبصیر اگر آپ کے پاس کچھ لکھنے کو ہے تو لکھیں اور اگر نہیں ہے تو کسی سے بھی مدد حاصل کرلیں۔جواب دینے کی صلاحیت تو آپ کی ختم ہوچکی ہے۔ اب صرف بار بار ان پوسٹروں ہی کو نازل کیا جارہا ہے جن کے جوابات گزشتہ پوسٹس میں دیے جاچکے ہیں۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
ابوزینب صاحب نے اخر کار دجالی میڈیا کے ساتھ ساتھ اسرائیلی رپورٹس کو بھی قبول کر لیا ۔ اب آپ پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کے متعلق بھی میڈیا رپورٹس کو قبول کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ابوزینب صاحب نے اخر کار دجالی میڈیا کے ساتھ ساتھ اسرائیلی رپورٹس کو بھی قبول کر لیا ۔ اب آپ پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کے متعلق بھی میڈیا رپورٹس کو قبول کر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کا انکار کرنے والا کوئی احمق ہی ہوسکتا ہے۔اس کے سوا کیا جا سکتا ہے؟
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ابو زینب بھائی:
کبھی سوال گندم جواب چنا کی مثال نہ بھی پوری کریں گے تو ہم آپ کے پھر بھی پہچان لیں گے۔
کیوں خوامخوہ وقت اور فورم کی جگہ سیاہ کرنے میں لگے ہو؟
ابو بصیر کے مضمون میں جو سرحدوں کو غیر محفوظ بنانے کی اسرائیل سازش سے نقاب کشائی کی گئی ہے جس کو ٹی ٹی پی احسن انداز سے سرانجام دے رہی ہے،اس پر بات کرنے کی بجائے بندر کی بھاگ دوڑ شروع کردیتے ہو۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top