• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القاعدہ نے داعش کو ناجائز قرار دے دیا

شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ہم نے حکومت پاکستان کو نا تو کبھی مورد الزام ٹھہرايا ہے اور نا ہی طالبان کے مختلف گروہوں اور دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دہشت گرد کاروائيوں کے ليے ذمہ دار سمجھا ہے۔ بلکہ ہم نے تو حکومت پاکستان، عوام اور افواج کی بے مثال قربانيوں کو ہميشہ تسليم بھی کيا ہے اور انھيں اجاگر بھی کيا ہے جو روزانہ کی بنياد پر اس عفريت کے خلاف نبردآزما ہيں۔
یہ آپ کا سفید جھوٹ ہے.کیونکہ امریکی حکومت کئی بار پاکستان کو" حقانی نیٹ ورک"کی کاروائيوں کی وجہ سے موردالزام ٹهہرا چکی ہے.اور "سوزان رایس" کا بیان آن دی ریکارڈ ہے.کہ پاکستان کو امداد تب دی جائے گی جب وہ"حقانی نیٹ ورک"کے خلاف کارروائی کا یقین دلائے گا.اور جہاں تک قربانیوں کو قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ صرف آپکے مفاد کی بات ہے.نہ کہ قربانیوں کی؟
ہم نے ہميشہ خطے ميں تمام فريقين کے مشترکہ مفادات کے ليے پاکستان کی کاوشوں کی حمايت اور انھیں اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور بھی ديا ہے۔
آپ نے ہميشہ خطے ميں اپنے مفادات کے ليے پاکستان کو بلی کا بکرا بنایا ہے.کیونکہ پاکستان جب بهی اپنے مفادات کی خاطر طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے.تو تم لوگ وہاں ڈرون حملہ کردیتے ہو.اس کی واضح مثال"حکیم اللہ مسعود"کی شہادت ہے.

پاکستان کے کچھ اخباروں ميں غلط شہ سرخيوں اور دانستہ تشہير کردہ غلط تاثر کے برعکس، ہم نے پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہگاہوں کے حوالے سے ملک کے طور پر نامزد نہيں کيا۔ ہم نے محض اس بات کی ضرورت پر زور ديا ہے کہ ہر کسی کو اس حقيقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں کی پناہگاہیں سب کے ليے مشترکہ خطرہ ہیں اور پاکستان سميت تمام ممالک کے مشترکہ مفاد ميں ہے کہ دہشت گردی کے عفريت کو جڑ سے اکھاڑ ديا جاۓ۔
فواد بهائی جان پاکستانیوں کی نظر میں امریکہ سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں ہے. جو صرف اپنے مفادات کے لیے دوسرے ملکوں کو استعمال کرتا ہے.
ہم يہ بھی سمجھتے ہيں کہ اس سارے عمل ميں پاکستان کا کليدی کردار اور جائز مفاد ہے اور ان مفادات کا احترام اور ان کا جائزہ لينا اشد ضروری ہے۔ خطے ميں ديرپا امن اور سيکورٹی کے لیے پرتشدد دہشت گردی سے پاک مستحکم، جمہوری اور خوشحال پاکستان اہم ضرورت ہے۔ يہ سب کے مفاد ميں ہے کيونکہ امريکی، پاکستانی اور افغانيوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اٹھايا ہے اور ہم ميں سے کسی کو بھی دہشت گردوں کی پناہگاہیں کہيں بھی قبول نہیں ہونی چاہیے۔
ہم آپکے اس نظریے سے متفق نہیں ہیں.
1.اس میں پاکستان کا کوئی مفاد نہیں. مفاد ہے تو امريکہ کا؟
2.خطے میں امن کے لیے امریکہ کا یہاں سے دفع ہونا ضروری ہے.اس کے بغیر امن نہ ممکن ہے.
3.ہمیں اسلامی، مستحکم اور خوشحال پاکستان چاہیے.جو آپکی موجودگی میں ممکن نہیں.
4.کیونکہ پاکستانیوں اور افغانيوں نے امریکہ کی وجہ سے اتنا نقصان اٹھایا ہے.اور ہمیں امریکہ جیسا دہشت گرد ملک قبول نہیں.
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
ميڈيا رپورٹس اور تجزيے کسی فرد کی انفرادی سوچ اور راۓ کی عکاسی کرتی ہيں جس کی بنياد ان افراد کے ذاتی تجربے، ذاتی پسند يا ناپسند اور کسی بھی ايشو پر ان کی مجموعی سوچ ہوتی ہے۔

يہ تجزيے امريکی حکومت کی پاليسی اور راۓ کی ترجمانی نہيں کرتے۔

امريکی حکومت نے واضح کيا ہے کہ امريکی جريدے کے يہ دعوے بالکل غلط اور بے بنياد ہيں جن ميں تنظيم بليک واٹر کی خفيہ سرگرميوں کا الزام عائد کيا گيا ہے۔
یہی میڈیا جب افغانستان اور عراق ور میں امریکہ کے ساتھ کهڑے تهے تو اس وقت تو آپکو اس طرح کے خیالات یاد نہ آئے.اور ان میڈیا چینل کے ذریعے تمارے حکمران صبح وشام "عالمی دہشت گردی" کی گردانیں کرتے ہوئے نہ تهکتے تهے.اور جب آپکے خلاف بات آئی تو انفرادی اور ذاتی تجزے والی تلبیسی شروع کردی.
کراچی يا پاکستان بھر ميں کہيں بھی کوئ خفيہ آپريشن بيس نہيں ہے جو امريکی فوج کے اہلکاروں کی کسی کمان يا تنظيم کے ذريعے چلايا جا رہا ہو، زير قبضہ ہو يا زير استعمال ہو۔
ان سب کے جوابات پہلے ہوچکے ہیں.
پاکستان کے ليے حکومت امريکہ کے پروگرام واضح اور شفاف ہيں اور حکومت پاکستان کے تعاون سے چل رہے ہيں۔ امريکی اہلکاروں اور پروگراموں کا پاکستان ميں ايک ہی نصب العين ہے يعنی پاکستان کی حکومت اور لوگوں کی مدد کرنا جبکہ وہ اپنے ملک کو درپيش چيلنجوں سے نبرد آزما ہيں۔
فواد بهائی جان ہمیں آپ کے دجالی پروگراموں میں کوئی دلچسپی نہیں.اور نہ ہی ہمیں آپکی مدد کی کوئی ضرورت ہے.آپ جب نہيں تهے تب بھی دنیا کا نظام چل رہا تها.اور اسی طرح چلتا ہی رہے گا.
آپ نے اگر مدد کرنا ہی ہے تو فلسطین کو یہودی شکنجے سے اور کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کروا دو.پهر ہم آپ پر غور کریں گئے.
 
شمولیت
نومبر 03، 2015
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
37
ايک طرف تو آپ کا يہ دعوی ہے کہ بليک واٹر اور امريکی ايجنٹس کی کاروائياں اور ان کے مشن اتنے خفيہ ہيں کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے يہ تمام کاروائياں ميری معلومات اور دائرہ کار سے بالاتر ہيں۔ يہاں تک کہ يہ تمام مشنز پاکستانی حکومت بشمول وزيراعظم، صدر، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے علم سے بھی بالاتر ہيں کيونکہ ان سب نے بليک واٹر کی پاکستانی میں موجودگی کے حوالے سے واضح بيانات ديے ہيں۔ اس کے علاوہ ان مشنز اور کاروائيوں کو اتنا خفيہ رکھا جاتا ہے کہ امريکی حکومت کے اہم ترين عہديداروں کو بھی ان کی کوئ خبر نہيں ہے کہ کيونکہ امريکی ڈيفنس ڈيپارٹمنٹ نے بھی اس حوالے سے واضح بيان ديا ہے۔
جو بیانات آپکے اعلی عہدیداروں کہ ہم نے نقل کیے ہیں. تو پھر ان کو کیوں نظر انداز کرتے ہو.اوریہ کیا بات ہوئی جب صہیونیوں کی ایلومنتی'فری مینسری اور نیو آئی کان وغیرہ جیسی تنظیموں کے ایک درجے والے کو دوسرے درجے اور دوسرے درجہ والے کو تیسرے درجے اور اسی طرح باترتیب کا پتہ نہیں ہوتا؟ تو اس میں برا ماننے والی کون سی بات ہے.سب باتوں کا آپ کو معلوم ہونا کون سا لازمی امر ہے.
ليکن جہاں آپ اپنی تھيوری کے حوالے سے يہ ثابت کر رہے ہيں کہ ان خفيہ امريکی ايجنٹس اور پاکستان کے اندر ان کی کاروائيوں کے حوالے سے ہر ايشو کو صيغہ راز ميں رکھا جا رہا ہے ، وہيں آپ اس بات پر بھی بضد ہيں کہ پاکستان کے اندر ان کی موجودگی کوئ راز کی بات نہيں ہے اور اس ذی شعور شخص ان کی کاروائيوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ يہاں تک کہ اپنے دعوے کی سچائ کے لیے آپ کو کسی ثبوت کی بھی کوئ ضرورت نہيں ہے کيونکہ يہ "سچائ" تو سب پر عياں ہے۔ حالانکہ آپ ثبوت اس ليے پيش کرنے سے قاصر ہيں کيونکہ آپ کے پاس کوئ ثبوت ہے ہی نہيں۔
فواد بهائی جان ہر تنظیم اور جماعت کے دو حصے هوتے ہیں.
1.خاص... (خفیہ کارکنان یا متحرک)
2.عام..... (کارکنان یا غیر متحرک)
اور جو میں نے پہلے بیان کیا ہے.وہ عام کے بارے تها.
اور بعد میں جو بیان کیا ہے وہ خاص کے بارے تھا.
ہم نے ثبوت تو بے شمار پیش کیے ہیں پر ہم کیا کرسکتے ہیں کہ.....
ایک بندے کا حال کنویں کے مینڈک کا ہو؟
اس میں ہمارا کیا قصور. ..
ان افراد اور صحافيوں کے بيانات اور رپورٹس کے حوالے دينا جو ايک ايجنڈے کے تحت تسلسل کے ساتھ ايک ہی نوعيت کے بے بنياد الزامات لگا رہے ہیں اور جن کی امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے کسی قسم کی کوئ وابستگی نہيں ہے، ثبوت کے زمرے ميں نہيں آتا بلکہ محض سستی نوعيت کا پراپيگنڈہ کہلاتا ہے۔
بهائی جان اپنی باری آئی تو ایجنڈے کے تحت یاد آگیا.انہی میڈیا چینل کی روشنی میں امریکہ نے عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی.جس کی طرف آپکے ملک کے قریبی اتحادی برطانیہ کے سابق حکمران نے واضح بیان دیا.اور"جارج بش" بهی اس کے ساتھ ملوث تھا.
چلو بتاؤ کہ تمہاری حکومت ان میڈیا چینل پر اعتماد نہیں کرتی پهر صدام کے پاس جو کیمیائی ہتھیار تهے وہ کہاں ہیں.
بهائی جان یہ آپ کا پهیلایا ہوا میڈیائی پروپگنڈا تها.جس کا تم اب انکار کر رہے ہو. برطانیہ کے حکمران نے تو اس پر قوم سے معافی مانگ لی ہے.لیکن تمہارے حکمرانوں کی فرعونی گردن اب تک اکڑی ہوئی ہے.
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
میاں فواد جی اس کو کہتے ہیں اپنے چینل کی ریٹنگ بڑهنا۔
دجالی میڈیا آپ کو مبارک ہو۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ايک جانب تو آپ خود کش حملہ آور کے انٹرويو پر مبنی ايسی ويڈيو کو ماننے سے انکاری ہيں جس ميں وہ اپنے جرائم کا اعتراف کر رہا ہے اور اس ضمن ميں آپ کی دليل يہ ہے کہ پاکستان ميں ميڈيا امريکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور صرف انھی کہانيوں کی خاص انداز ميں تشہير کی جاتی ہے جو کسی بھی طور خطے ميں امریکی مفادات کو جلا بخشتی ہيں۔ دوسری جانب اسی ميڈيا پر تخليق اور پيش کی جانے والی ان بے بنياد سازشی کہانيوں کو بغير کسی تامل کے تسليم کر لینے ميں آپ بالکل نہيں چوکتے جن ميں يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں خفيہ طور پر سينکڑوں کی تعداد ميں بليک واٹر کے ايجنٹس بھيج رہا ہے۔

اگر پاکستان ميں ميڈيا ہمارے اشاروں پر کام کرتا ہے تو پھر يہی ميڈيا گاہے بگاۓ ہم پر يہ الزام کيوں دھرتا ہے کہ ہم پاکستان ميں مبينہ طور پر کراۓ کے قاتلوں کی پشت پنائ کر کے انھيں کسی بھی قسم کی مدد اور تعاون فراہم کر رہے ہيں؟ پاکستان ميں دانستہ امريکہ مخالف جذبات کو بھڑکا کر ہميں کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟

آپ نے بليک واٹر کے حوالے سے جن سازشی کہانيوں کے حوالے ديے ہيں اور جن الزامات کو اجاگر کيا ہے وہ مختلف اوقات ميں پاکستانی ميڈيا پر پيش کيے جا چکے ہيں، تاہم يہ کہانياں اپنی موت آپ مر گئيں جب مختلف تجزيہ نگاروں اور مبصرين کی جانب سے ايسے کوئ شواہد پيش نہيں کيے گۓ جن کو قابل غور قرار ديا جا سکے۔

بدقسمتی سے يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ بليک واٹر کی اصطلاح استعمال کر کے بے بنياد، ہيجان انگيز اور مصالحے دار کہانياں تخليق کی گئ ہيں جن کا واحد مقصد دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کے خلاف اجتماعی کاوشوں کی ضرورت سے توجہ ہٹانا ہے۔

گزشتہ کئ برسوں سے اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے، امريکی حکومت کے اعلی عہديداروں اور سينير سفارت کاروں نے تسلسل کے ساتھ ان تخيلاتی کہانيوں کا جواب ديا ہے۔ يہی نہيں بلکہ امريکی حکومت کے واضح بيانات پاکستانی ميڈيا کو ارسال کی گئ کئ پريس ريليزز ميں اجاگر کيے گۓ ہيں تا کہ حقائق کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ غلط اطلاعات کی نشاندہی کی جا سکے۔

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اعلی پاکستانی حکومتی عہديدار بشمول سابقہ پاکستانی وزير داخلہ، وزير خارجہ اور وزراۓ اعظم نے بھی اس ايشو کے حوالے سے ہمارے موقف سے اتفاق کيا ہے اور اس ضمن ميں عوامی سطح پر واضح بيانات ديے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بهائی جان میں آپکے اس موقف سے اختلاف کرتا ہوں.کیونکہ یہ صورتحال جو آج ہے.2003ءسے پہلے کیوں نہیں تھی.یعنی 2003ء سے پہلے خودکش دھماکے اور اسطرح قتل غارت گری کے واقعات نہ ہونے کےبرابر تھے.یہ ساری نخوست امریکہ کے آنے کے بعد اور بلک واٹر کو کهلی چهٹی دینے کے بعد شروع ہوئی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔ آپ اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستان ميں سال 2001 سے پہلے مکمل امن تھا۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی راۓ کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

اگر آپ جانب دارانہ سوچ کو ايک طرف رکھ کر حقائق اور اعداد وشمار پر ايک نظر ڈاليں تو آپ پر يہ واضح ہو جاۓ گا کہ اس کھوکھلے نظريے ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں دہشت گردی کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں تھا۔

ذيل ميں ديا ہوا گراف دہشت گردی سے متعلق ان واقعات کو ظاہر کر رہا ہے جو سال 1984 سے 2007 کے درميانی حصے ميں رونما ہوۓ۔

آپ خود ديکھ سکتے ہيں کہ دہشت گردی کا عفريت قريب دو عشروں سے پاکستانی معاشرے کو ديمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ يہ کہنا بالکل غلط ہے کہ يہ وبا 911 کے واقعے کے بعد اچانک ہی پاکستانی معاشرے ميں نمودار ہو گئ تھی۔ اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہيں۔



اس کے بعد خود کش حملوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليتے ہيں۔ فورمز پر راۓ دہندگان نے اکثر مجھ سے اس بات پر جرح کی ہے کہ سال 2001 سے قبل پاکستان ميں سرے سے کوئ خودکش حملہ نہيں ہوا تھا۔

آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ سال 1995 سے خودکش حملوں کے واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔



اس گراف ميں سال 2007 کے قريب جو غير معمولی اضافہ دکھائ دے رہا ہے اس کے وجہ وہ خودکش حملے ہيں جو لال مسجد پر حکومت پاکستان کی کاروائ کے بعد ردعمل کے طور پر سامنے آۓ تھے۔ سال 2007 ميں جون کے مہينے تک 8 خودکش حملے ہوۓ تھے اس کے بعد اگلے چھ ماہ ميں 48 حملے کيے گۓ۔

ايک مرتبہ پھر اعداد وشمار اور گراف سے يہ واضح ہے کہ خطے ميں امريکی افواج کے آنے سے کئ برس پہلے بھی دہشت گرد تنظيميں اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے کم سن بچوں کو خود کش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کر رہی تھيں۔

موازنے کے ليے يہ اعداد وشمار پيش ہين جو افغانستان ميں فوجی کاروائ سے پہلے اور اس کے بعد دہشت گردی کی کاروائيوں کے حوالے سے حقائق واضح کر رہے ہيں۔




اور آخر ميں يہ تصوير افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ان کے حدود واربعہ کو واضح کر رہی ہے۔



اس ميں کوئ شک نہيں کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران آزاد ميڈيا، سوشل ويب سائٹس اور مواصلات سے متعلق ہونے والی عمومی ترقی کے سبب اب ان موت کے سوداگروں کی ظالمانہ کاروائيوں کے حوالے سے عوامی سطح پر پہلے کے مقابلے ميں زيادہ آگہی اور معلومات ميسر ہيں۔

ليکن اس حوالے سے کوئ مغالطہ نہيں ہونا چاہیے۔ يہ دہشت گرد تنظيميں محض کسی ردعمل يا انتقام کے جذبے سے سرشار ہو کر اچانک منظرعام پر نہيں آ گئ ہيں۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے ہی عوامی سطح پر خوف، دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافے کے ليے اپنے واضح کردہ ايجنڈے پر کاربند ہيں۔

فورمز پر موجود مقبول عام تاثر کے برعکس يہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی افواج تھيں جو ردعمل پر مجبور ہوئيں نا کہ يہ دہشت گردی تنظيميں – اور اس ردعمل کا فيصلہ اس وقت کيا گيا جب عالمی دہشت گردی کا يہ عفريت ہماری سرحدوں کے اندر پہنچ گيا۔

آپ ان حقائق کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت اور امريکی افسران کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے ، يہ جانتے ہوۓ کہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
شروع ہی میں امریکی صدر جارج بش نے اس جنگ کو صلیبی جنگ (Crusade war) بھی کہا جس سے اس کی اصل نیت واضح ہوتی ہے اگرچہ بعد میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے۔ [/H1]

جیمز کیرول (20 ستمبر 2004)، "بش کی صلیبی جنگ" (انگریزی میں)



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ انگلش زبان کی لغت ميں لفظ "کروسيڈ" کا مطلب ديکھيں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے جو معنی درج ہيں وہ "ايک مقصد کے حصول کے ليے منظم کوشش" ہے۔ آپ کسی لفظ کا تجزيہ اس ثقافت اور تناظر سے الگ کر کے نہيں کر سکتے جس ميں وہ استعمال کيا گيا ہے۔ امريکی معاشرے ميں منشيات کے خلاف جنگ يا کسی نشے کے خلاف کی جانے والی کوشش اور شديد ردعمل اور ايسے ہی کئ موقعوں پر اس لفظ کا استعمال عام بات ہے۔ جب صدر بش نے اس لفظ کا استعمال کيا تھا تو اس کا مطلب دہشت گردی کے خلاف ايک مضبوط و مربوط اور منظم عالمی کوشش کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے اسلام يا کسی مذہبی تصادم کا ذکر تک نہيں کيا تھا۔ يہ جنگ براہراست ان دہشت گردوں کے خلاف تھی جنھوں نے امريکہ پر حملہ کيا تھا۔

امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔

يہ الزام کہ امريکہ اسلام کے خلاف حالت جنگ ميں ہے اور اس دليل پر مبنی سوچ جس کا ذکر اس تھريڈ ميں کيا جا رہا ہے اس کی بنياد قريب 10 برس قبل سابق صدر بش کی جانب سے استعمال ہونے والے ايک لفظ "کروسيڈ" کی ايک مخصوص انداز میں اختراح کی گئ تشريح ہے۔

ليکن چونکہ امريکی صدر کی جانب سے ادا کيے جانے والے الفاظ کو راۓ دہندگان "ناقابل ترديد" ثبوت کی حيثيت سے قابل قبول معيار اور پيمانہ تسليم کرتے ہيں تو پھر اسی صدر کے يہ واضح الفاظ اس غلط سوچ کو رد کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے کہ امريکی حکومت اسلام پر جنگ مسلط کرنے کے درپے ہے۔


اسی ضمن میں چاہوں گا کہ صدر اوبامہ کے نقطہ نظر کو بھی سنيں جنھوں نے متعدد بار بيانات اور تقارير ميں موجودہ امريکی انتظاميہ کی سرکاری پوزيشن واضح کی ہے۔



اگر آپ کی مکمل دليل اور سوچ ايک سابق امريکی صدر کے غلط تناظر ميں شائع شدہ بيان کی مسخ شدہ تشريح پر مبنی ہے تو پھر اسی اصول اور قاعدے کے مطابق آپ کو موجودہ امريکی صدر کے بيان کو بھی اہميت اور فوقيت دينی چاہيے۔ ان کا يہ بيان بالکل واضح، مکمل اور ابہام سے عاری ہے جسے نہ صرف خود امريکی صدر نے بلکہ تمام اہم امريکی سفارت کاروں اور عہديداروں نے بارہا دہرايا ہے۔

"ميں يہ واضح کرتا ہوں کہ امريکہ نہ تو اسلام کے ساتھ حالت جنگ ميں ہے اور نہ ہی کبھی ايسا ہو گا۔ ليکن ہم ان دہشت گردوں کا پيچھا ضرور کريں گے جو ہماری سيکورٹی کے لیے شديد خطرہ ہيں۔ کيونکہ ہم بھی اسی بات کی مذمت کرتے ہيں جس کی مذمت تمام مذاہب کے لوگ کرتے ہيں يعنی کہ بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت"۔

افغانستان اور پاکستان سے متعلق امريکہ کے مقاصد اور پاليسياں مذہب کی بنياد پر نہيں ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس بات کا اعادہ قاہرہ ميں اپنے تاريخی خطاب ميں کيا تھا۔

امريکہ حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کی جانب سے عوام کی حفاظت اور سيکورٹی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کی جانے کوششوں کی مکمل حمايت کرتا ہے، جو ہمارے مشترکہ دشمن ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
آپ نے ہميشہ خطے ميں اپنے مفادات کے ليے پاکستان کو بلی کا بکرا بنایا ہے.کیونکہ پاکستان جب بهی اپنے مفادات کی خاطر طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے.تو تم لوگ وہاں ڈرون حملہ کردیتے ہو.اس کی واضح مثال"حکیم اللہ مسعود"کی شہادت ہے.

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ کو ايسے کسی امن مذاکرات" کو سبو تاز کرنے کی کوئ ضرورت نہيں ہے جو دہشت گردی کی اس لہر کو روک سکيں جس کا شکار صرف پاکستانی ہی نہيں بلکہ دنيا بھر ميں بے گناہ شہری ہو رہے ہيں۔ ليکن ديرپا امن صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب مجرموں کا تعاقب کيا جاۓ نا کہ ان سے مذاکرات کر کے اور ان کے مطالبات کو تسليم کر کے ان کے اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کيا جاۓ۔ انسانی تاريخ کے ارتقاء ہی سے ايک فعال نظام انصاف کے لیے يہی بنيادی اصول رہا ہے۔

ايسے فريقين جو ايک تسلیم شدہ قانونی اور سياسی فريم ورک کے اندر رہتے ہوۓ ايسے تنازعات کے حل کے ليے امن مذاکرات اور معاہدے کريں جو سياسی نوعيت کے ہوں تو يقينی طور پر ايسے مذاکراتی عمل ميں کوئ مظائقہ نہيں ہے۔

ليکن يہاں پر بات ايک ايسے گروہ کی ہو رہی ہے جسے حکومت پاکستان تمام تر ثبوتوں کے ساتھ دہشت گرد تسليم کر چکی ہے۔ ايک طرف تو کچھ راۓ دہندگان فورمز پر امريکہ کو اس بنياد پر ہدف تنقید بناتے ہيں کيونکہ ان کی دانست ميں ہماری پاليسيوں اور اقدامات کی بدولت انسانی جانوں کا زياں ہوا ہے۔ ليکن دوسری جانب دہشت گردی ميں ملوث طالبان اور القائدہ کے ان عناصر سے "امن مذاکرات" کو خوش آئند قرار ديتے ہيں جنھوں نے اپنی واضح کردہ پاليسی اور ايجنڈے کے مطابق ہزاروں کی تعداد ميں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کيا ہے۔ ياد رہے کہ يہ وہی دہشت گرد گروپ ہيں جو پچھلے کئ برسوں سے پاکستان کے ہر شہر ميں بے گناہ شہريوں کو بغير کسی تفريق کے قتل کر رہے ہيں۔

اگر بحث کے ليے يہ دليل مان بھی لی جاۓ کہ اس امن معاہدے کے بعد انصاف اور امن و امان کا بول بالا ہو جاۓ گا تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کيا انصاف ان لوگوں کے دروازوں تک بھی پہنچے گا جن کے عزيزوں کو اس "مقدس جدوجہد" کے نام پر بے رحم طريقے سے قتل کيا گيا۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جن مجرموں نے مقامی آبادی کو دہشت زدہ کيے رکھا اب اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر کے انصاف کے کٹہرے ميں پيش ہونے کے ليے رضامند ہو جائيں گے؟ حقيقت يہ ہے کہ ان دہشت گردوں نے برملا اس بات کا اظہار کيا ہے کہ جمہوريت خلاف مذہب ہے اور اپنے نظريات اور مخصوص نظام کو دنيا بھر ميں نافذ کرنے کے ليے اپنی جدوجہد جاری رکھيں گے۔


اس ميں کوئ شک نہيں کہ امن اور انصاف کا قيام سب سے اہم ترجيح ہے ليکن اس کی حقيقی اساس مجرموں کو انصاف کو کٹہرے ميں لانے ميں مضمر ہے نا کہ پچھلے تمام جرائم پر "سب بھول جاؤ اور معاف کر دو" کے اصول کے مصداق پردہ ڈال کر انھی مجرموں کو مزيد اختيار دے ديا جاۓ صرف اس غير حقيقی اميد پر کہ اس سے علاقے ميں ديرپا امن قائم ہو جاۓ گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
ہم آپکے اس نظریے سے متفق نہیں ہیں.
1.اس میں پاکستان کا کوئی مفاد نہیں. مفاد ہے تو امريکہ کا؟
2.خطے میں امن کے لیے امریکہ کا یہاں سے دفع ہونا ضروری ہے.اس کے بغیر امن نہ ممکن ہے.
3.ہمیں اسلامی، مستحکم اور خوشحال پاکستان چاہیے.جو آپکی موجودگی میں ممکن نہیں.
4.کیونکہ پاکستانیوں اور افغانيوں نے امریکہ کی وجہ سے اتنا نقصان اٹھایا ہے.اور ہمیں امریکہ جیسا دہشت گرد ملک قبول نہیں.

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ بھول رہے ہیں کہ اس خطے میں تشدد کا آغاز امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگي سے نہيں بلکہ القائدہ اور اس سے منسلک گروہوں کی مرہون منت ہے۔ عالمی افواج کی اس خطے ميں آمد ان دہشت گرد کاروائيوں کا ردعمل تھا جن کی بدولت پہلے ہی دنيا بھر میں بے گناہ شہريوں کا خون بہايا جا رہا تھا۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ عالمی برادری کو ان کاروائيوں کا کوئ جواب نہيں دينا چاہيے تھا؟ صرف اس غلط سوچ کی بنياد پر کہ القائدہ کی قوت کے خلاف طاقت کے استعمال کی صورت میں خطے کا امن خطرے ميں پڑ سکتا ہے۔ اس طرح کی سوچ کو اگر عملی جامہ پہنايا جانے لگے تو اس صورت ميں تو جرم، سزا اور انصاف جيسے بنيادی تصورات محض "تشدد سے بچاؤ" کی ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوۓ يکسر نظرانداز کر دينے چاہيے۔ اس کا حتمی نتيجہ ايک ايسی افراتفری کو جنم دے گا جس ميں القائدہ جيسے گروہوں کو مزيد جلا ملے گی کہ وہ اپنی تحريک کو مزيد تقويت ديں اور عوام پر اپنا تسلط قائم کريں۔

ميں يہ نشاندہی بھی کر دوں کہ پاکستان ميں تشدد کی لہر کا ذمہ امريکی افواج کے سر نہيں ہے۔ يہ القائدہ، طالبان اور ان سے منسلک گروہ ہيں جو بغير کسی تفريق کے روزانہ معصوم پاکستانی اور افغان باشندوں کا خون بہا رہے ہيں۔

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جاۓ خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جاۓ گا۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جاۓ کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جاۓ گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بهائی جان اپنی باری آئی تو ایجنڈے کے تحت یاد آگیا.انہی میڈیا چینل کی روشنی میں امریکہ نے عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی.جس کی طرف آپکے ملک کے قریبی اتحادی برطانیہ کے سابق حکمران نے واضح بیان دیا.اور"جارج بش" بهی اس کے ساتھ ملوث تھا.
.

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ واضح رہے کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلۓ پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا۔


يہ اب تاريخ دانوں اور دانشوروں پر منحصر ہے کہ وہ اس فيصلے کے درست يا صحيح ہونے کے حوالے سے بحث کو کيا رخ ديتے ہيں جو عالمی اتحاد کی جانب سے صدام حسين کی ظالمانہ حکومت سے درپيش خطرات سے نبردآزما ہونے کے ليے کيا گيا تھا۔


معاملات اور واقعات کو درست تناظر ميں سمجھنے کے ليے يہ بھی ياد رکھيں کہ دسمبر 7 2008 کو عراق کے اس وقت کے وزير اعظم نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کے صدر کو ايک خط لکھا تھا جس ميں انھوں نے اس راۓ کا اظہار کيا۔


"عراق کی حکومت اور عوام کی جانب سے ميں ان تمام ممالک کی حکومتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے اہم کردار اور کوششوں کے سبب عراق کو استحکام اور محفوظ بنانے کے عمل ميں مدد ملی ہے۔ ميں براہراست ان افواج کا بھی شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے عراق ميں اپنی زمينی، بحری اور فضائ موجودگی کے دوران خدمات انجام ديں۔ يہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق پچھلے دور حکومت کے دوران برسا برس تک تنہا رہنے کے بعد معيشت کے استحکام کے ليےعالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے نۓ روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

واقعات کا تسلسل، عالمی خدشات اور مختلف عالمی فورمز پر کی جانے والی بحث جو سال 2003 ميں فوجی کاروائ کے فيصلے پر منتہج ہوئ ان مظالم کی وجہ نہيں ہے جو آج آئ ايس آئ ايس عراقی عوام پر ڈھا رہی ہے اور زبردستی اپنی سوچ اور مرضی عام عوام پر مسلط کرنے پر بضد ہے۔ بعض راۓ دہندگان کی راۓ کی روشنی ميں اگر آئ ايس آئ ايس کوئ ايسی تنظيم ہوتی جو خطے ميں امريکی موجودگی کے نتيجے ميں ردعمل کے طور پر وجود ميں آئ ہوتی تو پھر اس منطق کے تحت تو اس تنظيم کا وجود سال 2011 ميں اس وقت ختم ہو جانا چاہیے تھا جب امريکی افواج نے سيکورٹی کے معاملات عراقی عوام کے منتخب جمہوری نمايندوں کے حوالے کر کے علاقے سے مکمل طور پر انخلاء کر ليا تھا۔

مگر ہم جانتے ہيں کہ صورت حال يہ نہيں ہے۔ اس گروہ کو تو تقويت ہی اس وقت ملی تھی جب امريکی افواج خطے سے نکل چکی تھيں۔ عراق ميں ہماری موجودگی کے حوالے سے آپ کا سوال اور دليل موجودہ صورت حال کے تناظر ميں غير متعلقہ ہو جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
چلو بتاؤ کہ تمہاری حکومت ان میڈیا چینل پر اعتماد نہیں کرتی پهر صدام کے پاس جو کیمیائی ہتھیار تهے وہ کہاں ہیں.


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ڈبليو – ايم – ڈی ايشو


امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوۓ۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔


اس ايشو کے حوالے سےامريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جاۓ گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔


جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے 1995 ميں عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔


يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top