• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القراء ات والقراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ شاذۃ اور اَئمہ اسلام
قراء ت کے تسلسل میں اَسانیدکو بہت بڑا دخل ہے جس طرح کوئی حدیث صحت سند کے بغیر معتبر نہیں اسی طرح اگر کوئی قراء ت اسناداً متصل نہ ہو تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ (التیسیر للداني: ۸)
اور پھر قراء ات توقیفی ہیں اس میں قیاس کو دخل نہیں ہے۔ بایں وجہ علامہ زمخشری رحمہ اللہ کا یہ قول قابل التفات نہیں ہے:
’’قراء ات محض اختیاری ہیں اور جو عربی قواعد کے مطابق اور انسب ہو اسے پڑھا جا سکتا ہے اور یہ فصحاء وبلغاء کے اختیار واجتہاد پر دائر ہے۔‘‘(الاتقان:۱؍۳۲)
پس جو قراء ت صحت سند کیساتھ منقول نہ ہو، وہ خواہ قواعد عربیہ اور رسم الخط کے موافق ہی کیوں نہ ہو ،مقبول نہیں ہے۔بلکہ وہ مردود کے حکم میں ہو گی۔
متعدد قراء ات وہ ہیں جن کا علماء نحو اِنکار کرتے ہیں مگر ان کے انکار کو کچھ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ مثلاً ’’بَارِئْکُمْ‘‘ اور ’’ یَأْمُرْکُمْ‘‘ میں ہمزہ اور راء کو ساکن کرنا اور ’’وَالْاَرْحَامِ‘‘ کی میم کو جر دینا اور ’’لِیُجْزٰی قَوْماً‘‘ میں میم کو نصب اور ’’ قَتْلُ أَوْلَادَہُمْ شُرَکَآئِہِم‘‘ میں مضاف، مضاف الیہ کے درمیان فصل لانا وغیرہ۔ (البرہان للزرکشی:۱؍۳۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابوبکر بن مقسم کی مخالفت
یہی وجہ تھی کہ قراء کرام نے ابوبکر بن مقسم کی قراء ت کو ممنوع قرار دے دیا، کیونکہ ابن مقسم ہراس قراء ت کو جائز رکھتے جو عربیت کے اعتبار سے صحیح ہو خواہ نقل روایت اور رسم مصحف کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح قراء نے ’ابن شنبوذ‘ سے توبہ کروانے کے لیے مجلس قائم کی جو کہ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ اورابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت کے مطابق لکھوانا چاہتاتھا اور یہی وجہ تھی کہ قراء نے اعمش کی قراء ت کوغیر مقبول قرار دیا، کیونکہ وہ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت کی اتباع کرتا (المصاحف للسجستانی: ۹۱) اور اسی وجہ ان کی قراء ۃ کا نام شاذۃ رکھا گیا۔ ابن خالویہ نے القراء ات الشاذۃ پرایک مستقل تصنیف کی ہے جس کانام ’المحتسب في القراء ات الشاذۃ‘ ہے اور ابو البقاء العبکری نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل کتاب لکھی جس کانام ’إملاء ما من بہ الرحمن من وجوہ الإعراب والقرائات في جمیع القرآن‘ رکھا۔
اس بناء پر علماء نے بلاتردد یہ بات کہی ہے کہ قراء ات شاذہ کی توجیہ بلحاظ قواعد ’قراء ت مشہورہ‘ کی توجیہ سے زیادہ قوی ہے۔ (البرہان: ۱؍۳۴۱) اور شاذۃ کی توجیہ صحت تاویل پر معاون ہے۔ مثلاً حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت ’’ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیَہُمَا ‘‘(المائدۃ:۳۸) ہے، جس سے حد سرقہ میں قطع کی توضیح ہوجاتی ہے۔ اور سعد بن اَبی وقاص رضی اللہ عنہ کی قراء ت ’ولہ أخ أو أخت من أم سے واضح ہوجاتاہے کہ اگر ماں کی طرف سے بھائی ہوں تو پھر ہر ایک کے لیے سدس ہے یعنی خاص قسم کے إخوۃ مراد ہیں۔ اور زید بن علی کی قراء ت ’اﷲُ نَوَّرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْض‘ ہے جو معنی کے اعتبار سے ’نُوْرُ السَّمٰوٰتِ‘ سے زیادہ واضح ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ ’إِنَّمَا یَخْشٰی اﷲُ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَآئَ‘ پڑھتے، یعنی اللہ تعالیٰ علماء کی تعظیم وتکریم فرماتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’إن الخشیۃ ہنا بمعنی الإجلال والتعظیم لا الخوف۔‘‘
پس ان قراء ات شاذہ سے کم اَزکم صحت تاویل ضرور مستفاد ہوتی ہے لیکن بعض قراء ات شاذہ میں بظاہر تکلف اور بشاعت (کراہت) پائی جاتی ہے تاہم تاویل صحیح ہونے کی بناء پر بشاعت وکراہت رفع ہوجاتی ہے مثلاً ’’ ہُوَ اللّٰہُ الْخٰلِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ٭ ‘‘(الحشر:۲۴) کہ مصور اسم مفعول کا صیغہ ہے اورالباری کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یعنی ’الذی برء المصور‘ (البرہان: ۱؍۳۴۱) تاہم کسی کے نزدیک بھی شاذہ کے کلام اللہ ہونے کا اعتقاد واجب نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء تِ شاذہ کے اَحکام
جب اس کا قرآن ہونا صحیح نہیں ہے تو نماز میں بھی اس کی قراء ت جائز نہیں ہے۔
٭ علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لا یجوز القرائۃ في الصلاۃ بالقرائۃ الشاذۃ لأنہا لیست بقرآن لأن القرآن لا یثبت إلا بالمتواتر والشاذۃ لیست بمتواترۃ ومن قال غیرہ فغالط، أو جاہل فلو خالف وقرأ بالشاذۃ أنکر علیہ القراء ات في الصلاۃ وغیرہا‘‘۔ (البرہان: ۱؍۳۳۳)
’’شاذ قراء ت نماز میں جائز نہیں، کیونکہ وہ قرآن نہیں، اس لیے کہ قرآن تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور قراء ت شاذۃ تواتر سے ثابت نہیں ہوتیں۔ اور جس نے اس بات کے علاوہ کہا اس نے غلطی کی یا جاہل ہونے کا ثبوت دیا، اگر وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے نماز میں یا نمازکے علاوہ اس کی قراء ت کرتا ہے تو اس قراء ت کااس پراِنکار کیا گیاہے۔‘‘
ابن عبدالبررحمہ اللہ نے بھی اس کے نماز میں عدم جواز پر اجماع نقل کیاہے اور لکھاہے کہ اس قاری کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے جو نماز میں قراء ت شاذہ پڑھتاہے۔
اس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے بھی عدم جواز کا فتویٰ دیاہے(البرہان: ۱؍۲۲۲) اورکہا ہے:
’’من قرأ في صلاۃ بقرائۃ ابن مسعود وغیرہ من الصحابۃ مما یخالف المصحف لم یصل ورائہ۔‘‘
’’جس شخص نے نماز میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صحابی کی (منفرد یامخصوص) قراء ت کو پڑھا جومصحف کے خلاف ہے اس کے پیچھے (امامت میں) نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی قراء ت کے متعلق علماء کا یہ مؤقف اس بناء پر ہے کہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہما معوذتین کے قرآن ہونے کے قائل نہیں تھے، کیونکہ نبی اکرمﷺان دونوں کے ساتھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ وحسین رضی اللہ عنہ کو دم کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کامصحف ان دونوں سے خالی ہے۔ (الاتقان: ۱۳۷،۱۳۸)
اسی طرح حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے مصحف کے آخر میں دعاء الإستفتاح اور دعائے قنوت کو بمنزلہ دو سورتوں کے جمع کر رکھا تھا۔ (البرہان: ۲؍۱۲۸) حالانکہ اس پرکوئی دلیل نہ تھی لیکن علامہ الباقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ابن مسعود،ابی، زید،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم یا ان کی آل واولاد میں سے کسی کی طرف یہ نسبت جائز نہیں ہے کہ انہوں نے مصحف جماعت کے خلاف کوئی قراء ت درج کی ہو یا اخبار آحاد کی بناء پر کسی قسم کی تبدیلی کی ہو ایسی بات ایک ادنیٰ مسلمان بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ آئمہ کی طرف منسوب کی جائے۔ (البرہان: ۱۲۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء سبعہ
اب ہم قراء سبعہ عشرہ اور اَربعہ عشرہ کا تعارف کرواتے ہیں تاکہ قراء ات کی اَسانید معلوم ہوسکیں۔ سبعہ کی اصطلاح سب سے پہلے ابن مجاہد نے متعارف کرائی لہٰذا تمہید کے طور پر ابن مجاہد کا تعارف پیش خدمت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن مجاہدرحمہ اللہ
ابن مجاہدرحمہ اللہ مصنف ’کتاب سبعۃ‘ کا پورا نام ونسب یہ ہے: أبوبکر أحمد بن موسیٰ بن العباس ابن مجاہد البغدادي (المولود۲۴۵ھ المتوفی ۳۲۴ھ) قراء ت کے امام، محدث، نحوی اور شیخ المقرئین کے لقب سے معروف تھے۔ (تاریخ بغداد: ۵؍۱۴۴)
سعدان بن نصر،الرمادی، محمد بن عبداللہ المخرمی، محمد بن اسحاق صاغانی اور ان کے ہم طبقہ سے سماع کیا قنبل المکی اور ابو الزعراء بن عبدوس پر قرآن کی تلاوت کی اور حروف ایک جماعت سے عرضاً حاصل کیے۔ ابن الجزری رحمہ اللہ نے غایۃ النہایۃ میں ان کے نام بالإستیعاب ذکر کیے ہیں خلق کثیر نے اس پر قراء ت کی جن میں منصور بن محمد القرار اور شنبوذی بھی شامل ہیں۔
٭ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’انتہی إلیہ علم ہذا الشأن وتصدر مرۃ۔‘‘ (النبلاء:۱۵؍۲۷۲)
امام دارقطنی رحمہ اللہ، ابن شاہین رحمہ اللہ اور ابوبکر بن شاذان رحمہ اللہ نے ان سے روایت کی ہے ۔
٭ ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فاق ابن مجاہد سائر نظائرہ مع اتساع علمہ وبرائۃ فہمہ وصدق لہجتہ وظہور نطقہ۔‘‘ (طبقات سبکی:۳؍۵۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ غایۃ النہایۃ میں لکھتے ہیں:
’’آپ نے نہایت مشہور ومعروف اور آپ کے تلامذہ کا حلقہ نہایت وسیع تھا آپ نے اپنے اقران ونظراء سے بازی لے گئے اور محمد یحییٰ الکسائی کی زندگی میں ہی صدر مجلس بن گئے۔‘‘
ابن ابی ہاشم کا بیان ہے کہ کسی نے ابن مجاہد سے پوچھا:
’’لم لا تختار حرفا لنفسک۔‘‘
’’تم اپنے لیے ایک قراء ت کو کیوں نہیں پسند کرتے ہو۔‘‘
تو اُنہوں نے فرمایا:
ہمارے اَئمہ نے جو حروف (قراء ت )اختیار کیے ہیں ان کی حفاظت زیادہ ضروری ہے اس کی بجائے کہ ہم اپنی قراء ت اختیار کریں۔(الطبقات للسبکي: ۳؍۵۸)
موصوف طبعی طور پر لطافت وظرافت کے ماہر تھے۔ (تاریخ بغداد:۵؍۱۴۷) ان کے حلقہ درس میں مجلس کنٹرول کرنے کے لیے ۸۴؍ مقری موجود رہے۔(غایۃ النہایۃ:۱؍۱۳۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتابُ السبعۃ
ابن مجاہدرحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ’کتاب السبعۃ‘ لکھی ورنہ اس سے پہلے یہ اصطلاح متعارف نہ تھی۔ موصوف نے سات مشہور قراء کی قراء ات جمع کر کے اس کانام ’کتاب السبعۃ‘ رکھا ۔یہ قراء گو فقہ وامانت اور ضبط وملازمت قراء ت میں مشاہیر تھے تاہم یہ انتخاب کسی معیارکے مطابق نہ تھا بلکہ حسب اتفاق جمع کر دئیے گئے تھے۔
(البرہان للزرکشي: ۱؍۳۲۷)
پھر انہوں نے کتاب السبعۃ لکھ کر اس فن کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ عوام کو غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے اور کوتاہ نظر یہ سمجھنے لگے کہ حدیث ’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘ سے یہی سات قراء ات مراد ہیں۔ جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے اس لیے ابو العباس عمار ، ابن مجاہد کو ملامت کرتے اورکہتے:
’’لیتہ اقتصر، نقص عن السبعۃ أو زاد لیزیل الشبہۃ‘‘
’’کاش کہ وہ رک جاتے سا ت سے کم یا زیادہ لکھتے تاکہ شبہ ختم ہوجاتا۔‘‘
اسی طرح ابو شامۃ اپنی کتاب ’المرشد الوجیز‘ میں لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ حدیث اُنزل القرآن …الخ سے قراء اتِ سبعہ مراد ہیں، حالانکہ یہ اجماع اہل علم کے خلاف ہے یہ محض جہالت کا گمان ہے۔‘‘ (الإتقان: ۱؍۱۳۸، الزرقاني:۱؍۱۳۴، الوجیز:۱۴۶)
اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب علماء نے قراء ات پر کتابیں لکھنا شروع کیں تو اس وقت ’سبعہ‘ کی اصطلاح بلادِ اِسلامیہ میں قطعی متعارف نہ تھی مثلاً ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ،صاحب الشافعی، أبوجعفر الطبری رحمہ اللہ اور أبوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کی کتابوں میں بہت سی قراء ات مذکور ہیں لیکن ان میں ’سبعہ‘ کی اصطلاح کانام ونشان تک نہیں ہے اندازہ ہے کہ ابن مجاہدرحمہ اللہ کی اس کتاب کے بعد اس اصطلاح کا تعارف ہوا اور اس وقت لوگوں نے اَئمہ کی قراء ت پر اکتفاء کرنا شروع کردیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ زرکشی رحمہ اللہ ’البرہان ‘میں لکھتے ہیں:
’’إن القرائات لم تکن متمیزۃ عن غیرہا إلا في قرن الأربعمائۃ جمعہا أبو بکر ابن مجاہد ولم یکن متسع الروایۃ والرحلۃ کغیرہ، والمراد بالقرائات السبع المنقولۃ عن الأئمۃ السبعۃ۔‘‘
الغرض علماء نے ابن مجاہدرحمہ اللہ کی اس کوشش کو بنظر اِستحسان نہیں دیکھا یہ کتاب دکتور شوقی ضیف کی تحقیق سے طبع ہوچکی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصادر ومراجع

تاریخ بغداد: ۵؍۱۴۴، ۱۴۸۔ المنتظم: ۶؍۲۸۲، ۲۸۳۔ معجم الأدباء: ۵ل۶۵، ۷۳۔ معرفۃ القراء: ۱؍۲۱۶، ۱۱۸۔ العبر: ۲؍۲۰۱۔ شذرات: ۲؍۳۰۲۔ النجوم الزاہرۃ: ۳؍۲۵۸۔ طبقات السبکي: ۳؍۵۷، ۵۸۔ الوافي: ۸؍۲۰۰۔ غایۃ النہایۃ: ۱؍۱۳۹، ۱۴۲۔ البدایۃ النہایۃ: ۱۱؍۱۸۵۔
اَب ہم قراء سبعہ کا مفصل تعارف کرواتے ہیں جس میں ان کے سلسلۂ اَسناد پر بھی بحث کریں گے۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں وہ اَئمہ سبعہ یہ ہیں:
(١) عبداﷲ بن کثیر المکي القرشي (٢) نافع بن عبدالرحمن بن أبي نعیم
(٣) عبداﷲ بن عامر بن یزید (٤) أبوعمرو بن العلاء البصري
(٥) عاصم بن أبي النجود الکوفي (٦) حمزۃ بن حبیب بن عمارۃ الکوفي
(٧) ٭
 
Top