• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القراء ات والقراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابو علی الاہوازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کان إماما عالما ثقۃ فیما آتاہ، حافظا لما رواہ، من أفاضل المسلمین وخیار التابعین وأجلۃ الراوین۔‘‘
’’جوچیز انہیں میسر ہوئی ہے اس میں یہ عالم ثقہ امام ہیں۔ مرویات کے محافظ ہیں یاد رکھنے میں بلا کے حافظ تھے مسلمانوں میں فاضل تابعین میں پسندیدہ اور روایت کرنے والوں میں جلیل القدر تھے۔
جامع دمشق کے امام رہے جب کوئی بدعت دیکھتے تواس کو مٹا دیتے۔۲۱ھ کو پیدا ہوئے وہ دوسال کے تھے جب رسول اللہﷺ فوت ہوئے اور دمشق کی فتح کے وقت نو سال کے تھے۔ آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے سماع حاصل ہے جن میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ،نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ، واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ اور فضالہ بن عبیدرضی اللہ عنہ شامل ہیں۔
ان سے قراء ت کے روای حسب ذیل ہیں۔
(١) یحییٰ بن الحارث رحمہ اللہ (٢) عبدالرحمن بن عامررحمہ اللہ
(٣) ربیعۃ بن یزیدرحمہ اللہ (٤) جعفر بن ربیعۃ رحمہ اللہ
(٥) إسماعیل بن عبید اﷲ بن أبي المہاج رحمہ اللہ (٦) سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ
(٧) خلاء بن یزید بن صبیح المری رحمہ اللہ (٨) یزید بن ابی مالک رحمہ اللہ
دمشق میں ۱۱۸ھ کو وفات پائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حالات
التاریخ الصغیر: ۱۰۰، الجرح والتعدیل: ۵؍۱۲۲، تہذیب الکمال: ۶۹۷، میزان الاعتدال: ۲؍۴۲۳، خلاصۃ تہذیب الکمال: ۲۰۲، سیر أعلام النبلاء: ۵؍۱۹۲
(٤) اَبو عمرو زبان بن العلاء بن عمار الخزاعی التمیمی المعدی العدنانی رحمہ اللہ المتوفی ۱۵۴ھ
ابن الجزری رحمہ اللہ نے اس کو الامام السید لکھا ہے اور اس کا نسب مالک بن عمرو بن تمیم کے واسطہ سے مضر بن معد بن عدنان تک پہنچتا ہے۔ آپ ۶۸ھ کو پیدا ہوئے اور حرمین میں قراء ت حاصل کی پھر کوفہ اور بصرہ پہنچ کر قراء کی ایک جماعت سے قرآن پڑھا اس لیے قراء سبعہ میں ان کے شیوخ سب سے زیادہ ہیں پہلے حرمین میں مجاہد بن جبیررحمہ اللہ اور سعید بن جبیررحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی جو کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تلمیذ ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔ (طبقات القراء: ۱؍۲۸۸‘۲۹۲)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سماع حاصل ہے۔ اور مندرجہ ذیل سے قراء ت اَخذ کی:
(١) الحسن بن أبي الحسن البصري رحمہ اللہ (٢) حمید بن قیس الأعرج رحمہ اللہ
(٣) أبوالعالیہ رفیع بن مہران الریاحي رحمہ اللہ (٤) سعید بن جبیررحمہ اللہ
(٥) شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ (٦) عاصم بن أبي النجودرحمہ اللہ
(٧) عبداﷲ بن أبي إسحاق المخضرمي رحمہ اللہ (٨) عبداﷲ بن کثیر المکي رحمہ اللہ
وکان أعلم الناس بالقرآن والعربیۃ مع الثقۃ والصدق
’’قرآن کریم اور عربی زبان کو لوگوں سے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ قابل وثوق اور صاحب صدق وزہد تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابوعبیدہ رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’کانت دفاتر أبي عمرو ملء بیت الی السقف‘‘
’’ابوعمرورحمہ اللہ کے رجسٹر اتنے تھے کہ گھر چھت تک بھرا ہوا تھا۔‘‘
٭ وہب بن جریررحمہ اللہ کا قول ہے کہ شعبہ رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا:
’’تمسک بقرائۃ أبي عمرو فإنہا ستصیر للناس إسنادا۔‘‘
’’ابوعمرو رحمہ اللہ کی قراء ت حاصل کیجیے کیونکہ وہ لوگوں کے لیے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
چنانچہ شعبہ کا یہ قول صحیح ثابت ہوا اور اب شام وحجاز اور مصر ویمن میں ابوعمرورحمہ اللہ کی قراء ت ہی مشہور ہے شام میں ۵۰ھ تک ابن عامررحمہ اللہ کی قراء ت مقبول رہی لیکن اس کے بعد اہل شام نے بھی ابوعمرو بن العلاءرحمہ اللہ کی قرائۃ اختیار کر لی۔پس یہ بات شعبہ کی کرامت شمار ہوتی ہے۔
ابوعمرورحمہ اللہ مکہ میں پیدا ہوئے، بصرہ میں تربیت پائی اور کوفہ میں فوت ہوئے ان کی وفات ۱۵۵ھ یا۱۵۷ھ میں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترجمہ
التاریخ الکبیر والکنی: ۹؍۵۵، وفیات: ۳؍۳۶۶، تہذیب الکمال: ۱۶۲۶، تاریخ إسلام: ۶؍۳۲۲، تہذیب: ۴؍۲۲۵
(5) یعقوب بن اسحاق بن زید الحضرمی ۲۰۵ھ
یہ بھی بصرہ کے قار ی ہیں اور سلام بن سلیمان الطویل سے روایت کرتے ہیں جو کہ ابو عمرو رحمہ اللہ اور عاصم رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں۔
موصوف نے حسب ذیل قراء سے عرضاً قراء ت اَخذ کی:
(1) سلام بن سلیمان الطویل أبو المنذر المزني الکوفي
(2) مہدي بن میمون أبویحیی البصري (3) سلمۃ بن محارب
(4) أبو الأشہب العطاردي جعفر بن حیان البصري
(5) شہاب بن شرنفۃ الجاشعي البصري (6) عصمۃ بن عروۃ فقیمي البصري
(7) روی عنہ الحروف یعقوب بن إسحاق (8) یونس بن عبید أبو عبداﷲ البصري
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قراء فقہاء اور صلحاء میں سے کوئی بھی اس کی قراء ۃ کا اِنکار نہیں کرتا تھا۔ (غایۃ النہایۃ: ۱؍۵۱۲)
ان کے شیوخ میں مسلمہ بن محارب رحمہ اللہ،ابوالاسود الدؤلی رحمہ اللہ کے واسطہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔
ابن الجزری رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ مجھے ابو الاشہاب عن ابی الرجاء عن ابی موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ روایت حاصل ہے جو نہایت ہی عالی ہے۔(غایۃ النہایۃ:۲؍)
اور یعقوب حضرمی رحمہ اللہ سے بہت سے اَئمہ نے روایت کی ہے۔
٭ ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ہو أعلم من رأیت بالحروف والاختلاف في القرآن وعللہ ومذاہب ومذاہبہ النحو، ’’وأروی الناس بحروف القرآن ولحدیث الفقہائ۔‘‘ (معرفۃ القراء الکبار: ۱؍۱۵۸)
’’جن کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ قراء ت وقراء ت کی تشریح اور اس کے مختلف طرق نیز قواعد نحو کے مختلف اصولوں کو بیان کرنے والے تھے اور قرآن کی قراء ات اور فقہاء کے اَقوال کو نقل کرنے والے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ سعیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کان یعقوب أقرأ أہل زمانہ وکان لا یلحن في کلامہ وکان أبوحاتم السجستانی من بعض تلامیذہ۔‘‘ (معرفۃ القراء الکبار: ۱/۱۵۸)
’’یعقوب اپنے زمانہ میں بڑے قاری تھے جو اپنی گفتگو میں غلطی نہ کرتے تھے سجستانی ان کے شاگردوں سے تھے۔‘‘
٭ مزید لکھتے ہیں:
’’کان یعقوب من أعلم زمانہ بالقرآن والنحو وغیرہ وکذا أبوہ جندہ۔‘‘
’’یعقوب اپنے زمانہ میں قرآن اور نحو کے سب سے بڑے عالم تھے اسی طرح اس کے آباؤ اَجداد بھی عالم تھے۔‘‘
جن علماء نے یعقوب کی قراء ۃ کو شواذ میں شمار کیا ہے ان میں ابو عمرو الدانیa پہلا شخص ہے ۔اور اَئمہ متقدمین نے اس کی مخالفت کی ہے ۔
الغرض موصوف قرآن، عربیت کے بہت بڑے عالم تھے۔
٭ ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو علوم قرآن عربی زبان بے شمار روایات اور قراء ات اور فقہ کو جاننے والے تھے اور بہت بڑے قاری نیز قرآن کریم کی قراء ات اور فقہاء کی باتوں کو نقل کرنے والے تھے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کے مطابق بعمر ۸۸ سال ۲۵۰ھ میں فوت ہوئے ان کے والد اور جد امجد بھی اسی عمر میں فوت ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترجمہ
بغیۃ الوعاۃ: ۳؍۳۴۸، شذرات: ۲؍۱۴، طبقات القراء للجزري: ۲؍۳۸۶، تہذیب التہذیب: ۱۱؍۳۸۲، معرفۃ القراء الکبار: ۱؍۱۳۰، التاریخ الصغیر: ۲۱۹، معجم الأدبائ: ۲؍۵۲، طبقات ابن سعد: ۷؍۳۰۴، التاریخ الکبیر: ۸؍۳۹۹
(6) حمزہ بن حبیب الزیات مولیٰ عکرمۃ بن ربیع التیمی رحمہ اللہ المتوفی ۱۸۸ھ
سلسلہ اَسناد یہ ہے :
’’قرأ علی سلیمان بن مہران علی یحییٰ بن وثاب علی زر بن حبیش علی عثمان وعلی وابن مسعود۔‘‘
’’حمزہ حبیب الزیات رحمہ اللہ نے سلیمان بن مہران رحمہ اللہ انہوں نے یحییٰ بن وثاب رضی اللہ عنہ انہوں زر بن حبیش رحمہ اللہ انہوں نے عثمان رحمہ اللہ وعلی رحمہ اللہ اور عبداللہ بن مسعودرحمہ اللہ سے تلاوت کی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن الجزری رحمہ اللہ ان کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
’’ہو حمزۃ بن حبیب بن عمارۃ بن إسماعیل، الإمام الحبر أبوعمارۃ الکوفي التیمي مولاہم الزیات أحد القراء السبعۃ۔‘‘
۸۰ھ میں پیدا ہوئے ۔ عمر کے اعتبار سے بعض صحابہ کے زمانہ کو پایا ہے ممکن ہے بعض کی روایت بھی کی ہو۔ حسب ذیل سے قراء ۃ اَخذ کی :
(1) سلیمان الأعمش رحمہ اللہ (2) جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ
(3) عمران بن الحسین رحمہ اللہ (4) أبوأسحاق السبیعي رحمہ اللہ
(5) محمد بن عبدالرحمن بن أبي لیلی
(6) علقمہ بن مصرف رحمہ اللہ (7) مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ
(8) منصور بن زاذان رحمہ اللہ (9) لیث بن أبي سلیم رحمہ اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علی بن مدینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
بعض نے لکھاہے کہ اعمش رحمہ اللہ پر پورا قرآن نہیں پڑھا بلکہ کچھ حروف کی قراء ت کی اور یہ بھی قول ہے کہ حمزہ رحمہ اللہ نے قرآن تو حمران سے شروع کیا اور پھراعمش ابی اسحاق اور ابن ابی لیلیٰ پر پیش کیا ان میں سے اعمش،ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے حروف کو ادا کرتا اور ابن ابی لیلیٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حرف کا ماہر تھا اور ابو اسحاق دونوں کے حروف ادا کرتا اور حمران کے متعلق مشہور ہے۔
’’کان یقرأ قرائۃ ابن مسعود ولا یخالف مصحف عثمان یعتبر حروف معاني عبداﷲ ولا یخرج من مصحف عثمان وہذا کان اختیار حمزۃ قرأ علیہ۔‘‘
حمزہ رحمہ اللہ سے بہت سے آئمہ قراء نے قراء ت حاصل کی اور روایت کی ہے ابن الجزری رحمہ اللہ نے بالاستیعاب ان کے تلامذہ کے نام اَبجدی ترتیب سے لکھے ہیں اور لکھا ہے۔
ان اَصحاب میں سلیم بن عیسیٰ اَضبط رحمہ اللہ تھے اور سب سے جلیل القدر علی بن حجر الکسائي رحمہ اللہ تھے اور نعیم بن یحییٰ السعیدي رحمہ اللہ اور یحییٰ بن زیاد الفراء رحمہ اللہ بھی ان کے اَصحاب میں داخل ہیں۔
الغرض حمزہ بن حبیب الزیات عاصم رحمہ اللہ اور اَعمش رحمہ اللہ کے بعد کوفہ میں قراء کے امام بن گئے۔ امام حجت ثقہ اور اثبت تھے۔‘‘
’’کان قیما بکتاب اﷲ بصیرا بالفرائض عارفا بالعربیۃ حافظا للحدیث فإننا نجدہ عدیم النظر۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’حمزہ رحمہ اللہ دو چیزوں میں ہم پر سبقت لے گئے جن کو ہم بلانزاع تسلیم کرتے ہیں۔ قراء ت القرآن وعلم الفرائض۔‘‘
٭ اعمش رحمہ اللہ جب حمزہ رحمہ اللہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھتے تو کہتے:
’’ہذا حبر القرآن۔‘‘
بعض نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت کی قراہت نقل کی ہے۔ تو یہ کراہت صرف اس قراء ت کے بارے میں ہے جو امام احمدرحمہ اللہ نے دوسروں سے سنی ہے۔
٭ چنانچہ ابن الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وأما ما ذکر عن عبداﷲ بن إدریس وأحمد بن حنبل من کراہۃ قرائۃ حمزۃ فإن ذلک محمول علی قراء ۃ من سمعا منہ ناقلا حمزۃ وما آفتہ الأخبار إلا رواتہا۔‘‘
حمزہ رحمہ اللہ سنہ ۱۵۶ھ یا ۱۵۷ھ میں فوت ہوئے ان کی قبر حلوان میں معروف ہے۔
وقال الثوري: ما قرأ حمزۃ حرفا من کتاب اﷲ إلا بأثر وقال الذہبی: قد انعقد الإجماع بآخرۃ علی تلقي قراء ۃ حمزۃ بالقبول والإنکار علی من تکلم فیہا فقد کان من بعض السلف في الصدر الأول فیہا مقال۔ واﷲ أعلم۔
 
Top