• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللّه عیسیٰ کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے گا ۔۔ کتاب سے مراد کونسی کتاب

شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم
محترم شیوخ
قرآن پڑھتے ہوئے سورۃ آلِ عمران کی ایک آیت نظر سےگزری تو سوچا اس بارے میں بھی پوچھ لوں :
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
سوره آل عمران ،آیت 48
اللّه عیسیٰ کو کتاب حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دے گا
اس میں " کتاب " کونسی ہے

جزاک اللہ خیراً
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
السلام علیکم
محترم شیوخ

ایک آیت قرآن پڑھتے ہوئے گزری تو سوچا اس بارے میں بھی پوچھ


سوره العمران 48
اللّه عیسیٰ کو کتاب حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دے گا
اس میں کتاب کونسی ہے

جزاک اللّه خیر
اس آیت کریمہ میں "الکتاب" سے کیا مراد ہے؟ اس کے سلسلے میں مفسرین کے تین قول ہیں
(1) اس سے مراد مصدری معنی ہیں اور یہ "الکتابة" کے معنی میں ہے مطلب ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو لکھنا سکھائے گا اکثر مفسرین نے اس معنی کو ذکر کیا ہے
(2) "الکتاب" یہاں جنس کے استعمال ہوا ہے اور اس کی وضاحت آگے آیت میں ہے اور وہ تورات، انجیل مطلب یہ کے اللہ عیسی علیہ السلام کو کتاب یعنی تورات اور انجیل سکھائے گا تفسیر سعدی میں یہ بھی تفسیر کی گئی ہے
(3) یہ "الکتاب" تورات و انجیل کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جو تورات و انجیل کے علاوہ دی گئی تھی.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
قوله تعالى : ويعلمه الكتاب والحكمة والتوراة والإنجيل
قوله تعالى : ويعلمه الكتاب والحكمة والتوراة والإنجيل قال ابن جريج : الكتاب الكتابة والخط . وقيل : هو كتاب غير التوراة والإنجيل علمه الله عيسى عليه السلام (تفسير القرطبی سورةَ آل عمران :48)
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
علامہ ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول تعالى - مخبرا عن تمام بشارة الملائكة لمريم بابنها عيسى ، عليه السلام - أن الله يعلمه ( الكتاب والحكمة ) الظاهر أن المراد بالكتاب هاهنا الكتابة . والحكمة تقدم الكلام على تفسيرها في سورة البقرة .(تفسیرإبن کثیر)
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
ثم أخبر تعالى عن منته العظيمة على عبده ورسوله عيسى عليه السلام، فقال { ويعلمه الكتاب } يحتمل أن يكون المراد جنس الكتاب، فيكون ذكر التوراة والإنجيل تخصيصا لهما، لشرفهما وفضلهما واحتوائهما على الأحكام والشرائع التي يحكم بها أنبياء بني إسرائيل والتعليم، لذلك يدخل فيه تعليم ألفاظه ومعانيه، ويحتمل أن يكون المراد بقوله { ويعلمه الكتاب } أي: الكتابة، لأن الكتابة من أعظم نعم الله على عباده ولهذا امتن تعالى على عباده بتعليمهم بالقلم في أول سورة أنزلها فقال { اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق اقرأ وربك الأكرم الذي علم بالقلم } والمراد بالحكمة معرفة أسرار الشرع، ووضع الأشياء مواضعها، فيكون ذلك امتنانا على عيسى عليه السلام بتعليمه الكتابة والعلم والحكمة، وهذا هو الكمال للإنسان في نفسه.( تفسير السعدي)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
أخبر تعالى عن منته العظيمة على عبده ورسوله عيسى عليه السلام، فقال { ويعلمه الكتاب } يحتمل أن يكون المراد جنس الكتاب، فيكون ذكر التوراة والإنجيل تخصيصا لهما، لشرفهما وفضلهما واحتوائهما على الأحكام والشرائع التي يحكم بها أنبياء بني إسرائيل والتعليم، لذلك يدخل فيه تعليم ألفاظه ومعانيه، ويحتمل أن يكون المراد بقوله { ويعلمه الكتاب } أي: الكتابة،
سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدي (المتوفى: 1376هـ)
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ثم أخبر تعالى عن منته العظيمة على عبده ورسوله عيسى عليه السلام، فقال { ويعلمه الكتاب } يحتمل أن يكون المراد جنس الكتاب، فيكون ذكر التوراة والإنجيل تخصيصا لهما، لشرفهما وفضلهما واحتوائهما على الأحكام والشرائع التي يحكم بها أنبياء بني إسرائيل والتعليم، لذلك يدخل فيه تعليم ألفاظه ومعانيه، ويحتمل أن يكون المراد بقوله { ويعلمه الكتاب } أي: الكتابة، لأن الكتابة من أعظم نعم الله على عباده ولهذا امتن تعالى على عباده بتعليمهم بالقلم في أول سورة أنزلها فقال { اقرأ باسم ربك الذي خلق خلق الإنسان من علق اقرأ وربك الأكرم الذي علم بالقلم } والمراد بالحكمة معرفة أسرار الشرع، ووضع الأشياء مواضعها، فيكون ذلك امتنانا على عيسى عليه السلام بتعليمه الكتابة والعلم والحكمة، وهذا هو الكمال للإنسان في نفسه.
( تفسير السعدي :تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان )
اللہ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰ پر اپنے عظیم احسان کا ذکر فرمایا (ویعلمہ الکتب) ” اللہ اسے کتاب یا کتابت کا علم دے گا“ اس لفظ سے کتاب کی جنس مراد ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد تورات اور انجیل کا ذکر خصوص کے طور پر کیا گیا کیونکہ یہ دونوں کتابیں اشرف و افضل ہیں۔ ان میں وہ احکام و شرائع مذکور ہیں جن کے مطابق بنی اسرائیل کے انبیاء فیصلے فرماتے تھے۔ علم دینے میں الفاظ اور معانی دونوں کا علم شامل ہے۔ ممکن ہے کہ الکتاب سے کتابت (لکھنے کا علم) مراد ہو۔ کیونکہ تحریر کا علم اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ہے۔ اسی لئے اللہ نے بندوں پر اپنا یہ احسان خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ اس نے انہیں قلم کے ذریعے سے علم دیا، چنانچہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت میں ارشاد ہے : (اقرا باسم ربک الذین خلق، خلق الانسان من علق، اقرا وربک الاکرم، الذی علم بالقلم) (العلق :3-1/96) ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، اور حکمت سے مراد اسرار شریعت کا علم اور ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنے کا علم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ پر یہ احسانات بیان فرمائے کہ انہیں لکھنا سکھایا، اور علم و حکمت سے نوازا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
يقول تعالى - مخبرا عن تمام بشارة الملائكة لمريم بابنها عيسى ، عليه السلام - أن الله يعلمه ( الكتاب والحكمة ) الظاهر أن المراد بالكتاب هاهنا الكتابة . والحكمة تقدم الكلام على تفسيرها في سورة البقرة .(إبن کثیر)
امام ابنِ کثیر اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ فرشتوں کی اس خوشخبری کو بیان کرتا ہے جو انہوں نے سیدہ مریم علیہا السلام کو بیٹے کی پیدائش کی دی تھی ،
کہ فرشتوں نے سیدہ مریم کو یہ خوشخبری بھی دی کہ :سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم کتاب و حکمت سکھائے گا ،
اورظاہر یہ ہے کہ "الکتاب " سے مراد یہاں کتابت (لکھنا )ہے ، اور "حکمت " سے کیا مراد ہے اسکی وضاحت ہم سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں کرچکے ہیں ؛
 
Top