محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۰ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۰ۭ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِرٌ عَلِيْمٌ۱۵۸
بیشک صفا اور مروہ (پہاڑ) خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کوئی خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کو ان دونوں کا طواف کرنا گناہ نہیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو خدا(اس کا) قدردان اور دانا ہے ۔۱؎(۱۵۸)
۱؎ صفا اور مروہ دوپہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑ ہوتی ہے ۔ یہ ان معنوں میں اللہ کے شعائر ہیں کہ ان سے مناسک کا وہ حصہ وابستہ ہے جس کی ادائیگی سے عجیب طرح کی للہیت پیدا ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ یہ مقام خلوص وایمان کے بے پناہ جذبات کے پیدا کرنے میں ممدومعاون ہیں۔ انھیں اللہ کے شعائر اس لیے کہا کہ ہم مناسک کی روحانیت کو فرامو ش نہ کریں اور صرف ظاہری رسوم کو صحیح نہ سمجھیں بلکہ اس کی روحانیت اور اثر کو برقرار رکھیں۔ لاجناح اس لیے کہا کہ پہلے ان دوپہاڑوں پر بت رکھتے تھے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس لیے کہ شائبہ شرک نہ ہو، طواف کرنے سے تامل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کوئی مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا، اس لیے انداز بیان سےوجوب سعی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نفی تخرج کی ہے نہ عدم سعی کی، اس لیے جمہور فقہا کا مذہب ہے کہ سعی واجب ہے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرف گئی ہیں۔ امام مالک اورامام شافعی رحمہما اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوئی جس میں لاجناح کی تشریح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان انصار اسلام سے پہلے مناۃ کی پوجا اور اعزاز میں سعی کرتے تھے۔ جب اسلام لائے تو انھوں نے سعی وطواف میں تامل کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی مضائقہ نہیں تمہاری نیتیں نیک ہیں۔اللّٰہ کے شعائر