• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللّٰہ کے شعائر۔۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۝۰ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۝۰ۭ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۝۰ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِرٌ عَلِيْمٌ۝۱۵۸
بیشک صفا اور مروہ (پہاڑ) خدا کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو کوئی خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کو ان دونوں کا طواف کرنا گناہ نہیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو خدا(اس کا) قدردان اور دانا ہے ۔۱؎(۱۵۸)
اللّٰہ کے شعائر
۱؎ صفا اور مروہ دوپہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑ ہوتی ہے ۔ یہ ان معنوں میں اللہ کے شعائر ہیں کہ ان سے مناسک کا وہ حصہ وابستہ ہے جس کی ادائیگی سے عجیب طرح کی للہیت پیدا ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ یہ مقام خلوص وایمان کے بے پناہ جذبات کے پیدا کرنے میں ممدومعاون ہیں۔ انھیں اللہ کے شعائر اس لیے کہا کہ ہم مناسک کی روحانیت کو فرامو ش نہ کریں اور صرف ظاہری رسوم کو صحیح نہ سمجھیں بلکہ اس کی روحانیت اور اثر کو برقرار رکھیں۔ لاجناح اس لیے کہا کہ پہلے ان دوپہاڑوں پر بت رکھتے تھے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس لیے کہ شائبہ شرک نہ ہو، طواف کرنے سے تامل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کوئی مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا، اس لیے انداز بیان سےوجوب سعی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نفی تخرج کی ہے نہ عدم سعی کی، اس لیے جمہور فقہا کا مذہب ہے کہ سعی واجب ہے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرف گئی ہیں۔ امام مالک اورامام شافعی رحمہما اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوئی جس میں لاجناح کی تشریح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان انصار اسلام سے پہلے مناۃ کی پوجا اور اعزاز میں سعی کرتے تھے۔ جب اسلام لائے تو انھوں نے سعی وطواف میں تامل کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی مضائقہ نہیں تمہاری نیتیں نیک ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ۝۱۵۹ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝۰ۚ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝۱۶۰ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۝۱۶۱ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ۝۱۶۲
جولوگ ہماری نازل کی ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔ بعد اس کے کہ ہم ان لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کرچکے ہیں تو اس پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور سب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔۱؎ (۱۵۹)مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح پر آگیے اور ان باتوں کو کھول دیا تو ایسے ہی لوگوں کو میں معاف کرتا ہوں اور میں معاف کرنے والا مہربان ہوں۔۲؎ (۱۶۰) جولوگ کافر ہوئے اور کافرہی مرگیے ،ان پر اللہ کی اورفرشتوں کی اور سب آدمیوں کی لعنت ہے ۔(۱۶۱) وہ ہمیشہ لعنت ہی میں رہیں گے۔ نہ ان کا عذاب ہلکا ہوگا اور نہ انھیں مہلت ملے گی۔۳؎
۱؎ ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ۔'' مروہ'' کا ذکر بائبل میں موجود ہے لیکن یہودی اپنی عادتِ کتمان کے بموجب اس کو چھپاتے ہیں ، اس لیے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی یعنی یہ کتمان حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہیں اور تمام ایماندار اشخاص بھی انھیں قابل رحم نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی آج بھی باوجود تمول وتعلیم کی فراوانی کے تمام دنیا کی نظروں میںذلیل ہیں اور انھیں کوئی اخلاقی وروحانی درجہ نہیں دیاجاتا بلکہ مغرب میں ''یہودی'' ایک قسم کی گالی ہے جسے کوئی غیر یہودی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
۲؎ خداتعالیٰ کی جہاں اور صفاتِ حسنہ ہیں، وہاں اس کا تواب ورحیم ہونا بھی ایک صفت ہے ۔ یعنی وہ ہمارے گناہوں کی توبہ، گناہوں سے کامل نفرت کے بعد بخش دیتا ہے ۔

ان آیات میں یہودیوں کو دعوت استغفار ہے کہ وہ اگرسچے دل سے اپنی بداعمالیوں کا اقرار کرلیں اور آئندہ کے لیے اصلاح کرلیں اورپھر اپنی تمام شرارتیں جو انھوں نے کتاب کی تحریف کے سلسلہ میں کی ہیں،ظاہر بھی کردیں تواللہ تعالیٰ انھیں اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا اور ان کے گناہ معاف کردے گا، اس لیے کہ گناہ کرنے سے خدا کی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ سعی کرنے سے اس کی خدائی میں کچھ اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ سب اعمال تو انسان کی اپنی اصلاح کے لیے ہیں، اس لیے بڑے سے بڑا گناہ کرنے کے بعد بھی اگر ہم اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں۔

۳؎وہ لوگ جو کفر وعصیان کی حالت میں مرتے ہیں اورحقائق ودلائل کے باوجود انکار پر مصررہتے ہیں، ان کے لیے نجات کی کوئی گنجائش نہیں۔وہ ہمیشہ اللہ کے غضب اور پاک سرشت فرشتوں کی ناراضی میں اور تمام لوگوں کی نگاہِ نفرت میں زندگی بسرکرتے ہیں اور اللہ کی رحمتوں سے دور،ملائکہ کی توجہات روحانی سے محروم اور پاکباز گروہ کی عنایات سے الگ ذلت ولعنت کے عمیق گڑھوں میں رہیں گے۔ نہ تو ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ ان کے فردِ اعمال پر نظرثانی کی جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی میں حق کی طرف رجوع کرنے کا قصد بھی نہیں کیا۔ وہ سچائی کی طرف کبھی نہیں جھکے اور اسلام کی عالمگیر صداقتوں پر انھوں نے اپنے اوقات کا ایک لمحہ صرف نہیں کیا۔لہٰذا انھیں سزا بھگتنے کے لیے آزاد چھوڑدیا جائے گا۔

وَلاَھُمْ یُنْظَرُوْنَ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کی نظریں ان پر نہیں پڑیں گی۔ یا وہ اللہ کے احاطہ ٔعلم ونظر سے دور ہوجائیں گے بلکہ مقصد یہ ہے کہ شفقت ورحمت کی نظروں سے محروم رہیں گے یعنی خدا تعالیٰ کا جذبۂ رحم ان کے لیے موجزن نہ ہوگا اور جس طرح دنیا میں وہ اللہ سے کھچے کھچے رہے ہیں اللہ بھی آخرت میں ان سے بے نیازی سے رہے گا۔
 
Top