• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالٰی سے محبت کا طریقہ

شمولیت
دسمبر 12، 2012
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمٰن الرحمٰن الرحیم
الصلوٰۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کوئی بھی شخص کس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرسکتاہے ؟...
واضح رہے،کہ محبت باری تعالیٰ کے لئے بھی شریعت مطہرۃ نے قانون وقاعدہ مقرر فرمایاہے،کہ آپ چاہے کچھ بھی کرلیں ،لیکن حصول حب باری تعالیٰ کے لئے گھوم پھرکر سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس ہی کی طرف آنا پڑے گا اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں،چنانچہ
ارشادباری تعالیٰ ہے،کہ
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ :یعنی اے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیجئے،کہ لوگوں اگر تم اللہ تعالیٰ کو دوست رکھتے ہو،تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ،اللہ تعالیٰ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ آل عمران۔آیت31)
مذکورہ آیت کریمہ میں بتایاجارہاہے،کہ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے ...یا... کرنا چاہتاہے، اس کے لئے حکم شرع یہی ہے،کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی کرے ،کیونکہ جب تم اللہ کے اس محبوب(علیہ السلام) کی پیروی کروگے، تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا، تمہیں دوست رکھے گا ،مگر شرط یہی ہے کہ
تم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کرلو،اورلازمی بات ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی وہی کرے گا ،کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے گا اور جو محبت رکھے گا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد ادب واحترام بھی کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر بھی کرے گا اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی کرنا ،کاملیت ایمان کاسبب بن جائے گا ۔
اورچونکہ بدیہی بات ہے،کہ انحصار کاملیت ایمان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ومحبت و تعظیم وتکریم پرموقوف ہے،کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ سے عشق ومحبت ہی عین ایمان و مدارایمان ہے ، بصورت دیگر یعنی اگرکسی کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہو ،مگر باوجود اس کے وہ مومن ہونے کا دعویدار ہو، تو یاد رہے کہ ایسا نام نہادا یمان قطعاً مقصود شرع نہیں۔بلکہ
مومن کے لئے توحکم شرع یہ ہے،کہ وہ نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان واولاد اپنے ماں باپ اور مخلوق میں سے ہر شے سے زیادہ محبوب رکھے،جیساکہ
اللہ تعالیٰ فرماتاہے،کہ
اَلنَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ:یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مؤمنین سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں-
(سورۃ الاحزاب۔ آیت نمبر6)
مذکورہ آیت کریمہ کی وضاحت کے بعد ،حاصل کلام یہ ہے،کہ جب اللہ تعالیٰ نے سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری جانوں سے بھی زیادہ قریب کردیاہے،ہماری جانوں کامالک بنادیاہے ،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام ومحبت کو ہر محبوب شے پرمقدم رکھنا لازم ہوا،بصورت دیگریعنی
اگرکوئی اس کے برعکس جاتاہے،یعنی جس دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی نہ ہو ،توایسی صورت میں اگرچہ بظاہرکتنے ہی زمین پر سجدے کرکے اپنی پیشانی کو رگڑ کر مثل کباب کیونکر نہ بنادیاجائے ،لیکن مدار ایمان یعنی دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہو،تواب ایساشخص کافرومشرک ہے ،چہ جائیکہ محض دکھاوے کے طورپر کتنا ہی نیک ومتقی کیونکر نہ ہو،
یاد رہے ،کہ جس دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ، ادب و احترام نہیں یا جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر سے کٹتا ہے ،توایسا شخص ہر گز مومن ومسلم نہیں،بلکہ ایسے شخص کو منافق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
کامل مومن تو وہی ہے،کہ جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا درجہ عشق و محبت کرے ، آپ صلی ا للہ علیہ وسلم کے احکامات کی اتباع کرے ، کہ عین ایمان اوریہی مراد باری تعالیٰ ہے۔لیکن!لمحہ فکریہ ہے،کہ بعض گمراہ اور بدمذہب لوگوں کی طرف سے مختلف ہتکنڈوں سے مومنین کے دلوں سے تعظیم رسالت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اور اس سلسلے میں مختلف فرقے مختلف ناموں سے کمرکس کرمیدان میں آئے ہوئے ہیں
یہی وہ لوگ ہیں،کہ جن کے قلوب، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہیں،یہی وہ لوگ ہیں کہ جو زبان سے شرک وبدعت کا نعرہ لگاکر شرک وبدعت کی آڑ میں لوگوں کے ایمان خراب کرنے پرتلے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں سے شمع عشق رسالت کو بجھادیاجائے ۔ (اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان کے شر سے بچائے ،آمین۔)
نیز!جولوگ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف وناآشناہیں،کہ جن کو عقائد صحیحہ (عقائداہلسنت )پر مکمل ...یا... خاطر خواہ دسترس حاصل نہیں ہوتی، اگرچہ وہ مسلک اہلسنت والجماعت سے منسلک بھی ہوں، لیکن کم علمی... یا... ناواقفیت عقائد حقہ کے سبب ،یاتو وہ ان گمراہوں اوربدمذہبوں کی جانب سے کئے جانے والے کچھ سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہوتے ہیں... یا... وہ وساوس کا کا شکار ہوجاتے ہیں اورایسے موقع پر بدمذہب وگمراہ و بددین لوگ ، اس پر فورا شرک کا الزام لگادیتاہے اور وہ شخص چونکہ درست عقائد سے ناواقف ہوتاہے لہذا وہ گمراہ ہوکر بدمذہبوں اور گمراہوں کے شکنجے میں آجاتاہے
اس طرح ایک سیدھا سادھا مسلمان ،اپنے ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے اور گمراہ وبے دین ہوجاتاہے، لہذا ہرمسلمان پرلازم ہے،کہ وہ عقائدحقہ (اہلسنت والجماعت) کا بغور مطالطہ فرمائیں ،تاکہ شریعت اسلامیہ کے احکامات کے مطابق نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی میں اپنی زندگی بسر کرکے رضائے الٰہی کے مستحق ہوں ۔
 

aamirrafiq

رکن
شمولیت
ستمبر 28، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
46
بسم اللـه الرحمن الرحيم
الحمد اللہ الزی بعث فی امیین رسولا منھم وارسله شاھدا و مبشرا و نذیرا وداعیا الی اللہ باذنه و سراجاومنیرا و صلی اللہ تعالیٰ علیه وعلی آله واصحٰبه اجمعین ۔
امابعد

كان الناس أمة واحدة فبعث اللـه النبيين مبشرين ومنذرين وأنزل معهم الكتاب بالحق ليحكم بين الناس فيما اختلفوا فيه ۚ وما اختلف فيه إلا الذين أوتوه من بعد ما جاءتهم البينات بغيا بينهم ۖ فهدى اللـه الذين آمنوا لما اختلفوا فيه من الحق بإذنه ۗ واللـه يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم ﴿٢١٣﴾ سورة البقرة

ترجمہ : دراصل لوگ ایک ہی گروہ تھے ، اللہ تعالی نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں ، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے ۔ اور صرف انہیں لوگوں نے جو اسے دئے گئے تھے ، اپنے پاس دلائل آچکنے بعد آپس کے بغض وعناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا ۔ اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیّت سے رہبری کی اور اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کتا ہے۔
قرآن مقدس کی یہ آیت کریمہ اس توحید الوہیت کی ایک انتہائی مفصّل اور مدلّل ترجمان ہیں کہ جس توحیدالوہیت کی مکلف کل اولاد آدم ٹھہری بلکہ یہی توحید الوہیت تخلیق جن و انس کی بنیاد ہیں اس لئے کہ ہر عبادت کے لئے یہ امر لازم ہے کہ وہ خالسطا لوجہ اللہ ہو ۔ ایک طرف یہ حقیقت اور دوسری طرف انسانی فطرت کا معاملہ کہ ہر ایک فرد کی طبیعت تمام دوسرے ہم جنس افراد کی طبیعت سے مختلف اور ہر فرد کے سوچنے کا ڈھنگ جداگانہ ہے ۔ یہی وہ انسانی فطرت ہے کہ جس میں ایک اعلیٰ پایہ کی خوبی بھی ہے اور اس کے برعکس ایک خطرناک خامی بھی ہے ۔ اگر یہ اختلاف فکر اور اختلاف سوچ آسمانی ہدایت کت تابع کردیا جائے تو یہ اجماع انسان ایک گلدستے کی شکل اختیار کرتا ہےکہ جس گلدستے کے پھول ایک دوسرے سے جداگانہ مگر ایک ہی دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں ۔ برعکس اس کے اگر یہی اختلاف فکر اور اختلاف سوچ ایک ہی آسمانی ہدایت کے تابع نہ کردیا جائے تو یہی اجتماع انسانی ایک ٹوٹے ہوئے شیشے کی کرچیوں کی مثال پیش کرتا ہیں کہ جس شیشے کی کرچی اپنے اندر ایک چبھن لئے ہوئے اس کے چھونے والے کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
تاریخ انسانی کا یہ المیہ رہا ہے کہ انسانی سرشتے میں جو شیطانی بہکاوے کی آمیزش کا زنگ لگ چکا اس نے اکثر اپنا رنگ دکھا ہی دیا اور انسانی معاشرے بار بار ہدایت کی پٹری سے اترتے رہے ۔ کئی اقوام نے اس کا خمیازہ ماضی میں بگھت لیا اور حال تو کسی سے بھی بعید نہیں ۔ لیکن اسے اللہ تعالی کی صفت رحمانی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو شیطانی جھانسے سے نکالنے کے لئے ان ہی میں سے نبی اور رسول چن لئے کہ جنہونے اللہ تعالی کی تعلیمات اور ہدایت سے بہکے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو ان تعلیمات اور اس ہدایت کی طرف رہنمائی اور رہبری کی ۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات اور ہدایت کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان نبیوں اور رسولوں کا مرتبہ بلند کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر ترین بندے کہلائے ۔ ان تمام نبیوں اور پیغمبروں کی بعثت کا سلسلہ خاتم النبین ختم المرسلین امام الاولین والاٰخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر تمام ہوا۔ اور اس طرح نبی آخرزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دوسرے انبیاء ورسل پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء ورسل اپنے سابقہ پیغمبروں کی شریعت کے ناسخ تو بن کر آئے اور ان کی شریعت آنے والے پیغمبروں نے منسوخ کی لیکن محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام سابقہ پیغمبروں کے ناسخ تو بن کر آئے لیکن ان کی شریعت کو منسوخ کرنے والا نہ کوئی آج تک آیا نہ کبھی آئندہ آنے والا ہیں اور یہی وہ رفعت نبوی ہے کہ جس کا برملا اعلان خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ::: ورفعنا لک ذکرک ::: اور ہم نے تیرا زکر بلند کردیا ۔ اور اس ذکر کے معنیٰ یہ ہے کہ ایک مومن کے لئے یہ لازم کرار پایا کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملے میں محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے ::: لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة ::: یقینا تم میں رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہیں ( الاحزاب ) ۔ اس طرح محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ سولم قیامت تک آنے والے تمام زمانوں اور تمام زمینوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جملہ عبادات کے معاملے میں ایک واحد معیار حق کی حیثیت رکھتے ہے اور ان پر نازل ہوچکا قرآن رہتی دنیا تک تمام عبادالرحمٰن کے لئے آفاقی آفاقی آئین اور دستور ہے ۔ محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر یہ آیت گواہ ہے ::: ولکن الرّسول اللہ و خاتم النّبیّن ::: لیکن آپ اللہ تعالی کے رسول ہے اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ( الاحزاب ۴۰) بہر حال محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اب آخری شریعت ہے اور یہی شریعت اب پوری دنیا میں رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے ۔ اس شریعت کی رو سے حلال کرار پائی چیزیں ہی حلال ہیں وہ حرام ثابت نہیں کی جاسکتیں اور تمام حرام کرار پائی چیزیں حرام ہی ہے اور وہ حلال ثابت نہیں کی جاسکتیں اور جو کوئی ایسا کام کرنے کا مرتکب ٹھہرا وہ اسلامی دائرہ سے خارج بدعات کا مرتکب مانا جاسکتا ہے ۔ اس لئے کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم انسانیت کے لئے ایک حتمی اور مکمل نمونہ کے طور پر خود خالق قائنات اللہ ربّ العباد نے پیش کیا ہیں ۔ رسوال اللہ صلی اللہ وسلم کو یہ حیثیت ایک نبی اور ایک رسول کی صورت میں پیغام الٰہی عبادالرّحمٰن تک پہچانے کے صلہ میں عطا کی ہیں ۔ یہ انعام انہیں چالیس سال کی عمر میں عطا کیا گیا اور ہر پیغمبر کو یہ اعزاز اسی سن میں اللہ تعالی نے عطا کیا ہے ۔ اس طرح ہر پیغمبر کو مرتبی پیغمبری ای خاص عمر میں عطا ہوا ۔ یہ مرتبہ پیدائشی نہیں ہوتا ۔ اس لئے تاریخ پیدائش منانے کا عقلا بھی کوئی جواز موجود نہیں تو شریعت کے اعتبار سے اس کا کہیں کوئی ثبوت نہ ملنا تاریخ پیدائش منانے کی رسم کو ایک غیر شرعی فعل ہی ثابت کرتا ہے ۔ اور تو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل عمر مبارک جو بشمول نبوت کے تئیس (۲۳) سال کے تریسٹھ (۶۳) پر محیط ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومولادت منانا کہیں بھی ثابت نہیں ۔ یہ دن ابو لہب نامی اس چچا نے بھی کبھی نہیں منایا لہ جس نے اپنے ان بھتیجے کی پیدائش پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا تھا اوران کا عقیقہ بھی کیا لیکن اعلان نبوت کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت مخالفت کی تھی ۔ نہ یہ دن ان صحابہ نے منایا جنہونے اپنا مال و جائداد ہی کیا بلکہ اپنی زندگیاں تک اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف کی تھیں۔ پھر اس دن کو عید کے طور پر منانا اسلامی عقیدے کی مخالفت اس صورت میں بھی کرتا ہے کہ شریعت کی رو سے جو اصطلاح عیدین کی صورت میں استعمال کی جاتی تو یہ اصطلاح نہ واحد ہے اور نہ جمع بلکہ تشنیہ ہے ۔ عربی قاعدے کی رو سے تعداد کے لحاظ سے اسم کی تین حالتیں ہیں یعنی واحد ، تشنیہ اور جمع ۔ والحد کا اطلاق ایک پر ، تشنیہ کا دو پر اور جمع کا دو سے زائد پر ہوتا ہیں ۔ اس لحاظ سے عیدین سے مراد دو عیدین یعنی عید الفطر اور عیدالعضحیٰ ٹھہری ، پھر یہ عید میلاد، عید غدیر، عید نوروز، عید شم النسیم( موسم بہار کی عید ) ، عید وفاءالنیل ( دریائے نیل میں سیلاب کی خوشی ) وغیرہ سب کی سب خوس تراشیدہ ہیں کہ جن کا اصل سے کوئی تعلق نہیں ۔ اور یہ بات بلکل واضح اور عیاں ہے کہ شرعی عیدین کے لئے شریعت کے اعتبار سے ان کے منانے کا آغاز صلوٰت العید سے ہوتا ہے ۔ کیا دیگر خود تراشیدہ عیدوں کے لئے بھی نماز عید کا کوئی اہتمام ہوتا ہے ؟ اگر ہاں تو میرا استدلال غلط اور اگر نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔؟
پھر عید میلاد منانے کی اصل عیسائیوں کی نقل ہے کہ جو عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کو عید کے طور پر مناتے تھے اور اس کے بعد واقع ہونے والا جمعہ GOOD FRIDAY کے طور پر مناتے ہیں ۔ اور امت محمدیہ نے نصاریٰ یہود کی بہت ساری خرافات کی نقالی کرتے ہوئے اپنے لئے ایک سنگین صورت حال پیدا کی ہے اور اس صورت حال سے نکلنے کے لئے ہمیں اپنی عبادات کے لئے محمد نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو یہ اپنے لئے مشعل راہ بنانا ہوگا اور یہی اس ذات عقدس کے ساتھ حقیقی محبت اور ان کا اصل احترام ہے۔ ورنہ محبت کے جھوٹے دعوے کسی کام کے نہیں بلکہ الٹا دنیا ار آخرت کے خسارے کا باعث بن سکتے ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے نجات دے اور اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر عمل پیرا ہونے کی طوفیق نصیب فرمائے ( آمین )
 

aamirrafiq

رکن
شمولیت
ستمبر 28، 2011
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
46
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نے یہ سب کائناتیں صرف چھ۶ دن میں بنائیں اور اس عظیم ذات کو زرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی، تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں، تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں، تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،

اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔

نبی اکرم علیہ السلام کی سیرت طیبہ کے بلا شبہ ہزاروں پہلو ہیں اور بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے اعتبار سے ہر پہلو دوسرے پر سبقت لے جانے والا ہے۔

نبوت سے پہلے بھی آپ ؑ یقینا لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے مکہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہونا اس بات کی دلیل ہے۔پہلی وحی کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوف کی حالت میں گھر تشریف لائے تو اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گزضائع نہیں کرےگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں،مصیبت زدہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں،بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق والوں کو حق دلاتے ہیں۔

اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یہ گواہی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لیے سرتا سر رحمت تھے۔

منصبِ رسالت پر فائز ہونے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت تک دین پہنچانے کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرز عمل اختیار فرمایا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلوہے جس کی رفعتوں اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کی بس کی بات نہیں ہے۔

غور فرمایئے کہ چالیس سال کے بعد اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منصبِ نبوت سے سرفراز فرمایا، عمر کا یہ وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہر انسان اپنی عزت اور احترام کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے

چالیس سال تک صادق اور امین کہلانے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ جھوٹا، مجنوں، شاعر، کاہن، اور جادوگر کہتے ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان گالیوں اور طعنوں کے جواب میں کبھی بھی ایک غلط لفظ تک زبان سے نہیں نکالا۔

تین سال تک خفیہ دعوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ دعوت کا علان فرمایا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کو جمع فرما کر توحید کی دعوت پیش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین کی اور یہ کہہ کر ڈانٹ دیا تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تو نے ہم کو اس لیے جمع کیا ہے ‘‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا کے اس ہتک آمیز رویہ پر مکمل خاموشی اختیار فرمائی لیکن قرآن میں اللہ نے اس کا جواب دیا

’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ ۝ۭ
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘‘‘
کہہ کر دے دیا۔

امیہ بن خلف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی گالیاں بکنا شروع کر دیتا تھا اور لعن طعن کرتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جوب میں ہمیشہ خاموشی اختیار کی حتیٰ کہ اللہ نے قرآن مجید میں اس کا جواب دیا

’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ ۝ۙ
بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے عبداللہ فوت ہوئے تو ابولہب، عاص بن وائل، ابوجاہل وغیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ـ’’’جڑ کٹا‘‘‘ہونے کا طعنہ دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اللہ نے قرآن میں اس کا جواب یوں دیا،

’’’ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۝
یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے ۔

مکی زندگی کے ۱۳ سال اسی طرح کی مشکلات میں گزرے ہر کوئی اہلِ اسلام کو پریشان کرنے کا طریقہ سوچتا رہتا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے مکی زندگی میں اور بھی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر یہاں صرف وہ واقعات پیش کرنے ہیں جس میں نبی علیہ السلام کی ناموس کو نشانہ بنایا گیا۔

تاریخ کے صفحات میں جہاں کفار کے گھناونے جرائم اور ظلم و ستم کی داستانیں محفوظ ہیں وہاں یہ خیرت انگیز حقیقت بھی محفوظ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مظالم سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کتنی دفعہ فرمایا اور کن الفاظ میں فرمایا؟

تیرا ۱۳ سالہ طویل مکی زندگی میں صرف تین یا چار مواقع ایسے ملتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ظلم و جور سے تنگ آ کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا اظہار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اور شریفانہ اخلاق کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔

پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے میں ابولہب، عقبہ بن ابی معیط وغیرہ رہتے تھے جو شب و روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر غلاظت اور گندگی پھینک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ پریشان ہوتے تو دیوار پر چڑھ کر یا دروازے پر کھڑے ہو کر بس اتنا فرماتے

’’’’’ اے بنو عبدمناف یہ کیسی ہمسائیگی ہے؟ ‘‘‘‘‘

یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردِعمل اس تکلیف اور اذیت ناک بدتمیزی پر۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مسجد حرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، ائمہ کفر نے مشورہ کر کے سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر رکھ دی اور خود کھڑے ہو کر قہقہے لگانے لگے حتیٰ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ملی اور انہوں نے آکر اوجھڑی ہٹائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا

’’ اللھم علیک بقریش ‘‘ یعنی ’’’ یا اللہ تو قریش سے نپٹ لے ‘‘‘

مشرکینِ مکہ کے ظالمانہ اور استہزایہ کرتوتوں پر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ردِعمل تھا۔

تیسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار دورانِ طواف مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لعن طعن کی اور ڈانٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا

’’’’’ میں تمہارے پاس ذبح کا حکم لے کر آیا ہوں ‘‘‘‘
اس پر سارے مشرکین ساکت ہو کر رہ گئے۔

مصائب و مشکلات سے پُر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ طویل مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ ہیں سخت سے سخت الفاظ جو ہمیں تاریخ سے ملتے ہیں جس میں کسی کو گالی دی نہ لعن طعن کیا،کسی سے بدتمیزی کی نہ کسی کا مذاق اڑایا،کسی سے لڑائی جھگڑا مول لیا نہ کسی سے بحث کی، بلکہ انتہائی شائستہ اور مہذب الفاظ میں معاملہ اللہ کے سپرد کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ تسلیم کیئے بغیر چارہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق اور کردار کے اعتبار سے بالکل ویسے ہی تھے جیسا کہ اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا

’’’ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بےشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں ‘‘‘
سورۃ القلم آیت نمبر۴۔

اخلاق کا ایسا عظیم مرتبہ جس پر اس کائنات کا کوئی دوسرا انسان فائز ہے نہ ہو سکتا ہے۔

یہ سب حالات تھے مکہ کے مدینہ میں جب ہجرت ہو گئی اور درالسلام بن گیا تو اللہ نے جہاد اور قتال کا حکم نازل فرمایا مکہ میں صبر کرنے کا حکم ہم کو ملتا ہے آلِ یاسر رضی اللہ عنہم پر جو ظلم ہوئے اس پر بھی صرف صبر کا حکم آیا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ مسلمان ڈرتے تھے نہیں بلکہ اللہ کی اس میں کوئی حکمت تھی جو ہر معاملے پر صبر کرنے کو کہا گیا۔

اب وہ آیات دیکھیں جس میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔

اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے اس پر صبر ہی کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ کہ ہماری امداد ان کو پہنچی اور اللہ کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ، اور آپ کے پاس بعض پیغمبروں کی بعض خبریں پہنچ چکی ہیں ۔
سورۃ الانعام آیت نمبر۳۴۔

موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالٰی کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالٰی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وہ مالک بنا دے اور آخر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
سورۃ الاعراف آیت نمبر ۱۲۸

اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہو گیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کر دیا ۔
سورۃ الاعراف نمبر ۱۳۷

ان آیات میں پہلے رسولوں کا ذکر کر کے ان کے صبر کا بتایا گیا ہے اور ان کے صبر کی ہی برکت سے اللہ نے ان کو کفار پر غالب کر دیا۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو صبر اور استقامت سے کام لینا چاہیے۔ صبر کفار کے ظلم پر اور استقامت اپنے دین پر قائم رہ کر۔

مدنی زندگی۔

ایک واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔۔۔۔
محمد بن یحیی بن فارس، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ وہ ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کا گناہ (غزوہ تبوک) میں معاف ہوا تھا۔ اور کعب بن اشرف ایک یہودی تھا جو (اپنے اشعار میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف بھڑکاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو یہاں مختلف مذاہب کے لوگ تھے جن میں مسلمان بھی تھے۔ بت پرست مشرکین بھی اور یہودی بھی جو (اپنے اشعار اور کلام کے ذریعہ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو ایذا پہنچاتے تھے اس پر اللہ تعالی نے مکہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر اور درگزر کا حکم فرمایا آیت نازل ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے تم ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اس موقعہ پر اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار تو بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔

پس جب کعب بن اشرف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچانے سے باز نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کو حکم فرمایا کہ وہ اس کو قتل کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجیں پس انھوں نے محمد بن مسلمہ کو بھیجا۔ اور راوی نے اس کے قتل کا قصہ ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب انھوں نے کعب بن اشرف کو قتل کر ڈالا تو یہودی اور مشرکین سب خائف ہو گئے اور یہ سب لوگ صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور بولے چند لوگوں نے ہمارے سردار کو قتل کر دیا تو بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وہ باتیں ان کے سامنے نقل کیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں کہا کرتا تھا اس کے بعد آپ نے ان سے فرمایا اب ہمارے اور تمہارے درمیان ایک قرارداد لکھی جانی چاہئیے جس پر دونوں فریق رک جائیں (اور اس سے تجاوز نہ کریں) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان کے اور تمام مسلمانوں کے درمیان ایک قرارداد لکھی۔
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب: مدینہ سے یہودیوں کا اخراج

دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ۔۔۔۔۔۔
احمد بن عثمان، شریح بن مسلمہ، ابراہیم بن یوسف اپنے والد یوسف بن اسحاق سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت براء بن عازب کو کہتے ہوئے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع کے مارنے کے لئے عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کئی آدمیوں کو روانہ فرمایا یہ لوگ جب اس قلعہ کے قریب پہنچے تو ابن عتیک نے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب یہیں ٹھہرو میں جا کر موقعہ دیکھتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں گیا اور دربان کو ملنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ اتنے میں قلعہ والوں کا گدھا گم ہوگیا اور وہ اسے روشنی لے کر تلاش کرنے نکلے میں ڈرا کہ کہیں مجھ کو پہچان نہ لیں لہذا میں نے اپنا سر چھپا لیا اور اس طرح بیٹھ گیا جس طرح کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے اتنے میں دربان نے آواز دی کہ دروازہ بند ہوتا ہے جو اندر آنا چاہے آجائے چناچہ میں جلدی سے اندر داخل ہوگیا اور گدھوں کے باندھنے کی جگہ چھپ گیا قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر کچھ رات گئے تک باتیں کرتے رہے جب سب چلے گئے اور ہر طرف سناٹا چھا گیا میں نکلا اور دربان نے جہاں دروازہ کی چابی رکھی تھی اٹھالی اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ آسانی سے بھاگ سکوں اس کے بعد میں قلعہ میں جو مکانات تھے ان کے پاس گیا اور باہر سے سب کی زنجیر لگا دی اس کے بعد میں ابورافع کی سیڑھیوں پر چڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں اندھیرا ہے مجھے اس کا مقام معلوم نہ ہو سکا آخر میں نے ابورافع کہہ کر پکارا اس نے پوچھا کون ہے؟ میں نے بڑھ کر آواز پر تلوار کا ہاتھ مارا وہ چیخا مگر وار اوچھا پڑا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر قریب گیا اور دریافت کیا کہ اے ابورافع کیا بات ہے! اس نے سمجھا کہ شاید میرا کوئی آدمی میری مدد کو آیا ہے اس لئے اس نے کہا: ارے تیری ماں مرے کسی نے میرے اوپر تلوار سے وار کیا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے پھر وار کیا مگر ہلکا لگا اس کی بیوی بھاگی اور وہ چیخا میں نے پھر آواز بدل دی اور مددگار کی حیثیت سے اس کے قریب گیا وہ چت پڑا تھا میں نے تلوار پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا دی اب ہڈیاں کوکھنے کی آواز میں نے سنی اب میں اس کا کام تمام کرکے ڈرتا ہوا گھبراہٹ میں چاہتا تھا کہ نیچے اتروں مگر جلدی میں گر پڑا اور پاؤں کا جوڑ نکل گیا میں نے پیر کو کپڑے سے باندھ لیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے ساتھیوں سے آکر کہا کہ تم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی خبر سناؤ میں اس کی موت کی یقینی خبر سننے تک یہیں رہتا ہوں آخر صبح کے قریب ایک شخص نے دیوار پر چڑھ کر کہا کہ لوگو! میں ابورافع کی موت کی خبر سناتا ہوں ابن عتیک کہتے ہیں کہ میں چلنے کے لئے اٹھا مگر خوشی کی وجہ سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی میں تیزی سے چلا اور ساتھیوں کے رسول خدا کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ان کو پکڑلیا اور پھر خود ہی آپ کو یہ خوشخبری سنائی آپ نے پنڈلی پر ہاتھ پھیرا اور میں بالکل تندرست ہوگیا۔
کتاب صحیح بخاری جلد 2

محمد بن علاء، زید بن خباب، عمرو بن عثمان بن عبدالرحمن، حضرت سعید بن یربوع مخزومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تین ایسے شخص ہیں جن کو میں امان نہیں دیتا نہ حل میں اور نہ حرم میں اس کے بعد آپ نے ان تینوں افراد کے نام لئے۔ راوی کا بیان ہے کہ ان تین میں مقیس بن ضباعی کی دوباندیاں بھی تھیں (یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلام پڑھا کرتی تھیں) ان میں سے ایک قتل کی گئی اور ایک بھاگ گئی اور بعد میں مسلمان ہوگئی۔
سنن ابوداؤد: جلد دوم:

جب ہم مکی اور مدنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم کو محکومی اور آزادی کا فرق پتا چلتا ہے مکہ میں صرف صبر کا حکم ملتا ہے جب اسلامی حکومت بن جاتی ہے تو جو کوئی بھی ایسی گٹیا حرکت کرتا ہے تو اُس کا جواب اس کی حرکت کے مطابق دے دیا جاتا ہے۔

میں نے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ جب بھی کبھی مسلمان کمزور ہوئے تو ہی کفار نے ایسے گندے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں کیونکہ جب مدینہ میں مسلمان مضبوط ہو گے تو ایسے واقعات ہم کو کہیں نہیں ملتے, اب بھی اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو وجہ ہماری کمزوری ہے اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم متحد نہیں ہیں اور دوسرا پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی خلافت کا نظام موجود نہیں ہے ایک حدیث میں امام) خلیفہ ( کو پوری امت کا سر) ہیڈ ( کہا اور دوسری حدیث میں پوری اُمت کو ایک جسم کی مانند کہا گیا ہے کہ جس کا سر امام) خلیفہ ( ہوتا ہے اب آپ ہی بتائیں اگر جسم سے سر کو علیحدہ کر دیا جائے تو کیا جسم مردہ نہیں ہو جاتا اس کے بعد پورے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں جان ہی نہیں ہے، آپ خود نوٹ کر سکتے ہیں کہ اس وقت پوری امت ایک مردہ جسم کی مانند نہیں ہے کیا؟؟؟

ایک گٹیا انسان اُٹھ کر ہماری جان نبی علیہا لسلام کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے اور ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے سوائے احتجاج سے، کیا کبھی احتجاج سے دشمن کو ختم کیا جا سکا ہے؟ یا نبی علیہ السلام نے مشرکین مکہ کے ظلم کے خلاف کوئی احتجاجی جلوس نکالا تھا؟

ایک اور حدیث میں امام) خلیفہ ( کو مجاہدین کی ڈھال کہا کہ مجاھدین اس کے پیچھے ہو کر کفار سے جہاد کرتے ہیں، جب ڈھال ہی نہ ہو تو کیا ہم اپنا دفاع کر سکیں گیں؟؟؟

اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ۵۶ اسلامی ممالک کی حکومتیں ہیں اور خلیفہ نہیں ہیں بلکہ اسلام میں ایک وقت میں صرف ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی امارت کرتا ہے اگر اسلامی مملکت پوری دنیا میں بھی کیوں نہ پھیل جائے تو بھی خلیفہ ایک ہی رہے گا۔

اور جو آجکل ۵۶ ممالک کے حکمران ہیں وہ کسی نہ کسی طرح یہود اور نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں کہ یہ ان کے آگے کس منہ سے احتجاج کریں یا اس طرح کے بیہودہ الفاظ اور الزامات لگانے والوں کے خلاف کوئی گوریلہ کاروائی کروائیں حالانکہ مسلمانوں کے پاس کروڑوں کی تعداد میں فوج موجود ہے مگر وہ چند ایک بدزبانوں کی زبان کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتی وجہ یہی ہے کہ ان ایجنٹوں میں وہ دینی غیرت نہیں ہے جو کہ ایک مسلم کی پہچان ہوتی ہے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔

(ان سے) کہو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم، اور اللہ نور ہدایت سے نہیں نوازتا بدکار لوگوں کو،
سورۃ التوبہ آیت نمبر ۲۴

نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔۔

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

صحیح بخاری جلد 1: کتاب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا ایمان کا ایک جزو ہے

صحیح مسلم جلد 1

سنن نسائی جلد 3

سنن ابن ماجہ جلد 1

مراد اس سے یہ بھی ہے کہ جس طرح ہم اپنے والدین اور اپنی اولاد کی عزت کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے اسی طرح ہم مومن نہیں بن سکتے جب تک ہم نبی علیہ السلام کی عزت کا بھی دفاع نہ کریں، کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا حدیث اوپر گزر گئی ہے۔

مگر افسوس اس وقت ہم نبی علیہ السلام کی عزت کا دفاع نہیں کر پا رہے وجہ یہ نہیں کہ ہم میں ایمان کی کمی ہے بلکہ جو اس طرح کی گٹیا حرکتیں کرتے ہیں وہ ہماری پہنچ سے دور ہیں اگر وہ ہمارے سامنے ایسی حرکت کر کے اپنی جان بچا جائے تو پھر ہم مومن ہرگز نہیں ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں کے پاس ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود ان ظالموں کے خلاف قدم نہ اُٹھانہ ایمان کی کمی نہیں تو اور کیا ہے؟

یہود اور نصاریٰ اپنے اس گٹیا پن کو آزادی رائے یا آزادی تحریر کا نام دے کر اپنا دامن پاک رکھنا چاہتے ہیں جب کبھی کوئی ان نام نہاد مہذب لوگوں سے اعتراض کرتا ہے کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے ان کے جذبات مجروع ہوتے ہیں آپ ایسی باتیں لکھنے اور نازیبہ الفاظ اسلام کے خلاف اخبارات میں لکھنے پر پابندی لگائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آزادی تحریر ہے جو کوئی مرضی لکھے۔

وہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اپنے خود ساختہ اصول آزادی تحریر سے کرتے ہیں مگر جب کوئی بندہ یہود کے خلاف یا کسی پادری کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرے تو اُس پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے یہ آزادی رائے وہ صرف مسلمانوں کے دین ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے خلاف ہی استعمال کرتے ہیں اور اسی کو آزادی رائے کہتے ہیں۔

میں وہ باتیں لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا جو یہ کفار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام کے خلاف لکھتے ہیں اور یہ ایک دو واقعات نہیں ہیں بہت زیادہ ہیں تقریبا پورے یورپ میں نازیبہ خاکے اخبارات میں بنائے گے ہیں اور ابھی حال میں یہود کی ویب سائٹ فیس بک پر بقائیدہ مقابلہ کروایا گیا ہے، ہمارے حکمران اتنے بزدل اور یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں کہ صرف چند دن ہی فیس بک بلاک کی گئی جب ان حکمرانوں کے باس (BOOS) نے حکم دیا کہ اس سائٹ کو کھول دیا جائے تو اُسی وقت اسلام کے ابدی دشمنوں کی بات مان کر فیس بک کو بحال کر دیا گیا حالانکہ جو رائے شماری نیٹ پر کی گئی تھی اُس میں ۷۰ فیصد پاکستانیوں نے اس سائٹ کو ہمیشہ کے لیے بلاک کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اب میں وہ واقعات لکھتا ہوں جس میں یہود اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا تو ان پر پابندی لگی یا اس کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔

نمبر1- ۲۰۰۴؁ میں ڈنمارک کے اسی اخبار کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کیے گئے تھے ) میلنڈزپوسٹن ( میں کوکرسٹوفرزیلر کارٹونسٹ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کارٹون شائع کرنے کے لیے دیے گئے لیکن اخبار کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر کارٹون شائع کرنے انکار کر دیا کہ ان کارٹونوں سے عیسائیوں کے جذبات مجروع ہونے کا خدشہ ہے۔

نمبر 2- یورپی ممالک میں یہودیوں کے جرمنی میں قتلِ عام کی خودساختہ تاریخ کے خلاف کوئی بات تحریر کرنا قانونا جرم ہے تاکہ یہودیوں کے جذبات مجروع نہ ہوں، یہودی مقتولین کی تعداد ۵۰ لاکھ سے کم تحریر کرنے پر ۲۰ سال قید کی سزا ہے۔

نمبر 3- اسرائیل نے جب لبنان پر جارحانہ حملہ کیا تھا تو امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور کہا کہ اب نیا مشرق وسطیٰ ) یعنی گریٹراسرائیل (جنم لے رہا ہے۔ اس پر ایک فلسطینی اخبار نے رائس کا ایک کارٹون شائع کیا جس میں اسے اس طرح حاملہ دکھایا کہ اس کے پیٹ میں مسلح بندرہے، نیچے لکھا ہوا ہے’’نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش‘‘ اس کارٹون پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ گھناؤنے حملے ہیں۔

نمبر ۴۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے پرویز مشرف کے خلاف اپنے ۹نومبر ۲۰۰۷ کے ادارئیے میں سخت زبان استعمال کرنے پر معافی مانگ لی۔ یہ نہ سمجھے گا کہ پاکستان نے احتجاج کیا تھا یا معافی مانگنے کا کہا تھا بلکہ خود ہی اس اخبار نے معافی مانگی کیونکہ مشرف صاحب ناراض نہ ہو جائیں ورنہ بعد میں ہمارے مفادات کی حفاطت کون کرے گا؟

نمبر5- ۱۹۸۹؁ میں برطانوی سنسر بورڈ نے ایک فلم کو محض اس لیے نمائش سے روک دیا کہ اس میں چرچ) یا عیسائی مذہب (کی توہین پائی جاتی ہے جس سے عیسائیوں کے جذبات مشتعل ہونے کا امکان ہے۔
ان رپورٹ کے علاوہ اور بھی بہت سی رپورٹس ہیں اگر لکھوں تو مصمون مزید لمبا ہو جائے گا، مقصد لکھنے کا یہ تھا کہ یہود اور عیسائیوں کے جذبات کی قدر ہے مگر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی بقول شاعر۔۔۔

وہ ایک بھی لڑھک جائے تو آجاتا ہے بھونچال
ہم ہزاروں بھی قتل ہو جائیں تو چرچہ نہیں ہوتا۔

مہذب، شائستہ اور بااخلاق مغرب کی دوسری تصویر یہ ہے کہ جیسے ہی ان کے سامنے اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا ہے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے، منہ سے جھاگ بہنے لگتا ہے، چہرہ سرخ ہو جاتا ہے، ہوش وہواس قائم نہیں رہتے درندگی اور سفاکی غالب آ جاتی ہے، سارے اخلاقی ضابطے، تہذیب اور شائستگی دھری کی دھری رہ جاتی ہے، صرف اور صرف ایک ’’ضابطہ اخلاق‘‘ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کی ہمیں آزادی حاصل ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھنے کی ہمیں آزادی حاصل ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کرنے کی آزادی حاصل ہے اور اس آزادی کو ہمارے تمام قومی مفادات پر اولیت حاصل ہے اور ہم ہر قیمت ہر اس آزادی کی حفاظت کریں گے،کس قدر غلیظ اور قابلِ نفرت ہے یہ تصویر امریکہ اور اہلِ مغرب کی، اس تصویر میں امریکہ اور مغرب روئے زمین پر بسنے والی ساری مخلوق سے زیادہ ذلیل اور جانور نظر آتے ہیں جیسے اللہ کا ارشاد مبارک ہے کہ۔۔۔

جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی گے گزرے ہیں،
القرآن

اہلِ مغرب کا یہ دُہرا کردار روزے روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے، آزادی تحریر محض دھوکہ اور فریب ہے اصل حقیقت اسلام اور نبی ﷺکے ساتھ عداوت اور دشمنی ہے جو ان کے رگ و پے میں اس طرح رچ بس چکی ہے جس طرح ان کے آباؤ اجداد کے رگ و پے میں رچی بسی تھی، کاش ہمارا فریب خوردہ حکمران طبقہ بھی اس کا ادراک کر سکے۔
 
Top