محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,861
- ری ایکشن اسکور
- 41,093
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ سے محبت
اللہ تعالیٰ انسان کے خالق ،مالک اور رازق ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق صرف اپنی عبادت اور بندگی کے لیے فرمائی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾
اہل علم کے نزدیک انسان کا کوئی عمل اس وقت تک مکمل عبادت نہیں بن سکتا جب تک اس میں درج ذیل تین اوصاف شامل نہ ہوںترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (سورۃ الذاریات،آیت 56)
- انتہائی ذلت اور عاجزی
- انتہائی محبت اور خلوص
- انتہائی خوف اور ڈر
پس اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور ذلت اختیار کی جائے،اس کی پکڑ اور عذاب کا خوف محسوس کیا جائے وہاں اس کے ساتھ شدید محبت اور چاہت بھی پیدا کی جائے۔سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
إِنَّهُمْ كَانُوا۟ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًۭا وَرَهَبًۭا ۖ وَكَانُوا۟ لَنَا خَٰشِعِينَ﴿90﴾
یعنی انبیاء کرام کی عبادت میں عاجزی اور خوف کے ساتھ محبت اور چاہت بھی شامل تھی ،جو کہ عقیدہ الولاء کی بنیاد ہے۔ترجمہ: شک یہ لوگ نیک کاموں میں دوڑ پڑتے تھے اور ہمیں امید اور ڈر سے پکارا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے (سورۃ الانبیاء،آیت 90)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّۭا لِّلَّهِ ۗ
پس اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے ایسی محبت جو رسول اللہ ﷺ کی محبت سے بھی زیادہ ہو ،والدین ،بیوی،بچوں،اعزہ و اقارب اور دیگر تمام دوست احباب کی محبت سے بھی بڑھ کر ہو ،اللہ تعالیٰ کے بعد جن چیزوں سے محبت ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہو۔رسول اکرم ﷺ سے جیسی اور جتنی محبت مطلوب ہےوہ بھی اس لیے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔والدین،بیوی،بچوں،اعزہ و اقارب اور دوست احباب سے بھی جتنی جتنی محبت مطلوب ہے وہ بھی اس لیے ہو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے مال و دولت،گھر بار اور دوسری چیزوں سے بھی اتنی ہی محبت ہو جتنی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے ،گویا انسان کی تمام تر محبت کا اصل مرکز اور سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہونی چاہیے ۔نہ تو رسول اللہ ﷺ کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے بڑھ کر ہو نہ ماں ،باپ،بیوی،بچوں اور دیگر اعزہ و اقارب کی محبت اللہ کی محبت پر غالب آئے نہ مال و منال گھر بار جاہ منصب کی محبت اللہ کی محبت میں رکاوٹ بننے پائے۔ترجمہ: ور ایمان والوں کو تو الله ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 165)
ان احکام کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر احسانات اور انعامات کا بھی یہ تقاضاہے کہ دل و جان سے اللہ تعالیٰ سے مھبت کی جائے۔غور فرمائیے ! کہ وہ ذات جو اس قدر مہربان اور رحیم و کریم ہے کہ اس نے ہمیں دل ،دماغ اور آنکھوں جیسی نعمتوں سے نوازا،وہ ذات جس نے ہمارے درمیان حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا،وہ ذات جس نے ہمیں دین اسلام کی ہدایت دی،وہ ذات جس نے ہمیں بہترین اُمت بنایا ،وہ ذات جو ہماری مسلسل نافرمانیوں کے باوجود ہمیں دن رات روزی عطا فرماتی چلی جا رہی ہے ،وہ ذات جو ہمارے تمام چھوٹے اور بڑے،ظاہر اور پوشیدہ ،اگلے اور پچھلے گناہوں کا علم ہونے کے باوجود ہمیں اپنی لاتعداد نعمتوں سے نوازتی چلی جاتی ہے،وہ ذات جو رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں بھی دکھی دلوں کی پکار سنتی ہے اور ان کے دکھ کو دور کرتی ہے،وہ ذات جس نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے قیامت کے روز بندوں کو معاف کرنے کے لیے اپنے پاس رکھے ہیں،وہ ذات جس نے اپنے عرش پر یہ کلمہ ثبت فرما رکھا ہے
((ان رحمتی سبقت غضبی))
یقینا وہ ذات سب سے زیادہ اس بات کی حقدار ہے کہ اس کے بندے اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر محبت کریں۔ترجمہ"بے شک میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔"(بخاری)
کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب وسنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سےاقتباس