• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی آیات پر جھگڑا کرنے والے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کی آیات پر جھگڑا کرنے والے

اللہ رب العالمین قرآن عظیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
{الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ اَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍo} [مومن:۳۵]
''وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں، بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، بڑی ناراضی کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے۔ اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔''
اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرنے والے:1
یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو حق کو باطل کے ساتھ دور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاس کوئی دلیل موجود ہوئے بغیر وہ حق کے دلائل سے جھگڑا کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر ان سے سخت قسم کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے: کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ... یہ بات اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے نزدیک نہایت بغض و عناد اور ناراضگی والی ہے۔'' (یہ جملہ پیچھے بیان کردہ آیت میں گزر چکا ہے) یعنی جن لوگوں کی یہ صفت بد ہو ان سے اللہ عزوجل کے ساتھ ساتھ ایمان والے بھی بغض رکھا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی یہ صفت بد ہو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ اس کے بعد نیکی کو پہچان نہیں سکتے اور نہ ہی برے کام کی وہ تردید کیا کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ''اسی طرح سے اللہ رب العزت ہر جبر کرنے والے متکبر دل پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔'' یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ان قرآنی آیات سے جھگڑا نکالنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں اُسی طرح رب تعالیٰ ہر سرکش و متکبر دل پر مہر لگا دیتے ہیں حتیٰ کہ وہ سیدھی راہ کے لیے عقل کھوبیٹھتا ہے اور حق کو قبول نہیں کرتا۔ امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایسے جابر و سرکش قسم کے لوگوں کی نشانی اہل ایمان کا ناحق قتل ہوا کرتا ہے۔ (جیسے کہ تمام خارجی و رافضی فرقے ہیں) واللہ تعالیٰ اعلم۔
اور دوسرے مقام پر اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:
{اِِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ اَتَاہُمْ اِِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ اِِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِیہِ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo} [المومن:۵۶]
''بے شک وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں کسی دلیل کے بغیر جھگڑتے ہیں جو ان کے پاس آئی ہو، ان کے سینوں میںایک بڑائی کے سواکچھ نہیں، جس تک وہ ہر گز پہنچنے والے نہیں ہیں۔ سو اللہ کی پنا ہ مانگ۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے ۔ ''
یعنی یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑا نکالتے ہیں اور صحیح قرآنی دلائل کو فاسد شبہ کے ذریعے رد کرتے ہیں تو ان کے پاس اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی دلیل و برہان نہیں ہوتی۔ اِِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ اِِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِیہِ ... ان کے دلوں میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بڑائی و فخر کی ہوس سما گئی ہے۔ حالانکہ وہ اس تک پہنچ نہیں سکتے۔'' گویا ان کے دلوں میں حق پر چلنے کے ضمن میں تکبر ہی تکبر ہے اور ان لوگوں کے بارے میں حقارت کےجذبات کہ جو حق کو پیش کریں۔ حالانکہ حق کو نیچا دکھانے اور باطل کو بلند کرنے کے لیے جو وہ جدوجہد کرتے ہیں تو اس سے ان کو کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں۔ وہ اپنے قصد میں کبھی بھی نہیں پاسکیں گے۔ بلکہ حق ہی غالب آنے والا ہے ۔ ان کی بک بک اور برے عزائم رسوا ہوکر رہیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: تفسیر ابن کثیر جلد ۱، ص ۱۹۴، جلد ۴، ص ۱۱۹، جامع البیان للطبری۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۳۹ کی تفسیر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ لوگ کہ جو اہل ایمان سے ان کے دین کے بارے میں جھگڑا اور مخاصمہ کرتے ہیں۔ اللہ عزوجل کے بارے میں غلط سلط اور واہیات قسم کی باتیں کرتے ہیں ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَالَّذِیْنَ یُحَاجُّونَ فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِیبَ لَہٗ حُجَّتُہُمْ دَاحِضَۃٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌo} [الشوری:۱۶]
''اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کر لی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت سخت سزا ہے۔''
اور اللہ عزوجل کی ذاتِ اقدس کے بارے میں جھگڑا کرنے والے یہ لوگ یہودی اور نصرانی ملتوں کے ہیں جو اہل ایمان سے اس ضمن میں مخاصمہ کرتے ہیں اور انہیں ہدایت مستقیم سے روکتے ہوئے ان سے کہتے ہیں: ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں، اس لیے کہ ہم اس کے بیٹے اور اس کے محبوب لوگ ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ ہمارے آباؤ اجداد اور ہماری کتابیں تم لوگوں سے پہلے کی ہیں اور پھر یہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے یہ بھی کہتے ہیں: ہمارا دین (یہودیت و نصرانیت) تمہارے دین (اسلام) سے بہتر ہے۔ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے آئے تھے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے نازل ہوچکی ہے۔ ہم تم سے بہتر اور اللہ عزوجل کے بارے میں تم سے زیادہ اولیٰ ہیں۔ یہود و نصاریٰ اس لیے اپنے آپ کو اہل ایمان سے زیادہ افضل جانتے ہیں کہ وہ اہل کتاب ہیں اور بلاشبہ وہ نبیوں کی اولادیں ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں اور ان کے پیروکار جو اُس دین حنیف، اللہ کے دین، اسلام کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں کہ جسے دے کر دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا۔ اس طرح کے خبیث النفس لوگ اہل ایمان سے کہتے ہیں: ہمارا دین دینِ اسلام سے افضل ہے۔ ہمارے تمدن و تہذیب مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے بہتر ہے۔ ہماری شریعت اسلام کی شریعت سے زیادہ ماڈرن اور فوقیت والی ہے۔ ہمارا دین ہر زمانے سے مطابقت و مناسبت رکھنے والا ترقی یافتہ دین ہے۔ (جیسے آج کل یورپ کی حیاباختہ تہذیب و ثقافت سے ان کے دعویٰ کی دلیل موجود ہے) جبکہ اسلام (کے متعلق یہ اعداء اللہ کہتے ہیں کہ) کا زمانہ گزر گیا ہے۔ اب یہ دین جدید دور سے میل نہیں کھاتا اور نہ ہی شاید بعد والے ادوار کے لیے اب یہ کارآمد رہ گیا ہے۔
یہی وہ بدباطن مشرکین گمراہ لوگ ہیں جو اہل ایمان سے اس طرح کا جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم سے روک سکیں اور وہ اس بات کا طمع رکھتے ہیں کہ جاہلیت کا دور دوبارہ واپس پلٹ آئے۔
اللہ عزوجل نے ایسے تمام خبیث النفس قسم کے لوگوں کو دھمکی دی ہے کہ جو اہل اسلام کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ وہ ان ایمان والوں سے جھگڑا کرتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو دل و جان سے مانتے ہیں تاکہ وہ ان کو ہدایت والی راہ سے روک سکیں۔ چنانچہ پیچھے بیان کردہ آیات کریمہ میں اللہ عزوجل نے وضاحت سے بیان فرما دیا ہے کہ وہ ان سے بغض و عناد رکھتا ہے۔ اور یہ کہ اللہ عزوجل کے ہاں ان کی اس ضمن میں ہر دلیل باطل ہے۔ ان پر اللہ عزوجل کی طرف سے سخت قسم کا غضب ہے اور قیامت والے دن ان کے لیے انتہائی سخت عذاب ہوگا۔
اللہ تبارک نے درج ذیل فرمان میں اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ وہ ایسے تمام لوگوں کی وضاحت سے تردید فرمائیں۔ چنانچہ فرمایا:
{قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰہِ وَ ہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمْ وَ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَo} [البقرہ:۱۳۹]
''کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا رب اور تمھارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال۔ اور ہم اسی کے لیے اعمال خالص کرنے والے ہیں۔''
یعنی اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجیے جو یہ گمان باطل رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں اور وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے آباء و اجداد اور اپنی کتب کے تم سے پہلے ہونے کی وجہ سے وہ تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہیں: کیا تم لوگ اے یہود و نصاریٰ! (اور اُن کے چیلے چانٹو!) ہم سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو اور یہ گمان رکھتے ہو کہ تمہارا دین ہمارے دین سے افضل ہے؟ اور یہ گمان باطل رکھتے ہو کہ تم سیدھی راہ پر ہو اور ہم گمراہی پر ہیں۔ کیا تمہارے پاس اس کے لیے اللہ عزوجل کی طرف سے کوئی دلیل اور برہان ہے کہ جس کی بنا پر تم ہمیں اپنے دین کی دعوت دیتے ہو؟ اس پر اگر کوئی ایسی دلیل تمہارے پاس موجود ہے تو پیش کرو، ہم اُسے قبول کرتے ہوئے تمہاری اطاعت کرنے لگیں گے۔ (مگر ان کے پاس کہاں سے آئی۔ سوائے ہٹ دھرمی اور جاہلی عصبیت کے ان کے پاس ہے ہی کیا؟)
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: اے محمد! آپ ان سے کہہ دیں، اگر وہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ (ساداتنا) ابراہیم و اسماعیل، اسحاق و یعقوب اور اسباط یعقوب علیہم السلام یہودی یا نصرانی تھے؟ تو کیا اس بارے میں اور جس دین پر وہ تھے، اُس کے متعلق تم زیادہ علم رکھتے ہو یا اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ علم رکھتے ہیں؟ اپنے اس دعویٰ پر کہ جو تم نے کررکھا ہے کوئی دلیل پیش کرو۔ ہم تمہاری تصدیق کردیں گے۔ اللہ عزوجل نے تو اپنے ان جلیل القدر بندوں کو دنیا کے امام بنایا تھا کہ جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ان کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے خلیل ابراہیم اور ان کے بعد والے اللہ کی کتاب میں مذکور انبیاء کرام علیہم السلام اور اسباط یعقوب تو اپنی ملت پر تھے۔ اُن کا یہودیت و نصرانیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ تو سب بعد کی پیداوار تھیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo} [آل عمران:۶۷]
''ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرماں بردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔''
ایک اور مقام پر اللہ ذوالجلال نے انہیں شدید قسم کی دھمکی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ: بلاشبہ اس کا لامحدود علم ان کے محدود علم کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ ان کو اس پر نہایت برا بدلا ضرور دے گا۔ چنانچہ فرمایا:
{اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo} [البقرہ:۱۴۰]
''یا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی تھے یا عیسائی؟ کہہ دے کیا تم زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ؟ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے وہ شہادت چھپالی جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے تھی اور اللہ ہر گز اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔''
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات، انجیل وغیرھا) میں پڑھا کرتے تھے کہ: دین دراصل اسلام ہی ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ابراہیم و اسماعیل، اسحاق و یعقوب اور اسباط علیہم السلام یہودیت و نصرانیت سے بری تھے۔ انہوں نے اس بات پر اللہ کے لیے گواہی دی تھی اور انہوں نے اپنے آپ پر اللہ عزوجل کا اقرار کیا تھا۔ مگر انہوں نے اس گواہی سے اللہ کی گواہی کو اپنے آپ سے چھپالیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کرتے ہوئے مشرکین کے جھگڑے کا ازالہ کرنے کے لیے فرماتے ہیں: قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰہِ...؟ آپ ان یہود و نصاریٰ سے کہیے: کیا تم لوگ ہم سے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو؟'' یعنی تم ہمارے ساتھ اللہ کریم کی توحید اس کے لیے اخلاص، تسلیم و رضا، اس کے احکام کی اتباع اور اس کی نافرمانیوں کو ترک کرنے پر مناظرہ کرتے ہو؟
وَ ہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمْ ... حالانکہ وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں۔ اسی کی طرف اجر و انعام اور سزا نے لوٹنا ہے۔ اسی کی طرف سے اعمال پر بدلہ ملنا ہے۔ وہی رب کریم ہمارے اور تمہارے درمیان معاملات کو پھیرنے والا ہے اور الوہیت کو ایک اسی کی ذات اقدس کے لیے خالص کرنے کا صرف وہی ایک اللہ مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی ذات و صفات اور عبادت و ملکیت میں کوئی حصے دار ہے۔
وَ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ... ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہاری اعمال (جیسا کرو گے ویسا بھرو گے) ہم تم سے بری ہیں اور ان سے بھی کہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو (یعنی اس نظریہ شرک و خرافات سے) بعینہٖ تم ہم سے بری ہو۔
اور جہاں تک آیت کے آخری جملے: وَ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَo کا تعلق ہے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ: ہم ہر طرح کی عبادت و اطاعت ایک اللہ کے لیے خالص کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی ہم اس کے سوا کسی کی عبادت و پوجا کرتے ہیں۔ جیسا کہ بتوں کی پوجا کرنے والے مشرکین اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ساتھ بتوں اور مورتیوں، تصویروں کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ بچھڑے کی پوجا کرنے والے (ہندو، یہودی وغیرہم) بچھڑے کے ساتھ ساتھ اللہ کی بھی کبھی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ یہ اللہ عزوجل کی طرف سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے لیے پوری پوری ڈانٹ ہے اور اہل ایمان کے لیے پوری پوری دلیل پکڑنا ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ حوصلہ افزائی ہے کہ: ایمان والو تم ان یہود و نصاریٰ سے کہو کہ جنہوں نے تم سے کہا ہے: ''کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی تَھْتَدُوْا۔ یہودی یا نصرانی ہوجاؤ سیدھی راہ پاجاؤ گے۔'' کیا تم اس دین اسلام، اللہ کی شریعت کے بارے میں ہم سے جھگڑا نکالتے ہو کہ جس کے متعلق ہمیں اللہ رب العالمین نے حکم دیا ہے کہ ہم اُسے بطور دین و شریعت اختیار کریں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا اور تمہارا رب ایک ہی ہے کہ جو انصاف کرتا ہے، ظلم نہیں کرتا۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے ہر فریق کے لیے وہی کچھ ملنے والا جو اُس نے نیک اور برے اعمال میں سے کمایا ہوگا۔ اللہ عزوجل عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے یا تو اجر و انعام سے نوازے گا (کہ جس کا عقیدہ درست اور عمل صالح ہوں گے) یا پھر وہ ہر اس شخص کو سزا دے گا کہ جس کا عقیدہ خراب اور اعمال برے ہوں گے۔ ان دونوں باتوں کا انحصار نہ ہو تو حسب و نسب پر ہوگا اور نہ ہی کسی دین اور کتاب الٰہی کے پرانا اور مقدم ہونے پر۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top