یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تعریف و ثناء کرنے میں بندوں کی عاجزی دیکھی تو خود ازل میں اپنی مدح و تعریف کی کیونکہ اس کے بندوں کی پوری طاقت بھی اس کی تعریف سے عاجز ہے۔ کیا آپ نے سید المرسلین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھا کہ درج ذیل الفاظ میں کیسے عاجزی ظاہر کرتے ہیں:
((عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ، فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ"))1
’’اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے؛ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات بستر سے گم پایا۔ چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کیا۔ میرا ہاتھ ان کے قدم کے تلوے پر گیا اور آپ اس وقت حالت سجدہ میں تھے اور آپ نے دونوں پاؤں گاڑے (کھڑے کئے) ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے ’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا کی پناہ پکڑتا ہوں۔ تیری پکڑ سے تیری عفو و درگذر کی پناہ لیتا ہوں۔ مجھے تیری ثناء کرنے کی طاقت نہیں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی تعریف کی۔ ‘‘
یعنی میں گو تعریفات کرنے میں کوشش و محنت کروں لیکن پھر بھی تیری نعمتوں اور احسانوں کو میں شمار نہیں کر سکتا۔
أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ والے الفاظ میں تفصیلی ثناء کرنے سے عاجزی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہنے کا اظہار ہے، نیز مفصل کی بجائے تعریف کو خلاصہ کی طرف لوٹایا گیا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ ہر چیز کو گھیرنے والی ذات کے سپرد کر دیا گیا اور جیسے اس کے اوصاف کی انتہاء نہیں، ایسے ہی اس کی مدح کی بھی انتہاء نہیں کیونکہ تعریف صاحب مدح کے تابع ہے۔ جتنے اوصاف زیادہ قابل مدح ہوں گے تعریف میں اتنا ہی اضافہ اور مبالغہ ہو گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات تو سب سے بڑی اور اس کی بادشاہت سب سے بلند و بالا اور اس کی صفات سب سے اعلیٰ اور اس کی رحمتیں اور احسانات سب سے زیادہ وسیع ہیں۔
ازل میں ہی اپنی مدح کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ بندوں پر اللہ کے احسانات بہت زیادہ تھے اور چونکہ وہ اس کی واجبی تعریف سے عاجز تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ازل میں ہی ان کی طرف سے خود اپنی تعریف کی تاکہ بندوں کے نزدیک اس کی نعمتیں زیادہ خوشگوار ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے ذریعہ سے احسان کا بوجھ اتار دیا ہے۔
یہ قول بھی ہے: اپنی ستائش کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مدح اور ثناء کرنے کی تعلیم دی ہے گویا مذکورہ روایت کا معنی ہے اے بندو! تم کہو، الحمد للہ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الصلاۃ، باب: ما یقال في الرکوع والسجود، رقم: ۱۰۹۰۔