• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(("لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ" ))1
’’اللہ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر ظاہر و چھپی ہوئی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے تعریف کرنا کسی کو اتنا پسند نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اسی وجہ سے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی ہے۔ ‘‘
شرح…: رب کائنات کی تعریف کا مفہوم اس کی کامل صفات اور اعلیٰ اوصاف کے ساتھ ثناء کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی حمد کے ساتھ ثناء کی ہے اور اپنی کتاب مجید کی ابتدا اسی سے کی ہے فرمایا:
{أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} [الفاتحہ:۲]
’’ تمام قسم کی سب خاص تعریفیں، تمام جہانوں کو پالنے والے اللہ کے لیے ہیں۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب التوبۃ، باب: غیرۃ اللّٰہ تعالیٰ وتحریم الفواحش، رقم: ۶۹۹۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تعریف و ثناء کرنے میں بندوں کی عاجزی دیکھی تو خود ازل میں اپنی مدح و تعریف کی کیونکہ اس کے بندوں کی پوری طاقت بھی اس کی تعریف سے عاجز ہے۔ کیا آپ نے سید المرسلین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھا کہ درج ذیل الفاظ میں کیسے عاجزی ظاہر کرتے ہیں:
((عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ، فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ"))1
’’اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے؛ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات بستر سے گم پایا۔ چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کیا۔ میرا ہاتھ ان کے قدم کے تلوے پر گیا اور آپ اس وقت حالت سجدہ میں تھے اور آپ نے دونوں پاؤں گاڑے (کھڑے کئے) ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے ’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا کی پناہ پکڑتا ہوں۔ تیری پکڑ سے تیری عفو و درگذر کی پناہ لیتا ہوں۔ مجھے تیری ثناء کرنے کی طاقت نہیں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی تعریف کی۔ ‘‘
یعنی میں گو تعریفات کرنے میں کوشش و محنت کروں لیکن پھر بھی تیری نعمتوں اور احسانوں کو میں شمار نہیں کر سکتا۔
أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ والے الفاظ میں تفصیلی ثناء کرنے سے عاجزی اور اس کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہنے کا اظہار ہے، نیز مفصل کی بجائے تعریف کو خلاصہ کی طرف لوٹایا گیا ہے۔ چنانچہ یہ معاملہ ہر چیز کو گھیرنے والی ذات کے سپرد کر دیا گیا اور جیسے اس کے اوصاف کی انتہاء نہیں، ایسے ہی اس کی مدح کی بھی انتہاء نہیں کیونکہ تعریف صاحب مدح کے تابع ہے۔ جتنے اوصاف زیادہ قابل مدح ہوں گے تعریف میں اتنا ہی اضافہ اور مبالغہ ہو گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات تو سب سے بڑی اور اس کی بادشاہت سب سے بلند و بالا اور اس کی صفات سب سے اعلیٰ اور اس کی رحمتیں اور احسانات سب سے زیادہ وسیع ہیں۔
ازل میں ہی اپنی مدح کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ بندوں پر اللہ کے احسانات بہت زیادہ تھے اور چونکہ وہ اس کی واجبی تعریف سے عاجز تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ازل میں ہی ان کی طرف سے خود اپنی تعریف کی تاکہ بندوں کے نزدیک اس کی نعمتیں زیادہ خوشگوار ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے ذریعہ سے احسان کا بوجھ اتار دیا ہے۔
یہ قول بھی ہے: اپنی ستائش کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مدح اور ثناء کرنے کی تعلیم دی ہے گویا مذکورہ روایت کا معنی ہے اے بندو! تم کہو، الحمد للہ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الصلاۃ، باب: ما یقال في الرکوع والسجود، رقم: ۱۰۹۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ بات بھی کہی گئی ہے: الحمد للہ کہنے والے نے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور بلند صفات کے ذریعہ اس کی تعریف کی ہے۔ بندوں کی طرف سے مدح کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور جو اس کے شایان شان نہیں ان سے اس کی پاکی ظاہر کی جائے اور اس کی نعمتوں کے بدلہ میں ثناء بیان کی جائے تاکہ انہیں ثواب اور بدلہ مل سکے۔
اس میں بندوں کی ہی مصلحت ہے کیونکہ ثنا، رب تعالیٰ کی کرتے ہیں اور فائدہ انہیں ثواب کی صورت میں ملتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے پروا ہے۔ کسی کی مدح اس کو نفع نہیں پہنچا سکتی اور کسی کا ترک اسے نقصان نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد، تسبیح و تہلیل اور تکبیر اور دیگر اذکار میں ثناء بیان کرنے کی فضیلت پر زیادہ تنبیہ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور ثناء کرتے تھے۔1
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1- تفسیر قرطبی، ص: ۹۵؍۱۔ نووی شرح مسلم، ص: ۲۰۴؍۴، ص: ۷۷؍۱۷۔ فتح الباری، ص: ۴۰۰؍۱۳۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
تیری حمدوثناکرتےہیں۔۔۔۔ طائر اپنی بولی میں
کہ تُو ہی تُوکےگن گاتےہیں یہ سب چہچہانےمیں
میرےمولاتیراثانی نہیں۔۔ سارےزمانےمیں
تُو ہی قادرمطلق صدا۔۔۔۔۔اس کارخانےمیں
 
Top