• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت

سیّدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''غزوۂ خیبر'' والے دن فرمایا:
((لَأُعْطِیَنَّ ھَذِہِ الرَّأیَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔ قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ: أَیُّھُمْ یُعْطَاھَا؟ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَرْجُوْ أَنْ یُعْطَاھَا، فَقَالَ: أَیْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ؟ فَقِیْلَ ھُوَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ یَشْتَکِيْ عَیْنَیْہِ۔ قَالَ: فَأَرْسَلُوْا إِلَیْہِ۔ فَأُتِيَ بِہِ فَبَصَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي عَیْنَیْہِ وَدَعَا لَہُ فَبَرأ حَتَّی کَأَنْ لَمْ یَکُنْ بِہِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاہُ الرَّایَۃَ۔ فَقَالَ عَلِيٌّ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَقَاتِلُھُمْ حَتَّی یَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: أُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِہِمْ، ثُمَّ ادْعُھُمْ إِلَی الْاِسْلَامِ، وَاخْبِرْھُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْھِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ فِیْہِ، فَوَاللّٰہِ لَأَنْ یَھْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔))1
''کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔'' راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزرگئی کہ دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں۔ صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، اس امید کے ساتھ کہ جھنڈا اسے ہی ملے گا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ابوطالب کے بیٹے علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ: اے اللہ کے رسول! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انہیں بلا لاؤ۔'' جب وہ لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہوگئیں جیسے پہلے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ اور پھر نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا تھمادیا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھال کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا حتیٰ کہ وہ ہمارے جیسے (مسلمان) ہوجائیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یوں ہی چلے جاؤ حتیٰ کہ ان کے میدان میں اُتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ عزوجل کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔''
یہ تھے سیّدنا علی بن ابوطالب بن عبد المطلب بن ہاشم قریشی ہاشمی رضی اللہ عنہ ابوالحسن و الحسین رضی اللہ عنہما ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی۔ جناب علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پرورش و تربیت بچپن سے ہی نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ اور پھر جب جوان ہوگئے تو ان کی شادی اپنی لخت جگر سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی جناب علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور اپنی وفات حسرت آیات تک کبھی ان کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔ جب دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے تو آپ جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے راضی تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ بالجنہ میں ہوتا ہے۔ آپ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شوریٰ کے چھ ارکان میں سے ایک رکن تھے اور خلفائے راشدین میں سے ساداتنا ابوبکر و عمر اور عثمان بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ برحق تھے۔ رضی اللہ عنہم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري، في کتاب المغازي، باب : غزوۃ خیبر۔ ۴۲۱۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ تھے سیّدنا علی بن ابوطالب بن عبد المطلب بن ہاشم قریشی ہاشمی رضی اللہ عنہ ابوالحسن و الحسین رضی اللہ عنہما ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی۔ جناب علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پرورش و تربیت بچپن سے ہی نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ اور پھر جب جوان ہوگئے تو ان کی شادی اپنی لخت جگر سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی جناب علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور اپنی وفات حسرت آیات تک کبھی ان کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔ جب دنیا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے تھے تو آپ جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے راضی تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ بالجنہ میں ہوتا ہے۔ آپ امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شوریٰ کے چھ ارکان میں سے ایک رکن تھے اور خلفائے راشدین میں سے ساداتنا ابوبکر و عمر اور عثمان بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ برحق تھے۔ رضی اللہ عنہم
جناب علی رضی اللہ عنہ مرد بچوں میں سے پہلے فرد تھے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھتے رہے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دین حنیف لے کر آئے تھے اُس کی آپ نے مکمل تصدیق کی تھی۔ حالانکہ اُس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر دس سال تھی۔ بعض روایات میں دس سال سے زیادہ عمر بتلائی گئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ پر جو انعام و اکرام فرمایا تھا اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ اسلام سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کچھ دنوں تک مکہ میں رکے رہیں حتیٰ کہ وہ ساری امانتیں لوگوں تک پہنچا دیں جو لوگوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھی ہوئی تھیں ۔جناب علی رضی اللہ عنہ تین دن اور تین راتیں مکہ میں رکے رہے، حتیٰ کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام امانتیں ادا کریں اور پھر جب اس کام سے فارغ ہوگئے تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ منورہ میں آملے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور نہایت شاندار کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ اسی طرح آپ غزوۂ احد میں بھی شریک ہوئے اور کفار مکہ سے شدید قسم کی لڑائی کی تھی۔ آپ نے اس جنگ میں بہت سارے مشرکوں کو قتل کیا تھا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق میں بھی شریک ہوئے اور اُس دن آپ رضی اللہ عنہ نے عربوں کے شاہسوار کو قتل کیا تھا ۔اسی طرح عربوں کے بہت نامی گرامی بہادروں میں سے ایک بہادر عمرو العامری کو قتل کیا تھا۔ پھر آپ صلح حدیبیہ میں بھی شریک ہوئے اور بیعت رضوان میں بھی۔ آپ غزوۂ خیبر میں بھی شریک ہوئے اور اس جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ کے نہایت حیران کن کارنامے اور انتقامی مناظر تھے۔ اس جنگ میں آپ رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَأُعْطِیَنَّ ھَذِہِ الرَّأیَۃَ غَدًا رَجُلًا یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ۔))
''کل مدنی لشکر کا یہ جھنڈا میں ایک ایسے آدمی کو دُوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ خیبر فتح کردے گا۔ یہ وہ شخصیت ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس سے محبت کرتے ہیں۔''
ان قابل افتخار کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے سب سے زیادہ بہادر شہسوار مرحب کو قتل کیا تھا۔ جنابِ علی رضی اللہ عنہ عمرہ قضاء کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اے علی!
((أَنْتَ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْکَ۔))2
''تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔''
اسی طرح جناب علی رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ پھر غزوۂ حنین اور جنگ طائف میں بھی۔ ان تمام معرکوں میں جہاد و قتال کے ذریعے آپ رضی اللہ عنہ نے خوب دادِ شجاعت حاصل کی۔ پھر آپ نے مقام جعرانہ سے احرام باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرہ بھی کیا۔ اپنی حیات طیبہ کے سب سے آخری غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے مدینہ منورہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا نائب مقرر کرنا چاہتے ہیں؟ (یعنی آپ مجھے اپنا ساتھ جنگ میں کیوں نہیں لے جاتے کہ ایک بار پھر دادِ شجاعت دوں؟) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟))2
''اے علی! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے جناب موسیٰ کے لیے حضرت ہارون علیہم السلام تھے؟''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے صحیح البخاری / کتاب فضائل الصحابۃ / حدیث : ۳۷۰۱۔
2 دیکھئے: صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث : ۳۷۰۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوتراب اُس وقت رکھی تھی جب ایک بار آپ مسجد تشریف لائے تھے اور علی رضی اللہ عنہ کو مسجد میں سوئے پایا ۔ مٹی آپ رضی اللہ عنہ کی کمر سے چمٹی ہوئی تھی۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں یوں درج ہے:
((اَنَّ رَجُلًا جَائَ اِلٰی سَہِلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ: ھٰذَا فُلَانٌ، لِاَمِیْرِ الْمَدِیْنَۃِ، یَدْعُوْ عَلِیًّا عِنْدَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَیَقُوْلُ مَا ذَا ؟ قَالَ یَقُوْلُ لَہُ: اَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ وَقَالَ! وَاللّٰہِ مَا سَمَّاہُ اِلَّا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَا کَانَ لَہُ اسْمٌ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْہُ ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِیْثَ سَھْلًا، وَقُلْتُ: یَا اَبَا عَبَّاسٍ کَیْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ دَخَلَ عَلِيٌّ عَلٰی فَاطِمَۃَ ثُمَّ خَرَجَ فَاصْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم ! اَیْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ: فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ اِلَیْہِ ، فَوَجَدَ رِدَائَہُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَھْرِہِ وَخَلَصَ التُّرَابُ إِلیٰ ظَھْرِہِ فَجَعَلَ یَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَھْرِہِ فَیَقُوْلُ:إِجْلِسْ یَا أَبَا تُرَابٍ۔'' مَرَّتَیْنِ ۔))1
''ایک شخص جناب سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ مروان بن الحکم کی طرف تھا... برسر منبر جناب علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے۔'' ابوحازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: جناب سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: مروان بن حکم کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے بتایا کہ وہ آپ رضی اللہ عنہ کو ابوتراب کہتا ہے۔ یہ سن کر جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر (ابوحازم رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں نے اس حدیث کو جاننے کے لیے جنابِ سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ :ایک مرتبہ جناب علی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور پھر باہر آکر مسجد میں لیٹ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا: تمہارے چچا کے بیٹے (علی) کہاں ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ: مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گرگئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ''اٹھو! اے ابوتراباٹھو!'' ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح البخاری؍ کتاب فضائل اصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم؍ حدیث: ۳۷۰۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ''ابوتراب'' سے بڑھ کر کوئی اور کنیت زیادہ محبوب نہ تھی۔ جناب حذیفہ بن أسید الغفاری یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ۔))1
''جس کا میں مخلص دوست یا کسی غلام کو آزاد کرنے والا ہوا، اُس کا مخلص دوست یا غلام کو آزاد کرنے والا علی بھی ہوا۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملک یمن پر گورنر اور حاکم بنا کر روانہ فرمایا۔ آپ کے ہمراہ (بطور معاون و نائب) سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں آملے۔ مکہ پہنچ کر آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حج قران کا احرام باندھا اور اپنی قربانی کے جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی والے جانوروں کے ساتھ ہنکادیے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی قربانی کے جانوروں میں بھی شریک کرلیا اور پھر دونوں نے حج کے ارکان و مناسک ادا کرنے کے بعد قربانی کے جانور ذبح کیے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری مرض سے دوچار ہوگئے تو جناب عباس نے آپ رضی اللہ عنہما سے کہا: علی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت کا معاملہ کس کے ہاتھ میں رہے گا؟ مگر جناب علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز ایسا سوال نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس معاملہ سے منع فرمایا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان ہمیں کبھی بھی امر امت کا اختیار نہیں دیں گے۔
بڑی ہی صریح صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو اس ضمن میں وصیت بالکل نہیں فرمائی تھی اور نہ ہی آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے خلافت کی وصیت فرمائی تھی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر اس ضمن میں نہایت واضح اشاروں سے فرمایا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے اس بارے میں نہایت ہی واضح سمجھا جانے والا اشارہ فرمایا تھا ۔جہاں تک اس تہمت کا تعلق ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت فرمائی تھی، تو یہ صاف جھوٹ اور بہت بڑا صریح بہتان و افتراء ہے، جس سے ایک بہت بڑی خطا لازم آتی ہے۔ اور وہ ہے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر خیانت اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے نفاذ کو ترک کردینے پر ان کا آپس میں ایک دوسرے کی مدد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ / حدیث : ۳۷۱۳، صححہ الالبانی رحمہ اللہ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کرنا اور اس وصیت کا اس شخص کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کی طرف پھیردینے کا الزام کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو (نعوذ باللہ) کسی دوسرے شخص کی طرف پھیر دیا تھا۔ یہ تہمت اور افتراء و بہتان نہ ہی معناً درست ہے اور نہ ہی کسی سبب کی وجہ سے۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا ہر مومن، مسلمان آدمی اس بات کی تحقیق رکھتا ہے کہ: دین اسلام ہی حق ہے اور وہ اس افتراء و بہتان کے باطل ہونے کو بھی خوب جانتا ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام مخلوق سے افضل ترین اور بہتر لوگ تھے ۔وہ اس امت محمدیہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے تمام زمانوں میں سے بھی بہترین زمانہ کے لوگ تھے۔ یعنی وہ امت مسلمہ کہ جو نص قرآن کے مطابق تمام امتوں سے اشرف و مکرم امت ہے۔ اور سلف و خلف آئمہ عظام و علماء کرام رحمہم اللہ جمیعاً کے اجماع کے موجب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا و آخرت کی سب سے معزز و معظم امت کے لوگ تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان اصحاب اشراف میں شامل تھے کہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، کفن پہنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کا فریضہ سر انجام دیا۔ پھر جب سقیفہ بنی ساعدہ والے دن سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و ارضاہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی جانے لگی تو جنابِ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ ان اصحاب میں شامل تھے جنہوں نے مسجد نبوی میں خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلافصل سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس موقع پر سیّدنا علی جناب ابوبکر رضی اللہ عنہما کے سامنے دیگر امراء صحابہ کرام کی طرح تھے کہ جو اپنے آپ پر خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو واجب جانتے تھے۔ یہ اطاعت اُن کے نزدیک سب سے محبوب چیز تھی اور پھر جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ حزین کے چھ ماہ بعد سیّدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو سیّدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ وارضاہ نے خلیفۂ اوّل بلافصل سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و ارضاہ کے ہاتھ پر اس بیعت کی تجدید فرمائی۔ (تاکہ کسی کو آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں شک نہ رہے۔) جب سیّدنا ابوبکر بن ابوقحافہ فوت ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہم خلیفۂ ثانی بنا دیے گئے تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے پیش پیش اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل تھے کہ جنہوں نے جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ وارضاہ کے ہاتھ پر بیعتِ اطاعت کی تھی۔ خلیفۂ راشد الثانی سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم ہمیشہ امت کے اہم ترین امور کے بارے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مشاورت کرتے تھے۔ اور پھر جب سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وارضاہ کو زخمی کردیا گیا، اُمت کے امر قیادت کو چھ اصحاب کے سپرد کردیا گیا کہ جن میں سے ایک جناب علی رضی اللہ عنہ تھے، پھر ان چھ میں سے صرف عثمان و علی رضی اللہ عنہما باقی رہ گئے تو سیّدنا عثمان کو جنابِ علی رضی اللہ عنہما پر مقدم کردیا گیا۔ تب اللہ کے شیر علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ وارضاہ نے حکم کے سن لینے اور مکمل طور پر اطاعت کرنے کا راستہ اپنایا۔ (آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہی اللہ عزوجل کی رضا اور فلاح دارین کا بہترین راستہ تھا۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور جب خلیفۂ ثالث الراشد سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۳۵ ہجری کے ذوالحجہ کی ۱۸ تاریخ جمعہ والے دن شہید کردیے گئے تو اہل ایمان و اسلام سیّدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع ہوئے اور انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کے لیے بیعت کرلی۔ پہلے تو آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے آپ کو خلیفہ منتخب کرکے بیعت کرنے والے عمل سے انکار کردیا۔ جب لوگوں کا تکرار بڑھا کہ آپ ہی اب ہمارے امیر المومنین ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ بنی عمرو بن مبذول کی دیوار (قلعہ نما حویلی) کی طرف دوڑ پڑے اور اندر داخل ہوکر دروازہ بند کرلیا۔ مگر یہ ہے کہ لوگ وہاں بھی پہنچ گئے اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے۔ اہل ایمان و اسلام اپنے ہمراہ ساداتنا طلحہ اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو بھی لے آئے تھے۔ وہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے عرض گزار ہوئے کہ: دیکھیے امت اسلامیہ کا معاملہ کسی امیر المسلمین کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ یہ بات وہ بار بار دہراتے رہے حتیٰ کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی بات قبول کرلی۔
امیر المؤمنین سیّدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے نظام خلافت و امارت کو سنبھالتے ہی بے شمار معاملات آپ پر مکدر ہوگئے۔ حتیٰ کہ خوارج نے آپ رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے بھر پور جنگ کی۔ اس طرح آپ کا لشکر بھی آپ کے معاملے میں مضطرب ہوگیا۔ عراقیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی شدید مخالفت کی اور آپ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ جبکہ اس وقت ان کے امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی بھی شخص روئے زمین پر بہتر نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس دور کے تمام اہل ایمان مسلمانوں میں سب سے زیادہ اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والے، سب سے زیادہ پرہیزگار شخصیت، سب سے زیادہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے اور اللہ رب العزت سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔ مگر ان سب صفات عالیہ کے باوجود عراقیوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کرکے آپ کو رسوا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ اور پھر ایک دن جب فجر کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کوفہ کی جامع مسجد میں داخل ہوئے اور لوگوں کو نماز کے لیے جگانے لگے تو اسی دوران ابن ملجم عبد الرحمن بن عمرو الحمیری نے آپ رضی اللہ عنہ کے سر پر تلوار کا وار کیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی مبارک پر آپ کا خون بہنے لگا۔ آپ کو اُٹھا کر آپ کے گھر پہنچا دیا گیا۔ جب امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا تو آپ رضی اللہ عنہ کی زبان پر کثرت سے ''لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ'' نکلنے لگا۔ اس کلمہ مبارکہ کے علاوہ کوئی اور بات آپ کی زبان سے نہیں نکل رہی تھی۔
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ۴۰ ہجری کے ماہ رمضان المبارک میں اپنے خالق و مالک رب سے جاملے {فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} اس وقت آپ رضی اللہ عنہ و ارضاہ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔ آپ کی خلافت کا دورانیہ چار سال ۹ ماہ تھا۔ آپ کے غسل اور تجہیز و تکفین کا فریضہ آپ کے دونوں صاحبزادے ساداتنا حسن و حسین اور جناب عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے سرانجام دیا تھا۔ جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کو کوفہ میں ہی دفن کیا گیا۔ مگر خوارج کے ڈر کی وجہ سے کہ وہ کہیںآپ کے جثہ مبارک کو قبر سے نکال کر بے حرمتی نہ کریں، آپ کی قبر کو کسی پوشیدہ مقام پر بنایا گیا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔(اس موضوع پر تفصیل: ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند اور ناپسند'' میں ملاحظہ کیجیے۔)

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top