- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ تعالیٰ کی شرابی سے ناراضگی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ یَرْضَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً، فَإِنْ مَاتَ مَاتَ کَافِرًا، وَإِنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَإِنْ عَادَ کَانَ حَقًّا عَلیَ اللّٰہِ أَنْ یَسْقِیَہُ مِنْ طِیْنَۃِ الْخَبَالِ۔)) قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا طِیْنَۃُ الْخَبَالِ؟ قَالَ: ((صَدِیْدُ أَھْلِ النَّارِ۔ ))1
'' جس نے شراب پی ،اللہ تعالیٰ اس سے چالیس راتیں راضی نہیں ہوتا ۔اگر وہ (اسی حالت میں) مرگیا تو کفر کی موت مرا اور اگر توبہ کرلی تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اگر دوبارہ یہ حرکت کی (شراب پی) تو اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اسے طینۃ الخبال سے پلائے۔ سیّدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! طینۃ الخبال کیا چیز ہے؟ فرمایا: جہنمیوں کی پیپ ہے۔ ''
شرح...: الخمر خَمَرَ سے ماخوذ ہے بمعنی چھپانا، اسی سے خِمَارُ الْمَرَأۃِ ہے۔ عورت کا دوپٹہ (یعنی سر چھپانے والا کپڑا) چنانچہ کوئی چیز جب کسی کو ڈھانپ لے تو کہتے ہیں خَمَرَہٗ۔
(۱)...نشہ کو خمر اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ عقل کو ڈھانپ لیتا ہے۔
(۲)...بعض کہتے ہیں کہ یہ اِخْتَمَرَّ الْعَجِیْنُ سے ماخوذ ہے۔ یعنی جب آٹا خمیرہ حالت میں ہو جائے تو یہ جملہ بولتے ہیں ۔نشے کو خمر اسی لیے کہا گیا ہے کہ پکنے تک اسے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اسی طرح جب کسی رائے کو ترجیح مل جائے اور اس کا فیصلہ ہوجائے (یعنی پک جائے) تو خمرا لرأی کہا جاتا ہے۔
(۳)... بعض کے نزدیک اس لیے خمر کہتے ہیں کہ یہ عقل سے خلط ملط ہوجاتا ہے۔ یعنی مخامرہ بمعنی مخالطہ سے ماخوذ مانتے ہیں۔ چنانچہ مقولہ ہے: دَخَلْتُ فِیْ خِمَارِ النَّاسِ میں لوگوں سے مل گیا۔
تینوں معانی قریب قریب ہیں۔ یعنی نشے کو پکنے تک چھوڑ دیا گیا پھر وہ عقل سے خلط ملط ہوکر اسے ڈھانپ لیتا ہے۔ انگور کے پکائے گئے پانی کو خمر کہتے ہیں اور جو بھی چیز عقل کو ماؤف کردے وہ بھی اس کے حکم میں ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- مسند أحمد، :۶؍۴۶۰ ، رقم: ۲۷۴۷۵، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ حسن۔