• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی مبغوض ترین مخلوق … خوارج

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام عبید اللہ بن ابی رافع بیان کرتے ہیں کہ:
(( أَنَّ الْحَرُوْرِیَّۃَ لَمَّا خَرَجَتْ وَھُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ قَالُوْا: لَا حُکْمَ
إِلاَّ لِلّٰہِ۔ قَالَ عَلِيُّ: کَلِمَۃُ حَقٍّ أُرِیْدُ بِھَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَفَ نَاسًّا إِنِّيْ لَأَعْرِفُ صِفْتَھُمْ فِيْ ھٰؤُلَائِ، یَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِھِمْ لَا یَجُوْزُ ھٰذَا مِنْھُمْ ــ وَأَشَارَ إِلیٰ حَلْقِہِ ــ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْہِ
۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الزکاۃ، باب: التحریض علی قتل الخوارج، رقم: ۲۴۶۸۔​
ترجمہ:
’’ حروریہ جب نکلے اور میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حروریہ نے کہا: لا حکم الا للہ (یعنی اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کلمہ حق ہے مگر ان کا ارادہ باطل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کے وصف بیان کیے تھے، یقینا میں ان میں ان کی صفات کو بخوبی پہچانتا ہوں اپنی زبانوں سے حق کہیں گے مگر حق اس جگہ سے تجاوز نہیں کرے گا اور اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا (یعنی حلق سے تجاوز نہیں کرے گا) اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے ہاں یہی ہیں۔‘‘
شرح …:
خوارج جمع ہے خارجۃ کی بمعنی گروہ، مراد وہ بدعی قوم ہے جن کو دین سے اور مسلمانوں کی جماعت اور امرائے اسلام کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا۔
ان کی اصلی بدعت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف تھی پھر یہ عقیدہ بنا لیا کہ جن لوگوں کے عقائد ہمارے جیسے نہیں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ان کے مال و دولت اور گھر والے حلال ہیں۔ چنانچہ بالفعل ایسا کام کیا اور جو مسلمان ان کے پاس سے گزرتے انہیں بے دریغ قتل کرتے رہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقرر کردہ اس علاقہ کے گورنر عبد اللہ بن خباب بن ارت اپنی حاملہ لونڈی کے ساتھ ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے عبد اللہ کو قتل کردیا اور لونڈی کا پیٹ پھاڑ دیا بچہ اور ماں دونوں ہی مرگئے چنانچہ یہ بات حضرت علی کو پہنچی تو لشکر لے کر نہروان کے مقام پر ان کو جا پکڑا۔
مسلمانوں کے قریباً دس آدمی شہید ہوئے اور خارجیوں کے دس سے کم آدمی باقی بچے۔
خوارج علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں روپوش رہے اور اپنی قوت جمع کرتے رہے حتیٰ کہ ان کا ساتھی عبد الرحمان بن ملجم، جس نے علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، وہ صبح کی نماز میں مسجد میں ہی تھا مگر کسی کو پہچان نہ ہوسکی اور جب حضرت معاویہ اور حضرت حسن کی صلح ہوئی تو ایک گروہ نے پھر سر اٹھایا۔ چنانچہ ’’ نجیلہ ‘‘ کے مقام پر شامی لشکر نے جنگ کرکے انہیں پھر روپوش ہونے پر مجبور کردیا۔
جب تک معاوی رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کی حکومت رہی اور عراق کا گورنر زیاد اور اس کا بیٹا عبید اللہ رہا
تو اس وقت تک چھپے رہے، اسی دوران زیاد اور اس کے بیٹے نے خارجیوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا اور انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور لمبی لمبی قیدیں سنائیں۔
یزید کی وفات کے بعد اختلاف ہوا اور خلافت کی زمام عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہاتھ آئی چنانچہ بعض شامیوں کے علاوہ باقی سب شہروں نے ان کی اطاعت کو قبول کیا لیکن مروان نے حملہ کرکے شام کا پورا علاقہ مصر تک فتح کرلیا۔ اسی اثناء میں عراق میں خارجی نافع بن ازرق اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
نجدہ نے خارجیوں کے عقائد میں اس عقیدے کا اضافہ کردیا کہ اگرچہ کوئی انسان ہمارے عقائد کا حامل ہو مگر وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیتا تو وہ کافر ہے نیز چور کا ہاتھ بغل تک کاٹا جائے گا، حیض کے دنوں کی رہی ہوئی نمازیں عورت کو بعد میں پڑھنا ہوں گی اور انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قادر ہونے کے باوجود نہیں کرتا تو وہ کافر ہے اور جو قدرت نہیں رکھتا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔ ان کے نزدیک کبیرہ کا مرتکب بھی کافر ہی ہے۔
ان لوگوں نے ذمیوں کے مال و دولت کو اور مشرکین سے قتال کو چھوڑ دیا اور جو لوگ اسلام کی طرف نسبت رکھتے تھے ان سے لڑنا اور جھگڑنا شروع کردیا، ان کو قتل کرنا، قیدی بنانا اور مال لوٹنا درست قرار دیا۔ خارجیوں پر کڑے وقت آتے رہے حتیٰ کہ مہلب بن ابی صفرہ کو ان کے خلاف لشکر دے کر بھیجا گیا، مقابلہ ہوا اور خارجیوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کی تعداد آٹے میں نمک کی طرح رہ گئی لیکن بعد میں یہ لوگ پھر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوگئے اور خارجیوں سے کئی فرقوں نے جنم لیا۔ چنانچہ ابن حزم l کا بیان ہے:
ان کے سردار نجدہ بن عامر کے عقائد حسب ذیل تھے:
(۱) جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے آگ کے علاوہ کوئی اور سزا دی جائے گی
(۲) جس نے چھوٹے گناہ پر ہمیشگی کی تو اس کی سزا کبیرہ گناہ والے کی طرح ہمیشہ آگ میں رہنا ہے اور بعض خارجی تو اپنے فاسد عقائد میں اتنے بڑھ گئے کہ نمازوں کا انکار کر بیٹھے، صرف صبح اور شام کی نماز پڑھنے کے قائل رہے، بعض خارجیوں نے اپنی پوتی، بھتیجی اور بہن سے نکاح تک جائز قرار دیا۔ بعض نے قرآنی سورت یوسف کا انکار کردیا اور ان کے ہاں جس نے زبان سے لا الہ الا اللہ کہا خواہ وہ دل سے کفریہ عقائد رکھتا ہو تو وہ اللہ کے ہاں مومن شمار ہوگا۔
فتح الباری ص ۲۸۳۔ ۲۸۶، ۱۲/ نووی شرح مسلم ص ۱۶۹۔۱۷۰، ۷۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں خارجیوں کا تذکرہ کیا چنانچہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک آدمی دھنسی ہوئی آنکھوں والا، پھولے رخساروں والا، بلند پیشانی، گھنی داڑھی والا اور سر مونڈا ہوا، آیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے ڈرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ بَعَثَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِذُہَیْبَۃٍ فَقَسَمَہَا بَیْنَ الْأَرْبَعَۃِ الْأَقْرَعِ ابْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِیِّ وَعُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیِّ وَزَیْدٍ الطَّائِیِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِی نَبْہَانَ وَعَلْقَمَۃَ بْنِ عُلَاثَۃَ الْعَامِرِیِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِی کِلَابٍ فَغَضِبَتْ قُرَیْشٌ وَالْأَنْصَارُ قَالُوا یُعْطِی صَنَادِیدَ أَہْلِ نَجْدٍ وَیَدَعُنَا قَالَ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُہُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاتِیُٔ الْجَبِینِ کَثُّ اللِّحْیَۃِ مَحْلُوقٌ فَقَالَ اتَّقِ اللَّہَ یَا مُحَمَّدُ فَقَالَ مَنْ یُطِعِ اللَّہَ إِذَا عَصَیْتُ أَیَأْمَنُنِیَ اللَّہُ عَلَی أَہْلِ الْأَرْضِ فَلَا تَأْمَنُونِی فَسَأَلَہُ رَجُلٌ قَتْلَہُ أَحْسِبُہُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ فَمَنَعَہُ فَلَمَّا وَلَّی قَالَ إِنَّ مِنْ ضِئْضِیئِ ہَذَا أَوْ فِی عَقِبِ ہَذَا قَوْمٌ یَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ مُرُوقَ السَّہْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ یَقْتُلُونَ أَہْلَ الاسْلَامِ وَیَدَعُونَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب الأنبیاء، باب: قول اللّٰہ تعالیٰ: {وَإِلیٰ عَادٍ أَخَاہُمْ ہُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ}، رقم: ۳۳۴۴۔​
’’ ابوسعیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ملک یمن سے) بھیجا۔ آپ نے اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا۔ کچھ اقرع بن حابس کچھ عیینہ بن بدر کچھ زید طائی کچھ بنی نبھان اور علقمہ بن علاثہ کو دیا۔ اور پھر بنی کلاب کے ایک آدمی کو دیا تو قریش اور انصار غصے میں آگئے۔ انہوں نے کہا آپ اہل نجد کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تالیف قلب کے لیے ایسا کر رہا ہوں۔ تو ایک دھنسی ہوئی آنکھوں، پھولے ہوئے رخساروں، بلند پیشانی گھنی داڑھی اور مونڈے ہوئے سر والا آدمی آیا اور کہنے لگا ’’اے محمد! اللہ سے ڈرو‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہی اس کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے زمین والوں پر امانت دار سمجھ کر بھیجا مگر تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ یہ بات سن کر ایک صحابی نے (میرا خیال ہے کہ وہ خالد بن ولید تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو قتل کرنے کی اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا۔ چنانچہ جب وہ چلا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو ظاہر میں قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کے پجاریوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے ان کا زمانہ پایا تو جیسے قوم عاد والے ہلاک کیے گئے (کوئی نہ بچا) اسی طرح میں ان کو قتل کروں گا (کسی کو نہیں چھوڑوں گا)۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ اس آدمی کی نسل سے خارجی لوگ نکلیں گے جو خلفاء کے باغی، مسلمانوں کے قاتل اور مشرکین کو چھوڑ دینے والے ہوں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی اس لیے ایسے ہی ہوا۔ مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ لوگ نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوم عاد کی طرح ان کی جڑیں اکھیڑ دیتے۔
ان کے قتل میں ثواب ملتا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( یَأْتِی فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَائُ الْأَسْنَانِ سُفَہَائُ الْأَحْلَامِ یَقُولُونَ مِنْ خَیْرِ قَوْلِ الْبَرِیَّۃِ یَمْرُقُونَ مِنَ الْاسْلَامِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ لَا یُجَاوِزُ إِیمَانُہُمْ حَنَاجِرَہُمْ فَأَیْنَمَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ فَإِنَّ قَتْلَہُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب المناقب، باب: علامات النبوۃ في الإسلام، رقم: ۳۶۱۱۔​
ترجمہ:
’’ آخر زمانہ میں نو عمر قوم آئے گی، بیوقوف ہوں گے، بات تو وہ کہیں گے جو ساری مخلوق سے بہتر ہوگی لیکن وہ دین اسلام سے اس طرح صاف نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے، (اس پر کچھ نہیں لگا رہتا) ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ چنانچہ جہاں تم انہیں پاؤ تو قتل کر ڈالو (کیونکہ) جنہوں نے ان کو قتل کیا ان کے لیے قیامت کے روز اجر ہے۔ ‘‘
ان کی دیگر علامات میں یہ بھی ہے کہ نماز، روزہ اور تلاوت قرآن اور دیگر نیک اعمال میں مبالغہ سے کام لیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَخْرُجُ فِیکُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِہِمْ وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ وَعَمَلَکُمْ مَعَ عَمَلِہِمْ وَیَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ وَیَنْظُرُ فِی الْقِدْحِ فَلَا یَرٰی شَیْئًا وَیَنْظُرُ فِی الرِّیْشِ فَـلَا یَرٰی شَیْئًا وَیَتَمارٰی فِی الْفُوْقُ۔))
أخرجہ البخاري في کتاب فضائل القرآن، باب: إچم من راء ی بقرائۃ القرآن، أو تأکل بہ، أو فجر بہ، رقم: ۵۰۵۸۔​
’’ تم میں ایسی قوم نکلے گی کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ میں اور روزہ ان کے روزہ کی نسبت اور اعمال ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے، قرآن کی تلاوت کریں گے (لیکن) قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے صاف نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے پار ہوجاتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ کہ تیر چلانے والا تیر کے پھل کو دیکھتا ہے تو اس میں بھی شکار کے خون وغیرہ کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اگر اس کے اوپر دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ تیر کے پر کو دیکھتا ہے تو بھی وہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ بس سوفار میں کجھ شبہ گزرتا ہے۔‘‘ (تیر کا وہ حصہ جہاں چلہ لگایا جاتا ہے اسے سوفار کہتے ہیں۔)
جہاں بھی تم انہیں پاؤ تو قتل کر ڈالو (کیونکہ) ان کے قاتل کے لیے قیامت کے دن ثواب ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس حکم سے خوارج اور باغیوں کے قتل کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہی علماء کا اجماع ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
علماء کا اجماع ہے کہ خارجی یا ان کی مثل کوئی بدعتی، جب بھی خلیفہ کے خلاف بغاوت کرے اور جماعت کی مخالفت کرے اور اتحاد کی لاٹھی توڑ دے تو ان کو ڈرانے اور دھمکانے کے بعد قتل کرنا واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ إِِلٰی أَمْرِ اللّٰہِط} [الحجرات:۹]
’’ تو اس جماعت سے لڑو جو باغی ہے حتیٰ کہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ ‘‘
ہاں یہ بات بھی ہے کہ ان کے زخمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی شکست کھا کر بھاگنے والوں کا پیچھا کیا جائے گا، ان کے قیدیوں کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے اموال بھی جائز نہیں اور جو لوگ اطاعت سے نہ نکلیں اور نہ ہی لڑائی کے لیے کھڑے ہوں تو انہیں محض وعظ و نصیحت کی جائے گی اور باطل عقائد اور بدعتوں سے رجوع کرنے کی تلقین کی جائے گی۔
یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک بدعت کی وجہ سے کافر نہیں ہوجاتے چنانچہ جب دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے تو ان کا حکم مرتد والا ہوجائے گا۔
بشکریہ : اردو مجلس​
 
Top